تقوی کی اہمیت اور اس کے مظاہر
تحریر:
مقبول احمد سلفی
جدہ دعدہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
تقوی
اندرون قلب کے پاکیزہ اور مخفی وصف کانام ہے مگراس کا اثر روح کے ساتھ پورے جسم پر ظاہر ہوتا ہے
کیونکہ انسانی اعمال وکردار کا مرکز دل ہے، یہیں سے اچھے برے تمام قسم کے افعال
صادر ہوتے ہیں۔ جس کا دل پاکیزہ ہےگویااس میں تقوی موجود ہے اور اس تقوی کے سبب اس
کےپورے جسم سے اچھے افعال صادر ہوتے ہیں
اور جس کے دل میں مرض و آلائش ہے اس سے برے کام صادر ہوتے ہیں۔
علماء نے تقوی کو مختلف پیرائے میں بیان
کیا ہے ان سب باتوں کو جمع کرکے ایک مختصر جملہ میں کہاجائے تو مامورات کی انجام
دہی اور منہیات کو ترک کردینے کا نام تقوی ہے یعنی جن کاموں کو اللہ تعالی نے کرنے
کا حکم دیا ہے اسے عمل میں لانا اور جن باتوں سے منع کیا ہے ان سے رک جانا تقوی
ہے۔ اور تقوی کا تعلق دل ہے یا یہ کہہ لیں کہ تقوی کا محل دل ہے ۔ اس کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے:ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ
اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ (الحج:32)
ترجمہ:یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی
نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے۔
اس آیت میں شعائر کی تعظیم کو دل کا تقوی
قرارد یا گیا ہے اور نبی ﷺ نے دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
التقوى هاهنا، ويشير إلى صدره(صحيح
مسلم:2564)
ترجمہ: تقویٰ یہاں ہے۔ اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ یزید بن اصم نے حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ اللَّهَ لا يَنْظُرُ إلى صُوَرِكُمْ
وأَمْوالِكُمْ، ولَكِنْ يَنْظُرُ إلى قُلُوبِكُمْ وأَعْمالِكُمْ(صحيح مسلم:2564)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور
تمہارے اموال کی طرف نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمہارے دلوں اور اعمال کی طرف دیکھتا
ہے۔
معلوم ہوا کہ اعمال کا تعلق دل سے ہے اور
اس دل کی پرہیزگاری کا نام تقوی ہے۔ جب تک یہ دل ٹھیک ہے ، پورا جسم ٹھیک رہتا ہے
اور جب دل کو مرض لاحق ہوجاتا ہے تو پورا جسم بیمار ہوجاتا ہے چنانچہ نعمان بن
بشیر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألَا وإنَّ في الجَسَدِ مُضْغَةً: إذَا
صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وإذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، ألَا
وهي القَلْبُ(صحيح البخاري:52)
ترجمہ: سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے
جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ
ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں تقوی کی اس قدر
اہمیت ہے کہ قرآن اور حدیث میں جابجا اس کا بیان ہے، ان سب کا احاطہ اس جگہ ممکن
نہیں ہے تاہم کچھ اہم نقاط بیان کر دیتا ہوں جن سے اندازہ لگانا کافی ہوگا۔ پہلے
ہم نے تقوی اور اس کا محل سمجھ لیا، اب اختصار کے ساتھ تقوی کی اہمیت وفضیلت کو
واضح کرنے والے چند عناصر پر نظر ڈالیں۔
(1)تقوی کی اہمیت کو
واضح کرنے کے لئے سب سے پہلے اس بات کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ نبی ﷺ سے
جو خطبہ مسنونہ منقول ہے جسے خطبۃ الحاجہ بھی کہتے ہیں اس خطبہ میں آپ ﷺ ہمیشہ
تقوی سے متعلق تین آیات کی تلاوت کیاکرتے، وہ تین آیات اس طرح سے ہیں۔
پہلی آیت :يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
(آل عمران:102)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو
جتنا اس سے ڈرنا چاہیے ، دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
دوسری آیت:يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا
رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا
وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا
اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ
اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء:1)
ترجمہ:اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے
تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ،اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے
مرد اور عورتیں پھیلا دیں اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور
رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔
تیسری آیت:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا
اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ
وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ
فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (الاحزاب:70-71)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو
اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور
تمہارے گناہ معاف فرما دے اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس
نے بڑی مراد پالی۔
ان آیات پر گہرائی سے غور کرکے دیکھیں کہ
تقوی کی اہمیت کو واضح کرنے والی یہ کس
قدر عظیم آیات ہیں اور زندگی کے کن کن امور میں تقوی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ ان
آیات کی تلاوت کے بعد آپ ﷺ پھر وعظ ونصیحت فرماتے۔ گویا دین میں تقوی ہی اصل ہے
اور اس کو ہرچیز پر فوقیت و ترجیح حاصل ہے۔
(2)تقوی کی اہمیت کے
پیش نظر اللہ تعالی نے اسے اپنے نزدیک برتری و عظمت کا معیار بنایا ہے یعنی جو جس
قدرآدمی متقی ہوگا اللہ کے نزدیک وہ اسی
قدر، قدر ومنزلت والاہوگا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ
أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ
اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ(الحجرات:13)
ترجمہ: اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وہ
ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے، یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔
نبی ﷺ نے اللہ تعالی کے اس فرمان کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے اور کالے و گورے کا فرق مٹاتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں تقوی کی
اہمیت کو واضح کیا ہے، آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
يا أيها الناسُ ! إنَّ ربَّكم واحدٌ، و
إنَّ أباكم واحدٌ، ألا لا فضلَ لعربيٍّ على عجميٍّ، و لا لعجميٍّ على عربيٍّ، و لا
لأحمرَ على أسودَ، و لا لأسودَ على أحمرَ إلا بالتقوى إنَّ أكرمَكم عند اللهِ
أتقاكُم، ألا هل بلَّغتُ ؟ قالوا : بلى يا رسولَ اللهِ قال : فيُبَلِّغُ الشاهدُ
الغائبَ( السلسلة الصحيحة:2700)
ترجمہ:لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا
باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر،
کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر
کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری تعالىٰ ہے:
اللہ تعالىٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار
ہے، خبردار! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے
رسول! کیوں نہیں۔ پھر فرمایا: حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔
(3)تقوی کے بغیر آدمی
کا کوئی عمل قبول نہیں ہوگا یعنی جب تک اس کے دل میں عمل کے تئیں اخلاص نہیں ہوگا
اور اخلاص نیت سے عمل نہیں کرے گا وہ عمل عنداللہ مقبول نہیں ہوگا، فرمان الہی ہے:لَن
يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ
مِنكُمْ(الحج:37)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت
نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقوی (پرہیزگاری) پہنچتا ہے ۔
ایک دوسرے مقام پر اسی بات کو اللہ تعالی
اس طرح بیان کرتا ہے:إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ
الْمُتَّقِينَ(المائدۃ:27)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل
قبول کرتا ہے۔
(4)تقوی سفر آخرت کا
