Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(54)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(54)


جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب

سوال: کیا تراویح کی نماز یا کوئی نماز جو امام کے ساتھ پڑھی جائے اس میں مقتدی سجدہ تھوڑا لمبا کرسکتا ہے؟

جواب:مقتدی کو امام کی متابعت کرنے کا حکم ہوا ہے یعنی امام جیسا کرے ویسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے امام کے پیچھے مقتدی امام کی متابعت میں نماز ادا کرے گا اور اپنی مرضی سے نہ قیام لمبا کرے گا، نہ رکوع لمبا کرے گا اور نہ سجدہ لمبا کرے گا۔ جیسے امام نماز پڑھا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کے مطابق مقتدی نماز ادا کرے گا۔ جب اکیلے انفرادی طور پر نماز پڑھنی ہو اس وقت مختصر یا لمبی نماز پڑھنے میں حرج نہیں ہے۔
سوال:ایک بچے کے پاس کچھ پیسے جمع تھے اس نے گاڑی خرید لی۔ وہ خود کسی دوسرے ملک میں رہتا ہے اور جب گھر آتا ہے تو اسے استعمال کرتا ہے یا کسی بھائی کو ضرورت ہو تو وہ بھی استعمال کرتا ہے۔ باقی سب کے پاس بھی اپنی اپنی گاڑی ہے، گاڑی زیادہ عرصہ کھڑی رہتی ہے۔ کیا ایسی گاڑی پر زکوۃ ہوگی؟
جواب:ضرورت اور استعمال کی گاڑی پر زکوۃ نہیں ہے یعنی آدمی اپنے استعمال کے لیے گھر میں جو بائیک اور گاڑی وغیرہ رکھتا ہے اس پر زکوۃ نہیں ہے خواہ وہ گاڑی کو کبھی کبھی چلائے یا ہمیشہ چلائے۔ یہ معاملہ اسی طرح ہے جیسے استعمال کا گھر یا استعمال کی زمین ہو۔ ان چیزوں پر ہم زکوۃ نہیں ادا کرتے ہیں۔ سامانوں میں زکوۃ محض تجارتی اشیاء پر دینی ہوتی ہے۔
سوال: مکہ ومدینہ میں جو آخری دس دن میں تراویح کے بعد نماز پڑھائی جاتی ہے، کیا یہ نماز پڑھانا سنت ہے؟
جواب:رمضان، مبارک مہینہ ہے، اس کی راتوں میں جو جتنی عبادت کرنا چاہے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اور رمضان کا آخری عشرہ پہلے دو عشروں کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوتا ہے اس وجہ سے اس آخری عشرے میں عبادت پر مزید محنت کرنا افضل و بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں عبادت کے لئے کمر کس لیتے تھے لہذا کوئی آخری عشرہ میں محض گیارہ رکعت ادا کرے یا کوئی اس سے زیادہ ادا کرے اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ بہتر ہی ہے۔ آخری عشرہ کی  فضیلت کی وجہ سے مکہ و مدینہ میں دوبارہ قیام کیا جاتا ہے ۔
سوال:والد صاحب نے دوست کو ایک کروڑ رقم کاروبار کے لئے دی تھی، منافع نہ ملنے کی وجہ سے والد صاحب نے دوست سے رقم واپس دینے کو کہا۔ دوست نے بیس لاکھ واپس کئے اور اَسّی لاکھ ان کے پاس ہے اور اب یہ رقم ادھار کے طور پر ان کے پاس ہے۔ دو ماہ پہلے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، کیا اس رقم پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟
جواب:آدمی کی وفات کے بعد اس کی ساری جائیداد ترکہ کہلاتی ہے لہذا جو پیسہ میت کے دوست کے پاس  بچاہواہے اس سے کہہ کر فوری طور پر واپس لیا جائے اور پیسہ واپس لے کر بلا تاخیر اسے وارثوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
اگر پیسہ ملنے میں تاخیر ہوتی ہے یہاں تک کہ سال لگ جائے تو اس پر زکوۃ دینی ہوگی اور اگر اس پیسہ کے ملنے کی امید کم ہے تو اس پر بروقت زکوۃ نہیں ہے لیکن جب مل جائے اس وقت ایک سال کی زکوۃ دینی ہوگی تاہم کوشش یہی کی جائے کہ فوری طور پر مکمل پیسہ واپس لیا جائے اور وارثوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
سوال: آدمی کی روح قبض ہونے کے بعد وہ مردہ ہوجاتا ہے پھر وہ ہمیں کیسے سنتا ہے، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ مرنے والے سے معافی مانگی جاتی ہے؟
جواب:آدمی کے مرنے کے بعد اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے جیساکہ صحیح مسلم میں حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب آدمی کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے اور وہ تین کام، صدقہ جاریہ، نفع بخش علم اور نیک لڑکے کی دعا ہے۔(مسلم:1631)، اس وجہ سے مرنے کے بعد مرے ہوئے آدمی سے معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر کوئی ایسا کرتا بھی ہے تو نہ میت اس کی بات سن سکتا ہے، نہ اس کا جواب دے سکتا ہے بلکہ یہ جہالت  ہے کہ کوئی میت سے معافی مانگے، میت تو خود محتاج ہوتا ہے زندوں کی دعا کا۔
سوال: کیا دادی ساس جو ضرورتمند ہوں، ان کو نواسے کی بیوی زکوة کی رقم دے سکتی ہے؟
جواب:سرالی رشتے میں کسی بھی ضرورت مند کو زکوۃ دی جا سکتی ہے خواہ اپنی ساس ہو یا دادی ساس ہو یا کوئی بھی ہو۔ زکوۃ کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ جس کا نفقہ آپ کے ذمہ واجب نہیں ہے ایسے محتاج و ضرورت مند کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
سوال:میری تین بیٹیاں ہیں، ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی۔ میں نے ان کے لئے سات سات تولہ سونا رکھا ہوا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس پر مجھے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور کیا میں اس زیور کو کبھی کبھار استعمال کرسکتی ہوں اور جیسے جیسے میں بچیوں کو ان کا گفٹ دے دوں اور وہ بھی استعمال نہ کریں تو تب زکوٰۃ ادا کرنے کا کیا حکم ہے اور ابھی بچیاں اپنی چھوٹی چھوٹی گولڈ کی چیزیں استعمال کرتی ہیں، کیا اس پر مجھے زکوٰۃ ادا کرنی ہو گی؟
