﷽
آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(53)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب
سوال: میں نے آپ سے کسی کا سوال پوچھا تھا کہ آنلائن تصاویر بیچ کر
پیسے کمانا کیسا ہے، آپ کے جواب پر انہوں نے مزید وضاحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
یہ تصاویر انسانوں کی نہیں ہوتیں بلکہ قدرتی چیزوں کی ہوتی ہیں جیسے درخت، پتے،
پھول، کھیت، چیونٹیاں، کیڑے مکوڑے اور اس طرح کے دیگر چھوٹے جاندار۔ یہ تصاویر عام
انداز میں نہیں لی جاتیں بلکہ بہت زیادہ زوم کیمرے سے زوم کرکے لی جاتی ہیں یعنی
کسی چیز کا بہت قریبی منظر ہوتا ہے، پوری تصویر نہیں ہوتی۔ ان میں کسی انسان کی
تصویر شامل نہیں ہوتی، صرف یہی چیزیں ہوتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی تصاویر
بیچ کر پیسے کمانا شرعاً جائز ہے؟
جواب:سوال میں وضاحت اب بھی نہیں ہے کہ جن
چیزوں کی تصویر لی جاتی ہے ان تصویروں کو کس طرح تیار کر کے بیچا جاتا ہے اور پھر
ان تصویروں سے کیا کام لیا جاتا ہے تاہم جواب وہی ہے جو پہلے دیا گیا ہے کہ جاندار
کی تصویر لے کر اس کی تجارت کرنا یا اس سے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے اور جاندار میں
صرف انسان کی ہی تصویر داخل نہیں ہے بلکہ تمام روح والی مخلوق کی تصویر جاندار میں
داخل ہے اور ساری روح والی تصویریں حرمت میں داخل ہیں حتی کہ وہ تصویریں مکمل ہوں
یا تصویر کا حصہ ہوں۔
سوال: بیماری میں چھوڑے ہوئے
روزوں کے لئے آٹا، چاول اور گھی دے سکتے ہیں، کیا ان تینوں چیزوں کو دینے سے فرض
ادا ہوجائے گا یا باقی سب چیزیں بھی دینی ہوں گی جیسے نمک، مرچ، ہلدی، دال، چنے،
بیسن، پیاز، لہسن، ٹماٹر، مرچ اور باقی تمام چیزیں یعنی سبزیاں اور گوشت وغیرہ جو
ہم کھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ سب دیں گے، پھر ہمارے روزوں کا فدیہ ادا
ہوگا؟
جواب: روزے کے فدیہ کے طور پر جو اناج دینا
ہے اس میں وہ چیز دینا ہے جو غذا کے طور پر استعمال کی جاتی ہے یعنی جسے کھا کر
آدمی زندہ رہتا ہے اور جو شہر والوں کی غذا ہوتی ہے جیسے چاول، گیہوں، آٹا وغیرہ۔
فدیہ میں تیل، گھی، مصالحہ، نمک، مرچ، نہیں دینا ہے اور نہ ساگ سبزی وغیرہ۔
ایک
روزہ کے بدلے نصف صاع یعنی تقریبا ڈیڑھ کلو چاول یا گیہوں یا آٹا دے دیں، بس یہی
کافی ہے۔ فدیہ کے طور پر پکا ہوا کھانا بھی دے سکتے ہیں، ایسی صورت میں روٹی یا
چاول کے ساتھ جو سبزی کھاتے ہیں وہ پیش کریں گے۔
سوال: کچھ لوگ اس مجبوری میں
انشورنس کرواتے ہیں کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اس لئے بچوں کے لیے بچت کے طور پر
انشورنس کرواتے ہیں؟
جواب: انشورنس میں جوا، سود اور دھوگہ شامل
ہے اور یہ سارے امور حرام ہیں۔ جس انشورنس میں یہ حرام امور داخل ہیں ایسے انشورنس
کروانا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، نہ بیٹی کی شادی کے لیے، نہ تعلیم کے لیے،
نہ گھر کی حفاظت کے لیے، نہ علاج کی سہولت کے لئے اور نہ ہی کسی دوسری مجبوری کے
لئے۔
اگر مہنگائی بڑھ جائے تو کیا چوری کرنا،
شراب بیچنا، ناچ گانے کرکے کمانا جائز ہوگا ، نہیں ہوگا۔ اسی طرح حالات کچھ بھی
ہوں تجارتی انشورنس جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں حرام امور پائے جاتے ہیں۔
سوال: میرے ابو شیعہ کے ایک
مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے پاس ایک چابی کیس ہے جس پر لکھا ہوا ہے
"علی حسین آئرن انڈسٹری" یعنی اس پر علی اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما
کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔ جب میرے ابو گھر آئیں تو کیا اس چابی کیس کو سنبھال کر
رکھنا ہے کیونکہ اس پر صحابہ کے نام ہیں؟
جواب: جس کا باپ شیعہ طبقہ سے تعلق رکھتا
ہو اسے اپنے ابو کا چین سنبھالنے کی بجائے ان کے ایمان کو سنبھالنا سب سے زیادہ
ضروری ہے کیونکہ شیعہ کے ایمان میں کھوٹ ہے، وہ لوگ کفریہ عقیدے کے حامل ہوتے ہیں
اور کفر وشرک کرتے ہیں۔ آپ کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے والد کو کفریہ عقائد سے
توبہ کرا کر سچا پکا مسلمان بنائیں، خود بھی تشیع سے پوری طرح بیزاری اختیار کریں،
اپنے سارے گھروالوں کو اس سے دور رکھیں۔ اگر خود سے اصلاح کرنا مشکل ہو تو اس بارے
میں اپنے قریبی علماء سے مدد حاصل کریں اور اول مرحلہ میں والد کی اصلاح کریں اور
