Wednesday, July 29, 2015

یعقوب میمن کی پھانسی

یعقوب میمن کی پھانسی
===============
مقبول احمد سلفی
بھارت میں ممبئی بم دھماکوں میں مالی تعاون فراہم کرنے کے جرم میں سزائے موت پانے والے مجرم یعقوب میمن کو بروزجمعرات بھارتی ریاست مہارشٹر کے شہر ناگپور کی جیل میں پھانسی دیدی گئی ۔(بی بی سی اردو نیوز)

یقوب میمن کی پھانسی سے متعلق کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
(1) سب سے پہلاسوال یہ ہے کہ جب 30 تاریخ کو سزا طے ہوئی تھی تو پھر اس میں جلد بازی سے کیوں کام لیا گیا؟
(2) ممبئی بم دھماکے کے اصل مجرم یعقوب میمن نہیں ، ان کے بڑے بھائی ٹائگر میمن ہیں، پھر اسے سزا کیوں؟
(3) اس کیس میں 11 مجرمان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی سپریم کورٹ نے 10 افراد کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردی، سزا صرف میمن کو ہی کیوں؟ ۔
(4)میمن کی بیوی نے دہائی لگائی کہ جب ہمارے شوہر نے بیس سال کی جیل والی سزا کاٹ لی ہے پھر اسے پھانسی کیوں؟ اگر پھانسی اس کی سزا تھی تو 20 سال جیل کیوں؟ جوابا عرض کرتی ہیں کہ اس کا سبب ہمارا مسلمان ہونا ہے ۔

ان سوالات کے علاوہ یعقوب میمن کی پھانسی کے پس منظر میں ہم اسلامی نقطہ نظر سے دو اہم باتوں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔
(1) جو لوگ اسلام کی سزائے موت (رجم) کو سندگی تصور کرتے تھے ، آج پھانسی سے ان کی زبان تو بہر حال بند ہوگئی ۔ الحمد للہ

(2)پھانسی کی سزا پانے والوں کو اگر دیکھیں تو وہ اپنے آخری دنوں میں کافی بدل جاتے ہیں ، اگر مسلمان ہوں تو عبادت ، استغفار اور دعا وغیرہ میں لگ جاتے ہیں اور ایک خاص بات کہ لوگوں سے میل جول میں کافی نرمی کا برتاؤ پیدا کرلیتے ہیں ۔
یہ سب اس لئے کہ انہیں اپنی موت کا دن اور تاریخ معلوم ہے جبکہ دیکھا جائے تو ہماری بھی موت متعین ہے، دن اور تاریح کا اللہ کے سوا کسی کو علم نہیں مگر ایک نہ ایک دن جانا سبھی کو ہے ۔
اگر ہم پھانسی پانے والے مجرم کی طرح اس حقیقت کو جان لیں کہ ہماری موت کا دن بھی متعین ہو چکا ہے تو ہمارے اندر بھی انہیں کی طرح اس عالم ناپائیدار سے جانے کا احساس پیدا ہوگا اور اس تناظر میں زندگی و آخرت کی کامرانی کا سامان مہیا کریں گے ۔

اے پروردگار عالم ! ہمارے اندر ایسا تصور آخرت پیدا ہوجائے ۔ آمین


مکمل تحریر >>

Sunday, July 26, 2015

خطبہ کے دوران نبی ﷺ پر درود پڑھنا

خطبہ کے دوران نبی ﷺ پر درود پڑھنا

ترجمہ : مقبول احمد سلفی
(1) قال الإمام أحمد : لا بأس أن يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم فيما بينه وبين نفسه . ( المغني 2/165 وما بعدها )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا کہ خطبہ کے دوران اپنے من میں نبی ﷺ پر درود پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

(2) وقالت اللجنة الدائمة :
( إذا صلى الخطيب على النبي صلى الله عليه وسلم فيصلي المستمع من غير رفع صوت ) . ( فتاوى اللجنة الدائمة 8/217)
لجنہ دائمہ نے کہا کہ جب خطیب نبی ﷺ پر درود پڑھے تو سننے والا بھی بغیر آواز بلند کئے نبی ﷺ پر درود پڑھے ۔