جواب:عام طور سے گھروں میں استعمال کے جو زیورات پائے جاتے ہیں وہ خالص اصلی سونا کے بنے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ اس میں کچھ ملاوٹ ہوتی ہے یعنی چوبیس قیراط سے کم کا سونا ہوتا ہے، اس بات کو ذہن میں رکھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن جن بیٹیوں کو آپ نے سونا دیا ہے ان سب کا حساب الگ الگ ہوگا ایک ساتھ ملا کر نہیں ہوگا۔تیسری بات یہ ہے کہ زیورات رکھے ہوئے ہوں یا آپ انہیں استعمال کرتے ہوں ان دونوں صورتوں میں زیورات کی زکوۃ دینی ہوتی ہے بشرطیکہ وہ نصاب تک پہنچے اور اس پر ایک سال گزر جائے۔
بچیوں کے زیورات پہننے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، بچے آپ کے ہیں تو وہ زیورات بھی دراصل آپ ہی کے ہوئے اور اس کی زکوۃ بھی آپ ہی ادا کریں گے کیونکہ اس وقت وہ کما نہیں رہے ہوں گے مگر جیسے آپ سات سات تولہ بتا رہے ہیں تو یہ نصاب تک نہیں پہنچ رہا ہوگا۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ سونے کا نصاب پچاسی گرام ہےلہذا  آپ خالص سونے کا اندازہ کریں کہ ہر ایک بیٹی کے پاس پچاسی  گرام یااس سے زیادہ سونا ہوتا ہے کہ نہیں۔ جس کا زیور نصاب تک پہنچے اور اس پرسال لگ جائے تو اس میں زکوۃ ہے اور نصاب تک نہ پہنچے تو اس میں زکوہ نہیں ہے۔
سوال:عشاء کی نماز میں ہم عورتیں تیسری رکعت کے بعد چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہوگئے، ہم نے سورہ فاتحہ پڑھی اور رکوع میں جانے کے لئے امام صاحب کی تکبیر کا انتظار کرنے لگے، کچھ دیر بعد تکبیر کے بجائے امام صاحب کے سلام پھیرنے کی آواز آئی۔ ہم تمام خواتین نے اپنی رکعت مکمل کرکے سجدہ سہو کیا، اتنی دیر میں مردوں کی طرف سے کچھ شور سنائی دیا اور پھر امام صاحب کی تکبیر کی آواز سنائی دی۔ مجھے لگا وہ اپنی تیسری رکعت پڑھائیں گے پھر سجدہ سہو کروائیں گے مگر انہوں نے پوری چار رکعات دوبارہ پڑھائی۔ پھر تراویح کے بعد جب ہم گھر جانے کے لئے گاڑی میں بیٹھے تو بیٹے اور شوہر نے بتایا کہ امام صاحب ایک رکعت بھول گئے تھے اور تین کے بعد سلام پھیر دیا تھا اس لئے دوبارہ چار رکعت پڑھائے، اس صورت میں کیا انہیں ایک پڑھاکر سجدہ سہو کروانا چاہئے تھا یا ان کا عمل درست تھا؟
جواب:چار رکعت والی نماز میں اگر امام تین رکعت پر سلام پھیر دے اور جب معلوم ہو کہ ایک رکعت باقی رہ گئی ہے تو ایسی صورت میں امام کو صرف ایک رکعت پڑھا کر سجدہ سہو کرنا چاہیے اور سجدے سہو سلام کے بعد ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک مرتبہ چار رکعت والی نماز میں دو رکعت پر ہی سلام پھیر دئے تھے پھر آپ نے کھڑے ہوکر مزید دو رکعت ادا کی اور سلام کے بعد سجدہ سہو کیا۔امام صاحب نے جس طرح پھر سے مکمل نماز پڑھائی ان کا یہ عمل خلاف سنت تھا۔

سوال: نماز پڑھتے وقت قرات میں سجدہ آتا ہے، وہ کیسے کریں گے یعنی نماز کے درمیان اور اگر سورت کے آخر میں آئے تو کیسے سجدہ کریں نیز سورت کے درمیان آئے تو کیسے کریں؟
جواب:جیسے سجدہ کیا جاتا ہے ویسے ہی نماز میں سجدہ تلاوت کریں گے، اس کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔ نماز میں قرات کرتے ہوئے آیت سجدہ آئے تو تکبیر کہہ کرکے سجدہ میں جانا ہے اور سجدے میں سجدہ تلاوت کی  دعا پڑھ کر پھر تکبیر کہتے ہوئے کھڑے ہو جانا ہے بس اتنی سی بات ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہے۔سورت کے درمیان آیت سجدہ آئے یا سورت کے آخر میں آیت سجدہ ہے، ان دونوں سورتوں میں نمازی کے لیے اختیار ہے کہ مزید قرات کرکے رکوع کرے یا بغیر قرات کئے تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے دونوں صورتیں جائز ہیں۔
سوال:شیخ محترم آپ نے فرمایا کہ روزے کا فدیہ اناج کی صورت میں دینا ہے، اگر کسی مسکین کے پاس اناج تو ہے لیکن باقی ضروریات زندگی کی چیزیں نہیں ہیں تو اس صورت میں روزے کا فدیہ پیسوں کی صورت میں دیا جاسکتا ہے؟
جواب:شریعت نے جہاں جو چیز متعین کی ہے اس میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہے اس وجہ سے ہمیں شریعت کی مصلحت کے مطابق عمل کرناچاہیے۔ الحمدللہ شریعت نے معاشرے کی ہر طرح کی ضرورتوں کو سامنے رکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کہیں پر اللہ نے جانور ذبح کرنے کا حکم دیا ہے، یہاں پر پیسے دینا صحیح نہیں ہے۔ کہیں پر اللہ نے مالی زکوۃ میں مال دینے کو کہا ہے، یہاں پر راشن دینا صحیح نہیں ہے اور کہیں پر اللہ تعالی فطرانہ میں اناج دینے کے لیے کہا ہے اس جگہ مال دینا درست نہیں ہے۔
جیساکہ آپ نے سوال کیا کہ جس کے پاس اناج موجود ہو لیکن باقی ضرورتوں کے لئے پیسہ نہ ہو تو روزے کا فدیہ پیسوں کی صورت میں دیا جاسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس کے پاس اناج موجود ہے اور اناج ہی اصل ہے زندگی گزارنے کے لیے پھر آپ ایسے لوگوں کو تلاش کریں جن کو اناج کی ضرورت ہے، انہیں اناج کی صورت میں فدیہ دیں اور ایسے بے شمار لوگ سماج میں آپ کو مل جائیں گے۔
