Monday, April 28, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (52)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات (52)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ـ سعودی عرب

 

سوال:ایک لڑکی کی شادی ہوئی، شادی کے بعد وہ ایک بار اپنے سسرال گئی پھر جب وہ گھر آئی اس کے بعد اس کے شوہر نے یہ کہتے ہوئے اسے رکھنے سے منع کر دیا کہ میں تم کو نہیں رکھوں گا، تم مجھ سے طلاق لے لو۔ دونوں گھروں میں جب بات زیادہ بڑھ گئی تو پنچایت بلائی گئی اور پنچایت میں لوگوں نے زور زبردستی ایک دو بار لڑکی کو اس کے سسرال بھیج دیا مگر پھر بھی لڑکا کہتا ہے کہ مجھ سے طلاق لے لو، عدت بھی گزارو یا نہ گزارو، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لڑکے نے اپنے پاس رکھنے سے بالکل منع کر دیا ہے اس وجہ سے ایک سال سے تقریبا لڑکی اپنے گھر پر ہے اور لڑکے نے دوسری شادی کر لی ہے۔ لڑکے کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ کے کہنے سے زبردستی اس سے شادی کر لی تھی اور لڑکی سے کہتا ہے کہ تم مجھ سے خلع لے لو، خود سے طلاق نہیں دینا چاہتا اور نہ ہی اس کو رکھنا چاہتا ہے۔ اسی بیچ لڑکی کے گھر والوں نے کورٹ میں طلاق کے لئے کیس فائل کیا۔ کورٹ نے تاریخ دی لیکن لڑکے والوں کی طرف سے نہ لڑکا تاریخ پر گیا اور نہ ہی لڑکے کے گھر والوں میں سے کوئی تاریخ پر آیا۔ اسی طرح کئی تاریخ آئی اور چلی گئی۔ تقریبا ایک سال بعد جج نے فیصلہ سنا دیا کہ آپ کی طلاق ہوگئی ہے۔ اب لڑکی یہ جاننا چاہتی ہے کہ تاریخ میں جب لڑکا نہیں آیا اور نہ اس نے کچھ بولا تو کیا یہ طلاق مانی جائے گی، کیا طلاق واقع ہوگئی اور کیا اس کی عدت گزاری جائے گی؟

جواب: چونکہ یہ معاملہ ہندوستان کا ہے اور ہندوستانی عدالت کے ذریعہ طلاق کی کاروائی کی گئی ہے۔ اس معاملہ کو ہمیں شریعت کی روشنی میں سمجھنا چاہیے کہ طلاق شوہر کا حق ہے اور خلع طلب کرنا بیوی کی طرف سے ہوتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی عدالت سے طلاق کی کاروائی کی گئی ہے شرعا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس معاملہ کا لڑکی کچھ بھی اعتبار نہ کرے۔

جب شوہر بیوی کو رکھنے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہے اور وہ طلاق بھی  نہیں دینا چاہتا بلکہ خلع لینے کے لیے کہہ رہا ہے تو لڑکی شوہر سے خلع ہی لے لے تاکہ شرعی طور پر میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجائے اور لڑکی عدت گزار کر کسی دوسری جگہ شادی کرسکے۔طلاق ایک شرعی معاملہ ہے، اس کا فیصلہ کافر عدالت سے نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ مسلم عدالت اور مسلم جماعت کے ذریعہ حل کیا جائے گا اور جس طرح معاملہ حل کیا گیا ہے، اس کا اعتبار نہیں ہوگا اس وجہ سے اس لڑکی کے لئے عدت بھی نہیں ہے۔

وہ اپنے اس معاملہ کے صحیح حل کے لئے کسی قریبی عالم دین سے مدد لے اور ان کے ذریعہ خلع کی کاروائی مکمل کرے اور اگر طلاق ممکن ہو تو شوہر سے طلاق حاصل کرلے۔میں نے اپنے  رسالہ میں مفصل طور پر خلع کے احکام و مسائل بیان کئے ہیں اس کو ضرور پڑھیں تاکہ کاروائی کرنے میں آسانی ہو۔

سوال:ایک عورت جس کے حمل کے ایام پورے ہوچکے ہیں، ولادت کا وقت ابھی قریب نہیں

ہے مگر اسے تھوڑا تھوڑا خون جاری ہے، اس عورت کے لئے نماز کا کیا حکم ہے، کیا یہ خون نفاس کا مانا جائے گا؟

جواب:بسا اوقات حمل کے دوران خون آنے لگتا ہے، یہ فاسد خون مانا جائے گا اور اس کی وجہ سے نماز سے نہیں رکنا ہے۔حالت حمل میں حیض کا خون نہیں آتا اور ابھی ولادت کا وقت بھی نہیں ہے لہذا یہ نفاس کا خون بھی نہیں۔ اس وجہ سے اس خون کو فاسد مان کر وہ خاتون اپنی نماز پڑھتی رہے گی۔

سوال:میں نے ایک فلائٹ لیا تھا جو رہنے کی نیت سے نہیں لیا تھا۔ کچھ پیسے محفوظ تھے بچت کے طور پر ایک فلائٹ لے لیا، بروقت اس میں رہنے کا ارادہ نہیں ہے، جب ضرورت پڑے مثلا گھر بنانے یا باہر جانے کے لئے کام پڑے تو بیچ دیں گے۔ ابھی وہ خالی ہے مگر فلائٹ بنی ہوئی ہے، اس پہ سال بھی لگ گیا ہے، کیا اس میں زکوۃ ہے؟

