رمضان المبارک کے فضائل ومسائل



 رمضان المبارک کے فضائل ومسائل


رمضان المبارک کے فضائل ومسائل
تالیف : مقبول احمد سلفی
داعی/دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد ، طائف(سعودی عرب)


عرض ناشر
تعلیم وتعَلم شریعتِ اسلامیہ کا خاصہ ہے, بلکہ مذہبِ اسلام نے علم پر کافی زور دیا ہے, قرآن کریم اور صحیح احادیث کے مطالعہ سے  واضح ہو جاتا ہے کہ  طلبِ علم ِشرعی ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے,  اور اس کى بین دلیل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا صحیح فرمان  " طلب العلم فريضة على كل مسلم [ رواه ابن ماجه, حديث 224 وصححه الشيخ الألباني, انظر صحيح الترغيب والترهيب 1/17 حديث 72] ہے۔
مزید یہ کہ بغیر تعلیم وتعلم کے صحیح طور پر شریعتِ اسلامیہ پر عمل محال ہے۔
رمضان کا روزہ اسلام کا ایک اہم رکن ہے, اس کے مسائل  قرآن کریم اور کتب حدیث میں بکھرے پڑے ہیں, ان مسائل کا  صحیح دلیل اور علمائے ربانی کے اقوال کى روشنی میں ایک جگہ جمع کرنا اور انہیں قارئین تک با آسانی پہنچانا ایک دینی فریضہ اور باعثِ اجروثواب ہے۔
برادرم مقبول احمد السلفی( داعی اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف) جو کبھى میرے عزیز ہوا
کرتے تھے  اب وہ  اپنى ہمہ جہت محنت وکوشش کے سبب میرے محترم ہیں- نے رمضان کے اہم اہم مسائل کو دلیل کى روشنی میں ایک جگہ جمع کردیا ہے, مجھے یقین ہے کہ وہ اپنى کوشش میں  کما حقہ کامیاب ہیں۔
افادہ عامہ کیلئے فیض ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی ارریہ بہار نے اس تالیف کى طباعت کى ذمہ داری اٹھائى ہے۔
اللہ تعالى سے دعا ہے کہ  اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوں, اور اِسے مؤلف ناشر اور ان تمام لوگوں کے لئے صدقہ جاریہ بنائے جنہوں نے اس کتاب کى طباعت میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
وصلى اللہ على نبینا محمد وعلى آلہ وصحبہ اجمعین۔
                                                              ڈاکٹر امان اللہ محمد اسماعیل
                                                              مدرس مسجد نبوی شریف
                                                          وچیر مین فیض ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی
مقدمہ
اللہ رب العالمین کا بیحد شکرواحسان ہے ، اس نے ہمیں مختلف انعامات سے نوازا۔ ان انعامات میں ایک یہ ہے کہ سعودی عرب میں دعوت وتبلیغ کا موقع فراہم کیا۔ یہاں کے دعوتی سنٹر کے ذریعہ بے شمار غیرمسلموں کو اسلام سے متعارف کرایا۔ سیکڑوں کی تعداد میں  لوگوں نے اسلام بھی قبول کیا الحمد للہ اور آئے روز اسلام قبول کرتے ہی رہتے ہیں ۔ یہاں نہ صرف غیرمسلموں کو اسلام سے متعارف کرایاجاتاہے بلکہ مسلمانوں کو بھی صحیح عقائد سے واقف کرایا جاتا ہے ۔ دروس وبیانات خصوصا اردو زبان میں خطبہ کی برکت سے بہت سے مسلمان بھائیوں نے اپنا عقیدہ وایمان درست کیا۔ ان سب کاموں کا اللہ کی طرف سے موقع ملنا میرے لئے بڑا نصیبہ ہے، اس پر اپنے پروردگار کا شکرادا کرتاہوں ۔
دعوتی سنٹر کی طرف سے رمضان کے مہینے میں مختلف قسم کے دعوتی منصوبے ہواکرتے ہیں ۔ مثلا لوگوں کو عمرہ کرانا، ان کی تعلیم وتربیت، دروس ، محاضرات، رمضانی مسابقے، افطار وغیرہ۔ ان سارے کاموں کی انجام دہی کے ساتھ سن 2016 میں وقت نکال کر قسطوار رمضان کے مسائل لکھتا رہا جب عید ختم ہوئی اور ساری قسطوں کو جمع کیا تو ایک کتاب  بن گئی ۔ یہ کتاب رمضان کی برکت اور اس کا بہترین ثمرہ ہے ۔ اللہ تعالی ڈاکٹرامان اللہ مدنی حفظہ اللہ (مدرس مسجد نبوی    وچیر مین فیض ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی)کو جزائے خیر دے اوران کی  عمر میں برکت دےتاکہ آپ کا تعلیمی ، رفاہی، ثقافتی اور سماجی مشن  دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے اور فردومجتمع کو مستفید کرتا رہے ۔ میں موصوف کوقریب سے جانتا ہوں ۔ جامعہ سلفیہ میں ہمعصر رہے ۔  انہیں ہماری قسطوار تحریروں کا علم تھا ۔ خود ہی مجھ سے رابطہ کئے اور اسے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ آج ڈاکٹر صاحب کی کوشش والتفات سے قسطوارمضمون کتابی شکل میں آپ کے سامنے ہے ۔ اس کتاب کے شروع میں "رمضان کا استقبال کیسے کریں" اضافہ کیاگیاہے تاکہ رمضان سے پہلے مومن بندہ خود کو رمضان کے لئے اچھے سے تیار کرلے ۔ نیز آخر میں اسی طرح "رمضان کے بعد ہماری عملی زندگی" کا اضافہ بھی اس نیت سے کیاگیاہے کہ کہیں ایسا نہ ہورمضان رخصت ہوتے ہی ہمارا سارا کار خیر بھی رخصت ہوجائے ، اس عملی اقدام کو بنائےرکھنے  اور اس پہ استقامت برتنے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے ۔
اللہ تعالی اس کتاب کو امت کے حق میں نفع بخش بنائے ۔میرے ،میرے  والدین ، اس  کتاب کے ناشراور تمام قسم کے معاونین کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ آمین
مقبول احمد بن عبدالخالق سلفی
اندھراٹھاری(مدھوبنی)بہار
داعی /اسلامک دعوہ سنٹر، طائف (سعودی عرب)


رمضان کا استقبال کیسے کریں؟
رمضان المبارک  کی آمد آمد  ہے ، ہر طرف مومن کے اندر اس کے تئیں اظہار مسرت ہے ۔ یہ وہ مبارک مہینہ  ہےجس کا انتظار مومن آدمی سال بھر کرتاہے کیونکہ یہ نیکی،برکت، بخشش،عنایت، توفیق،عبادت، زہد،تقوی، مروت، خاکساری،مساوات، صدقہ وخیرات،رضائے مولی،جنت کی بشارت،جہنم سے گلوخلاصی  کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ مقدس میں مومن کے اندرفکرآخرت کے ذریعہ رب سے ملاقات کی خواہش بیدار ہوتی ہے ۔سبحان اللہ اس قدر پاکیزہ ومحترم مہینہ ۔یہ رب کی طرف سے اس پر ایمان لانے والوں کے لئے عظیم تحفہ ہے ۔ اب ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اس ماہ عظیم الشان کا کیسے استقبال کریں اور کس عمدگی سے اس مہینے کے فیوض وبرکات سے اپنے دامن کو نیکیوں کے موتی سےبھرلیں؟سطورذیل میں رمضان المبارک کی تیاری سے متعلق چند اہم باتوں کی طرف رہنمائی کی جارہی ہے جن سے اس ماہ مکرم کا سعادت مند ی کے ساتھ استقبال کرسکتے ہیں۔
رمضان کا استقبال کیسے کریں؟
اپنے ذہن میں ذرا تصور پیدا کریں کہ جب آپ کے گھر کسی اعلی مہمان کی آمد ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟   آپ کا جواب ہوگا۔ہم بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں۔ گھرآنگن  کو خوب سجاتے ہیں، خود بھی ان کے لئے زینت اختیار کرتے ہیں، پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتاہے ، بچوں کے لب پہ نغمے،چہرے پہ خوشی کے آثار ہوتے ہیں۔ مہمان کی خاطرتواضع کےلئے ان گنت پرتکلف سامان تیار کئے جاتے ہیں۔ جب ایک مہمان کے لئے اس قدر تیاری تو مہمانوں میں سب سے اعلی اور رب کی طرف سے بھیجا ہوا مہمان ہو تو اس کی تیاری کس قدر پرزور ہونی چاہئے ؟  آئیے اس تیاری سے متعلق آپ کے لئے ایک مختصر خاکہ پیش کرتا ہوں ۔
(1)عظمت کا احساس
رمضان کا مہینہ بیحد عظیم ہے ، اس کی عظمت کا احساس اور قدرومنزلت کا لحاظ آمد رمضان سے قبل ہی ذہن ودماغ میں پیوست کرلیاجائے تاکہ جب رمضان میں داخل ہوں تو غفلت،سستی،بے اعتنائی،ناقدری،ناشکری، احسان فراموشی  اور صیام وقیام سے بے رغبتی کے اوصاف رذیلہ نہ پیدا ہوں۔
یہ اتنی عظمت وقدر والا مہینہ ہے کہ اس کی ایک رات کا نام ہی قدرومنزلت ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5) (سورة القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلة القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلةالقدرکیا ہے ۔لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات  فرشتے اور جبریل (روح الامین )اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
آپ یہ نہ سمجھیں کہ رمضان کی ایک رات ہی قدر کی رات ہے بلکہ اس کا ہردن اور ہررات قدرومنزلت کا حامل ہے ۔
(2) نعمت کا احساس
رمضان جہاں رب کا مہمان ہے وہیں اس کی طرف سے ایک عظیم نعمت بھی ہے ۔ عام طور سے انسان کو اس نعمت کا احساس کم ہی ہوتا ہے جو حاصل ہوجاتی ہے لیکن جو نہیں مل پاتی اس کے لئے تڑپتا رہتا ہے ۔ ایک بینا کو آنکھ کی نعمت کا احساس کم ہوتا ہے اس لئے اس کا استعمال فلم بینی اور برائی کے مشاہدے میں کرتاہے ۔ اگر اسے یہ احساس ہو کہ یہ رب کی بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدرکرنی چاہئے تو کبھی اپنی آنکھ سے برائی کا ادراک نہ کرے ۔ بینا کی بنسبت اندھے کو آنکھ کی نعمت کا احساس زیادہ ہوتا ہے ۔ یہ فرق ایمان میں کمی کا سبب ہے ۔ جس کا ایمان مضبوط ہوگا وہ ہرنعمت کی قدر کرے گا ۔ایمان کا تقاضہ ہے کہ ہم رمضان جیسے مقدس مہینے کی نعمت کا احساس کریں ۔ اور اس احساس کا تقاضہ ہے کہ اس نعمت پہ رب کی شکرگذاری ہوجیساکہ اللہ کا فرمان ہے ۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ(ابراهيم: 7)
ترجمہ: اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاه کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے, تو بیشک میں تمہیں زیاده دوں گا اوراگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے : أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَةَ اللّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ، جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ{ابراہیم :28-29}
ترجمہ : کیا آپ نے انکی طرف نظر نہیں ڈالی جنھوں نے اللہ تعالی کی نعمت کے بدلے ناشکری کی اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گھر میں لا اتارا ،یعنی جہنم میں جسمیں یہ سب جائیں گے جوبدترین ٹھکانہ ہے ۔
نعمت میں رمضان جیسا مہینہ نصیب ہونے کی بھی نعمت ہے اور صحت وتندرستی  اس پہ مستزاد ہے۔ان نعمتوں کا احساس کیوں نہ کریں  کہ ان نعمتوں کے بدلے ہمیں ہرقسم کی نیکی کی توفیق ملتی ہے ۔ روزہ،نماز،صدقہ،خیرات،دعا،ذکر،انابت الی اللہ ،توبہ،تلاوت، مغفرت،رحمت وغیرہ ان نعمتوں کی دین ہے ۔
(3) انابت الی اللہ
جب ہم نے اپنے دل میں مہمان کی عظمت بحال کرلی، اس عظیم نعمت کی قدرومنزلت کا بھی احساس کرلیا تو اب ہمارا یہ فریضہ بنتا ہے کہ دنیا سے رخ موڑ کے اللہ کی طرف لوٹ جائیں ۔ "انابت الی اللہ" عظمت اور نعمت کے احساس میں مزید قوت پیدا کرے گی۔ اللہ کی طرف لوٹنا صرف رمضان کے لئے نہیں ہے بلکہ مومن کی زندگی ہمیشہ اللہ کے حوالے اور اس کی مرضی کے حساب سے گذرنی چاہئے ۔ یہاں صرف بطور تذکیر ذکر کیا جارہاہے کہ کہیں ایسا نہ ہو بندہ رب سے دور ہوکر روزہ کے نام پہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرے ۔ اگر ایسا ہے تو روزے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ پہلے رب کی طرف لوٹیں ، اس سے تعلق جوڑیں اور اس کو راضی کریں پھر ہماری ساری نیکی قبول ہوں گی ۔
انابت الی اللہ سے میری مراد، ہم رب پر صحیح طور ایمان لائیں، ایمان باللہ کو مضبوط کریں، عبادت کو اللہ کے لئے خالص کریں، رب پہ مکمل اعتماد کریں، اللہ کو سارے جہاں کا حاکم مانیں، خود کو اس کا فقیر اور محتاج جانیں ، کسی غریب ومسکین کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں،ناداروں کی اعانت کریں،بیماری ومصیبت میں اللہ ہی کی طرف رجوع کریں۔ یہ ساری باتیں انابت الی اللہ میں داخل ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں،روزہ بھی رکھتے ہیں، لمبے لمبے قیام اللیل کرتے ہیں مگر غیراللہ کوپکارتے ہیں، اللہ کو چھوڑ کو اوروں کو مشکل کشا سمجھتے ہیں ۔ بیماری اور مصیبت میں مردوں سے استغاثہ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا روزہ کیسے قبول ہوگا؟ گویا ایسے عقیدے والوں کا مکمل رمضان اور اس کی نیکیاں ضائع ہوگئیں۔ اللہ تعالی کا فرمان لاریب ہے ۔
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الزمر:65)
ترجمہ : یقیناً تیری طرف بھی اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو بلاشبہ تیرا عمل ضائع ہو جائے گا اور بالیقین تو زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔
اس لئے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں۔
(4) پیش قدمی
اس کے دو پہلو ہیں ۔ (الف)منکر سے اجتناب (ب) معروف کی رغبت
(الف) منکر سے اجتناب: رمضان کے استقبال میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہم پہلے اپنے گذشتہ گناہوں سے سچی توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم مصمم کرلیں۔ دیکھا جاتا ہے لوگ ایک طرف نیکی کرتے ہیں تو دوسری طرف بدی کرتے ہیں ۔ اس طرح اعمال کا ذخیرہ نہیں بن پاتا بلکہ بدی کے سمندر میں ہماری نیکیاں ڈوب جاتی ہیں ۔ ویسے بھی ہمارے پاس نیکیوں کی کمی ہے وہ بھی ضائع ہوجائے تو نیکی کرنے کا فائدہ کیا؟ اس لئے نیکی کی اگر حفاظت چاہتے ہیں اور رمضان المبارک کی برکتوں، رحمتوں، نعمتوں، بخششوں اور حسنات کو بچانا چاہتے ہیں تو بدی سے مکمل اجتناب کرنا پڑے گا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے ۔
قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ (التوبة:53)
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ تم خوشی یا ناخوشی کسی بھی طرح خرچ کروقبول تو ہرگز نہ کیا جائے گا، یقینا تم فاسق لوگ ہو۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی فسق وفجور اور ناپسندیدگی سے خرچ کرنےکی وجہ سے صدقہ کو قبول نہیں کرتا۔
اورحدیث میں ہے صحابہ بیان کرتے ہیں :
كنا معَ بُرَيدَةَ في يومٍ ذي غَيمٍ، فقال : بَكِّروا بالصلاةِ، فإن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال : مَن ترَك صلاةَ العصرِ حَبِط عملُه(صحيح البخاري:594)
ترجمہ: ہم لوگ بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی غزوۂ میں بارش والے دن تھے تو انہوں نے کہا کہ نماز عصر جلدی پڑھو، اس لیے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے تو اس کا (نیک) عمل ضائع ہو جاتا ہے۔
جو آدمی عبادت بھی کرے اور گناہ کا کام بھی کرے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا نیک عمل مردود ہے ۔" إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ "(العنکبوت :45)
اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز بےحیائی وبرائی کے کام سے روکتی ہے توجونمازیا روزہ بے حیائی سے نہ روکے وہ اللہ کے یہاں قابل رد ہے ۔
(ب)  معروف کی رغبت
رمضان بھلائی کمانے کے واسطے ہے ، اللہ تعالی مومنوں کو متعدد طریقے سے اس مہینے میں بھلائی سے نوازتاہے ، ہمیں ان بھلائیوں کے حصول کی خاطر رمضان سے پہلے ہی کمربستہ ہوجانا چاہئے اور مواقع حسنات سے مستفید ہونے کے لئے برضا ورغبت ایک خاکہ تیار کرنا چاہئے تاکہ ہرقسم کی بھلائیاں سمیٹ سکیں ۔ سمجھ کر قرآن پڑھنے کا اہتمام(کم از کم ایک ختم) ، پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ نفلی عبادات ، صدقہ وخیرات، ذکرواذکار، دعاومناجات، طلب عفوودرگذر، قیام اللیل کا خاص خیال،روزے کے مسائل کی معرفت بشمول  رمضان کے مستحب اعمال، دروس وبیانات میں شرکت، اعمال صالحہ پہ محنت ومشقت اور زہدوتقوی سے مسلح ہونے کا مکمل خاکہ ترتیب دیں اور اس خاکے کے مطابق رمضان المبارک کا روحانی ومقدس مہینہ گذاریں ۔
رمضان میں ہرچیز کا ثواب دوچندہوجاتا ہے اور روزے کی حالت میں کارثواب کرنا مزید اضافہ حسنات کا باعث ہے ، اس لئے اس موسم میں معمولی نیکی بھی گرانقدر ہے خواہ مسکواک کی سنت ہی کیوں نہ ہو۔ ہر نماز کے لئے مسکواک کرنا، اذان کا انتظار کرنا بلکہ پہلے سے مسجد میں حاضررہنا،تراویح میں پیش پیش رہنا، نیکی کی طرف دوسروں کو دعوت دینا، دروس ومحاضرات کا اہتمام کرنا،منکر ات کے خلاف مہم جوئی کرنا اور صالح معاشرہ کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرنا سبھی ہمارے خاکے کا حصہ ہوں۔
(5) بہتر تبدیلی
استقبال رمضان کے لئے خود کو مکمل تیار کریں، نیکی کا جذبہ وافر مقدار میں ہواور اپنے اندر اچھائی کے تئیں ابھی سے ہی بدلاؤ نظر آئے ۔ پہلے سے زیادہ سچائی اور نیکی کی راہ اختیار کرے ۔ رمضان چونکہ رمضان ہے اس لئے اس سے قبل ہی بہتری  کااظہارشروع ہونے لگ جائے ۔ تقوی کے اسباب اپنائے اور خود کو متقی انسان بنانے پہ عبادت کے ذریعہ جہد کرنے کا مخلصانہ جذبہ بیدار کرے ۔ یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اپنے اندر بہتری پیداکرنے کی خوبی اور خاصہ صرف رمضان کے لئے نہیں بلکہ سال بھر کے لئے پیدا کرے ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو رمضان کے نمازی ہواکرتے ہیں اور رمضان رخصت ہوتے ہی نماز سے بلکہ یہ کہیں اللہ سے ہی غافل ہوجاتے ہیں ۔اس لئے ابھی سے ہی یہ راہ مہیارہے کہ اچھائی کے لئے بدلاؤ مہینہ بھر کے لئے نہیں سال بھر بلکہ زندگی بھر کے لئے ہو۔ اسی طرح کا بدلاؤ رمضان کے سارے اعمال کو اللہ کے حضور شرف قبولیت سے نوازے گا اورآپ کی اخروی زندگی کو بہتر سے بہترکرے گا ۔
آخری پیغام
رمضان کے استقبال کے لئے کوئی خاص دعا، خاص عبادت  وروزہ یا کوئی مخصوص ومتعین  طریقہ شریعت میں وارد نہیں ہواہے ۔ حدیث میں رمضان کے استقبال میں ایک دو دن پہلے کا روزہ رکھنا منع ہے ۔ لہذا دین میں کسی طرح کی بدعت کے ارتکاب سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔

