بغیررضامندی کے میاں بیوی کے درمیان جماع کا حکم
جواب: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
سوال: جماع کے بارےمیں اسلام کا کیا اصول ہے، مطلب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شوہر کو جماع کی خواہش ہوتی ہے مگر اس وقت بیوی کو خواہش نہیں ہوتی ایسے میں اس وقت جماع کرنا زبردستی والی بات ہوگئی ، اسی طرح کبھی بیوی کی خواہش ہوتی ہے مگر شوہر کا دل نہیں ہوتا ایسے میں یہ بھی زبردستی والی بات ہوگئی ہے پھر اس حال میں اسلام کا اصول کیا ہے؟
جواب:اس سوال کے تعلق سے پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ مغربی
معاشرے میں جبرا بیوی سے ہمبستری کرنا زنا شمار کیا جاتا ہے جبکہ رضامندی سے زنا
کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں ۔ اگر
شرعی طور پر عقد نکاح کیا گیا ہوتو میاں بیوی کے جنسی تعلقات کسی صورت میں زنا کے
زمرے میں نہیں آتے لیکن اگر نکاح نہ کیا گیا ہوتو لڑکا اور لڑکی کا جنسی تعلق قائم
کرنا خواہ رضامندی سے ہو یا بغیر رضامندی کے ، زنا میں شمار کیا جائے گا۔
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ میاں بیوی کے درمیان قائم
ہونے والے جنسی تعلقات کو ریپ کا نام دیا جاتا ہے اور ہندو پاک میں میریٹل ریپ کو
جرم کے طور پر ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے لیکن بیوی کی شکایات پر بعض عدالتوں
نے سزا سنائی ہے۔
2023میں ہندوستان کی ریاست چھتیس گڑھ کی ایک عدالت نے
بیوی کے ساتھ غیر فطری جنسی تعلقات کی وجہ سے شوہر کو نو سال کی قید اور دس ہزار
روپئے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔ اور2024
میں پاکستان میں جاوید نامی ایک شخص کو میریٹل ریپ کے
جرم میں عدالت نے تین سال کی قید اور تیس ہزار روپئے جرمانہ کی سزا سنائی تھی۔
بہرحال! شریعت کی روشنی میں میاں بیوی کے درمیان ہونے
والے جنسی تعلق کو قطعا زنا کا نام نہیں دیا جا سکتا ہے خواہ جبرا ہی کیوں نہ ہو۔
اس بات کو جان لینے کے بعد اس بارے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ میاں بیوی کے
درمیان متعدد قسم کے حقوق ہیں۔ بعض حقوق شوہر سے متعلق ، بعض حقوق بیوی سے متعلق
اور بعض حقوق زوجین کے درمیان مشترکہ ہیں جنہیں دونوں کو ایک دوسرے کے لئےمشترکہ
طور پر ادا کرنے ہیں۔ ہمبستری کا معاملہ بھی مشترکہ حقوق میں داخل ہے۔ یہ حق ،
شوہربیوی کے لئے اور بیوی شوہر کے لئے باہمی رضامندی سے ادا کیا کریں گے۔ اگر اس
حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے کا تعاون نہ ہو تو اس حق کی ادائیگی صحیح ڈھنک سے
نہیں ہوپائے گی ۔اس وجہ سے ہمبستری کے عمل کو میاں بیوی ایک دوسرے کی رضامندی سے
انجام دیں گے۔ جب شوہرکو اس کی خواہش ہو، بیوی اس میں شوہر کا ساتھ دے اور جب بیوی
کو خواہش ہو اس وقت شوہر بیوی کا ساتھ دے اور جب دونوں کی خواہش ایک ساتھ ہوپھر اس
میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
مرد کے اندر جنسی خواہش عورت کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی
ہے اس لئے اللہ نے ایک مرد کو ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت دی ہے اور شادی کو
مرد کے لئے سکونت وراحت کا سامان قرار دیا ہے ۔گوکہ شادی میں میاں بیوی دونوں کو
راحت ہے مگر شوہر کو راحت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس لئے اللہ نے شادی کی راحت کا