اللہ نے آپ کو مال سے بھی نوازا ہے تو آپ ضرورت مندوں کو مال سے بھی مدد کریں لیکن فدیہ کی جو صورت ہے اسی صورت میں ادا کریں۔جس مسکین کے پاس پہلے سے اناج سے وہ مزید اناج لے سکتا ہے اور اپنی ضرورت کے حساب سے زائد اناج بیچ سکتا ہے  کیونکہ اناج ملنے کے بعد وہ اس کا مالک ہے اور مالک اپنے مال میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے۔
سوال:قرآن مکمل ہونے بعد سورہ فاتحہ سے اختتام کرنا درست ہے۔ تراویح میں اس کو کیسے پڑھیں گے جبکہ سورہ فاتحہ ہر رکعت کے شروع میں پڑھی جاتی ہے؟
جواب:اپنے معاشرہ میں تراویح میں ختم قرآن کے وقت سوہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے پھر سورہ بقرہ کی چند آیات بلکہ پانچ آیات تلاوت کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک روایت  بیان کی جاتی ہے ، ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب قل اعوذبرب الناس کی تلاوت کرتے تو الحمدللہ پڑھتے پھر سورہ بقرہ کی آیت "واولئک ھم المفلحون " تک تلاوت کرتے ۔ اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔(السلسلة الضعيفة:6134) اسی طرح ترمذی میں ایک روایت ہے جو حدیث الحال المرتحل سے مشہور ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) عمل۔ اس نے کہا: «الحال» اور «المرتحل» (اترنے اور کوچ کرنے والا) سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:جو قرآن شروع سے لے کر آخر تک پڑھتا ہے، جب بھی وہ اترتا ہے کوچ کر دیتا ہے۔ اسے بھی شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (ضعیف الترمذی للالبانی:2948)

مختصر یہ ہے کہ قرآن مکمل ہونے کے بعد پھر سے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی چند آیات پڑھنے کی  صحیح دلیل نہیں ملتی ہے اس لئے تراویح میں قرآن  پڑھتے ہوئے قیام کی حالت میں  امام سورہ ناس کی تلاوت کرلے تو اس کے بعد رکوع کرے۔ الحمدللہ قرآن مکمل ہوگیا ، یہی کافی ہے اور تراویح میں اصل قرآن مکمل کرنا مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ طول قیام والی نماز ہے اسے جس قدر ٹھہرٹھہر کر پڑھی جائے بہتر ہے۔
سوال: تراویح پڑھنے کا مکمل طریقہ کیا ہے، پوری آٹھ رکعت میں دو دو رکعت کی نیت کرنا ہے یا شروع میں آٹھ رکعت کی نیت کرنا ہے اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرنے سے پہلے درود اور اس کے بعد کی دعا پڑھنا ہے یا صرف آخری رکعت میں پڑھیں گے؟
جواب:نیت، دل کے ارادے کو کہتے ہیں اور شروع میں تراویح پڑھنے کی نیت آپ نے کر لی یہی کافی ہے، ہر دو رکعت پہ زبان سے کچھ نہیں بولنا ہے۔ اور ہر دو رکعت مستقل طور پہ ادا کریں گے، اس دو رکعت میں جس طرح نماز ادا کی جاتی ہے تمام چیزیں اسی طرح سے پڑھنا ہے یعنی ثنا پڑھنے سے لے کر سلام پھیرنے تک جتنے اذکار ہیں سارے اذکار نماز میں ہر دو رکعت میں پڑھنے ہیں۔
سوال: والد و والدہ کی فوتگی ہوئے دو سے تین سال ہو گئے ہیں، والد کی جائداد اور اسکے علاوہ پیسہ وغیرہ اور والدہ کے سونے کے زیورات سب ویسے ہی موجود ہیں، ابھی کچھ تقسیم نہیں ہوا۔ جب تک شرعی تقسیم نہیں ہوتی ان سب چیزوں پر زکاۃ کا کیا معاملہ ہوگا؟
جواب:شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب آدمی  کی وفات ہو جائے تو بغیر تاخیر کے اس کی جائیداد وارثوں میں تقسیم کر دی جائے لہذا جو صورتحال آپ نے ذکر کی ہے، یہ درست نہیں ہے اور جن کی وجہ سے جائیداد تقسیم نہیں ہو رہی ہے یا جو جائیداد تقسیم نہیں کرنا چاہتے ان کو گناہ ملے گا لہذا وارثوں کو چاہیے کہ جتنی جلدی ہو والدہ کی میراث اور والد کی میراث کو ان کے وارثوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
اور زکوۃ والی جو چیزیں ہیں زکوۃ کے نصاب کو پہنچ رہی ہوں اور اس پر سال لگ گیا ہو تو بہر کیف اس کی زکوۃ بھی سالانہ طور پر ادا کرنی ہوگی۔
سوال: اگر والدین نے بچوں کی شادی کے لئے سونا جمع کر کے رکھا ہوا تقریبا نو تولے اور وہ شادی سے پہلے اپنی بیٹی یا بیٹے کے حوالے کر دیتے ہیں کیونکہ وہ بالغ ہیں مگر ابھی کماتے نہیں ہیں تو کیا ان کی اس اولاد کو اب زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟
جواب:نو تولے سونے پر زکوۃ ہے کیونکہ یہ نصاب سے زیادہ ہے اگر اس پر سال لگ جائے تو اس کی زکوۃ ادا کرنی پڑے گی اور جس کے پاس سونا ہے مگر اس کی زکوۃ دینے کے لیے پیسہ نہیں ہے تو اس کے والد یا والدہ یا اس کا کوئی بھی رشتہ دار زکوۃ دے سکتے ہیں یا نہیں تو اسی سونے میں سے زکوۃ کا جو حصہ بنتا ہے اتنا حصہ صدقہ کر دیں یا بیچ کر اس کی قیمت سے صدقہ ادا کردیں۔
سوال: ہمارے گھر کے پاس اہل حدیث کی مسجد نہیں ہے ، اہل سنت والجماعت کی مسجد ہے، کیا اس مسجد میں گھر کے مردوں کو پانچ وقت کی نمازیں پڑھنا جائز ہے یا ہمیں صرف اہل حدیث مسجد میں ہی نماز پڑھنا چاہئے اور کبھی باہر جانے پر بھی اہل حدیث مسجد ہی ڈھونڈکر نماز ادا کرنا چاہئے یا پاس میں کوئی اہل سنت والی مسجد میں نماز ادا کرسکتے ہیں؟
جواب:سوال میں اہل سنت والجماعت سے مراد کون ہے وہ واضح ہے،  اگر بریلوی کو اہل سنت والجماعت کہا  گیاہے تو یہ غلط ہے، بریلوی مشرک ہوتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت فقط اہل حدیث ہیں کیونکہ وہی صحیح طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہیں اس بارے میں میں نے مفصل بیان دیا ہے جو میرے یوٹیوب چینل پر موجود ہے، آپ سن سکتے ہیں۔