اللہ تعالی ہمیں رمضان کا بہترین استقبال کرنے ، اس مہینے سے ہرطرح کا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے اور رمضان میں بکثرت اعمال صالحہ انجام دینے  کی توفیق دے اور ان اعمال کو آخرت میں نجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین

رمضان المبارک کے فضائل
رمضان المبارک بندۂ مومن کے لئے  اللہ تعالی کی طرف سے باعث سعادت ہے ۔ یوں تو اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے بہتیرے مواقع ایسے ہیں جو باعث اجروثواب ہیں مگررمضان مقدس کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ یہ رحمت وبرکت سے لبریز،بخشش وعنایت سے پر،مغفرت ورضوان کا مہینہ ہے ۔ اس کا ایک ایک دن اورایک ایک رات اور رات ودن کا ایک ایک لمحہ خیروبرکت سے معطر ہے ۔
روزہ گوکہ سال میں ایک دفعہ اور فقط ایک مہینہ کے لئے آتا ہے مگر اس کے فیوض وبرکات اور آثارو نتائج کم ازکم سال بھرپر مرتب ہوتے ہیں ۔
قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں رمضان اور روزہ کے بے شمار فضائل ہیں ، انمیں سے چند ایک آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
(1)  رمضان میں قرآن کریم کا نزول :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ
ترجمہ : ماہ رمضان وہ (مقدس) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں راہنمائی اور حق و باطل میں امتیاز کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جو اس (مہینہ) میں (وطن میں) حاضر ہو (یا جو اسے پائے) تو وہ روزے رکھے ۔
(2) رمضان میں روزے کی فرضیت :
مذکورہ بالا آیت جو نزول قرآن سے متعلق ہے اس آیت میں روزے کی فرضیت کی بھی دلیل ہے ۔
(3) جنت کا دروازہ کھلنا:
(4) جہنم کا دروازہ بند ہونا:
(5) شیاطین کا قید کیا جانا:
مذکورہ بالا تینوں خصائص کی دلیل :
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
إذا جاء رمضان , فتحت أبواب الجنة وغلقت أبواب النارو صفدت الششياطين – (صحیح مسلم :1079)
ترجمہ : جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دورازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین مقید کردئے جاتے ہیں ۔
مسلم شریف میں بایں طور بھی مروی ہے :
اذاکان فتحت ابواب الرحمۃ وغلقت ابواب جہنم وسلسلت الشیاطین .(صحیح مسلم :1079)
ترجمہ : رحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین مقید کردئے جاتے ہیں ۔
(6) شب قدر :
اسی ماہ مبارک میں لیلة القدر ہوتی ہے، جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴾ (القدر: 3)
ترجمہ : شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
مجاہد ؒ کا قول  ہے : اس رات کا عمل ، روزہ اور قیام  ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے (تفسیرالقرآن العظیم 4/ 687)
یعنی ایک رات کی عبادت کم از کم تراسی سال چار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ، زیادہ کا کوئی شمار نہیں ۔
(7) مغفرت کا حصول :
جو ایمان و یقین اور اجروثواب کی نیت سے روزہ رکھے اس کے لئے پچھلے گناہوں سے مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔
(8) قیام کرنے والوں کے لئے مغفرت کا حصول :
جو ایمان و یقین اور اجروثواب کی نیت سے رمضان شریف کی راتوں میں قیام کرے  تواس کو سابقہ گناہوں سے گلوخلاصی ملتی ہے ۔
(9) شب قدرمیں قیام کرنے سے مغفرت :
چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه،‏‏‏‏ ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ‏(صحیح بخاری :2014، صحیح مسلم: 760)
ترجمہ : جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب (حصول اجر و ثواب کی نیت) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور جو لیلۃالقدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔  
(10) جہنم سے آزادی :
ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
"للہ عند کل فطرعتقاء " (رواہ احمد وقال الالبانی ؒ : حسن صحیح )
ترجمہ : اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے ۔
ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک روایت جسے علامہ البانی ؒ نے حسن قرار دیاہے اس میں مذکور ہے کہ ہررات اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔
روایت اس طرح ہے : إنَّ للَّهِ عندَ كلِّ فِطرٍ عتقاءَ وذلِك في كلِّ ليلةٍ ( صحيح ابن ماجه:1340)
ترجمہ: اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے، یہ آزادی ہررات ملتی ہے۔
(11) دعا کی قبولیت :
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ان للہ تبارک وتعالی عتقاء فی کل یوم و لیلۃ یعنی فی رمضان – وان لکل مسلم فی کل یوم ولیلۃ دعوۃ مستجابۃ (صحیح الترغیب للالبانی: 1002)
ترجمہ : بے شک اللہ تعالیٰ( رمضان المبارک میں) ہردن اورہررات بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اورہردن اورہررات ہرمسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے۔
(12) روزہ کا بدلہ بے حدوحساب :
(13) روزہ دار افطار کے وقت اور رب سے ملاقات کے وقت فرحت محسوس کرتا ہے :
(14) روزہ دار کے منہ کی بدبواللہ کے نزدیک مشک سے بہتر ہے :
ابوہریرہؓ سے مروی ہے :
قال اللهُ : كلُّ عملِ ابنِ آدمَ لهُ إلا الصيامَ ، فإنَّه لي وأنا أُجْزي بهِ, والصيامُ جُنَّةٌ ، وإذا كان يومُ صومِ أحدِكُم فلا يَرْفُثْ ولا يَصْخَبْ ، فإنْ سابَّه أحدٌ أو قاتَلَهُ فلْيقلْ : إنِّي امْرُؤٌ صائمٌ, والذي نفسُ محمدٍ بيدهِ لَخَلوفِ فمِ الصائمِ أطيبُ عندَ اللهِ من ريحِِ المسكِ ,للصائمِ فَرْحتانِ يفرَحْهُما إذا أَفطرَ فَرِحَ ، وإذا لقي ربَّه فَرِحَ بصومِهِ(صحيح البخاري:1904و صحيح مسلم:1151)
ترجمہ : اللہ تعالی فرماتا ہے : روزہ کے علاوہ ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لئے ہیں اور روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا۔ روزہ ڈھال ہے ۔ جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہوتو وہ کوئی گناہ کا کام نہ کرے اور نہ وہ جھگڑا اور نہ ہی شور وشرابہ کرے ۔ اگر کوئی دوسرا اس سے زبان درازی کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ، روزہ دار کے منہ کی ہوا اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بہتر ہے ۔ روزہ دار کے لئے دوخوشیاں ہیں ایک تو جب روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا ۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح مذکورہے :
كلُّ عملِ ابنِ آدمَ يضاعَفُ الحسَنةُ بعَشرِ أمثالِها إلى سَبعِ مائةِ ضِعفٍ إلى ما شاءَ اللَّهُ يقولُ اللَّهُ إلَّا الصَّومَ فإنَّهُ لي وأنا أجزي بِه يدَعُ شَهوَتَه وطَعامَه مِن أجلي (صحيح ابن ماجه:1335)
ترجمہ : ابن آدم کے ہرعمل کا بدلہ بڑھاکر دیا جاتاہے ، نیکی (بدلہ ) دس گنا سے سات سو گنا لکھی جاتی ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے : سوائے روزے کے کہ یہ خالص میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ وہ خواہشات اور کھانے کو میرے لئے ترک کرتا ہے ۔
(15) روزہ دار کے لئے جنت میں مخصوص دروازہ :
" عن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ان فی الجنۃ بابا یقال لہ الریان ، یدخل فیہ الصائمون یوم القیامۃ ، لایدخل منہ احد غیرھم ، فاذا دخلوا اغلق فلم یدخل منہ احد ( صحیح البخاری:1896،صحیح مسلم :1152 )
ترجمہ : سیدنا سہل بن سعد ؓنبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بے شک جنت
میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے ، قیامت کے دن اس میں روزہ داروں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ اس میں داخل ہوجائیں گے تو اس دروازہ کو بند کردیا جائے گا، پھر اس میں کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا ۔
ترمذی میں ان الفاظ کی زیادتی ہے : " ومن دخلہ لم یظما ابدا" جو اس میں داخل ہوگیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔روایت دیکھیں ۔
إنَّ في الجنَّةِ لَبابًا يُدعى الرَّيَّانَ . يُدعى لَه الصَّائمونَ ، فمَن كانَ مِنَ الصَّائمينَ دخلَهُ ، ومن دخلَهُ لَم يظمأْ أبدًا(صحيح الترمذي:765)
ترجمہ: جنت میں ایک دروازہ ہے اس کا نام ریان ہے ، اس دروازے سے روزہ داروں کو پکارا جائے گا۔ جوروزہ داروں میں سے ہوگاوہ اس میں سے داخل ہوگا اور جو اس میں داخل ہوگیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
(16) روزہ جہنم سے ڈھال ہے :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال : الصیام جنۃ وحصن حصین من النار (صحیح الجامع : 3880)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: روزہ  ڈھال ہے اور جہنم سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ ہے ۔
(17) روزہ خیروبرکت کا دروازہ :
عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال : الا ادلکم علی ابواب
 الخیر ؟ قلت : بلی یا رسول اللہ ! قال : الصوم جنۃ ، الصدقۃ تطفی الخطیئۃ کما یطفی الماء النار (رواہ الترمذی وقال الالبانی ؒ : صحیح لغیرہ )
ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں خیر کے دروازوں کی خبر نہ دوں ، میں نے کہا کیوں نہیں ، اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے ۔ صدقہ گناہوں کوویسے ہی مٹادیتا ہے جیسےپانی آگ  کو  ۔
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی ؒ نے اس صحیح لغیرہ قرار دیا ہے ۔
(18) روزہ باعث سفارش :
عن عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : الصیام والقرآن یشفعان للعبد یوم القیامۃ ، یقول الصیام : ای رب ، منعتہ الطعام والشھوۃ فشفعنی فیہ ، ویقول القرآن : ای رب ، منعتہ النوم باللیل فشفعنی فیہ ۔ قال : فیشفعان ( رواہ احمد والطبرانی وصححہ البانی ؒ )
ترجمہ : روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔
اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی ؒ نے صحیح قرار دیاہے ۔
(19) روزہ کی کوئی برابری نہیں :
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں:
أتيتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فقلتُ مُرني بأمرٍ آخذُهُ عنْكَ قالَ عليْكَ بالصَّومِ ، فإنَّهُ لا مثلَ لَه(صحيح النسائي:2219)
  کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی بات بتائیں کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالی ہمیں نفع پہنچائے تو آپ نے فرمایا:
" علیک بالصوم فانہ لامثل لہ " تم روزہ رکھو کیونکہ اس کے مثل کوئی چیز نہیں ۔
(20) روزہ تقوی کا ذریعہ :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ   (سورة البقرة:183)
ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
(21) جہنم سے دوری :
بندہ جس قدر روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اس کے اورجہنم کے درمیان اسی قدر دوری بڑھاتاہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : 
من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا۔  (صحیح البخاری:2840)
ترجمہ : جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو
 جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔
سبیل اللہ سے کیا مراد ہے ؟ اس سے متعلق علماء میں دو رائیں ہیں ۔ پہلی رائے جہاد ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن عثیمینؒ بھی ہیں۔ دوسری رائے اللہ کی خوشنودی ہے اس کے قائلین میں شیخ ابن بازؒ ہیں۔ 
ویسے سبیل اللہ کا عام طور سے اطلاق جہاد پر ہی ہوتا ہے ساتھ ہی بسااوقات طاعت کے کاموں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اس وجہ سے یہاں عام معنی یعنی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طور پر مراد لینا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنا معنی ہوگا۔
یہ ایک دن کا بدلہ ہے اور جب بندہ ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے ، یا سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھے ، یا پھر ہرمہینے کم ازکمتین روزہ رکھے تو ان کا کیا حال ہوگا؟۔
(22) رمضان میں عمرہ حج کے برابر: 
اس مہینہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں عمرہ کا ثواب حج کے برابرہوتاہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا:
 فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِیْ، فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْہِ تَعْدِلُ حَجَّۃً۔(صحیح مسلم :1256)
ترجمه : جب ماہِ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کرلینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابرہوتا ہے.
ایک دوسری روایت میں رمضان میں عمرہ کرنا رسول اللہﷺ کے ساتھ عمرہ کرنے کے برابر کہا گیا ہے چنانچہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْ رَمَضَانَ تَقْضِیْ حَجَّۃً مَّعِیْ۔(صحیح البخاری:1863)
ترجمہ: رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کی قضا ہے۔
یہ تھے چند فضائل ، رمضان اور روزہ سے متعلق اب مضمون کے دوسرے حصے روزہ کے احکام و مسائل کی طرف التفات کرتے ہیں ۔


