Friday, January 26, 2024

بغیر اعتدال و سکون کے نماز نہیں ہوتی

 
بغیر اعتدال و سکون کے نماز نہیں ہوتی

تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ- سعودی عرب

نماز اللہ رب العالمین کی بندگی ہے اس کو نہایت اطمینان و سکون ، اعتدال وسنجیدگی اور خشوع وخضوع کے ساتھ انجام دینا ہے مگر ہماری نمازیں اعتدال وسکون سے خالی ہوتی ہیں جو اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ہیں۔ چاہے آدمی ساٹھ سال تک نماز پڑھتا رہے، ایسی نماز، نماز ہی شمار نہیں کی جاتی اس لئے ہمیں نماز کی تمام ہیئتوں میں اعتدال کے ساتھ نماز پڑھنا چاہئے تاکہ ہماری نماز ، نماز شمار ہو اوراللہ کے یہاں مقبول ہو۔
نماز میں اعتدال سے کیا مراد ہے: پوری نماز کو اطمینان وسکون سے اداکرناحتی کہ قرات واذکار وغیرہ بھی بغیر جلدبازی کے نہایت آرام سے پڑھنا اور بطور خاص نماز کے ارکان کی ادائیگی میں ٹھہراؤہو مثلا قیام اطمیان سے ہو، رکوع اطمینان سے ہو، رکوع سے اس طرح اٹھنا اور اٹھ کر کھڑا ہونا کہ جسم اپنی اصلی ہیئت پر آجائے، سجدہ اطمیان سے کرنا،سجدہ سے اطمینان سے اٹھنا پھر اٹھ کراس طرح بیٹھ جانا کہ جسم کے سارے اعضاء اپنی جگہ آجائیں ، اس طرح پوری نماز اطمیان وسکون سے پڑھی جائے اسی کانام اعتدال وسکون ہے ۔
بہت ساری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم خشوع وخضوع اور اعتدال وسکون سے نماز ادا کریں چنانچہ اس سلسلے میں چند احادیث پیش کرتے ہیں ۔
(1)اس بابت پہلی حدیث ، حدیث جبریل دیکھیں جس میں نبی ﷺ احسان کی تعریف کرتے ارشاد فرماتے ہیں :
أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ(بخاري:50)
ترجمہ: تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے تو سمجھوکہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
یہ حدیث بتاتی ہے کہ اللہ کی بندگی میں محو ہوکر اس قدر لذت وچاشنی سے نماز ادا کریں گویا ہم اپنے رب کو دیکھ رہےہیں اور یہ کیفیت بغیر اطمینان وسکون کے ممکن نہیں ہے۔
(2)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمیں) نماز پڑھائی، پھر سلام پھیرا اور فرمایا:
يا فُلَانُ، ألَا تُحْسِنُ صَلَاتَكَ؟ ألَا يَنْظُرُ المُصَلِّي إذَا صَلَّى كيفَ يُصَلِّي؟ فإنَّما يُصَلِّي لِنَفْسِهِ(صحیح مسلم:423)
ترجمہ:اے فلاں! تم اپنی نماز اچھی طرح نہیں پڑھ سکتے؟ کیا نمازی نماز پڑھتے وقت یہ نہیں دیکھتا (غور کرتا) کہ وہ نماز کیسے پڑھتا ہے؟ وہ اپنے ہی لیے نماز پڑھتا ہے (کسی دوسرے کےلیے نہیں)۔
نبی ﷺ نے اپنے پیچھے جلد بازی سے نماز پڑھنے والےکو جلدبازی سے منع کیا اور اچھی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا کیونکہ بندگی اللہ کے لئے انجام دی جاتی ہےجبکہ بندگی کا فائدہ خودبندگی کرنے والے کو نصیب ہوتاہے۔
(3)عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّ رَسولَ اللَّهِ نَهَى عن ثَلاثٍ : عن نَقرةِ الغُرابِ ، وافتراشِ السَّبُعِ ، وأن يوطِّنَ الرَّجلُ المقامَ للصَّلاةِ كما يوطِّنُ البعيرُ(صحيح النسائي:1111)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے منع کیا ہے: ایک کوے کی طرح ٹھونگ مارنے سے، دوسری درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے سے، اور تیسری یہ کہ آدمی نماز کے لیے ایک جگہ خاص کر لے جیسے اونٹ اپنے بیٹھنے کی جگہ کو خاص کر لیتا ہے۔
اس حدیث میں نبی ﷺ نےنماز کے تین اعمال کو تین قسم کے جانوروں کی مشابہت سے منع فرمایاہے، کوے کی طرح ٹھونگ مارکرجلدی جلدی نماز پڑھنے سے، درندے(کتے) کی طرح سجدہ میں بازو زمین پر بچھانے سے اور اونٹ کی طرح نماز کے لئے ایک جگہ کو مخصوص کرنےسے منع فرمایا ہے۔ یہاں محل استشہاد "نقرالغراب" ہےجس سے مراد جلدبازی والی بغیر اطمینان کے کامل طور پر ادا نہ کی جانے والی نماز ہےیعنی کوے کی چونچ مارنے کی طرح کوئی رکوع وسجدہ میں جلدی جلدی ٹھونگ مارکر نماز نہ پڑھے۔
(4) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا سَمِعْتُمُ الإقَامَةَ، فَامْشُوا إلى الصَّلَاةِ وعلَيْكُم بالسَّكِينَةِ والوَقَارِ، ولَا تُسْرِعُوا، فَما أدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وما فَاتَكُمْ فأتِمُّوا(صحيح البخاري:636)
ترجمہ:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے (معمولی چال سے) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو (بہرحال) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
اس حدیث میں باضابطہ ابتدائے صلاۃ سے سکون وقار کو قائم رکھنے کے لئے کہا گیا ہے حتی کہ اگر کوئی اقامت کی آواز سن لے تب بھی دوڑ کرمسجد نہ آئے کہ کہیں اس کی رکعت فوت نہ ہوجائے ۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ جب ہم نماز کے لئے دوڑ کر نہیں آسکتے ہیں تو نماز پڑھتے ہوئے کیسے جلدبازی کرسکتے ہیں ؟
ان چند اچادیث سے ہم نے معلوم کرلیا ہے کہ نمازمیں جلد بازی ممنوع ہے اور اسے سکون سے ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اب اس جگہ ایک بہت ہی اہم حدیث جو ہرمسلمان کو یاد رکھنا چاہیے اور اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ نماز پڑھنا چاہئے ۔
اعتدال ارکان سے متعلق سب سے اہم حدیث، حدیث مسی الصلاۃ :
ایک بہت اہم حدیث جو مسی الصلاۃ(جو ٹھیک سے نماز نہیں ادا کرتا) کے نام سے مشہورہے ، آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أنَّ رَجُلًا دَخَلَ المَسْجِدَ فَصَلَّى، ورَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في نَاحِيَةِ المَسْجِدِ، فَجَاءَ فَسَلَّمَ عليه، فَقَالَ له: ارْجِعْ فَصَلِّ فإنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَالَ: وعَلَيْكَ، ارْجِعْ فَصَلِّ فإنَّكَ لَمْ تُصَلِّ قَالَ في الثَّالِثَةِ: فأعْلِمْنِي، قَالَ: إذَا قُمْتَ إلى الصَّلَاةِ، فأسْبِغِ الوُضُوءَ، ثُمَّ اسْتَقْبِلِ القِبْلَةَ، فَكَبِّرْ واقْرَأْ بما تَيَسَّرَ معكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ حتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حتَّى تَسْتَوِيَ وتَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا، ثُمَّ افْعَلْ ذلكَ في صَلَاتِكَ كُلِّهَا(صحیح البخاری:6667)
