برتن ڈھک کر رکھنے کا حکم
✒️مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ ـ
سعودی عرب
گھر اور انسان کی حفاظت سے متعلق نبی ﷺ نے کئی احکام دئے ہیں ان میں ایک برتن ڈھکنے کا بھی حکم ہے ۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
غطوا الإناء واوكوا السقاء، فإن في السنة ليلة ينزل فيها وباء لا يمر بإناء ليس عليه غطاء او سقاء ليس عليه وكاء، إلا نزل فيه من ذلك الوباء(صحیح مسلم:2014)
ترجمہ:برتن ڈھانک دو، مشکیزے کامنہ باندھ دو کیونکہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا نازل ہوتی ہے۔پھر جس بھی ان ڈھکے برتن اور منہ کھلے مشکیزے کے پاس سے گزرتی ہے تو اس وبا میں سے (کچھ حصہ) اس میں اُتر جاتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے برتن ڈھک کر رکھنا چاہئے، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سال میں ایک وبا(مرض) نازل ہوتی ہے جو اس برتن میں داخل ہوسکتی ہے۔ معلوم رہے کہ دنیا میں جو بھی وبائیں اور امراض پائے جاتے ہیں ، یہ سب اللہ کی جانب سے ہی اترتے ہیں اس لئے برتن سے متعلق اس وبا کے بارےمیں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ آسمان سے صرف یہی ایک وبانازل ہوتی ہے، بہت ساری وبائیں نازل ہوتی ہیں بلکہ دیکھا جائے تو دنیا میں پائے جانے والے بہت سارے امراض میں سے اس وبا کے بارے میں ہمیں ایک ایسا علم ہو رہا ہے جس کےلئے کم ازکم اس وبا سے بچنے کے لئے احتیاط کریں گے اور جن وباؤں کے نزول کا سبب نہیں جان پاتے ان سے بچنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ اور پھر یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ کھلے برتن میں وبا داخل ہی ہوجاتی ہے، یہاں فقط احتیاطا یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے آسمان سے نازل ہونے والی وبا کا کچھ حصہ اس میں داخل ہوجائے اس لئے بطور احتیاط برتن ڈھک کر رکھا جائے۔ برتن ڈھک کر رکھنے کے کئی فوائد ہیں ان میں وبا والی بات تو جان ہی گئے۔ اس کے علاوہ شیطانی شر سے بھی اس میں حفاظت ہے ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
غطوا الإناء، واوكوا السقاء، واغلقوا الباب، واطفئوا السراج فإن الشيطان لا يحل سقاء، ولا يفتح بابا، ولا يكشف إناء، فإن لم يجد احدكم إلا ان يعرض على إنائه عودا، ويذكر اسم الله، فليفعل فإن الفويسقة تضرم على اهل البيت بيتهم(صحیح مسلم:2012)
ترجمہ:برتنوں کو ڈھانک دو، مشکوں کا منہ بند کردو، دروازہ بند کردو اورچراغ بجھادوکیونکہ شیطان مشکیزے کامنہ نہیں کھولتا، وہ دروازہ (بھی) نہیں کھولتا، کسی برتن کو بھی نہیں کھولتاہے۔اگر تم میں سے کسی کو اسکے سوا اور چیز نہ ملے کہ وہ اپنے برتن پر چوڑائی کے بل لکڑی ہی رکھ دے، یا اس پر اللہ کا نام (بسم اللہ) پڑ ھ دے تو (یہی) کرلے کیونکہ چوہیا گھروالوں کے اوپر (یعنی جب وہ اس کی چھت تلے سوئے ہوتے ہیں) ان کا گھر جلادیتی ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھلے برتن سے شیطان کھلواڑ کرسکتا ہے اس لئے برتن ڈھک کر رکھا جائے کیونکہ بند برتن شیطان نہیں کھولتا۔ ایک حدیث میں برتن ڈھکنے یا الٹنے کا ذکر ہے، جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أغلِقوا البابَ، وأوكئوا السِّقاءَ، وأَكْفِئوا الإناءَ، أو خمِّروا الإناءَ، وأطفئوا المصباحَ، فإنَّ الشَّيطانَ لا يَفتحُ غِلقًا، ولا يحلُّ وِكاءً، ولا يَكْشفُ آنيةً، فإنَّ الفوَيْسقةَ تُضرِمُ على النَّاسِ بيتَهُم (صحيح الترمذي:1812)