سب سے بہترین توشہ ہے اس لئے اللہ نے اپنے بندوں سے تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا
ہے تاکہ آخرت میں یہ توشہ اس کے کام آسکے۔
اللہ فرماتا ہے:وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ
يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (البقرۃ:197)
ترجمہ:اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو،
سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو۔
(5)تقوی دنیا میں بھی
معاون، غم کا ساتھی ، رزق کا سبب اور پریشانی سے نکلنے کا راستہ ہے تو آخرت میں
بھی اسی میں کامیابی اور اسی بنیاد پرنجات بھی موقوف ہے، اللہ رب العزت کا فرمان
ہے:ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوا وَّنَذَرُ
الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا (مریم:72)
ترجمہ:پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچا لیں گے
اور نافرمانوں کو اسی میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ کا فرمان ہے:إن
للمتقين مفازا (النبا:31)
ترجمہ: بے شک تقوی والوں کے لئے کامیابی
ہے۔
(6)اور تقوی کا سب سے
بڑا انعام حصول جنت ہے، جو آدمی تقوی سے لیس ہوگا،وہ آخرت میں کامیاب ہونے والوں
میں ہوگا اور اسے جنت نصیب ہوگی۔ اللہ نےجابجاقرآن میں اس بات کا ذکر کیا ہےچنانچہ
ایک مقام پرفرمان الہی ہے:
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ
غَيْرَ بَعِيدٍ (ق:31)
ترجمہ:اور جنت پر ہیز گاروں کے لئے بالکل
قریب کردی جائے گی ذرا بھی دور نہ ہوگی۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ
(الرحمن:46)
ترجمہ:اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے
سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں۔
اسی طرح نبی ﷺ نے متعدد احادیث میں تقوی کی
فضیلت کا بیان کیا ہے حتی کہ آپ نے اسے دخول جنت کا سبب قرار دیا ہے، ابوہریرہ رضی
الله عنہ کہتے ہیں:
سُئِلَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ
وسلَّمَ عن أَكْثرِ ما يُدخلُ النَّاسَ الجنَّةَ ؟ فقالَ : تَقوى اللَّهِ وحُسنُ
الخلُقِ، وسُئِلَ عن أَكْثرِ ما يُدخِلُ النَّاسَ النَّارَ، قالَ : الفَمُ
والفَرجُ(صحيح الترمذي:2004)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس
چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو لوگوں کو بکثرت جنت میں داخل کرے گی تو آپ نے
فرمایا: اللہ کا ڈر اور اچھے اخلاق پھر آپ سے اس چیز کے بارے میں سوال کیا گیا جو
لوگوں کو بکثرت جہنم میں داخل کرے گی تو آپ نے فرمایا: منہ اور شرمگاہ۔
تقوی سے متعلق یہ چند اہم فوائد بیان کیا
ہوں جس سے اس کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اب اس کے بعد اختصار سے تقوی
کے مظاہر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس کے فوائدوبرکات جو اوپر بیان کئے گئے
ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔
تقوی کے مظاہر کی بات کی جائے تو ہم یہ
کہتے ہیں کہ ایمان کے سارے شعبے تقوی کے
مظاہر ہیں بلکہ سارے اعمال خیر تقوی میں داخل وشامل ہیں۔ آئیے پہلے ایمان کے شعبوں
سے متعلق حدیث پر نظر ڈالتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الإِيمانُ بضْعٌ وسَبْعُونَ، أوْ بضْعٌ
وسِتُّونَ، شُعْبَةً، فأفْضَلُها قَوْلُ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ، وأَدْناها
إماطَةُ الأذَى عَنِ الطَّرِيقِ، والْحَياءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإيمانِ(صحيح مسلم:35)
ترجمہ:ایمان
کے ستر سے اوپر (یا ساٹھ سے اوپر) شعبے (اجزاء) ہیں۔ سب سے افضل جز لاالہ الا اللہ
کا اقرار ہے اور سب سے چھوٹا کسی اذیت (دینے والی چیز) کو راستے سے ہٹانا ہے اور
حیابھی ایمان کی شاخوں میں سے ایک ہے۔
مذکورہ بالا حدیث میں ایمان کے جن شعبوں کی
بات کی گئی ہے یہ سب تقوی والے اعمال
اوراس کے مظاہر ہیں چنانچہ لاالہ الااللہ