گھر کے افراد میں بھی جو اس قسم کے عقائد والے ہوں ان سب کی اصلاح کریں۔
اور چین پر جو نام لکھا ہوا ہے اس چین کو
تبدیل کرنے کے لیے کہیں کیونکہ اس طرح کا چین لے کر آدمی حمام وغیرہ میں بھی جاتا
ہوگا اس لئے چین سنبھالنے کی بجائے اس چین کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
سوال: کیا اپنی والدہ کے لیے
رمضان میں ان کے نام کا صدقہ یا افطاری کروایا جاسکتا ہے؟
جواب: رمضان یا غیر رمضان میں والد یا
والدہ یا کسی دوسرے کی طرف سے خواہ وہ زندہ ہوں یا وفات پا گئے ہوں صدقہ دینے یا
افطاری دینے میں بالکل کوئی حرج نہیں ہے البتہ صدقہ کی نیت سے کسی غریب و محتاج کو
دینا چاہیے۔
سوال: ایک خاتون کو اڑھائی
ماہ کا حمل ہوا تھا جو ضائع ہو گیا، وہ رمضان کے روزے رکھنا چاہ رہی ہے، کیا وہ
روزے رکھ سکتی ہے یا پھر اس کو نفاس کی حالت مان کر اسے چالیس دن پورا کرنا ہوگا؟
جواب: جس کسی خاتون کا ڈھائی ماہ کا حمل
ضائع ہو جائے تو وہ نفاس کی حالت میں نہیں ہوتی ہے اور اس وقت جو خون آتا ہے وہ
نفاس کا نہیں ہے، اس وجہ سے اس خاتون کو چاہیے کہ نماز کی پابندی کرے اور رمضان کا
مہینہ ہے تو رمضان کا روزہ رکھے کیونکہ اس کے لئے نماز و روزہ کی ممانعت نہیں ہے۔
سوال: جب کبھی اٹھنے میں ہم
سے سحری میں تاخیر ہو جائے اور سحری کھاتے ہوئے اذان ہونے لگے تو میں نے سنا کہ آپ
کی پلیٹ میں سامنے سے کھا رہے ہیں وہی کھانا ختم کرنا ہے، بازو سے پانی وغیرہ نہیں
پی سکتے، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: ایسا نہیں ہے کہ سامنے ہی والا
کھائیں گے، بازو والا نہیں لیں گے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ سحری کھاتے ہوئے اگر اذان
فجر ہونے لگے تو آدمی فورا اپنی ضرورت پوری کرکے سحری سے فارغ ہو جائے اس میں بازو
والا یا پلیٹ میں سامنے والے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ضرورت کا مسئلہ ہے کہ
فوری طور پر اپنی ضرورت ختم کرلے۔ اور سحری کا معمول یہ ہو کہ آدمی اذان فجر سے
پہلے پہلے
سحری سے فارغ ہو جایا کرے۔
سوال: میری بیٹی نو سال کی
ہے اس پر سات سال میں نماز فرض ہوگئی تو کیا روزہ بھی فرض ہوگیا ہے یا روزہ پیریڈ
کے ساتھ فرض ہوگا؟
جواب: سات سال میں نہ نماز فرض ہوتی ہے، نہ
روزہ فرض ہوتا ہے بلکہ سات سال میں بچے کو نماز کا حکم دینے کے لئے کہا گیا ہے اور
یہ حکم تربیت کے طور پر ہے، نہ کہ فرض و واجب کے طور پر۔جب بچہ بالغ ہوجائے اس وقت
نماز اور روزہ فرض ہوتا ہے اور بلوغت کی نشانی احتلام، بغل کے بال، زیر ناف آنا ہے
اور لڑکے کو مونچھ و داڑھی اور لڑکی کو حیض آنے لگے۔لیکن اس کا مطلب نہیں ہے کہ
بلوغت سے پہلے بچہ روزہ نہیں رکھے گا، تربیت کے طور پر ہم نابالغ بچے سے بھی روزہ
رکھوا سکتے ہیں لیکن جب بالغ ہوجائے تو پھر روزہ رکھنا واجب ہو جاتا ہے۔
سوال: کینیڈا میں حکومتی
پیمانے سے چاند دیکھنے کا اہتمام نہیں ہوتا ہے، یہاں پر مسلمانوں میں دو مکتبہ فکر
پائے جاتے ہیں۔ ایک اس بات کو مانتے ہیں کہ چاند ہرحال میں آنکھوں سے دیکھنا ہے
جبکہ پورا سال آسمان بادلوں سے ڈھکا رکھتا ہے، شاذو نادر کھلا آسمان ہوتا ہے، یہ
لوگ مسجدوں پر اعتماد کرتے ہیں کہ مسجد والے منتظمین امریکہ یا اپنے ذرائع سے طے
کرتے ہیں کہ چاند ہوگیا ہے۔ دوسرا مکتبہ فکر کلینڈر پر یقین رکھتا ہے، اس کا کہنا
ہے کہ سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ جو کلینڈر تیار ہوتا ہے وہ سو فیصد چاند کی
رفتار کے حساب سے ہوتا ہے، اس کے گھٹنے بڑھنے کی پیمائش سو فیصد درستگی پر ہے اس
لئے کلینڈر کے حساب سے وہ لوگ رمضان، عید الفطر اور عید الضحی کرتے ہیں، یہ اس
کلینڈر کی بات کرتے ییں جو یہاں کے ذرائع سے بنائے جاتے ہیں، پورے ملک میں ایک
صوبہ دوسرے صوبے سے اتنے فاصلے پر ہے جیسے پاکستان اور سعودی عرب، اس سلسلے میں آپ
کا علم کیا کہتا ہے، رہنمائی فرمائیے؟
جواب: عموما دنیا کے اکثر ممالک میں حکومتی
سطح پر چاند کا اعلان نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر ملک میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگ رہتے
ہیں اور اپنے اپنے حساب سے چاند کا اعلان کرتے ہیں اس لئے اگر کینیڈا میں حکومتی
سطح پر رویت ہلال انتظام نہیں ہے تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ اس معاملہ میں جو لوگ
یہ کہتے ہیں کہ ہرحال میں آنکھوں سے چاند دیکھنا چاہیے اور وہ لوگ رویت کا پتہ