ترجمہ:ایک صحابی مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک کنارے تشریف رکھتے تھے۔ پھر وہ صحابی آئے اور سلام کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھ، اس لیے کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ واپس گئے اور پھر نماز پڑھ کر آئے اور سلام کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی ان سے یہی فرمایا کہ واپس جا اور نماز پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ آخر تیسری مرتبہ میں وہ صحابی بولے کہ پھر مجھے نماز کا طریقہ سکھا دیجئیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز کے لیے کھڑے ہوا کرو تو پہلے پوری طرح وضو کر لیا کرو، پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر کہو اور جو کچھ قرآن مجید میں تمہیں یاد ہے اور تم آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہو اسے پڑھا کرو، پھر رکوع کرو اور سکون کے ساتھ رکوع کر چکو تو اپنا سر اٹھاؤ اور جب سیدھے کھڑے ہو جاؤ تو سجدہ کرو، جب سجدے کی حالت میں اچھی طرح ہو جاؤ تو سجدہ سے سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ سیدھے ہو جاؤ اور اطمینان سے بیٹھ جاؤ، پھر سجدہ کرو اور جب اطمینان سے سجدہ کر لو تو سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، یہ عمل تم اپنی پوری نماز میں کرو۔
ایک مسلمان کس طرح اعتدال وسکون سے نماز ادا کرے اس بارے میں یہ حدیث بہت ہی زیادہ اہم ہے بلکہ علماء نے یہ کہا ہے کہ نماز کے ارکان وواجبات کے سلسلے میں یہ حدیث اصل کی حیثیت رکھتی ہے اور جو کچھ بھی اس حدیث میں بیان ہوا ہے وہ سارے کے سارے نماز کے واجبات میں سے ہیں یعنی ان کا ادا کرنا ضروری ہے ۔جو اس کیفیت میں نماز نہ ادا کرے اس کی نماز ، نماز ہی شمار نہیں کی جاتی ہے ، رد کردی جاتی ہے اور اس کے چہرے پر مار دی جاتی ہے چاہے انسان چالیس سال تک یا ساٹھ سال تک اللہ کی بندگی کرتا رہے ۔اس بارے میں صراحتا بھی مذکورہے کہ واقعی ایسے بندے کی چالیس یا ساٹھ سالہ عبادت ، عبادت نہیں ہے ۔
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے:
إن الرجل ليصلي ستين سنة وما تقبل له صلاة ولعله يتم الركوع ولا يتم السجود ويتم السجود ولا يتم الركوع(سلسلہ صحیحہ:2535)
ترجمہ: ایک آدمی ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے اوراس کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رکوع صحیح سے کرتا ہے تو سجدہ ٹھیک سے نہیں کرتا اور سجدہ ٹھیک سے کرتا ہے تو رکوع ٹھیک سے نہیں کرتا۔
اللہ اکبر، ساٹھ سال کی نماز نماز نہیں ہے اگر نماز میں جلدی جلدی رکوع اور جلدی جلدی سجدہ کیا جائے تو ۔ اس طرح کی ایک اور حدیث ملتی ہے جس میں چالیس سال کا تذکرہ ہے ۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّهُ رأى رجلاً يصلِّي فطفَّفَ ، فقالَ لَهُ حذيفةُ : منذُ كم تصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ ؟ قالَ : منذُ أربعينَ عامًا ، قالَ : ما صلَّيتَ منذُ أربعينَ سنةً ، ولو متَّ وأنتَ تصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ لمتَّ على غيرِ فطرةِ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ ثمَّ قالَ : إنَّ الرَّجلَ ليخففُّ ، ويتمُّ ويحسن(صحيح النسائي:1311)
ترجمہ:انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے، اور اچھی طرح نہیں پڑھ رہا ہے، اس میں وہ کمی کر رہا ہے، تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: اس طرح سے نماز تم کب سے پڑھ رہے ہو؟ اس نے کہا: چالیس سال سے، تو انہوں نے کہا: تم نے چالیس سال سے کامل نماز نہیں پڑھی، اور اگر تم اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مر جاتے تو تمہارا خاتمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کے علاوہ پر ہوتا، پھر انہوں نے کہا: آدمی ہلکی نماز پڑھے لیکن پوری اور اچھی پڑھے۔
اس حدیث کی اصل صحیح بخاری میں بھی موجود ہے جہاں اس بات کی صراحت ہے کہ نمازی کس چیز میں کمی کررہا تھا چنانچہ ابووائل شقیق بن سلمہ سے روایت ہے:
رَأَى رَجُلًا لا يُتِمُّ رُكُوعَهُ ولَا سُجُودَهُ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ قالَ له حُذَيْفَةُ: ما صَلَّيْتَ؟ قالَ: وأَحْسِبُهُ قالَ: لو مُتَّ مُتَّ علَى غيرِ سُنَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ(صحيح البخاري:389)
ترجمہ: (حذیفہ) نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدہ پوری طرح نہیں کرتا تھا۔ جب اس نے اپنی نماز پوری کر لی تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ابووائل راوی نے کہا، میں خیال کرتا ہوں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تو ایسی ہی نماز پر مر جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہیں مرتا۔
نماز کے ارکان اور ان کا حکم:
اہل علم نے نماز کے چودہ ارکان بیان کئے ہیں ، تین قیام سے متعلق ہیں، تین رکوع سے متعلق ہیں ، تین سجدے سے متعلق ہیں ، تین آخری تشہد سے متعلق ہیں اور دو پوری نماز سے متعلق ہیں ۔
(1)قیام کے ارکان : قدرت ہونے پر کھڑے ہوکرنماز پڑھنا، نماز میں داخل ہوتے وقت تکبیرتحریمہ کہنا، اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا۔
(2)رکوع کے ارکان:رکوع کرنا، رکوع سے اٹھنا، اور اٹھ کر پوری طرح سیدھا کھڑا ہونا۔
(3)سجدے کے ارکان: سجدہ کرنا، سجدے سے اٹھنا، اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا۔
(4) آخری تشہد کے ارکان:آخری تشہد کے لئے بیٹھنا، آخری تشہدپڑھنا، اور دونوں طرف سلام پھیرنا۔
(5) پورے ارکان کو ترتیب سے ادا کرنا اور پوری نماز میں اعتدال وسکون قائم رکھنا یعنی ہر فعلی رکن کو سکون کے ساتھ ادا کرنا۔
نماز کے ارکان کی ادائیگی میں یہ بات یاد ہے کہ ان چودہ ارکان میں سے کوئی بھی رکن نماز میں چھوٹ جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی ہے اور اس مضمون میں چودہ ارکان میں سے ایک رکن اعتدال وسکون سے متعلق جانکاری حاصل کررہے ہیں جس کا تعلق پوری نماز کی ادائیگی سے ہے ۔