(3) وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :
( إذا ذكر الخطيب النبي صلى الله عليه وسلم فإن المستمع يصلي عليه سراً ، حتى لا يشوش على من حوله ) ا.هـ مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16/166 ) .
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کہا: جب خطیب نبی ﷺ کا ذکر کرے تو سننے والا سری طور پر درود پڑھے تاکہ بغل والے کو تشویش نہ ہو۔

الاسلام سوال و جواب


مکمل تحریر >>

کیا وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ؟


أعلى النموذج

کیا وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

لوگوں میں مشہور ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اس لئے ایمان کا تقاضہ ہے کہ وطن سے محبت کی جائے اور جو وطن سے محبت نہیں کرتا وہ وطن مخالفت ہے ۔ دراصل اس بات کی بنیاد ایک حدیث پر ہے ، وہ حدیث اس طرح ہے : "حب الوطن من الإيمان "۔اس کا معنی ہے کہ وطن سے محبت کرنا ایمان میں سے ہے یعنی ایمان کا حصہ ہے ۔
یہ حدیث عوام میں کثرت سے پھیلی ہے اور عوام اس حدیث کو صحیح سمجھتی ہے جبکہ یہ حدیث  رسول اللہ ﷺ سےثابت نہیں ہے ۔اس حدیث پہ محدثین کے چند احکام درج کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ حدیث ہے یا بناوٹی بات ؟
(1) صغانی نے کہا کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (موضوعات الصغانی: 53)
(2) سخاوی نے کہا کہ میں اس حدیث پر مطلع نہیں ہوں ۔ (المقاصد الحسنۃ : 218)
(3) سیوطی نے بھی وہی کہا جو سخاوی نے کہا۔( الدرر المنتثرۃ : 65)
(4) ملا علی قاری نے کہا کہ کہا گیاہے اس کی کوئی اصل نہیں یا اس کی اصل موضوع ہونا ہے ۔(الاسرار المرفوعۃ : 189)
(5) محمدبن محمد الغزی نے کہا یہ حدیث ہی نہیں ہے ۔(اتقان مایحسن: 1/222)
(6) زرقانی نے کہا کہ میں اس حدیث کو نہیں جانتا۔(مختصر المقاصد: 361)
(7) وداعی نے کہا کہ یہ نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے ۔(الفتاوی الحدیثیۃ: 1/56)
(8) محمد جاراللہ الصعدی نے کہا کہ ایسی حدیث نہیں آئی ہے ۔(النوافح العطرۃ:120)
(9) شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ یہ مشہور ہے مگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(شرح النزھۃ لابن عثیمین :55)
(10) شیخ البانی رحمہ اللہ کا بھی حکم ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفۃ : 36)
اس حدیث پہ اتنی لمبی بحث لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ لوگ یہ بات جان لیں کہ وطن سے محبت کرنا ایمان نہیں ہے ، اگر کوئی وطن کے لئے جان دیتا ہے تو ایمان واسلام کے لئے نہیں جان دیتاہے وہ محض وطن کے لئے جان دیتا ہے ۔ اس لئے وطن کے لئے جان دینے والوں کو وطن پر قربان ہونے والا یا وطن کے لئے جان دینے والا کہیں گے مگر انہیں شہید نہیں کہیں گے ۔
ہاں وطن سے محبت فطری چیز ہے ، جو جہاں پیدا ہوتا ہے فطرتا اس سے محبت ہوجاتی ہے اور یہ محبت جائز ہے ۔ نبی ﷺ کو بھی اپنے وطن سے محبت تھی اور آپ نے محبت کا اظہار بھی فرمایاہے،  آپ دعا کرتے تھے :
اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّ(صحيح البخاري:5654)
ترجمہ: ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کردے جس طرح مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
مکہ سے محبت پر آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے :
قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ لمكَّةَ ما أطيبَكِ من بلدٍ وأحبَّكِ إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرجوني منكِ ما سَكَنتُ غيرَكِ(صحيح الترمذي:3926)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے ، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا۔
اسی طرح آپ ﷺ مدینہ سےبھی بیحد محبت کرتے تھے ۔ بخاری شریف میں ہے کہ جب آپ سفر سے واپس ہوتے اور مدینہ نظر آنے لگتا تو مدینہ سے محبت میں سواری تیز کردیتے چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:
كان رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذا قَدِمَ مِن سفرٍ ، فأَبْصَرَ درجاتِ المدينةِ ، أَوْضَعَ ناقتَه ، وإن كانت دابَّةً حرَّكَها .(صحيح البخاري:1802)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔
آگے ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ حارث بن عمیر نے حمید سے یہ لفظ زیادہ کئے ہیں کہ مدینہ سے محبت کی وجہ سے سواری تیز کردیتے تھے۔
حافظ ابن حجرؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :
وفي الحديث دلالة على فضل المدينة ، وعلى مشروعية حب الوطن والحنين إليه(فتح الباری)
ترجمہ : یہ حدیث مدینہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح یہ وطن سے محبت کی مشروعیت پر بھی دلالت کرتی ہے ۔
گویا یہاں اس بات کی صراحت ہوجاتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ اور مدینہ سے بیحد محبت تھی ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مکہ سے نبی ﷺ کی محبت اس لئے تھی کہ مکہ اللہ کے نزدیک محبوب ہے ،اس لئے نہیں کہ یہ آپ کا وطن تھا۔ یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نبی ﷺ کو مکہ وطن ہونے اور اللہ کو محبوب ہونےیعنی دونوں حیثیت سے  محبوب تھاکیونکہ دلائل سے دونوں قسم کی محبت کا پتہ چلتا ہے ۔ انسان کو جیسے اپنی جان سے محبت ہے ، اپنے مال سے محبت ہے اسی طرح اس جگہ سے محبت ہوتی ہے جہاں پیدا ہوتا اور سکونت اختیار کرتا ہے ۔ اس محبت میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ اس محبت کا تعلق فطرت ہے ۔ ہاں یہ فطری محبت ،اللہ اور اس کے رسول  یا ان کے احکام کی محبت پر غالب آجائے تو اس پہ سخت وعید ہے ۔


