Thursday, June 26, 2014

روزہ کے فضائل اور اس سے متعلق جدید طبی مسائل

روزہ کے فضائل اور اس سے متعلق جدید طبی مسائل
مقبول احمدسلفی / داعی دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف(مسرہ)

رمضان المبارک بندۂ مومن کے لئے  اللہ تعالی کی طرف سے باعث سعادت ہے ۔ یوں تو اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے بہتیرے مواقع ایسے ہیں جو باعث اجروثواب ہیں مگررمضان مقدس کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ یہ رحمت وبرکت سے لبریز،بخشش وعنایت سے پر،مغفرت ورضوان کا مہینہ ہے ۔ اس کا ایک ایک دن اورایک ایک رات اور رات ودن کا ایک ایک لمحہ خیروبرکت سے معطر ہے ۔
روزہ گوکہ سال میں ایک دفعہ اور فقط ایک مہینہ کے لئے آتا ہے مگر اس کے فیوض وبرکات اور آثارو نتائج کم ازکم سال بھرپر مرتب ہوتے ہیں ۔
قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں رمضان اور روزہ کے بے شمار فضائل ہیں ، انمیں سے چند ایک آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
(1)  رمضان میں قرآن کریم کا نزول :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ
ترجمہ : ماہ رمضان وہ (مقدس) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں راہنمائی اور حق و باطل میں امتیاز کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جو اس (مہینہ) میں (وطن میں) حاضر ہو (یا جو اسے پائے) تو وہ روزے رکھے ۔
(2) رمضان میں روزے کی فرضیت :
مذکورہ بالا آیت جو نزول قرآن سے متعلق ہے اس آیت میں روزے کی فرضیت کی بھی دلیل ہے ۔
(3) جنت کا دروازہ کھلنا:
(4) جہنم کا دروازہ بند ہونا:
(5) شیاطین کا قید کیا جانا:
مذکورہ بالا تینوں خصائص کی دلیل :
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
(إذا جاء رمضان , فتحت أبواب الجنة وغلقت أبواب النارو صفدت الششياطين – (متفق عليه)
ترجمہ : جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دورازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین مقید کردئے جاتے ہیں ۔
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے :
(فتحت ابواب الرحمۃ وغلقت ابواب جہنم وسلسلت الشیاطین )
ترجمہ : رحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین مقید کردئے جاتے ہیں ۔
(6) شب قدر :
اسی ماہ مبارک میں لیلة القدر ہوتی ہے، جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴾ (سورة القدر)
ترجمہ : ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘
مجاہد ؒ کا قول  ہے : اس رات کا عمل ، روزہ اور قیام  ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے (تفسیرالقرآن العظیم 4/ 687)
یعنی ایک رات کی عبادت کم از کم تراسی سال چار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے اور زیادہ کا کوئی شمار نہیں ۔
(7) مغفرت کا حصول :
جو ایمان و یقین اور اجروثواب کی نیت سے روزہ رکھے اس کے لئے پچھلے گناہوں سے مغفرت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔
(8) قیام کرنے والوں کے لئے مغفرت کا حصول :
جو ایمان و یقین اور اجروثواب کی نیت سے رمضان شریف کی راتوں میں قیام کرے  تواس کو سابقہ گناہوں سے گلوخلاصی ملتی ہے ۔
(9) شب قدرمیں قیام کرنے سے مغفرت :
چنانچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
 ‏"‏ من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه،‏‏‏‏ ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه ‏"‏‏.‏
ترجمہ : جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب (حصول اجر و ثواب کی نیت) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور جو لیلۃالقدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔  (صحیح بخاری کتاب لیلۃ القدر)
(10) جہنم سے آزادی :
ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
"للہ عند کل فطرعتقاء " (رواہ احمد وقال الالبانی ؒ : حسن صحیح )
ترجمہ : اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے ۔
ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک روایت جسے علامہ البانی ؒ نے حسن قرار دیاہے اس میں مذکور ہے کہ ہررات اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔
(11) دعا کی قبولیت :
عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ان للہ تبارک وتعالی عتقاء فی کل یوم و لیلۃ یعنی فی رمضان – وان لکل مسلم فی کل یوم ولیلۃ دعوۃ مستجابۃ (رواہ البزاروقال الالبانی : صحیح لغیرہ)
ترجمہ : ’’بے شک اللہ تعالیٰ( رمضان المبارک میں) ہردن اورہررات بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اورہردن اورہررات ہرمسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے‘‘۔
(12) روزہ کا بدلہ بے حدوحساب :