جواب:اگر آپ حتمی طور پر اس کو بیچنے کی نیت کرچکے ہیں تو سال کے اعتبار سے اس کی زکوۃ دینی پڑے گی کیونکہ اس صورت میں یہ سامان تجارت ہے لیکن حتمی طور پر بیچنے کی نیت نہیں ہے بلکہ تذبذب کی حالت ہے جیسے موقع ملا تو بیچ دیں گے ورنہ ضرورت کے مطابق استعمال کریں گے تو ایسی صورت میں زکوۃ نہیں دینی ہے۔ ان دونوں صورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنی نیت کے اعتبار سے عمل کریں گے۔

سوال: کیا عشاء کی نماز نو رکعت کے ساتھ پورے رمضان میں آٹھ تراویح پڑھنا جائز ہے؟

جواب:ایک آدمی پر ضروری اور واجبی طور پر فرائض کو ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ نماز کے معاملہ میں

ایک مرد اور ایک عورت پر دن و رات میں پانچ وقت کی سترہ رکعات نماز پڑھنا واجب ہے جنہیں ادا کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔عشاء کی فرض نماز واجبی طور پر ہمارے ذمہ صرف چار رکعت ہیں تاہم دو رکعت سنت مؤکدہ بھی ہمیشہ ادا کرنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سنت مؤکدہ کبھی نہیں چھوڑتے تھے گویا عشاء کی نماز چار رکعت فرض اور دو رکعت سنت ہے اور وتر کی نماز رات کی آخری نماز ہے، یہ عشاء کی نماز نہیں ہے۔

جہاں تک معاملہ رمضان کا ہے تو یہ عبادت کا مہینہ ہے، اس مہینے میں جو جس قدر عبادت کے کام پر محنت کرے اس کے لئے اس قدر خیر ہے۔ کوئی آدمی رمضان میں صرف عشاء کی نماز پڑھتا ہے وہ گنہگار نہیں کہلائے گا لیکن یہ مہینہ عبادت کا ہے لہذا آپ کی کوشش یہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔

آخری بات یہ ہے کہ کوئی پورے رمضان عشاء کی فرض و سنت اور وتر کے ساتھ گیارہ تراویح پڑھا کرے تو الحمدللہ یہ کافی ہے اور کوئی رات میں اس سے زیادہ بھی عبادت کرنا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: میرے شوہر شدید بیمار ہیں ۔ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے اس سردی کے موسم میں پانی سے وضو کرنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ وضو کرنے کے بعد سردی سے جسم میں کپکی اور تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کیا ان کے لئے تیمم کرلینا صحیح ہے؟

جواب:سوال میں جو صورتحال ذکر کی گئی ہے کہ پانی کے استعمال سے وضو کرنے میں تکلیف پہنچتی ہے اور جسم کو نقصان لاحق ہوتا ہے تو ایسی صورت میں نماز کے لئے تیمم کیا جاسکتا ہے۔اس سے پہلے گرم پانی سے وضو کرنے کی کوشش کرے۔ اگر گرم پانی میسر نہ ہو اور سردی کے موسم میں ٹھنڈے پانی کا استعمال نقصان دہ ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

سوال:کیا والدین کا عمل کیا ہوا اولاد کو بھرنا پڑتا ہے جیسے کئی بار یہ سننے میں آتا ہے کہ مرد اپنی جوانی میں اپنی بیٹی کا نصیب لکھتا ہے۔ بعض اوقات جوانی میں مرد اگر کسی کی لڑکی کے ساتھ اس کی عزت اور اس کے جذبات سے کھیلتا ہے تو کیا اس مرد کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہوگا؟

جواب:ازل سے اللہ کا فطری نظام اور قانون ہے کہ کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، ہر کوئی اپنے کئے کی سزا بھگتے گا اور اپنا ہی بوجھ اٹھائے گا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ(فاطر:18)

ترجمہ: اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

جب شرعی نقطہ نظر سے ہمیں یہ علم ہو رہا ہے کہ ہر کوئی اپنے عمل کا مسئول و جوابدہ ہے تو ایسی صورت میں لوگوں کا یہ کہنا کہ والدین کا کیا ہوا اولاد کو بھگتنا پڑتا ہے، یہ جھوٹی بات ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی جھوٹ ہے کہ مرد اپنی جوانی میں اپنی بیٹی کا نصیب لکھتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا شریعت محمدی میں کوئی ثبوت نہیں ملتا ہے۔ نیز یہ کہنا کہ بعض اوقات جوانی میں مرد اپنی کسی لڑکی کے ساتھ اس کی عزت سے کھیلتا ہے تو اس مرد کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے، یہ بھی جھوٹی اور بے بنیاد بات ہے۔ہمیں لوگوں کی بے دلیل ، فضول اور جھوٹی باتوں پر دھیان نہیں دینا چاہیے اور جو باتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اسی کو تسلیم کرنا چاہیے۔

معلومات کے لئے یہاں ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں کہ طبرانی میں اس طرح ایک روایت آتی