مکمل تحریر >>

فجر کی نماز میں اٹھ سکتے ہیں اگر

فجر کی نماز میں اٹھ سکتے ہیں اگر،،،،،،،

تحریر:مقبول احمد سلفی

(1)             سونے سے پہلے نماز فجر کے لئے اٹھنے کی سچی نیت کی جائے کیونکہ نیت سے توفیق ملتی ہے۔
(2)           رات کو سونے میں جلدی کی جائے اور دیر رات جاگنے سے پرہیز کیا جائے،عبادت سے تغافل میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
(3)           سچے دل سے اللہ تعالی سے دعا کے ساتھ صبح اٹھنے کا عزم مصمم کیا جائے ، دعا ہرگناہ سے بچنے کا موثر ہتھیار ہے اور  ارادے کی پختگی انجام تک پہنچانا ہے۔
(4)           سونے سے پہلے وضو کیا جائے اورسونے سے متعلق مسنون دعا پڑھی جائے ، بیدار ہونے پہ بیداری کی دعائیں پڑھی جائیں۔
(5)           اس بات کی معرفت ہو کہ نماز فجر چھوڑ کر سوئے رہنا گناہ کا باعث اورمنافق کی نشانی ہے ۔(متفق علیہ)
(6)            اللہ کی معصیت اور اس کی نافرمانی سے یکسر اجتناب کیا جائے ۔
(7)          اس بات کا احساس کیا جائے کہ نماز فجر پڑھنے سے بندہ اللہ تعالی کی ضمانت (یاامان) میں ہوجاتا ہے (صحیح مسلم)
(8)           الارم کا استعمال کیا جائے اور اس میں فجر کی نماز سے پہلے کا وقت سیٹ کرکے اپنے سے دور رکھا جائے ۔
(9)            دوپہر میں معمولی قیلولہ کرنے سے صبح بیدار ہونے پہ مدد ملتی ہے ۔
(10)        سونے میں اکیلے پن کو دور کیا جائے ، تاکہ پاس پڑوس میں کوئی ہوگا تو نماز کے لئے جگا دے گا۔
(11)          رات کا کھانا ہلکا کھایا جائے کیونکہ زیادہ کھانا نیند میں شدت کا باعث ہے۔
(12)        پیٹھ اورپیٹ کے بل نہ سویا جائےبلکہ سونے میں نبوی کیفیت کو اختیار کیا جائے ، یعنی دایاں کروٹ سوئیں اس طرح کہ  دائیں ہاتھ کی ہتھیلی دائیں گال کے نیچے ہو۔
(13)        رات کی نینداور دن میں معمولی قیلولہ کے علاوہ دیگر اوقات میں سونے سے بچیں۔
(14)        نماز فجر کے ساتھ دیگر نمازوں کی باجماعت ادائیگی کی جائے اور اس میں سستی و کاہلی کو درکنار کیا جائے ۔