(13) روزہ دار افطار کے وقت اور رب سے ملاقات کے وقت فرحت محسوس کرتا ہے :
(14) روزہ دار کی منہ کی بدبواللہ کے نزدیک مشک سے بہتر ہے :
ابوہریرہؓ سے مروی ہے :
"قال اللہ عزوجل : کل عمل ابن آدم لہ ، الاالصوم فانہ لی وانااجزی بہ ، والصیام جنۃ ، فاذا کان یوم صوم احدکم ، فلایرفث ولایصخب ، فان سابہ احد اوقاتلہ ، فلیقل : انی صائم ، والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم اطیب عند اللہ من ریح المسک ۔ للصائم فرحتان یفرحھما ، اذا افطر فرح بفطرہ ، واذا لقی ربہ فرح بصومہ " (متفق علیہ )
ترجمہ : اللہ تعالی فرماتا ہے : روزہ کے علاوہ ابن آدم کے تمام اعمال اس کے لئے ہیں اور روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا۔ روزہ ڈھال ہے ۔ جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہوتو وہ کوئی گناہ کا کام نہ کرے اور نہ وہ جھگڑا اور نہ ہی شور وشرابہ کرے ۔ اگر کوئی دوسرا اس سے زبان درازی کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے ، روزہ دار کے منہ کی ہوا اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بہتر ہے ۔ روزہ دار کے لئے دوخوشیاں ہیں ایک تو جب روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا ۔
مسلم شریف کی ایک روایت ہے :
"کل عمل ابن آدم یضاعف ، الحسنۃ بعشر امثالھا الی سبعمائۃ ضعف ، قال اللہ تعالی : الا الصوم فانہ لی وانا اجزی بہ ، یدع شھوتہ وطعامہ من اجلی "
ترجمہ : ابن آدم کے ہرعمل کا بدلہ بڑھاکر دیا جاتاہے ، نیکی (بدلہ ) دس گنا سے سات سو گنا لکھی جاتی ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے : سوائے روزے کے کہ یہ خالص میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں ہی دوں گا۔ وہ خواہشات اور کھانے کو میرے لئے ترک کرتا ہے ۔
(15) روزہ دار کے لئے جنت میں مخصوص دروازہ :
" عن سھل بن سعد رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ان فی الجنۃ بابا یقال لہ الریان ، یدخل فیہ الصائمون یوم القیامۃ ، لایدخل منہ احد غیرھم ، فاذا دخلوا اغلق فلم یدخل منہ احد ( متفق علیہ )
ترجمہ : سیدنا سہل بن سعد ؓنبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے ، قیامت کے دن اس میں روزہ داروں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ اس میں داخل ہوجائیں گے تو اس دروازہ کو بند کردیا جائے گا، پھر اس میں کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا ۔
ترمذی میں ان الفاظ کی زیادتی ہے : " ومن دخلہ لم یظما ابدا" جو اس میں داخل ہوگیا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی ۔
(16) روزہ جہنم سے ڈھال ہے :
"عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال : الصیام جنۃ وحصن حصین من النار " (رواہ احمد باسناد حسن)
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: روزہ  ڈھال ہے اور جہنم سے بچاؤ کا مضبوط قلعہ ہے ۔
(17) روزہ خیروبرکت کا دروازہ :
"عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال : الا ادلکم علی ابواب الخیر ؟ قلت : بلی یا رسول اللہ ! قال : الصوم جنۃ ، الصدقۃ تطفی الخطیئۃ کما یطفی الماء النار " (رواہ الترمذی وقال الالبانی ؒ : صحیح لغیرہ )
ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں خیر کے دروازوں کی خبر نہ دوں ، میں نے کہا کیوں نہیں ، اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے ۔ صدقہ گناہوں کوویسے ہی مٹادیتا ہے جیسےپانی آگ  کو  ۔
(18) روزہ باعث سفارش :
" عن عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : الصیام والقرآن یشفعان للعبد یوم القیامۃ ، یقول الصیام : ای رب ، منعتہ الطعام والشھوۃ فشفعنی فیہ ، ویقول القرآن : ای رب ، منعتہ النوم باللیل فشفعنی فیہ ۔ قال : فیشفعان " ( رواہ احمد والطبرانی وصححہ البانی ؒ )
ترجمہ : ’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘
(19) روزہ کی کوئی برابری نہیں :
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں  کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے کوئی بات بتائیں کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالی ہمیں نفع پہنچائے تو آپ نے فرمایا:
" علیک بالصیام فانہ لامثل لہ " (رواہ ابن حبان وصححہ البانی ؒ )
ترجمہ : تم روزہ رکھو کیونکہ اس کے مثل کوئی چیز نہیں ۔
(20) روزہ تقوی کا ذریعہ :
اللہ تعالی کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ   (سورة البقرة)
 ”ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جا“۔
(21) جہنم سے دوری :
بندہ جس قدر روزہ رکھتا ہے اللہ تعالی اس کے اورجہنم کے درمیان اسی قدر دوری بڑھاتاہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : 
