Friday, July 24, 2015

حج پہ جانے سے پہلے معافی مانگنا

حج پہ جانے سے پہلے معافی مانگنا

مقبول احمد سلفی

حج پہ جانے سے پہلے پورے خلوص کے ساتھ اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم مصمم کیا جائے،اگر کسی کو دکھ پہنچایاہو تو اس سے معافی مانگنی چاہیے ، کسی کا حق دبایا ہو تو معافی کے ساتھ اس کو واپس کردیناچاہیے، حق دار نہ ملے تو صدقہ کرنا چاہیے ،ساتھ ہی نیت رہے کہ جب ملے گا تو واپس کر دیں گے ۔
اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت پہ بہت ابھارا گیا ہے ، اور یہ وہ حق ہے جسے خود بندہ ہی معاف کرسکتا ہے ، ورنہ اللہ معاف نہ کرے گا، اگر اسی حالت میں دنیا سے چلا گیا تو آخرت میں اس کی نیکی مظلوم کو دے دی جائے گی ۔
رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
«من كانت عنده لأخيه مظلمةٌ فليتحلَّل منه قبل ألا يكون درهمٌ ولا دينارٌ، إن كان له عملٌ صالحٌ أُخِذ منه بقدر مظلَمته، وإن لم يكن له حسناتٌ أُخِذ من سيئات صاحبِه فحُمِل عليه»
’’جس کسی نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو تو اس سے اس دن سے قبل معاملہ حل کر لے جب اس کے پاس درہم و دینار باقی نہ رہیں گے۔ اگر اس کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بقدر لے لیا جائے گا اور اور اگر اس کے پاس نیک عمل نہ ہوں گے تو مظلوم شخص کی برائیاں اس کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔ ‘‘
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا : تم مفلس کون ہے؟ صحابہ نے کہا : جس کے پاس درہم و دینار نہ ہوں وہ مفلس ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«المُفلِسُ من أمتي: من يأتي بصلاةٍ وصيامٍ وزكاةٍ، ويأتي وقد شتمَ هذا، وقذفَ هذا، وضربَ هذا، وسفكَ دمَ هذا، وأخذَ مالَ هذا، فيأخُذ هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنِيَت حسناتُه قبل أن يُقضَى ما عليه أُخِذ من خطاياهم فطُرِحَت عليه ثم طُرِح في النار»
’’میری امت کا مفلس وہ ہے جو(روز قیامت) نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ اور اس حالت میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی چوری کی ہوگی، کسی کو مارا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا، کسی کا مال کھایا ہوگا۔ تو اس کی نیکیاں ان کو دے دی جائیں گی۔ اور اگر ان کا معاملہ پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان کی برائیاں اس کے حصہ میں ڈال دی جائیں گی اور پھر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔‘‘
جب بندہ حج جیسے فریضے کی ادائیگی پہ جارہاہو اور اس کے اوپر کسی کا حق رہ جاتا ہو یا اس نے کسی کو تکلیف دیا ہو تو حج تو ہوجائے گا مگر اس کے اس عمل کا گناہ اس کے سر باقی رہے گا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ اس گناہ کی وجہ سے بہت سے اجر سے محروم ہوجائے گا۔
روى مسلم عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ فَيُقَالُ : أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ) .
صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب النھی عن الشحناء والتھا جر کے تحت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر جمعرات اور سوموار کو تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو بخش دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا سوائے اس آدمی کہ جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیانعداوت ہو۔ کہا جاتا ہے ان دونوں کو چھوڑ دیجئے۔ یہا تک کہ صلح کر لیں۔‘‘(صحیح مسلم ۲/۳۱۷ح : 2565)


اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق بخشے ۔ آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