ہے:"عِفُّوا تَعِفَّ نساؤُكُمْ " اس کا مطلب ہے کہ تم پاک دامنی کے ساتھ رہو تو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔ یہ روایت ضعیف ہے، اس میں خالد بن يزيد العمري نام کا راوی ہے جن پر کذاب کا حکم لگا ہے ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔دیکھیں : (ضعيف الترغيب:1671،ضعيف الجامع:3714)

عام طور سے لوگ یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ زنا ایک قرض ہے جبکہ یہ بات جھوٹی ہے، اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے لہذا ہمیں اپنی زبان سے ایسی بات نہیں نکالنی چاہئے۔

سوال: اگر کسی کے پاس دکان ہو جس میں وہ ضرورت کی چیزیں بیچتا ہو اور ساتھ میں غیرمسلم کی مذہبی چیزیں بھی بیچتا ہو جیسے سندور اور بندی وغیرہ تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب:کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ہندو کی مذہبی چیزوں کی تجارت کرے۔ ایک مسلمان اپنی دکان پر ہندو عادات و عبادات میں استعمال ہونے والی چیزیں نہ رکھے۔ سندور اور بندی ہندوؤں کی مذہبی چیزیں ہیں لہذا ایک مسلمان ان چیزوں کی تجارت نہ کرے اور نہ ہی کسی مسلم خاتون کو یہ چیزیں استعمال کرنی چاہیے۔

سوال: عالمہ و فاضلہ خواتین جب اپنے دروس یا تحریریں پیش کرتی ہیں تو اس کی ویڈیو نکال کر دوسرے لوگ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ اس کا مقصد اصلاح کرنا ہوتا ہے اور کبھی کوئی ریاکاری کے مقصد سے بھی شیئر کرتا ہے۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب:دین اسلام سے متعلق تحریر لکھنا علمی کام ہے اور اس علمی کام میں بہت زیادہ اجر پایاجاتا ہے۔ اسے صدقہ جاریہ بھی کہتے ہیں اور یہ وہ علم ہے جس سے لوگ برابر فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور اس کا اجر لکھنے والے کو ہمیشہ ملتا رہے گالہذا کسی عالمہ کا دینی و علمی تحریر لکھنا اور سوشل میڈیا پر نشر کرنا مفید و نفع بخش ہے۔ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے ریا کاری کہیں گے البتہ کسی بھی خاتون کا اپنے بیان اور تقریر کی ویڈیو بنانا اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرنا گناہ کا باعث ہے اس لئے کسی خاتون کو اپنی ویڈیو نہیں بنانی چاہیے۔ کسی دوسرے کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ عورتوں کی ویڈیوز بنائے اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کرے۔ایک عالمہ اصلاح معاشرہ اور افادہ عامہ کے لئے تحریری کام کرے اور اپنی آڈیو و ویڈیو بنانے اور شیئرکرنے سے  پرہیز کرے۔

سوال:ایک خاتون کی آنکھ کا آپریشن ہوا ہے، ڈاکٹر نے سجدہ کرنے سے منع کیا ہے۔ اب تقریباً دو ہفتے ہوچکے ہیں، اس کا سوال ہے کہ کیا اب میں سجدہ کرسکتی ہوں؟

جواب:ایک عورت اور مرد کسی بھی حالت میں رہے نماز معاف نہیں رہتی ہے سوائے حائضہ اور نفساء کے۔ جس خاتون کی آنکھ کا آپریشن ہوا تھا اسے اس حالت میں بھی نماز پڑھنی تھی اور اس کیفیت میں نماز پڑھتی تھی جس کیفیت میں اس کے لئے پڑھنا آسان تھا۔اس کے لئے اس وقت زمین پر سجدہ کرنا آسان ہوگیا ہے تو اب نماز پڑھنے کی جو اصل کیفیت ہے اس کیفیت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کرے یعنی کھڑے ہوکر قیام کرے، رکوع کرے اور زمین پرجسم کے ساتھ اعضاء کے ساتھ  سجدہ کرے۔

سوال: تبلیغی مدارس صرف ہندوستان میں ہیں یا دوسرے ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ اہل حدیث بہت کم ہو، مجھے اس کو جواب دینا نہیں آیا اس لئے آپ اس بارے میں ہماری رہنمائی کردیں؟

جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تبلیغیوں کا پوری دنیا میں کوئی بھی مدرسہ نہیں ہے، تبلیغی جماعت ہے جو دیوبندی عقائد کے ماننے والوں کی جماعت ہے۔یہ جماعت عام طور پر مسجد میں ٹھہرتی ہے، اس کے پاس کوئی مدرسہ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تعداد کی کثرت حق پر ہونے کی دلیل نہیں ہے یعنی اگر کسی کی تعداد زیادہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حق پر ہے۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ تعداد کافروں کی ہے یعنی عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے تو کیا عیسائی حق پر ہیں، نہیں، وہ کافر ہیں۔تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن میں بے شمار مقامات پر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ سچے لوگ کم ہوتے ہیں جیسے اللہ نے کہا کہ شکر گزار بندے تھوڑے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق والے ہمیشہ کم رہیں گے۔چوتھی بات یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والے یا دیوبندی، اللہ اور اس کے رسول کے دین پر صحیح سے عمل نہیں کرتے۔ یہ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کرتے ہیں گویا کہ یہ مسلمان تو ہیں لیکن اصلی مسلمان نہیں ہیں، نقلی اور بناوٹی مسلمان ہیں۔ اصلی مسلمان تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق عمل کرتے ہیں اور وہ صرف اہل الحدیث ہیں۔ ہماری تعداد کم ہے لیکن ہم اس دین پر عمل کرتے ہیں جسے اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ بھیجا ہے۔ ہمارے امام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جبکہ حنفیوں نے اپنا امام ابوحنیفہؒ کو بنا رکھا ہے۔