رمضان المبارک کے مسائل
 رویت ہلال کے مسائل
اسلامی عبادات کا رویت ہلال سے گہرا تعلق ہے خصوصا روزے کا ۔ روزہ رکھنا، افطارکرنا، عیدمناناسب قمری چاند پہ منحصر ہیں۔
اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ." (سورة البقرة: 189)
ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔
نبی ﷺ کا ارشاد ہے : صوموا لرؤيتِه . وأفطروا لرؤيتِه . فإنْ أُغمْيَ عليكم فاقْدروا له ثلاثينَ (صحيح مسلم:1080)
ترجمہ : چاند دیکھ کر روزہ رکھو اورچاند دیکھ کر افطار کرو۔ اگر بدلی چھاجائے تو (شعبان کے ) تیس (دن) پورے کرو۔
اس لئے مسلمانوں کو ہرمہینہ چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے خصوصا اہم مہینےرمضان ،شوال ،ذوالحجہ وغیرہ۔
٭ چاند دیکھنے کی دعا: اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه (السلسلہ الصحیحہ: 1816)
٭ 29 کا چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کئے جانے کے بعد روزہ رکھا جائے گا۔
اوپر والی حدیث اس کی دلیل ہے۔
٭ہرشخص کا چاند دیکھنا ضروری نہیں ہے ،کسی علاقے میں ایک عادل مسلمان کا چاند دیکھنا کافی ہے ۔ دلیل : عن ابنِ عمرَ قال : تراءَى النَّاسُ الهلالَ فأخبرتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ علَيهِ وسلَّمَ أنِّي رأيتُه فَصامَه وأمر النَّاسَ بصيامِهِ(صحيح أبي داود للالبانی :2342)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے چاند دیکھنا شروع کیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔
٭ ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ دلیل :
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت
معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کا چاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے ، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔
صحیح مسلم کا باب : باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ(اس بات کے بیان میں کہ ہرشہروالے کے لئے الگ رویت ہوگی ، جب ایک شہر والے چاند دیکھ لیں تو یہ ان لوگوں کے لئے حکم ثابت نہیں ہوگا جو اس شہرسےدور ہیں)
ترمذی کا باب : باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ( باب اس بات کے بیان میں کہ ہر شہر
 والے کے لئے الگ رویت ہوگی)
نسائی کا باب: باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ (رویت کے سسلسلے میں اہل آفاق کے اختلاف کا باب)
٭پرنٹ میڈیا یا الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ چاند کی خبر پانے پہ یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ خبر عادل مسلمان یا باوثوق ادارے کی طرف سے ہے کہ نہیں؟
٭ہندوستان، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش  وغیرہ یعنی جس جس ملک میں سعودی عرب سے مطلع کا فرق پڑتا ہے وہاں کے لوگ سعودی عرب کے حساب سے نہ روزہ رکھیں گے نہ ہی عید منائیں گے ۔
٭  بعض علاقے میں چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات ہوتی ہے ایسے ملک والے قریبی ملک کے حساب سے اوقات کا تعین کرکے  روزہ ،افطار اور نماز  ادا کریں گے۔
نیت صیام کے مسائل
تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے لہذا روزے کی قبولیت کے لئے اچھی نیت کا ہونا ضروری ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :قُل أَتُعَلِّمونَ اللَّهَ بِدينِكُم وَاللَّهُ يَعلَمُ ما فِى السَّمٰو‌ٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ 
ۚ(الحجرات:16)
ترجمہ : ان سے کہو کیا تم اللہ کو اپنی دین داری جتلاتے ہو اور اللہ تو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں سے واقف ہے۔
گویا نام لیکر اپنے عملوں کو بتلانے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالی ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وہ تو
سینوں کے بھید کو بھی جانتا ہے ۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنما الأعمالُ بالنياتِ، وإنما لكلِّ امرئٍ ما نوى، فمن كانت هجرتُه إلى دنيا يصيُبها، أو إلى امرأةٍ ينكحها، فهجرتُه إلى ما هاجر إليه(صحيح البخاري:1)
ترجمہ : بے شک اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ جس نے دنیا پانے پانے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی کام کے لئے ہے جس کی طرف ہجرت کی ۔
٭نیت کا تعلق دل سے ہے لہذا الفاظ کے ذریعہ زبان سے بول کر نیت کرنا بدعت ہےکیونکہ کسی نص سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے اور بدعت کا ٹھکانہ جہنم ہے  ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : كلَّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلَّ ضلالةٍ في النَّارِ(صحيح النسائي:1577)
ترجمہ :ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ (جہنم) میں ہے۔
٭اعمال کی قبولیت کے لئےزبانی الفاظ کی نہیں بلکہ سچی نیت(اخلاص) اور نبی ﷺ کی سنت کی پیروی کی ضرورت ہے ۔ جس کا ذکراللہ کے اس فرمان  میں ہے :
فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكهف:110)
ترجمہ : تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ کرے۔
٭ پورے رمضان کی اکٹھے نیت درست نہیں ہے بلکہ ہرروزے کی الگ الگ نیت کرے ۔ نیت کا وقت مغرب کے بعد سے فجر تک ہے ۔ اس دوران کسی بھی وقت روزے کی نیت
کرلے ۔رات میں نیت کرنے کی دلیل:
نبی ﷺ کا فرمان ہے : من لم يبيِّتِ الصِّيامَ منَ اللَّيلِ فلا صيامَ لَه(صحيح النسائي: 2333)
ترجمہ: اس شخص کا روزہ نہیں جس نے رات ہی سے روزہ کی نیت نہ کی ہو۔
فجر سے پہلے پہلے روزہ کی نیت کرنے کی دلیل :
مَن لم يُجمعِ الصِّيامَ قبلَ الفجرِ فلا صيامَ لَهُ(صحيح أبي داود: 2454)
ترجمہ: جس نے فجر سے پہلے پہلے روزے کی نیت نہیں کی اس کا روزہ نہیں ۔
ان دونوں احادیث سے جہاں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ہرروزے کی نیت الگ الگ ہونی چاہئے وہیں اس بات کا بھی عمل ہوتاہے کہ روزے کی
 نیت کا وقت رات سے لیکر فجر تک ہے ۔
٭ لوگوں میں روزے کی نیت کے مختلف الفاظ معروف ہیں وہ الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں۔
(1) نویت أن أصوم غدا(میں کل کا روزے رکھنے کی نیت کرتاہوں)
(2) بِصَوْمٍ غَدٍ نَّوَیْتُ(کل کے روزے کی نیت کرتاہوں)
(3) وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَيْتَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ(اور میں رمضان مہینے کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں)
نیت کے یہ مختلف تینوںطریقےکسی حدیث سے ثابت نہیں  ہیں بلکہ اس تعلق سے کوئی ضعیف یا موضوع روایت بھی نہیں ملتی  ،انہیں گھڑاگیاہے۔ نیت کے الفاظ خود ہی بتلاتے ہیں کہ ہم خودساختہ ہیں ۔ ان الفاظ میں لفظ "غد" (جو کہ کل کے معنی میں ہے ) کیسے صحیح ہوسکتا ہے جبکہ روزہ آج کا ہوتا ہے ۔
تنبیہ : بعض لوگ امت کو نیت کے نام پہ ایسے اعمال کا درس دیتے ہیں جو نہ صرف باعث مشقت ہیں بلکہ تضییع اعمال کا  سبب بھی ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ کتنے لوگ اس لئے نماز نہیں پڑھتے کہ انہیں نماز کی  خودساختہ نیت نہیں آتی ۔امت کو اس عمل کی حقیقت سے روشناس کرنا ہوگا اورخودساختہ کتاب "نیت نامہ " کا وجود ختم کرنا ہوگا۔
سحری کے مسائل
روزے کی صحت کے لئے سحری کھانا ضروری نہیں ہے تاہم سحری کھانا مسنو ن ہے اس لئے سحری کھائے بغیرروزہ نہیں رکھناچاہئے ، اس سے روزہ دار کو طاقت وقوت ملتی ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔ تسحَّروا، فإن في السَّحورِ بركةً (صحيح البخاري:1023،صحيح مسلم:1095)
ترجمہ: سحری کھاؤ کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
السُّحورُ أكلةُ بركةٍ فلا تدعوهُ ولو أن يَجرعَ أحدُكم جرعةَ ماءٍ فإنَّ اللهَ وملائكتَهُ يُصلُّونَ على المتسحِّرينَ(السلسلة الصحيحة:7/1206 )
ترجمہ: سحری تمام تر برکت ہے لہذا اس کو نہ چھوڑوخواہ تم میں سے کوئی ایک گھونٹ پانی ہی پی لے کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پہ رحمت بھیجتے ہیں۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ حدیث میں مذکور برکت کی بایں طور وضاحت کرتے ہیں۔ اس برکت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
# اس میں سنت کی پیروی ہے۔
#اہل کتاب کی مخالفت ہے۔
# اس سے عبادت پر قوت حاصل ہوتی ہے۔
# چستی میں اضافہ ہوتا ہے۔
#بھوک کی وجہ سے متوقع بدخلقی سے نجات مل جاتی ہے۔
#اگر سحری کے وقت کوئی سائل آجائے تو صدقہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔
#قبولت دعاء کے اوقات میں ذکرودعاء کا موقع مل جاتاہے،
# شام کو کوئی روزہ کی نیت کرنا بھول گیا تو اسے نیت کرنے کا موقع مل جاتاہے۔[فتح الباري لابن حجر 4/ 140]
٭ سحری کھانے کی کوئی خاص دعا نہیں ہے ، سحری سے پہلے بس روزے کی نیت کرنی ہے اگر رات میں نیت نہ کی ہوتو۔
٭بعض لوگ سحری نہیں کھاتے، بعض لوگ رات کا کھانا سحری سمجھ کر کھاتے ہیں اور بعض لوگ آدھی رات میں اٹھ کے کھالینے کو سحری سمجھتے ہیں ۔ ان تمام طریقوں میں سحری کی سنت مفقود ہے ۔
٭ سحری کا صحیح وقت فجر سے کچھ پہلے ہے ۔
 تسَحَّرْنا معَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، ثم قام إلى الصلاةِ، قلتُ : كم كان بينَ الأذانِ والسُّحورِ ؟ . قال : قدْرَ خمسينَ آيةً (صحيح البخاري:1921)
ترجمہ: صحابی رسول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔
٭ اگر کبھی سحری کھاتے کھاتے فجر کی اذان ہوجائے تو کھانا نہ چھوڑے  بلکہ پلیٹ کا کھانا صاف کرلے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا سمعَ أحدُكُمُ النِّداءَ والإناءُ على يدِهِ ، فلا يَضعهُ حتَّى يقضيَ حاجتَهُ منهُ(صحيح أبي داود:2350)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی (فجر) کی اذان سنے اوربرتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے رکھے نہیں بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔
اس میں دو باتیں دھیان دینے کے لائق ہیں ۔
اولا : اس طریقہ کو معمول نہ بنائے ۔
 ثانیا: اس حدیث میں اس اذان کا ذکر ہے جوصحیح وقت پر ہو ۔ جن مساجد میں فجر کی اذان صحیح وقت پر نہیں ہوتی بلکہ تاخیر سے ہوتی ہےوہ اس  حکم میں داخل نہیں۔
٭ سحری کے لئے طہارت شرط نہیں اس لئے اگر احتلام ہوگیا ہویا جماع کیا ہوتو اس حالت میں سحری کھاسکتے ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ۔
أشهَدُ على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إنه كان لَيُصبِحُ جُنُبًا، من جِماعٍ غيرِ احتِلامٍ، ثم يصومُه . (صحيح البخاري:1931)
ترجمہ : میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کئے بغیر روزہ رکھ لیتے۔
تاہم صبح ہی غسل کرلے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے ۔ اگر آنکھ لگ گئی فجر کے بعد دن میں بیدار ہوئے تو روزے پہ کچھ اثر نہیں پڑا ۔ فورا غسل کرلے اور فجر کی نماز ادا کرلے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
من نسي صلاةً أو نام عنها ، فكفارتُها أن يصليها إذا ذكرها(صحيح مسلم:684)
ترجمہ : جو نماز بھول جائے یا نماز سے سوجائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے ادا کرلے۔
افطار کے مسائل
افطار کرنا نبی ﷺ کی سنت ہے ۔ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لاَ يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الفِطْرَ(صحیح البخاري 1957)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ جلدی افطاری کرتے رہیں گے ۔
٭ افطار میں جلدی کرنا چاہئے یعنی سورج ڈوبتے ہی فورا افطار کرنا چاہئے ۔ اوپر والی حدیث اس بات کی دلیل ہے ۔
٭لوگوں میں مشہور افطار کی دعا " اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ" مرسل ہونے
کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ شیخ البانی نے ابوداؤد کی حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ 
دیکھیں(ضعيف أبي داود:2358)
٭ افطار کرتے وقت بسم اللہ کہیں اور افطار کے بعد یہ دعا پڑھیں :
ذَهَبَ الظَّمأُ وابتلَّتِ العُروقُ وثبَتَ الأجرُ إن شاءَ اللَّهُ(صحيح أبي داود:2357)
ترجمہ: پیاس بجھ گئی ، رگیں تر ہوگئی ، اوراللہ نے چا ہا تو اجربھی ثابت ہوگیا۔
٭ افطار کرانا بڑے اجر کا کام ہے ۔ حدیث پاک میں ہے نبی پاک ﷺ نے فرمایا:
مَن فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ ، غيرَ أنَّهُ لا ينقُصُ من أجرِ الصَّائمِ شيئًا(صحيح الترمذي:807)
ترجمہ: جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں‌ سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
جب کوئی کسی دوسرے کے یہاں افطار کرے تو یہ دعا پڑھے :
أفطرَ عندَكُمُ الصَّائمونَ ، وأكَلَ طعامَكُمُ الأبرارُ ، وصلَّت عليكمُ الملائِكَةُ(صحيح أبي داود:3854)
ترجمہ: تمہارے پاس روزے داروں نے افطاری کی، نیک لوگوں نے تمہارا کھانا کھایا اور تم پر فرشتوں نے رحمت بھیجی ۔
٭ غلطی سے وقت سے پہلے افطار کرنے والوں کو چاہئے کہ جیسے ہی غلطی کا علم ہو فورا کھانا ترک کردے ، اس پہ کوئی گناہ اور کوئی کفارہ نہیں ہے۔ جیساکہ نبی ﷺ فرمان ہے :
من أكل ناسيًا ، وهو صائمٌ ، فليُتِمَّ صومَه ، فإنما أطعمَه اللهُ وسقاهُ(صحيح البخاري:6669)
ترجمہ: جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھا لیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنا روزہ مکمل کرے ۔ یقینًا اللہ ہی نے اسے کھلایا اور پلایا ہے ۔
لیکن عمدا ایسا کرنے  سے روزہ باطل ہوجائے گا اور ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے ۔
٭ غیر مسلم اگر حلال کمائی سے افطار کرائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے گردینی مصلحت ہو لیکن اگراسلام کے لئے برے ہوں تو بچنا بہترہے ، اسی طرح جو لوگ افطار کو سیاست سے جوڑتے ہیں اور افطار پاڑتی کرتے ہیں اس سے بھی پرہیز بہتر ہےتاکہ عبادت عبادت ہی رہے ۔
٭ ہوائی جہاز میں سفر کرنے والوں کو بھی اس وقت تک افطار نہیں کرنا ہے جب تک سورج نظر آئے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إذا أقبل الليلُ من ها هنا، وأدبر النهارُ من ها هنا، وغربتِ الشمسُ، فقد أفطر الصائِمُ(صحيح البخاري:1954)
ترجمہ : جب ادھر رات بڑھ آئے اور ادھر سے دن پیچھے ہٹ جائے اور سورج ڈوب جائے تو اس وقت روزہ دار روزہ افطار کرے۔
 ٭ مسلمانوں کے بعض طبقات میں افطار کے لئے پانچ سے دس منٹ تک کا احتیاط کیاجاتا ہے ، اسی حساب سے یہ لوگ اپنے افطار کا کلینڈر بناتے ہیں ۔ اس لئے میں عام مسلمانوں کو باخبر کرنا چاہتاہوں کہ یہ سنت کی مخالفت ہے بلکہ افطار میں احتیاط کو رواج دینا بدعت کا ارتکاب ہے ۔سورج ڈوبتے ہی ہمیں بغیر احتیاط کئے فورا افطار کرنا چاہئے ۔یہی مسنون
 ومطلوب ہے اور اس میں اہل کتاب کی مخالفت بھی ہے۔
لا يزالُ الدِّينُ ظاهرًا ما عجَّلَ النَّاسُ الفِطرَ لأنَّ اليَهودَ والنَّصارى يؤخِّرونَ(صحيح أبي داود:2353)
ترجمہ: دین اس وقت تک غالب رہے گا، جب تک لوگ افطاری جلد کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطاری مؤخر کرتے ہیں۔
روزے کے مفسدات :
وہ امور جن سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ۔
٭بلاعذر قصدا ( نہ کہ بھول کر یا جبرا)دن میں کھا پی لینے سے روزۃ ٹوٹ جاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من أكل ناسيًا ، وهو صائمٌ ، فليُتِمَّ صومَه ، فإنما أطعمَه اللهُ وسقاهُ(صحيح البخاري:6669)
ترجمہ: جس شخص نے روزہ کی حالت میں بھول کر کھا لیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنا روزہ مکمل کرے ۔ یقینًا اللہ ہی نے اسے کھلایا اور پلایا ہے ۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے بھول کر کھاپی لینے والا کا روزہ صحیح ہے مگر عمدا کھانے پینے والا کا روزہ باطل ہوجائے گا۔
بلاعذر شرعی عمدا رمضان کے دن میں کھاپی لینا کبیرہ گناہ ہے ۔ اس سلسلے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:"بغیر عذر کے رمضان کا روزہ چھوڑنا کبیرہ ترین گناہ ہے، اس عمل کی وجہ سے انسان فاسق ہو جاتا ہے، اس پر اللہ تعالی سے توبہ کرنا ضروری ہے، اور اس دن کی جلد
از جلد قضا بھی دے"۔(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین19/ 89(
صحیح قول کی روشنی میں  ایسے آدمی کا حکم یہ ہےکہ وہ صرف اس روزے کی قضا کرے گا جو توڑا ہے اور گناہ کبیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے سچے دل سے توبہ کرنا ہے ۔
٭ بلاعذربحالت روزہ قصدا جماع کرنے سے روزہ باطل ہوجاتاہے۔ اس کی قضا اور کفارہ دونوں ہے ۔
 کفارہ : ایک غلام آزادکرنا یا دو مہینے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ قَالَ مَا لَكَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا قَالَ لا قَالَ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لا فَقَالَ فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لا قَالَ فَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ ( وهو الزنبيل الكبير ) قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ فَقَالَ أَنَا قَالَ خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَوَ اللَّهِ مَا بَيْنَ لابَتَيْهَا يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ (صحيح البخاري :1936)
ترجمہ: ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ” عرق زنبیل کو کہتے ہیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے ( محتاجوں کو ) کھلادے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔
٭ حیض ونفاس آنے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
أَلَیْسَ إِذَا حَاضَتِ الْمَرْأَة لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ (صحیح البخاري:293)
ترجمہ: کیا ایسانہیں، جب عورت حائضہ ہوجاتی ہے وہ نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے۔
رمضان بعد عورت کو بس روزے کی قضا کرنی ، نماز کی قضا نہیں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
كنَّا نَحيضُ على عَهْدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ، ثمَّ نَطهرُ ، فيأمرُنا بقضاءِ الصِّيامِ ، ولا يأمرُنا
بقضاءِ الصَّلاةِ(صحيح الترمذي:787)
ترجمہ: ہم عہد نبویﷺ میں حائضہ ہوجاتی تھیں، پس ہمیں روزے کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا جب کہ نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
بعض عورتیں روزہ رکھنے کی وجہ سے حیض روکنے والی گولی کھاتی ہیں اس سے پرہیز کرنا چاہئے  کیونکہ ایک طرف یہ گولی نقصان دہ ہے تو دوسری طرف حیض بنات آدم کی فطرت میں سے ہے اسے اپنے حال پہ چھوڑ دینا چاہئے  الا یہ کہ شدید ضرورت ہو۔
اگر عورت روزے سے ہو اور دن میں کسی وقت یا مغرب سے پہلے حیض آجائے تو روزہ فاسد ہوگیااور جب حیض سے دن میں پاک ہوجائےتو دن کا بقیہ حصہ بلاکھائے گذارے لیکن اس دن کی بھی قضا کرنی ہے۔
٭ قصدا قے کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، بعد میں اس روزےکی قضا کرنی ہوگی ۔ نبی کا فرمان ہے :
مَنْ ذرعَه القيءُ فليسَ عليهِ قضاءٌ ، ومَنْ استقاءَ عمدًا فليقضِ(صحيح الترمذي:720)
ترجمہ: جس کو خود قے آ گئی ( اس کا روزہ برقرار ہے) اس پر قضاء نہیں اور اگر اس نے جان بوجھ کر قے کی، تو اس کو چاہیے کہ وہ قضاء دے۔
٭حالت بیداری میں شہوت سے منی خارج کرنے پر روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ مشت زنی کرے یا بوس وکنارکرے۔ اس پہ قضا ہے ۔
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: مشت زنی اور خود لذتی بذات خود روزہ توڑنے کا باعث ہے۔
(الفتاوى الفقهية الكبرى2/ 73(
٭ جو اشیاء کھانے پینے کے مقابل ہوں ان سے بھی روزہ فاسد ہوجائے گا۔ مثلا قوت والا انجکشن
٭ عمدا خون کا نکالنا مثلا حجامہ ۔(بعض لوگوں کے نزدیک حجامہ ناقض روزہ نہیں ہے ۔ دونوں قسم کی روایت ہے تاہم احتیاط بہترہے )
روزے کے جائز امور
مندرجہ ذیل  باتوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔
بھول کر کھاناپینا، سہوا قے کرنا، طاقت رکھنے والوں کا بیوی سے بوس وکنار کرنا،خود بخود خون آنا مثلا نکسیر ، زخم یا طبی معائنہ کی غرض سے تھوڑا سا خون نکالنا، غیرمقوی انجکشن لگانا، سرمہ لگانا، کلی کرنا ، ناک میں پانی ڈالنا، سر پہ پانی ڈالنا، نہانا، ضرورتا کھانے کا ذائقہ چکھنا بشرطیکہ معدے میں نہ جائے ، احتلام ہوجانا، حالت جنابت میں صبح ہوجانا، ناک - کان اور آنکھ میں قطرے ڈالنا(یہ عمل رات میں کرے تو بہترہے)، ٹوتھ پیسٹ کرنا وغیرہ ۔
روزہ کے مستحب امور:
یہاں رمضان سے متعلق ان امور کا ذکر کیا جاتاہے  جن کا انجام دینا مستحب وپسندیدہ  ہے ۔
٭ تمام قسم کی طاعت وبھلائی پر محنت کرنا: مثلا تلاوت قرآن کریم ، اور اس میں تدبروتفکر،بکثرت صدقہ وخیرات،ذکرالہی اور فرائض وواجبات کے علاوہ  نفلی عبادات پر
محنت کرنا۔
٭ افطار میں جلدی کرنا: نبی ﷺ کا فرمان ہے : لایزال الناس بخیرماعجلوا الفطر( بخاری) اس وقت تک لوگ بھلائی کی راہ پر گامزن رہیں گے جب تک کہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے ۔
اور اس سے یہودونصاری کی مخالفت مقصود ہے ۔ "لان الیھود والنصاری یوخرون"کیونکہ یہودونصاری افطاری میں تاخیر کرتے ہیں ۔
٭ تازہ کھجور سے افطار کرنا: عن انس کان النبی ﷺ یفطر علی رطبات قبل ان یصلی فان لم یکن فعلی تمرات فان لم تکن تمرات حسا حسوات من ماء (احمد وابوداؤد وحسنہ البانی)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے ،اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجوروں سے افطار کرلیا کرتے تھے ، اگر خشک کھجوریں میں میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹوں پر ہی روزہ افطار کرلیا کرتے تھے ۔
٭ افطار کے وقت دعا کرنا: ویسے دعا ہروقت مشروع ہے اور دعا عبادت ہے مگر بعض
 اوقات دعا کے لئے بہت اہم ہیں ، ان میں ایک افطار کا وقت بھی شمار کیاجاتاہے ، اس کی متعدد دلیلیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے ۔
ثلاثٌ لا تُرَدُّ دعوتُهُم ، الإمامُ العادلُ ، والصَّائمُ حينَ يُفطرُ ، ودعوةُ المظلومِ(صحيح الترمذي:2526)
ترجمہ : تین قسم کے لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ۔ ایک منصف امام کی ،دوسرے روزہ دار کی جب وہ افطارکرے، تیسرے مظلوم کی ۔
٭ سحری میں تاخیرکرنا: بغیر سحری کے بھی روزہ درست ہے مگر نبی ﷺ نے خود بھی سحری کھائی ہے اور دوسروں کو بھی سحری کی ترغیب دی ہے اور فرمایاہے سحری کھاؤ کیونکہ اس میں برکت ہے ۔مسلم شریف کی روایت میں ہے ۔
 فصلُ ما بين صيامِنا وصيامِ أهلِ الكتابِ ، أكْلةُ السَّحَرِ(صحيح مسلم:1096)
ترجمہ: ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کا فرق ہے ۔
٭ روزے کی حالت میں گندے اخلاق اور بری باتوں سے بچنا ۔ اگر کوئی گالی دے تو کہہ دیں میں روزے سے ہوں ۔
إذا أصبَحَ أحدُكُم يومًا صائمًا ، فلا يرفُثْ ولا يجهَلْ . فإنِ امرؤٌ شاتمَهُ أو قاتلَهُ ، فليقُلْ : إنِّي صائمٌ .
إنِّي صائمٌ(صحيح مسلم:1151)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں ہو تو گندی باتوں اور نادانیوں سے پرہیز کرے ، اگر کوئی تماہرے ساتھ گالی گلوج اور قتال کرے تو کہہ دو میں روزے سے ہوں ، میں روزے سے ہوں۔
من لمْ يَدَعْ قولَ الزورِ والعملَ بِهِ ، فليسَ للهِ حاجَةٌ في أنِ يَدَعَ طعَامَهُ وشرَابَهُ .(صحيح البخاري:1903)
ترجمہ : اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔
٭لوگوں کو افطار کرانا: نبی پاک ﷺ نے فرمایا:
مَن فطَّرَ صائمًا كانَ لَهُ مثلُ أجرِهِ ، غيرَ أنَّهُ لا ينقُصُ من أجرِ الصَّائمِ شيئًا(صحيح الترمذي:807)
ترجمہ: جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں‌ سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
٭ عمرہ کرنا: رمضان شریف میں عمرہ کا ثواب حج کے برابر ہے ، ایک دوسری روایت میں نبی ﷺ کے ساتھ حج کرنے کے برابر کہا گیا ہے ۔
٭مسواک کرنا: آپ ﷺ کا دستور ہمیشہ مسواک کیا کرتے تھے اور رمضان شریف
 میں بکثرت کیا کرتے تھے ۔ عمار بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يستاك وهو صائم مالا أحص أو أعد(رواه البخاري معلقا)
ترجمہ: میں نے نبی ﷺ کو روزے کی حالت میں شمار کرنےسے زیادہ مسواک کرتے دیکھا۔
اسے امام بخاری نے تعلیقا روایت کیا ہے ۔
٭ بچوں سے تربیت کے طور پر روزہ رکھوانا : اگر بچہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتاہوتو اسے عادتا روزہ رکھوانا چاہئے ۔ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اپنے بچوں سے روزہ رکھواتے تھے اور ان کے لئے کھلونے رکھتے ، جب بچے کھانے کے لئے روتے تو ہم انہیں وہ کھلونے پیش کردیتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔ (بخاری)
٭ اعتکاف : اعتکاف رمضان میں کئے جانے والے ان اعمال میں سے ہے جس کی تاکید آئی ہے ۔ اور یہ ان سنتوں میں سے سنت مؤکدہ ہے جس پہ نبی ﷺ نے ہمیشگی برتی ہے اور آخری عشرے میں اس کی تاکید کی ہے ۔ اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ نبی ﷺ ہرسال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے ، انتقال کے سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔(بخاری)