یہ چند تجاویز تھیں جنہیں اپناکراللہ کی توفیق سے آدمی فجرکی نماز پڑھنے کے قابل ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے اس میں کچھ وقت لگے مگر اتنا ضرور دھیان دیں کہ جیسے جیسےرب پرایمان مضبوط ہوگا، آپ کی نیت خالص ہوگی، اور اپنے خالق حقیقی کی عبادت کی سچی تڑپ دل میں پیدا ہوگی ویسے ویسے آپ کے لئے دین کے امورپر عمل کرنا آسان سے آسان تر ہوتا چلا جائیگا۔ ان شاء اللہ



مکمل تحریر >>

Friday, July 24, 2015

حج پہ جانے سے پہلے معافی مانگنا

حج پہ جانے سے پہلے معافی مانگنا

مقبول احمد سلفی

حج پہ جانے سے پہلے پورے خلوص کے ساتھ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم کیا جائے،اگر کسی کو دکھ پہنچایاہو تو اس سے معافی مانگنی چاہیے ، کسی کا حق دبایا ہو تو معافی کے ساتھ اس کو واپس کردیناچاہیے، حق دار نہ ملے تو صدقہ کرنا چاہیے ،ساتھ ہی نیت رہے کہ جب ملے گا تو واپس کر دیں گے ۔
اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت پہ بہت ابھارا گیا ہے ، اور یہ وہ حق ہے جسے خود بندہ ہی معاف کرسکتا ہے ، ورنہ اللہ معاف نہ کرے گا، اگر اسی حالت میں دنیا سے چلا گیا تو آخرت میں اس کی نیکی مظلوم کو دے دی جائے گی ۔
رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«من كانت عنده لأخيه مظلمةٌ فليتحلَّل منه قبل ألا يكون درهمٌ ولا دينارٌ، إن كان له عملٌ صالحٌ أُخِذ منه بقدر مظلَمته، وإن لم يكن له حسناتٌ أُخِذ من سيئات صاحبِه فحُمِل عليه»
’’جس کسی نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو تو اس سے اس دن سے قبل معاملہ حل کر لے جب اس کے پاس درہم و دینار باقی نہ رہیں گے۔ اگر اس کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بقدر لے لیا جائے گا اور اور اگر اس کے پاس نیک عمل نہ ہوں گے تو مظلوم شخص کی برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔ ‘‘
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا : تم مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا : جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں وہ مفلس ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«المُفلِسُ من أمتي: من يأتي بصلاةٍ وصيامٍ وزكاةٍ، ويأتي وقد شتمَ هذا، وقذفَ هذا، وضربَ هذا، وسفكَ دمَ هذا، وأخذَ مالَ هذا، فيأخُذ هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنِيَت حسناتُه قبل أن يُقضَى ما عليه أُخِذ من خطاياهم فطُرِحَت عليه ثم طُرِح في النار»
’’میری امت کا مفلس وہ ہے جو(روز قیامت) نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ اور اس حالت میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی چوری کی ہوگی، کسی کو مارا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا۔ تو اس کی نیکیاں ان کو دے دی جائیں گی۔ اور اگر ان کا معاملہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کی برائیاں اس کے حصہ میں ڈال دی جائیں گی اور پھر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔‘‘
جب بندہ حج جیسے فریضے کی ادائیگی پہ جارہاہو اور اس کے اوپر کسی کا حق رہ جاتا ہو یا اس نے کسی کو تکلیف دیا ہو تو حج تو ہوجائے گا مگر اس کے اس عمل کا گناہ اس کے سر باقی رہے گا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ اس گناہ کی وجہ سے بہت سے اجر سے محروم ہوجائے گا۔
روى مسلم عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ : أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ) .
صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب النھی عن الشحناء والتھا جر کے تحت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر جمعرات اور سوموار کو تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو بخش دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا سوائے اس آدمی کہ جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیانعداوت ہو۔ کہا جاتا ہے ان دونوں کو چھوڑ دیجئے۔ یہا تک کہ صلح کر لیں۔‘‘(صحیح مسلم ۲/۳۱۷ح : 2565)


اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق بخشے ۔ آمین
مکمل تحریر >>

Thursday, July 23, 2015

امام کے پیچھے قرآن اٹھانا

امام کے پیچھے قرآن اٹھانا
=============
امام کے پیچھے قرآن اٹھانا صحیح نہیں ہے ، امام کو جس قدر یاد ہو بآسانی اس کی تلاوت کرے ۔ ہاں اگر زیادہ یاد نہ ہو اور حافظ قرآن بھی نہ ہو تو پھر امام مصحف اٹھا کر پڑھ سکتا ہے مگر لقمہ دینے کے لئے امام کے پیچھے قرآن اٹھانے کے متعلق نص نہ ہونے کی وجہ سے علماء نے عدم جواز کا فتوی دیا ہے ۔
اگر کسی نے غلطی سے مصحف اٹھالیا یا پھر موبائل دیکھ کر لقمہ دے دیا تو وہ نماز درست ہے ، لیکن یہ عمل امام کے پیچھے نہ انجام دیا جائے ۔

واللہ اعلم

مقبول احمد سلفی  
مکمل تحریر >>

بغیر اجازت کے حج کرنا

بغیر اجازت کے حج کرنا

بغیر اجازت کے حج کرنا قانونا جرم ہے ، اس لئے کسی کو بغیراجازت(بدون تصریح )کے حج نہیں کرنا چاہئے ۔ اس جرم پہ حکومت کی طرف سے پکڑے جانے پہ سزا ملتی ہے ۔ حکومت سعودیہ عربیہ لوگوں کو انتظام کے ساتھ حج کراتی ہے تاکہ کسی کے لئے حج باعث مشقت نہ ہو ۔ بغیر اجازت کے حج پہ جانے سے جہاں خود کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں وہیں دوسروں کے لئے بھی یہ باعث زحمت ہے ۔
اگر کسی نے بغیر اجازت کے حج کرلیا تو اس کا حج صحیح ہوگا، اسے دوبارہ حج کرنے کی ضرورت نہیں ۔ نفلی طور پر جتنی بار چاہے حج کرسکتا ہے ۔

واللہ اعلم
مقبول احمد سلفی  
مکمل تحریر >>

کارڈوں پہ بسم اللہ لکھنا مشروع ہے

کارڈوں پہ بسم اللہ لکھنا مشروع ہے
===============
شیخ ابن بازرحمہ اللہ
ترجمہ: مقبول احمد سلفی

سوال : کیا شادی کے کاڈوں پہ بسم اللہ لکھنا جائز ہے جبکہ وہ کچڑے کی جگہ اور راستوں میں پھیک دئے جاتے ہیں ؟

جواب : کارڈوں اور رسائل وغیرہ میں بسم اللہ لکھنا مشروع ہے ، کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
 ((كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم الله فهو أبتر))
ترجمہ: ہروہ معاملہ جسے بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے تو وہ (رحمت سے کٹاہوا) ہے ۔
اور نبی ﷺ اپنے خطوط کی ابتداء بسم اللہ سے کیا کرتے تھے ۔
کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ ایسے کارڈ جس میں اللہ ذکر یا قرآن کی آیت ہو اسے کوڑے، فضلات کی جگہ یا ناپسندیدہ مقامات میں پھینکے۔ اسی طرح رسالے اور اس کے مشابے لٹریچروں کی بے ادبی کرنا،اور اسے فضلات کی جگہوں پہ پھینکنا جائز نہیں ، نہ ہی اسے دسترخوان بنایا جائے اور نہ اسے ضرورت کی اشیاء کے لئے پیکٹ بنایا جائے ،کیونکہ اس میں اللہ کا ذکر ہے ۔
گناہ اس کے سر ہے جو اس طرح کا کام کرے گا ، اور لکھنے والے پر کوئی گناہ نہیں ۔  
مکمل تحریر >>