سوال:ایک بیوہ عورت ہے جسے شوہر کی طرف سے کچھ پراپرٹی ملی ہے اس کے کرایہ سے گزر بسر ہورہا ہے۔ وہ اپنے ذاتی مکان میں رہتی ہے اسے پینتالیس لاکھ میں بیچا ہے اور وہ چاہتی ہے کہ وہ دوسرا مکان خریدے اور اس میں لوگ پیسے دیں، کیا اس کے لئے زکوۃ دی جاسکتی ہے اور اس کے پاس یہی پینتالیس لاکھ والا مکان ہے، دوسرا نہیں ہے۔ یہ مکان اس قدر مالیت کا ہے جو سونا کے

نصاب سے زیادہ کا ہے تو کیا وہ زکوۃ نکالے گی؟

جواب:اولا بیوہ کو اپنا مکان بیچنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ رہائش بنیادی چیز ہے اپنی رہائش بیچ کر دوسری رہائش لینا اور زکوۃ کے لئے دوسروں کے آگے دامن پھیلانا غیردانشمندانہ قدم ہے۔نیزجس خاتون کے پاس پینتالیس لاکھ کا مکان تھا اور اس نے مکان بیچ دیا ہے وہ اس پیسے سے دوسری جگہ مکان خرید لے اور یہ پیسہ مکان خریدنے کے لیے کافی ہے، اسے زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا پیسہ ہے اسی پیسے کے حساب سے مکان خریدے، مہنگا مکان خریدنے کی ضرورت کیا ہے۔ جتنی بڑی چادر ہے، اتنا ہی پیر پسارے۔ اور پیسے میں زکوۃ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس نصاب بھر پیسہ ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں زکوۃ دینی ہے۔ اس خاتون کے پاس پینتالیس لاکھ روپئے ایک سال تک رہیں تو پھر اس میں سے اسے زکوۃ دینی پڑے گی۔

سوال: آج کل دلہن کو لوگ مہندی میں دلہا دلہن کی مورت ڈالنے کے لئے بولتے ہیں، یہ تو حرام ہے کیونکہ جاندار کی تصویر ہے لیکن کچھ لوگ موسیقی کے آلات جیسے ڈمرو، بانسری وغیرہ بے جان چیزوں کو مہندی میں ڈالنے کو کہتے ہیں، اسلام میں ایسے نقش و نگار کا کیا حکم ہے؟

جواب:اگر آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  دلہن کے ہاتھ یا جسم پر مہندی سے ڈیزائن بناتے وقت دولہا دلہن کی تصویر بنانے کے لئے کہا جاتا ہے یا موسیقی کے آلات کی تصویر بنانے کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مہندی لگانا عورت کے لئے جائز ہے لیکن مہندی سے کسی بھی قسم کے جاندار کی تصویر بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ جاندار کی تصویر کشی اسلام میں حرام ہے۔ اسی طرح مہندی سے ایسی چیز جس کا استعمال شرعی طور پر حرام ہے اس کا نقش بنانا بھی جائز نہیں ہے جیسے موسیقی اور اس کے آلات وغیرہ۔ مہندی سے پھول پتیوں، نباتات و جمادات اور غیرجاندار کا نقش بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے اور مہندی سے غیرجاندار کی تصویر بنائیں مگر حرام چیزوں کی تصویر نہیں۔

سوال:ہم ماہ رمضان میں عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ جاتے ہیں اور عید الفطر وہیں کرتے ہیں، ایسے میں اپنی فیملی کا فطرہ کب ادا کریں، کیا وطن سے سفر کرنے سے پہلے فطرانہ ادا کرکے جاسکتے ہیں؟

جواب:عید کے موقع سے یعنی فطرہ ادا کرنے کا جو وقت ہے اس وقت جس جگہ پر آپ موجود ہیں اس جگہ پر اپنے وقت کے اعتبار سے اپنا فطرہ دیں اور اپنے ملک میں اپنے گھر والوں کا فطرہ دینا چاہتے ہیں تو ان کے لئے فطرہ دینے کا جو وقت ہو اس وقت گھر والوں کا فطرہ ادا کریں اور وقت سے پہلے یا وقت کے بعد فطرہ ادا کرنے سے فطرہ ادا نہیں ہوگا۔فطرہ کا وقت عید کا چاند نکلنے سے لے کر عید کی نماز سے پہلے پہلے تک ہے تاہم عید سے ایک دو دن پہلے بھی فطرہ دے سکتے ہیں لیکن زیادہ دن پہلے یا عید کی نماز کے بعد فطرہ ادا نہیں ہوگا۔اپنے ملک سے سفر کرتے وقت اپنے گھر والوں کی طرف سے فطرہ ادا نہیں کرسکتے ہیں، جب فطرہ ادا کرنے کا وقت ہو اسی وقت فطرہ ادا کریں۔