نماز کے ارکان کی ادائیگی میں سب سے اہم غلطی :
ویسے تو لوگ ارکان کی ادائیگی میں بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں ، کتنے سارے لوگوں کو بطور خاص مقتدی کو یہ معلوم نہیں کہ نمازمیں داخل ہوتے وقت تکبیر تحریمہ بھی کہی جاتی ہے اور ترک فاتحہ تو حنفی عوام کے یہاں عام بات ہے ۔ ان  سب کے علاوہ جن ارکان کو رسول اللہ ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ بیان کیا اور ان کی ادائیگی  پہ بیحد اہتمام کا حکم دیاوہ ارکان رکوع و سجود سے متعلق ہیں ۔ اوپر آپ نے ساٹھ سال اور چالیس سال والی احادیث ملاحظہ فرمائی ہے ، ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ٹھیک سے رکوع اوراطمینان سے سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے نماز ، نماز ہی نہیں ہوتی چاہے ایک مدت تک آدمی نماز پڑھتا رہے اس لئے نماز کے دیگر ارکان کے ساتھ خصوصی طور پر رکوع وسجودکے جملہ ارکان  میں ہمیں اعتدال وسکون برتنے کی اشد ضرورت ہے اور اوپر ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ رکوع میں تین ارکان ہیں اور سجدہ میں بھی تین ارکان ہیں۔
رکوع وسجود میں اعتدال سے متعلق ارشادات نبوی:
اب آپ کے سامنے نبی ﷺ کے وہ ارشادات وفرمودات بیان کرتے ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ رکوع وسجود میں اعتدال کی کیفیت بیان کی گئی ہے ۔
(1) ابومسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تُجزئُ صلاةُ الرَّجلِ حتَّى يُقيمَ ظهرَهُ في الرُّكوعِ والسُّجودِ(صحيح أبي داود:855)
ترجمہ:آدمی کی نماز درست نہیں، جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ سیدھی نہ کر لے۔
(2)ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أسوأُ الناسِ سَرِقَةً ، الذي يسرقُ صلاتَه . قال : وكيف يسرقُ صلاتَه ؟ قال : لا يُتِمُّ ركوعَها ولا سجودَها(صحيح الترغيب:533)
ترجمہ:سب سے بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے ، پوچھا گیا کہ کیسے نمازی میں چوری کرتا ہے تو آپ نے جواب کہ وہ نہ اپنے رکوع کو مکمل طور پر ادا کرتا ہے اور نہ ہی سجدے کو ٹھیک ڈھنگ سے ادا کرتا ہے۔
(3)سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ينظرُ اللهُ عزَّ و جلَّ إلى صَلاةِ عبدٍ لا يُقِيمُ فيها صُلْبَهُ بين رُكُوعِها وسُجُودِها(السلسلة الصحيحة:2536)
ترجمہ: اﷲ تعالیٰ اس بندے کی نماز کی طرف نہیں دیکھتا، جس میں وہ رکوع و سجود کے دوران کمر سیدھی نہیں کرتا۔
(4)انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَقِيمُوا الرُّكُوعَ والسُّجُودَ فَوَاللَّهِ إنِّي لَأَرَاكُمْ مِن بَعْدِي - ورُبَّما قالَ: مِن بَعْدِ ظَهْرِي - إذَا رَكَعْتُمْ وسَجَدْتُمْ(صحيح البخاري:742)
ترجمہ:رکوع اور سجود پوری طرح کیا کرو۔ اللہ کی قسم! میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں یا اس طرح کہا کہ پیٹھ پیچھے سے جب تم رکوع کرتے ہو اور سجدہ کرتے ہو (تو میں تمہیں دیکھتا ہوں)۔
(5)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَما يَخْشَى أحَدُكُمْ -أوْ: لا يَخْشَى أحَدُكُمْ- إذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الإمَامِ، أنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ؟! أوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ(صحيح البخاري:691)
ترجمہ:کیا تم میں وہ شخص جو (رکوع یا سجدہ میں) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ پاک اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔
مذکورہ بالا احادیث کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اکثر لوگ اپنی نمازیں ضائع کرتے ہیں کیونکہ ہماری نماز کے رکوع وسجود میں اعتدال مفقود ہوتا ہے ، ہم نماز تو پڑھتے ہیں مگر تعدیل ارکان کی رعایت کرتے ہوئے نہیں بلکہ جلدی جلدی پڑھتے ہیں جبکہ ہمیں ان احادیث سے نصیحت حاصل کرتے ہوئے اپنی نمازوں کی اصلاح کرنا چاہئے اور پورے اعتدال کے ساتھ نماز اد ا کرنا چاہئے، آپ نے یہ بھی پڑھا اگر کوئی جلدی بازی کرتے ہوئے امام سے پہلے رکوع یا سجدے سے سر اٹھالے تو خدشہ ہے کہ کہیں اللہ اس کو گدھے کی شکل والا نہ بنادے ۔ العیاذباللہ
نماز اللہ کی بندگی ہے اور اس بندگی کو محمد ﷺ کے طریقہ کے مطابق انجام دیں گے جیساکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ (بخاری:6008)
اب ہم رسول اللہ ﷺ کی ذاتی نماز کی کیفیت معلوم کرتے ہیں کہ آپ اپنی نمازوں میں کیسے اعتدال وسکون قائم رکھتے تھے ۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ بیان کرتے ہیں:
كانَ رُكُوعُ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وسُجُودُهُ وبيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وإذا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ما خَلا القِيامَ والقُعُودَ قَرِيبًا مِنَ السَّواءِ(صحيح البخاري:792)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تقریباً سب برابر تھے۔ سوا قیام اور تشہد کے قعود کے۔
اس حدیث میں نبی ﷺ کی نماز کا اعتدال بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے رکوع، آپ کے سجود،دوسجدوں کے درمیان کا وقفہ اوررکوع سے سر اٹھانا ان سب کا زمانی وقفہ تقریبا برابر ہوتا تھا سوائے قیام وتشہد کے کیونکہ یہ دونوں طویل ہوتے تھے(قیام قرات کے سبب طویل ہوتا اور تشہد دعا کے سبب)۔
جب نماز کے ارکان میں رکوع و سجود کی حسن ادائیگی کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس کی طرف تاکید کے ساتھ دھیان دینے کی ضرورت ہے تو ہم آپ کو وضاحت کے ساتھ رکوع اور سجدہ کا طریقہ اور ان میں اعتدال کی صورت بھی بتادیتے ہیں ۔
رکوع اور سجود کا طریقہ اوران میں اعتدال :