چونکہ بریلوی کا عقیدہ کفریہ اور شرکیہ ہوتا ہے اس وجہ سے بریلوی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے البتہ دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ نماز میں اصل مسئلہ مسجد کا نہیں ہے کہ کس مسجد میں نماز پڑھیں اور کس میں نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کس آدمی کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور کس کے پیچھے نہیں پڑھیں گے، یہ دیکھنا ضروری ہے ۔جس کا عقیدہ درست ہے اس کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں اور جس کا عقیدہ درست نہیں ہے اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔ یہ معاملہ ہر جگہ اپنانا ہے خواہ گھر پہ رہیں یا سفر میں رہیں۔
سوال: ایک خاتون کے شوہر نے دوسرا نکاح کیا ہے اور نکاح اس کی پسند سے ہوا ہے لیکن جس سے نکاح ہوا ہے اس لڑکی کا بھائی نکاح پر راضی نہیں تھا جب اس کو سمجھایا گیا تو اس نے اپنی اس بہن اور اپنی بڑی بہن اور اس کو جس سے نکاح ہو رہا ہے سے کہہ دیا کہ نکاح کر لو میں راضی ہوں لیکن نکاح کے وقت وہ خود موجود نہیں تھا تو اس طرح یہ نکاح ہو گیا؟
جواب:اس سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ لڑکی کا ولی اس نکاح میں تھا یا نہیں تھا اور ولی باپ ہوتا ہے۔ اگر باپ زندہ نہ ہو تب اس کی جگہ دوسرا ولی بن سکتا ہے۔اگر باپ موجود ہوتے ہوئے ولی کی حیثیت سے اس نکاح میں نہیں تھا تو نکاح نہیں ہوگا لیکن اگر باپ زندہ نہیں تھا تو بھائی  بھی ولی بن سکتا ہے اور بھائی نکاح سے راضی تھا تو نکاح درست ہے اگرچہ اس جگہ پہ موجود نہیں رہا ہو۔
سوال: سوشل میڈیا پر ایک پیغام پڑھنے کو ملا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ نبی نے کسی شخص سے پوچھا کہ تمہیں سر درد ہوتا ہے اس نے کہا مجھے سر درد کبھی نہیں ہوا تو اس کے جانے کے بعد آپ نے فرمایا یہ جہنمی ہے، کیا یہ صحیح حدیث ہے؟
جواب:اس طرح حدیث میں نہیں ہے بلکہ حدیث اس طرح آتی ہے۔
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال جاء أعرابي، فقال النبي ﷺ هل أخذتك أم ملدم، قال وما أم ملدم؟ قال حر بين الجلد واللحم، قال لا قال فهل صدعت؟ قال وما الصداع؟ قال ريح تعترض في الرأس، تضرب العروق، قال لا قال فلما قام قال من سره أن ينظر إلى رجل من أهل النار أي فلينظر(صحيح الأدب المفرد: 381)
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی آیا تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تمہیں کبھی بخار ہوا ہے؟اس نے کہا کہ بخار کیا ہوتا ہے؟آپ نے فرمایا جلد اور خون کے درمیان گرمائش کو بخار کہتے ہیں۔اس نے کہا نہیں۔آپ نے اس سے پوچھا کیا تمہیں کبھی سر درد ہوا ہے؟ اس نے پوچھا سردرد کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک ہوا ہے جو سر میں پھرتی ہے اور رگوں کو اثر انداز کرتی ہے اس نے کہا نہیں۔ جب وہ اٹھ (کر) گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا جو کسی جہنمی کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس آدمی کو دیکھ لے۔
یہ صحیح حدیث ہے، شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ اسی حدیث کی بنیاد پر بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ سر درد اور بخار نہ ہونا جہنمی ہونے کی دلیل ہے حالانکہ علی الاطلاق یہ بات کہنا درست نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ سر درد اور بخار ہونے کی فضیلت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کا اصل مفہوم یہ ہے کہ  اہل ایمان کی علامت یہ ہے کہ وہ ابتلا اور آزمائش میں ہوتے ہیں اور کفار کی علامت یہ ہے کہ وہ آزمائش میں نہیں ہوتے۔
سوال:کچھ لوگ مرد اور عورتیں، اپنے بالوں اور چہرے کی خوبصورتی کے لئے مہینے کا دس پندرہ ہزار تک خرچ کر دیتے ہیں لیکن جب کسی نیک کام یا ضرورت مند کی مدد کے لئے کہا جائے تو ایک روپیہ بھی نہیں نکالتے۔ اگر یہ دیندار مسلمان ہیں تو ان کو کیسے سمجھایا جائے کہ یہ جو کر رہے ہیں کیا یہ فضول خرچی میں آتا ہے یا نہیں اور اگر آتا ہے تو اس کی کیا حد ہے۔ ہمیں اس بارے میں زیادہ علم نہیں کہ یہ فضول خرچی میں آتا ہے یا نہیں، اس لئے آپ سے رہنمائی چاہتے ہیں تاکہ ہم کسی کو صحیح طریقہ سے سمجھا سکیں۔ جب ان سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اپنا پیسہ ہے، ہم جیسے چاہیں خرچ کریں۔ ایسی صورت میں ان کو کس طرح نرمی اور حکمت سے سمجھایا جاسکتا ہے؟
جواب:اس بارے میں ایک عام بات یہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے جس کو مال دیا ہے وہ اسے دین اور دنیا دونوں پر خرچ کرے، ایسا آدمی مال کا صحیح استعمال کرتا ہے اور جو صرف دنیا پر خرچ کرے دین پر خرچ نہ کرے ایسا آدمی اپنا مال ضائع کررہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عورت ہو یا مرد ہو جائز طور پر بناؤ سنگار میں خرچ کرنے میں حرج نہیں ہے مگر بناؤ سنگار میں مبالغہ نہ ہو۔ ایک عورت اکثر بازاریا غیرضروری طور پر گھر سے باہر جاتی ہے اور ہمیشہ پر تکلف بناؤ سنگار کرکے جاتی ہے جس پر اچھا خاصا پیسہ صرف ہوتا ہے، یہ فضول خرچی ہے جو شرعا جائز نہیں ہے۔ وہیں ایک دوسری عورت ہے جو اپنے شوہر کے لیے بناؤ سنگار کرتی ہے، اس میں نہ مبالغہ کرتی ہے، نہ حرام چیزوں کا ارتکاب کرتی ہے تو اس کا یہ عمل درست ہے۔