(من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا)
 ( متفق علیہ)
ترجمہ : جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔
یہ ایک دن کا بدلہ ہے اور جب بندہ ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے ، یا سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھے ، یا پھر ہرمہینے میں روزہ رکھے تو ان کا کیا حال ہوگا۔
(22) رمضان میں عمرہ حج کے برابر:
اس مہینہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں عمرہ کا ثواب حج کے برابرہوتاہے۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا:
 ’’فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِیْ، فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْہِ تَعْدِلُ حَجَّۃً‘‘۔(متفق عليه)
’’ترجمه : جب ماہِ رمضان آجائے تو تم اس میں عمرہ کرلینا کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابرہوتا ہے
٭ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’فَإِنَّ عُمْرَۃً فِیْ رَمَضَانَ تَقْضِیْ حَجَّۃً مَّعِیْ‘‘۔
(
البخاری:۱۸۶۳، مسلم:۱۲۵۶)
’’
رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کی قضا ہے"
یہ تھے چند فضائل ، رمضان اور روزہ سے متعلق ۔ اب مضمون کے دوسرے حصے روزہ کے جدید طبی مسائل کی طرف التفات کرتے ہیں ۔
روزہ کے جدید طبی مسائل
(1)  مسواک :
روزہ دارکے لئے رات ودن کے کسی حصے میں مسواک کرنا سنت ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کا فرمان ہے :
"السواک مطھرۃ للفم مرضاۃ للرب " (رواہ البخاری)
ترجمہ : مسواک سے منہ صاف ہوتاہے اور اللہ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے ۔
شیخ ابن عثیمین ؒ فرماتے ہیں کہ اگر مسواک کا مزہ اور اثر تھوک میں آجائے تو روزہ دارکو چاہئے کہ تھوک اور ذائقہ نہ نگلے ۔ (فتاوی الصیام )
البتہ ٹوتھ برش اور پیسٹ کا استعمال کرتے وقت ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پیسٹ قوی الاثر ہے یا غیر قوی الاثر ، کیونکہ بازار میں موجود پیسٹ دونوں طرح کی ہیں ۔
٭اگرپیسٹ قوی الاثر ہو یعنی اس کا اثرمعدہ تک پہنچتا ہوتو ایسی پیسٹ استعمال نہ کی جائے ۔
٭اور اگر پیسٹ کا اثر معدہ تک نہیں پہنچتا ہوصرف حلق تک محدود رہتاہوتو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ۔
(2) قطرات کا استعمال (Drops) :
ضرروت کے تحت آنکھ ، ناک اور کان میں قطرات (Drops) ڈالنا کوئی حرج کی بات نہیں ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ جو قطرات آنکھ ، ناک یا کان میں ڈالے جاتے ہیں ان کا اثر معدہ تک نہیں پہنچتا ،، اگر بالفرض یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ قطرات معدے میں حلول کرتے ہیں تو دوتین بوند کا اثر آنکھ سے بہ کر یا کان سے ٹپک کر یا پھر ناک سے پھیل کر معدہ تک کس مقدار میں جائے گا ؟ ۔ ظاہر سی بات ہے وہ معمولی سی مقدار ہوگی اور اس مقدار کا اثر روزہ کے لئے کسی طرح کے نقصان کا باعث نہیں ہے ۔ عرب کے مشائخ حضرات بھی اس کے جواز کافتوی دیتے ہیں تاہم احتیاطا اس عمل کو رات تک مؤخر کر لیا جائے تو اولی اور افضل ہے ۔
(3) بے ہوشی  (Anaesthisia):
کبھی کبھی انسان پر بے ہوشی کے حالات طاری ہوتے ہیں اس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں مثلا کسی حادثے میں شکار ہوکر بے ہوش ہوجائے یا علاج کی غرض سے بے ہوش کیا جائے ۔ اس سے متعلق احکام مندرجہ ذیل ہیں ۔
٭ناک میں گیس سونگھاکر یا چینی طریقے سے حساس مقام پر سوئی چبھوکر بعض حصے کو بے ہوش کرنا ناقض روزہ نہیں ہے ۔
٭ مریض کی رگ میں سریع العمل انجکشن لگاکر مخصوص مدت کے لئے عقل کو ماؤف کرنا بھی ناقض روزہ نہیں ہے ۔
٭ مریض نے بے ہوشی سے پہلے روزہ کی نیت کرلی اورپھر بے ہوش ہوا اورغروب شمس سے پہلے پہلے افاقہ ہوگیا تو اس کا روزہ صحیح ہے مگر غروب آفتاب کے بعد افاقہ ہونے پر روزہ نہیں درست ہوگا۔ اس لئے ایسے روزہ کے متعلق بہتری اسی میں ہے کہ اس کی قضا کرلی جائے ۔
٭ بے ہوشی اگر لمبی مدت مہینہ دو مہینہ والی ہو تو اسے جنون پر قیاس کیا جائے گا اور فرض روزے چھوٹ جانے پر اس کی قضا کا مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ اللہ تعالی انسان کو اس کی طاقت سے باہر کا مکلف نہیں بنایا ہے ۔
(4) پچھنا، نشتر اور نکسیر کا حکم :
پچھنا کے سلسلہ میں دوطرح کی احادیث وارد ہیں بعض روایات میں ذکر ہے کہ پچھنا لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہےجبکہ دوسری روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے بحالت روزہ پچھنا لگوایا(صحیح بخاری) اور دوسروں کے لئے سینگی لگانے کی رخصت بھی دی ۔ (طبرانی ، دارقطنی)