تکبیر کہہ کردونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے ہوئے رکوع میں جائیں اور جب آپ رکوع کریں تودونوں ہاتھ سے مضبوطی کے ساتھ گھٹنوں کو پکڑیں ، نظر سجدہ کی جگہ ہو اور رکوع میں سر اور پیٹھ دونوں کو برابر ایک مستوی میں رکھیں اور ایک سے زائدبار رکوع کی تسبیح پڑھیں تاکہ رکوع میں ٹھہراؤ ہو۔ رکوع سے جب سر اٹھائیں تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابراٹھائیں پھرانہیں نیچے چھوڑ دیں اوراطمینان سے کھڑے ہوجائیں اس طرح کہ جسم کا ہر عضو اپنے مقام پر ٹھہرجائے،اس کو قومہ کہتے ہیں اور عموما لوگ نماز میں قومہ ترک کردیتے ہیں خصوصا احناف کے یہاں ۔ اور پھرسکون سے قومہ کی دعا پڑھیں ۔ پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں جائیں ، سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھیں پھر گھٹنہ رکھیں ، سجدہ کی حالت میں دونوں ہاتھ مع ناک وجبیں زمین پر ہو اور بازو،زمین سے الگ، پیٹ ، ران سے الگ اور ران ، پنڈلی سے الگ ہواور سجدے میں ایک سے زائد بار تسبیح پڑھیں ۔ پھر اطمینان سے سجدہ کرنے کے بعد آرام سے سجدہ سے اٹھیں اور سکون سے بیٹھیں یہاں تک کہ جسم کا ہر عضو اپنی جگہ پر ٹھہرجائے ، اس میں اطمینان سے دونوں سجدہ کے درمیان کی دعا پڑھیں ، نماز کا یہ بھی ایک مقام ایسا ہے جسے نمازی عام طور پر ترک کردیتا ہے اور ایک سجدہ کرکے صحیح سے بیٹھنا بھی نہیں کہ دوسرے سجدہ میں چلا جاتا ہے ۔ جب سکون سے دونوں سجدہ کے درمیان والی دعا پڑھ لیں تو پھر اسی طرح دوسرا سجدہ کریں جیسے پہلے کیا تھا اور اسی طرح نماز کی تمام رکعات میں رکوع وسجدہ کیا کریں ۔اس سے متعلق مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ کریں جس میں حضرت عقبہ بن عمرورضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے وارد نماز کی کیفیت بیان کرتے ہیں ۔
سالم براد سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں:
أتينا عقبةَ بنَ عمرٍو الأنصاريَّ أبا مسعودٍ فقلنا لَه حدِّثنا عن صلاةِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقامَ بينَ أيدينا فى المسجدِ فَكبَّرَ فلمَّا رَكعَ وضعَ يدَيهِ علَى رُكبتيهِ وجعلَ أصابعَه أسفلَ من ذلِك وجافى بينَ مرفقيهِ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ثمَّ قالَ سمعَ اللَّهُ لمن حمدَه فقامَ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ثمَّ كبَّرَ وسجدَ ووضعَ كفَّيهِ علَى الأرضِ ثمَّ جافى بين مرفقيهِ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ثمَّ رفعَ رأسَه فجلسَ حتَّى استقرَّ كلُّ شيءٍ منهُ ففعلَ مثلَ ذلِكَ أيضًا ثمَّ صلَّى أربعَ رَكعاتٍ مثلَ هذِه الرَّكعةِ فصلَّى صلاتَه ثمَّ قالَ هَكذا رأينا رسولَ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يصلِّي( صحيح أبي داود:863)
ترجمہ: ہم ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ہم نے ان سے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بتائیے تو وہ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہوئے، پھر انہوں نے «الله اكبر» کہا، پھر جب وہ رکوع میں گئے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھے اور اپنی انگلیاں اس سے نیچے رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر ایک عضو اپنے اپنے مقام پر جم گیا، پھر انہوں نے «سمع الله لمن حمده» کہا اور کھڑے ہوئے یہاں تک کہ ہر عضو اپنی جگہ پر آ کر ٹھہر گیا، پھر «الله اكبر» کہہ کر سجدہ کیا اور اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھیں اور اپنی دونوں کہنیوں کے درمیان فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور بیٹھے یہاں تک کہ ہر عضو اپنے مقام پر آ کر ٹھہر گیا، پھر دوبارہ ایسا ہی کیا، پھر چاروں رکعتیں اسی کی طرح پڑھیں (اس طرح) انہوں نے اپنی نماز پوری کی پھر کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
رکوع وسجود کی ٹھیک یہی کیفیت حدیث مسی الصلاۃ میں بیان کی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ کی نماز میں رکوع، سجود، دوسجدوں کے درمیان کا وقفہ اور قومہ کی مقدار یکساں ہوا کرتی تھی کیونکہ آپ ان تمام مقامات پر اعتدال وسکون اختیارکیا کرتے تھے ۔
آخری پیغام و تلقین:
ہم لوگ نمازوںپر اس طرح محافظت نہیں کرتے جیساکہ اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے ، بارہا ہم سے نمازیں چھوٹتی ہیں اور پھر جو نمازیں ہم ادا کرتے ہیں ان میں خشوع وخضوع کا فقدان ہوتا ہے حتی کہ ارکان صلاۃ میں جو اطمینان وسکون مطلوب ہے اس کو بھی ہم برقرار نہیں رکھ پاتے ہیں ، ایسی صورت میں ہماری ساری نمازیں رائیگاں جاتی ہیں ۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم ایسی نماز کیوں پڑھتے ہیں جو عنداللہ مقبول نہیں ۔ اس مسئلہ میں نہایت سنجیدگی سے غور وفکر کے بعد نماز کی ادائیگی میں تعدیل ارکان کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام کریں ، جو معذور وبیمار ہیں ان کے لئے اسی کیفیت میں نماز کی ادائیگی کافی ہے جس کی وہ استطاعت رکھتے ہیں ۔ یاد رکھیں جلدبازی شیطان کی طرف سے ہے اس لئےیہ  کسی بھی معاملہ میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، اللہ سکون وٹھہراؤ کو پسند کرتا ہے ۔
نبی ﷺ نے اشج رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللَّهُ، الْحِلْمُ وَالأَنَاةُ (مسلم:17)
ترجمہ: تمہارے اندر دو صفات ہیں جنہیں اللہ تعالی پسند کرتا ہے: عقلمندی اور ٹھہراؤ۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
التَّأنِّي من اللهِ و العجَلَةُ من الشيطانِ( السلسلة الصحيحة:1795)
ترجمہ: طبیعت میں ٹھہراؤ اور آہستگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلد بازی اور عجلت شیطان کی طرف سے ہے۔
نیکی میں سبقت کرنا اور خیر کی طرف جلدی آناپسندیدہ عمل ہے مگر کسی عمل کی انجام دہی میں عجلت سے کام لینا یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے اور نماز تو رب کی بندگی ہے اس کی ادائیگی میں پوری طرح اعتدال وسکون چاہئے ورنہ بغیر سکون کے پڑھی گئی عجلت والی نماز ، رائیگاؤں وبرباد ہے ۔ بسا اوقات ہم وقت کی تنگی اور حالات وظروف کے تحت خفیف نماز پڑھتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے تاہم نماز کی ادائیگی میں سکون ہونا ضروری ہےجو نماز کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہےاور جس کا تعلق پوری نمازاور پورے ارکان سے ہے ۔
 
مکمل تحریر >>

Sunday, January 14, 2024

