Tuesday, September 29, 2015

حج وعمرہ کا احرام اور دو رکعت نماز

حج وعمرہ کا احرام اور دو رکعت نماز
===============

حج وعمرہ کے احرام کے موقع پر پاک وہند میں عام طور پر دو رکعت نماز کی ادائیگی کو مسنون اور منجملہ مناسک سمجھا جاتا ہے۔ تحقیق کی رو سے خاص طور پر احرام سے متعلق اِس طرح کی کوئی نماز شریعت میں مقرر کی گئی ہے،نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد یا آپ کے اُسوہ سے اس طرح کا کوئی عمل ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اِس کی اصلاح کرلینی چاہیے۔ آدمی اگر چاہے تو بغیر کسی نماز کے حج یا عمرہ کی نیت کر کے حالتِ احرام میں داخل ہوجائے۔ اور وہ چاہے تو اُس موقع پر اگر کسی فرض نماز کا وقت ہو تو اُس سے فارغ ہوکر تلبیہ کا آغاز کرلے ؛ جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے (مسلم ، رقم : ۱۲۱۸)۔ تاہم حدیث وسنت کی رو سے خاص اِس موقع کی کوئی نماز شریعتِ مناسک کی حیثیت سے پیش نہیں کیا جاسکتی۔

مواد منقول 
مکمل تحریر >>

Monday, September 28, 2015

قبر پر پودا یا کھجور کی ٹہنی لگانا

قبر پر پودا یا کھجور کی ٹہنی لگانا

شیخ عبد العزیز بن باز  فرماتے ہیں : ” قبروں پر درخت یا ٹہنی لگانا، یا ان پر گیہوں یا جو وغیرہ بونا مشروع نہیں ہے، اس لیے کہ یہ کام نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور نہ خلفائے راشدین  نے ،اور وہ حدیث جس میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر ٹہنی لگائی، وہ اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمادیا تھا کہ یہ دونوں عذابِ قبر میں مبتلا ہیں، چنانچہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ان دونوں قبروں کے ساتھ خاص ہے، اس لیے کہ آپ ا نے ان دونوں قبروں کے علاوہ اور کسی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں فرمایا، تومسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی اےسی بدعت کو نہ شروع کریں جسے اﷲ عز وجل نے مشروع نہیں کیا ہے “۔
  [ فتاویٰ اسلامیة : 2/52 ۔احکام الجنائز للالبانی :3 25 ]


مکمل تحریر >>

Saturday, September 19, 2015

قربانی کے جانور کی عمر

قربانی کے جانور کی عمر

مقبول احمد سلفی
قربانی کے لئے دو دانتا جانور ہونا چاہئے ،دو دانت والا جانور اگر قربانی کے لیے نہ ملے تو پھر بھیڑ کی جنس سے ایک سالہ جانور بھی قربان کیا جاسکتا ہے ۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تذبحوا الا مسنۃ الا ان یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضان’’
تم قربانی میں محض مسنہ (دو دانت والا جانور) ہی ذبح کرو، اگر (دو دانت والا جانور ملنا) تمہارے لیے مشکل ہو جائے تو ضأن (بھیڑ، چھترا، دنبہ) ایک سالہ ذبح کرلو۔‘‘ (صحیح مسلم ح1963)

مسنہ کی وضاحت:
لفظ ’’مسنہ‘‘ سے کچھ لوگوں کو یہ دھوکہ ہوا کہ قربانی کا جانور ایک سال کا ہونا چاہئے ،مسنہ کا یہ معنی بھی آتا ہے مگر اس کا اطلاق انسان پر ہوتا ہے ۔
مسنہ کا استعمال جب جانور کے لئے کیا جائے تو اس کا معنی ہوگاوہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ کر دوسرا دانت نکل جائے۔
(المصباح المنیر 292/1، لسان العرب 222/13)

مسنہ کے متعلق امام نووّی مُسنہ کی تو ضیح میں فرماتے ہیں:
’’ مُسنہ اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکری میں سے دو دانتا یا اس سے بڑی عمر کا ہونا چاہیے(شرح النووی:۱۱۷/۱۳)
اور امام شوکانیؒ فرماتے ہیں کہ علماء کہتے ہیں:
"قال العلماء المنسۃ ھی الثنیۃ من کل شیء من الإبل والبقر والغنم فما فوقھا"
ترجمہ؛ مُسنہ اونٹ،گائے،بھیڑ اور بکری میں سے دو دانتا یا اس سے بڑی عمر کا جانور ہوتا ہے ۔(نیل الاوطار:201/5)

جذعہ کی وضاحت:
بھیڑ کی جنس (دنبہ ، بھیڑ، چھترا) صحیح ترین قول کے مطابق جب ایک سال مکمل کر لے تو جذعہ کہلاتی ہے۔
(لسان العرب 44,45/8، القاموس المحیط 915/1)
حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ جذعہ کی عمر کے بارے میں رقمطراز ہیں :
جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ میں سے جذعہ وہ ہے جس نے اپنی عمر کا ایک سال مکمل کرلیا ہو .(فتح الباری 510)


مکمل تحریر >>

Friday, September 18, 2015

قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں کے لئے

قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں کے لئے
=============
جو قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور قربانی کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہو تو وہ عید الأضحى کے دن اپنےبال اور ناخن کاٹ لے تو اسے قربانی کا ثواب مل جائے گا , خواہ اس نے سات یا آٹھ ذوالحجہ کو بھی بال ناخن وغیرہ کاٹے ہوں ۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيُّ عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ قَالَ الرَّجُلُ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا أُضْحِيَّةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا قَالَ لَا وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
سنن أبی داود کتاب الضحایا باب ما جاء فی ایجاب الأضاحی ح ۲۷۸۹
٭ اس روایت کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے مگر کئی اصحاب علم نے اس کی توثیق کی ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی نے اس کی تحیسن کی ہے ۔
شعيب الأرناؤوط نے " الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان" (13/136) میں اس کی سند کو صحیح بتلایا ہے ۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابن حبان کی تصحیح نقل کی ہے ۔
اور بھی اہل علم نے اس کی توثیق کی ہے ۔

نوٹ : جو قربانی کی طاقت رکھتاہو وہ قربانی کرے ۔
واللہ اعلم
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