بعض علماء نے روزہ ٹوٹنے والی روایات کو منسوخ مانا ہے اور آپ ﷺکے عمل یا امت کو رخصت دینے والی روایات کو ناسخ مانا ہے ۔ اس لئے روزہ کی حالت میں حجامت کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ۔ البتہ اکثر وبیشتر اہل علم کی نظر میں سینگی ناقض روزہ ہے لہذا اختلاف سے بچنے کے لئے میں یہ مشورہ دونگا کہ اس عمل کو رات تک مؤخر کرلے ۔
(5) جسم کے اندرونی حصے میں آلات یا پائپ داخل کرنا:
مریض کو علاج کی غرض سے  کبھی معدے میں یا ضرورتا کبھی مقعد میں یا صنف نازک کے اگلے اور پچھلے راستے میں آلات یا پائپ وغیرہ داخل کئے جاتے ہیں تاکہ اندرونی حصے کا چیک اپ کیا جائے ۔ اس کی مختلف شکلیں اور طریقے ہیں ۔
ان حالات میں غورطلب امر یہ ہے کہ اگر اوزاریا آلات کے استعمال میں غذائی مواد ہو توروزہ فاسد شمار ہوگا، اور یونہی بغرض معائنہ یا علاج کی خاطر غیرغذائی موادکا استعمال ہوتو روزہ فاسد نہیں ہوگا ۔ دراصل یہ عمل انجکشن کے مشابہ ہے اور اسی طرح کے احکام بھی لاگو ہونگے ۔
(6) ٹیکہ لگانا (Injection) :
٭ٹیکہ چاہے جلد میں لگے ، چاہے گوشت میں لگے یا پھر نص میں لگے ۔ اگر ان ٹیکوں میں غذائی مواد نہیں تو روزہ درست ہےوگرنہ روزہ فاسد ہوگا ۔
٭شوگر کے مریض کا ٹیکہ لگانا بھی جواز کے قبیل سے ہے ۔
٭ شریان میں مستقل لگی رہنے والی سوئیوں کا بھی یہی حکم ہے ۔
(7) گردوں کی صفائی (Dialysis):
گردوں کے مریض کو ڈائیلوسس کیا جاتاہے اور اس کے مختلف طریقے ہیں مگر جتنے بھی طریقے رائج ہیں ان میں غذائی ادویہ کا استعمال ہوتا ہے اس لئے شرعی نقطۂ نظر سے ڈائیلوسس کا عمل ناقض روزہ ہے ۔ اگر بغیر غذائی ادویہ کے علاج ممکن ہو تو پھر روزہ درست ہوگا ۔
(8) خون کا عطیہ (Blood Donation) :
ضرورت پڑنے پر روزہ دار اپنا خون چیک اپ کراسکتا ہے اور کسی دوسرے مریض کو اپنا خون نکال کر عطیہ بھی کرسکتا ہے ۔ یہ عمل روزہ پر اثر انداز نہیں ہوتا ،یہی شیخ ابن باز ؒ کی بھی رائے ہے ۔ (مجموعہ فتاوی ابن بازؒ 15/274)
(9) ٹکیوں کا استعمال (Tablets) :
دل کی بعض بیماریوں کے لئے اطباء ٹکیوں کا نسخہ دیتے ہیں ، یہ ٹکیاں زبان کے نیچے رکھی جاتی ہیں اور فورا منہ میں تحلیل ہوجاتی ہیں ، ایسا کرنے سے مریض کو راحت محسوس ہوتی ہے ۔
چونکہ یہ ٹکیاں منہ ہی تک محدودرہتی ہیں ان کا اثر اندر نفوذ نہیں کرتا ، اس لئے ان ٹکیوں کا استعمال بھی بحالت روزہ جائز ہے ۔
(10) جلد  پرمادے کا استعمال :
علاج کی غرض سے ہو یا شوق کے طورپر ،،،،،، جلد پر کسی بھی قسم کا تیل ، مرہم اور کریم کا استعمال کرسکتے ہیں ۔
"جلدپرملی جانے والی کوئی بھی چیز مسام کے ذریعہ جلد کے نیچے خونی مواد میں جذب ہوجاتی ہے لیکن جذب ہونے کا یہ عمل بہت سست ہے ۔ لہذا جلد پرملی جانے والی بھی چیز ناقض روزہ نہیں " (مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ ؒ 25/ 267)
(11) دانتوں کی صفائی :
روزہ کی حالت میں دانتوں کی صفائی (Scaning) یا دانت نکلوانایا دانتوں کی اصلاح کرنا سارے امور جائز ہیں ۔ احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ اس عمل کو رات کے لئے مؤخر کردیں یا دن میں ایسا عمل انجام دینے کی صورت میں دانتوں سے بہنے والا خون حلق سے نیچے نہ اتارے ۔ دانتوں کی صفائی میں استعمال ہونے والے ٹیکے بھی روزے کے لئے نقصان دہ نہیں ۔
(12) زخموں کا علاج :
جسم کے کسی حصے میں زخم ہو، روزہ دار  ان زخموں کا علاج کراسکتا ہےکیونکہ یہ عمل نہ تو کھانے پینے پر قیاس کیا جائے گا اور نہ ہی عرف میں اسے کھاناپینا کہتے ہیں ۔
(13) اسپرے کا حکم :
دمہ کے مریضوں کے لئے اسپرے (بخاخ) کی ضرورت پڑتی ہے ، یہ ان کی سخت ترین مجبوری ہے ، اور اسلام میں قاعدہ ہے کہ آدمی جس چیز کا مضطر ہوتا ہے اس کے لئے اس چیز کا استعمال جائز ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
"وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ)    "الأنعام:119(
ترجمہ : اورجو چیزیں اس نے تمہارے لئےحرام ٹھہرا دی ہیں وہ ایک ایک کر کے بیان کر دی ہیں (بے شک ان کو نہیں کھانا چاہیے) مگر اس صورت میں کہ ان کے (کھانے کے) لیے ناچار ہو جاؤ.
لہذا دمہ کا مریض روزہ رکھتے ہوئے اسپرے کا استعمال کرے گااور اس کا روزہ درست ہوگا۔ اور اسے رکھے گئے روزہ کی قضا نہیں کرنی پڑے گی ۔
اللہ تعالی نے دین اسلام کو اپنے بندوں کی خاطر آسان بنا دیا ہے ، حسب سہولت یعنی بقدر استطاعت دین پر عمل پیرا ہونا ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔ جہاں اللہ تعالی نے مسافروں ، مریضوں اور معذوروں کو رخصت دی ہے وہاں رخصت پر عمل کرنا ہی افضل ہے اور رخصت پر عمل کرتے ہوئے دل میں ذرہ برابر بھی تنگی کا احساس نہ پیدا ہونے پائے جیسا کہ بعض مخصوص طبقوں میں یہ دیکھا جاتا ہے ۔
اللہ تعالی سے دعاہے رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے ہمارا دامن بھردے اورسابقہ تمام گناہوں سے پاک کردے اور ہرکوشش کرنے والوں کوشب قدرکی فضیلت عطا فرئے ۔ آمین