روزہ کے جدید طبی مسائل
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس میں انسانوں کی ہرقسم کی رہنمائی موجود ہے یہی  وجہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی دیگر قوموں کے مقابلے میں بہتراور واضح ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ جب کسی مسلمان کو شعبہ حیات سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس کا حل قرآن وحدیث میں مل جاتا ہے ۔ آج زمانہ کافی ترقی کرگیا ہے ، آج سے محض پچاس سال پہلے بہت ساری چیزیں ناپید تھیں مگر سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی نے انسانوں کو بے شمار دریافت سے متعارف کیا ، زندگی کے مختلف شعبہ جات میں آسانیاں فراہم کی، علاج ومعالجہ کے نئے نئے دروازے کھولے ۔ بہت سارے امراض جو کل تک لاعلاج سمجھے جاتے تھے یا ان کا علاج مشکل ترین مراحل سے گزرکر کامیاب ہوا کرتا تھا آج ان میں بڑی سہولت اور ترقی آگئی ہے ۔ اسلام سائنس وترقی کے مخالف نہیں  ہے، وہ جدید وسائل کو اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہےجوشرعا اسلام سے متصادم نہ ہوں ۔ علاج کے معاملے میں حرام چیزوں سے معالجہ کرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر معالجہ حرام شی کی ملاوٹ سے پاک ہو تو ہرقسم کے وسائل وادویہ کا استعمال جائز ہے ۔
رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لئے انتہائی پرمسرت اور بے پناہ فیوض وبرکات کا حامل ہے ، اس وجہ سے اس ماہ مبار ک میں مسلم قوم دینی اعتبار سے دیگر تمام مہینوں کے مقابلے میں زیادہ محتاط، چاق وچوبند، دینی غیرت وحمیت سے لبریز، اجر وثواب کے حصول کا خواہاں ، نیکی کی طرف سبقت کرنے والی اور اللہ کی خوشنودی کے لئے دن میں روزہ رکھنے والی اور راتوں کو قیام اللیل سے منور  کرنے والی نظر آتی ہے ۔
جب سائنس وٹکنالوجی نے زمانے کو  نت نئی ترقیات  اور برقی ایجادات واکتشافات سے متعارف کرایا تو مسلمانوں کو ان کے متعلق شرعی حیثیت جاننے کی ضرورت پڑی ، اس مختصر مضمون میں طب سے متعلق جدید مسائل کا شرعی موقف بیان کیا گیا ہے جن سے  ایک مسلمان کو خصوصا مریض کو دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
 (1)  مسواک  اور توتھ برش وپیسٹ :
روزہ دارکے لئے رات ودن کے کسی حصے میں مسواک کرنا سنت ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے :
"السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب " (رواہ البخاری)
ترجمہ : مسواک سے منہ صاف ہوتاہے اور اللہ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے ۔
شیخ ابن عثیمین ؒ فرماتے ہیں کہ اگر مسواک کا مزہ اور اثر تھوک میں آجائے تو روزہ دارکو چاہئے کہ تھوک اور ذائقہ نہ نگلے ۔ (فتاوی الصیام )
البتہ ٹوتھ برش اور پیسٹ کا استعمال کرتے وقت ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پیسٹ قوی الاثر ہے یا غیر قوی الاثر ، کیونکہ بازار میں موجود پیسٹ دونوں طرح کی ہیں ۔
٭اگرپیسٹ قوی الاثر ہو یعنی اس کا اثرمعدہ تک پہنچتا ہوتو ایسی پیسٹ استعمال نہ کی جائے ۔
٭اور اگر پیسٹ کا اثر معدہ تک نہیں پہنچتا ہوصرف حلق تک محدود رہتاہوتو اس کے
استعمال میں کوئی حرج نہیں ۔
(2) قطرات کا استعمال (Drops) :
ضرروت کے تحت آنکھ اور کان میں قطرات (Drops) ڈالنا کوئی حرج کی بات نہیں ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ جو قطرات آنکھ یا کان میں ڈالے جاتے ہیں ان کا اثر معدہ تک نہیں پہنچتا ، اگر بالفرض یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ قطرات معدے میں حلول کرتے ہیں تو دوتین بوند کا اثر آنکھ سے بہ کر یا کان سے ٹپک کر معدہ تک کس مقدار میں جائے گا ؟ ۔ ظاہر سی بات ہے وہ معمولی سی مقدار ہوگی اور اس مقدار کا اثر روزہ کے لئے کسی طرح کے نقصان کا باعث نہیں ہے ۔ آنکھ اور کان کے متعلق عرب کے مشائخ حضرات بھی اس کے جواز کافتوی دیتے ہیں لیکن ناک کے متعلق عدم جواز کا فتوی ہے ۔ اس کی بنیاد یہ حدیث ہے "وبالِغْ فى الاستنشاقِ إلَّا أن تَكونَ صائمًا"( صحيح أبي داود:142) روزے کی حالت میں وضو کرتے وقت ناک میں مبالغہ کے ساتھ پانی مت ڈالو۔
 بعض اہل علم جواز کا بھی فتوی دیتے ہیں تاہم احتیاطا ان تمام قسم کے قطرات کورات تک مؤخر کر لیا جائے تو اولی اور افضل ہے ۔
(3) بے ہوشی  (Anaesthisia):
کبھی کبھی انسان پر بے ہوشی کے حالات طاری ہوتے ہیں اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلا کسی حادثے میں شکار ہوکر بے ہوش ہوجائے یا علاج کی غرض سے بے ہوش کیا جائے ۔ اس سے متعلق احکام مندرجہ ذیل ہیں ۔
٭ناک میں گیس سونگھاکر یا چینی طریقے سے حساس مقام پر سوئی چبھوکر بعض حصے کو بے ہوش کرنا ناقض روزہ نہیں ہے ۔
٭ مریض کی رگ میں سریع العمل انجکشن لگاکر مخصوص مدت کے لئے عقل کو ماؤف کرنا بھی ناقض روزہ نہیں ہے ۔
٭ مریض نے بے ہوشی سے پہلے روزہ کی نیت کرلی اورپھر بے ہوش ہوا اورغروب شمس سے پہلے پہلے افاقہ ہوگیا تو اس کا روزہ صحیح ہے مگر غروب آفتاب کے بعد افاقہ ہونے پر روزہ نہیں درست ہوگا۔ اس لئے ایسے روزہ کے متعلق بہتری اسی میں ہے کہ اس کی قضا کرلی جائے ۔
٭ بے ہوشی اگر لمبی مدت مہینہ دو مہینہ والی ہو تو اسے جنون پر قیاس کیا جائے گا اور فرض روزے چھوٹ جانے پر اس کی قضا کا مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ اللہ تعالی انسان کو اس کی طاقت سے باہر کا مکلف نہیں بنایا ہے ۔
(4) پچھنا، نشتر اور نکسیر کا حکم :
پچھنا کے سلسلہ میں دوطرح کی احادیث وارد ہیں بعض روایات میں ذکر ہے کہ پچھنا لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہےجبکہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بحالت روزہ پچھنا لگوایا(صحیح بخاری) اور دوسروں کے لئے سینگی لگانے کی رخصت بھی دی ۔ (طبرانی ، دارقطنی)
بعض علماء نے روزہ ٹوٹنے والی روایات کو منسوخ مانا ہے اور آپ ﷺکے عمل یا امت کو
رخصت دینے والی روایات کو ناسخ مانا ہے ۔ اس
لئے روزہ کی حالت میں حجامت کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔ البتہ اکثر وبیشتر اہل علم کی نظر میں سینگی ناقض روزہ ہے لہذا اختلاف سے بچنے کے لئے میں یہ مشورہ دونگا کہ اس عمل کو رات تک مؤخر کرلے ۔
(5) جسم کے اندرونی حصے میں آلات یا پائپ داخل کرنا:
مریض کو علاج کی غرض سے  کبھی معدے میں یا ضرورتا کبھی مقعد میں یا صنف نازک کے اگلے اور پچھلے راستے میں آلات یا پائپ وغیرہ داخل کئے جاتے ہیں تاکہ اندرونی حصے کا چیک اپ کیا جائے ۔ اس کی مختلف شکلیں اور طریقے ہیں ۔
ان حالات میں غورطلب امر یہ ہے کہ اگر اوزاریا آلات کے استعمال میں غذائی مواد ہو توروزہ فاسد شمار ہوگا، اور یونہی بغرض معائنہ یا علاج کی خاطر غیرغذائی موادکا استعمال ہوتو روزہ فاسد نہیں ہوگا ۔ دراصل یہ عمل انجکشن کے مشابہ ہے اور اسی طرح کے احکام بھی لاگو ہونگے ۔
(6) ٹیکہ لگانا (Injection) :
٭ٹیکہ چاہے جلد میں لگے ، چاہے گوشت میں لگے یا پھر نص میں لگے ۔ اگر ان ٹیکوں میں غذائی مواد نہیں تو روزہ درست ہےوگرنہ روزہ فاسد ہوگا ۔
٭شوگر کے مریض کا ٹیکہ لگانا بھی جواز کے قبیل سے ہے ۔
٭ شریان میں مستقل لگی رہنے والی سوئیوں کا بھی یہی حکم ہے ۔
(7) گردوں کی صفائی (Dialysis):
گردوں کے مریض کو ڈائیلوسس کیا جاتاہے اور اس کے مختلف طریقے ہیں مگر جتنے بھی طریقے رائج ہیں ان میں غذائی ادویہ کا استعمال ہوتا ہے اس لئے شرعی نقطۂ نظر سے ڈائیلوسس کا عمل ناقض روزہ ہے ۔ اگر بغیر غذائی ادویہ کے علاج ممکن ہو تو پھر روزہ درست ہوگا ۔
(8) خون کا عطیہ (Blood Donation) :
ضرورت پڑنے پر روزہ دار اپنا خون چیک اپ کراسکتا ہے اور کسی دوسرے مریض کو اپنا خون نکال کر عطیہ بھی کرسکتا ہے ۔ یہ عمل روزہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ،یہی شیخ ابن باز ؒ کی بھی رائے ہے ۔ (مجموعہ فتاوی ابن بازؒ 15/274)
(9) ٹکیوں کا استعمال (Tablets) :
دل کی بعض بیماریوں کے لئے اطباء ٹکیوں کا نسخہ دیتے ہیں ، یہ ٹکیاں زبان کے نیچے رکھی جاتی ہیں اور فورا منہ میں تحلیل ہوجاتی ہیں ، ایسا کرنے سے مریض کو راحت محسوس ہوتی ہے ۔
ایسے مریض سے متعلق شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ ایسے ٹکیوں کے بارے میں کیا حکم ہے جسے دل کے مریض زبان کے نیچے رکھتے ہیں ،وہ روزہ بھی ڈاکٹر کے مشورہ سے رکھتے ہیں لیکن بسااوقات افطار سے چند منٹ پہلے دل میں درد شروع ہوجاتا ہے تو اپنی زبان کے نیچے رکھ لیتے ہیں تاکہ آرام مل جائے ؟
شیخ نے جواب دیا : زبان کے نیچے ٹکئے کا استعما کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لئے کہ عمدا
اس کا ذائقہ حلق کے نیچے اترتا ہے ۔ ( الفتاوی الشرعیۃ علی المشکل من المسائل الطبیۃ : ص: 54،55)
بعض دیگر علمائے عرب و عجم کا موقف ہے چونکہ یہ ٹکیاں منہ ہی تک محدودرہتی ہیں ان کا اثر اندر نفوذ نہیں کرتا ، اس لئے ان ٹکیوں کا استعمال  بحالت روزہ جائز ہے ۔بہرحال یہ مسئلہ اختلافی ہے ، میری نظر میں یہ موقف درست معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس ٹکیہ سے اثر حلق سے نیچے اترتا ہے تو بلاشبہ مفطر ہوگا مگر اس کا اثر زبان تک ہی محدود رہے حلق سے نیچے نہیں اترے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا ، اس صورت میں یہ مثل کلی کے ہوگا کہ جس طرح کلی سے پانی کا اثر معدے میں حلول نہیں کرتاٹھیک  اسی طرح ٹکیہ کا بھی  اثر  ہو تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
 (10) جلد  پرمادے کا استعمال :
علاج کی غرض سے ہو یا شوق کے طورپر ،،،،،، جلد پر کسی بھی قسم کا تیل ، مرہم اور کریم کا استعمال کرسکتے ہیں ۔
"جلدپرملی جانے والی کوئی بھی چیز مسام کے ذریعہ جلد کے نیچے خونی مواد میں جذب ہوجاتی ہے لیکن جذب ہونے کا یہ عمل بہت سست ہے ۔ لہذا جلد پرملی جانے والی بھی چیز ناقض روزہ نہیں " (مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ؒ 25/ 267)
(11) دانتوں کی صفائی :
روزہ کی حالت میں دانتوں کی صفائی (Scaning) یا دانت نکلوانایا دانتوں کی اصلاح کرنا
سارے امور جائز ہیں ۔ احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ اس عمل کو رات کے لئے مؤخر کردیں یا دن میں ایسا عمل انجام دینے کی صورت میں دانتوں سے بہنے والا خون حلق سے نیچے نہ اتارے ۔ دانتوں کی صفائی میں استعمال ہونے والے ٹیکے بھی روزے کے لئے نقصان دہ نہیں ۔
(12) زخموں کا علاج :
جسم کے کسی حصے میں زخم ہو، روزہ دار  ان زخموں کا علاج کراسکتا ہےکیونکہ یہ عمل نہ تو کھانے پینے پر قیاس کیا جائے گا اور نہ ہی عرف میں اسے کھاناپینا کہتے ہیں ۔
(13) اسپرے کا حکم :
دمہ کے مریضوں کے لئے اسپرے (بخاخ) کی ضرورت پڑتی ہے ، یہ ان کی سخت ترین مجبوری ہے ، اور اسلام میں قاعدہ ہے کہ آدمی جس چیز کا مضطر ہوتا ہے اس کے لئے اس چیز کا استعمال جائز ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
"وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ)    "الأنعام:119(
ترجمہ : اورجو چیزیں اس نے تمہارے لئےحرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں (بے شک ان کو نہیں کھانا چاہیے) مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے) لیے ناچار ہو جاؤ.
لہذا دمہ کا مریض روزہ رکھتے ہوئے اسپرے کا استعمال کرے گااور اس کا روزہ درست ہوگا۔ اور اسے رکھے گئے روزہ کی قضا نہیں کرنی پڑے گی ۔
اللہ تعالی نے دین اسلام کو اپنے بندوں کی خاطر آسان بنا دیا ہے ، حسب سہولت یعنی بقدر استطاعت دین پر عمل پیرا ہونا ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔ جہاں اللہ تعالی نے مسافروں ، مریضوں اور معذوروں کو رخصت دی ہے وہاں رخصت پر عمل کرنا ہی افضل ہے اور رخصت پر عمل کرتے ہوئے دل میں ذرہ برابر بھی تنگی کا احساس نہ پیدا ہونے پائے جیسا کہ بعض مخصوص طبقوں میں یہ دیکھا جاتا ہے ۔
روزہ داروں کے اقسام واحکام:
(الف)بیمارکے احکام
بیمارکی دوقسمیں ہیں ایک وہ بیمارآدمی جو روزہ کی وجہ سے مشقت یا جسمانی ضررمحسوس کرے یا شدید بیماری کی وجہ سے دن میں دوا کھانے پہ مجبور ہو تو اپنا روزہ چھوڑسکتا ہے ۔ ضررونقصان کی وجہ سے جتنا روزہ چھوڑے گا اتنے کا بعد میں قضا کرنا ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرۃ:184)
ترجمہ : اورجوکوئی مریض ہو یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
دوسرا وہ بیمار جن کی شفا یابی کی امید نہ ہو اور ایسے ہی بوڑے مردوعورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہو ان دونوں کو روزہ چھوڑنا جائز ہے اور ہرروزے کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو) گیہوں، چاول یا کھائی جانے والی دوسری اشیاء دیدے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ(البقرة:184)
ترجمہ :اور اس کی طاقت رکھنے والےفدیہ میں ایک مسکین کو کھانادیں۔
یہاں یہ دھیان رہے کہ معمولی پریشانی مثلا زکام ، سردرد وغیرہ کی وجہ سے روزہ توڑنا جائز نہیں ہے ۔
(ب)مسافرکے احکام
رمضان میں مسافر کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرۃ:184)
ترجمہ : اورجوکوئی مریض ہو یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
اگر سفر میں روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہو تو مسافر حالت سفر میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے ۔ اس کے بہت سارے دلائل ہیں ۔ مثلا۔
ایک صحابی نبی ﷺ سے سفر میں روزہ کے بابت پوچھتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إن شئتَ صمتَ وإن شئتَ أفطرتَ( صحيح النسائي:2293)
ترجمہ : اگر تم چاہو تو روزہ اور اگر چاہو تو روزہ چھوڑ دو۔
مسافر چھوڑے ہوئے روزے کی قضا بعد میں کرے گا۔
(ج) روزہ کے مسائل اور خواتین
حیض والی اور بچہ جنم دینے والی عورت کے لئے خون آنے تک روزہ چھوڑنے کا حکم ہے ۔
اور جیسے ہی خون بند ہوجائے روزہ رکھنا شروع کردے۔ کبھی کبھی نفساء چالیس دن سے پہلے
 ہی پاک ہوجاتی ہیں تو پاک ہونے پر روزہ ہے۔عورت کےلئے مانع خون دوا استعمال کرنے سے بہتر ہے طبعی حالت پہ رہے ۔حیض اور نفاس کے علاوہ خون آئے تو اس سے روزہ نہیں توڑنا ہے بلکہ روزہ جاری رکھناہے ۔
دودھ پلانے والی عورت اور حاملہ عورت کو جب اپنے لئے یا بچے کےلئے روزہ کے سبب خطرہ لاحق ہو تو روزہ چھوڑ سکتی ہے ۔ بلاضرر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے ۔ نبی ﷺ کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے ۔
إنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ وضعَ للمسافرِ الصَّومَ وشطرَ الصَّلاةِ ، وعنِ الحُبلَى والمُرضِعِ( صحيح النسائي:2314)
ترجمہ: اللہ تعالی نے مسافر کے لئے آدھی نماز معاف فرما دی اور مسافر اور حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزے معاف فرما دیئے۔
بیمار اور سن رسیدہ عورت کے احکام پہلے نمبر میں شامل ہیں۔
جب عذر کی وجہ سے عورت روزہ چھوڑدے تو بعد میں اس کی قضا کرے۔حاملہ اور مرضعہ کے تعلق سے فدیہ کا ذکرملتا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے ۔
(د)بچوں کا روزہ:
بچوں پر روزہ فرض نہیں ہے جب تک بالغ نہ ہوجائے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
رُفِعَ القلمُ عن ثلاثةٍ: عنِ المجنونِ المغلوبِ على عقلِهِ حتَّى يُفيقَ، وعنِ النَّائمِ حتَّى يستيقظَ، وعنِ الصَّبيِّ حتَّى يحتلمَ(صحيح أبي داود:4401)
ترجمہ:ميرى امت ميں سے تين قسم ( كے لوگوں ) سے قلم اٹھا ليا گيا ہے، مجنون اور پاگل اور بے عقل سے جب تك كہ وہ ہوش ميں آجائے، اور سوئے ہوئے سے جب تك كہ وہ بيدار ہو جائے، اور بچے سے جب تك كہ وہ بالغ ہو جائے۔
لیکن تربیت کے طور پر بچوں سے بھی روزہ رکھوایا جائے جب وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔ بعض علماء نےروزہ کے لئے بچوں کی مناسب عمردس سال بتلائی ہے کیونکہ حدیث میں دس سال پہ ترک نماز پر مارنے کا حکم ہے ۔ بہر کیف دسواں سال ہو یا اس سے پہلے کا اگر بچے روزہ رکھ سکتے ہوں تو سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ ان سے روزہ رکھوائیں ۔ اس کی نظیر قرون مفضلہ میں ملتی ہے ۔
عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ رضي الله عنها قَالَتْ : أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الأَنْصَارِ الَّتِى حَوْلَ الْمَدِينَةِ :مَنْ كَانَ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ ، وَمَنْ كَانَ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ ، فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ نَصُومُهُ ، وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا الصِّغَارَ مِنْهُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ، وَنَذْهَبُ إِلَى الْمَسْجِدِ ، فَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهَا إِيَّاهُ عِنْدَ الإِفْطَارِ(صحيح البخاري:1960وصحيح مسلم :1136) .
ترجمہ:ربيع بنت معوذ بن عفرا رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يوم عاشوراء كے دن مدينہ كے ارد گرد رہنے والے انصار كى طرف ايك شخص كو يہ پيغام دے كر بھيجا كہ:جس نے روزہ ركھا ہے وہ اپنا روزہ پورا كرے، اور جس نے روزہ نہيں ركھا وہ باقى سارا دن بغير كھائے پيے گزارے ۔ چنانچہ اس كے بعد ہم روزہ ركھا كرتے تھے، اور ان شاء اللہ اپنے چھوٹے بچوں كو بھى روزہ ركھواتے اور ہم مسجد جاتے تو بچوں كے ليے روئى كے كھلونے بنا ليتے، جب كوئى بچہ بھوك كى بنا پر روتا تو ہم اسے وہ كھلونا دے ديتے۔
تعليقات بخاری میں باب صوم الصبيان کے تحت یہ روایت مذکورہے کہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے رمضان المبارك ميں نشہ كرنے والے شخص كو مارتے ہوئے فرمايا:تو تباہ ہو جائے، ہمارے تو بچے بھى روزے سے ہيں۔
(ر)بلاعذرقصدا روزہ چھوڑنے والا:
رمضان میں بغیر عذر کے قصدا روزہ چھوڑنے والا گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے ۔ اسے اولا اپنے گناہ سے سچی توبہ کرنا چاہئے اور جو روزہ چھوڑا ہے اس کی بعد میں قضا بھی کرے ۔ اور اگر کوئی بحالت روزہ جماع کرلیتا ہے اسے قضا کے ساتھ کفارہ بھی ادا کرنا
ہے ۔کفارہ میں لونڈی آزاد کرنا یا مسلسل دو مہینے کا روزہ رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ۔
یاد رہے بلاعذر روزہ توڑنے کا بھیانک انجام ہے ۔ مستدرک وغیرہ کی روایت ہے ۔
بَينا أنا نائمٌ أتاني رجلانِ ، فأخذا بِضَبْعَيَّ فأتَيا بي جبلًا وعْرًا ، فقالا : اصعدْ . فقلتُ : إنِّي لا أُطيقُهُ . فقال : إنَّا سَنُسَهِّلُهُ لكَ . فصعدتُ ، حتَّى إذا كنتُ في سَواءِ الجبلِ إذا بأصواتٍ شديدةٍ . قلتُ : ما هذهِ الأصواتُ ؟ قالوا : هذا عُوَاءُ أهلِ النَّارِ ثمَّ انْطُلِقَ بي فإذا أنا بقَومٍ مُعلَقِينَ بعراقيبِهِم ، مُشَقَّقَةٌ أشداقُهُم ، تسيلُ أشداقُهُم دمًا . قال : قلتُ : مَن هؤلاءِ ؟ قال : الَّذينَ يُفطِرونَ قبلَ تَحلَّةِ صَومِهِم .(صحيح الترغيب: 2393)
ترجمہ : ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے:ایک مرتبہ میں سو رہا تھا میرے پاس دو آدمی آئے انہوں نے مجھے بازو سے پکڑا اور وہ دونوں مجھے ایک مشکل پہاڑ کے پاس لے آئے تو انہوں نے کہا کہ اس پر چڑھو میں نے کہا میں اس پر چڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتا، انہوں نے کہا ہم اس کو آپ کے لیے آسان کر دیتے ہیں تو میں اس پر چڑھ گیا حتیٰ کہ جب پہاڑ کے درمیان میں تھا تو میں نے خوفناک آوازیں سنی تو میں نے کہا یہ آوازیں کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ آگ والوں کی چیخ و پکار اور واویلہ ہے، پھر مجھے ایک جگہ لے جایا گیا تو میں وہاں کچھ لوگوں کو دیکھا جو الٹے لٹکائے گئے تھے ان کی باچھیں (منہ کی دونوں اطراف ) پھاڑی ہوئی تھیں اور ان سے خون بہہ رہا تھا میں نے کہا یہ کون ہے تو کہا یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ افطار کے وقت سے پہلے ہی کھول دیتے تھے۔
ہماری نصیحت کے لئے ایک حدیث ہی کافی ہے ۔
(س)نماز کے بغیر روزہ رکھنے والا:
جیسے روزہ ارکان اسلام میں ایک رکن ہے ویسے ہی نماز بھی ایک رکن ہے ۔ نماز کے بغیر روزے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جو نماز کا منکر ہے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ نبی ﷺ فرمان ہے :
العَهدُ الَّذي بيننا وبينهم الصَّلاةُ ، فمَن تركَها فَقد كَفرَ(صحيح الترمذي:2621)
ترجمہ :ہمارے اور ان کے درمیان نماز کا عہد ہے،جس نے نماز کو چھوڑا پس اس نے کفر کیا۔
اس وجہ سے تارک صلاۃ کا روزہ قبول نہیں ہوگا بلکہ نماز چھوڑنے کی وجہ سے اس کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کیا جائے گاجب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ۔
اس سلسلے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"الذي يصوم ولا يصلى لا يقبل منه صوم ، لأنه كافر مرتد ، ولا تقبل منه زكاة ولا صدقة ولا أي عمل صالح ، لقول الله تعالى ( وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلاَّ أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلاَّ وَهُمْ كُسَالَى وَلا يُنفِقُونَ إِلاَّ وَهُمْ كَارِهُونَ ) التوبة/54
فإذا كانت النفقة وهي إحسان إلى الغير لا تقبل من الكافر فالعبادة القاصرة التي لا تتجاوز فاعلها من باب أولى ، وعلى هذا فالذي يصوم ولا يصلى هو كافر والعياذ بالله ، وصومه باطل ، وكذلك جميع أفعاله الصالحة لا تقبل منه"(فتاوى نور على الدرب لابن عثيمين :124 /32) .
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو آدمی روزہ رکھتا اور نماز نہیں پڑھتا ہے اس کا روزہ مقبول نہیں ہے اس لئے کہ وہ کافر اور مرتد ہے ۔ اس کی طرف سے زکوۃ ،صدقات بلکہ کوئی نیکی قبول نہیں کی جائے گی۔
اللہ کا فرمان ہے : وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ۔
ترجمہ :انکے صدقات کی قبولیت کے سامنے صرف یہی بات آڑے آئی کہ انہوں نے اللہ ، اور رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، اور وہ نمازوں کیلئے صرف سستی کرتے ہوئے آتے ہیں، اور صدقہ دیتے ہیں تو انکے دل تنگی محسوس کرتے ہیں۔
جب کافر سے دوسروں پہ خرچ کرنے کا احسان قبول نہیں ہوگا تو عبادت جو کہ ذاتی فعل ہے بدرجہ اولی قبول نہیں ہوگی ۔ اس لئے جو آدمی روزہ رکھتا اور نماز ادا نہیں کرتا (اللہ کی پناہ )وہ کافر ہے ۔اس کا روزہ باطل ہے اور اسی طرح تمام نیک اعمال( بھی باطل ہیں)قبول نہیں کئے جائیں گے ۔
اسی طرح روزے دار کو چاہئے کہ رمضان میں بھلائی کا کام کرے اور منکر کام سے بچے ۔ جو آدمی روزے سے ہو اور جھوٹ بولے ، برا کام کرے اور گندی حرکتوں سے باز نہ آئے ایسے روزہ داروں کے روزہ کی کوئی وقعت نہیں ۔ اللہ ایسوں کو پسند نہیں فرماتا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ وَالْجَهْل فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ .(صحيح البخاري:6057)
ترجمہ : ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جوکوئي قول زور اوراس پر عمل کرنا اورجہالت نہ چھوڑے اللہ تعالی کو اس کے بھوکا اورپیاسا رہنے کی کوئي ضرورت نہیں۔
تراویح کے مسائل
رمضان میں قیام کرنے کو قیام رمضان کہا جاتا ہے ۔ یہ وہی نماز ہے جو دیگر مہینوں میں قیام اللیل اور تہجد کے نام سے جانی جاتی ہے ۔ رمضان میں عام طور سے تراویح کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ نفل نمازہے اس کا بہت زیادہ ثواب ہے ۔ حدیث میں ہے ۔
من قام رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّم من ذنبِه(صحيح مسلم:759)
ترجمہ: راوی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔
٭ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں ، اس کی سب سے بڑی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان جو بخاری شریف میں ہے :
أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في رمضان ؟ . فقالتْ : ما كان يزيدُ في رمضانَ ولا في غيرهِ على إحدى عشرةَ ركعةً،يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عَن حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عنْ حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يصلي ثلاثًا .(صحيح البخاري:2013)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز رمضان میں کیسی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ رمضان میں اور اس کے علاوہ دونوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ بڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کے طول و حسن کو نہ پوچھو۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے جن کے طول و حسن کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔
اس حدیث پہ چند اعتراض کا جواب :
اعتراض : یہ تہجد کی نماز ہے تراویح کی نہیں ۔
جواب : تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو الگ الگ نام ہیں ۔