Thursday, September 17, 2015

جن وشیاطین اتارنے کے شرعی طریقے

جن وشیاطین اتارنے کے شرعی طریقے 
======================
(1)
مریض پر قرآن کی سب سے عظیم سورت فاتحہ بار بار پڑھی جائے تو جادو زائل ہوجائے گا اور مریض اللہ تعالی کے حکم سے شفایاب ہوگا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ ایک صحابی نے مسحور پر سورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کیا تو ٹھیک ہوگیا۔(السلسلة الصحيحة – 2027)
(2) قرآنی آیات کے ذریعہ :
٭{وأوحينا إلى موسى أن ألق عصاك فإذا هي تلقف ما يأفكون فوقع الحق وبطل ما كانوا يعملون فغلبوا هنالك وانقلبوا صاغرين} الاعراف117۔119
٭{ وقال فرعون ائتوني بکل ساحر عليم فلما جاء السحرة قال لهم القوا ما انتم ملقون فلما القوا قال موسى ما جئتم به السحر ان الله سيبطله ان الله لا يصلح عمل المفسدين ويحق الحق بکلماته ولو کره المجرمون } یونس/ 79۔82
٭{ قالوا يا موسى اما ان تلقي واما ان نکون اول من القى قال بل القوا فاذا حبالهم وعصيهم بخيل اليه من سحرهم انها تسعى فاوجس في نفسه خيفة موسى قلنا لا تخف انک انت الاعلى والق ما في يمينک تلقف ما صنعوا انما صنعوا کيد ساحر ولا يفلح الساحر حيث اتى } طہ65۔59
بےشک یہ آیات اور اسکے ساتھ سورہ فاتحہ اور سورہ (قل ہو اللہ احد) اور آیۃ الکرسی اور معوذتین (قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) اگر قاری پانی میں پڑھے اور اس پانی کو مريض کو پلایا جائے یا اس پر بھادیا جائے (یعنی غسل کرے) تو اسے اللہ کے حکم سے شفا یابی نصیب ہوگی۔
(3) سات بیری کے پتے کوٹ کر پانی میں ملائیں اور اس پر آیات اور سورتیں جو اوپر مذکورہیں اور مسنون دعائیں پڑھیں تو یہ پانی پیا بھی جائے اور اس سے غسل بھی کرے اوریہ عمل متعدد بار کیا جائے یہاں تک کہ اللہ کی حکم سے شفا مل جائے۔
(4)ایک جن نبی کریم ﷺ کے پاس آگ لے کر آیا جلانے کےلیے، تو رسول اللہ ﷺ نے یہ دعا پڑھی : " أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنْ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ " تو اسکی آگ بجھ گئی ۔ [ مسند احمد 3/419 (15035) , مسند ابی یعلى 12/238]
(5) مسحور کو مدینہ طیبہ کا عجوہ کھجور کھلایا جائے ، اس میں اللہ تعالی نے شفا رکھی ہے ۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص عجوہ کھجوریں سات عدد نہار منہ کھالے تو اس دن زہر اور جادو اس بندے پر اثر نہیں کرتا [ صحیح بخاری کتاب الأطعمۃ باب العجوۃ (5445) ]۔
(6)نبی کریم ﷺ پر لبیدبن الاعصم یہودی نے جادوکیا۔ آپﷺ پر جادو کا اثر ہوا۔ کہ آپ کے تخیلات پر اثر پڑگیا۔ آپ کو خیال ہوتا کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے حالانکہ آپ نے نہیں کھایا ہوتا تھا۔ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے حالانکہ پڑھی نہیں ہوتی تھی۔ تخیلات میں اثر ہوگیا۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نسخہ بتایا سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کا۔سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نبی کریمﷺ نے پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے جادو ختم کردیا ۔ خواب میں نظر آگیا کہ جادو کس چیز پر کیا گیا ہے وہ فلاں کنویں کے اندر کھجور کے تنے کےنیچے دبایا ہوا ہے۔ تو جادو کو نکال کر ضائع کردیا۔ جادو کا اثر ختم ہوگیا, یہ طریقہ کار ہے رسول اللہ ﷺ کا ۔[ صحیح البخاري کتاب الطب باب السحر (5763) صحیح مسلم کتاب السلام باب السحر (2189)]
(7) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: اور میں نے اور میرے علاوہ کئ اور لوگوں نے بھی اسکا تجربہ کیا ہے کہ زم زم کے پانی سے عجیب بیماری سے شفایابی ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالی کے حکم سے مجھے بہت سے امراض سے زم زم سے شفا ملی ہے اور میں نے ان لوگوں کا بھی مشاہدہ کیا ہے جو اسے بہت دنوں بطور غذا استعمال کرتے رہے تقریبا نصف مہینہ یا اس سے بھی زیادہ اور انہیں بھوک محسوس نہیں ہوئی۔ زاد المعاد (3/129)
سحر میں مفید بعض مسنون دعائیں :
٭ " اللهم رب الناس اذھب الباس واشف انت الشافی لا شفاء الا شفاؤك لا يغادر سقما "تین بار
٭" بسم الله ارقيك من كل شئ يؤذيك ومن شر كل نفس أو عين حاسد الله يشفيك بسم الله أرقيك " تین بار
٭"اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّة مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ وَہَامَّة وَمِنْ کُلِّ عَیْنٍ لَامَّة"
٭"لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ" سوبار