مکمل تحریر >>

Sunday, June 15, 2014

کیا سگا بھائی کا ، بھائی کی میراث میں حصہ ہے ؟

کیا سگا بھائی کا ، بھائی کی میراث میں حصہ ہے ؟


جواب : جی ہاں ، حصہ ہے مگر دو شرطوں کے ساتھ ۔
   پہلی : باپ موجود نہ ہو۔
دوسری شرط : میت کا کوئی مذکروارث نہ ہو۔
تو وہ بغیر کسی متعین حصے کے وارث ہوگا کیونہ وہ اصحاب الفروض میں سے نہیں بلکہ عصبہ میں سے ہے ۔ عصبہ کو معنی ہوتا ہے کہ اصحاب الفروض سے جو بچ جائے وہ عصبہ کا حق ہے ۔ اگر کوئی صاحب فرض نہ ہو تو پورے مال کا وارث ہوگا۔ اگر میت کو لڑکیاں اور ایک بھائی ہو تو بہنوں کو دوثلث ملے گا اور باقی ایک ثلث سگے بھائی کا ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب


مکمل تحریر >>

کافر کا ذبیحہ

کافر کا ذبیحہ
جب کوئی ایسا شخص جانور ذبح کرے جو متفقہ طورپرکافر ہے اور وہ ملت اسلام سے خارج ہے۔ لہٰذا اس کا ذبیحہ حلال نہیں کیونکہ ذبیحہ صرف مسلمان یا کتابی کا حلال ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ليَومَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبـٰتُ ۖ وَطَعامُ الَّذينَ أوتُوا الكِتـٰبَ حِلٌّ لَكُم وَطَعامُكُم حِلٌّ لَهُم...﴿٥﴾... سورة المائدة

’’آج تمہارے لیے یہ سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے‘‘۔
اہل کتاب کے کھانوں سے مراد ان کے ذبیحے ہیں‘ جیسا کہ حضرت ابن عباسؓ نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے علاوہ دیگر تمام کفار کے ذبیحے حلال نہیں ہیں۔ مسلمان اور کتابی جب کوئی جانور ذبح کرے تو وہ حلال ہے خواہ ہمیں یہ علم نہ ہو کہ اس نے اس پر اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا:
«سموا عليه أنتم وكلوه » ( صحيح بخاري)
’’تم خود اللہ کا نام لے لو اور اس کو کھا لو‘‘۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ (یہ سوال ان لوگوں کے بارے میں تھا) جو کفر کو نئے نئے چھوڑ کر آتے تھے۔ ان لوگوں کے ذبیحہ کو جن کے بارے میں ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں‘ نبی اکرمﷺ نے حلال قرار دیا ہے کیونکہ فعل جب اپنے اہل سے صادر ہو تو اس فعل کی کیفیت‘ شروط اور موانع کے بارے میں نہیں پوچھا جائیگا کیونکہ اس میں اصل صحت ہے‘ مسلمان یہودی اور نصرانی کے ذبیحہ کے بارے میں سوال نہیں ہوگا کہ اس نے کس طرح ذبح کیا ہے؟ اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟ کیونکہ نبی اکرمﷺ نے یہودیوں کے ذبیحوں کو کھایا اور ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ انہوں نے کس طرح ذبح کیا تھا۔ جس قاعدہ کی طرف ہم نے اشارہ کیا یہ بہت مفید ہے یعنی جو شخص کسی فعل کا اہل ہو تو اس کا فعل صحیح ہے الایہ کہ اس کے فاسد ہونے کی دلیل موجود ہو۔ اگر ہم مسلمانوں کے لئے یہ لازم قرار دے دیں کہ وہ فاعل کے فعل کے بارے میں سوال کریں کہ کیا تمام شروط پوری تھیں‘ موانع ختم تھے تو ہم نبی اکرمﷺ اور حضرات صحابہ کرامؓ کی سنت کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کو ایک بہت بڑی مشقت میں مبتلا کر دیں گے۔



مکمل تحریر >>

کیاشادی میں والدین کی رضامندی ضروری ہے اگر ضروری ہے تو لڑکا کے لئے یا لڑکی کے لئے ؟

کیاشادی میں والدین کی موافقت اور رضامندی ضروری ہے اگر ضروری ہے تو لڑکا کے لئے یا لڑکی کے لئے ؟