کہنا تقوی ہے، راستے سے موذی چیز کوہٹادینا تقوی ہے اور حیا کرنا بھی تقوی ہے۔امام
ابوبکربیہقی ؒ نے ان ستر شاخوں کا تذکرہ فرمایا ہے جس کے لئے شعب الایمان اوردوسری
کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔تقوی کے بڑے
مظاہر میں سے وہ سارے اعمال بھی
ہیں جو قیامت کے دن عرش الہی کے تلے سایہ پانے کا سبب بننے والے ہیں۔ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ تَعَالَى في
ظِلِّهِ يَومَ لا ظِلَّ إلَّا ظِلُّهُ: إمَامٌ عَدْلٌ، وشَابٌّ نَشَأَ في
عِبَادَةِ اللَّهِ، ورَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ في المَسَاجِدِ، ورَجُلَانِ
تَحَابَّا في اللَّهِ، اجْتَمعا عليه وتَفَرَّقَا عليه، ورَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ
ذَاتُ مَنْصِبٍ وجَمَالٍ فَقالَ: إنِّي أَخَافُ اللَّهَ، ورَجُلٌ تَصَدَّقَ
بصَدَقَةٍ فأخْفَاهَا حتَّى لا تَعْلَمَ شِمَالُهُ ما تُنْفِقُ يَمِينُهُ، ورَجُلٌ
ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ(صحيح البخاري:1423)
ترجمہ: سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ
اپنے (عرش کے) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ انصاف
کرنے والا حاکم، وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو، وہ شخص جس کا
دل ہر وقت مسجد میں لگا رہے، دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں، اسی پر
وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے، ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے
بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ انسان جو صدقہ کرے اور
اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا
اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ
جائیں۔
اس حدیث کی روشنی میں عدل کرنا، نوجوانی
میں عبادت کرنا، مسجد سے دل اٹکا رہنا، اللہ کی محبت میں جمع اور جدا ہونا، برائی
کی دعوت ملنے پر اللہ کا خوف کھانا، چھپاکر صدقہ کرنا اور تنہائی میں اللہ کو یاد
کرکے رونا تقوی کے مظاہر ہیں۔ جو کوئی ان میں سے ایک عمل میں اپنے اندر پیدا کرلے
اس کی نجات کے لئے آخرت میں کافی ہے کیونکہ یہ تقوی کامظہرہے اور تقوی کی بنیاد
پرہی کسی کو نجات ملے گی ۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سات میں سے صرف کوئی ایک کام
کرنا چاہئے، نہیں ہرگز نہیں۔ ایک مومن کو یہ سارے کام کرناہے اور تقوی نام ہے اللہ
کے جمیع اوامر کی بجاآوری اور جمیع منہیات سے رکنے کا۔ صحابہ کرام ایمان کے اعلی
درجات پر فائر تھے، ان کی زندگی میں تقوی شعاری کا پرتو بڑے نمایاں طور پر نظر آتا
ہے ،اس لئے ہمیں اپنے اندر تقوی پیدا کرنے کے لئےجہاں سیرت نبوی پڑھنے کی ضرورت ہے وہیں صحابہ کرام کی
پاکیزہ زندگی کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے،
اس سے ایمان کو مہمیز ملے گی اور عمل وتقوی کا جذبہ بیدار ہوگا۔
دین میں غلو کرنا تقوی نہیں ہےجیساکہ
صوفیاء اور اہل بدعت کرتے ہیں۔ عبادت کے ذریعہ جسم کو تکلیف پہنچانا، غیرمسنون
طریقہ پر اعمال کا ڈھیرلگانا اور جو عمل شریعت محمدمیں نہ ہواسے انجام دینا تقوی
نہیں ہے ۔ دین پر سنت کے مطابق اعتدال ووسطیت سے عمل پیرا ہونا تقوی ہے ۔ صحیح
بخاری میں تین صحابہ کا واقعہ ہے، ان لوگوں نے زیادہ عبادت کرنے کا ارادہ کیا، ایک
یہ نیت کی کہ رات میں نہیں سوئے گا، ایک نے نیت کی وہ مسلسل روزہ رکھتا رہے گا اور
ایک نے نیت کی وہ شادی نہیں کرے گا۔ جب رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے ان
تینوں کو اپنے ارادہ سےمنع کیا اور یہ کہا کہ میں تم لوگوں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے
والاہوں مگر روزہ رکھتا بھی ہوں اور
چھوڑتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہواور شادی بھی کرتا ہوں ۔ پھر آپ نے
عمل میں سنت کی تابعداری کا حکم دیا جیساکہ بخاری کے الفاظ ہیں۔
أَمَا واللَّهِ إنِّي لَأَخْشَاكُمْ
