Sunday, March 2, 2025

بغیرعذر کے دونمازوں کو جمع کرنے کا حکم

 بغیرعذر کے دونمازوں کو جمع کرنے کا حکم

تحریر: مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب


سفر، مرض ، بارش اور خوف کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے، اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف نہیں ہے لیکن اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ بغیر عذر کے حالت اقامت میں دونمازوں کو جمع کرسکتے ہیں یا نہیں؟

چنانچہ بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ حضر میں بغیر عذر کے دونمازوں کو جمع کرسکتے ہیں ، ان کی دلیل صحیح مسلم کی مندرجہ ذیل حدیث ہے۔

امام مالک ؒ نے ابو زبیر سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا:

صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا، والمغرب والعشاء جميعا، في غير خوف، ولا سفر(صحیح مسلم:705)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھا اور مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا کسی خوف اور سفر کے بغیر۔

اس حدیث میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے دونمازوں کو(غير خوف، ولا سفر) بغیر خوف وسفر کے اور بعض روایت میں (من غير خوف ولا مطر) بغیر کسی خوف اور بارش کے جمع کیا۔ بظاہر یہاں پر دونمازوں کو جمع کرنے سے متعلق کوئی عذر مذکور نہیں ہے اس لئے بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ حضر میں ںغیرعذر کے دو نمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنایا جائے جبکہ جمہور کا موقف یہ ہے کہ بغیرعذر کے دونمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ دلائل کی روشنی میں جمہور کا موقف قوی معلوم ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے پانچ وقتوں کی نمازوں کے لئے اللہ تعالی نے الگ الگ وقت مقرر کیا ہے، ان تمام نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا فرض ہے اس لئے بغیرعذر کے دونمازوں کو جمع جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا (النساء:103)

ترجمہ: یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔

جہاں تک صحیح مسلم کی مذکورہ بالا حدیث کا معاملہ ہے تو جب اس حدیث سے متعلق وارد دیگر احادیث کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث بھی عذر سے متعلق ہے چنانچہ صحیح مسلم میں باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ(باب: اقامت میں دو نمازوں کو جمع کرنا) کے تحت جہاں مذکورہ بالا حدیث ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اکٹھا پڑھا اور مغرب اور عشاء کو اکھٹا پڑھا کسی خوف اور سفر کے بغیر"۔ وہیں پر امام مسلم نے کئی اور احادیث درج فرمائی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دونمازوں کو جمع کرنا عذر کے سبب تھا ۔ آئیے وہ احادیث دیکھتے ہیں ۔

ایک حدیث: زہیر نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے سعید بن جبیر سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا:

صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا سَفَرٍ "، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: فَسَأَلْتُ سَعِيدًا: لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ(صحیح مسلم:705)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو مدینہ میں کسی خوف اور سفر کے بغیر جمع کرکے پڑھا۔ ابوزبیر نے کہا: میں نے (ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد) سعید سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیاتھا؟ا نھوں نےجواب دیا: میں بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیاتھا جیسے تم نے مجھ سے سوال کیا ہے تو انھوں نے کہا: آپ نے چاہا کہ اپنی امت کے کسی فرد کو تنگی اور دشواری میں نہ ڈالیں۔

اس حدیث میں راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما خود ہی بیان کرتے ہیں کہ امت کی دشواری کو دور کرنے کے لئے آپ ﷺ نے نمازوں کو جمع کیا۔ اگر عذر کے باعث دونمازوں کو جمع کرنے کی آسانی نہ ہوتی تو امت کو حرج ہوتا۔ شیخ ابن باز ؒ نے یہی فرمایا ہے کہ (لئلا يحرج أمته) سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے لاحق ہونے والی کسی مشقت کے سبب خواہ مرض یا شدید ٹھنڈی یا کیچڑ جیسی کوئی مشقت کے سبب نمازوں کو جمع کیا۔ شیخ ابن عثیمین ؒ نے بھی مذکورہ بالا حدیث کے درس میں بتایا ہے کہ جن لوگوں نے بغیرعذر کے دونمازوں کو کبھی کبھار جمع کرنا جائز قرار دیا ہے وہ غلط ہیں اور اسی طرح رافضی جو دونمازوں کو بغیرعذر کے ہمیشہ پڑھنا جائز قرار دیتے ہیں وہ بھی غلط ہیں اور صحیح یہ ہے کہ نمازوں کا جمع کرنا عذر کے باعث جائز ہے کیونکہ راوی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سبب پوچھا گیا تو آپ نے بتایا (أراد أن لا يحرج أمته) تاکہ امت کو حرج لاحق نہ ہو۔