سوال: ڈائمنڈ پر زکوۃ کی کیا شکل ہوگی اور سوال یہ ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیٹی کو تحفتا دینے کے لئے پلاٹ خریدا ہے، اس پر زکوۃ کی کیا شکل ہے اور اسی طرح اسٹاک مارکیٹ میں پیسہ لگایا ہے اس پر زکاۃ کا کیا حکم ہے؟

جواب: ڈائمنڈ پر زکوۃ نہیں ہے لیکن اگر کوئی ڈائمنڈ کی تجارت کرے تو تجارت کے اعتبار سے مال

تجارت اور اس کے نفع پر سالانہ اعتبار سے زکوۃ دینی ہوگی۔

جو اپنی بیٹی کو پلاٹ دینا چاہ رہا ہے، وہ اپنے حصے کا کام کر لے، اس کے ذمہ زکوۃ دینا نہیں ہے۔ جب بیٹی کے پاس پلاٹ آجائے یا بیٹی کو تحفہ دے دیا جائے پھر اس کی کیا نیت ہوتی ہے اس حساب سے حکم لگے گا۔ جب تک پلاٹ پڑا ہوا ہے اس پر کوئی زکوۃ نہیں ہے اور جب اسے بیچنے کی نیت کرلی جائے اس وقت سے لے کر جب سال مکمل ہو اس وقت زکوۃ دینی ہوگی۔

اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال سود اور جوا سے پاک نہیں ہے اس لیے ایسی تجارت سے بچنا چاہیے لیکن جب اپنا پیسہ تجارت میں لگا ہو تو پھر اس کی زکوۃ دینی ہوگی۔ آپ کے پاس جتنے پیسے ہوں اور جس پر سال گزر گیا ہو ان تمام کو جوڑ کر اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کریں۔

سوال: دعائے قنوت کب پڑھتے ہیں، رکوع کے بعد یا پہلے اور کبھی دعائے قنوت پڑھنا بھول جائیں تو وتر ادا ہو جاتا ہے؟

جواب:نماز وتر میں دعائے قنوت رکوع سے پہلے بھی پڑھ سکتے ہیں اور رکوع کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں اور ہاتھ اٹھا کر بھی پڑھ سکتے ہیں اور بغیر ہاتھ اٹھائے بھی پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔اور نماز وتر میں کبھی دعائے قنوت بھول جائیں تو وتر اپنی جگہ درست اور صحیح ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ کبھی کبھی جان بوجھ کر بھی دعائے قنوت چھوڑ دیتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وتر میں ہمیشہ  دعائے قنوت پڑھنا ضروری نہیں ہے، کبھی کبھار چھوڑ بھی سکتے ہیں۔

سوال: کیا ہم اپنے والدین جو کہ اب دنیا میں نہیں ہیں ان کے لئے ستر ہزار کلمہ شریف کا ختم پڑھ

 کر بخش سکتے ہیں؟

جواب: ستر ہزار مرتبہ کلمہ پڑھ کر وفات یافتہ والدین کو بخشنا جائز نہیں ہے کیونکہ دین میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دین میں جس بات کی کوئی دلیل نہ ہو اس پر عمل کرنا بدعت ہے اور بدعت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ہر قسم کی بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ اللہ ہم سب کو بدعت سے محفوظ رکھے اور سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ واضح رہے کہ اللہ کے نزدیک وہی عمل قابل قبول ہے جو اللہ کی رضا کے لئے ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو۔

سوال: ندی، نہر، تالاب، سمندر یا سوئمنگ پل میں نہانے کے وقت اگر وضو کی نیت کرلی جائے تو کیا صرف اس نہانے سے وضو ہو جاتا ہے یا اس نہانے کے بعد الگ سے باقاعدہ وضو بنانا ضروری ہے؟

جواب:اس غسل میں تفصیل ہے، وہ یہ ہے کہ اگر یہ غسل طہارت تھا مثلا جنابت یا حیض و نفاس سے پاکی کے لئے تو اس غسل سے وضو ہوجائے گا چاہے شروع میں وضو کیا گیا ہو یا نہیں کیا گیا ہو۔ اس مسئلہ میں اہل علم کی یہی رائے ہے بلکہ ابن عبدالبر نے اس مسئلہ پر اجماع نقل کیا ہے۔ اور اگر غسل طہارت نہیں تھا تو یہ وضو کے لئے کفایت نہیں کرے گا، نماز کے لئے پھر سے وضو کرنا پڑے گا۔

سوال: رمضان کو رمضان کہا جائے یا ماہ رمضان؟ سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: لا تقولوا رمضان ان رمضان اسم اللہ ولکن قولوا شھر رمضان۔ " تم رمضان نہ کہو بلاشبہ رمضان اللہ