مکمل تحریر >>

Tuesday, September 15, 2015

حج و عمرہ کا آسان طریقہ


مکمل تحریر >>

عبادت کے خلوص کو ختم یا کم کرنے والے چند امور

عبادت کے خلوص کو ختم یا کم کرنے والے چند امور
=========================
عبادت سے اصل مقصود تقرب الٰہی اور جنت کا حصول ہونا چاہئے اس لئے اپنی عبادتوں کو مندرجہ ذیل چند فاسد امور سے بچانا چاہئے ۔
(1)عبادت سے مقصود اگر غیر اللہ کا تقرب اور لوگوں کی طرف سے تعریف و توصیف کا حصول ہو تو یہ شرک ہونے کی وجہ سے ساراعمل ضائع ہو جاتاہے۔ 
دلیل حدیث قدسی:
«اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِيْهِ مَعِیَ غَيْرِی تَرَکْتُهُ وَشِرْکَهُ»صحیح مسلم، الزهد والرقائق، باب تحریم الریاء ح: ۲۹۸۵۔
’’
میں تمام شرکاء کی نسبت شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں، جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی غیر کو بھی شریک کر لیا تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑکر دست بردارہوجاتا ہوں۔‘‘
(2)عبادت سے مقصود اقتدار، منصب یا مال وغیرہ کی دنیوی غرض کا حصول ہو، تقرب الٰہی کا حصول مقصود نہ ہو تو یہ عمل بھی رائیگاں جاتا ہے ، دلیل اللہ کا فرمان:
﴿مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلۡحَيَوٰةَ ٱلدُّنۡيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيۡهِمۡ أَعۡمَٰلَهُمۡ فِيهَا وَهُمۡ فِيهَا لَا يُبۡخَسُونَ- أُوْلَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ لَيۡسَ لَهُمۡ فِي ٱلۡأٓخِرَةِ إِلَّا ٱلنَّارُۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَٰطِلٞ مَّا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ﴾--هود:15-16
’’
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع ہوا۔‘‘
(3)عبادت سے مقصود تقرب الٰہی کے حصول کے ساتھ کوئی دنیوی غرض بھی ہو، مثلاً: عبادت کے لیے طہارت کی نیت کے وقت جسمانی بشاشت اور نظافت کا ارادہ بھی کر لے، نماز ادا کرتے وقت جسمانی ورزش کا بھی ارادہ کر لے، روزے کے ساتھ جسمانی وزن کے کم کرنے اور فضلات کےدور کرنے کا بھی قصد کرلے اور حج کے ساتھ مشاعر اور حجاج کی زیارت کا ارادہ بھی کر لے تو اس سے اخلاص کے اجر میں کمی آجاتی ہے اور اگرچہ غالب نیت عبادت ہی کی ہے تو اس سے کمال اجر و ثواب میں کمی آجاتی ہے ۔
اللہ تعالی ہمیں خالص عبادت کی توفیق دے ۔ آمین


مکمل تحریر >>

Monday, September 14, 2015

کیاصحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں ؟

کیاصحیح بخاری و صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں ؟
=================

امام بخاری رحمة اللہ علیہ اور امام مسلم رحمة اللہ علیہ دونوں کا اپنی صحیحین کے بارے میں دعویٰ یہ ہے کہ ان کی صحیحین میں موجود تمام روایات صحیح حدیث کے درجے کو پہنچتی ہیں ۔

(1) امام بخاری رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب 'صحیح بخاری' کے بارے میں فرماتے ہیں :
ما أدخلت في ھٰذا الکتاب إلا ما صحَّ (سیر اعلام النبلاء : ج10؍ص283)
''میں نے اپنی اس کتاب میں صرف صحیح روایات ہی کو بیان کیا ہے۔''

''ما أدخلت في الصحیح حدیثًا إلا بعد أن استخرت اﷲ تعالی وتیقَّنتُ صحَّتَه'' (هدي الساري مقدمة فتح الباری ،ص347)
''میں نے اپنی 'صحیح' میں کوئی حدیث اس وقت تک نہیں لکھی جب تک میں نے اللہ سے استخارہ نہیں کر لیا اور مجھے اس حدیث کی صحت کا یقین نہیں ہو گیا۔''

''ما أدخلت في کتابِي الجامع إلامَاصَحَّ''(تهذیب الکمال:ج24؍ص442)
''میں نے اپنی کتاب' الجامع'میں صرف صحیح احادیث ہی بیان کی ہیں ۔''

(2) امام مسلم رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب صحیح مسلم کے بارے میں فرماتے ہیں :
''لیس کل شيء عندي صحیح وضعتُه ھٰھنا، إنما وضعت ھٰھنا ما أجمعوا علیه '' (صحیح مسلم:تحت حدیث 612)
''میں نے ہر صحیح حدیث اپنی کتاب میں بیان نہیں کی بلکہ میں نے اس کتاب میں وہ حدیث بیان کی ہے کہ جس کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔''

(3) امام ابو عبد اللہ حمیدی رحمة اللہ علیہ (بخاری ومسلم کے استاذ حدیث )فرماتے ہیں :
لم نجد من الأئمة الماضین من أفصح لنا في جمیع ما جمعه بالصحة إلا ھذین الأمامین (مقدمہ ابن الصلاح،ص13)
''ہم نے پچھلے ائمہ میں سے، امام بخاری رحمة اللہ علیہ و امام مسلم رحمة اللہ علیہ کے علاوہ کسی ایک کو بھی ایسا نہیں پایا کہ جس نے یہ وضاحت کی ہو کہ اس کی تمام جمع کردہ روایات صحیح ہیں ۔''

(4)بخاری و مسلم کی صحت پہ محدثین کا اجماع ہوچکاہے۔
 ٭امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہونااُمت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔ اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔''(قطر الولی،ص230)
٭تحفة الاحوذی کے مؤلف علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمة اللہ علیہ بھی شاہ ولی اللہ کے الفاظ دہراتے ہیں :
''جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جتنی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں ، وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنّفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔''(مقدمة تحفة الأحوذي، ص47)
٭معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر لکھتے ہیں :
''بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پراُمت کا اجماع واتفاق ہے۔ اگر صحیحین کی 'معنعن' حدیثیں صحیح نہیں تو اُمت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں ۔'' (احسن الکلام،مولانا محمد سرفرازصفدر :ج1؍ص249)

پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر ائمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہا کا اتفاق ہوتا ہے۔ اور یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع ہی معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعویٰ متاثر نہ ہوگا، جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں اصل اعتبار فقہا کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔



مکمل تحریر >>

طاقت ہونے کے باوجود قربانی نہ دینا

طاقت ہونے کے باوجود قربانی نہ دینا

وسعت اور طاقت کے باوجود اگر کسی نے قربانی نہ دی تو وہ گنہگار ہوگاکیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "من وجد سعة ولم يضح فلا يقربنا في مساجدنا" ( ابن ماجہ ، الاضاحی : 3123)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” کہ جس شخص کے پاس وسعت و طاقت ہو پھر وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔ “
اس روایت سے قربانی کی تاکید ظاہر ہوتی ہے۔ اس لئے جو شخص قربانی دینے کی طاقت رکھتا ہو وہ قربانی کرے۔ اگر قربانی کی طاقت نہیں تو پھر وہ معذور ہے کسی سے قرض لیکر قربانی کرنے کی ضرورت نہیں۔
اللہ کا فرمان ہے :
”لایکلف اللہ نفساً الا وسعہا“
(سورة البقرة:۲۸۶)
ترجمہ:․․”اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اسی کا جو اس کی طاقت میں ہو“۔


واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

قربانی کے بعض مسائل

قربانی کے بعض مسائل 

➖➖➖➖➖➖➖==============
تحریر: میقات قرن المنازل (طائف) سے حجاج کا اردو ترجمان مقبول احمد سلفی


(1)
قربانی عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہے، اس لئے قربانی میں قیاس و رائے کا دخل نہیں ، ویسے ہی قربانی کی جائے گی جیسے ثابت ہے.
(2) قربانی کے حکم کے متعلق اہل علم کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، بعض نے وجوب کا حکم لگایا ہےمگر راقم کی نظر میں قربانی سنت مؤکدہ ہے.
(3) 8/ قسم کے جانوروں کی قربانی جائز ہے، ان میں بکری، بهیڑ، گائے اور اونٹ کا نر و مادہ شامل ہے.
(4) بهینس کی قربانی کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، بعض عالم امام مالک رحمہ اللہ کے قول سے دلیل پکڑتے ہوئے اس کے جواز کا فتوی دیتے ہیں جبکہ سنت سے دلیل نہ ہونے کی وجہ سے افضل یہی ہے کہ بهینس کی قربانی نہ کی جائے .
(5) جسے قربانی کی وسعت ہو اس کے حق میں قربانی مشروع ہے، قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں ہے جیساکہ حنفیہ کہتے ہیں.
(6) قربانی کرنے والا عیدالاضحی کا چاند نکلنے سے لیکر قربانی کرنے تک اپنا بال اور ناخن نہیں کاٹے گا . یہ حکم گهر کے دوسرے لوگوں کے لئے نہیں البتہ پورے گهر والے پابندی کر رہے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں جیساکہ اس سلسلے میں بعض آثار ملتے ہیں.
(7) ابوداؤد کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جو قربانی کی طاقت نہ رکهتا ہو وہ اگر اپنا بال و ناخن نہ کاٹے تو قربانی کا ثواب ملے گا.
(8) قربانی کے جانور کا چار عیوب سے پاک ہونا ضروری اور موٹا تازہ ہونا مستحب ہے. 
چار عیوب یہ ہیں.
*
ایسا کانا ہو جس کا کانا پن ظاہر ہو.
*
ایسا بیمار ہو جس کا مرض عیاں ہو. 
*
ایسا لنگڑا ہو جس کا لنگڑاپن ظاہرہو.
*
اتنا لاغر ہو کہ اس کی ہڈی نمایاں ہو.
(9) چار قسم کے جانور ( بکری، بهیڑ، گائے اور اونٹ) میں سے نر ہو یا مادہ کسی کی بهی قربانی کرسکتے ہیں، اسی طرح گابهن جانور کی بهی قربانی جائز ہے.
(10) قربانی کے لئے جانور خریدکر اسے بیچنا، ہبہ کرنا یا گروی رکهنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس سے باربرداری کا کام لینا صحیح ہے.
(11) ایک جانور ایک پورے گهر کی طرف سے کافی ہے ، چهوٹے جانور میں شرکت نہیں. بڑے جانور گائے اور اونٹ میں سات حصے دار شریک ہوسکتے ہیں.
(12) قربانی عیدالاضحی کی نماز کے بعد سے لیکر ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ تک چار دن مشروع ہے.
(14) بہتر ہے کہ جو قربانی دے وہی جانور ذبح کرے ، اگر عورت کی طرف سے قربانی ہو تو وہ بهی ذبح کرسکتی ہے .
(15) قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑهیں. 
"
بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هذا مِنْكَ وَلَكَ اَللھُم َّھذَا عَنِّيْ وَ عَـْن أهْلِ بَيْتِيْ "
مندرجہ ذیل دعا بهی پڑه سکتے ہیں. 
"
إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَالسَّمَاْوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَاْأَنَاْمِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلاْتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَاْيَ وَمَمَاتِيْ لِلّهِ رَبِّ اْلعَاْلَمِيْنَ، لَاْشَرِيْكَ لَه’وَبِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هَذا مِنْكَ وَلَكَ أَللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ ( وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ ) "
*
اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی تحسین کی ہے.
(16) قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ قربانی کی اصل کهانا اور کهلانا ہے . بچے ہوئے گوشت کو ذخیرہ کرنے میں بهی کوئی حرج نہیں.
(17) غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں جید علماء کے فتاوے ہیں.
(18) قربانی کی کهال صدقہ کرسکتے ہیں ، خود بهی استعمال کرسکتے ہیں مگر اسے بیچنا یا اجرت میں دینا جائز نہیں.
(19) قصائی کی اجرت قربانی کے گوشت سے نہیں دی جائے گی بلکہ الگ سے دی جائے گی البتہ صدقہ یا ہدیہ میں اسے کچه دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں.
(20) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی دینا جائز نہیں ہے، اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے. اسی طرح دوسرے میت کی طرف سے بهی مستقل قربانی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.
(21) قربانی نہ کرکے اس کی قیمت صدقہ کرنا بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں اور نہ ہی اصحاب رسول میں سے کسی کا طریقہ ہے.
(22) مسافر بهی قربانی دے سکتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حالت سفر میں قربانی دینا ثابت ہے . اسی طرح حج کرنے والا حج کی قربانی(ہدی) کے ساته عیدالاضحی کی مناسبت سے قربانی دے سکتا ہے.
(23). قربانی جیسے دن میں کرسکتے ہیں ویسے ہی رات میں بهی کرسکتے ہیں.
نوٹ: آج کل اسی قسم کے سوالات بہت آرہے ہیں، اس لئے وقت کی کمی اور خوف طوالت کو مدنظر رکهتے ہوئے باختصار قربانی کے بعض مسائل بیان کئے گئے ہیں. تفصیل کے لئے اس سے متعلق مستقل کتابیں مراجعہ کی جائیں.