لگانے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں پھر چاند کی خبر دیتے ہیں، دراصل یہی
لوگ حدیث پر عمل کر رہے ہیں لہذا ان کے مطابق روزہ اور عید کا اہتمام کرنا چاہیے
اور جو لوگ سو فیصد کیلنڈر پر اعتماد کرتے ہیں وہ سو فیصد خطا پر ہیں اس وجہ سے
کلینڈر والوں کی بات نہیں ماننی چاہیے۔
جہاں اور جس علاقہ میں آپ رہتے ہیں ، وہاں
پر اگر کلینڈر کے حساب سے ہی چلنے والے لوگ ہیں تو پھر مجبوری میں ان کے ساتھ روزہ
اور عید کریں لیکن آپ کے علاقہ میں دونوں طبقوں والے ہیں تو رویت کا اعتبار کرنے
والوں کے ساتھ رہیں۔
سوال: ایک بہن کے پاس زیور
تھا جس کی زکوۃ دیتی رہی ہے، اب اس نے ایک بیٹی کو پانچ تولے اور دوسری کو تین
تولے زیور دے دیا ہے۔ یہ زیور اس بہن کے پاس ہی رکھا ہوا ہے، جب بچیوں کی شادی
ہوگی تب ان کو دیدے گی اور بچیاں بالغ ہیں۔کیا وہ بچیاں زیورات کی زکوۃ دیں گی یا
ماں دے گی، ماں اپنے پاس جو زیور ہے اسے اور بچیوں کے زیور کو ملا کر زکوۃ دے گی
یا صرف اپنے زیور کی زکوۃ دے گی؟
جواب:اس میں پہلی بات یہ ہے کہ جب ماں نے
اپنی بیٹیوں کو زیور دیا ہے تو وہ زیور بیٹی کی ملکیت ہے اور جس بیٹی کو جتنا دیا
ہے اتنی ملکیت کا مالک وہ بیٹی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ زیورات کی زکوۃ میں
ہرکوئی اپنے حصے کی زکوۃ نکالے گی لہذا ماں اپنے زیور میں بیٹیوں کا حصہ نہیں
ملائے گی اس کے اپنے حصے کا جو زیور ہے اگر وہ نصاب تک پہنچ رہا ہے تو زکوۃ دے گی
اور نصاب کے برابر نہیں ہے تو زکوۃ نہیں دے گی۔ یہی معاملہ بیٹیوں کے لئے بھی ہے
کہ اگر ان کا اپنا اپنا زیور نصاب بھر ہو تو زکوۃ دینا ہے اور نصاب بھر نہیں ہو تو
زکوۃ نہیں دینا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ بچیوں کے زیورات زکوۃ کے نصاب برابر
ہوں تو بچیوں کے سرپرست یعنی باپ، ماں، یا بھائی جو بھی چاہے اس کے زیور کی زکوۃ
نکال سکتا ہے کیونکہ اس کے وقت بچیوں کے پاس پیسے تو ہوتے نہیں اور زکوۃ نکالنے کے
لئے پیسے نہ ہوں تو زیور میں سے ہی کچھ حصہ بیچ کر زکوۃ ادا کی جاسکتی ہے۔
سوال: میں جمعہ کے دن ڈاکٹر
کے پاس گئی تھی، نماز قضا ہونے کے ڈر سے وہاں نماز پڑھنے کے لئے معلوم کیا تو آفس
میں نماز پڑھنے کے لئے اجازت مل گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد دیکھا کہ دیوار پر ہندؤں
کا چھوٹا سا مندر لگا ہوا تھا، وہ میرے پیچھے تھا اور میں نے آگے نماز ادا کی،
پہلے نہیں دیکھا ، نماز ادا کرنے کے بعد نظر آیا تو کیا میری نماز ہوگئی یا مجھے
واپس لوٹانی پڑے گی؟
جواب: آپ نے جہاں پر نماز
ادا کی، اگر اس جگہ کوئی تصویر یا ہندو دیوی دیوتا کا فوٹو لگا تھا تو اس سے کوئی
غرض نہیں ہے، آپ کی نماز اپنی جگہ درست ہے۔ نماز کے لئے تین چیزیں پاک ہونی چاہیے،
جسم ، کپڑا اور بدن، یہ تینوں چیزیں پاک تھیں تو آپ کی نماز اپنی جگہ پر درست ہے۔
سوال: ایک بھائی نے ایک مفتی صاحب سے سوال کیا ہے کہ جہاں میں
نوکری کی درخواست دیتا ہوں وہاں پر کئی طرح کا انشورنس کا ہی جاب کا آفر آرہا ہے،
میں کیا کروں تو مفتی صاحب نے کہا مجبوری میں یہ جاب جائز ہے، حلال رزق ملنے پر اس
کو چھوڑ دو۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: جس مفتی نے یہ جواب دیا ہے کہ
انشورنس کا جاب مجبوری میں جائز ہے، حلال رزق ملے تو اس کو چھوڑ دینا۔ اس مفتی نے
غلط فتوی دیا ہے۔ انہیں ذرہ برابر بھی اللہ کا خوف نہیں ہے اور دوسرے کو بھی اللہ
کی حرام کردہ چیز کھلانا چاہ رہا ہے۔ ایسے مفتی سے دوبارہ کبھی دین کی بات نہ
پوچھیں جو حرام کمائی کا فتوی دے اور جس کے اندر اللہ کا ڈر نہ ہو۔
کیا کسی کو اپنی مرضی کی نوکری نہ ملے تو
چوری کرسکتا ہے، شراب بیچ سکتا ہے، جوا کھیل سکتا ہے، ناچ گانے کرکے کما سکتا ہے،
نہیں ہرگز نہیں۔ ایسے ہی انشورنس کی نوکری کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور نوکری کے لئے
ضروری نہیں ہے کہ ہم جو نوکری تلاش کریں وہی ملے تب ہی نوکری کریں گے، دنیا میں
لاکھوں محنت و مزدوری کے کام ہیں۔ آدمی کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی کی نوکری
تلاشتا ہے اور محنت و مزدوری نہیں کرنا چاہتا۔ ہوشیار آدمی وہ ہے جسے اپنی مرضی کی
نوکری ملے تو ٹھیک ہے، نہیں تو جو بھی محنت و مزدوری کا کام ملے اس کے ذریعہ اپنا
روزگار چلاتا ہے۔
سوال: کیا عصر اور مغرب کے