اعتراض : تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں ۔
جواب : یہ دونوں ایک ہی نمازیں ہیں جو کہ حدیث میں ہی مذکور ہے کہ رمضان یا غیر رمضان میں آپ کا قیام آٹھ رکعت کا ہوا کرتا تھا۔اگر یہ تہجد کی نماز مان لی جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ آپ نے دوبارہ تراویح الگ سے پڑھی جس کی کوئی دلیل نہیں ۔ اور صحابہ کرام جب چوتھے روز باجماعت تراویح کے لئے جمع ہوئے اور نبی ﷺ نہیں نکلے تو صحابہ دوبارہ دوسرے قیام کے وقت پھر آتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا؟ ۔ مشہور حنفی عالم مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی تہجد اور تراویح کو ایک ہی نماز تسلیم کیا ہے ۔ (دیکھیں:عرف الشذی :309)
اعتراض :اگریہ تراویح کی نماز ہے تو دو دو کیوں پڑھتے ہیں ، اس حدیث  میں چارچار کا ذکر ہے؟
جواب : اس حدیث میں چار چار رکعات کا وصف بتلایا گیا ہے نہ کہ چار رکعت پہ سلام
پھیرنے کا۔ آپ ﷺدو دو کرکے ہی قیام کرتے تھے جس کے بہت سے دلائل ہیں ۔
ایک دلیل : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يصلِّي فيما بين أن يفرغَ من صلاةِ العشاءِ ( وهي التي يدعو الناسُ العتمَةَ ) إلى الفجرِ ، إحدى عشرةَ ركعةً . يسلِّمُ بين كلِّ ركعتَينِ . ويوتر بواحدةٍ .(صحيح مسلم:736)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔
دوسری دلیل : صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
٭ تراویح کی نماز اکیلے اور باجماعت دونوں پڑھنا صحیح ہے ۔
٭ مرد امام کے پیچھے صرف عورتوں کا تراویح پڑھنابھی جائز ہے ۔
٭ تراویح مسجد اور گھر دونوں جگہ پڑھی جاسکتی ہے۔
٭ تراویح میں بضرورت قرآن اٹھانا اور دیکھ کر پڑھنا دونوں جائز ہے ۔
٭تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری نہیں ہے البتہ ختم کرے تو بہتر ہے نبی ﷺ رمضان میں مکمل قرآن کا دورہ کرتے تھے۔
٭نبی ﷺ کی طرف منسوب بیس رکعت تراویح والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے ۔
دو غلط فہمیوں کا ازالہ
پہلی غلط فہمی : لوگوں کے درمیان یہ غلط فہمی پھیلی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بیس رکعت تراویح پہ جمع کیاجبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق بیس رکعت والی حدیث ضعیف اور صحیح حدیث کے مخالف ہے ۔ درست بات یہی ہے کہ حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا جو صحیح سند سے ثابت ہے ۔
عن عمرَ رضيَ اللَّهُ تعالى عنهُ أنَّهُ أمرَ أبيَّ بنَ كعبٍ وتميمًا الدَّاريَّ أن يقوما للنَّاسِ بإحدى عشرةَ رَكعةً(تحفة الأحوذي:3/234)
ترجمہ : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوۃ ،ارواء الغلیل ، تمام المنہ اور صلاۃ التراویح میں ، شیخ ابن عثیمین نے بلوغ المرام اور ریاض الصالحین کی شرح میں ، علامہ مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی میں صحیح الاسناد بتلایا ہے ۔
گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی گیارہ رکعت پہ ہی لوگوں کا جمع کرنا ثابت ہوتا ہے اور یہی بات بخاری شریف میں مذکور بیان عائشہ رضی اللہ عنہا کے موافق ہے ۔
دوسری غلط فہمی : اگر سنت تراویح آٹھ رکعت ہے تو حرم شریف میں بیس رکعت تراویح کیوں پڑھائی جاتی ہے ؟
اصل میں حرم عالمی جگہ ہے ،یہاں کسی زمانے میں چار مصلے ہواکرتے تھے ، آل سعود نے الحمد للہ ایک مصلی قائم کرکے فتنہ رفع کیا ۔ تراویح بھی لوگوں کے لئے باعث اختلاف تھا اس لئے مصلحتا بیس رکعت رکھی گئی ۔ اس کے لئے دو امام کا انتخاب کیا گیا تاکہ ایک امام دس پڑھا کر چلے جاتے ہیں وہ الگ سے اکیلےایک رکعت وتر پڑھتے ہیں جس سےگیارہ رکعت تراویح کی سنت پوری ہوجاتی ہے۔ یہی حال دوسرے امام کا بھی ہے ۔ اس طرح سے نہ صرف فتنہ ختم ہوگیابلکہ امام کو گیارہ گیارہ رکعت پڑھنے اور دور دراز سے لیٹ سیٹ آنے والوں کو جس قدر میسر ہو پڑھنے کا موقع مل گیا۔حرم کے علاوہ سعودی عرب کی اکثر مساجد میں صرف آٹھ رکعت تراویح ہوتی ہے کیونکہ عرب کے علماء کا یہی موقف اور فتوی ہے ۔ چنانچہ سعودی لجنہ دائمہ کا فتوی ہے :
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''(فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212)
ترجمہ : اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے
زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
یہی فتوی شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین اور عرب کے دیگر مشائخ کا ہے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں سنت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے ۔ آمین 