مکمل تحریر >>

ایام تشریق کی تعیین

ایام تشریق کی تعیین

مقبول احمد سلفی
اس بات پہ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ کہ ایام تشریق تین دن ہیں، مگر وہ تین دن کون کون سے ہیں؟ 
ان کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا ہے.
 پہلا قول یہ ہے کہ ایام تشریق گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ ہے۔
 دوسرا قول یہ ہے کہ دس (یوم النحر)، گیارہ اور بارہ ہے۔
ان دونوں اقوال میں راحج قول پہلا ہے کہ ایام تشریق 11، 12، اور 13 ذی الحجہ ہے. زیادہ تر اہل علم کا رحجان اسی جانب ہے. 
اس قول کے راحج ہونے کی ٹهوس دلیل موجود ہے. 
دلیل یہ ہے: 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"
يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام، وهي أيام أكل وشرب".
(
رواه أبو داود والنسائي والترمذي وقال: حديث حسن صحيح)
ترجمہ : عرفہ کا دن، قربانی کا دن،اور ایام تشریق کے ایام ہماری عید ہیں اور یہ کهانے پینے کے ایام ہیں. 
*
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے. 
*
شیخ البانی نے اسے صحیح الترمذی میں 773 نمبر کے تحت درج کیا ہے. 
اس حدیث میں عید کے دن کو ایام تشریق سے الگ کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایام تشریق عید کے بعد سے تیرہ تاریخ تک ہے. 
اس معنی کی اور بهی روایات ہیں مگر استدلال کے لئے یہ ایک روایت ہی کافی ہے.
والله أعلم


مکمل تحریر >>

Sunday, September 13, 2015

اولاد کے گناہ کا بوجھ باپ پر؟

اولاد کے گناہ کا بوجھ باپ پر؟
==========

ہرآدمی آخرت میں اپنے کئے کا ذمہ دار ہوگاجیساکہ اللہ کے فرمان کا ترجمہ ہے " کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا"۔
لیکن چونکہ والد بچوں کا ذمہ ہے اور حدیث میں ہے کہ ہرذمہ دار اپنی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ بچے کی کفالت کرے اور اس کی اسلامی تریبت کرے۔ اگر والد نے اپنے حقوق ادا کردئے تو عنداللہ وہ بری الذمہ ہے لیکن اگر ان حقوق میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ اس ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اور باپ کی تربیت کے تئیں بے توجہی کی بدولت اولاد کا گناہ کرتی ہے تو باپ بھی اس کے گناہ کاحصہ دار ہوگا۔


واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

Friday, September 11, 2015

حج کے بعض اہم مسائل

حج کے بعض اہم مسائل
==============
مقبول احمد سلفی
مرکزالدعوۃ والارشاد ، طائف

(1) سعودی عرب میں بلاتصریح حج کرنا قانونا جرم ہے ، اور دوسالوں سے اس قانون میں بڑی سختی آئی ہے ۔ گذشتہ سال کی بنسبت امسال کچھ زیادہ ہی سختیاں ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم تمام لوگوں سے مجھے یہ کہنا ہے کہ بلاتصریح حج کرکے خود کو مصیبت میں نہ ڈالیں۔

(2) اکثر لوگ کپڑے کو احرام سمجھتے ہیں حالانکہ میقات پہ حج یا عمرہ کی نیت کرنے کا احرام کہا جاتا ہے ، آپ دیکھتے ہیں کہ عورتیں اپنے عام لباس میں ہوتی ہیں صرف وہ نیت کرتی ہیں لبیک عمرۃ یا لبیک حجا۔

(3) اگر کوئی آدمی میقات سے گذرے اور وہاں پہ حج کی نیت کرلے مگر احرام کا لباس نہ لگائے ، میقات تجاوز کرکے آگے کسی جگہ سے یا مکہ سے احرام لگائےتو اس پرتین میں سے کوئی ایک کرنا ہے یاتوتین روزہ رکھ لے یا ایک جانور ذبح کرے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلادے کیونکہ اس نے حالت احرام میں سلا ہوا کپڑا استعمال کیا۔اور اگر میقات پہ احرام کی نیت نہ کی ، آگے جاکر احرام کا لباس لگایا اور حج کی نیت کی (خواہ مسجد عائشہ سے نیت کی ہو) اس کے اوپر جانور ذبح کرنا ہے ۔

(4) آج کل بہت سارے ملکوں سے لوگ آسانی کی غرض سے جدہ ایرپورٹ پہ اترتے ہیں اور وہیں سے احرام باندھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دو میں سے ایک کام کرنا ہے ، چاہے کسی میقات پہ جاکے وہاں سے احرام باندھے یا پھر میقات پہ احرام نہ باندھنے کی وجہ سے دم دے ۔

(5) افضل ہے کہ 8/ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے اور منی جائے (تمتع کرنے والا سہولت کی غرض سے 8/ذی الحجہ سے پہلے عمرہ کرکے حلال ہوجائے )، اگرکوئی مجبوری ہواور 9/ذی الحجہ کو احرام باندھنے کے لئے فرصت ملے تو وہ حج افراد یا حج قران آسانی سے کرسکتا ہے ۔وہ بایں طور کہ افراد یا قران کی نیت کرکے براہ راست میدان عرفات چلا جائے اور وہاں سے ویسے ہی حج کرے جیسےقارن یا مفرد کرتا ہے ۔ چاہے تو کچھ پریشانی اٹھاکر 9/ذی الحجہ کو تمتع بھی کرسکتا ہے۔ اس کے لئے پہلے مکہ جاکر عمرہ کرے پھر سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے میدان عرفات پہنچ جائے ورنہ حج نہیں ہوگا۔

(6) بچے کا بھی حج صحیح ہے مگر فریضہ ساقط نہیں ہوگا۔ بلوغت کے بعد حج کا فریضہ ادا کرنا ہوگا۔

(7) عورت پر اس وقت حج فرض ہوگا جب جسمانی اور مالی طاقت کے علاوہ اس کے ساتھ کوئی حج پہ آنے والا محرم ہو(مثلاباپ، بھائی ، بیٹا، چچا، شوہر، داماد وغیرہ)۔ بغیر محرم کے اگر کسی خاتون نے حج کرلیا تو حج صحیح ہے مگر گنہگار ہوگی۔ جس عورت کا محرم نہ ہو اس کے حق میں جائز ہے کہ وہ اپنے مال سے کسی کو نائب بناکر حج ادا کرلے۔