جواب :
اس کے بارہ میں گزارش ہے کہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ شریعت اسلامیہ نے عقد نکاح صحیح ہونے کے لیے صرف عورت کےلئے ولی کی شرط لگائی ہے جس کے بہت سے دلائل قرآن وسنت میں ملتے ہیں جن میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فرامين یہ ہیں۔
( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1101 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1881 ) یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 6 / 235 ) میں صحیح کہا ہے ۔
عربی نص :
(لا نكاح إلا بولي " . رواه الترمذي ( 1101) وأبو داود ( 2085 ) وابن ماجه ( 1881 ) وهو صحيح كما في " إرواء الغليل " للألباني رحمه الله ( 6 / 235)
عقدنکاح میں اللہ تعالی نے جو شرط لگائي اورمشروع کی ہے اس میں بہت ہی بڑی حکمت ہے ، جس میں یہ ہے کہ مردوں میں اصل چيز یہ ہے کہ وہ عقل کے اعتبار سے کامل ہیں اورمصلحتوں کوزيادہ جاننے والے ہيں ، اورمردوں کے حالات کا بھی انہیں زيادہ علم ہے کہ عورت کو کونسا مرد مناسب رہے گا ، اورانہیں یہ فیصلہ کرنے میں زيادہ قدرت ہے ۔
اورخاص کر جب عورت اپنے جذبات کے قابو میں آجاتی ہے ، ، اورفرض کریں کہ اگر ولی میں عیب ہو جس کی بنا پر وہ ولی نہ بن سکتا ہو اوراپنی ولایت میں بسنے والی عورت کے معاملات نہ چلا سکتا ہو یا پھر وہ بغیر کسی شرعی عذر کے کسی مناسب رشتہ سے عورت کا نکاح نہ کرنے دیتا ہو تو اس حالت میں ولایت اس کے بعد والے شخص میں متقل ہوجائے گی مثلا والد سے دادا میں منتقل ہوجائے گی ۔
اوررہا مسئلہ لڑکےکے گھروالوں کی رضامندی وموافقت کا تو اس کے بارہ میں گزارش ہے کہ شادی کے صحیح ہونے میں ان کی رضامندی شرط نہیں کیونکہ مرد خود ہی اپنے آپ کا ولی ہے تواس کے لیے اپنی شادی کرنے میں کسی کی موافقت کی کوئي ضرورت نہیں ، اورنہ ہی مرد کے گھر والوں کویہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بغیر کسی شرعی سبب سے اسے شادی سے روکیں ۔
لیکن لڑکے کو والدین کی رضامندی کا خیال کرنا چاہیے کیونکہ یہ ان سے حسن سلوک ہے اورایسا کرنا بہتر اور اچھا ایک مستحسن امر ہے ، اوراس رضامندی کے حصول کے لیے اس کےساتھ حسن سلوک اوران کےسامنے مافی الضمیر کا اظہار کرکے پہنچا جاسکتا ہے جس سے وہ راضي ہوجائيں اوراس کی اختیار کردہ لڑکی سے شادی پر رضامندی کا اظہار کردیں ۔
اوراس میں اللہ تعالی سے دعا اوروالدین کے ساتھ احسن انداز میں بات چیت اورمطمئن کرنے کے لیے کسی اچھے اسلوب اورطریقے کو استعمال کرنا چاہیے اورمدد لینی چاہیے ، اور اس میں نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔

ھذا عندی واللہ اعلم بالصواب





مکمل تحریر >>

نحوست : مشرکانہ تصور


نحوست : مشرکانہ تصور

آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بعض مسلمان مخصوص ایام اورمہینوں کو منحوس سمجھتے ہوئے شادی بیاہ نہیں کرتے ۔لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے ۔سفر کرنا نامبارک سمجھا جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اس من گھڑت نحوست کو دور کرنے کے لیے چنوں کو ابال کر گھنگیاں تقسیم کرت اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس سے نحوست اور بے برکتی دور ہو جاتی ہے ۔ یہ سب باتیں خوس ساختہ توہمات کا نتیجہ ہیں ۔جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم كا فرمان ہے ۔
وقال عفَّان: حدثنا سليم بن حيَّان: حدثنا سعيد بن ميناء قال: سمعت أبا هريرة يقول:قال رسول الله صلى الله عليه وسلملا عدوى ولا طيَرة، ولا هامة ولا صفر،
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرض کا متعدی ہونا نہیں (یعنی اللہ کے حکم کے بغیرکوئی مرض کسی دوسرے کو نہیں لگتا )اور نہ بدفالی ہے نہ ہامہ ہے اور نہ صفر "صحیح بخاری ، کتاب طب باب:415

حدیث کی تشریح

ولا طیرہ کا مطلب یہ ہے کہ بدشگونی لینا جایز نہیں۔ عرب کے لوگوں کو یہ عادت تھی کہ یہ کسی کام کو نکلتے یا کسی جانے کا ارادہ کرتے تو پرندہ یا ہرن کو چھچھکارتے اگر وہ دائیں جانب بھاگتا تو مبارک سمجھتے لیکن اگر بائیں جانب جاتا تو اس کام کو اپنے لیے نفع بخش نہ سمجھتے اور اس کے کرنے سے رک جاتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس توہم پرستی سے روک دیا۔
ولا ھامہ کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر کسی شخص کو قتل کر دیا جائے تو اس کی کھوپڑی سے ایک جانور نکلتا ہے جس کا نام ھامہ ہے ۔ وہ ہمیشہ ان الفاظ میں فریاد کرتا رہتا ہے ۔ “مجھے پانی دو“جب تک قاتل کو قتل نہ کر دیا جائے فریاد کرتا رہتا ہے ۔بعض کہتے ہیں کہ ہامہ سے مراد الو ہے ۔ عرب والے سمجھتے تھے کہ جس گھر پر الو آکر بیٹھ جائے اور بولے تو وہ گھر ویران ہوجاتا ہے یا اس کا گھر سے کوئی مر جاتا ہے ۔ یہ اعتقاد ہمارے زمانے میں بھی پایا جاتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل قرار دیا ہے ۔
ولا صفر کے متعق مختلف اقوال ہیں جن میں یہ بھی ہےکہ اس سے مراد صفر کا مہینہ ہے جو محرم کے بعد آتا ہے۔عوام اس کو منحوس سمجھتے اور آفات کوموجب سمجھتے تھے اس لیے یہ اعتقاد بھی نبی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل قرار دیا ہے کہ “صفر میں کو نحوست نہیں ۔
خلاصہ کلام : کسی تاریخ ،یاکسی دن ،یاکسی جگہ ،یا کسی چیز کو منحوس سمجھنا سرار غیر شرعی ہے ۔ ۳، ۱۳،۲۳… یا ۸،۱۸،۲۸ کو منحوس سمجھنے اور پھر ان تاریخوں میں کسی کام مثلاً نکاح ، رخصتی یا آپریشن یا کسی خریداری سے اجتناب کرنا یہ سراسر مشرکانہ تصور ہے ۔ لہذا ہمیں اس باطل تصور کا سدباب کرنا ہے ۔