لِلَّهِ وأَتْقَاكُمْ له، لَكِنِّي أصُومُ وأُفْطِرُ، وأُصَلِّي وأَرْقُدُ، وأَتَزَوَّجُ
النِّسَاءَ، فمَن رَغِبَ عن سُنَّتي فليسَ مِنِّي( صحيح البخاري:5063)
ترجمہ:سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب
العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار
ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں (رات میں)
اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ «فمن رغب عن سنتي فليس مني»
میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔
گویا معلوم یہ ہوا کہ سنت کے مطابق عمل
کرنے کا نام تقوی ہے ، خودساختہ طریقوں پر چلنا، دین میں حد سے تجاوز اور غلو کرنا
اور بدعتی راستوں پر چلنا تقوی نہیں ہے۔
اللہ رب العالمین کا شکر واحسان ہے کہ اس
نے ہمیں تقوی سے متصف ہونے سے کے لئے باضابطہ طورپر ایک ماہ کا پاکیزہ کورس مہیا
فرمایا ہے ، وہ رمضان المبارک کا ایک مہینہ ہے جس میں آدمی روزہ رکھ کر اور نوع
بنوع تقوی کے اعمال انجام دے کر اللہ کا پرہیزگار بندہ بن جاتا ہے،اللہ تعالی کا
فرمان ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ
الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(البقرة: 183)
ترجمہ:اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض
کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے روزہ کو تقوی
پیداکرنے کا ذریعہ بتایا ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روزہ حصول تقوی کا ایک اہم
ترین ذریعہ ہے ، جو ایک ماہ خلوص وللہیت کے ساتھ روزہ رکھ لے وہ اللہ کی توفیق سے
متقی وپرہیزگار بن جائے گا۔ جس کے اندر تقوی پیدا ہوجاتا ہے وہ متقی کہلاتا ہے ،
ایسا آدمی اللہ کا ولی کہلاتا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا
خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ، الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا
يَتَّقُونَ، لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ
لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (یونس:62-64)
ترجمہ:یاد رکھو کے اللہ کے اولیاء(دوستوں)
پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور
(برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ ان کے لئے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی
خوشخبری ہے، اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کچھ فرق ہوا نہیں کرتا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔
یہاں پر اللہ نے اپنے اولیاء کی پہچان
بتائی ہے اور ان کے لئے انعام کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ اللہ کے ولی کی پہنچان یہ ہے
کہ وہ اللہ پر ایمان لانے والا اور تقوی والا ہو۔ گویا رمضان حصول خیرکا سنہرا
موقع ہے، اس سےفائدہ اٹھاکر آدمی
پرہیزگاری اور اللہ کا قرب وولایت حاصل کرسکتا ہے ۔ جو پرہیزگاری اور قرب حاصل
کرلے اللہ اس کا ولی بن جاتا ہے۔ جیساکہ رب فرماتا ہے: وَاللَّهُ وَلِيُّ
الْمُتَّقِينَ (الجاثیۃ:19)
ترجمہ:
اور اللہ متقیوں کا ولی ہے۔
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے
اوامر کی بجاوی اور اس کی منہیات سے بچنا تقوی ہے اور یہ تقوی محمد ﷺ کی سنت کے
مطابق دین پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔تقوی کے مظاہر میں ایمان کی جمیع شاخیں حتی
ایمان کے سارے کام اور خیروبھلائی کے تمام اعمال
شامل ہیں۔ آج کے پرفتن دور میں لوگوں کے دل سے اللہ کا ڈر وخوف نکل گیاہے، لوگ برائی کے معاملہ میں اس قدر جری
ہوگئے کہ اپنے مالک ومولی کا ذرہ برابرڈر نہیں ہوتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے ، اپنے
عمل کی قبولیت کے لئے اور آخرت میں نجات پانے کے لئے اپنے دل میں خوف الہی پیدا
کریں اور ہرایک معاملہ میں اللہ کی رضا تلاشتے ہوئے اسے سنت رسول کے مطابق انجام
دیں ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