اسی طرح صحیح مسلم کی دوسری حدیث دیکھیں۔

قزہ بن خالد نے کہا: ہمیں ابو زبیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سعید بن جبیر نے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہمیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی:

أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاةِ فِي سَفْرَةٍ سَافَرَهَا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ "، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أُمَّتَهُ.(صحیح مسلم:705)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے دوران ایک سفر میں نمازوں کو جمع کیا، ظہراورعصر کو اکٹھا پڑھا اور مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا۔ سعید نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انھوں نے کہا: آپ نے چاہا اپنی امت کو حرج (اور تنگی) میں نہ ڈالیں۔

دونمازوں سے متعلق یہ وہی مشہور حدیث ہے جس میں سفر کا ذکر ہے کہ نبی ﷺ نے سفر کے موقع پر دونمازوں کو جمع کیا تاکہ امت کو حرج نہ ہو۔ اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث تو سفر سے متعلق ہے جبکہ بغیر عذر والی حدیث تو مدینہ سے متعلق ہے۔ اس پر میرا یہ عرض کرنا ہے کہ اس حدیث کا تعلق بھی بغیرعذر والی حدیث سے ہے تبھی تو اس حدیث کو بھی صحیح مسلم میں باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ کے تحت لائی گئی ہے بلکہ ابوداؤ کی ایک حدیث دیکھیں تو مسئلہ اور بھی واضح ہوجاتا ہے ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ"، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: أَرَى ذَلِكَ كَانَ فِي مَطَرٍ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ نَحْوَهُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، وَرَوَاهُ قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، قَالَ: فِي سَفْرَةٍ سَافَرْنَاهَا إِلَى تَبُوكَ.(سنن ابي داود:1210، صححہ البانی)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کسی خوف اور سفر کے ظہر اور عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ادا کیا۔ مالک کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ایسا بارش میں ہوا ہوگا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن سلمہ نے مالک ہی کی طرح ابوالزبیر سے روایت کیا ہے، نیز اسے قرہ بن خالد نے بھی ابوالزبیر سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ یہ ایک سفر میں ہوا تھا جو ہم نے تبوک کی جانب کیا تھا۔

یہ وہی مشہورحدیث ہے جس سے متعلق راوی کے الگ الگ خیالات ہیں۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ دونمازوں کا جمع کرنا بارش کے سبب تھا اور ابوالزبیر کہتے ہیں کہ تبوک کے سفر کے موقع سے تھا۔ امام مالک کی جو رائے ہے اس سے متعلق صحیح بخاری میں ایک حدیث بھی پائی جاتی ہے۔

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے۔ انہوں نے جابر بن زید سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے:

أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ"، فَقَالَ أَيُّوبُ: لَعَلَّهُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، قَالَ: عَسَى(صحيح البخاري:543)

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات (ایک ساتھ) اور آٹھ رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں۔

ظہر اور عصر (کی آٹھ رکعات) اور مغرب اور عشاء (کی سات رکعات) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہوگا۔

اب صحیح مسلم کے مذکورہ باب کے تحت ایک تیسری حدیث دیکھتے ہیں۔

سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے، انھوں نے (ابوشعشاء) جابر بن زید سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا:

صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَمَانِيًا جَمِيعًا، وَسَبْعًا جَمِيعًا، قُلْتُ: يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ، " أَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ، وَعَجَّلَ الْعَصْرَ، وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ؟ قَالَ: وَأَنَا أَظُنُّ ذَاكَ (صحیح مسلم:705)