نماز وتر اور اس کے مسائل
٭ وتر کی فضیلت :
عبادت  قرب الہی کا ذریعہ ہے  اور وترعبادتوں میں سے قرب الہی کا عظیم ذریعہ ہے ۔ یہ ایک مستقل نماز ہے جو رات میں
عشاء اور فجر کے درمیان ادا کی جاتی ہے۔ اس کی فضیلت میں متعدد احادیث ملتی ہیں۔ مثلا
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قالَ: قالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: مَنْ خَافَ أنْ لا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أفْضَلُ. (صحيح مسلم:755)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔
وإنَّ اللهَ وِترٌ يحبُّ الوِترَ(صحيح مسلم:2677)
ترجمہ:اور اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
٭ وتر کی نمازکاحکم:
یہ نماز حنفیہ کے نزدیک واجب ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ہے ۔ دلیل :
عن عليٍّ قالَ : الوِترُ ليسَ بِحَتمٍ كَهيئةِ الصَّلاةِ المَكتوبةِ ، ولَكن سنَّةٌ سنَّها رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ( صحيح الترمذي:454)
ترجمہ: وتر فرضی نماز کی طرح حتمی (واجب) نہیں ہے بلکہ یہ تو سنت ہے جسے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جاری فرمایا تھا۔
٭ وتر کی نماز کا وقت:
اس کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے لیکر فجر کی نماز تک ہے ۔ دلیل :
إنَّ اللهَ زادَكم صلاةً ، و هي الوترُ ، فصلوها بين صلاةِ العشاءِ إلى صلاةِ الفجرِ( السلسلة الصحيحة:108)
ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی نے تمہارے اوپر ایک نماز زیادہ کی ہے جس کا نام وتر ہے ۔ اس وتر کو نماز عشاء اور فجر کی نماز کے درمیان پڑھو۔
٭ وتر کا افضل وقت :
اس نماز کو تاخیر سے ادا کرنا زیادہ افضل ہے جس کو جاگنے پہ اعتماد ہو۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنهُ قالَ: قالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ خَافَ أنْ لا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أفْضَلُ». (صحيح مسلم:755)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز
 افضل ہے۔
٭ وترکی رکعات :
وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور نبی ﷺ سے گیارہ رکعات تک پڑھنا ثابت ہے ۔ جو لوگ ایک رکعت وترکا انکار کرتے ہیںوہ سنت کا انکار کرتے ہیں ۔
ایک رکعت پڑھنے کے بہت سے دلائل ہیں انمیں سے چنددیکھیں:
الوترُ ركعةٌ من آخرِ الليلِ(صحيح مسلم:752)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں سے۔
الوِترُ حقٌّ ، فمن أحبَّ أنْ يوترَ بخَمسِ ركعاتٍ ، فليفعلْ ، ومن أحبَّ أنْ يوترَ بثلاثٍ ، فليفعلْ ومن أحبَّ أنْ يوترَ بواحدةٍ ، فليفعلْ .(صحيح النسائي:1711)
ترجمہ: ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔
کئی صحابہ کرام سے بھی ایک رکعت پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے ، ان میں ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما،امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ،سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اورعثمان رضی اللہ عنہ۔
گیارہ رکعت پڑھنے کی دلیل : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يصلِّي فيما بين أن يفرغَ من صلاةِ العشاءِ ( وهي التي يدعو الناسُ العتمَةَ ) إلى الفجرِ ، إحدى عشرةَ ركعةً . يسلِّمُ بين كلِّ
ركعتَينِ . ويوتر بواحدةٍ .(صحيح مسلم:736)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔
رات کی نماز دودو رکعت ہے اگر کسی کو طاقت ہو تو جتنا چاہے دو دو کرکے پڑھ سکتا ہے ، آخر میں ایک وتر پڑھ لے۔
صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ :
اس کے دو طریقے ہیں ۔
پہلا طریقہ : تین رکعت ایک تشہد سے پڑھے ۔ دلیل :الوِترُ حقٌّ ، فمن أحبَّ أنْ يوترَ بخَمسِ ركعاتٍ ، فليفعلْ ، ومن أحبَّ أنْ يوترَ بثلاثٍ ، فليفعلْ ومن أحبَّ أنْ يوترَ بواحدةٍ ، فليفعلْ .(صحيح النسائي:1711)
ترجمہ: ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔
مسلسل تین رکعت ادا کرے یعنی دو رکعت پہ تشہد کے لئے نہ بیٹھے ۔ دلیل : لا توتِروا بثلاثٍ ولا تُشبِّهوا الوِترَ بثلاثٍ(عون المعبود)
ترجمہ: تین رکعت وتر نہ پڑھو اوروترکو(مغرب کی) تین رکعت سے مشابہت نہ کرو ۔
اس حدیث کو صاحب عون المعبود نے شیخین کی شرط پہ بتلایا ہے ۔ (4/176 )
مغرب کی مشابہت سے دو طریقوں سے بچا جا سکتا ہے ، ایک یہ کہ تین رکعت اکٹھی پڑھی جائیں،بیچ میں تشہد نہ کیا جائے دوسرا طریقه یہ ہے کہ دو رکعت الگ پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے ، پھر ایک رکعت الگ پڑھی جائے ۔ اس کی دلیل نیچے ذکر کی جارہی ہے ۔
تین وتر پڑھنے کا دوسرا طریقہ :
دو رکعت ایک سلام سے پڑھ کر پھر ایک سلام سے ایک رکعت پڑھی جائے ۔ دلیل :
كان يُوتِرُ بركعةٍ ، و كان يتكلَّمُ بين الرَّكعتَيْن والرَّكعةِ(السلسلة الصحيحة:2962)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے۔
٭ وتر کی قرات:
نبی ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں "سبح اسم ربك الأعلى " دوسری رکعت میں "قل ياأيها الكافرون" اورتیسری رکعت میں "قل هو الله أحد" پڑھتے تھے ۔
كانَ رسولُ اللَّهِ يقرأُ في الوترِ ب سبِّحِ اسمَ ربِّكَ الأعلى وفي الرَّكعةِ الثَّانيةِ ب قل يا أيُّها الكافرونَ وفي الثَّالثةِ ب قل هوَ اللَّهُ أحدٌ ولا يسلِّمُ إلَّا في آخرِهنَّ ويقولُ يعني بعدَ التَّسليمِ
سبحانَ الملِك القدُّوسِ ثلاثًا( صحيح النسائي:1700)
ترجمہ: نبی ﷺ وتر میں" سبِّحِ اسمَ ربِّكَ الأعلى" دوسری رکعت میں " قل يا أيُّها الكافرونَ" اور تیسری میں "قل هوَ اللَّهُ أحدٌ" پڑھتے تھے اور سب سے اخیر میں سلام پھیرتے تھے اور سلام کے بعد تین مرتبہ کہتے "سبحانَ الملِك القدُّوسِ"۔
٭ دعائے قنوت کا حکم :
قنوت وتر واجب نہیں ، مشروع ہے ۔ آپ ﷺ کی قنوت وتر کے متعلق وارد ہے ۔
كانَ يوترُ فيَقنُتُ قبلَ الرُّكوعِ(صحيح ابن ماجه:978)
ترجمہ:رسول اللہﷺ وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔
٭دعائے قنوت کے صیغے:
اللَّهمَّ اهدِني فيمن هديتَ وعافِني فيمن عافيتَ وتولَّني فيمن تولَّيتَ وبارِك لي فيما أعطيتَ وقني شرَّ ما قضيتَ فإنَّكَ تقضي ولا يُقضى عليكَ وإنَّهُ لا يذلُّ من واليتَ تباركتَ ربَّنا وتعاليتَ(صحيح الترمذي:464)
٭دعائے قنوت بصیغہ جمع بھی حدیث میں وارد ہے۔
٭دعائے قنوت میں زیادتی کرنا بھی جائز ہے۔ علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں:
ولا بأس من الزيادة عليه بلعن الكفرة ومن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، والدعاء للمسلمين . (قيام رمضان للألباني:31)
ترجمہ: دعا میں زیادتی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کافروں پہ لعنت، نبی ﷺ پہ درود اور مسلمانوں کے لئے دعا کی غرض سے ۔
٭ قنوت وتر رکوع سے پہلے اور بعد میں دونوں طرح جائز ہے ۔
٭ دعائے قنوت میں ہاتھ اٹھایا جاسکتا ہے جیسے عام دعاؤں میں اٹھایا جاتا ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ احادیث میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں اس لئے ہاتھ اٹھانا خلاف سنت ہے ۔ یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ متعدد صحابہ اور تابعین سے وتر کی دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے جن میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما،عمر رضی اللہ عنہ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ،ابو قلابہ اور امام مکحولؒ وغیرہم۔
عبدالرحمان مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں کہ ظاہرا دعا کی طرح اس میں بھی ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے ۔(تحفة الأحوذی شرح ترمذی: 1/343)
٭وتر کی نمازاکیلے اور باجماعت سفروحضردونوں میں ادا کی جاسکتی ہیں جیساکہ سنت سے ثابت ہے ۔
٭ایک رات میں دو وتر:
ایک رات میں ایک مرتبہ ہی وتر پڑهنا چاہئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا وِترانِ في ليلةٍ(صحيح أبي داود:1439)
کہ ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں۔
اگر کوئی شخص ایک مرتبہ وتر پڑھ کے سو جائے اور دوبارہ قیام کرنا چاہے تو کرسکتا ہے مگر
بعد میں وتر نہیں پڑهے جیساکہ مذکورہ حدیث سے واضح ہے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجعلوا آخرَ صلاتِكم بالليلِ وترًا.(صحيح البخاري:998ِ، صحيح مسلم:751)
یعنی رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان وجوب کے لئے نہیں ہے.
٭ وتر کی قضا :
اگر کبھی نیند کی وجہ سے وتر کی نماز نہ پڑھ سکے تو جب بیدار ہو وتر پڑھ لے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من نامَ عن وترِهِ أو نسيَهُ فليصلِّهِ إذا ذكرَهُ(صحيح أبي داود:1431)
ترجمہ: جو وتر کی نماز سے سو جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے ۔
٭ وتر کی نماز چھوڑنا:
وتر اور فجر کی دو سنت بہت اہم ہیں جنہیں نبی ﷺ نے سفر و حضر میں ہمیشہ پڑھنے کا اہتمام کیا۔اس لئے ہمیں بھی سدا اس کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ کبھی کبھار وتر چھوٹنے کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ سنت مؤکدہ ہے مگر برابر چھوڑنے والا بہت سے علماء کے نزدیک ناقابل شہادت ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
الوتر سنة مؤكدة باتفاق المسلمين، ومن أصر على تركه فإنه ترد شهادته. (الفتاوی الکبری)
کہ وتر تمام مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر سنت مؤکدہ ہے اور جو متواتر اسے چھوڑتا ہے اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی ۔

اعتکاف  کے مسائل
اعتکاف اور اس کا حکم:
اعتکاف کا تعلق رمضان کے آخری عشرے سے ہے ۔ یہ قرب الہی کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس سے متعلق متعدد فضائل وارد ہیں مگر سب کے سب ضعیف ہیں تاہم اس کی مشروعیت وترغیب متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔ ہاں اعتکاف عبادت ہے نیز مسجد میں اعتکاف کی بدولت مختلف قسم کی نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اس لئے ان سب کی فضیلت و اجر اپنی جگہ مسلم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ( البقرة:125)
ترجمہ:اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں۔
نیز اللہ کا فرمان ہے : وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (البقرة:187)
ترجمہ:اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔
اور نبی ﷺ کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے :
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يعتكفُ العشرَ الأواخرَ من رمضانَ حتى توفاهُ اللهُ، ثم اعتكفَ
أزواجُهُ من بعدِهِ .(صحيح البخاري:2026، صحيح مسلم:1172)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔
قرآن و حدیث کے علاوہ اجماع امت سے بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے جیساکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔(وشرح العمدة :2/711) .
دلائل کی رو سے اعتکاف واجب نہیں بلکہ سنت ہے الا یہ کہ کوئی اعتکاف کی نذر مان لے تو اس کے حق میں واجب ہوگا۔
اعتکاف کی جگہ:
جس طرح مرد کے لئے اعتکاف مسنون ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی اعتکاف مشروع ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے ۔ جیساکہ اوپرقرآن کی آیت سے واضح ہے اور نبی ﷺ نے اس پہ عمل کرکے دکھایا ہے ۔اگر عورت اعتکاف کرے تو اسے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ہوگا خواہ جامع مسجد ہو یا غیر جامع ۔ صرف جامع مسجد میں اعتکاف والی روایت (لاَ اعْتِكَافَ إِلاَّ فِى مَسْجِدٍ
جَامِعٍ) پر کلام ہے ۔ اگر جامع مسجد میں اعتکاف کرے تو زیادہ بہترہے تاکہ نماز جمعہ کے لئے نکلنے کی ضرورت نہ پڑے ۔
اعتکاف کا وقت :
نبی ﷺ نے رمضان میں اکثر دس دنوں کا اعتکاف کیا ہے اس لئے افضل ہے کہ رمضان
کے آخری عشرے میں دس دنوں کا اعتکاف کرے کیونکہ آخری عشرے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اعتکاف کی دل سے نیت کرے اور بیسویں رمضان کا سورج ڈوبتے ہی مسجد میں داخل ہوجائے ۔یہ اکیسویں کی رات ہوگی ۔ رات بھر ذکرواذکار اور نفلی عبادات میں مصروف رہے اور فجر کی نماز پڑھ کے اعتکاف کی جگہ پہ چلاجائے ۔ عید کا چاند ہوتے ہی اعتکاف ختم کردے ۔
اعتکاف کے مباح امور:
بحالت اعتکاف مسجد میں کھانا پینا،غسل کرنا،بقدرضرورت بات کرنا،تیل خوشبو استعمال کرنا،بغیر شہوت بیوی سے بات چیت اور اسے چھونا، ناگزیر ضرورت کے لئے باہرجانا مثلا مسجد میں بیت الخلاء نہ ہوتوقضائے حاجت کے لئے ، جمعہ والی مسجد نہ ہوتو نماز جمعہ کے لئے ، کھانا کوئی لادینے والا نہ ہوتوکھانا کے لئے وغیرہ۔
اعتکاف کے منافی امور:
بلاضرورت مسجد سے باہرجانا،جماع یا کسی اور طرح سے قصدا ً منی خارج کرنا اعتکاف کے بطلان کا سبب ہے ۔ اسی طرح حیض ونفاس بھی عورت کا اعتکاف باطل کردے گا۔ ان کے علاوہ بلاضرورت بات چیت، غیرضروری کام میں تضییع اوقات یا عبادت کے منافی کام جھوٹ و غیبت سے بچے ۔ یہ بطلان کا سبب تو نہیں مگر ان سے اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح مریض کی عیادت، نمازجنازہ اور دفن کے لئے مسجد سے باہر نکلنا بھی جائز نہیں ہے ۔
اعتکاف کے مسنون اعمال :
معتکف کو چاہئے کہ دس دنوں میں کثرت سے تدبر کے ساتھ تلاوت، ذکر واذکار، دعا واستغفار اور نفلی عبادات انجام دے ۔خشوع وخضوع اور خضورقلبی کے ساتھ اللہ سے تعلق جوڑنے پہ محنت و مشقت کرے ۔ رمضان تقوی کا مظہر ہے ، اعتکاف سے تقوی کو مزید تقویت بخشے ۔ان ہی دنوں میں لیلۃ القدربھی آتی ہے معتکف کے لئے اسے پانی کا سنہرا موقع ہے ، آپ ﷺ نے اسی غرض سے تینوں عشرے میں اعتکاف کیا۔ جب آخری عشرے میں شب قدر کی خبرملی تو اس میں اعتکاف کرنے لگے ۔
مزید چند مسائل :
٭ اعتکاف کی اس طرح نیت کرنا"نویت سنت الاعتکاف ﷲ تعالیٰ"(میں نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے سنت اعتکاف کی نیت کی) بدعت ہے ۔ نیت محض دل سے کرنا ہے۔
٭ اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں (لااعتکاف الابصوم) والی روایت پہ کلام ہے ۔
٭ مسجد میں عورت کے لئے جب تک مخصوص ومحفوظ جگہ نہ ہو تب تک اسے اعتکاف میں بیٹھنا جائز نہیں۔
٭ صرف تین مساجد میں اعتکاف کا اعتقاد بھی صحیح نہیں ہے ۔
٭ اعتکاف کی مدت متعین نہیں ہے اس لئے دس دن سے کم اور زیادہ کا بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے ۔ حدیث میں کم ازکم ایک دن ایک رات کے اعتکاف کا ذکر آیا ہے ۔
٭ رمضان کے علاوہ دیگر ماہ میں بھی اعتکاف کیاجاسکتا ہے جیساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔
٭اگر کسی نے اعتکاف کی نیت کی (نذرنہیں مانی) مگر حالات کی وجہ سے اعتکاف نہیں کرسکا تو اس پہ کچھ نہیں ہے ۔
٭اجتماعی اعتکاف اس طرح کہ ایک مسجد میں کئی معتکف ہوں جائز ہے مگر اجتماعی صورت سے ذکر یا دعا یا عبادت کرنا صوفیاء کی طرح جائز نہیں ہے ۔
اعتکاف سے متعلق بعض ضعیف احادیث :
(1)منِ اعتَكَفَ عشرًا في رمضانَ كانَ كحجَّتينِ وعُمرتينِ۔( السلسلة الضعيفة:518)
ترجمہ:جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔
(2)مَنِ اعتكف يومًا ابتِغاءَ وجهِ اللهِ ؛ جعل الله بينَه وبينَ النارِ ثلاثةَ خنادقَ ، كُلُّ خَندَقٍ أبْعدُ مِمَّا بينَ الخافِقَيْنِ .(السلسلة الضعيفة:5345)
ترجمہ: جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔
(3) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في المعتكف هو يعكف الذنوب ، ويجرى له من الحسنات كعامل الحسنات كلها(ضعيف ابن ماجه:352) .
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارہ میں فرمایا :وہ گناہوں سے باز رہتا ہے ، اوراس کے لیے سب نیکی کرنے والے کی طرح نیکی لکھی جاتی ہے۔
(4) مَنِ اعتكفَ إيمانًا واحتسابًا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (ضعيف الجامع (5452) .
ترجمہ:جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئےجاتے ہیں۔
(5)لا اعتكافَ إلا في المساجدِ الثلاثةِ(ضعیف عندشیخ ابن باز،مجموع فتاوى ابن باز25/218)
ترجمہ: اعتکاف تین مساجد کے علاوہ کسی میں نہیں۔

لیلۃ القدر اور اس کے مسائل
لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت :
لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت پہ ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے جس سے اس کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)(سورۃ القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلة القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلةالقدرکیا ہے ۔لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ
رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
اس سورت میں چند فضائل کا ذکر ہے ۔
٭ شب قدر میں قرآن کا نزول ہوا یعنی یکبارگی مکمل قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا جو تئیس سالوں میں قلب محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔
٭یہ قدرومنزلت والی رات ہے ، قدر کی تفصیل اللہ نے ہزار مہینوں سے بیان کی جو مبالغہ پر دلالت کرتاہے یعنی یہ رات ہزاروں مہ و سال سے بہتر ہے ۔
٭ یہ اس قدر عظیم رات ہے کہ اس میں فرشتوں بالخصوص جبریل علیہ السلام کا نزول ہوتا ہے ان کاموں کو سرانجام دینے جن کا فیصلہ اللہ تعالی اس سال کے لئے کرتا ہے ۔
٭ یہ مکمل رات سراپہ امن و سلامتی والی ہے ۔ مومن بندہ شیطان کے شر سے محفوظ ہوکر رب کی خالص عبادت کرتا ہے ۔
* اس رات سال میں ہونے والے موت وحیات اور وسائل حیات کے بارے میں سال بھر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ(الدخان:4)
ترجمہ: اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
٭ لیلۃ القدر میں قیام کا اجر پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
* لیلۃ القدر کی فضیلت سے محروم ہونے والا ہرقسم کی بھلائی سے محروم ہے ۔
دخلَ رمضانُ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إنَّ هذا الشَّهرَ قَد حضرَكُم وفيهِ ليلةٌ خيرٌ مِن ألفِ شَهْرٍ من حُرِمَها فقد حُرِمَ الخيرَ كُلَّهُ ولا يُحرَمُ خيرَها إلَّا محرومٌٍ(صحيح ابن ماجه:1341)
ترجمہ: ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تونبی ﷺنے فرمایا کہ: تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سےافضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلائی سے محروم رہ گیا۔
لیلۃ القدرکا تعین:
لیلۃ القدر کے تعین کے سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ملتے ہیں مگر راحج قول یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے
کی طاق راتوں (21،23،25،27،29) میں سے کوئی ایک ہے ۔ اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے: تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، من العشرِ الأواخرِ من رمضانَ .(صحيح البخاري:2017)
ترجمہ: لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
کیا ستائیسویں کی رات لیلۃ القدر ہے ؟
بعض لوگوں نے 27 ویں کی رات کو  لیلۃ القدر قراردیا ہے جوصحیح نہیں ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بعض روایتوں میں شب قدر ستائیسویں کی رات بتلایا گیا ہے مگرستائیسویں کو ہی ہمیشہ کے لئے شب قدر قرار دینا غلط ہے ۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔
اولا:  بخاری کی روایت اس موقف کی تردید کرتی ہے جس میں شب قدر کو پانچ طاق راتوں
میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، صرف ستائیسویں کی حدیث لیکر فیصلہ کرنا درست نہیں ہے ۔
ثانیا: روایات میں ستائیسویں کے علاوہ دیگر رات کا بھی ذکر ہے ۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے شب قدر پانے کے لئے کبھی پہلے عشرے میں اعتکاف کیا، کبھی درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا تو کبھی آخری عشرے میں اور آخر میں فرمایا:
إني أُريتُ ليلةَ القَدْرِ، ثم أُنْسيتُها، أو نُسِّيتُها، فالتمِسوها في العَشْرِ الأواخرِ في الوَتْرِ
(صحيح البخاري:2016، صحيح مسلم:1167)
ترجمہ: مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگرپھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔
ایک روایت میں ہے : مَن كان مُتَحَرِّيها فلْيَتَحَرَّها في السبعِ الأواخرِ(صحيح البخاري:2015، صحيح مسلم:1165)
ترجمہ : جس کو شب قدر کی تلاش کرنی ہووہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔
ان کے علاوہ کسی روایت میں 21 کا ذکر ہے ، کسی میں 23 کا ذکر ہے ، کسی میں 25 کا ذکر ہے تو کسی میں 29 کا ذکر ہے ۔
ان ساری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے عشراخیرکے اندر وسعت پائی جاتی ہے ، ان میں سبع اخیراور دیگر ساری روایات داخل ہیں۔اس وجہ سے شب قدر آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے ۔ یہی موقف اکثر اہل علم کاہے ۔ جہاں تک ستائیس کا مسئلہ ہے تو کسی سال ستائیس کی رات قدر کی رات کی ہوگی جیساکہ کبھی اکیس، کبھی تئیس ، کبھی پچیس تو کبھی انتیس رہی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  یہ رات ہرسال آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے ۔
ثالثا: نبی ﷺ کے فرامین کے علاوہ آپ کا عمل بھی ثابت کرتا ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے کی کوئی ایک طاق رات ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا
لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے
 لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
لیلۃ القدر کی علامات:
احادیث میں اس شب کی چند نشانیاں ملتی ہیں۔
٭ صبح کے سورج میں شعاع نہیں ہوتی :هي ليلةُ صبيحةُ سبعٍ وعشرين . وأمارتُها أن تطلعَ الشمسُ في صبيحةِ يومِها بيضاءَ لا شُعاعَ لها(صحيح مسلم:762)
ترجمہ: وہ (لیلۃ القدر) ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور
اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔
٭لیلۃ القدر معتدل ہوتی ہے :ليلةُ القدْرِ ليلةٌ سمِحَةٌ ، طَلِقَةٌ ، لا حارَّةٌ ولا بارِدَةٌ ، تُصبِحُ الشمسُ صبيحتَها ضَعيفةً حمْراءَ(صحيح الجامع:5475)
ترجمہ : قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے ۔
٭کبھی بارش بھی ہوسکتی ہے:وإني رأيتُ كأني أسجدُ في طينٍ وماءٍ (صحيح البخاري:813)
ترجمہ: میں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات مٹی اور پانی (کیچڑ) میں سجدہ کر رہا ہوں۔
علامات سے متعلق لوگوں میں غلط باتیں مشہور ہیں مثلا اس رات کتے نہیں بھوکتے ، گدھے کم بولتے ہیں ۔ سمندر کا کھارا پانی بھی میٹھا ہوجاتا ہے ۔ درخت زمین کو سجدہ کرتے ہیں پھر اپنی جگہ لوٹ جاتے ہیں ۔ ہرجگہ روشنی ہی روشنی ہوتی ہے ، اس دن شیطان سورج کے ساتھ نہیں نکل سکتا۔وغیرہ
لیلۃ القدر میں ہم کیا کریں ؟
حدیث میں لیلۃ القدرکے حصول کے لئے نبی ﷺ کے بالغ اجتہاد کا ذکر ملتا ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر
والوں کو بھی جگاتے تھے۔
اس حدیث میں تین باتیں مذکور ہے ۔
(1) شد میزرہ : کمر کس لیتے یعنی عبادت کے لئے بالغ اجتہادکرتے ۔عورتوں سے کنارہ کشی کے بھی معنی میں آیا ہے ۔
(2) احیالیلہ : شب بیداری کرتے رات میں عبادت کے لئے خود کو بیدار رکھتے ۔
(3) ایقظ اھلہ : اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ اہم رات ہوتی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شب قدر میں عبادت پہ خوب خوب محنت کرناہے تاکہ ہم اس کی
فضیلت پاسکیں جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
قیام کے ساتھ ذکرودعا اور تلاوت و مناجات سے اس رات کو مزین کریں ۔ اس رات کی ایک خصوصی دعا ہے جو نبی ﷺ نے اپنی امت کو سکھائی ہے ۔
عن عائشة أنها قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ : قال: تقولين اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ﴿ صحيح ابن ماجه:3119)
ترجمہ : عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو:" اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي"(اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو مجھے معاف کردے)۔
سنن ترمذی میں عفو کے بعد "کریم" کی زیادتی ہے ، اس زیادتی کی کوئی اصل نہیں یعنی یہ ثابت نہیں ہے ۔ 