درمیان سجدہ تلاوت کیا جاسکتا ہے؟
جواب: چوبیس گھنٹہ کسی بھی وقت سجدہ تلاوت
کرسکتے ہیں اور چوبیس گھنٹوں میں سے ایک سیکنڈ
بھی کوئی ایسا نہیں ہے جس میں سجدے تلاوت
نہیں کیا جاسکتا ہے، عصر اور مغرب کے درمیان بھی سجدہ تلاوت کرسکتے ہیں اس کی کوئی
ممانعت نہیں ہے۔
سوال: اگر کوئی فوت ہوا بچہ
پیدا ہو تو کیا اس کا نام رکھنا چاہئے اور کیا اس کو غسل دینا چاہئے یا نہیں؟
جواب:اگر چار ماہ کے بعد بچہ پیدا ہوا ہے
گرچہ وہ وفات پاگیا ہو پھر بھی اسے غسل دیا جائے گا اور کفن پہنا کر جنازے کی نماز
پڑھ کر اسے دفن کیا جائے گا لیکن چار ماہ سے پہلے بچہ ساقط ہوا ہے تو اس کی نماز
جنازہ نہیں ہے اور اس کے لئے غسل بھی نہیں ہے۔ اور جو بچہ زندہ نہیں ہے اس کا نام
رکھنے کی ضرورت نہیں ہے، نام اس بچے کا رکھا جاتا ہے جو زندہ رہتا ہے اور وہ بھی
ساتویں دن نام رکھا جاتا ہے۔
سوال: میرا حیض جاری تھا مگر
شام سے نہیں آیا ہے اور میں نے سر نہیں دھویا ہے تو کیا میرا روزہ ہوجائے گا اور
روزہ رکھنے کے لئے غسل کرنا پڑے گا۔ مجھے حیض کبھی دودن آتے ہیں تو کبھی تین دن
اور اس بار دو دن آئے ، شام میں معمولی آئے پھر نہیں آئے اور غسل ابھی نہیں کیا
ہوں، کل کروں گی تو کیا میں روزہ رکھ سکتی ہوں ، میرا روزہ ہوجائے گا؟
جواب: اس مسئلہ میں اس بہن کو کئی باتیں
جاننے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ حیض سے پاکی کی دو علامت ہے ایک تو یہ کہ
حیض ختم ہونے کے بعد سفید پانی خارج ہونے لگے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ عورت
حیض سے پاک ہوگئی ہے۔ دوسری علامت یہ ہے کہ حیض آنا بند ہوجائے اور شرمگاہ خشک ہو
جائے۔ اس کو معلوم کرنے کے لئے روئی کا خشک حصہ شرمگاہ میں داخل کرکے چیک کرے، اگر
خون نہیں لگتا تو حیض سے پاکی حاصل ہوگئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب عورت مغرب کے
بعد یا عشاء کے وقت یا عشاء سے پہلے یا بعد میں حیض سے پاک ہوتی ہے تو اسے مغرب
اور عشاء دونوں نمازیں پڑھنی پڑتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ سوال سے معلوم ہوتا ہے
کہ وہ بہن حیض پاک ہوگئی ہے تو اسے غسل کرنا چاہیے تھا یعنی اپنا سر اور پورا بدن
دھونا تھا تاکہ وہ مغرب اور عشاء کی نماز وقت پر پڑھ لیتی۔ چوتھی بات یہ ہے کہ
ناپاکی کی حالت میں روزہ کی نیت کرسکتے ہیں اور سحری بھی کھاسکتے ہیں اس میں کوئی
حرج نہیں ہے یعنی عورت کو غسل کرنا ہو اور ابھی غسل نہ کی ہو تو روزہ کے لئے نیت
کرسکتی ہے، وہ سحری بھی کھا سکتی ہے اور روزہ بھی رکھ سکتی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد
جتنا جلدی ہو نہا لینا چاہیے تاکہ اس کی کوئی نماز قضا نہ ہو۔ اگر وہ دن میں غسل
کرتی ہے تو ظاہر سی بات ہے کئی وقت کی نمازیں اس سے ضائع ہوجائیں گی اس لئے نماز
کا خیال کرکے جلدی غسل کرلینا چاہیے۔
سوال: الحمدللہ رمضان کا
چاند نظر آگیا مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ چاند کل کا ہے اس لئے ایک روزہ قضا ہوگیا
ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: چاند کی شکل دیکھ کر روزہ قضا کرنے
کی بات کہنا بالکل درست نہیں ہے۔ پہلی تاریخ کا چاند بھی کبھی موٹا نکل سکتا ہے اس
لئے اسے دیکھ کر دوسرے دن کا چاند کہنا سراسر غلط ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں ہفتے کو
پہلا روزہ تھا اس حساب سے ہندوستان میں اتوار کو پہلا روزہ ہونا چاہیے لہذا زمانہ
کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ہندوستان میں اتوار کو ہی پہلا روزہ بنتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کا حکم ہے چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ ہمیں رسول کی اس
حدیث کی پابندی کرتے ہوئے عمل کرنا ہے اور لوگ جو کچھ اس بارے میں بات کر رہے ہیں
وہ حدیث کے خلاف ہے اس بات کی طرف توجہ نہیں دی جائے گی۔
سوال:صبح میں قرآن کی تلاوت
کی ہوں پھر رات میں جب تراویح پڑھنا ہوں اس میں اس تلاوت سے آگے تلاوت کرسکتی ہوں
کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ میرا قرآن زیادہ ختم ہو یاپھر مجھے تراویح میں الگ سے
ترتیب سے قرآن پڑھنا ہوگا؟
جواب: دراصل تراویح ، تہجد کی نماز ہے اس
میں جہاں سے اور جیسے تلاوت کریں کوئی حرج کی بات نہیں ہے البتہ تراویح میں قرآن
پڑھتے وقت ترتیب سے پڑھنا چاہیے یعنی پہلی