ترجمہ:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعات (ظہر اورعصر) اکھٹی اور سات رکعات (مغرب اور عشاء) اکھٹی پڑھیں۔ (عمرو نے کہا) میں نے ابوشعشاء (جابر بن زید) سے کہا کہ میرا خیال ہے آپ نے ظہر کو موخر کیا اور عصر جلدی پڑھی اور مغرب کو موخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔ انھوں نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے دونمازوں کو جمع کیا مگر یہ جمع حقیقی نہیں بلکہ جمع صوری تھا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ایک نماز کو آخری وقت پر ادا کرنا اور دوسری نماز کو اول وقت پر گویا دونوں نمازیں اپنے اپنے اوقات میں ہی پڑھی گئیں۔

آپ مذکورہ بالا احادیث پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دونمازوں کو جمع والی تمام احادیث کو ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں اور جس حدیث میں بغیرعذر کے نمازوں کو جمع کرنے کی بات مذکور ہے وہ ایک حدیث ہے ، اور اس سے متعلق مزید کئی احادیث ملتی ہیں جن کو جمع کرنے سے کم ازکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے بلاسبب دونمازوں کو جمع نہیں کیا تھا۔ آپ نے کسی عذر کے تحت ہی جمع کیا تھا خواہ بارش ہو، یا سفر ہو یا مرض ہو جیساکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے اور مذکورہ بالا احادیث سے بھی یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس نے دونمازوں کو جمع کیا ہے وہ خود بھی دونمازوں کو عذر کے باعث ہی جمع کرتے تھے اور وہ دلیل کے طور پر رسول اللہ ﷺ کا وہی عمل پیش کرتے تھے۔ آئیے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا دونمازوں کے جمع کرنے کا عمل دیکھتے ہیں تاکہ مسئلہ اور بھی واضح ہوجائے ۔

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

أَنَّهُ صَلَّى بِالْبَصْرَةِ الْأُولَى وَالْعَصْرَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ شُغْلٍ، وَزَعَمَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّهُ" صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْأُولَى وَالْعَصْرَ ثَمَانِ سَجَدَاتٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ(سنن نسائي:591، صححہ البانی)
ترجمہ: انہوں نے بصرہ میں پہلی نماز (ظہر) اور عصر ایک ساتھ پڑھی، ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، انہوں نے ایسا کسی مشغولیت کی بناء پر کیا، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ انہوں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز (ظہر) اور عصر آٹھ رکعتیں پڑھی، ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز فاصل نہیں تھی۔

اس حدیث میں ذکر ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مشغولیت کی وجہ سے دونمازوں کو جمع کیا اور دلیل میں رسول اللہ ﷺ کا وہی عمل بیان کیا۔ اب بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ حضر میں دونمازوں کے جمع کرنے کا معاملہ بغیرعذر کے نہیں ہے ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ (حضر)حالت اقامت میں بغیر عذر کے دونمازوں کو جمع نہیں کیا جائے گابلکہ تمام نمازوں کو اپنے اپنے مقررہ وقت پر ادا کیا جائے گا جیساکہ اللہ کا فرمان ہے اور نبی ﷺ نے جن دونمازوں کو جمع کرکے ادا کیا تھا وہ رفع حرج کے لئے تھا اور کسی شرعی عذر کے باعث تھا اس بناپر اگر حضر میں عذرپیش آجائے مثلا کیچڑوالی بارش ہو یا خوف ہو یا مرض ہو تو دونمازوں کوجمع کیا جاسکتا ہے مگر بغیر عذر کے حضر میں دو نمازوں کو جمع نہیں کیا جائے گا۔ شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بغیر عذر کے حضرت میں نماز جمع کرنا اہل سنہ کا طریقہ نہیں ہے اس لئے اگر کوئی بغیر عذر کے حضر میں دو نماز کو جمع کرے وہ گنہگار ہوگا۔ رافضی لوگ بغیرعذد کے دونمازوں کو جمع کرتے ہیں اور پانچ نمازوں کو تین اوقات میں ادا کرتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