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(قسط:2)

 آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(قسط:2)
جواب از مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ -سعودی عرب
 
سوال(1): ایک بہن کا سوال ہے کہ وہ اسکول کی نوکری کے لئے صبح ساڑھے پانچ بجے گھرسے نکلتی ہے ، فجر کا وقت پانچ پینتالیس یا پانچ پچاس کا ہوتا ہے تو کیا نماز فجر سے پندرہ بیس منٹ پہلے فجر کی نماز ادا کی جاسکتی ہے؟
جواب:یہ بات تمام نمازوں کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی نماز کو اس کے وقت سے پہلے پڑھنا جائز نہیں ہے، فجر کی نماز بھی وقت سے پندرہ بیس منٹ پہلے نہیں پڑھ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ نماز اپنے مقررہ اوقات پر مومنوں پر فرض ہے گویا ہم نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کریں گے ۔لہذا اگر کوئی آدمی کسی بھی نماز کو وقت سے پہلے پڑھ لیتا ہے تو اس کی وہ نماز شمارنہیں  ہوگی ، وقت ہونے کے بعد وہ نماز پھر سے دہرانی ہوگی ۔
سوال(2):ایک بہن کے سسرال والے ہلدی رسم وغیرہ کرتے ہیں جبکہ وہ بہن یہ سب نہیں مانتی ہے لیکن اگر وہ مجبوری میں اس رسم میں ساتھ دے تو کیا وہ بھی گنہگار ہوگی حالانکہ وہ اس میں شرکت پہ منع کرتی ہے مگر مجبورا شامل ہونا پڑےگا؟
جواب:یہ اچھی بات ہے کہ کوئی غلط رسم ورواج نہ کرے ، اور نہ اس میں  شامل ہوکیونکہ اس طرح کی رسموں کے بہانے بہت سارے غیرشرعی کام کئے جاتے ہیں جیسے عورتوں کا ناچنا، گندے مذاق کرنا، ڈی جے بجانا، مردوں سے اختلاط اور ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا وغیرہ ۔ کسی لڑکی کو اپنے سسرا ل میں اس رسم کی ادائیگی میں شرکت پر مجبور کیا جائے تو اولا اس لڑکی کا ذمہ دار اس کا شوہر ہے وہ اپنےشوہر کے ذریعہ اس رسم کا ہی خاتمہ کی کوشش کرے ، اگر رسم کو ختم نہ کرسکے تو اپنے آپ کو اس رسم کے نام پر انجام دی جانے والی غیرشرعی باتوں سے دور رکھےجیسے ناچنے گانے اور گندے مذاق وغیرہ سے یعنی مجبورا وہ وہاں موجود رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن گناہ والے کاموں میں شریک نہ ہوکیونکہ گناہ تو گناہ ہے اس کے کرنے سے گناہ ملے گا۔ اور گناہ کے تئیں ہم میں اتنی نفرت تو ضرور ہو کہ گناہ کے کام اور گناہ کی جگہ سے ہم دور رہیں اور کوئی ہاتھ پکڑ کر ہم سے گناہ کروائے تو اس کی تردیدکریں اور ایمان غیرت وحمیت کا اظہار کریں ۔
سوال(3): کسی کی طرف سے دوسرے بندے کو سلام بھیجا جائے تو اس کے جواب میں کیا جواب دیا جائے گا؟
جواب:ایک آدمی کسی کے معرفت دوسرے کو سلام بھیج سکتا ہے جیسے اللہ تعالی نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سلام بھیجا اور اسی طرح  جبریل علیہ السلام نے نبی ﷺ کے ذریعہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام بھیجا ۔ جس کو سلام بھیجا جائے وہ اس طرح جواب دے گا۔ وعليك وعليه السلام ورحمةالله وبركاته"۔
سوال(4): اگر کسی روم کے ساتھ اٹیچ باتھ روم ہو تو اس باتھ روم میں وضو ہوجائے گا اور اس کمرے میں نماز ہوجائے گی جس کے ساتھ باتھ روم اٹیچ ہے؟
جواب:ہاں ، اٹیچ باتھ روم میں وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا جیسے غسل کرنے سے غسل ہوجاتا ہے ۔ وضو کی طرح غسل بھی طہارت ہے بلکہ وضو سے بڑی طہارت ہے ۔ اس لئے اٹیچ باتھ روم میں جس طرح غسل کرتے ہیں وضو بھی کرسکتے ہیں اور غسل جنابت میں تو پہلے وضو ہی کیا جاتا ہےپھر جسم پر پانی بہایا جاتا ہے ۔ اور اس روم میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں جس سے باتھ روم اٹیچ ہے کیونکہ رہائشی روم الگ ہے اور باتھ روم الگ ہے ، نماز کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس جگہ نماز پڑھی جائے وہ  جگہ پاک ہو۔
سوال(5): کیا کسی کو خون عطیہ دینے کا کوئی اجر ہے؟
جواب: انسان خون بیچ نہیں سکتا ہے لیکن کسی ضرورت مند کو خون کا عطیہ دے سکتا ہے اور یہ ایک قسم کا دینی تعاون ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول نے ترغیب دی ہے ۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔ اور نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جو اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانے کی استطاعت رکھتا ہے وہ فائدہ پہنچائے (مسلم:2199)۔ خون کا عطیہ اسی تعاون کے باب سے ہے اور جوکسی کا تعاون کرتا ہے اللہ اس کی بھی مدد کرتا ہے اور اجر بھی ملتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ(صحيح مسلم:2699)
ترجمہ:جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں لوگوں کا کوئی گروہ اکٹھا نہیں ہوتا، وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کا درس و تدریس کرتے ہیں مگر ان پر سکینت (اطمینان و سکون قلب) کا نزول ہوتا ہے اور (اللہ کی) رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین میں جو اس کے پاس ہوتے ہیں ان کا ذکر کرتا ہے اور جس کے عمل نے اسے (خیر کے حصول میں) پیچھے رکھا، اس کا نسب اسے تیز نہیں کر سکتا۔
سوال(6):ظہر کی نماز پڑھ کر نکلیں اور ریلوے اسٹیشن پہ عصر کی نماز کا وقت ہوجائے اور ٹرین آنے تک عصر کا وقت نکل جائے گا جبکہ اسٹیشن پہ ویٹنگ روم میں بھیڑ ہوتی ہے ، جگہ بھی صاف ستھری نہیں ہوتی ایسے میں عورت کہیں صاف ستھری جگہ دیکھ کر کسی کونے میں نماز پڑھ لے یہ بہتر ہے یا ٹرین میں بیٹھنے کے بعد قضا پڑھ لے جبکہ اس کے ساتھ بڑی فیملی بھی نہ ہو جونماز کے وقت  آڑ کرسکے ؟
جواب:گوکہ نماز کو اس کے وقت سے مؤخر نہیں کیاجاسکتا ہے ، وقت ہوتے ہی جہاں ہیں اسی جگہ نماز ادا کرلیں  گے لیکن اس وقت ہندوستان کے جو حالات ہیں اس  کی روشنی  میں ہندوستانی بھائی بہن کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اسٹیشن یا ریل گاڑی میں نماز ادا نہ کریں چاہے نماز کا وقت کیوں نہ نکل جائے کیونکہ سرکاری یا عام پبلک مقامات پر نماز پڑھنے سے منع کیا جاتا ہے ۔حالت سفر میں کہیں محفوظ ومناسب جگہ ملے تو اس جگہ نماز پڑھیں اور سفر میں ایسی کوئی جگہ نہ ملے تو گھر آکر وہ ساری نماز پڑھ لیں جو چھوٹ گئی ہیں  ، یہ مسئلہ صرف ہندوستانی بھائی بہنوں کے لئے آج کل کے حالات کے تئیں بتایا جارہا ہے ۔