رکعت میں آگے سے پڑھیں پھر دوسری رکعت میں اس کے بعد کہیں سے پڑھیں، تیسری رکعت
میں اس کے بعد کہیں سے پڑھیں، اس ترتیب کو قائم رکھیں لیکن آپ کی عام تلاوت کی جوترتیب ہے اس حساب سے تراویح میں پڑھنا کوئی
ضروری نہیں ہے ، تراویح میں اپنی سہولت کے اعتبار سے کہیں سے بھی قرات کر سکتے ہیں
حتی کہ آپ کو دس بارہ سورہ یاد ہو تو روزانہ انہیں سورتوں کو تراویح میں پڑھ سکتے
ہیں مگر قرآن کی عام تلاوت ایک ترتیب سے کرتے رہنا چاہئے۔تاہم اس میں بھی کوئی حرج
نہیں ہے کہ کوئی عام تلاوت ترتیب سے کرے پھر جہاں تلاوت چھوڑا تھا اس کے بعد سے
تراویح میں پڑھے مگر اس میں تکلف اور مشقت
ہے خصوصا غیرحافظ کے لئے اس لئے تراویح میں حسب سہولت قرات کرے۔
سوال: مصحف کو ہاتھ میں لیکر
تراویح پڑھنے کا کیا طریقہ ہے، مطلب جب ہم قرآن شریف
پکڑیں گے تو داہنے ہاتھ میں
پکڑیں گے یا بائیں ہاتھ میں کیونکہ اس کو
پکڑنے سے پھر نیت باندھنے کا جو طریقہ ہے اس طرح ہاتھ نہیں رکھ پائیں گے تو اس میں کوئی حرج کی بات تو نہیں
ہے نا ۔ اور پھر اس میں ورق پلٹنا ہو تو ہمیں پورے دونوں ہاتھ کھولنے پڑھتے ہیں ،
ایک ہاتھ سے ورق نہیں پلٹا جاتا تو پھر
دونوں ہاتھ نیت سے کھل جاتے ہیں۔ اور پھر ہم رکوع میں جاتے وقت اس کو پاس میں ایک
ٹیبل پر رکھ دیتے ہیں اور کھڑے ہونے کے
بعد اٹھاتے ہیں، اس سے نماز کے خشوع وخضوع میں کوئی فرق تو نہیں پڑے گا نا ۔
کیونکہ مصحف کو پڑھتے وقت ہماری نگاہیں بھی مصحف میں ہوتی ہے، سجدے کی جگہ نہیں ہوتی،جب
ہم قیام لمبا کرتے ہیں تو سجدہ اور رکوع بھی لمبا کرنا ہوتا ہے، سجدے میں تو ہم
مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی دعائیں بھی کر لیتے ہیں تو لمبا ہو جاتا ہے لیکن رکوع
میں "سبحان ربی العظیم" اور "سبحانک اللہم ربنا و بحمدک اللہم اغفر لي " کے علاوہ اور کون سی دعائیں پڑھ
سکتے ہیں؟
جواب: قرآن ہاتھ میں لے کر اور دیکھ کر
تراویح پڑھنے میں خشوع و خضوع میں فرق پڑتا ہے، بلاشبہ فرق پڑتا ہے اس لئے نماز
تراویح بغیر قرآن دیکھے پڑھنا بہتر ہے۔ ہاتھ میں لے کر پڑھنے سے حرکت کرنا، نماز
کی کیفیت میں تبدیلی پیدا ہونا، نظر اور توجہ کا ادھر ادھر ہونا لازمی امر ہے اس
لئے بغیر دیکھے پڑھنا خشوع و خضوع کے اعتبار سے زیادہ درست ہے لیکن کوئی مجبوری
میں پڑھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔قرآن ہاتھ میں لے کر پڑھنے پر اس کا کوئی
مخصوص طریقہ نہیں ہے، اس میں جیسے آسانی ہو عمل کرسکتے ہیں اور تراویح میں زبانی
قرآن پڑھتے ہیں تو زیادہ بہتر ہے ۔ سجدہ میں دعائیں کرنا چاہئے اور رکوع میں تسبیح
پر اکتفا کرنا چاہئے ، رکوع کی جو تسبیح ہے اسی کی مقدار زیادہ کرسکتے ہیں۔
سوال: کسی کے پاس اتنا سونا
ہوکہ نصاب کو نہ پہنچے لیکن اس سونے کی اتنی قیمت ہوکہ پیسے کے نصاب کو پہنچے تو
اس سونے پر زکوۃ نکالی جائیگی؟
جواب: سونا اور چاندی الگ الگ جنس ہے۔ سونے
کا نصاب الگ ہے اور چاندی کا نصاب الگ ہے۔ جب آپ کے پاس سونا ہو تو یہ نہیں دیکھیں
گے کہ اس کا کتنا پیسہ بن رہا ہے بلکہ دیکھیں گے کہ سونا نصاب تک پہنچ رہا ہے کہ
نہیں اور نصاب 85 گرام ہے لہذا جب سونا 85 گرام یا اس سے زیادہ ہوجائے اور سال لگ
جائے اس وقت زکوۃ دیں گے۔
سوال: ایک خاتون کو پیلا
ڈسچارج کی شکایت ہے اور وہ کب آتا ہے ،اس کا پتہ نہیں چلتا اس لئے وہ ہر وقت نماز کے لیے الگ وضو کرتی ہے اور کچھ
وقت ایسا ہوا کہ نماز کا وقت ختم ہونے کو تھا اور اس نے نماز پڑھ لی اور دوسری نماز کا وقت داخل ہو گیا اور اس نے چیک
کیا کہ کچھ ناپاکی تو نہیں، ایسے میں کبھی ناپاکی نہیں لگتی اور
کبھی شک ہوجاتا ہےتو کیا اس کی یہ نماز
صحیح ہے اور اگر غلط ہے تو واپس پڑھنی ہوگی جبکہ نماز کا وقت بھی گزر گیا ہو؟
جواب: عورت کو ایک سفید پانی کی شکایت ہوتی
ہے، وہ لیکوریا ہے اور ایک خون آنے کی شکایت ہوتی ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں۔جس عورت
کو استحاضہ کا مسئلہ ہو وہ ہر نماز سے پہلے کپڑا اور خون لگے جگہ کی صفائی کرے گی
پھر اس کے بعد وضو کرے گی، اس کے بعد نماز پڑھے گی۔وضو کے بعد یا نماز کے دوران شرمگاہ سے کچھ نکل جائے تو اس سےوضو یا نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ اسے اس مسئلہ
میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہر نماز سے پہلے صفائی کرلیا کرے پھر وضو کرے اور نماز پڑھے اور اس میں اس کے
لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون کا دو ماہ
کا حمل مس کیرج ہوا ہے اور اسے پچھلے سترہ دنوں سے خون آرہا ہے تو اس کی نماز کا کیا حکم
ہے، کیا اسے حیض کے حکم کو فالو کرنا ہوگا؟
جواب: اگر کسی عورت کا دو ماہ کا بچہ گر
جائے تو اس وقت آنے والا خون، نفاس کا خون نہیں ہے بلکہ وہ خون فاسد مانا جائے گا
اور اس حالت میں عورت کو اپنی نماز ادا کرنی ہے۔ اس معاملہ میں حیض کا حکم نہیں
لگے گا کیونکہ حیض تو عورت کی ماہواری کو کہتے ہیں اور یہ نفاس بھی نہیں ہے کیونکہ
کامل بچے کا توالد نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ناقص الخلقت بچہ ہے ۔مختصر یہ ہے کہ دو ماہ
کے مس کیرج کے وقت جو خون آرہا ہے ، وہ نہ
حیض ہے اور نہ ہی نفاس ہے، اس میں عورت کو نماز پڑھنا ہے۔
سوال: ایک عورت اپنے گھر میں بچوں کو قرآن پڑھانا سکھاتی ہے، اس
کی پڑوسن جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتی ہے وہ بھی بچوں کے ساتھ آکر بیٹھتی ہے اور اس
کی شدید خواہش ہے کہ وہ بھی قرآن پڑھنا سیکھے۔ بہن کا سوال ہے کہ کیا وہ اس کو
قرآن پڑھنا سکھا سکتی ہے اور اس سکھ عورت
کے ہاتھ میں قرآن دیا جاسکتا ہے جبکہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہتی ہے صرف قرآن
پڑھنے کا شوق ہے؟
جواب: غیر مسلم خاتون جو سکھ مذہب سے تعلق
رکھتی ہے، اس کو قرآن کی تعلیم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اچھی چیز
ہے اور غیر مسلم کو قرآن پڑھانے کے ساتھ اس کوہاتھ میں قرآن بھی دیاجاسکتا ہے تاہم اسے قرآن کا ادب ضرور
بتایا جائے تاکہ وہ اس کی عظمت کو سمجھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم پر
قرآن پیش کرکے اسے اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے۔ جنوں کی ایک جماعت نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان قرآن سن کر ہی لائی تھی جس کا ذکر سورۃ الجن میں ہے
اس وجہ سے یہ تو دعوت دین کا طریقہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو قرآن کے ذریعہ دین اسلام
کی تعلیم دی جائے۔ اور یہ اپنے آپ میں بہت اچھی بات ہے کہ سکھ عورت قرآن سیکھنا
چاہتی ہے، اسے قرآن پڑھایا جائے ساتھ ہی اس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالی سے دعا بھی
کی جائے۔ممکن ہے اللہ اس کے دل کو اللہ کی طرف پھیردے۔
سوال: میں جب بھی وضو کے لئے
کلی کرتی ہوں یا عام طور پر بھی تو میرے دانتوں سے خون آتا ہے، میں لگاتار کلی
کرتی رہتی ہوں جب تک خون آنا بند نہ ہو جائے
لیکن اگر غلطی سے حلق میں چلا جائے تو کیا روزہ ٹوٹ جائے گا اور نماز پڑھتے
ہوئے اگر دانت سے خون جاری ہو جائے تو کیا کیا جائے؟
جواب: جان بوجھ کر خون نکلنے سے روزہ ٹوٹ
جائے گا خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو اس لئے اگر دانتوں سے خون نکلے تو اسے ہرحال
میں باہر پھینکنا چاہیے لیکن اگر غلطی سے یعنی بغیر ارادے کے کبھی کچھ خون حلق کے
اندر چلا جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس میں آدمی کا کوئی اختیار نہیں
ہے۔اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے بھی خون حلق کے اندر نگلنے سے پرہیز کرنا پڑے گا
کیونکہ جان بوجھ کر حلق کے اندر خون لینے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں نماز
کے وقت احتیاط کے طور پر ہاتھ میں کوئی رومال یا ٹشو پیپر وغیرہ رکھ لے اور جب خون
کا احساس ہو تو دوران نماز اس میں پوچھ لے۔چونکہ دانت سے خون نکلنا کسی بیماری کے
سبب ہے لہذا ایسے آدمی کو اپنا علاج کرانا چاہیے تاکہ اس بیماری سے نجات مل سکے۔
سوال: جب کوئی مسلمان رمضان
کے چھوٹے ہوئے روزے رکھ رہا ہوتا ہے اور نیت کرتا ہے کہ
کل روزہ رکھنا ہے مگر سحری کے لیے نہیں اٹھ پاتا اور
وہ سحری کے بغیر روزہ نہیں رکھنا چاہتا اس لئے وہ روزہ نہیں رکھتا جبکہ نیت تھی تو کیا ایسے میں
گناہ ملتا ہے اور اگر کسی کو سحری چھوٹ جانے کے بعد صحیح سے یاد نہیں آرہا ہے کہ
نیت کی تھی یا نہیں تو کیا روزہ رکھنا چاہیے؟
جواب: اگر کسی نے رات میں قضا روزے کی
یقینی نیت کرلی کہ وہ آج کا روزہ رکھے گا تو اسے ہرحال میں روزہ رکھنا چاہیے خواہ
وہ سحری کھائے یا نہ کھائے کیونکہ روزہ میں اصل نیت کا ہی اعتبار ہوتا ہے لیکن اگر
روزے کی نیت میں اس طرح نیت کی گئی کہ صبح اٹھ کر سحری کھانے کے بعد روزہ کی نیت
کرے گا تو ایسی صورت میں رات والی نیت پختہ نہیں ہے۔ ایسا آدمی اگر سحری کے لئے