(8) حیض یا نفاس کا آنا حج کرنے سے مانع نہیں ہے ۔ اگر کسی خاتون کو میقات پہ یا دوران سفر حیض آجائے تو اسی حالت میں میقات پہ غسل کرکےحج کی نیت کرلے ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
جب حائضہ اورنفاس والی عورت میقات پرپہنچے تووہ غسل کرکے احرام باندھیں اوربیت اللہ کے طواف کے علاوہ باقی سارے مناسک پورے کریں ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1744 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ابوداود میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

(9) مالی اعتبار سے مستطیع مگر جسمانی اعتبار سے معذور مرد یا عورت کی طرف سے حج بدل کرنا شرعا درست ہے ، حج بدل کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنا حج کرچکا ہو، اس کی دلیل شبرمہ والی حدیث ہے ۔

(10) اگر کوئی نیکی کرنے والے حصول نیکی کی غرض سے کسی دوسرے شخص کو فری میں حج کراتا ہے تو یہ حج بھی صحیح ہے ۔ عنداللہ دونوں ماجور ہونگے۔

(11) میت کی طرف سے حج کرنے کے متعلق علماء کے مابین دواقوال ہیں۔ ابن القیم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اگر میت نے حج کی وصیت کی ہو تو اس کی طرف سے حج کیا جائے گا ، اگر وصیت نہ کی ہو ،سستی میں حج چھوڑا ہو تو تعزیرا اس کی طرف سے حج نہیں کیا جائے گا۔ راحج قول جمہور کا ہے ، ان کے نزدیک ہے کہ میت کی طرف سے حج کیا جائے گا چاہے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔

(12) حج کی استطاعت ہوجانے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے فورا حج کرنا چاہئے ، مگر لوگوں میں بڑھاپے میں حج کرنے کا خیال عام ہے ۔ یہ ایک بڑی غلطی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موت آجاتی ہے لیکن بہت سارے لوگ مناسک حج کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں یا جو بڑھاپے میں حج کرتے ہیں انہیں بہت سارا جوکھم اٹھانا پڑتا ہے۔

(13) جس کے اوپر قرض ہو اور وہ آسانی سے قرض ادا کرسکتا ہو،یا قرض دینے والا اسے مزید کچھ مہلت دے رہاہوتو وہ حج کرسکتا ہے ، اس کا حج درست ہے ۔ اگر اس کا قرض بارگراں ہو، اس کی ادئیگی مشکل ہویا قرض دینے والا مہلت نہ دے کر قرض کا مطالبہ کرتا ہو، ایسی صورت میں حج کرنا صحیح نہ ہوگا۔ مگر پھر بھی کسی نے ایسی صورت حال میں حج کرلیا تو اس کا حج تو ہوجائے گا مگر وہ گنہگار ہوگا۔

(14) اگر کوئی اندھا جسمانی و مالی اعتبار سے حج کی طاقت رکھتا ہو(اور کسی کو ساتھ رکھنے کی اجرت رکھتا ہو) تو اس پر بھی حج فرض ہے ، لہذا اسے بھی خود سےاپناحج کرنا چاہئے ، ساتھ میں ہمسفر لے لینا چاہئے(رمی جمار میں ہمسفر کو وکیل بنالے) ۔اور اگر تعاون کے باوجود ٹھیک سے سفر کرنے اور مناسک کی ادائیگی کرنے کی طاقت نہ ہو تو کسی کو اپنی نیابت سونپ دے۔آپ ﷺ نے نابینا صحابی کو مسجد میں آکر نماز پڑھنے کا حکم دیا تھاجبکہ ان کو کوئی سہارا دینے والا نہیں تھا۔

(15) بہت ساری عورتوں کو معلوم نہیں ہوتا اور وہ حالت احرام میں نقاب یا برقع( آنکھ کے پاس کھلا ہوا کپڑا) پہنے رہتی ہیں جبکہ یہ ممنوعات احرام میں سے ہے ، اور اس کے ارتکاب پہ فدیہ دینا پڑتا ہے ۔ اسی طرح خواتین میں بےپردگی بھی عام ہے جو کہ بڑافتنہ ہے ۔

(16) عورتوں میں یہ خیال عام ہے کہ حج میں چہرہ نہیں ڈھانپنا ہے ، یہ خیال غلط ہے ۔ عورت حج پہ ہوں یا غیرحج پہ ہرجگہ اجنبی مردوں سے پردہ کرے گی اور اگر اجنبی مرد کوئی نہیں تو چہرہ کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

(17) مردوں میں بھی ایک غلطی عام ہے، وہ ہے ہمیشہ دایاں کندھا کھلا رکھنا جسے اضطباع کہتے ہیں ۔ یہ صرف اور صرف طواف میں ہے جبکہ لوگوں کو عام طور سے اس حالت میں دیکھا جاتا ہے ۔ منی میں ، مزدلفہ میں ، سعی میں یہاں تک کہ بعض لوگ میقات پہ احرام باندھتے وقت ہی یہ طریقہ اختیار کرلیتے ہیں ۔

(18) بہت سے لوگ قربانی کے ڈر سے حج قران یا تمتع نہیں کرتے یا دم کے طور پہ جانور ذبح کرنا ہو تو غفلت برت جاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے عرض کرنا ہے کہ آپ حج تمتع کریں جو سب سے افضل ہے اور اگر ہدی (قربانی) کی طاقت نہ ہو تو قربانی کی جگہ دس روزہ رکھ لیں (تین ایام حج میں اور سات حج سے لوٹنے کے بعد) ۔ اسی طرح کسی کو واجب چھوڑنے پہ دم (جانورذبح کرنا) دینا پڑ جائے اور وہ قربانی کی طاقت نہیں رکھتا تو وہ بھی اس کے بدلے دس روزہ رکھ لے ۔

نوٹ : ان میں سے بعض مسائل میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ، اس لئے آداب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دلائل کی روشنی میں بحث کی جاسکتی ہے ۔ گذرشتہ تمام امور پہ قصم (سعودی عرب) کے شیخ عبدالعزیز المھنا سے میری بحث ہوئی ہے موصوف وزارہ کے حالیہ داعی اور جالیات وسط بریدہ القصیم کےمدیر عام رہ چکے ہیں ۔