سوال(7):نیا سال منانے کا عیسائیت سے کیا تعلق ہے کہ اس کو وش کرنے سے شرک ہوجاتا ہے یا گناہ ملے گااس کی کیا دلیل ہے؟
جواب:اسلام نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی ہے کہ نئے سال پہ مبارکبادی دی جائے اس لئے نئے سال پہ مبارکبادی دینا غیراسلامی کام ہے ۔ اور نئے سال کا عیسائیت سے تعلق واضح ہے ، یہ تاریخ اور کلینڈر عیسائیوں کی ایجاد ہے اس تاریخ سے فائدہ اٹھانے میں حرج نہیں ہے لیکن یکم جنوری منانا عیسائیوں کا طوروطریق ہے ۔ نئے سال  پہ لوگ، بہت سارے گناہ اور فحش کام کرتے ہیں جن کے کرنے سے لامحالہ گناہ ملے گا۔ گناہ تو گناہ ہے وہ کسی موقع سے انجام دیں گناہ ملے گا۔ کوئی کہے کہ ہم صرف وش کرتے ہیں یا سادہ الفاظ میں ہپی نیوایئر کہتے ہیں اس میں کیا حرج ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ بھی غلط اور گناہ کا کام ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کرکے عیسائیوں کے نئے سال کو سیلی بریٹ کیا ۔ ہمیں نئے سال منانے سے کوئی سروکار ہی نہیں ہونا چاہئے اور یہودی و عیسائی تہوار اور ان کے رسومات و اعمال سے دور رہنا چاہئے ۔ابوسعید رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ(صحیح البخاری:3456)
ترجمہ:تم لوگ پہلی امتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی ساہنہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کی مراد پہلی امتوں سے یہود و نصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کون ہو سکتا ہے؟
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہود ونصاری کی روش اور اس کے طور وطریق سے بچنا چاہئے ۔
سوال(8):پانچ رکعت وتر پڑھنے کا کیا طریقہ ہے اور کیا یہ صحیح ہے کہ پہلے دو رکعت پڑھ لیں پھر تین الگ سے پڑھیں ؟
جواب: پانچ رکعت وتر پڑھنے کا وہ طریقہ ثابت نہیں ہے جو آپ نے بتایا کہ پہلے دو پڑھیں پھر تین پڑھیں ، اس طرح پانچ رکعت والا وتر نہیں پڑھا جائے گا۔
پانچ رکعت وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلسل یعنی ایک ساتھ پانچ رکعات ادا کریں اور درمیان میں کہیں نہ بیٹھیں ، آخری رکعت میں بیٹھیں گے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیریں گے ۔ دلیل دیکھیں ۔
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ، لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ إِلَّا فِي آخِرِهَا».(صحيح مسلم: 737)
ترجمہ:ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے اور ان میں سے پانچ وتر پڑھتے تھے اس دوران وہ کسی رکعت میں (تشہد)نہیں بیٹھتے تھے سوائے آخری رکعت کے۔
اس حدیث میں پانچ رکعت وتر کاطریقہ ایک سلام سے بتایا گیا ہے اور ایک ہی تشہد ہوگا آخری رکعت میں ۔
سوال(9):تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ بھی بتادیں ؟
جواب:تین رکعت وتر پڑھنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ تین رکعت مسلسل پڑھیں ، درمیان میں کہیں نہ بیٹھیں ، تیسری اور آخری رکعت میں تشہد کے لئے بیٹھیں اور سلام پھیردیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیردیں پھر الگ سے ایک رکعت پڑھیں اور سلام پھیردیں ۔
سوال(10): کیا عمرہ کے لیے جمع کیے گئے پیسوں سے کسی غریب کی بیٹی کی شادی کرسکتے ہیں یا ان دونوں عمل میں افضل کیا ہے نیز عمرہ کے لیے آج کل مارکیٹ میں خوشبو کے بغیر شیمپو وصابن آگئے ہیں تو کیا ان کو خرید کر استعمال کرنا تکلف ہے جبکہ ایک بندہ گھر سے غسل کر کے عمرہ پر جاتا ہے اور عمرہ کے دوران نہانے کی ضرورت نہیں پڑتی تو ایسے میں کیا حکم ہے؟
جواب:اگر کسی نے عمرہ کرنے کی نیت سے پیسہ جمع کیا ہے اور اتنا پیسہ ہوگیا کہ اس سے عمرہ کرسکتا ہے تووہ  اس پیسے  عمرہ کرے کیونکہ اس نے عمرہ کی نیت کی ہے اور اتنا پیسہ ہوگیا ہے جس سے عمرہ ہوسکتا ہے لیکن اس نے  پہلے عمرہ کرلیا ہے دوبارہ عمرہ کے لئے پیسہ جمع کیا تھا اس حال میں کہ کوئی اس کے رشتہ یا پڑوس میں بہت ضرورت مند ہوخواہ شادی کے لئے یا اور کسی کام کے لئے  تو اس صورت میں ضرورت مند کی مدد کرنا بہتر ہے اور وہ عمرہ کا فریضہ پہلے ادا کرچکا ہے۔ اور عمرہ کرنے والا ساتھ میں صابن وشیمپو رکھ لے تاکہ ضرورت پڑے تو غسل کرسکے ، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کوبھی  پوچھا جائے ۔ یہ معمولی بات ہے ۔کوئی  سفر پہ جارہا ہے اسے نہانے اور صفائی کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ضرورت نہ بھی پڑے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ضرورت کی چیز گھر واپس آکر بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔
سوال(11):لوگ اذن شروع ہوتے ہی جل شانہ کہتے ہیں تو یہ کہنا چاہئے؟
جواب:ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے کہ اذان ہونے لگے تو ہمیں جل شانہ کہنا چاہئے ۔ اگر لوگوں میں اس قسم کی بات پائی جاتی ہے تو جس کو ہم اس طرح بولتے سنیں اس کو منع کریں ۔ اور اس سے یہ کہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اذان کے کلمات کا جواب دینے کا حکم دیا ہے یعنی موذن اذان دے تو جس طرح کلمات کہے ہمیں اسی طرح جواب دینا ہے سوائے حی علی الصلاۃ اورحی  علی الفلاح کے ۔اور اذان کا جواب دینے پر   بہت اجر ہے ۔
سوال(12): بازار میں اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح ملتی ہے ، بیچنے والے اس طرح پرچار کرکے بیچتے ہیں کہ اس سے جادو ، نظربداور شیطانی طاقت سے حفاظت ہوگی ، اور برکت کے لئے گھر ، دوکان اور دفتر میں بھی رکھ سکتے ہیں ، سوال یہ ہے کہ کیا اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح پر ذکر کرسکتے ہیں اور اس قسم کے نظریات رکھنا اور اس تسبیح کوگفٹ کرنا کیسا ہے اور اسی طرح سو سے زائد دانوں والی تسبیح کے متعلق راہنمائی فرمائیں، کیا ایسی تسبیح خریدی جا سکتی ہے؟