مکمل تحریر >>

نصف شعبان کو قبرستان جانے کی حقیقت

نصف شعبان کو قبرستان جانے کی حقیقت

1—حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ بقیع [ قبرستان] سے تشریف لا رہے  تھے ، واپس آئے تو آپ نے فرمایا: أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله ؟ قلت يا رسول الله إني ظننت أنك أتيت بعض نساءك فقال إن الله عز و جل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا فيفغر لأكثر من عدد شعر غنم كلب.سنن الترمذي: 739 الصوم، سنن ابن ماجة: 1389 الصلاة، مسند احمد6/238.
 ترجمہ : اے عائشہ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول تمہارے ساتھ نا انصافی سے کام لیں گے [ کہ میں تمھاری باری میں کسی اوربیوی کے یہاں شب باشی کے لئے چلا جاوں گا،] میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  میں یہ سمجھی کہ آپ اپنی کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : نہیں ایسی بات نہیں ہے ،[بلکہ حقیقت یہ ہےکہ] اللہ تبارک وتعالی نصف شعبان کی شب کو سمائے دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادکے برابر لوگوں کو بخش دیتا ہے۔     

2—حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ( إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلهاوصوموا نهارها).سنن ابن ماجة: 1388 الصلاة.
   ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں  شب ہو تو اس رات  کا قیام کرو اور اس دن کا روزہ رکھو۔

 حدیث کا حال
۔۔۔۔۔۔۔۔ 
پہلی حدیث کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ۰۰۰اور میں نے  محمد [ امام بخاری] سے سنا  وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس حدیث کو عروۃ سے [ روایت کرنے والے راوی ] یحیی ابن ابی کثیر نے نہیں سنا ہے، اور نہ ہی یحیی بن ابی کثیرسے [  روایت کرنے والےراوی ] حجاج بن ارطاۃ نے  ان سے سنا ہے۔ سنن الترمذی3/117۔
دوسری حدیث باتفاق علما سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی اسحاق بن ابوسبرہ ہے جو حدیثیں گھڑ کر بیان کرتا تھا۔ دیکھئے مصباح الزجاجہ للبوصیری 1/247خ الضعیفہ للالبانی رقم:2132َ۔


 اس رات میں قبرستان جانے کا اہتمام کرنا ،حالانکہ اسلامی شریعت میں کسی بھی دن ،کسی بھی مہینہ اور کسی بھی وقت قبرستان جانا اور اہل قبور کے لئے دعاء مغفرت کرنا جائز ودرست ہے ۔لیکن کسی دن،رات ،کسی مہینہ اور کسی وقت کو مخصوص کر لینا غیر شرعی فعل ہے ۔پندرھویںشعبان میں قبرستان جانے کا اہتمام کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا ۔اورپھر اس ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ افراد امت جو ق در جوق قبرستان جاکر چراغاں کریں ۔نبی کریم بھی اتنی خفیہ انداز میں گئے کہ گھر میں سوئے ہوئے لوگوں کو اس کا علم بھی نہ ہو سکا ۔مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے کہ اس رات قبرستان جانا کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ۔صحابہ میں تو آرام کریں اور آپ لوگ قبرستان کے چکر لگائیں ۔تو کیا ہم نیکی حاصل کرنے میں صحابہ سے بھی آگے ہیں ۔
مکمل تحریر >>