ترجمہ:(سوتے وقت) دروازہ بند کر لو، مشکیزہ کا منہ باندھ دو، برتنوں کو اوندھا کر دو یا انہیں ڈھانپ دو اور چراغ بجھا دو، اس لیے کہ شیطان کسی بند دروازے کو نہیں کھولتا ہے اور نہ کسی بندھن اور برتن کو کھولتا ہے، (اور چراغ اس لیے بجھا دو کہ) چوہا لوگوں کا گھر جلا دیتا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں یہ کہاجاتا ہے کہ اگر برتن خالی ہو تو الٹ کر رکھا جائے اور اگر برتن میں کھانا ہوتو ڈھک کر رکھا جائے ۔
برتن ڈھک کر رکھنے سے متعلق دو فوائد اوپر گزر چکے ہیں، ایک مرض سے حفاظت، دوسرا شیطان کے شر سے حفاظت۔ اسی طرح برتن ڈھکنے سے کھانے میں نجاست گرنے سے بھی حفاظت ہوتی ہے نیز کیڑے مکوڑوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے، ڈھکنے سے اس میں کوئی چیز نہیں گرسکتی ہے اور نہ داخل ہوسکتی ہے۔
یہاں پر ایک مسئلہ یہ بھی جان لیں کہ برتن ڈھکنے کا حکم احتیاطی طورپر حفاظت کے لئے دیا گیا ہے تاہم ضرورت کے وقت برتن کھولنے یا کھلا رکھنے میں حرج نہیں ہے یا بھول کر رات بھر یا دن بھر برتن کھلا رہ گیا یا کسی وجہ سے کھانے کو ڈھک کر نہیں رکھا گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں وبا داخل ہوگئی یا اس میں شیطان نے اپنا شر داخل کردیا اس لئے اب کھلے ہوئے برتن کے کھانے کو پھینک دیا جائے، اسے نہیں کھانا چاہئے۔ یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ کھلے ہوئے برتن میں بظاہر کوئی نجاست یا حشرات الارض نہیں گری ہو تو اس کو کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور برتن کھلا رہ جانے کی وجہ سے کھانا نہیں پھینکنا چاہئے۔ جس ہستی نے برتن کو ڈھکنے کا حکم دیا ہے اسی ہستی نے کھلے ہوئے برتن سے پیا ہے، آئیے اس بارے میں ایک حدیث دیکھئے تاکہ آپ کے ذہن میں کوئی غلط فہمی نہ رہے ۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَسْقَى، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَسْقِيكَ نَبِيذًا؟، فَقَالَ: بَلَى، قَالَ: فَخَرَجَ الرَّجُلُ يَسْعَى فَجَاءَ بِقَدَحٍ فِيهِ نَبِيذٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَّا خَمَّرْتَهُ وَلَوْ تَعْرُضُ عَلَيْهِ عُودًا "، قَالَ: فَشَرِبَ.(صحیح مسلم:2011)
ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ نے پانی مانگا، ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیذ نہ پلائیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیوں نہیں!"پھر وہ شخص دوڑتا ہوا گیا اور ایک پیالے میں نبیذ لے کر آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تم نے اسے ڈھانک کر کیوں نہیں دیا؟ چاہے تم اس کے اوپر چوڑائی کے رخ ایک لکڑی (ہی) رکھ دیتے۔" (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا۔
اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے کھلے ہوئے برتن سے نبیذنوش فرمایا ،ساتھ ہی نبیذ پلانے والے کو یہ بھی حکم دیا کہ اسے ڈھک کر کیوں نہیں رکھے۔ اگر کبھی ڈھکنے کے لئے کوئی چیز نہ ملے تو چوڑائی میں ایک لکڑی یا لاٹھی یا اس جیسی کوئی صاف ستھری چیز رکھ دے اور بسم اللہ پڑھے۔
زیادہ استعمال ہونے والی چیزیں استعمال کے کثرت کی وجہ سے اکثر کھلی رہ جاتی ہیں جیسے پانی یا دودھ وغیرہ ۔اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اسی لئے تو بلی کا جوٹھاپاک قرار دیا گیا ہے کیونکہ گھروں میں کافی چیزیں کھلی پڑی رہتی ہیں اور اکثر بلی گھر میں گشت لگاتی رہتی ہے ۔اس سے بچنا مشکل ہے ، اس مشکل کا اسلام میں حل یہ ہے کہ بلی نجس نہیں ہے اس لئے اگر وہ برتن میں منہ ڈال دے تو وہ برتن یا برتن کا کھانا پینا ناپاک نہیں ہوگا۔ بلی کو جھوٹا پاک ہے۔
کبشۃ بنت کعب بن مالک رضی اللہ عنہما سے روایت ہے -وہ ابن ابی قتادہ کے عقد میں تھیں- وہ کہتی ہیں:
أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ دَخَلَ، فَسَكَبَتْ لَهُ وَضُوءًا، فَجَاءَتْ هِرَّةٌ فَشَرِبَتْ مِنْهُ فَأَصْغَى لَهَا الْإِنَاءَ حَتَّى شَرِبَتْ، قَالَتْ كَبْشَةُ: فَرَآنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَتَعْجَبِينَ يَا ابْنَةَ أَخِي؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَجَسٍ، إِنَّهَا مِنَ الطَّوَّافِينَ عَلَيْكُمْ وَالطَّوَّافَاتِ".(سنن ابي داود:75،قال الشيخ الألباني: حسن صحيح)
ترجمہ: ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے، میں نے ان کے لیے وضو کا پانی رکھا، اتنے میں بلی آ کر اس میں سے پینے لگی، تو انہوں نے اس کے لیے پانی کا برتن ٹیڑھا کر دیا یہاں تک کہ اس نے پی لیا، کبشۃ کہتی ہیں: پھر ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو دیکھا کہ میں ان کی طرف (حیرت سے) دیکھ رہی ہوں تو آپ نے کہا: میری بھتیجی! کیا تم تعجب کرتی ہو؟ میں نے کہا: ہاں، ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ نجس نہیں ہے، کیونکہ یہ تمہارے اردگرد گھومنے والوں اور گھومنے والیوں میں سے ہے“۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں پانی ڈھکا ہوا نہیں تھا تبھی تو بلی برتن سے پانی پینے لگی بلکہ ابوقتادہ نے برتن جھکاکر بلی کے لئے پینا اور آسان کردیا، ساتھ ہی اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا فرمان بھی سنایا کہ یہ نجس نہیں ہے یعنی اگر یہ کھانے پینے کی چیز میں منہ ڈال دے تو وہ کھاسکتے ہیں، بلی کا جھوٹا پاک ہوتا ہے۔
خلاصہ اور دیگر مسائل:
٭ کھانے پینے کی چیز ڈھکنے کے کئی فوائد ہیں اس لئے کھانے کے برتن کو ڈھک کر رکھنا بہتر و افضل ہے۔
٭ اگر برتن ڈھکنے کے لئے کچھ نہ ہو تو برتن کی چوڑائی میں اس کے اوپر بسم اللہ پڑھ کر کوئی لکڑی یا لاٹھی رکھ دی جائے۔
٭ کبھی اتفاقی طور پر کھانے کے برتن کو ڈھکنا بھول گئے تو اس میں کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، ایسے برتن میں موجود چیز بلاتردد کھاسکتے ہیں جیسے نبی ﷺ نے کھایا۔ ہاں اگر آنکھوں سے اس میں کوئی چیز پڑی نظر آئے اور وہ زہریلی چیز یا نجاست نہ ہو تو اسے نکال کر پھینک دیں پھر وہ کھانا استعمال کرلیں لیکن کھلے ہوئے کھانے میں ایسی چیز گری ہو جس سے نقصان ہوگا تو اس کو پھینک دیا جائے۔