جواب:اصل میں اونٹ کی ہڈی کے تعلق سے عیار ومکار عاملوں نے سماج میں یہ بات پھیلائی ہے کہ گھرمیں اونٹ کی ہڈی رکھنے سے سحر وآسیب اور شیطانی قوت سے حفاظت ہوتی ہے اور اسی طرح دغاباز عامل اونٹ کی ہڈی سے سحر کا علاج بھی کرتے ہیں اور صوفیا ء و گمراہ قسم کے لوگ اونٹ کی ہڈیوں پر مختلف قسم کے وظائف پڑھنے کے لئے کہتے ہیں جن سے جنات وشیاطین سے حفاظت ہوتی ہے ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اونٹ کی ہڈی کے بارے میں اس قسم کے نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ باطل نظریات ہیں اور لوگوں کو لبھانے اور پیسہ کمانے کے لئے فریبی عمل ہے ۔
اگر شرعی طور پر اونٹ ذبح ہوا ہو تو اس کی ہڈی سے بنی تسبیح استعمال کرنا جائز ہے اور اسے دوسروں کو گفٹ کرنا بھی جائز ہے لیکن اس اونٹ کی ہڈی سے بنی تسبیح کے بارے میں جو خیال پایا جاتا ہے کہ اس کے رکھنے سے سحر ، نظر بد اور شیطانی طاقت سے حفاظت ہوتی ہے ، یہ جھوٹ اور باطل نظریہ ہے اس لئے جب آپ کے یہاں اس قسم کے غلط خیالات کے ساتھ ہڈی والی تسبیح بیچی جاتی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ اسی نظریہ سے یہ تسبیح بنائی بھی جاتی ہوگی تو آپ اس قسم کی تسبیح سے پرہیز کریں کیونکہ غلط لوگوں کی تجارت اور غلط نظریات کے فروغ میں آپ بھی شامل ہوجائیں گے ۔ تسبیح کا مقصد رب العالمین کا ذکر کرنا ہے وہ انگلیوں پر افضل ہے اور تسبیح کا دانہ بھی استعمال کرنا جائز ہے تاہم تسبیح کا عام دانہ لیں ، غلط عقیدہ والی تسبیح نہ خریدیں ۔
جہاں تک سو سے زیادہ والی تسبیح کا مسئلہ ہے تو اس سے پرہیز کریں ، آپ کو صوفی نہیں بننا ہے ،ضرورت ہو تو ہلکی پھلکی  تسبیح استعمال کریں مثلا تسبیح فاطمی کے لئے یا سو دفعہ کے ذکر کے لئے یا چاہیں تو ڈیجیٹل تسبیح لے لیں جو چھوٹی اور ہلکی ہوتی ہے ۔ تسبیح کا مقصد دکھانا نہ ہو اور نہ ہی تسبیح میں بدعت والا کام کرنا ہے یعنی اپنی طرف سے تعداد متعین کرکے تسبیح پڑھنا بدعت ہے اس سے بچیں ۔
سوال(13): اگر شوہر کہے کہ آج سے میں نے تمہیں چھوڑا ہے تو کیا یہ طلاق میں شمار کیا جائے گا؟
جواب:ہاں یہ طلاق شمار ہوگی کیونکہ اس میں صراحت کے ساتھ بیوی سے جدائی کا ذکر ہے ۔ یہ ایک طلاق رجعی مانی جائے گی ۔اور شوہر طلاق سے رجوع کرنا چاہے تو عدت میں رجوع کرسکتا ہے۔
سوال(14): پچھلے سال میں نے اپنا سونے کا سیٹ بیچا اوراُس سے جو سات لاکھ روپے ملے وہ میں نے کسی کے کاروبار میں لگا دئے اور اس کا منافع میں ہر مہینے لیتی ہوں ،اب اس بات کو ایک سال ہونے والا ہے، یہاں میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے اس رقم کی ( جو کاروبار میں لگائی تھی)زکٰوۃ نکالنی ہے؟
جواب:اس میں ایک مسئلہ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اگر منافع متعین کرکے لیا جاتا ہے جیسے سات لاکھ کسی کمپنی میں لگایا گیا تو ہرماہ مثلا پچیس ہزار یا پچاس ہزار روپئے متعین طور پر منافع لئے جاتے ہیں تو یہ جائز نہیں ہے ۔ کاروبار کے منافع ونقصان دونوں میں شرکت کرنا ضروری ہے اور کاروبار کے منافع  کے حساب سے فائدہ لینا ہے نہ کہ متعین رقم  منافع میں لینا ہے ۔
جو پیسہ کاروبار میں لگاہے اس پہ ایک سال ہوگیا ہے تو اس کی زکوۃ دینی ہوگی اور ساتھ میں ان منافع اور بچت پیسوں کو بھی ملاکر زکوۃ دی جائے گی جن  پر ایک سال ہوگیا ہے ۔
سوال(15): زکوۃ کی رقم مسجد کی تعمیر وغیرہ کے لیے دی جا سکتی ہےاور آل رسول کو دی جا سکتی ہے؟
جواب:زکوۃ کی رقم مسجد کی تعمیر میں نہیں لگائی جائے گی ، نفلی صدقات کی رقم لگائی جاسکتی ہے اور واقعی جس کا سلسلہ  آل بیت سے ملتا ہو اس کو زکوۃ نہیں دی جائے گی ۔  بہت سے لوگ فرضی طور پر آل رسول بنے ہوتے ہی اس لئے اس کو علم میں رکھنا ضروری ہے ۔
سوال(16): آج کل لکڑی کے جائے نماز پائے جاتے ہیں جو بیڈ کی طرح ہوتے ہیں کیا ان پر نماز پڑھنا صحیح ہے؟
جواب:لوگ کیا بیچتے یا بناتے ہیں اس سے آپ بالکل بھی سروکار نہ رکھیں ۔ ہم کو نماز پڑھنا ہے  تو صحیح ڈھنگ سے نماز ادا کریں گے اور نماز زمین پر پڑھی جاتی ہے اس لئے زمین پر نماز پڑھیں گے  ، کپڑے کا مصلی بچھاکر نماز پڑھتے ہیں توبھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن لکڑی کا مصلی نہ خریدیں  اور نہ استعمال کریں ۔ آپ لوگ خریدیں گے تو اس قسم کے مصلی بناوالے ایسی چیزوں کی تجارت کریں گے اور لوگ خریدنا بند کردیں تو تجارت کرنے والے کی یہ تجارت بھی بند ہوجائے گی ۔
سوال(17):کیا سر کا حجامہ نہیں کروانا چاہئے، شاید میں نے سنا ہے کہ اس سے آدمی پاگل ہوجاتا ہے؟
جواب: سر کا حجامہ کرواسکتے ہیں ، کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ متعدد احادیث سے سر کا حجامہ کرنے کا ثبوت ملتا ہے ۔ نبی ﷺنے سر کا حجامہ کروایا ہے ، صحیح بخاری میں ہے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے بيان كيا ہے :
احْتَجَمَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ في رَأْسِهِ وهو مُحْرِمٌ، مِن وجَعٍ كانَ به، بماءٍ يُقالُ له لُحْيُ جَمَلٍ.(صحيح البخاري:5700)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں اپنے سر میں پچھنا لگوایا (یہ پچھنا آپ نے سر کے) درد کی وجہ سے لگوایا تھا جو لحی جمل نامی پانی کے گھاٹ پر آپ کو ہو گیا تھا۔
سر میں حجامہ کرنے سے آدمی پاگل نہیں ہوتا ہے، حجامہ تو ایک بہترین علاج ہے اور نبی ﷺ نے خود کیا ہے تو اس سے آدمی پاگل کیسے ہوسکتا ہے ۔ایک حدیث میں ہے کہ سر میں حجامہ کرانے سے ہرقسم کی بیماری کا علاج ہوجاتا ہے اور چند بیماری کا نام بھی مذکورہے جیسے  برص ، کوڑھ ، سردرد سے اور جنون(پاگل پن ) وغیرہ میں شفا حاصل ہوتی ہے گویا سر میں حجامہ سے آدمی پاگل نہیں ہوتا ہے بلکہ پاگل پن ٹھیک ہوتا ہے ۔اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے(سلسلہ ضعیفہ:7071)
سوال(18):دانیال کا مطلب پیغمبر، مشہوردانشور، اور عدل کرنے والا ہوتا ہے؟
جواب:دانیال نام سے بنی اسرائیل میں ایک نبی گزرے ہیں اس لئے دانیال ایک پیغمبر ہیں ۔ تو دانیال کا معنی پیغمبر نہیں ہے بلکہ دانیال نام سے ایک پیغمبر گزرے ہیں ۔ دانیال دو لفظوں سے بنا ہے ، ایک دان فیصلہ کرنا والا یا قاضی  اور ایک ایل یعنی اللہ ۔ اس لئے دانیال کا مطلب ہوتا ہے اللہ فیصل یا اللہ قاضی ہے۔

مکمل تحریر >>

Thursday, January 11, 2024

دعا میں بہت اثر ہے

 