انتساب مرد کی طرف کیا ہے، اللہ فرماتاہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ
أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الروم:21)
ترجمہ:اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے
بیویاں پیدا کیں تاکہ تم آرام پاؤ۔اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی،
یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔
شادی کے بعد میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلقات سے متعلق
نصوص پر غور کرتے ہیں تو وہاں بھی آپ کو شوہرکی جنسی خواہش کے لئے خصوصی اہمیت نظر
آئے گی ۔جیسے نبی ﷺ کا یہ فرمان دیکھیں جس میں آپ نے شوہر کی موجودگی میں عورت کو
نفلی روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:لايَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أنْ
تَصُومَ وزَوْجُها شاهِدٌ إلَّا بإذْنِهِ( صحيح البخاري:5195)
ترجمہ: عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی موجودگی
میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے۔
یہاں پر عورت کو نفلی روزہ رکھنےکی ممانعت اسی سبب ہے
کہ کہیں شوہر کو ہمبستری کی ضرورت ہوتو بیوی اس کے لئے شوہر کا ساتھ دے اور روزہ
چھوڑ دے۔عموما آدمی رات میں سوتا ہے اور اس وقت جماع کرتا ہے مگر شوہر کی جنسی
خواہش کی تکمیل کے لئے عورت کو دن میں بھی اہتمام کا حکم دیا ہے بلکہ اس سے بھی
زیادہ اہم ایک دوسرا فرمان ہے، آپ ﷺ فرماتے ہیں:
إذا دَعا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إلى فِراشِهِ، فأبَتْ
أنْ تَجِيءَ، لَعَنَتْها المَلائِكَةُ حتَّى تُصْبِحَ(صحيح البخاري:5193)
ترجمہ: جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ
آنے سے (ناراضگی کی وجہ سے) انکار کر دے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
مذکورہ تمام نصوص بطور خاص آخری حدیث سے معلوم ہوتا ہے
کہ شوہر دن یا رات میں جب بھی ہمبستری کا ارادہ کرے ،بیوی اپنے آپ کو شوہر کے
حوالے کردے یعنی اسے اپنی خواہش پوری کرنے دے اور ہمبستری سے انکار نہ کرے خواہ
اسے ہمبستری کی چاہت ہو یا نہ ہو۔ اللہ نے بیوی کو شوہر کی کھیتی کہا ہے ، وہ جب
چاہے اپنی بیوی سے مباح طریقہ پراپنی خواہش پوری کرسکتا ہےخواہ بیوی راضی ہو یا
نہیں ہو۔اللہ تعالی فرماتا ہے:نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ
أَنَّىٰ شِئْتُمْ (البقرۃ:223)
ترجمہ:تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتوں
میں جس طرح چاہو آؤ۔
آج کی مسلم خواتین بھی مغربی معاشرے سے متاثر ہوتی
جارہی ہیں جس کی وجہ سے بہت سارے شوہر وں کو بیوی کی مرضی کے حساب سے ہمبستری کرنا
پڑتا ہے ۔یہ نظریہ اور ایسا عمل سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اس لئے مسلم
عورتوں کو اس بارے میں اپنی اصلاح کرنی چاہئے ۔ بسا اوقات یہ معاملہ طول پکڑتا ہے
تو زوجین کے درمیان نفرت کی دیوار قائم ہوجاتی ہے اور طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
اس معاملہ میں دوسرا رخ یہ ہے کہ جب بیوی کو جماع کی
خواہش ہوتو شوہربھی بیوی کا ساتھ دے اور اس کی خواہش پوری کرے ۔ایسا نہیں ہے کہ
بیوی کے لئے شوہر کی خواہش پوری کرنا ضروری ہے لیکن بیوی کی خواہش ہوتو اس کی
اہمیت نہیں ہے۔شوہر کو بیوی کے پاس رات بسرکرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کا