٭ گھر میں استعمال کی متعدد چیزیں ہوتی ہیں ظاہر سی بات ہے کہ ہرہرچیز کو ڈھک نہیں سکتے ہیں اس لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جس کا ڈھکنا زیادہ اہم ہواس کو ڈھک لیں اور جس کا ڈھکنا زیادہ اہم نہ ہو تو ویسے بھی رکھ سکتے ہیں تاہم مناسب جگہ رکھیں تاکہ کھانے پینے کی چیز اپنی جگہ حفاظت سے رہے۔
٭ آج کل عموما لوگ کھانے کو الماری یا فریج میں رکھتے ہیں، ایسی صورت میں کھانے کا برتن نہ ڈھکا ہو تو بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ الماری اور فریج کا دروازہ بند ہونا برتن کے لئے کافی ہے۔ اگر الماری اور فریج میں بھی برتن ڈھک کر رکھتے ہیں تو اور بھی اچھا ہے۔
٭خالی برتن بغیر ڈھکے اور بغیر الٹا کئے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اصل میں کھانے پینے کی چیزوں کی حفاظت کے لئے برتن کو ڈھکا جاتا ہے۔ جب برتن خالی ہو تو اسے ڈھکنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭خواتین میں ایک اشکال یہ ہے کہ رات میں بغیر ڈھکے رکھے ہوئے برتن کو صبح میں دھلنا ضروری ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ رات میں رکھے ہوئے کھلے یا ڈھکے ہوئے برتن کو صبح میں پھر سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے اور صاف ستھری چیز کو پھر سے دھونے کا کوئی مطلب بھی نہیں ہے البتہ جب اس برتن کو کھانے یا پکانے کے لئے استعمال کرنے لگیں تو ایک پانی سے کھنگال دینا کافی ہے تاکہ جو ذرات اور جراثیم کھلے ہونے کی وجہ سے برتن میں داخل ہو گئے ہوں ان کی صفائی ہو جائے۔
٭عوام میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر کوئی رات کو کھانا کھاکر جھوٹے برتن ایسے ہی چھوڑدیا تو اس گھر میں غریبی اور نحوست آئے گی اور آدمی قرضدار ہوجائے گا۔ یہ جھوٹی بات ہے، اسلام میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ یہ بات اصل میں ہندو گرواپنی عوام کو بتاتے ہیں کہ گھر میں جھوٹا برتن رکھنے سے لکشمی کا ناش(دولت کا ضیاع) ہوگا۔ غیرمسلم کی یہ بات مسلم سماج میں بھی مشہور ہوگئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ گھر میں جھوٹا برتن رکھنے میں حرج نہیں ہے خواہ رات میں جھوٹا برتن رکھیں یا دن میں رکھیں ۔ برتن کا جھوٹا ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے اور نہ ہی جھوٹا برتن نجس ہوتا ہے ۔
٭اوپر بتایا گیا ہے کہ خالی برتن بغیرڈھکے یا بغیر الٹے رکھتےہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اسی طرح جھوٹے برتن کا بھی معاملہ ہے کہ اسے بھی جیسے چاہیں رکھ سکتے ہیں، ڈھکنے یا الٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہےتاہم اسے مناسب جگہ اور مناسب طریقہ سےرکھیں کیونکہ ایک مسلمان نظافت کا بہت خیال کرتا ہے اور ہرچیز قرینے سے رکھتا ہے۔ اگر گمان ہوتا ہو کہ جھوٹے برتن یونہی چھوڑنے یا بغیر ڈھکے رکھنے سے جانور یا حشرات الارض برتن چاٹنے آسکتے ہیں تو ایسی صورت میں دھلنے کی ضرورت ہوتو دھل لیں یا ڈھکنے کی ضرورت ہو تو ڈھک لیں یعنی حالات کے اعتبارسے عمل کریں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