فجر کی سنت ،فرض نماز کے بعد ادا کرنا

فجر کی سنت ،فرض نماز کے بعد ادا کرنا
================

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ ، ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى ، ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِسَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ جَاءَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ فَصَلَّى مَعَهُ ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَفَصَلَّى رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ ، فَقَالَ: لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَا هَاتَانِ الرَّكْعَتَانِ ؟ " فَقَالَ: لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُهُمَا قَبْلَ الْفَجْرِ ،فَسَكَتَ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا " " قَيْسُ بْنُ فَهْدٍ الْأَنْصَارِيُّ صَحَابِيٌّ ، وَالطَّرِيقُ إِلَيْهِ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِهِمَا " وَقَدْ رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُإِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ فَهْدٍ [المستدرك على الصحيحين للحاكم 1/ 399 رقم 1019]۔

یہ روایت صحیح ہے امام حاکم نے صحیح کہا ہے امام ابن حبان اورامام ابن خزیمہ رحمہاللہ نے بھی اسے اپنی اپنی صحیح میں نقل کیا یعنی ان کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ اگرفجرسے قبل کی دو رکعت سنت کسی سے چھوٹ جائے تو وہ فجربعد اسے پڑھ سکتا ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے تقریرا اسے منظور کیا ہے ۔
بعض لوگ یہ اعتراض پیش کرتے ہیں کہ احادیث میں فجر بعد سنت پڑھنے سے منع کیا گیا ہے ۔
توعرض ہے کہ فجربعد عام سنن ونوافل سے منع کیا ہے اوربے شک عام سنن ونوافل فرض بعد ادا کرنا درست نہیں ہوگا لیکن اگر خصوصی طور پر کسی سنت کے بارے میں ثبوت مل جائے کہ اسے فجر بعد پڑھ سکتے ہیںتو ایسی سنت کی تخصیص ہوجائے گی اوراس کا حکم الگ ہوگا ، چنانچہ فجر سے قبل والی دو رکعت کے بارے میں خصوصی دلیل مل رہی ہے کہ اسے فجر کے بعد پڑھ سکتے ہیں اس لئے اس سنت کو فجر بعد بھی پڑھ سکتے ہیںکیونکہ اس کے لئے خصوصی دلیل موجود ہے۔
اسے مثال سے یوں سمجھیں کہ قران مجید میں مردہ جانور کو حرام قرار دیا گیا ہے ،ارشاد ہے:
{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ} [المائدة: 3]۔
یعنی تم پر مردار حرام ہے۔
لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردہ مچھلی حلال ہے لہٰذا مردہ مچھلی کاحکم الگ ہوگا اسے حرام قرار نہیں دیاجائے گا کیونکہ اس کے لئے خصوصی دلیل موجود ہے ۔