مکمل تحریر >>

Thursday, September 10, 2015

قربانی کس پر ہے؟

قربانی کس پر ہے؟

قرباني كے وجوب كے متعلق علماء کا اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یا سنت ؟ میری نظر میں راحج موقف یہ ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے۔ نبی ﷺ  ہمیشہ قربانی دیتے رہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ قربانی کس کو دینا چاہئے ؟
بعض نے مالك نصاب زكوة هونا شرط قرار ديا هے جبکہ اس بات کے لئے شریعت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
جب ايک قيد شريعت نے نهيں لگائي تو ايک امتی كو كس نے اجازت دي هے كه وه ايسی شرط لگائے۔
نصوص سے یہی پتہ چلتا ہے کہ صرف قرباني كرنے کی سكت هو تو اسے قربانی دینا چاہئے ،خواه وه شخص صاحب نصاب هو خواه نہ ہو ۔
كيونكہ اكثر اوقات ايسا شخص جو صاحب نصاب نهيں وه قرباني كا اهل هوتا بالكل ايسے ہی جسطرح ايک شخص صاحب نصاب زكوة نہ هونے كے باوجوج شادي بياه پر ہزاروں خرچ كر ليتا هے۔

واللہ اعلم


مکمل تحریر >>

Tuesday, September 8, 2015

حج کا مختصر اور آسان طریقہ

حج کا مختصر اور آسان طریقہ

مقبول احمد سلفی
مزکرالدعوۃ والارشاد،طائف
(1) میقات (جہاں سے احرام باندھا جاتاہے)
٭ احرام حج یا عمرہ میں داخل ہونے کی نیت کا نام ہے نہ کہ کپڑے کا۔
٭ میقات پہنچ کر غسل کریں اور صرف اعضائے بدن پہ خوشبو استعمال کریں، اگر نہانا مضر صحت ہو تو غسل چھوڑ دیں۔
٭غیرضروری بال اور ناخن کاٹنے کا تعلق احرام سے نہیں ہے ، انہیں کاٹنے کی حاجت ہوتوکاٹے ورنہ چھوڑدے۔
٭احرام کا کپڑا لگائیں، میقات پہ ازدہام کی وجہ سے میقات سے پہلے بھی کسی جگہ سے احرام کا لباس لگاسکتے ہیں مگر میقات پہ نیت کرنی ضروری ہے۔
٭حج کی تینوں قسم (افراد، قران، تمتع) میں سے کسی ایک کو اختیار کرکے اس کی نیت کریں۔
٭ افراد کی نیت: لبیک حجا، قران کی نیت:لبیک عمرۃ و حجا اور تمتع کی نیت: لبیک عمرۃ
٭میقات سے لیکر حرم تک تلبیہ پکارتے چلیں۔تلبیہ یہ ہے :
لبیک اللھم لبیک ،لبیک لاشریک لک لبیک ،ان الحمد والنعمة لک والملک لاشریک لک

(2) مسجد حرام (مکہ مکرمہ )
٭ متمتع :عمرہ کے لئے طواف اور سعی کرے ، پھر بال چھوٹا کرکے حلال ہوجائے ۔
٭قارن: طواف قدوم کرے(یہ مستحب ہے ) اور حج و عمرہ کی سعی کرے۔
٭مفرد: طواف قدوم کرے(یہ مستحب ہے)اور حج کی سعی کرے۔
٭ قارن اور مفرد احرام میں باقی رہیں گے اور دس تاریخ کو رمی جماراورحلق یاتقصیر کے بعدحلال ہوں گے مگر بیوی طواف افاضہ (اوراگر سعی ہوتوسعی کرکے)ہی حلال ہوگی۔
٭ طواف کی کوئی خاص دعا نہیں ہے ، جو چاہے سات چکروں میں دعا کرے ، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھے : رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
٭ صفاومروہ پہ ہرچکر میں تین تین بار یہ دعا پڑھے : 'لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ، لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ أنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ' ۔

(3) منی (یوم الترویہ)
٭ 8/ذی الحجہ کو تمتع کرنے والا اپنی رہائش ہی سے حج کا احرام باندھے ۔
٭قارن ومفرداگر حج کی نیت کرکے پہلے سے ہی احرام میں باقی ہوں تو اسی حالت میں منی چلاجائے یا 8/ذی الحجہ کو حج کی نیت کررہے ہوں تو اس کی دو صورتیں ہیں یا تو طواف قدوم اور سعی کرکے منی جائے یا بغیرطواف وسعی دائریکٹ منی چلاجائے۔
٭ احرام لگاکر منی کی طرف متوجہ ہو، یہاں ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور فجر پانچ وقتوں کی نماز اپنے اپنے وقتوں پہ قصر کے ساتھ پڑھے ۔

(4) عرفات (یوم عرفہ)
٭9/ ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد میدان عرفات پہنچ کر وہاں  کسی بھی جگہ ٹھہرے۔پہاڑ پہ چڑھنا اور کسی خاص جگہ وقوف کرنے کی محنت کرنا غلط ہے۔
٭ظہروعصر کی نماز جمع تقدیم (ظہرکے وقت ظہر اور عصردونوں)کے ساتھ قصر (دو دو رکعت)کرے۔
٭ نماز پڑھ کر غروب شمس تک دعا، ذکر، استغفاراور تضرع میں مصروف رہے۔
٭عرفہ کی سب سے بہترین دعا یہ ہے : 'لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ  وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیر'

(5) مزدلفہ( شب عید)
٭غروب شمس کے بعدمغرب کی نماز پڑھے بغیر عرفات سے مزدلفہ جائے ۔
٭ وہاں پر مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ قصر سے پڑھے ۔
٭پھر رات بھر آرام کرے ، فجر کی نماز کے بعد ذکرواذکاراور دعاواستغفارکرے۔
٭سورج طلوع ہونے سے پہلے منی کی طرف کوچ کرے۔
٭کمزور ، عمر رسیدہ ، معذور اور ضرورت مند لوگوں کے لئے آدھی رات کے بعد بھی مزدلفہ سے منیٰ جانا جائز ہے۔