اس مسئلہ میں یہی مذکورہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے اور کوئی خاص زاویہ نہیں ہے، جس سے ناپ تول کر کہا جائے کہ اس مقدار میں جائز ہے اور اس مقدار میں جائز نہیں ہے۔اسی انداز میں کسی کو سمجھاسکتے ہیں ، باقی اسراف کرنے والوں کو بخوبی اندازہ  ہوتا ہے کہ ہم غلط کررہے ہیں۔
سوال: کوئی نجومی کے پاس گیا اس نجومی نے مستقبل کی بات بتائی حالانکہ اس سے ستاروں کے بارے میں پوچھا گیا مگر اس نے مستقبل کی بات بتائی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ شرک ہے تو میں نے کہا جو غیب کا علم بتارہا ہے تو اس کو ماننا شرک ہے ، کیا میری یہ بات درست ہے؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کسی مسلمان کو ایسے آدمی کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے جو لوگوں کو مستقبل کے بارے میں بتاتا ہے۔ اگر کوئی ایسے شخص کے پاس جاتا ہے اور اس کی تصدیق کرتا ہے تو وہ کفر کرتا ہے حتی کہ اس کی عبادت بھی چالیس دن تک قبول نہیں کی جاتی۔اس بارے میں ایک دو حدیث دیکھیں۔ بعض ازواج مطہرات سے مروی ہے ، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَسَأَلَهُ عَنْ شَيْءٍ لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلاة أَرْبَعِينَ لَيْلَةً(صحیح مسلم :2230))
ترجمہ: جو شخص کسی کاہن ونجومی کے پاس آکر اس سے کوئی بات دریافت کرے پھر اس کے بیان کی تصدیق کرے تو اس کی چالیس روز کی نماز مقبول نہ ہوگی۔

اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
من أتى كاهِنًا فصدَّقَهُ بما يقولُ أو أتى امرأةً حائضًا أو أتى امرأةً في دُبُرِها فقد برئَ ممَّا أنزلَ اللَّهُ على محمَّدٍ(صحيح أبي داود:3904)
ترجمہ: جو شخص کسی کاہن کے پاس جاکر اس کی باتوں کی تصدیق کرے یا حائضہ عورت سے ہمبستری کرے یا کسی عورت کے دبر میں مباشرت کرے پس وہ شخص اللہ کے رسول محمد ﷺ پر نازل کی گئی کتاب سے بری ہو گیا۔
ہماری عبرت کے لئے یہ دو حدیثیں ہی کافی ہیں اور یہ بات صحیح ہے کہ اگر کاہن مستقبل کی بات بتائے اور کوئی اس کی بات کو صحیح مانے تو ایسی صورت میں وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ غیب کی خبر دینا اللہ کی صفت ہے۔
سوال: ایک شخص نو روزے پر سفر شروع کرتا ہے مگر جس ملک میں جا رہا ہے وہاں دسواں  روزہ افطار ہوگا۔ اس شخص کا ایک روزے کا فرق ہوگا، اب وہ کیا کرے؟
جواب: جب کوئی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے تووہ اس ملک کے حساب سے روزہ رکھے گا جہاں کا سفر کررہاہے یہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ(البقرة: 185)
ترجمہ: جو رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ( صحيح الترمذي:697)
ترجمہ: روزہ وہ دن ہے جس میں تم سب روزہ رکھتے ہو ، اور افطار وہ دن ہے جس میں تم سب روزہ نہیں رکھتے ہو ،اور عید الاضحی وہ دن ہے جس میں تم سب قربانی کرتے ہو ۔

اگرسفر کرنے کی وجہ سے کوئی روزہ اس نے چھوڑا ہے تو وہ اپنے چھوڑے ہوئے روزہ کی بعد میں قضا کرے گا۔
سوال:کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی اہلیہ خیرۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنا زیور لے کر آئیں، اور عرض کیا: میں نے اسے صدقہ کر دیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے لیے اپنے مال میں تصرف کرنا جائز نہیں، کیا تم نے کعب سے اجازت لے لی ہے“؟ وہ بولیں: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیج کر پچھوایا، کیا تم نے خیرہ کو اپنا زیور صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے“، وہ بولے: جی ہاں، تب جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کیا۔(ابن ماجہ:2389) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب:شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

سوال: روزہ کی حالت میں جب ہونٹ سوکھ جائے اور خون نکلنے لگے تو کیا روزہ مکروہ ہوجاتا ہے؟
جواب:روزہ کی حالت میں اگر ہونٹ سوکھ جائے اور اس سے خون نکلنے لگے تو اس سے روزہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اس کو مکروہ وغیرہ نہیں کہا جائے گا بلکہ روزہ کی حالت میں آپ اپنا خون چک اپ بھی کرا سکتے ہیں حتی کہ کسی کو خون دینے کی ضرورت پڑے کی تو روزہ کی حالت میں معمولی مقدار میں خون عطیہ بھی کرسکتے ہیں۔
سوال: اگر تراویح کی دو رکعتوں میں لمبی سورت اور دو میں مختصر سورتیں پڑھی جائیں یا ایک رکعت میں زیادہ تلاوت کی جائے اور دوسری میں کم تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا نیز اگر دورانِ تراویح دھیان بھٹکنے یا تلاوت میں غلطی کے اندیشے سے آنکھیں بند کرلی جائیں تاکہ خشوع و خضوع برقرار رہے تو کیا نماز میں آنکھیں بند کرنا درست ہوگا؟