صدقہ الفطراور اس کے مسائل
صدقہ الفطر کی فرضیت :
جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا اسی سال صدقہ الفطر بھی فرض ہوا۔ وہ سن دو ہجری ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔
قرآن سے دلیل: قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ (الاعلی : 14)
ترجمہ:بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا۔
سنت سے دلیل : أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين (صحيح مسلم:984)
ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کے صدقہ الفطر کو مسلمانوں میں سے ہر نفس پر فرض کردیا ہے ۔
امام ابن منذر رحمہ اللہ نے اس کی فرضیت پہ اجماع نقل کیا ہے ۔(الإجماع لابن المنذرص :55)
صدقہ الفطر/ زکوۃ الفطر کو زکوۃ البدن اور زکوۃ النفس بھی کہا جاتا ہے ۔ عام  اردو بول چال میں فطرہ یا فطرانہ سے جانا جاتا ہے۔
فطرانے کی حکمت :
دو حکمتیں تو ایک حدیث میں مذکور ہیں ۔
زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)
پہلی حکمت :
روزہ دار کی پاکی :روزے کی حالت میں روزے دار سے ہونے والی غلطیوں سے پاک ہونے کے لئے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے ۔
دوسری حکمت :
مساکین کا کھانا: عید کے دن جہاں مالدار لوگ خوشی منائیں وہیں اپنی خوشی میں شامل کرنے کے لئے ان کے ذمہ غرباء ومساکین کو فطرانہ ادا کرنا ہےتاکہ وہ بھی مسلمانوں کی عید کی خوشی میں برابر کے شریک ہوسکیں ۔
تیسری حکمت : فطرانے میں مسکینوں کے ساتھ الفت ومحبت کے اظہار کے سوا، اپنے بدن کا صدقہ بھی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اب تک اپنی توفیق سے بقید حیات رکھا۔ اور اللہ کی ان نعمتوں کا شکریہ بھی جو رمضان المبارک میں (روزہ،قیام، اعتکاف، لیلۃ القدروغیرہ)میسرآتے ہیں۔
فطرانے کی شرائط:
اس کی تین شرطیں ہیں۔
(1) فطرانے کے لئے اسلام شرط ہے ، اس لئے کافر پر فطرانہ نہیں۔
(2) استطاعت: فطرانہ کے لئے نصاب کا مالک ہونا شرط نہیں بلکہ اس کے پاس عید کی رات اور اس دن اپنے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنےسے زائد خوراک ہو تو اسے
مسکینوں کو صدقہ کرے۔
(3) تیسری شرط فطرانے کا واجبی وقت ہونا ہے جوعید کا چاند نکلنے سے عید کی نماز کے وقت تک ہے ۔
کن کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا؟
اس سلسلے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد
،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔
*اس لئے ہر مسلمان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، آزاد ہو یا غلام ، مرد ہو یا عورت ان کی طرف سے فطرہ نکالنا ان کے سرپرست کے ذمہ واجب ہے ۔
*یتیم اور مجنوں کے پاس مال ہو تو ان کی طرف سے بھی صدقہ نکالا جائے ۔
*پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے فطرانہ واجب نہیں ہے مگر کوئی بطور استحباب دینا چاہے تو دے سکتا ہے ۔
٭ میت کی طرف سے فطرانہ نہیں ہے ۔ ہاں اگر میت نے وقت وجوب(عید کا چاند نکلنے  
سے عید کی نماز تک) کو پالیا تو اس کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا۔
٭ نوکر یا نوکرانی کافطرانہ خود ان کے ذمہ ہے ، اگر اس کا مالک ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔
فطرانے میں کیا دیا جائے ؟
جس ملک میں جو چیز بطور غذا استعمال کی جاتی ہے اسے فطرے کے طور پہ دے سکتے ہیں ۔اس سے متعلق  نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔
نبی ﷺ کے زمانے میں جو، کھجور، منقہ اور پنیربطور غذا استعمال ہوتا تھا۔ ہمارے یہاں عام طور سے چاول ، گیہوں،چنا، جو ، مکی، باجرہ، جوار وغیرہ اجناس خوردنی ہیں لہذا ہم ان میں سے فطرانہ نکالیں گے ۔
صاع کی مقدار:
فطرانے کی مقدار ایک صاع ہے ۔ایک صاع چار مُد ہوتا ہے ۔گرام کے حساب سے صاع کی تعیین میں  کافی اختلاف ہے ۔شیخ ابن عثیمین نے دوکلو چالیس گرام بتلایا ہے ۔ بعض نے دوکلو ایک سو، بعض نے پونے تین سیر یعنی ڈھائی کلو تقریبا،بعض نے دو کلو ایک سوچھہتر، بعض نے دو کلو سات سو اکاون کہا ہے ۔ شیخ ابن باز نے تین کلو بتلایا ہے ۔ یہی سعودی فتاوی کمیٹی لجنہ دائمہ کا فتوی ہے ۔
زیادہ تر اقوال ڈھائی کلو کے آس پاس ہیں ۔ اگر فی کس ڈھائی کلو کے حساب سے نکال دیا جائے توزیادہ مناسب ہے ۔ اس میں فقراء و مساکین کا فائدہ بھی ہے  اور اگر کوئی تین کلو کے حساب سے نکالتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ جان لینا چاہئے کہ ایک ہی جنس سے ایک صاع نکالنا بہتر ہے نہ کہ آدھا ایک جنس سے اور آدھا ایک جنس سے ۔
ابوداؤد اور نسائی وغیرہ میں نصف صاع کابھی ذکر ہے مگر وہ ورایت صحیح نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں بعض آثار بھی ملتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،علامہ ابن القیم، علامہ البانی اورعبیداللہ مبارک پوری رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ نصف صاع بھی کفایت کرے گا۔
فطرانے کا مصرف:
فطرانے کا مصرف نبی ﷺ نے بتلادیا ہے ۔
زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)
ترجمہ: صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے ۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ فطرانے کا مصرف فقراء ومساکین ہے۔ بعض علماء نے کہا زکوۃ کے
 آٹھ مضارف میں فطرانہ صرف کرسکتے ہیں مگر یہ بات مذکورہ بالا حدیث کے خلاف ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فطرانے کو فقراء ومساکین کے ساتھ خاص کیا ہے اور دلیل سے قوی تر اسی کو قرار دیا ہے ۔ (مجموع فتاوى:25/71) .
شیخ ابن باز نے کہا کہ فطرانے کا مصرف فقراء ومساکین ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے:
زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ۔
ترجمہ: صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے ۔
انتہی (مجموع الفتاوى:14/202)
لہذا فطرانہ فقراء ومساکین کے علاوہ مسجد و مدرسہ وغیرہ پہ خرچ کرنا سنت کی مخالفت ہے ۔
اگر اپنی جگہ پہ فقراء ومساکین نہ پائے تو دوسری جگہ فطرانہ بھیج دے۔
فطرانے کا وقت :
فطرانے کا دو وقت ہے ۔ ایک وقت وجوب اور ایک وقت جواز
وقت وجوب: عید کا چاند نظر آنے سے عید کی نماز تک ہے ۔ اس درمیان کسی وقت مستحق کو فطرانہ دیدے ۔
وقت جواز: عید سے ایک دو دن پہلے فطرہ دینا جائز ہے ۔ بخاری ومسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين(صحیح البخاري:1511 وصحیح مسلم:984).
کہ صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے فطرانہ ادا کرتے تھے ۔
افضل وقت عید کی نمازکے لئےنکلنے سے پہلے ادا کرنا ہے کیونکہ فرضیت فطرانہ والی صحیحین کی روایت میں ہے :
وأمَر بها أن تؤدَّى قبلَ خروجِ الناسِ إلى الصلاةِ .(صحیح البخاري:1503)، وصحیح مسلم:984)
نبی ﷺ نے عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے لوگوں کو فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
عید کی نماز کے بعد فطرہ دینے سے ادا نہ ہوگا وہ محض عام صدقہ شمار ہوگا لیکں اگر کسی کے ساتھ بھول ہوگئی یا کسی عذرشرعی کی بنیاد پر تاخیر ہوگئی تو اللہ تعالی ایسے بندوں سے درگذرکرتا ہے ۔
فطرانہ دینے کی جگہ :
اس میں اصل یہی ہے کہ جو جس جگہ رہتا ہے وہیں فطرہ ادا کرے لیکن اگر وہاں فقراء ومساکین موجود نہ ہوں تو فطرہ دوسری جگہ بھیج دے ۔ اسی طرح اگر کسی دوسری جگہ بھجنے میں سخت ضرورت ہو تو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
فطرانے میں رقم دینا:
یہ ایک اہم مسئلہ جو لوگوں میں جواز اور عدم جواز سے متعلق اختلاف کا باعث بناہوا ہے ۔ احادیث کی روشنی میں یہ مسئلہ واضح ہے ، نبی ﷺ نے فطرانہ کو مسکین کی غذا قرار دیا ہے اورغذا کھائی جانےوالی چیز ہے، نہ کہ رقم ۔
اس لئے فرمان رسول ﷺ پہ چلتے ہوئے اولی و افضل غلے سے ہی فطرہ ادا کرنا ہے ۔ تاہم
سخت ضرورت کے تحت فطرے کی رقم دینا بھی جائز ہے ۔ اس کو مثال سے اس طرح سمجھ لیں کہ آج کل فقراء ومساکین جنہیں غلے کی حاجت نہیں ہوتی وہ ہم سے غلہ تو لے لیتے ہیں مگراسے بیچ کر قیمت حاصل کرتے ہیں اورپھر قیمت سے اپنی ضروری اشیاء خریدتے ہیں ۔ ایسے حالات میں بجائے اس کے کہ مسکین کو غلہ بیچنےکی مشقت ملے اور غلے کی کم قیمت حاصل کرنی پڑے ۔ خود ہم ان کی طرف سے وکیل بن کر غلے کی قیمت ادا کردیں۔
واضح رہے یہ صرف ضرورتا ًجائز ہے تاہم اولی و افضل سنت کی تطبیق دینی ہے جو کہ اشیائے خورنی سے فطرہ ادا کرنا ہے ۔

عیدالفطراور اس کے مسائل
عیدالفطر اور اس کا حکم:
دوہجری میں روزہ فرض ہوا، صدقہ الفطر بھی اسی سال واجب ہوا اور اسی سال پہلی مرتبہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گئی ۔ نماز عید مسلمانوں پر واجب ہے ، بغیر عذر کے اس سے پیچھے رہ جانے والا گنہگار ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ(الكوثر:2)
ترجمہ:اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو.
وجوب کی اصل دلیل صحیحین کی اس حدیث سے ملتی ہے جس میں نبی ﷺ نے حائضہ عورت تک کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا ہے۔
یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ،شیخ البانی، شیخ ابن باز، شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری وغیرہم کا ہے ۔
عید کا چاند:
رمضان کی انتیسویں تاریخ کو چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ واضح رہے کہ رمضان کے چاند کی رویت کے لئے ایک عادل مسلمان کی گواہی کافی ہے مگر رمضان کے علاوہ بقیہ تمام مہینوں کے لئے دوعادل مسلمان کی گواہی ضروری ہے ۔ جب چاند نظر آئے تو یہ دعا پڑھیں:
«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه»(السلسلہ الصحیحہ: 1816)
فطرانے کی ادائیگی :
عید کا نکلنے سے فطرے کا واجبی وقت شروع ہوجاتا ہےلہذا عید کی نماز سے پہلے پہلے فی کس ڈھائی کلو اناج گھر کے چھوٹے بڑے تمام لوگوں کی طرف سے نکال کے فقراء و مساکین کو دیدیں ۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔
عید کی شب عبادت :
عید کی رات عبادت کرنے سے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے ۔ روایت یہ ہے :
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ قَامَ لَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ۔(ضعيف ابن ماجه:353)
ترجمہ: ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نيت سے اللہ تعالى كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے۔
یہ روایت گھڑی ہوئی ہے ، اس لئے اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔ اس روایت کو شیخ البانی نے ضعیف ابن ماجہ میں موضوع کہا ہے ، سلسلہ ضعیفہ میں سخت ضعیف کہا ہے ۔ اور دیگر محدثین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
گویا عید کی رات عبادت کرنے سے متعلق فضیلت والی کوئی روایت ثابت نہیں ہے ۔ اس کا معنی ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ اس دن قیام نہیں کیا جاسکتا ہے ، جس طرح دیگر راتوں میں قیام کرنے کا ثواب ہے اس عموم میں یہ رات بھی داخل ہے ۔
تکبیر:
چاند رات سورج ڈوبنے سے لیکر نماز عید تک تکبیر پڑھنا سنت ہے ، یعنی شب عید سے لیکر خطبہ ختم ہونے تک تکبیرپڑھنا چاہئے ۔گھر میں ہو، بازار میں ہو یا مسجد میں۔مردحضرات بآواز بلند پڑھیں اور خواتین پست آواز میں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔(البقرة:185)
ترجمہ: وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اوراس کا شکر کرو۔
تکبیرات کے ثابت شدہ الفاظ :
(1)اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل:3/125)
(2) اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ على ما هَدَانا۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل3/126)
(3) اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا۔
اس کو شیخ ابن تیمیہ نے ثابت کہا ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:23/326)
(4) اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ ، اللهُ أكبرُ كبيرًا۔
حافظ ابن حجر نے اسے تکبیرکا سب سے صحیح صیغہ جو ثابت ہے کہا ہے ۔(فتح الباري :2/462) .
(5) اللهُ أكبرُ كبيرًا . والحمدُ لله كثيرًا . وسبحان اللهِ بكرةً وأصيلًا۔(صحيح مسلم:601)
یہ ایک عام تکبیر ہے مگر اس کے پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
تکبیر میں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ اجتماعی طور پر تکبیر کہنا یعنی سب یک آواز ہوکر بدعت ہے ۔ 
عید کا روزہ :
عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نهى عن صيامِ يومَينِ : يومِ الفطرِ ويومِ النَّحرِ .(صحيح مسلم:1138)
ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے۔
غسل، لباس اور خوشبو :
عید کے دن غسل کرنا مستحب ہے ۔ بہتر ہے فجر کی نماز کے بعد غسل کرے، اگرکسی وجہ سے اس سے پہلے غسل کرلیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح عمدہ یا صاف ستھرا لباس لگانا چاہئےجیساکہ نبی ﷺ سے عید کے دن خوبصورت چادر اوڑھنے کا ذکر ملتاہے اور خوشبو نبی ﷺکو بہت پسند تھی اس لئے ہمیں بھی اسے پسند کرنا چاہئے۔
عید کے دن کھانا:
 کھجوریں  کھاکر عید گاہ جانا مسنون ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم لا يَغْدُو يوْمَ الفِطْرِ حتَّى يَأْكُلَ تَمَراتٍ(صحيح البخاري:953)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کھجوریں تناول فرمائے بغیر نہ نکلتے۔
طاق کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا چاہئے جیساکہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے  اور کھجور میسر نہ ہو تو جو بھی ملے کھالے ۔
عیدگاہ پیدل جانا:
پاپیادہ عیدگاہ جانا چاہئے اور اسی طرح واپس آنا چاہئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا(صحيح ابن ماجه:1078)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جاتے پیدل ہی واپس تشریف لاتے ۔
ضرورتمند آدمی سواری پہ سوار ہوسکتا ہے ۔
واپس لوٹتے ہوئے راستہ بدل دینا چاہئے ۔ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم ، إذا كان يومُ عيدٍ ، خالف الطريقَ.(صحيح البخاري:986)
ترجمہ:عيد كے دن رسول كريم صلى اللہ عليہ سلم مختلف راستے پر چلتے۔
راستے کی مخالفت کی حکمت سے متعلق بہت سارے اقوال ملتے ہیں ، سب سے اچھا جواب شیخ ابن عثیمین کا ہے کہ اس کی حکمت نبی ﷺ کی اتباع اور پیروی ہے ۔ 
عیدگاہ:
عید کی نماز صحرا میں ادا کی جائے البتہ ضرورت کے تحت مسجد میں بھی ادا کی جاسکتی ہےجیساکہ بارش کی وجہ سے نبی ﷺ
نے مسجد میں عید کی نماز پڑھی ہے ۔
عید کی نماز اور خواتین:
نبی ﷺ نے عورتوں کو عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا لہذا خواتین کو نماز عید میں شریک ہونا چاہئےخواہ بوڑھی ہو جوان، شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ اور بالغہ ہو یا نابالغہ یہاں تک آپ ﷺ نے حائضہ کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکے ۔
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ . قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .(صحیح البخاري :324وصحیح مسلم :890)
ترجمہ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحی میں عید گاہ لے جائیں جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کو بھی ، ہاں حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہیں لیکن وہ اخیر میں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ،میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی ایک کے پاس جلباب نہ ہوتو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔
اس لئے عید کے دن خواتین کے لئے افضل ہے کہ وہ عیدگاہ جائیں ۔ ذمہ داروں کو چاہئے کہ خواتین کے لئے الگ سے خیمے کا انتظام کرے تاکہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھ سکے ۔ خواتین کا الگ سے عید کی نماز ادا کرنا مشروع نہیں ہے ۔ 
نماز عید کا طریقہ:
٭عیدگاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد کوئی نماز نہیں ہے ، اسی طرح عید کی نماز کے لئے اذان و اقامت بھی نہیں ہے ۔
٭اگر مسجد میں عید کی نماز ادا کرے تو تحیۃ المسجد ادا کرے ۔
٭ نماز عید صرف دو رکعت ہے ۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں پڑھے ۔
٭تکبیرات عید پہ رفع یدین کرنا چاہئے حدیث سے ثابت ہے ۔
خطبہ عید:
نماز کے بعد امام مرد و خواتین کو وعظ و نصیحت کرے ۔ خطبہ صحیح قول کی روشنی میں سنت ہے، واجب نہیں ہے ۔ عید کی نماز
 کےبعد نبی ﷺ نے فرمایا تھا: مَن أحبَّ أن ينصرفَ فلينصرِفْ ، ومن أحبَّ أن يُقيمَ للخطبةِ فليُقِمْ۔(صحيح النسائي:1570)
ترجمہ: جو لوٹنا پسند کرے وہ لوٹ جائے اور جو خطبہ کے لئے رکنا چاہے وہ رک جائے۔
٭ جمعہ کی طرح اس کا سننا واجب نہیں لیکن وعظ ونصیحت کو سنے بغیر جانا بھی نہیں چاہئے۔
٭ عید کا ایک ہی خطبہ حدیث سے ثابت ہے ۔
٭ خطبہ کھڑے ہوکر دینا ہے اور بغیر منبر کے دینا ہے ۔
٭ خطبہ کے بعد یا نماز عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ملتا لہذا اس نئی ایجاد سے بچنا چاہئے۔
جمعہ کے دن عید کی نماز:
اگر جمعہ کے دن عید کی نماز پڑجائے تو اس دن جمعہ کی نمازبھی پڑھ سکتے ہیں یاپھر ظہر ہی ادا کرنا کافی ہوگا۔
اجتمعَ عيدانِ على عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فصلَّى بالنَّاسِ ثمَّ قالَ من شاءَ أن يأتيَ الجمعةَ فليأتِها ومن شاءَ أن يتخلَّفَ فليتخلَّف(صحيح ابن ماجه:1091)
ترجمہ : ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ساتھ دو عید پڑگئیں (یعنی عید اور جمعہ)، تو آپ نے عید کی نماز پڑھانے کے فرمایا کہ: جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے توپڑھ لے، اور جو نہیں پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہ پڑھے۔
نمازعید اور قضا:
٭ اگر کسی کو ایک رکعت مل جائے تو اس نے عید کی نماز پالی ،جو آخری رکعت کے سجدہ یا تشہد میں امام کے ساتھ ملے تو وہ عید کی نماز کی طرح نماز ادا کرلے ۔
٭ اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے ۔جنہوں نے کہا نمازعید کی قضا نہیں صحیح بات نہیں ہے ۔ قضا کا بھی آثار سے ثبوت ملتا ہے ۔ نیز جس اثر سے قضا کی صورت میں چار رکعت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے اسے
 شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں منقطع قرار دیا ہے ۔ قضاکرتے ہوئے دو رکعت ہی ادا کرے اور خطبہ عید چھوڑدے۔
عید کی مبارکبادی:
 عید کے دن ایک دوسرے کو بایں الفاظ مبارکبادی دی جائے :تقبل اللہ منا ومنک( اللہ تعالیٰ ہم سب کی عید اور دیگر اعمال صالحہ قبول فرمائے)۔
كان أصحابُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا الْتَقَوْا يومَ العيدِ يقولُ بعضُهم لبعضٍ : تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا ومنكَ۔
جبير بن نفير(تابعی) بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام عيد كے روز جب ايك دوسرے كو ملتے تو ايك دوسرے كو كہتے"تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك" (اللہ تعالى مجھ اور آپ سے قبول فرمائے).
اس کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے ۔(تمام المنة:354)
حافظ ابن حجر نے اسے حسن کہا ہے (فتح الباری )
عید کے دن معانقہ و مصافحہ:
شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:نماز عيد كے بعد مصافحہ اور معانقہ كرنے كا حكم كيا ہے ؟
توانہوں نے جواب دیا:ان اشياء ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ لوگ اسے بطور عبادت اور اللہ تعالى كا قرب سمجھ كر نہيں كرتے، بلكہ لوگ يہ بطور عادت اور عزت و اكرام اور احترام كرتے ہيں، اور جب تك شريعت ميں كسى عادت كى ممانعت نہ آئے اس ميں اصل اباحت ہى ہے۔ اھـ(مجموع فتاوى ابن عثيمين : 16 / 208- 210 )
عیدکے دن کھیل:
 عید کے دن خوشی کے اظہار میں جائز کھیل کا مظاہرہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔عید کے دن حبشہ کے لوگوں کا ڈھالوں اور برچھوں سے کھیلنا ثابت ہے ۔ آپ ﷺ نے بھی اس کھیل کو دیکھا اور ان حبشیوں کو مزید کھیلنے کو کہا۔ یہ حدیث بخاری شریف میں کتاب العید کے تحت مذکور ہے ۔ 

