Monday, September 14, 2015

قربانی کے بعض مسائل

قربانی کے بعض مسائل 

➖➖➖➖➖➖➖==============
تحریر: میقات قرن المنازل (طائف) سے حجاج کا اردو ترجمان مقبول احمد سلفی


(1)
قربانی عبادت ہے اور عبادت توقیفی ہے، اس لئے قربانی میں قیاس و رائے کا دخل نہیں ، ویسے ہی قربانی کی جائے گی جیسے ثابت ہے.
(2) قربانی کے حکم کے متعلق اہل علم کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، بعض نے وجوب کا حکم لگایا ہےمگر راقم کی نظر میں قربانی سنت مؤکدہ ہے.
(3) 8/ قسم کے جانوروں کی قربانی جائز ہے، ان میں بکری، بهیڑ، گائے اور اونٹ کا نر و مادہ شامل ہے.
(4) بهینس کی قربانی کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، بعض عالم امام مالک رحمہ اللہ کے قول سے دلیل پکڑتے ہوئے اس کے جواز کا فتوی دیتے ہیں جبکہ سنت سے دلیل نہ ہونے کی وجہ سے افضل یہی ہے کہ بهینس کی قربانی نہ کی جائے .
(5) جسے قربانی کی وسعت ہو اس کے حق میں قربانی مشروع ہے، قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں ہے جیساکہ حنفیہ کہتے ہیں.
(6) قربانی کرنے والا عیدالاضحی کا چاند نکلنے سے لیکر قربانی کرنے تک اپنا بال اور ناخن نہیں کاٹے گا . یہ حکم گهر کے دوسرے لوگوں کے لئے نہیں البتہ پورے گهر والے پابندی کر رہے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں جیساکہ اس سلسلے میں بعض آثار ملتے ہیں.
(7) ابوداؤد کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جو قربانی کی طاقت نہ رکهتا ہو وہ اگر اپنا بال و ناخن نہ کاٹے تو قربانی کا ثواب ملے گا.
(8) قربانی کے جانور کا چار عیوب سے پاک ہونا ضروری اور موٹا تازہ ہونا مستحب ہے. 
چار عیوب یہ ہیں.
*
ایسا کانا ہو جس کا کانا پن ظاہر ہو.
*
ایسا بیمار ہو جس کا مرض عیاں ہو. 
*
ایسا لنگڑا ہو جس کا لنگڑاپن ظاہرہو.
*
اتنا لاغر ہو کہ اس کی ہڈی نمایاں ہو.
(9) چار قسم کے جانور ( بکری، بهیڑ، گائے اور اونٹ) میں سے نر ہو یا مادہ کسی کی بهی قربانی کرسکتے ہیں، اسی طرح گابهن جانور کی بهی قربانی جائز ہے.
(10) قربانی کے لئے جانور خریدکر اسے بیچنا، ہبہ کرنا یا گروی رکهنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس سے باربرداری کا کام لینا صحیح ہے.
(11) ایک جانور ایک پورے گهر کی طرف سے کافی ہے ، چهوٹے جانور میں شرکت نہیں. بڑے جانور گائے اور اونٹ میں سات حصے دار شریک ہوسکتے ہیں.
(12) قربانی عیدالاضحی کی نماز کے بعد سے لیکر ذی الحجہ کی تیرہویں تاریخ تک چار دن مشروع ہے.
(14) بہتر ہے کہ جو قربانی دے وہی جانور ذبح کرے ، اگر عورت کی طرف سے قربانی ہو تو وہ بهی ذبح کرسکتی ہے .
(15) قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت یہ دعا پڑهیں. 
"
بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هذا مِنْكَ وَلَكَ اَللھُم َّھذَا عَنِّيْ وَ عَـْن أهْلِ بَيْتِيْ "
مندرجہ ذیل دعا بهی پڑه سکتے ہیں. 
"
إنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَالسَّمَاْوَاتِ وَاْلأَرْضِ حَنِيْفًا وَمَاْأَنَاْمِنَ الْمُشْرِكِيْنَ، إِنَّ صَلاْتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَاْيَ وَمَمَاتِيْ لِلّهِ رَبِّ اْلعَاْلَمِيْنَ، لَاْشَرِيْكَ لَه’وَبِذالِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، بِاسْمِ اللهِ وَاللهُ أَكْبَرْ أَللهُمَّ هَذا مِنْكَ وَلَكَ أَللهُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّيْ ( وَمِنْ أَهْلِ بَيْتِيْ ) "
*
اس حدیث کو شیخ البانی نے مشکوہ کی تخریج میں صحیح قرار دیا ہے اور شعیب ارناؤط نے اس کی تحسین کی ہے.
(16) قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے کیونکہ قربانی کی اصل کهانا اور کهلانا ہے . بچے ہوئے گوشت کو ذخیرہ کرنے میں بهی کوئی حرج نہیں.
(17) غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں جید علماء کے فتاوے ہیں.
(18) قربانی کی کهال صدقہ کرسکتے ہیں ، خود بهی استعمال کرسکتے ہیں مگر اسے بیچنا یا اجرت میں دینا جائز نہیں.
(19) قصائی کی اجرت قربانی کے گوشت سے نہیں دی جائے گی بلکہ الگ سے دی جائے گی البتہ صدقہ یا ہدیہ میں اسے کچه دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں.
(20) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی دینا جائز نہیں ہے، اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ضعیف ہے. اسی طرح دوسرے میت کی طرف سے بهی مستقل قربانی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.
(21) قربانی نہ کرکے اس کی قیمت صدقہ کرنا بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں اور نہ ہی اصحاب رسول میں سے کسی کا طریقہ ہے.
(22) مسافر بهی قربانی دے سکتا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حالت سفر میں قربانی دینا ثابت ہے . اسی طرح حج کرنے والا حج کی قربانی(ہدی) کے ساته عیدالاضحی کی مناسبت سے قربانی دے سکتا ہے.
(23). قربانی جیسے دن میں کرسکتے ہیں ویسے ہی رات میں بهی کرسکتے ہیں.
نوٹ: آج کل اسی قسم کے سوالات بہت آرہے ہیں، اس لئے وقت کی کمی اور خوف طوالت کو مدنظر رکهتے ہوئے باختصار قربانی کے بعض مسائل بیان کئے گئے ہیں. تفصیل کے لئے اس سے متعلق مستقل کتابیں مراجعہ کی جائیں.


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