بیدار نہ ہوسکے تو اسے روزہ نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ رات والی نیت اس نے پختہ نہیں
کی تھی بلکہ اپنی نیت کو سحری کے ساتھ مشروط کیا تھا۔جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ فجر
کے بعد اٹھنے پر اسے اپنے روزے کی نیت کا یقینی علم نہ ہو تو ایسی صورت میں بھی
اسے روزہ نہیں رکھنا ہے کیونکہ اس نے یقینی نیت نہیں کی تھی۔ اور فرض روزہ کے لئے
رات میں ہی یعنی فجر سے پہلے ہی نیت کرنا ضروری ہے۔ نبی ﷺفرماتے ہیں: جس نے فجر سے
پہلے روزہ کی نیت نہیں کی اس کا روزہ نہیں ہوگا۔(ابوداؤد: 2454، شیخ البانی نے اسے
صحیح کہا ہے)
سوال: قیام اللیل میں کتنے
گھنٹے عبادت کریں تو قیام اللیل کہا جائے گا؟
جواب: قیام اللیل کے بارے میں اس طرح کا
سوال کرنا ٹھیک نہیں ہے، قیام اللیل کے بارے میں ہمیں اس کی کیفیت جاننا چاہئے، اس
کی رکعات جاننا چاہئے اور اس کا افضل وقت جاننا چاہئے، یہی معلومات کافی ہیں۔ گھنٹوں کا اعتبار کرکے قیام نہیں کرنا
ہے۔ ہمیں جس قدر استطاعت ہے اور جس قدر قرآن یاد ہے اس کا خیال کرکے، اپنی استطاعت
و سہولت کے حساب سے قیام کرنا چاہئے۔ بعض روایات میں متعین آیات پڑھنے کی الگ الگ
فضیلت بیان کی گئی ہے، قیام اللیل میں اس کا خیال کرسکتے ہیں مگر گھنٹوں کا نہیں۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ
مِنَ الْغَافِلِينَ، وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِينَ،
وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِينَ(سنن ابی داؤد:1398،
صححہ البانی)
ترجمہ: جو شخص دس آیتوں (کی تلاوت) کے ساتھ
قیام اللیل کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو سو آیتوں (کی تلاوت) کے
ساتھ قیام کرے گا وہ عابدوں میں لکھا جائے گا، اور جو ایک ہزار آیتوں (کی تلاوت)
کے ساتھ قیام کرے گا وہ بے انتہاء ثواب جمع کرنے والوں میں لکھا جائے گا۔
سوال: مسجد کے باہر صحن میں
قبرستان بنا ہوا ہے اور قبلہ یعنی سجدہ قبروں کی طرف ہو رہا ہے تو کیا وہاں نماز
پڑھنا ٹھیک ہے یا نہیں اور وہاں کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری نیت تو نہیں ہے ان کو
سجدہ کرنے کی اور بیچ میں دیوار ہے؟
جواب: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قبرستان
بستی سے باہر بنایا جاتا ہے اس لئے اگر لوگ قبروں کی تعظیم کے لئے مسجد کے صحن میں
قبرستان بنائے ہوئے ہیں تو اس قبرستان کو منہدم کیا جائے اور بستی سے باہر قبرستان
بنایا جائے اور یہاں کی قبریں ادھر منتقل کی جائیں۔اور اگر قبروں کی تعظیم کے لیے
وہاں پر قبرستان نہیں ہے بلکہ مجبوری میں وہاں قبرستان بنایا گیا ہے تو ضروری ہے
کہ مسجد اور قبرستان کے درمیان دیوار حائل ہو۔ اگر قرستان اور مسجد کے درمیان
دیوار حائل ہے تو پھر اس مسجد میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ہی اس کی طرف رخ کرکے نماز
پڑھو۔(مسلم:972)
اس حدیث کی روشنی میں قبر کی طرف رخ کرکے
نماز پڑھنا جائز نہیں ہے لیکن اگر قبرستان اور مسجد کے درمیان دیوار حائل ہو تو
کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: رمضان کے آخری عشرے
میں ہماری مسجد میں عشاء کی نماز کو روز مرہ کے معمول کے مخالف ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر
سے پڑھایا جاتا ہے پھر قیام اللیل بارہ بجے سے شروع ہوتی ہے اور ہر دو رکعت کے بعد
بیانات ہوتے ہیں اور تقریبا ساڑھے چار بجے تک ختم ہوتی ہے، کیا اس طریقے سے تراویح
پڑھنا ثابت ہے؟
جواب : عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے
اور عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے مگر محلے والوں کو جس میں آسانی ہو عشاء
کی نماز کا وہ وقت متعین کرنا چاہیے تاکہ سب لوگ جماعت سے آسانی کے ساتھ نماز ادا
کرسکیں۔تراویح جسے تہجد بھی کہتے ہیں اس کا وقت عشاء کے بعد سے لے کر فجر سے پہلے
تک ہے اور اس کی جماعت کرانے میں بھی لوگوں کی سہولت کو دیکھنا چاہیے ۔جب لوگوں کو
سہولت ہو اس حساب سے وقت متعین کر کے جماعت سے تراویح پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں
ہے۔جہاں تک ہر دو رکعت پہ بیان دینے کا مسئلہ ہے تو یہ بدعت ہے، یہ سراسر بدعت ہے،
عشاء کی نماز عام دنوں کے مقابلے میں ایک گھنٹہ تاخیر سے پڑھنا اور تراویح کی نماز