جواب:تراویح کی اصل یہ ہے کہ اس نماز کو لمبی قرات کی طوالت کے ساتھ پڑھی جائے لیکن ہر کسی کو زیادہ قرآن یاد نہیں ہوتا ہے اس لیے آدمی کو جتنا قرآن یاد ہو اس کے حساب سے تراویح پڑھ سکتا ہے اور اس میں جتنی طاقت ہو اس کا بھی خیال کرے جیساکہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ آدمی اپنے حفظ اور جسمانی قوت کے حساب سے تراویح پڑھا کرے۔اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ دو رکعت میں لمبی قرات ہو اور دو رکعت میں کم ہو۔ قرات لمبی اور کم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ آدمی کو جو یاد ہے وہ نماز میں پڑھا کرے۔ اور نماز کے دوران آنکھ بند کرنا خشوع و خضوع میں سے نہیں ہے اس لئے ایسا کرنا صحیح نہیں ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی نے عبادت نہیں کی ہے اور آپ نے اپنی عبادت میں کبھی آنکھوں کو بند نہیں کیا ہے۔
سوال:عورت کے کانوں میں جو چھید ہوتے ہیں ان میں اگر کچھ پہنا ہوا نہ ہو تو غسل کے وقت کچھ کانوں میں پہن کر پانی پہنچانا چاہئے، یہ کانوں کو ویسے ہی دھونے سے غسل ہو جائے گا ؟
جواب: اگر عورت کے کان میں جھید ہو اور اس میں کچھ نہ پہنی  ہو تو غسل کے وقت کچھ پہننے کی ضرورت نہیں ہے، غسل کرتے وقت یونہی ہاتھوں سے رگڑ کر جسم کے تمام مقامات کو گیلا کرے حتی کہ اگر کچھ کان یا ناک میں کچھ  پہنی ہو تو اس کو ہلاکر جلد تک پانی پہنچائے ۔
سوال: اگر انسان جنابت کی حالت میں روزہ رکھ لے اور کسی وجہ سے صبح کے وقت غسل کر ے تو کیا روزہ صحیح ہوگا یا نہیں؟
جواب:جنابت کی حالت میں سحری کھانا اور روزہ کی نیت کرنا جائز ہے اور اس سے روزہ بھی ہو جائے گا اگرچہ غسل بعد میں کیا گیا ہو تاہم آدمی کو غسل میں اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ وہ غسل میں تاخیر نہ کرے تاکہ فجر کی نماز وقت پر ادا کر سکے۔
سوال:شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں کہ نماز وتر امام کے ساتھ مسجد میں ادا کر لینے چاہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا بھی ہمیشہ یہی عمل رہا اور رات کے آخری پہر بھی آپ نفل کے بعد وتر پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی مسئلہ نہیں، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں؟
جواب:وتر میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی پہلے وتر پڑھ چکا ہو بعد میں تہجد پڑھتا ہے تو اسے دوبارہ وتر نہیں پڑھنا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں دوبارہ وتر پڑھنے سے منع کیا ہے۔وتر رات کی آخری نماز ہے ، کوئی امام کے ساتھ تراویح پڑھ کر وتر چھوڑ دے تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن امام کے ساتھ آخری وقت تک نماز میں شریک رہنے پر ساری رات قیام کا اجر ملتا ہے اس لئے امام کے ساتھ وتر میں بھی شریک رہنا بہتر ہے اور جو تراویح کے بعد رات میں مزید قیام کرنا چاہے وہ امام کے ساتھ وتر پڑھتے وقت اسے جفت  بنالے  یعنی مزید ایک رکعت ادا کرلے اور جب رات میں دوبارہ قیام کرے اس کے بعد آخر میں وتر کی نماز پڑھے کیونکہ وتر رات کی آخری نماز ہے۔ایک صحابی طلق بن علی رضی اللہ تعالی عنہ رمضان میں ایک مرتبہ قیام اللیل کرتے ہیں تو وتر پڑھتے ہیں اور جب دوبارہ قیام اللیل کرتے ہیں تو وتر نہیں پڑھتے ہیں اور دلیل حدیث رسول سے دیتے ہیں کہ ایک رات میں دو وتر نہیں۔(سنن ابي داود:1439،صححہ البانی)
سوال: ہمارے محلے میں ایک بہن ہے جس کے گھر کی آمدنی اتنی ہے کہ مشکل سے گزر بسر ہو رہا ہے۔ کھانے پینے کا خرچ چل جاتا ہے لیکن وہ اپنی بچیوں کو آگے نہیں پڑھا پا رہی ہے کیونکہ وہ اخراجات نہیں اٹھا سکتی۔ اس کی ایک بچی قرآن پڑھنا چاہتی ہے تو کیا مدرسہ میں آنے جانے کا خرچہ چھ ہزار روپیہ مہینہ اور اس کے علاوہ کتابیں، کاپیاں، رجسٹریشن فیس، ماہانہ فیس اور یونی فارم کا خرچ زکوۃ سے ادا کیا جاسکتا ہے؟
جواب:دینی اور شرعی تعلیم کے حصول کے لئے زکوۃ کا پیسہ ایسے غریب لوگوں کو دے سکتے ہیں جن کے پاس اپنی اولاد کو پڑھانے کے لیے پیسے نہ ہوں۔ اس وجہ سے آپ جس فیملی کا ذکر کر رہے ہیں اس کو بچے کی تعلیم کے لئے زکوۃ کی رقم سے مدد کرسکتے ہیں۔ غریب فیملی زکوۃ کی رقم سے بچے کی کتابیں، پوشاک، فیس اور آمد و رفت کا کرایہ وغیرہ ادا کر سکتی ہے۔
سوال: ہمارے یہاں کئی سال سے مسجد کرائے پر چل رہی ہے۔ مسجد کے اوپری حصے کے صحن میں خواتین نماز پڑھتی ہیں۔ اوپر اے سی والا ایک کمرہ بھی ہے جس میں خواتین نماز پڑھتی ہیں اور صحن میں دو صف بنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اے سی کی گرم ہوا باہر آتی ہے جس سے کمرے کے سامنے عورتیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں اس سے پہلی صف میں نقص رہ جاتا ہے، کیا ایسا کیا جاسکتا ہے؟
جواب:ویسے صفوں میں نقص سب سے پچھلی صف میں ہونا چاہیے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے لیکن اگر کوئی عذر ہو جیسے آپ نے بتایا اے سی کے گرم کی ہوا کی وجہ سے پہلی صف میں کچھ نقص ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہاں پر عذر اور مجبوری ہے۔