جنسی حق ادا کرسکے، اس تعلق سے نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے: وإنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ
حَقًّا(صحيح البخاري:5199) کہ تمہارے اوپر تمہاری بیوی کا بھی حق ہے۔
جماع زوجین کا مشترکہ حق ہےاس کی ادائیگی دونوں کو
باہمی رضامندی سے ادا کرنا ہے۔ جابر بن عبداللہ نے اللہ کے رسول سے اپنی شادی کے
بارے میں بتایا تو آپ ﷺنے ان سے فرمایا:هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا
وَتُلَاعِبُكَ(صحیح البخاری:5080)
ترجمہ:تم نے کسی کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی کہ تم
اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شادی اس لئے کی
جاتی ہے کہ شوہر بیوی سے کھیلے اور بیوی شوہر کے ساتھ کھیلے یعنی دونوں ایک دوسرے
کے ساتھ ہنستی خوشی پیار ومحبت سے زندگی گزاریں ۔ جب آپسی محبت میں کمی آتی ہے اور
کسی وجہ سے شوہر یا بیوی یا دونوں ایک دوسرے کو ناپسند کرنے لگتے ہیں تو اس کا اثر
جنسی تعلقات پر بھی پڑتا ہے ۔اس لئے یاد رکھیں کہ میاں بیوی میں جس قدر ہمدردی ،
پیار ومحبت اور ایک دوسرے کےساتھ تعاون کا جذبہ کارفرماہوگا اسی قدر جنسی معاملہ
بھی بہتر ہوگا ۔
ان تمام باتوں کو خلاصہ کے طور پر بیان کروں تو کچھ اس
طرح چند نکات میں ان باتوں کو بیان کرسکتا ہوں ۔
٭ نکاح مودت ومحبت پر قائم ہے، آپس میں تلخی پیداہونے
سے یہ رشتہ ٹوٹ سکتا ہے لہذا شوہر اور بیوی دونوں کو اپنے رشتے میں الفت ومحبت
قائم رکھنا ہے اور زندگی کے تمام معاملات میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے رہنا ہے ۔
محبت وتعاون کی بنیاد پررشتہ بھی مضبوط رہے گا اور جماع کا مسئلہ بھی آسان رہے
گالیکن بغیر محبت اور بغیر تعاون کے نہ صرف جنسی معاملہ خراب ہوسکتا ہے بلکہ رشتہ
ازدواج بھی بگڑسکتا ہے۔
٭کبھی کبھی مرد یا بیوی جماع سے انکار عذر کی وجہ سے کرتے ہیں مثلا شوہرکی خواہش ہو مگر بیوی بیمار اور تکلیف میں ہو۔ اسی طرح بیوی کی خواہش ہومگر شوہرکوکوئی عذر لاحق ہویاوہ کسی غم کا شکار ہوایسے میں جماع کے لئے دونوں کو ایک دوسرے کے مناسب وقت کاخیال کرنا ضروری ہے۔جماع کے وقت کوئی مانع نہ ہو اور شوہریا بیوی میں سے کسی کوجماع کی خواہش ہوتو اس کا ساتھی اس کی خواہش پوری کرے۔
٭بسااوقات شوہر بیوی کوغیرفطری جماع پر مجبوری کرتا ہے یا عذر کے وقت خواہش کرتا ہے تو بیوی انکار کرتی ہے ، ایسے میں بیوی کا انکار درست ہے کیونکہ بیوی شوہر کی اطاعت جائز کام میں کرے گی، ناجائز اور غلط کام میں بیوی شوہر کی اطاعت نہیں کرے گی ۔ مردکوبھی غیرفطری جماع نہیں کرنا جاہئے ، اور بیوی بھی شوہر کے کہنے پر منہ سے یاہاتھ سے یا دبر میں انزال کے لئے ہرگزراضی نہ ہواو ر حیض ونفاس میں بھی شوہر سےدور رہے۔
٭میاں بیوی میں جماع کے خوشگوار ماحول کے لئے ایک اہم
بات یہ ہے کہ جماع کی کثرت نہ ہوبلکہ استطاعت کے مطابق کچھ دنوں کے وقفہ سے ہوتاکہ
دونوں رضاورغبت سے جماع کریں ۔ کثرت جماع میں جہاں جسمانی نقصان ہے وہیں اس سے
رغبت کی کمی بھی پیداہوجاتی ہے۔
٭جب شوہرکے اندر جماع کی رغبت زیادہ ہواور بیوی کمزوری یا دیگر عذر کی وجہ سے اس کے مطابق ساتھ نہ دے سکتی ہوتووہ دوسری شادی کرسکتا ہے ۔ دوسری شادی کے لئے ضروری ہے کہ مرددونوں بیوی کا جنسی طور پر حق اداکرنے اور ان کے نفقہ اور ضروریات کی تکمیل کرنےاور ان میں عدل کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