کا نام ہے بلکہ تم ماہ رمضان کہا کرو۔" (الکامل لابن عدی:7/53) کیا یہ صحیح ہے؟

جواب:یہ باطل روایت ہے ، موضوع ہے۔ حدیث نقل کرنے والے نے حوالہ تو لکھا ہے مگر کامل طور پر حوالہ نہیں لکھا ہے۔ اگر حوالہ یا کتاب کا نام مکمل لکھا جائے تو آدمی خود ہی سمجھ لے گا کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ الکامل کا مکمل نام "الكامل في الضعفاء" ہے۔ ابن عدی نے اس روایت کو اپنی کتاب (الكامل في الضعفاء:7/53) میں درج کیا ہے۔

سوال:طواف یا سعی کرتے ہوئے الکٹرک چیئر کا استعمال کرنے کا کیا حکم ہے، کیا بلا عذر اس کو استعمال کرنے سے اجر میں کمی ہوگی؟

جواب:بغیر کسی عذر کے الکٹرک کرسی پر طواف اور سعی کرنے میں حرج نہیں ہے یعنی بغیر عذر کے بھی اس پر طواف اور سعی کرسکتے ہیں لیکن اجر کے اعتبار سے بغیر کرسی کے اصل انداز میں طواف و سعی کرنے میں زیادہ ثواب ہے کیونکہ جس عمل میں جتنی مشقت ہوگی اسی قدر ثواب ملے گا۔ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے فرمايا تھا:

إن لك من الأجر على قدر نصبك ونفقتك۔

ترجمہ: يقينا تجھے تيرى تھكاوٹ اور تيرے خرچ كے مطابق اجروثواب ملے گا۔

مستدرک حاکم میں یہ روایت موجود ہے اور شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، دیکھیں۔(صحيح الترغيب و الترھيب:1116)

سوال:زکوة کے پیسوں سے کسی کو پانی لگوا کر دے سکتے ہیں؟

جواب:جس کو زکوۃ دینی ہو وہ زکوۃ کے طور پر صرف رقم نکال کر مستحق کو دے گا۔ اگر کوئی ایسا غریب و مسکین ہے جس کو پانی ٹنکی لگانے کی ضرورت ہے، آپ اسے اس کی ضرورت کو دیکھ کر زکوۃ کی رقم دے دیں، باقی ٹنکی لگانا اس محتاج کا ذاتی عمل ہے۔کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی غریب و مسکین پانی کے لیے زیادہ ضرورت مند ہو لیکن زکوۃ دینے سے وہ اسے اپنی ضرورت میں نہ لگاکر دوسرے غیر ضروری کام میں ضائع کر دے تو ایسی مجبوری میں آپ اس کی ضرورت کی چیز دے سکتے ہیں۔ ایسا کرنا فقط انتہائی ضرورت کے وقت ہے ورنہ نقد کی زکوۃ، نقد کی صورت ہی میں ادا کرنا ہے۔

سوال:میرے بھائی کو میرے والد صاحب نے آج سے تقریباً اٹھارہ سال پہلے انکی والدہ کی وراثت میں ایک تولہ گولڈ کی چوڑی دی تھی جو بھائی نے بیچ کر اپنے استعمال میں لے لیا۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی ذکر نہیں کیا اور نہ دیتے وقت بات کی تھی، اب والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے تو اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے۔ میری چار بہن اور والدہ ہیں۔ میرا بھائی اس وقت جو گولڈ کا ریٹ تھا وہ دے گا یا جب بیچا تھا اس کے حساب سے دے گا؟

جواب:سوال پوری طرح واضح نہیں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ والدہ کی وراثت میں والد اپنے بیٹے کو ایک تولہ سونے کی چوڑی دیا تھا۔ یہاں معلوم ہونا چاہیے کہ وراثت کا تعلق آدمی کی وفات سے ہے۔ ویسے تو باپ کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں جب بھی کسی اولاد کو کچھ دے تو سب کو برابر برابر دے لیکن حسب ضرورت والد اپنی اولاد کو کم یا زیادہ تحفتا اور ضرورتا، سامان اور پیسے دیتا رہتا ہے۔ اسے تحفہ کہتے ہیں ، اس کا وراثت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس میں سے بہنوں کا حصہ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر والد نے بیٹے کو قرض کی صورت میں قرض کہہ کر پیسہ دیا ہوتو پھر بیٹے کو یہ قرض لوٹانا چاہئے ۔ سونے کی چوڑی تھی دی گئی تھی تو سونے کی چوڑی لوٹائے اور اسے میت کی وراثت کی طرح اس کے وارثوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس معاملہ میں اگر تردد ہو تو قریبی عالم دین سے اس کی پوری حقیقت بیان کرکے مزید تسلی حاصل کرسکتے ہیں۔

سوال:اکثر عورتیں نماز پڑھتے ہوئے قعدہ میں جھولتی ہیں، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟

جواب: نماز انتہائی سکون اور وقار سے ادا کرنا چاہیے، اس میں بدن کو بلا ضرورت حرکت دینا، اسے ہلانا یا بیٹھے ہوئے جھولنا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت ہونے کے بعد دوڑ کر جماعت میں ملنے سے منع فرمایا ہے حکم دیا ہے:

إِذَا سَمِعْتُمُ الإقَامَةَ، فَامْشُوا إلى الصَّلَاةِ وعلَيْكُم بالسَّكِينَةِ والوَقَارِ، ولَا تُسْرِعُوا، فَما أدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وما فَاتَكُمْ فأتِمُّوا( صحيح البخاري:636)