دعا میں بہت اثر ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے، مجھے انڈیا سے سعودی عرب کا سفرکرنا تھا، دن میں بارہ بجے کے قریب پٹنہ سے لکھنؤ کے لئے فلائٹ تھی، پھر لکھنؤ سے جدہ۔ گھر سے پٹنہ آنے کے لئے اسکارپیوبک کیاتھا، گاڑی والے سے اچھی طرح گفتگو کرلی تھی کہ رات دوبجے دروازے پر مجھے گاڑی چاہئے، فلائٹ کی بات ہے، تاخیرہونے پرفلائٹ چھوٹ سکتی ہے ۔گاڑی والے نے بولا آندھی ہویا طوفان دوبجے رات کو گاڑی آپ کے گھر کے دروازے پر رہے گی ۔
سفر والی رات ایک بجے گاڑی والے کو بطور تذکیر فون کیا کہ گاڑی کہاں ہے اورکب تک پہنچ جائے گی پھر اس نے جوجواب دیا اسے سن کرہوش اڑہوگیا۔ اس نے کہا کہ گاڑی بارات میں گئی تھی لوٹتے ہوئے دیر ہوگئی ، ابھی تک نہیں لوٹی ہے ۔میں نے اس کو وعدہ یاد دلایا تو بولتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ گاڑی تاخیرسے لوٹے گی ، اب تومجبوری آگئی ہے ، میں کیا کرسکتا ہوں ۔ کافی طویل گفتگوہوئی ، خلاصہ کلام یہ ہے کہ میں نے اس سے کہا اپنے دوست واحباب میں سے کسی کی گاڑی دیکھو اور میرے پاس بھیجو۔ ادھر میرے پاس جن گاڑی والوں کے نمبرات تھے رابطہ کرنا شروع کیا تو رات ہونے کے سبب کسی نے فون نہیں اٹھایا۔ دھیرے دھیرے وقت گزررہا تھا،ایک گھنٹہ بعد اسی گاڑی والے کا فون آیا کہ ایک آدمی سے بات ہوئی ہے وہ آجائے گا، میں نےکہا جلدی بھیجو وقت نکل رہا ہے ۔
بہرکیف!  ساڑھے چار یا پونے پانچ بجے کے قریب گاڑی آئی ، میں اور میری فیملی کے لوگ تیار بیٹھے تھے ، جلدی سے گاڑی میں بیٹھے اور جلدی نکلنے کو کہا۔ اتفاق ایسا کہ وہ ڈرائیور کبھی کسی کو ایرپورٹ نہیں چھوڑا تھا اور اسے راستے کا بھی علم نہیں تھا۔ گاڑی چلتی رہی، متعدد بار راستے میں پوچھنا بھی پڑا، پٹنہ کے قریب پہنچ کر بڑی بھیڑ میں گاڑی پھنس گئی ۔ اب فلائٹ پرواز کرنے کا وقت قریب ہورہاتھا۔ ڈرائیور سے بولا کہ گاڑی سے اتر کو ذرا حالات کا پتہ لگاؤ ، کیسا جام ہے اور کب تک ختم ہوسکتا ہے ۔ پتہ چلا  بھیانک جام ہے ، کافی وقت لگ سکتا ہے ۔ یہ وہ نازک وقت تھا جب میرے لئے ایک ایک منٹ قیمتی سے قیمتی تھا۔ دس پندرہ منٹ تک سوچ میں پڑا رہا پھر اچانک دل میں خیال آیا کہ اس گاڑی کو چھوڑ کر کوئی دوسری گاڑی لی جائے ، میں نے گھروالوں کو سلام کیااور گاڑی سے اترکرسڑک  کے دوسرے طرف  چلا گیا یعنی یہ ٹووے تھا، ون وے کو چھوڑکرسکنڈ وے پر چلا گیا۔ اس جانب  پورا راستہ صاف تھا حتی کہ کوئی گاڑی بھی نظر نہیں آرہی تھی ، راستہ کراس کرتےوقت ایک کار نظرآرہی تھی۔ اس وقت کار والا ، کار میں ایک بیک پیچھے کی جانب ڈال رہاتھا ، ابھی میں کچھ فاصلہ پر تھا ، تیزتیزبھاگ کرجب تک گاڑی کے قریب آتا، گاڑی والا بس نکلنے ہی والا تھاتاہم مجھے اس سے بات کرنے کا موقع مل گیا ، میں نے کہا مجھے ایرپورٹ جانا ہے، اس نے فورا کہہ دیا کہ بیٹھئے ایرپورٹ ہی جارہاہوں ، پیچھے کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ اس بھائی صاحب کی گاڑی جام میں پھنس گئی تھی اس نے کال کرکے مجھے بلایا ہے ۔ سبحان اللہ ،  کس قدر اتفاق کی بات ہے کہ ایک شخص اپنی ضرورت کے لئے فون کرکےگاڑی بلایااور اللہ نے مجھے بھی اس میں بیٹھنے کا موقع دیا۔
میں نے گاڑی والے سے کہا کہ میرے ساتھ بھی یہی حادثہ پیش آیا ہے، اس کو بتلایا کہ دیکھو میرے گھر والے دوسری جانب گاڑی میں بیٹھے ہوئےہیں، ڈرائیور نے کہا کہ ایک ہزار روپیہ کرایہ لگے گا  حالانکہ دوتین سو کرایہ کافی تھامگر وقت پیسہ کم کرانے کا نہیں تھا۔ میں نے کہا ٹھیک بس مجھے جلدی سے جلدی ایرپورٹ پہنچا دو۔ ٹیکسی والا راستے کا بہت ماہرتھا، ایک تو گاڑی تیز چلائی پھر مختصر راستے سے لے کر گیا۔ ابتک فلائٹ پرواز کرنے کے قریب ہوگئی تھی بلکہ یہ کہہ لیں ٹیکسی پر بیٹھتے وقت  اڑان بھرنے میں پندرہ بیس منٹ کا فاصلہ رہا ہوگا۔ یہ بندہ پندرہ منٹ کے آس پاس کدھرکدھر سے لےجاکرایرپورٹ چھوڑ دیا۔ میں ایرپورٹ کے اندرداخل ہوا،سیدھے کاؤنٹرپرگیا اور دولفظوں میں کہا کہ فلائٹ اڑنے کا وقت ہوگیا ہے مجھے لکھنؤجانا ہے، میرے پاس لگیج نہیں تھا، اس نے فورا پاس دیا ، پاس دکھاکر اندر گھسا، آخری بس مسافر کو جہاز تک لے جانے کے لئے کھڑی تھی ، شاید میرے لئے ہی ہو کیونکہ اس میں کوئی مسافر نظر نہیں آیا، جیسے بس میں بیٹھا، بس جہاز تک پہنچادیا۔ جہاز میں داخل ہوا ، ایئرہوسٹس نے  بلاخیرسیٹ کی طرف رہنمائی  کی ، پرواز سے قبل دی جانی والی ہدایات دی جاچکی تھیں ۔ میں اپنی سیٹ پر بیٹھا چندلمحوں میں فلائٹ پرواز کرگئی ۔ رب کا شکر بجالایا۔
لکھنؤ پہنچ کر گھروالوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلاوہ لوگ اسی جگہ جام میں ابتک پھنسے ہوئےہیں، چلچلاتی دھوپ تھی ، ساتھ میں بچے بھی تھے اور آس پاس کوئی دوکان تک نہیں تھی ۔میرا بھائی اور بھتیجا پٹنہ میں رہتا ہے ان لوگوں کو فون کرکے کھانے پینے کی چیزیں منگوایا۔
سعودی عرب پہنچنے کے بعد غور کیا کہ یہ سفر تو بہت نازک تھا آخر اس سفر کی کامیابی کے پیچھے کیا راز ہے تو باربار یہی خیال آیا ، لوگوں کی دعاؤں کا اثر ہے۔سفر والے دن سرے شام ہی اپنے سفر سے متعلق سوشل میڈیا پرخبردیدی تھی  جہاں ساتھیوں نے دعائیں دی۔ پھر گھروالوں کی دعائیں اور بحیثیت مسافر خود کی دعا۔ یقینا اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں جن کا علم اللہ کو بہتر ہے تاہم میرے دل نے جس بات کو باربار یاددلایا ہے وہ دعا ہے۔
تقریبا سال سے بھی اوپر ہوگیا ہوگا، فریج کا پانی استعمال نہیں کرتا ہوں لیکن گزشتہ جمعہ ضیافت میں پیش کیاگیا ٹھنڈا جوس پینے سے اچانک طبیعت بگڑ گئی ، ابھی جدہ کا موسم بھی بارش والا ہے۔دوائیں  استعمال کرہاہوں تاہم ساتھیوں نے جو دعائیں دی ہیں، ان دعاؤں کی برکت مجھے زیادہ نظر رہی ہے  ، بہتر محسوس کررہا ہوں اور مدینہ کا بھی  سفر ہوگا، ان شاء اللہ ۔اسی سبب فلائٹ والا  پچھلا واقعہ یاد آگیاتو سوچا اس واقعہ کو آپ لوگوں سے بیان کروں ۔
آخر میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکرگزار ہوں نے جنہوں نے دعائیں دی ، اللہ تعالی آپ سب کو صحت وعافیت سے رکھےاور جو بھائی بیمار ہیں ان کو جلدازجلد شفایابی نصیب فرمائے ۔ آمین
مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر
مکمل تحریر >>