سوال: ایک آدمی کی بیٹی کی شادی بھائی کے بیٹے سے ڈیڑھ سال پہلے ہوئی مگر شوہر نے کوئی تعلق قائم نہیں کیا اور لڑکی نے کسی کو نہیں بتایا کہ رشتہ داری خراب ہوگی۔ سب نے لڑکے کی بے رخی کا اندازہ کیا اور تحقیق کی تو لڑکے نے کہا کہ کوئی مؤنث جن مجھ پر حاوی ہے جو مجھے اس کے قریب نہیں آنے دیتی، لڑکا رشتوں کا لحاظ رکھنے کے لئے اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا ،اس بارے میں آپ بتائیں کیا کریں؟
جواب:جب لڑکا حق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہیں ہے، ایسے میں بیوی کے معاملہ میں حق تلفی ہو رہی ہے اس لیے بیوی کو شرعا حق ہے کہ وہ طلاق یا خلع لے کر اس سے علاحدہ ہو جائے اور دوسرے مرد سے شادی کرلےتا کہ شادی کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو۔پھر بھی علاحدگی سے پہلے قریبی عالم دین سے اس معاملہ میں ضرور مدد حاصل کی جائے تاکہ وہ دونوں کی اصل حقیقت کا صحیح سے پتہ لگا سکے اور صحیح مشورہ دے سکے۔ چونکہ زندگی کا یہ معاملہ ہے اس لئے اس میں لڑکی کو شرمانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنے معاملہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: بچوں کا قرآن تکمیل ہوا ہو تو بطور خوشی اگر استانی اور رشتہ داروں کو مٹھائی وغیرہ بھیجی جائے تو کیا یہ بدعت یا کوئی رسم کہلا ئے گی؟
جواب:بچہ قرآن ختم کر رہا ہے تو اس میں رشتہ داروں کو مٹھائی تقسیم کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ تو رسم منانا ہی ہوا، چاہے تقریب کی شکل میں رشتہ داروں کو مجلس میں بلائیں یا رشتہ داروں میں مٹھائی تقسیم کریں دونوں ایک ہی بات ہے۔ اس طرح کے عمل سے ہمیں  خود بھی بچنا ہے اور ایسا کرنے والے لوگوں کوبھی  روکنا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں لوگوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے آج بات بات میں تقریب اور رسم منائی جارہی ہے، وہیں معاشرے میں بڑی تعداد میں ضرورت مند ہوتے ہیں مگر ان پر خرچ کرنے کے لئے سوچتے بھی نہیں ۔
سوال: مسجد میں صف بناتے وقت درمیان میں ستون ہو تو وہاں صف بنانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:جس صف میں ستون ہو وہاں پر صف نہیں لگانی چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس سے صف کٹ جاتی ہے لیکن جہاں کہیں عذر ہو تو اس صورت میں ستون والی جگہ میں بھی صف لگا سکتے ہیں جیسے مسجد تنگ ہو اور نمازی زیادہ ہوں اور وہاں صف لگانے کی مجبوری ہو تو ستون والی جگہ پر صف لگا سکتے ہیں لیکن اگر مسجد میں وسعت ہو تو پھر ستون والی جگہ پر صف نہیں لگانی چاہیے۔
سوال:علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ عباس ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اپنی زکاۃ پیشگی ادا کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے انہیں اس کی رخصت دی۔ (سنن ابی داود:١٦٢٤)، کیا اس حدیث میں یہ دلیل ملتی ہے کہ عورت اگر ہر مہینے زکوۃ کی مد میں رقم نکالتی رہے تو کیا اسکی رخصت ہے کیونکہ ایک ساتھ بڑی رقم زکوہ کی مد میں نکالنا مشکل ہو جاتا ہے؟
جواب:اس حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ضرورت کے وقت آدمی سال گزرنے سے پہلے زکوۃ دے سکتا ہے لیکن اس سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ کوئی مرد یا کوئی عورت اپنے مال کی زکوۃ ماہانہ طور پر ادا کرے یعنی ماہانہ طور پر زکوۃ دینے کی اس میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
ایک عورت کے پاس اگر نقدی مال ہے جس کی زکوۃ ادا کرنی ہے تو مال سے زکوۃ ادا کرنے میں کوئی پریشانی والی بات ہی نہیں کیونکہ مال تو موجود ہے جس سے زکوۃ نکالنی ہے۔ جہاں تک زیورات سے زکوۃ نکالنے کا مسئلہ ہے اور زکوۃ کے وقت عورت کے پاس اکٹھی اتنی رقم نہیں ہوتی ہے تو ہر ماہ اپنے پاس پیسے جمع کرتی رہے اور جب زکوۃ دینے کا وقت آئے اس جمع شدہ مال سے زکوۃ ادا کرے یعنی وہ ہر ماہ جو زکوۃ دینا چاہتی ہے وہی پیسہ اپنے پاس جمع کرتی رہے اور سال میں ایک مرتبہ زکوۃ ادا کرے۔
سوال: ایک عورت جو حمل کے ساتویں مہینے میں چل رہی ہے، اس کو کل ٹٹنس کا انجکشن لگوانا ہے تو کیا روزہ کی حالت میں  لگا سکتی ہے؟
جواب:مجھے ٹٹنس کے انجکشن کے مرکبات کا علم نہیں ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر سے پتہ کرلیں کہ اس میں غذائی مواد ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ غذائی مواد والا انجکشن لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر اس انجکشن میں غذائی مواد ہو تو دن میں یہ انجکشن نہ لگا کر رات میں لگائیں اور اگر غذائی مواد نہ ہو تو روزے کی حالت میں بھی انجکشن لگا سکتے ہیں، کوئی مسئلہ نہیں۔
سوال: کیا عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ رمضان میں آنے والے حیض کو روکنے کے لئے گولیاں یا دوا کا استعمال کرے؟
جواب:کوئی عورت رمضان کا مکمل روزہ رکھنے کے لئے حیض روکنے والی دوا کھانا چاہے تو کھا سکتی ہے اور اگر پرہیز کرتی ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ پرہیز کرنا فطرت پر باقی رہنا ہے اور دوا کے استعمال سے کبھی نقصان بھی ہوتا ہے بلکہ نظام حیض پر اثر پڑتا ہے۔ تاہم ڈاکٹر کے مشورے سے مناسب مانع حیض گولی کھائی جاسکتی ہے۔
سوال: کیا اسلام میں مرد کو چار پانچ گرام سے بڑھ کر چاندی پہننا منع ہے یا مرد کے لئے چاندی پہننے کی کوئی حد بتائی گئی ہے؟