Tuesday, June 10, 2014

بیوی مسلمان اور شوہر کافر

بیوی مسلمان اور شوہر کافر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 - مسلمان عورت کا غیرمسلم کے نکاح کے متعلق جوکچھ سوال میں کہا گیا ہے اس پرکوئ غبار نہیں اوروہ صحیح ہے ۔
ا - اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اورشرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتیں نہ دو حتی کہ وہ ایمان لے آئيں توپھر نکاح کردو } البقرۃ ( 221 ) ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیر میں کہتے ہیں :
قولہ تعالی { اورنکاح میں نہ دو } یعنی مسلمان عورت کا مشرک کے ساتھ نکاح نہ کرو ، اورامت کا بھی اس پراجماع ہے کہ مشرک شخص کبھی بھی مومن عورت کا خاوند نہیں بن سکتا اس لیے کہ اس میں اسلام پرعیب اورنقص ہے ۔ تفسیر القرطبی ( 3 / 72 ) ۔
ب – اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یہ عورتیں ان کے لیے اورنہ ہی وہ مرد ان عورتوں کے لیے حلال ہیں } الممتحنۃ ( 10 )
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہيں :
مشرکہ یا عیسائ عورت جب مسلمان ہواوروہ ذمی یا حربی کافر کی بیوی ہونے کے متعلق بیان کا باب ہے ۔
عبدالوارث خالد سے اوروہ عکرمۃ سے اوروہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے فرمایا :
اگرعیسائ عورت اپنے خاوند کےاسلام قبول کرنے سے کچھ دیرقبل اسلام قبول کرلے تو وہ اس پرحرام ہوگئ ۔۔۔۔
اورامام مجاھد رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ :
اگرخاوند بیوی کی عدت کے اندراندر مسلمان ہوجاۓ تو وہ اس سے شادی کرسکتا ہے
اوراللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ نہ وہ ( مسلمان عورتیں ) ان ( کافروں ) کے لیے حلال ہیں اورنہ ہی وہ کافر مرد ان عورتوں کے لیے حلال ہیں }
اورحسن بھی رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
حسن اورقتادہ رحمہما اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : مجوسی میاں بیوی دونوں مسلمان جوجائيں تووہ اپنے نکاح پرہی رہیں گے اوراگران میں سے ایک بھی پہلے مسلمان ہواوردوسرا انکار کردے تو ان کی آپس میں جدائ ہوگي اوروہ اپنی بیوی کے ساتھ نہیں رہ سکتا ۔
صحیح بخاری ، دیکھیں فتح الباری ( 9 / 421 ) ۔
2 - ذیل میں چندایک مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
1 - دورجاھلیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب رضی اللہ تعالی عنہا کی شادی ابوالعاص بن ربیع کے ساتھ ہوئ توجب زينب رضی اللہ تعالی عنہا نے اسلام قبول کیا تونکاح فسخ ہونے کی بنا پر اپنے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئيں اورجب ابوالعاص رضي اللہ تعالی عنہ نے بھی اسلام قبول کرلیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ تعالی عنہا کوابوعاص رضي اللہ تعالی عنہ کی طرف واپس کردیا ۔
دیکھیں سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1143 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2240 ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 2009 ) ۔
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے مسند احمد ( 1879 ) اسے صحیح قراردیا اوراماترمذی رحمہ اللہ تعالی نے کہا ہے کہ اس کی سندی کوئ حرج نہیں ۔
اس میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ایسی صورت میں خاوند کوتجدید نکاح کی ضرورت نہیں ۔
اوراگروہ اس کے نکاح میں ہی ہو توپھرخاوند اس کا زيادہ حق دار ہے لیکن اگر عدت گزر جاۓ تو بیوی آزاد ہے کہ وہ خاوند کے مسلمان ہونے کے بعد اس کے پاس جاۓ یا کسی اورسے نکاح کرلے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کا بیان ہے :
اہل علم کے ہاں اس حدیث پرعمل یہ ہے کہ جب بیوی خاوند کے قبل اسلام قبول کرلے اورخاوند بعد میں اس کی عدت کے اندر اندر مسلمان ہوجاۓ تواس کا خاوند زيادہ حق دار ہے ۔
امام مالک بن انس ، امام اوزاعی ، امام شافعی ، امام احمد اوراسحاق رحمہم اللہ تعالی کاقول بھی یہی ہے ۔ دیکھیں سنن ترمذي حدیث نمبر( 1142 )
ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
اگر کافرہ عورت مسلمان ہوجاۓ اوراس کی عدت کے اندراندر خاوند مسلمان نہ ہوتوعلماء اس پرمتفق ہیں کہ اس کے خاوند کا اپنی بیوی پرکوئ حق نہيں ۔ دیکھیں : التمھید ( 12 / 23 ) ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
لیکن جس پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم دلالت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس حالت میں نکاح موقوف ہوگا ، اگرتو عدت ختم ہونے سے قبل خاوند بھی مسلمان ہوجاۓ تووہ اس کی بیوی ہے
لیکن اگر عورت کی عدت ختم ہوجاۓ ( اورخاوند مسلمان نہ ہو) توبیوی کوحق حاصل ہے کہ وہ جس سے چاہے نکاح کرلے ، اوراگرچاہے تووہ اس کے اسلام قبول کرنے کا انتظار کرے اورقبول اسلام کے بعد اس سے تجدید نکاح کے بغیراس کی بیوی ہوگی ۔ زاد المعاد ( 5 / 137 - 138 ) ۔
2 - اورطلحہ بن عبیداللہ کی بیوی اروی بنت ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب اسلام قبول کرنے کی وجہ سے خاوند سے علحیدہ ہوگئ پھرانہوں نے مسلمان ہونے کے بعد خالدبن سعید بن عاص رضي اللہ تعالی عنہ سے شادی کرلی اوروہ بھی کافر سے مسلمان ہوچکے تھے اوراپنی کافرہ بیوی کوچھوڑا تھا ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شادی خالد رضي اللہ تعالی عنہ سے کردی ۔ تفسیر قرطبی ( 18 / 65 – 66 ) ۔
3 - انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے ام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی توان کا مہر ہی اسلام تھا ۔
ام سلیم رضی اللہ تعالی عنہا ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ سے قبل مسلمان ہوئ تھی توابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ نے انہیں شادی کا پیغام بھیجا توام سلیم رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگیں :
اگراسلام قبول کرلو تومیں تیرے ساتھ نکاح کرلیتی ہوں لھذا ابوطلحہ رضي اللہ تعالی عنہ بھی مسلمان ہوگے توان کے درمیان یہی مہر تھا ۔ سنن نسائ حدیث نمبر ( 3340 ) ۔
4 - اوراسی طرح ولید بن مغیرہ کی بیٹی اورجوکہ صفوان بن امیہ کی بیوی تھی خاوند سے پہلے مسلمان ہوگئ اورصفوان بن امیہ بعد میں مسلمان ہوۓ توان کی بیوی واپس آ گئ ۔ موطا امام مالک حدیث نمبر ( 1132 ) ۔
ابن عبدالبر رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
اس حدیث کا مجھے توعلم نہيں کہ کسی صحیح طریق سے یہ متصل ہو اوریہ حدیث اہل سیرت کے ہاں معررف ومشہور ہے ، اورابن شہاب اہل سیرت کے امام اورعالم ہیں اور اسی طرح امام شعبی رحمہ اللہ تعالی عنہ بھی ۔
ان شاء اللہ اس حدیث کی شہرت سند سے زيادہ قوی ہے ۔ التمھید ( 12 / 19 ) ۔
5 - اورام حکیم بنت حارث بن ھشام جوعکرمہ بن ابو جھل کی بیوی تھی مسلمان ہوگئ توان کا نکاح فسخ ہو گیا ، پھرعدت کے اندر ہی عکرمہ رضي اللہ تعالی عنہ کی بھی مسلمان ہوگۓ تووہ اپنے خاوند کے پاس آ گئيں ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ( 4 / 107 ) ۔
واللہ اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد


مکمل تحریر >>