ترجمہ:تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے (معمولی چال سے) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو (بہرحال) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لواور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کرلو۔

جب نماز کی جماعت میں شامل ہوتے  وقت اس قدر سکون سے شامل ہونے کا حکم دیا گیاہے پھر اس نماز کو کس قدر اطمینان و سکون کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔

اس جگہ ہمارا ایک فریضہ بھی بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ جس خاتون کو نماز پڑھتے ہوئے قعدہ میں جھولتے دیکھیں، آپ اس سے کہیں کہ نماز سکون سے پڑھنے والی عبادت ہے۔ اس میں جھولنے سے پرہیز کریں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ کسی کو غلط کام کرتے ہوئے دیکھیں تو اسے اس سے منع کریں۔

سوال: ایک ویڈیو میں نے دیکھی کہ انسان جب کوئی چیز مانگتا ہے ہم اس کے لہجہ کی طرف دھیان دیتے ہیں جیسے کوئی پانی بہت تھکے ہوئے لہجہ میں مانگے تو ہم اس کو جلدی پانی دیتے ہیں ۔اسی طرح دعا میں اللہ تعالی سے التجا کرکے دعا مانگنا چاہئے، نہ کہ بنا دلچسپی کے، تبھی دعا قبول ہوگی۔ کیا اس طرح مثال دینا ٹھیک ہے؟

جواب:دعا کرنے کے مختلف آداب ہیں، ایک آدمی کو دعا کرتے ہوئے ان آداب کو بجا لانا چاہیے۔ دعا کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ فروتنی اور عاجزی سے اللہ رب العالمین سے دعا مانگیں کیونکہ کوئی چیز اکڑ کر نہیں مانگی جاتی۔ مانگنے کے لئے ضروری ہے اس کے اندر عاجزی اور خاکساری ہو۔ باقی تھکے ہوئے کہہ کر جو مثال دی گئی ہے وہ درست نہیں ہے، تھکا ہوا ہونا اور عاجزی انکساری اور گڑگڑا کر دعا مانگنا الگ چیز ہے۔ دعا کرتے ہوئے ہم اپنی عاجزی کا اظہار کریں اور یقین و اعتماد کے ساتھ اللہ کے سامنے اپنی ضرورت بیان کریں۔

سوال:ایک آدمی نے نشہ کی حالت میں قرآن جلا دیا ہے ، اب اسے کیا کرنا پڑے گا؟

جواب:اسلام میں نشہ کرنا اسی لئے منع ہے کہ اس وقت انسان پاگل اور مجنوں کی طرح ہوتا ہے۔ اسے اس بات کی سمجھ نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس عالم میں کیا کر رہا ہے۔ اور جس کسی نے نشے کی حالت میں قرآن جلایا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر اللہ رب العالمین سے سچی توبہ کرے۔ وہ اس بات سے بھی توبہ کرے کہ آئندہ کبھی نشہ نہیں کرے گا اور اس بات سے بھی توبہ کرے کہ وہ کبھی قرآن کی توہین والا کوئی عمل نہیں کرے گا۔ جب وہ اپنے اس عمل سے سچی توبہ کرلے تو عنقریب اللہ تعالی معاف کرنے والا ہے۔

سوال:کسی اجنبی عورت سے مصافہ کرنا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اجنبیہ عورت سے مصافحہ کیا تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن سے جکڑے ہوئے ہوں گے اور پھر اس کے حق میں جہنم کا فیصلہ ہوگا اور اگر اس سے (ناجائز) بات چیت کی ہے تو قیامت کے دن بات کے ہر جملہ کے بدلے میں اس کو ایک ہزار سال جہنم میں قید کیا جائے گا۔(المطالب العالیۃ :1635، عن ابی ہریرۃ و ابن عباس) کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

جواب:المطالب العالیہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہے، اس کتاب کے اندر مذکورہ روایت کو درج کرکے ابن حجر رحمہ اللہ نے خود ہی اس کتاب میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔ دراصل یہ ایک لمبی روایت کا ایک ٹکڑا ہے، اس کا متن کچھ اس طرح سے ہے:

ومَن صافَحَ امرأةً حرامًا جاء يومَ القيامةِ مغلولةً يَداهُ إلى عُنُقِهِ، ثمَّ يُؤْمَرُ به إلى النَّارِ، وإنْ فاكَهَها حُبِسَ على كلِّ كلمةٍ كلَّمَها في الدُّنيا ألفَ عامٍ۔

(دیکھیں:المطالب العالية لابن حجر العسقلاني:2/266 )

سوال: جب پلاسٹک کے برتن ناپاک ہوجائے تو کیا وہ پاک ہوسکتا ہے؟

جواب:اگر پلاسٹک کے برتن میں نجاست لگ جائے تو اسے اچھی طرح دھل کر دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ پلاسٹک سخت چیز ہے اس میں نجاست جذب نہیں کرتی ہے۔ دھلنے کے بعد وہ چیز بالکل پھر سے پاک ہوجائے گی۔ہم تو استعمال کے کپڑے جس میں نجاست جذب کر جاتی ہے اسے بھی دھل کر پہنتے ہیں، پلاسٹک کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