منقول محدث فورم
مکمل تحریر >>

تعارف مقبول

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

میں الحمد للہ بخیرہوں اورآپ تمام لوگوں کی اللہ پاک سے خیریت کی دعا کرتی ہوں۔

الحمد للہ مجھ ناچیز سے دین کا کام جتنا ہورہا ہے میں کر رہی ہوں ، دروس کا سلسلہ ، فیس بوک پہ دعوتی کام اور اسی طرح حسب طاقت واٹس اپ بھی دینی کام کررہی ہوں ۔
خاص بات یہ ہے کہ میرے رابطہ میں پاک و ہند کے علاوہ خیلجی ممالک کے بڑے بڑے علمائے کرام بھی ہیں جن سے میں بھرپور استفادہ کرتی ہوں۔ بالخصوص ایک نوجوان عالم دین / شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ جو اس وقت سوشل میڈیا پہ کافی چھائے ہوئے ہیں ، ان کی انوکھی اور ہرقسم کی پوسٹ سے کافی سارے لوگوں کی اصلاح ہورہی ہے ۔ واٹس اپ  پہ ان کی بے شمار خدمات ہیں ، کتنے سارے گروپ چلاتے ہیں ، اورکتنے گروپ والوں نے آپ سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے میں شامل کیا ہوا ہے ۔ اسی طرح فیس بوک پہ ان کا اوپن گروپ"اسلامیات " کے نام سے ہے ۔ جو محض اس مقصد کے لئے انہوں نے بنایا کہ نوجوان طبقہ جو انٹرنٹ پہ بے راہ روی کا شکارہے ، انہیں اپنی جانب مائل کرے اوراسلام کا آئینہ داربنائے ۔
آپ محترم سےاس گروپ کے لئے  میں نے بھی اجازت لے لی ہے تاکہ ہم لوگوں کی بھی اصلاح ہوجائے ،یہاں اس گروپ میں آپ لوگ دین سے متعلق کسی قسم کا سوال ان سے پوچھ سکتے ہیں۔
آپ سرزمین ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں، آپکی فراغت ہند کے مایہ ناز سلفی ادارہ جامعہ سلفیہ سے ہوئی ، پڑھنے ہی کے زمانے سے فن خطابت و صحافت میں منفرد تھے ، اور آج بھی شہرت کی بلندیوں پہ فائز ہیں۔ اخبارات وجرائد کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ ماشاء اللہ ان کی اسلامی شاعری بھی جاندار ہے ، کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ جامعہ سلفیہ کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی سے اردو میں بی اے آنرس کیا۔ پھر دعوتی میدان میں انہوں نے قدم رکھا۔ نیپال کی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے داعی بن کر کئی سال تک تبلیغ کرتے رہے ، پھر سعودی عرب شعبہ تبلیغ میں آگئے۔اور بروقت یہیں طائف شہر کے دعوہ سنٹر میں ہیں۔ انہوں نے اپنے سحرانگیر بیان سےکتنے لوگوں کو اہل حدیث بنایا اور سوسے زیادہ غیرمسلموں کو اسلام میں داخل کیا ۔ فللہ الحمد والمنۃ ۔
ہم شیخ محترم کا اس گروپ میں والہانہ خیر مقدم کرتے ہیں۔ اوراللہ تعالی سے دعاکرتے ہیں کہ آپ کو ہمارے لئے زیادہ سے زیادہ وقت مل سکے تاکہ خوب خوب فائدہ اٹھایا جاسکے ۔
نہایت تشکر وامتنان کے ساتھ
آپ سب کی دینی بہن
صائمہ شفیق سلفی
گروپ اڈمن



مکمل تحریر >>

Sunday, July 12, 2015

عید الفطر کے بعض مسائل

عید الفطر کے بعض مسائل
مقبول احمد سلفی
(1) عید کا چاند دیکھنے کا اہتمام کریں ، نظر آنے پہ دعا پڑھیں:
  (السلسلہ الصحیحہ: 1816)«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه» 
(2) عید کی نماز سے پہلے پہلے فی کس ڈھائی کلو اناج گھر کے چھوٹے بڑے تمام لوگوں کی طرف سے نکال کے فقراء و مساکین کو دیدیں ۔
(3) چاند رات سورج ڈوبنے سے لیکر نماز عید تک تکبیر پڑھیں، تکبیر کے الفاظ یہ ہیں :
اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ ، واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد
مردحضرات بآواز بلند پڑھیں اور خواتین پست آواز میں ۔
(4) عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے ۔
(5) عید کے دن غسل کریں ، اور عمدہ یا صاف ستھرا لباس زیب تن کریں، اور خوشبو استعمال کریں۔
(6) طاق کھجور کھاکر عید گاہ جانا مسنون ہے ۔
(7) پاپیادہ عیدگاہ جائیں، راستہ بھر تکبیر پڑھیں، اور لوٹتے وقت دوسرا راستہ اختیار کریں۔
(8) عید کی نماز صحرا میں ادا کی جائے البتہ ضرورت کے تحت مسجد میں بھی ادا کی جاسکتی ہےجیساکہ بارش کی وجہ سے نبی ﷺ نے مسجد میں عید کی نماز پڑھی ہے ۔
(9) خاتون حضرات  کوبھی عید گاہ جانا چاہئے یہاں تک کہ حائضہ  کوبھی ۔
(10) عیدگاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد کوئی نماز نہیں ہے ، اسی طرح عید کی نماز کے لئے اذان و اقامت بھی نہیں ہے ۔
(11) عید کی نماز کے بعد خطبہ سنیں پھر وہاں سے جائیں۔
(12) اگر جمعہ کے دن عید کی نماز پڑجائے تو اس دن جمعہ کی نمازبھی پڑھ سکتے ہیں یاپھر ظہر ہی ادا کرنا کافی ہوگا۔
(13) اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے ۔
(14) عید کے دن ایک دوسرے کو بایں الفاظ مبارکبادی دی جائے :
تقبل اللہ منا ومنک( اللہ تعالیٰ ہم سب کی عید اور دیگر اعمال صالحہ قبول فرمائے)۔
(15) شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عید کے دن اگر لوگ ایک دوسرے سے معانقہ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