(6) یوم النحر(قربانی کا دن)
٭10/ذی الحجہ کوفجرکے بعدمنی جاکر پہلے ایک ہی  جمرہ (جو مکہ سے متصل ہے) کو تکبیر کے ساتھ سات کنکری مارے ۔
٭ کنکری راستے یا منی ومزدلفہ کہیں سے بھی چنی جاسکتی ہے ، اس کی جسامت چنے کے برابرہواور اسے دھونے کی بھی ضرورت نہیں۔
٭حج تمتع اور قران کرنے والا قربانی کرے۔
٭رمی جمرہ اور حلق(یا یہ دونوں یاان کے علاوہ دوعمل) سے تحلل اول حاصل ہوجاتاہے جس کی وجہ سے بیوی کے علاوہ ساری پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں اور جب ایک اورچیزکرلے طواف یا سعی توتحلل ثانی (یوم النحرکوکسی تین عمل سے) یعنی مکمل حلال ہوجاتاہےاس سے بیوی بھی حلال ہوجاتی ہے۔
٭ اگر اس نے قربانی کی رقم جمع کردی ہے تو بلاانتظاراسترے سے بال منڈوائے یا قینچی سےپورے سرسے بال چھوٹا کروائے۔
٭ متمتع ، قارن اور مفرد سبھی حج کا طواف (افاضہ) کریں ۔
٭ متمتع حج کی سعی کرے ، قارن و مفرد بھی سعی کرے اگر انہوں نے طواف قدوم کےساتھ سعی نہ کی ہو۔
٭تمتع کرنے والے کے لئے  آج کے کام بالترتیب رمی ، قربانی،حلق/تقصیر،طواف اور سعی ہیں۔ان کاموں میں سے کوئی آگے یا پیچھے ہوجائے تو کوئی حرج نہیں یعنی یہ ترتیب واجب نہیں ہے۔

(7) ایام تشریق( رمی جمرات کے ایام )
٭اگرکسی عذرکی بناپریوم النحر کو طواف افاضہ نہ کرسکے تو ایام تشریق میں بھی کرسکتےہیں یہاں تک کہ  لوٹتے وقت  ایک ہی نیت میں طواف افاضہ اور طواف وداع بھی کرسکتے ہیں۔
٭ دس ذی الحجہ کا کام کرکے منی لوٹ آئے اور 11 12 13 ذی الحجہ کی رات وہیں بسر کرے۔
٭ تینوں دن تینوں جمرات کو (پہلے جمرہ اولی،پھر جمرہ وسطی پھر جمرہ عقبہ)زوال کے بعد سات سات کنکری مارے ۔
٭پہلے جمرے کی رمی کرکے قبلہ رخ ہوکر لمبی دعا کرے پھر دوسرے جمرے کی رمی کرکے قبلہ رخ ہوکرلمبی دعا کرے اور تیسرے جمرے کی رمی کے بعد بغیر دعا رخصت ہوجائے۔
٭رمی جمرات اللہ کی عبادت اور اس کے حکم کی تعمیل ہے نہ کہ شیطان کو کنکری مارنا، اس لئے شیطان نام دینا بھی غلط ہے ۔
٭ اگر تعجیل کرنی ہو تو 12/ذی الحجہ کی کنکری مارکر غروب آفتاب سے پہلے منی چھوڑدے ۔
٭ حج کے مذکورہ بالا سارے اعمال انجام دینے کے بعد جب اپنا وطن لوٹنے لگے تو طواف وداع کرےاور پھر مکہ میں نہ ٹھہرے۔
٭اب آپ کا حج مکمل ہوگیا، زیارت مدینہ کا تعلق حج سے نہیں ہے ، سعودی کے باہر سے آنے والے عموما زندگی میں ایک بار یہاں آتے ہیں تو زیارت مدینہ سے بھی مستفیدہوجائے تو بہترہے۔

ارکان ،واجبات اور ممنوعات کے احکام
حج کے ارکان
(1) احرام (حج کی نیت کرنا)
(2) میدان عرفات میں ٹھہرنا
(3) طواف افاضہ کرنا
(4) صفا و مروہ کی سعی کرنا
حج کے واجبات
(1) میقات سے احرام باندھنا
(2) سورج غروب ہونے تک عرفہ میں ٹھہرنا
(3) عید کی رات مزدلفہ میں گذارنا
(4) ایام تشریق کی راتیں منی میں بسر کرنا
(5) جمرات کو کنکری مارنا
(6) بال منڈوانا یا کٹوانا
(7) طواف وداع کرنا(حیض و نفاس والی عورت کے لئے نہیں ہے )۔
ممنوعات احرام
حالت احرام میں نو کام ممنوع ہیں جنہیں محظورات احرام کہاجاتاہے ۔ (1)بال کاٹنا(2)ناخن کاٹنا(3)مردکو سلاہواکپڑا پہننا(4)خوشبولگانا(5)مردکاسرڈھانپنا(6)عقدنکاح کرنا(7)بیوی کو شہوت سے چمٹنا(8) جماع کرنا(9)شکار کرنا۔عورت کے لئے دستانہ  اور برقع ونقاب منع ہے تاہم اجنبی مردوں سے پردہ کرےگی۔
ارکان ،واجبات اور ممنوعات کے احکام
٭ اگر کسی نے حج کے چار ارکان میں سے کوئی ایک رکن بھی چھوڑ دیا تو حج صحیح نہیں ہوگا۔
٭مذکورہ  بالاسات واجبات میں سے کوئی ایک واجب چھوٹ جاتا ہے تو حج صحیح ہوگامگر ترک واجب پہ دم دینا ہوگا۔ دم کی طاقت نہ ہو تو دس روزہ رکھ لے ، تین ایام حج میں اور سات وطن واپس ہونے پہ ۔

٭جوشخص لاعلمی میں ممنوعات احرام  میں سےکسی کا ارتکاب کرلے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے ، لیکن اگر جان بوجھ کر ارتکاب کیا توفدیہ دینا ہوگا(گرایک سے لیکر پانچ تک میں سے کسی کا ارتکاب کیاہو)۔فدیہ میں یاتو تین روزہ یا ایک ذبیحہ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ شکار کرنے کی صورت میں اسی کے مثل جانور ذبح کرناہوگا۔عقدنکاح سے حج باطل ہوجاتاہے۔اگر تحلل اول سے پہلے جماع کرلے توعورت ومرد دونوں کا حج باطل ہوجائے گا اور اگر تحلل اول کے بعد طواف افاضہ سے پہلے جماع کرے تو حج صحیح ہوگامگر اس کا احرام ختم ہوجائے گا وہ حدود حرم سے باہر جاکر پھر سے احرام باندھے تاکہ طواف افاضہ کرسکے اور فدیہ میں ایک بکری ذبح کرے ۔ 
مکمل تحریر >>