سوال: کیا اسلامی کتابیں اور قرآن و تفسیر وغیرہ دوسری جگہ ڈیلیوری کرسکتے ہیں جبکہ اس کے اوپر ممکن ہے کہ دوسری کتاب بھی رکھی جائے؟

جواب:اس مسئلہ سے متعلق دو باتیں ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں اور اپنے رہنے سہنے کی جگہوں میں دینی کتابوں کے اوپر کوئی دوسری کتابیں رکھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن قرآن کے اوپر کوئی دوسری کتاب یا کوئی دوسری چیز نہیں رکھنی چاہیے جیساکہ اہل علم نے قرآن کے ادب کے زمرے میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے۔اس میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جب دینی کتابوں کو یا قرآن اور اس کی تفسیر کو کہیں پارسل بھیجنا پڑے تو یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے۔ ہم صرف اپنی کتابوں کو آفس کے حوالے کر دیتے ہیں، باقی آفس والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ بحفاظت ہمارا سامان مطلوبہ مقام تک پہنچا دے۔ اس راستے میں دینی کتابوں کے اوپر کوئی دوسری کتاب آجائے یا کتابوں کے علاوہ کوئی دوسری چیز آجائے یا قرآن کے اوپر کوئی دوسری چیز آجائے تو یہ ہمارے اختیار سے باہر کی چیز ہے اور یہ اضطراری صورت ہے اس لئے اس معاملے میں ہم معذور ہیں اور ہمارے حق میں کوئی گناہ نہیں ہے۔آپ ضرورت کے وقت دینی کتاب حتی کہ قرآن اور تفاسیر جہاں چاہیں کوریئر، پارسل اور پوسٹ کے ذریعہ بھیج سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: اگر کوئی آنلائن تصاویر شیئر کرکے پیسے کماتا ہے تو کیا یہ کمائی جائز ہوگی جبکہ ان تصاویر میں

 قدرتی مناظر، جاندار اور بے جان چیزیں سب شامل ہوں، کیا اس سے حاصل ہونے والا پیسہ حلال ہوگا؟

جواب:آنلائن تصاویر شیئر کرنے میں صرف جاندار اور غیر جاندار کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس میں مختلف قسم کے غیر شرعی اعمال پائے جاتے ہوں گے جو سوال میں مذکور نہیں ہیں کیونکہ وہ تصویریں تجارت سے جڑی ہوں گی اور آج کل کی بہت ساری تجارتوں اور اس کے طریقہ کار میں بہت ساری شرعی خامیاں پائی جاتی ہیں بلکہ انٹرنیٹ کی بہت ساری تجارتیں فراڈ و دھوکہ پر مبنی ہوتی ہے۔

بہرکیف! ایسی کوئی تجارت جس میں جاندار کی تصویر شیئر کرکے پیسہ کمایا جائے جائز نہیں ہے نیز اس قسم کی تجارت میں اور بھی شرعی خامیاں پائی جاتی ہیں۔

سوال: ایک خاتون نے کہا ہے کہ رات شرمگاہ سے ہاتھ لگ گیا پھر اس نے اپنا فون چھوا، اب اسے وسوسہ آرہا ہے کہ جہاں کہیں وہ فون گیا ہے وہاں نجاست لگ گئی ہے، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب: اس میں پہلی بات یہ ہے کہ بغیر پردہ کے شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور پردہ کے اوپر سے شرمگاہ کو ہاتھ لگا جائے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانے سے ہاتھ ناپاک نہیں ہوجاتا ہے، ہاتھ اپنی جگہ پاک ہی رہتا ہے اور اس ہاتھ سے موبائل چھولیا تو اس موبائل کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے یعنی وہ بھی ناپاک نہیں ہوا۔ اور نہ ہی اس موبائل کے کہیں رکھنے یا موبائل چھو جانے سے کوئی چیز ناپاک ہوئی۔ اس بارے میں ناپاکی

والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔

اس مقام پر ایک اور مسئلہ جانتے چلیں  کہ نبی ﷺ رات کو جب بیدار ہوتے تو سب سے پہلے ہاتھ دھلتے پھر اس ہاتھ کو پانی کے برتن میں ڈالتے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَا يُدْخِلْ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ حَتَّى يُفْرِغَ عَلَيْهَا مَرَّتَيْنِ، أَوْ ثَلَاثًا، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي فِيمَ بَاتَتْ يَدُهُ(سنن ابن ماجہ:393، ؤصححہ البانی)

ترجمہ: جب کوئی شخص رات کو سو کر بیدار ہو تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے، جب تک کہ دو یا تین مرتبہ اس پہ پانی نہ بہا لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا۔

سوکر اٹھنے پر وضو کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنا ہاتھ دھلنا ضروری نہیں،  مستحب عمل ہےاس لئے  اگر کوئی بغیر ہاتھ دھوئے اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں ڈال دے تو پانی ناپاک نہیں ہوگا کیونکہ ہاتھ تو پاک ہےپھر پانی کیونکر ناپاک ہوگا،الا یہ کہ ہاتھ میں نجاست لگی ہو پھر اس نجاست کی وجہ سے پانی ناپاک ہوگا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