  (16) عید کے دن خوشی کے اظہار میں جائز کھیل کا مظاہرہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
مکمل تحریر >>

Friday, July 10, 2015

وتر کی نماز کی جماعت

وتر کی نماز کی جماعت


مقبول احمد سلفی
وتر کی نماز اور نفل نمازجماعت سے پڑھنا مشروع ہے جیساکہ حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت حذیفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ سے آپ ﷺ کے ساتھ رات کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا ثابت ہے ۔
اس سلسلے میں اہل علم کا فتوی یہ ہے کہ رمضان میں وتر کی نماز جماعت سے ادا کرنا مشروع ہے مگر غیر رمضان میں عام طور سے اس کی جماعت بنا کر نماز پڑھنا درست نہیں  تاہم کبھی کبھار پڑھ لیا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
وتر کی نماز کا ایک اور مسئلہ کہ اسے جہرا پڑھنا کیساہے ؟
رات کی نماز کی اصل یہی ہے کہ اسے جہری طور پہ ادا کی جائے ، اس بنا پر اسے بھی جہری طور پہ  پڑھنا چاہئے ۔ اگر دن میں اس کی قضا کرنی ہو تو سری طور پر ادا  کرے۔

واللہ اعلم  



مکمل تحریر >>

شب قدر کی دعا میں لفظ کریم کی زیادتی


 مقبول احمدسلفی
اللهم إنك عفو [كريم] تحب العفو فاعف عني
یہ دعا ترمذی شریف میں وارد ہے ، اس دعا کو علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ میں (3337) حدیث نمبر کے تحت ذکر کیا ہے ۔

تنبیہ : " سنن ترمذی میں عفو کے بعد کریم کی زیادتی ہے ، اس کی کوئی اصل نہیں ہے نہ تو پرانے نسخوں میں اور نہ ہی منقول نسخوں میں۔یہ مدرج لگتا ہے  کسی ناقل یا ناشر کی طرف سے ۔سنن ترمذی کا ہندوستانی نسخہ جس کی شرح تحفۃ الاحوذی ہے مبارک پوری کی اس میں بھی یہ نہیں ہے اور نہ دوسر ے نسخوں میں ۔اس  کی تائید اس  بات سے بھی ہوتی ہے کہ نسائی نے  اپنی بعض روایات میں اسی طریق سے اخراج کیاہے  جس طریق سے ترمذی نے کیا ہے ، ان دونوں نے اپنے شیخ قتیبہ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ بغیر زیادتی کے بیان کیا ہے ۔ شیخ کا کلام ختم ہوا۔ 
مکمل تحریر >>

Monday, July 6, 2015

نماز کے سجدوں میں دوسری دعا مانگنا

نماز کے سجدوں میں دوسری دعا مانگنا

 سجدۂ نماز میں عربی کے علاوہ کسی بھی زبان میں دعاء بھی نہیں کرسکتا۔عربی زبان میں دعا کے لئے بہتر اور افضل عمل یہی ہے کہ نماز میں بھی اپنی حاجات کو انہی دعاوں کی صورت میں اللہ کے حضور پیش کیا جائے جو سنت میں موجود ہوں لیکن اگر آپ کوئی ایسی دعا کرنا چاہتے ہیں جو سنت میں موجود نہیں ہے تو وہ دعا بھی عربی میں سجدہ کی حالت میں کی جا سکتی ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
فأما الركوع فعظموا فيه الرب واما السجود فاجتهدوا في الدعاء فقمن أن يستجاب لكم
تعليق شعيب الأرنؤوط : إسناده صحيح على شرط مسلم 
جہاں تک رکوع کا معاملہ ہے تو اس میں اپنے رب کی تعظیم بیان کرو اور جہاں تک سجدے کی بات ہے تو اس میں دعا میں اہتمام کرو پس قریب و لائق ہے کہ تمہاری دعا قبول کی جائے گی۔

واللہ اعلم


مکمل تحریر >>