بارہ بجے رات میں پڑھنا ان دونوں باتوں میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ہر دو رکعت پہ
بیان دینا یہ بدعت ہے اس عمل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاں پر ایسا عمل ہوتا ہو اس
جگہ پر آپ تراویح نہ پڑھیں، دوسری جگہ جاکر تراویح پڑھیں جہاں سنت کے مطابق ادا کی
جاتی ہو یا گھر ہی میں تراویح پڑھ لیں کیونکہ تراویح کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ
جماعت سے ہی پڑھیں۔
سوال: ایک خاتون کہتی ہے کہ میرے پاس بتیس تولہ سونا ہے جس کی زکوۃ
تقریبا ساٹھ ہزار ہے جسے دینا مشکل لگ رہا ہے۔ اس کے تین لڑکے چھوٹے ہیں تو کیا
میں وہ گولڈ ان لوگوں کے حصے میں سات سات تولہ رکھ دوں اور باقی اپنے پاس رکھوں تو
صرف بچے ہوئے حصے کی زکوۃ دینا واجب ہوگا؟
جواب: جس عورت کے پاس بتیس تولہ سونا ہے جس
کی مالیت ہندوستانی قیمت کے حساب سے پچیس تیس لاکھ کے برابر ہے وہ سماج کی مالدار
ترین عورت ہے۔ اسی سماج میں کتنے ایسے لوگ ہوں گے جن کے پاس دو وقت کے کھانے کا
انتظام نہیں ہوگا۔ ایسے میں مالدار کی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب کا خیال کرے جبکہ
یہاں ایک مالدار عورت زکوۃ جو کہ فریضہ ہے اس کی ادائیگی کی بجائے اس ڈر سے اولاد
کے نام سونا تقسیم کرنا چاہتی ہے تاکہ مال خرچ نہ کرنا پڑے۔ یہ بالکل درست نہیں
ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں: جب تمہارے پاس دو سو (۲۰۰) درہم
ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ (۵) درہم
زکاۃ ہو گی، اور سونا جب تک بیس (۲۰) دینار
نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس (۲۰) دینار
ہو جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ
ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہو گی (یعنی چالیسواں حصہ)۔ (ابوداؤد: 1573، صححہ
البانی)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کے پاس بیس
دینار (یعنی 85 گرام سونا) ہوجائے وہ سونا ہی میں سے نصف دینار زکوۃ دے گا۔ اور
جتنا زیادہ ہو اسی کے حساب سے چالیسواں حصہ دینا ہے۔ جس عورت کے پاس بتیس تولہ
سونا ہے، اسے پیسے کا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ سونا ہی میں سے چالیسواں
حصہ بطور زکوۃ ادا کرے۔ یہی حکم رسول ہے۔ اگر نقدی میں سے دیتی ہے تو وہ ٹھیک ہے،
نقدی نہیں ہے تو بتیس تولہ کا چالیسواں حصہ زکوۃ ادا کرے۔ اور زکوۃ دینے کے خوف سے
محض بچے کے نام کچھ سونا کرنا چاہتی ہے وہ درست نہیں ہے۔ اگر وہ زکوۃ کے خوف سے
نہیں بلکہ یونہی تحفہ کے طور پر بچوں کو سونا دینا چاہتی ہے تو اس میں کوئی حرج
نہیں ہے پھر جتنا سونا بچ جائے یعنی اپنے
حصے میں بچے سونا کی زکوۃ سالانہ طور پر ادا کرے۔
سوال: کیا یہ حدیث ضعیف ہے
جس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو خوشخبری سناتے ہوئے
فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے پاس مبارک مہینہ
رمضان آچکا ہے؟
جواب: یہ صحیح ہے کہ مذکورہ روایت یعنی "کان رسول اللہ ﷺ تبشر اصحابہ یقول جاءکم رمضان شھر
مبارک" ضعیف ہے مگر رمضان سے
متعلق ایک دوسرے کو برکت کی دعا دینے میں حرج نہیں ہے۔ نبی ﷺ نے رمضان کی آمد پر
صحابہ کو خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے یہ مبارک
مہینہ ہے۔ مسند احمد کی یہ حدیث دیکھیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:قَالَ:
لَمَّا حَضَرَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ:" قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللَّهُ
عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ
أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ
أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا، قَدْ حُرِمَ(مسند احمد:7148)
ترجمہ: جب ماہ رمضان قریب آتا تو نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آرہا ہے یہ مبارک مہینہ
ہے اللہ نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں اس مبارک مہینے میں جنت کے دروازے کھول
دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا
جاتا ہے۔ اس مہینے میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس
کی خیر و برکت سے محروم رہا وہ مکمل طور پر محروم ہی رہا۔
٭شیخ البانیؒ نے اسے صحیح کہا ہے، دیکھیں:
(صحیح الجامع:55)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