جواب:مردوں کے لئے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اور اس کی کیا مقدار ہو اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے لیکن اہل علم میں اس کی مقدار سے متعلق مختلف قسم کے اقوال پائے جاتے ہیں بعض نے ایک مثقال اور بعض نے دو شرعی درہم کے وزن کے برابر کہا ہے اور بھی کئی اقوال ہیں مگر اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ ایک مرد چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے اور اس کی جو بھی مقدار ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم مبالغہ اور اسراف نہ ہو یعنی ایک مناسب مقدار کی چاندی کی انگوٹھی مرد پہن سکتا ہے۔
سوال: کنیڈا میں بہت برف باری ہوئی ہے، یہاں پراسکولی بچے آپس میں برف سے کھیل رہے تھے۔ ایک نے دوسرے دس سالہ بچے کے اوپر برف پھینکی تو برف کا ایک ذرہ (ایک بوند سے بھی کم) بچے کے منہ کے اندر چلا گیا جو فورا پگھل گیا۔ وہ بچہ روزہ سے تھا اور اب گھبرا رہا ہے کہ اس کا روزہ باقی ہے یا ختم ہوگیا ہے، گھر والوں نے تسکین کے لئے اسے بتایا کہ روزہ قائم ہے ، اس میں صحیح حکم کیا ہے جبکہ یہ غیرارادی عمل تھا اور اس نے بعد میں منہ میں کچھ نہیں لیا؟
جواب:کھیلتے ہوئے لاشعوری طور پر کسی بچے کے ذریعہ ایک روزہ دار بچے کے منہ میں برف کا معمولی ٹکڑا چلا گیا جو منہ میں پگھل گیا۔ اس سے اس بچے کے روزے پر کوئی اثر نہیں پڑا، اس کا روزہ اپنی جگہ درست اور صحیح ہے کیونکہ اس میں روزہ دار نے خود سے یعنی جان بوجھ کر کھانے پینے کا کوئی کام نہیں کیا ہے تاہم اس جگہ پر سبھی لوگوں کے علم میں یہ بات رہے کہ اگر روزہ دار کے منہ میں کوئی چیز داخل ہو جائے تو اسے فورا باہر پھینک دینا چاہیے۔
سوال: اگر عقیقہ صحیح سے نہیں کیا ہو مستقل جانور میں تو کیا پھر سے عقیقہ کرنا چاہئے؟
جواب:اگر کسی نے لاعلمی میں بڑے جانور میں حصہ لے کر عقیقہ کیا ہو تو اسے دوبارہ عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم آئندہ یہ خیال رہے کہ جب کبھی کسی کی طرف سے عقیقہ کرنا ہو تو وہ سنت کے مطابق چھوٹے جانور میں  عقیقہ کرے۔
سوال: حدیث کے مطابق رمضان میں روزے دار کی روزانہ ایک دعا قبول ہوتی ہے تو کیا وہ لوگ جو کسی بیماری یا شرعی عذر کی بنا پر روزہ نہیں رکھ سکتے ان کی بھی دعا اسی طرح قبول کی جائے گی؟
جواب:جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے رمضان میں روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ رمضان کی سعادت و برکت اس کے لیے نہیں رہتی، رمضان کی ہر بھلائی اس کے لیے بھی ہے اس لیے وہ لوگ جو کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں، روزہ کے علاوہ دیگر تمام قسم کی خیر و بھلائی کے لیے کوشش کریں۔ دعا کرنا بھی ایک عبادت کا کام ہے، معذور آدمی رمضان میں بکثرت دعا کرے اور افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے تو اس وقت بھی دعا کا اہتمام کرسکتا ہے، اللہ نے چاہا تو اس کی بھی دعا قبول ہوگی۔
سوال:نماز میں جب تلاوت کی جاتی ہے تو تلاوت کا مفہوم سمجھ کر انسان اس وقت نماز میں رو سکتا ہے اور اسی طرح جب باجماعت نماز پڑھ رہے ہوں تو تراویح کے سجدوں میں دعا کر کے رویا جا سکتا ہے یا پھر کوئی تنہا بھی نماز پڑھ رہا ہو تو سجدے میں رو سکتا ہے؟
جواب:رونا کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ کوئی جان بوجھ کر آنکھ سے آنسو بہائے، یہ فطری چیز ہے یعنی جب آدمی اللہ کا خوف محسوس کرتا ہے، آپ خود اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہو جاتا ہے لہذا اگر کوئی نماز میں ہواور  نماز باجماعت ہو یا انفرادی ہو تلاوت سے یا دعا سے آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی نماز میں ایسا عمل صادر ہوا ہے چنانچہ ابو داؤد میں ہے، عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وفي صدره ازيز كازيز الرحى من البكاء صلى الله عليه وسلم.
ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے چکی کی آواز کے مانند آواز آتی تھی۔(ابوداؤد: 904، شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
سوال: کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں وضاحت ہو کہ گھر سے مہمان رخصت ہوں تو ان کے پیچھے گھر سے بچھو، کیڑے، مکوڑے بھی چلے جاتے ہیں؟
جواب:اس قسم کا ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے مگر وہ قصہ جھوٹا ہے، اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ جھوٹے قصے کے طور پر یہ بات بیان کی جاتی ہے جبکہ اس کی کوئی اصل حقیقت نہیں ہے۔
سوال: اگر زکوة کے پیسوں سے کسی غریب و مسکین کی افطاری کروائی جائے تو کیا زکوة ادا ہو جاتی ہے؟
جواب:جب ہمیں معلوم ہے کہ زکوۃ کے پیسے سے کوئی چیز خرید کر غریب و مسکین کو نہیں دے سکتے ہیں تو یہیں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کے پیسے سے غریب و مسکین کو افطاری بھی نہیں کھلا سکتے ہیں۔ پیسے کی زکوۃ کے طور پر ہمیں پیسہ ہی دینا پڑے گا۔اگر کسی نے زکوۃ سے افطاری کھلائی تو اس کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی پھر سے اسے زکوۃ دینی ہوگی۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