شش عیدی روزی اور اس کے مسائل
رمضان المبارک کا روزہ ختم ہونے کے بعد شوال کے چھ روزوں کی  صحیح احادیث ترغیب ملتی ہے ۔ ان چھ روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔  تزکیہ نفس، عمل پہ مداومت اور مسلسل عبادات مومن کی میراث ہے ۔جہدمسلسل کے ذریعہ بندہ معمولی عمل سے رب کو پالیتاہے اور اس کی رضا حاصل کرکے رحمت ومغفرت کا مستحق بن جاتاہے ۔ شوال کے چھ روزے بھی انہیں غنیمت کے اعمال میں سے ہیں اسے ہمیں لازم پکڑنا چاہئے ۔
شوال کے چھ روزے کی دیکھیں۔
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ(صحيح مسلم:1164)
ترجمہ: ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب)کی طرح ہیں۔
قرآن  کے اس فرمان : مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ(الانعام :160)
ترجمہ: جو شخص نیک کام کرے اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابرہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا۔
کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ کم ازکم  دس نیکیاں ہیں اس طرح ایک مہینے کے روزے کا اجر دس مہینوں کے برابرہوا۔ اور شوال کے ہرروزے کے بدلے دس دن کا ثواب ، چھ روزوں کا بدلہ ساٹھ یعنی دومہینوں کا ثواب بنتاہے ۔ اس طرح شوال کے چھ روزوں کو رمضان کے ساتھ ملانے سے سال بھر کا ثواب ملتاہے ۔
ایک دوسری حدیث میں اس بات کی صراحت بھی ملتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صِيامُ شهْرِ رمضانَ بِعشْرَةِ أشْهُرٍ ، و صِيامُ سِتَّةِ أيَّامٍ بَعدَهُ بِشهْرَيْنِ ، فذلِكَ صِيامُ السَّنةِ(صحيح الجامع:3851)
ترجمہ:رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے
برابر ہیں ، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔
اس لئے اسے رکھنے کی کوشش کریں فضیلت بھی ملے گی اور بڑے فوائد بھی حاصل ہوں گے ۔ یہ گناہوں کی مغفرت ، تزکیہ نفس، رمضان کی کوتاہی کا تدارک ، شکر الہی کی غنیمت ، مداومت اعمال کا شوق اور اللہ کا پسندیدہ عمل  ہے جس پہ دوام کیاگیا۔ 
کیا شوال کے روزے مکروہ ہیں؟
اس سلسلے میں امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے حدیث کی روشنی میں شوال کے چھ روزے رکھنا صحیح قرار دیا ہے مگر امام حنیفہ رحمہ اللہ نے اسے مکروہ کہاہے ۔ فتاوی عالمگیری اردو،کتاب الصوم کے تحت مذکور ہے "شوال کے چھ روزے رکھنا امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک مکروہ ہے خواہ جداجدا رکھے یا پے درپے رکھے۔"۔ امام مالک ؒ کی طرف بھی کراہت کا قول منسوب کیاجاتاہے ۔
ان دونوں اماموں کا مسلک صحیح حدیث کے خلاف ہے ، اس وجہ یہ بات رد کردی جائے اور ایسی کوئی بھی بات خواہ اس کا قائل کوئی بھی ہو سنت کے خلاف ہونے پہ دیوار پہ مار دے جائے گی جیساکہ امام مالک ؒ نے کہا بھی ہے ۔
نبی ﷺ کے سواباقی ہر انسان کی بات قبول بھی کی جاسکتی اور رد بھی۔﴿ارشاد السالک لابن عبدالہادی :1/227 ﴾
شوال کے چھ روزوں کے مسائل
٭ یہ روزے شوال کے مہینے میں ہی رکھنے ہوں گے خواہ مسلسل رکھے جائیں یا ناغہ کرکے ، دونوں صورتیں جائز ہیں کیونکہ اس سلسلے کی حدیث عام ہے۔
٭ جن کے اوپر رمضان کے روزوں کی قضا بیماری، سفریا حیض ونفاس کی وجہ سے ہو انہیں پہلے قضا روزے ادا کرنے ہوں گے کیونکہ قضا فریضہ ہے اور یہ نفلی ۔ فریضہ کونفل پہ تقدم حاصل ہے ۔
٭یہ روزہ نفلی ہے اس کے لئے بیوی کو شوہر کی اجازت لینے کی ضرورت ہے ، اگر شوہر منع کرے تو رک جائے ۔ اسی طرح حاملہ  یا مرضعہ کے لئے  نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتو نہ رکھنا بہترہے۔
٭بعض لوگوں نے عید کے فوراً بعد روزہ رکھنا لکھا ہے حالانکہ اس میں وسعت ہے ، کچھ بعد بھی رکھ سکتے ہیں تاہم مستحب یہی ہے کہ رمضان سے ملاکر رکھے ۔
٭بعض لوگ ایک دو روزہ رکھ کے چھوڑ دیتے ہیں ، اس سے شوال کے  چھ روزوں کی فضیلت نہیں مل پائے گی ۔ہاں اگر کوئی ایک دو  روزہ رکھا اور بیمار پڑگیا ،مزید روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسے بندوں کو اللہ تعالی مکمل اجر دے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا مرضَ العبدُ ، أو سافرَكُتِبَ له مثلُ ما كان يعملُ مُقيمًا صحيحًا(صحيح البخاري:2996)
ترجمہ: اگر بندہ بیمار ہوگیا یا سفر درپیش ہوگیا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے جتنا حالت اقامت اور تندرستی میں عمل کرتا تھا۔
٭ روزوں کے سلسلہ میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی ہے کہ نبی ﷺ نے صرف ہفتے یا صرف جمعہ کا روزہ رکھنا منع کیا البتہ ایک روزہ آگے یا پیچھے کرکے رکھاجاسکتاہے ۔ سوموار اور جمعرات کا اکیلا اکیلا روزہ نبی ﷺ سے ثابت ہے بلکہ بہت بہتر ہے کیونکہ اس دن اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔
٭ عید کے دن بھی روزہ رکھنا منع ہے اس لئے عید کے بعدسے روزہ رکھا جائے ۔
٭ بعض علماء نے لکھا ہے کہ جنہوں رمضان کا مکمل روزہ نہیں رکھا چاہے عذرشرعی کیوں نہ ہواسے شوال کے چھ روزوں کا ثواب نہیں ملے گا۔یہ رائے درست نہیں ہےکیونکہ حدیث رمضان کا مکمل روزے رکھنے کی بات ہے خواہ قضاکرکے مکمل ہو۔ اللہ تعالی بندوں پر آسانی کرنے والا ہے وہ عذرپہ مواخذہ نہیں کرتا اور عذر کی وجہ سے صحتمندی میں کئے جانے والے عمل کے برابر ثواب دیتا ہے ، اس لئے اللہ سے رحمت کی ہی امید کرنی چاہئے۔
٭ اگر رمضان کے بعض روزوں کی قضا باقی ہو تو ایک ہی نیت سے قضا اور شوال کے چھ روزوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ شوال کے روزوں کی فضیلت ان کے لئے ہے جو رمضان کا مکمل روزہ رکھے ۔اس طرح پہلے وہ قضا رکھ کر رمضان کا روزہ مکمل کرے پھر شوال کے چھ روزے رکھے ۔
٭ ایام بیض کے ساتھ ایک نیت سے یہ روزہ رکھا جاسکتا ہے جیساکہ اہل علم نے لکھا ہے۔
٭  چھ روزے اگر شوال میں نہ رکھ سکے تو اس کی قضا دوسرے مہینوں میں نہیں ہے کیونکہ یہ روزہ شوال سے ہی متعلق ہے البتہ کسی نے بعض روزے رکھے مثلا پانچ اور ایک روزہ کسی عذر شرعی کی وجہ سے چھوٹ کیا تو بعد والے مہینے میں ایک مکمل کرلے اور اللہ تعالی سے رحمت کی امید رکھے ۔

رمضان کے بعد ہماری عملی زندگی
ایک مقدس ،پربہاراورنیکیوں سے لبریزمہینہ جیسے لگا پل بھرمیں ہم سے رخصت ہوگیا ۔اس عظیم الاجرمہینے سے اجتہاد کرنے والا حسب جہدوتوفیق نیکیوں سے اپنا دامن بھرتارہا۔ اب وہ دن نہیں رہے کہ نیکیاں لوٹ سکیں، وہ لمحے رخصت ہوگئے جورب کو بیحد عزیزتھے۔مگریاد رکھیں اللہ تعالی کا کرم عام ہے وہ کبھی سخاوت وکرم کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ مانگنے والے ہمیشہ پاتے رہیں گے، التجاکرنے والے سدا امیدبرآ ہوتےرہیں گے ۔ یہاں ہمیں سوچنا یہ ہے کہ جب واقعی رب کریم ہے ، اس کا کرم عام ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے تو پھراس کے فیض عام سے کیسے ہمیشہ لطف اندوزہواجائے؟
ہمیں یاد ہے کہ استقبال رمضان کے لئے ہم نےایک بہترین لائحہ عمل مرتب کیاتھا۔ وہی لائحہ عمل بعدِرمضان بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کے اوقات آئین اسلام کے مطابق گذرتے رہیں ۔ دراصل زندگی میں وہی لوگ ناکام ہوتے ہیں جن کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اسلام کا آئین ہمیں صبح سے شام تک اور رات سے دن تک چوبیس گھنٹے کا ایک دستور دیتا ہے جس کے مطابق بندہ صبح صادق میں ہی بیدار ہوکررب کی بندگی وذکر کرکے توکل واعتماد کے ساتھ کسب معاش کے لئے اللہ کی زمین میں پھیل جاتاہے پھر مقدر کی روزی لیکر واپس ہوجاتاہے ۔ سونے سے پہلے بھی رب کی بندگی بجالاتاہے اور اٹھ کر بھی پہلے رب کی بندگی کرتاہے پھر زندگی کے لئے سوچتاہے ۔ یہ شب وروز کی اسلامی طرززندگی انسان کو رب کی رضامندی کے ساتھ دنیا کی خیروبھلائی سے بھی پوری طرح لطف اندوزہونے کا موقع میسر کرتاہے ۔
رمضان ہمارے لئے انعام الہی بن کرآیاتھا، وہ اب دوبارہ نصیب ہوپائے گا نہیں کہ یہ رب کی توفیق پہ منحصر ہے لیکن رب کے فرمان میں لکھاہے، اس کی نعمت ملنے پہ شکرگذاری سے وہ نعمت دوبارہ مل سکتی ہے۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم: ۷)
ترجمہ: اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
یہ حق بھی ہے کہ نعمت پہ شکرگذاری کریں ورنہ ناقدری سے کفران نعمت کا شکار ہوجائیں گے اور اللہ کی پکڑ کے ساتھ زوال نعمت کے سزاوار ٹھہریں گے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرہ: ۱۵۲)
ترجمہ: لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو ۔
نیز فرمان الہی ہے:
مَّا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (النساء:147)
ترجمہ: آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو
اور ایمان کی روش پر چلو اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔
شکرگذاری یہ ہے کہ ہم رب کی حمدوثنا بیان کریں ، اس کی نعمت کی قدردانی اور عظمت کا احساس ہمیشہ دل میں بسائے رکھیں اور جو جو نعمتیں میسرہوئیں سب کے بدلے رب کا گن گاتے پھریں۔ شکر گذاری کا سب سے اہم درجہ ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا ہےجس کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت میں کیا ہے ۔
الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد:28)
ترجمہ: جولوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، یاد رکھو اللہ کے ذکر سے دلوں کوتسلی حاصل ہوتی ہے۔
اللہ کے ذکر سے مراد اس کی توحید کا بیان ہے جس سے مشرکوں کے دلوں میں انقباض پیدا ہوجاتا ہے ، یا اس کی عبادت ، تلاوت قرآن ، نوافل اور دعاومناجات ہے جواہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام وفرامین کی اطاعت وبجاآوری ہے جس کے بغیر اہل ایمان وتقوی بے قرار رہتے ہیں۔ (تفسیراحسن البیان)
اور اللہ کا ذکر ہی سب سے بڑا ہے ۔
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ(العنكبوت:45 ).
ترجمہ: جوکتاب اللہ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں ۔یقینا نماز بے
حیائی اور برائی سے روکتی ہے ، بے شک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ، تم جو کچھ کررہے ہواس
سے اللہ خبردارہے ۔
رمضان المبارک کا لائحہ عمل ہمیں اچھی طرح معلوم ہی ہے اسے بس دوام بخشنا ہے ۔وہی نماز، اسی طرح نفلی روزے(شش عیدی روزے،عشرہ ذی الحجہ کے روزے،صوم عرفہ، عاشورائے محرم ،ایام بیض، سومواراورجمعرات کے روزے) ،قیام اللیل، دعاومناجات،تسبیح وتہلیل،صدقہ وخیرات،تلاوت وتدبرقرآن، دروس وبیانات کی سماعت ، احکام ومسائل کی معرفت اور طاعت وبھلائی پہ محنت ومشقت مسلسل ہوتے رہنا چاہئے ۔ ان چیزوں پہ جم جانے اور تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کا نام استقامت ہے ۔
اپنے لائحہ عمل میں استقامت لے آئیں گے تو رمضان کے فیوض وبرکات سال بھر ملتے رہیں گے ۔ استقامت ہی ایمان والوں سے مطلوب ہے ۔ اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے:
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ [هود: 112]
ترجمہ: پس اے محمد!تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو۔
دوسری جگہ ارشادالہی ہے:
فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ [فصلت: 6]
ترجمہ:تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اسی سے استغفار کرو۔
اس وقت زمانہ نہایت پرفتن ہے ، ایمان والوں کو اپنا ایمان بچانا اور سنت کے مطابق زندگی
گذارنا بہت دشوار ہوگیاہے ۔ صبح میں مومن شام میں کافر ایسامنظر برپاہوگیاہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا . ( صحيح مسلم:118)
ترجمہ: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کے لیے دین کا سودا کرلیں گے۔
ایسے حالات میں دین پہ استقامت ہی ہمارے ایمان کو شروفساد اور فتنہ زمانہ سے محفوظ کرسکتاہے ۔ مجھے نبی ﷺ کا ایک فرمان یاد آرہاہے ۔
عن سفيان بن عبد الله رضي الله عنه ، قال : قلت : يا رسول الله ، قل لي في الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا غيرك ، قال : قل آمنت بالله ، ثم استقم (رواه مسلم ح :38).
ترجمہ: سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں سے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھے اسلام کی ایک ایسی بات بتلائیں کہ پھرآپ کے بعد کسی سے اس کے متعلق سوال نہ کروں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہو میرا رب اللہ ہے اور اسی پر قائم رہو۔
اگرواقعی ہم استقامت کی راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالی اس کے بدلے ہمیں جنت نصیب کرے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿فصلت: 30﴾
ترجمہ: (واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو۔
استقامت سے ہمیں خودبخود برائی سے چھٹکارا ملے گا۔ شیطان ہم سے دور بھاگےگا ،کبھی اس کے بہکاوے کا شکار نہیں ہوں گے ، اوصاف رذیلہ (غیبت،دھوکہ،عیاری،بدقماشی،بے ایمانی وغیرہ) سے نجات ملے گی ، ظلم وبغاوت سے دل میں تنفر پیداہوگا۔

اللہ تعالی سے دعاہے رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے ہمارا دامن بھردے ،سابقہ تمام گناہوں سے پاک کردے، دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے مالامال کردے اور ہمیشہ ہمیں دین پر استقامت نصیب فرمائے ۔ آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