عورت کے چہرے کا شرعی نقاب
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
اس وقت ہم لوگ حد سے زیادہ پرفتن دور میں
جی رہے ہیں ، ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔ اس بات کی خبرہمیں محمد ﷺ
نے پہلے ہی دیدی تھی، چنانچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً
أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ( صحيح البخاري:5096)
ترجمہ:میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔
جب عورتوں کا معاملہ مردوں کے حق میں اس قدرسنگین اور فتنہ کا سبب ہے پھر ہمیں اس معاملہ میں بیحد محتاط رہنا چاہئےمگر جب معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں توغیروں کی طرح ، مسلم عورتیں بھی بے پردگی، بے حیائی ، جنسی انارکی ، اباحیت پسندی ، اختلاط کے ساتھ رونق محفل اور بازار کی زینت بنی ہوئی ہیں جیسے معلوم پڑتا ہے کہ مسلم و غیرمسلم عورت میں امتیاز مٹ گیا ہے۔الحفظ والاماں
عورت سرتاپیرپردے کا سامان ہے، اسے ضرورت کے وقت ہی گھر سے نکلنا ہے اور اگرگھر سے نکلتی بھی ہے تو اسے مکمل ساتراور سادہ لباس میں باہر نکلنا ہے۔ شیطان ہمیشہ موقع کی تلاش میں ہوتا ہے ، جب عورت گھر سے نکلتی ہے اس وقت شیطان کو فتنہ پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا ہے ۔اس بارے میں نبی ﷺ کے ایک فرمان پر غور فرمائیں، آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
المرأةُ عورةٌ فإذا خرجتِ استشرفَها الشَّيطانُ(صحيح الترمذي:1173)
ترجمہ:عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔
اس فتنہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنیادی مسئلہ یہ جان لیا جائے کہ اسلام میں عورتوں کے چہرہ کا پردہ واجب ہے، یہ کوئی مستحب عمل نہیں ہے کہ عورت چاہے توپردہ کرے اور نہ چاہے تو پردہ نہ کرےبلکہ ہرایک مسلم بالغ عورت پراجنبی مرد سے پورے جسم اور اپنے چہرہ کا پردہ کرنا واجب ہے ۔ عہدرسول کی خواتین گھر سے نکلتے وقت عمومی طور پر جلباب لگاکر گھر سے باہر نکلتی تھیں ۔جلباب ایک بڑی چادر کو کہتے ہیں جو سرتا پیرڈھک دیتا ہے۔ عید کی نماز سے متعلق ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺنے انہیں عورتوں کو عیدگاہ لے کر نکلنے کا حکم دیا تھا، اس حدیث میں ہے۔
قالتِ امْرَأَةٌ: يا رَسولَ اللَّهِ إحْدَانَا ليسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِن جِلْبَابِهَا(صحيح البخاري:351)
ترجمہ: ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر(جلباب) نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر (جلباب)کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔
اسی جلباب کا ذکر واقعہ افک میں ہے ۔ اس واقعہ کا ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں جب ایک غزوہ میں ان کا ہارگم ہوگیاتھا، قافلہ کوچ کرگیا ہے اور وہ اپنے پڑاؤ کی جگہ آرام فرمارہی تھیں، اتنے میں حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ آئے پھرام المومنین بیان فرماتی ہیں:
فَرَأَى سَوَادَ إنْسَانٍ نَائِمٍ فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وكانَ رَآنِي قَبْلَ الحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ باسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي، فَخَمَّرْتُ وجْهِي بجِلْبَابِي، ووَاللَّهِ ما تَكَلَّمْنَا بكَلِمَةٍ، ولَا سَمِعْتُ منه كَلِمَةً غيرَ اسْتِرْجَاعِهِ( صحيح البخاري:4141)
ترجمہ: انہوں نے ایک سوئے انسان کا سایہ دیکھا اور جب (قریب آکر) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فوراً اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! میں نے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ سوا اناللہ کے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ سنا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے جلباب سے اپنا چہرہ چھپالیا تاکہ صفوان رضی اللہ عنہ آپ کا چہرہ نہ دیکھ سکیں گویا گھر سے باہر جلباب لگاکر نکلنے اور اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کا عہدرسول میں خواتین کا معمول تھابلکہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے گھر سے نکلتے وقت عورتیں برقع و نقاب اور دستانہ بھی لگاتی تھیں اسی لئے نبی ﷺ نے عورتوں کو احرام میں نقاب اور دستانہ لگانے سے منع فرمایا ہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں:ولَا تَنْتَقِبِ المَرْأَةُ المُحْرِمَةُ، ولَا تَلْبَسِ القُفَّازَيْنِ(صحيح البخاري:1838)
ترجمہ: اوراحرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔
یہاں جس نقاب کا ذکر ہوا ہے دراصل اسی نقاب کی وضاحت کے لئے یہ تحریر لکھی گئی ہے جبکہ سطوربالا کا تعلق نقاب کو سمجھنے میں معاون تمہیدسے ہے ۔
نقاب(نون کے زیرکےساتھ): یہ لفظ نقب سے بناہےاور نقب سوراخ کوکہتے ہیں اور نقاب کہتے ہیں ایسے کپڑےکوجس سے عورت اپنے چہرہ کا پردہ کرے، اس میں دونوں آنکھوں کی جگہ دیکھنے کے لئے سوراخ ہوتا ہے اسی وجہ سے اسے نقاب کہاجاتا ہے۔ نقاب چہرے کی ساخت کا ہوتا ہے اور اس سے چہرہ کا پردہ کرنا مقصد ہوتا ہے ۔ اسی کو برقع بھی کہاجاتا ہے۔ احرام والی حدیث میں نقاب کا ذکر اس بات کی صریح دلیل ہے کہ عورتیں اپنے چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں اسی لئے نقاب کا استعمال کرتی تھیں ، ورنہ نقاب لگانے کی ضرورت کیا تھی گویا اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جوچہرے کے پردہ کے قائل نہیں ہیں۔
نقاب عبایا کی طرح بڑالباس نہیں ہے جس سے جسم کا پردہ کیا جائے بلکہ یہ ایک چھوٹا کپڑا ہے جس سے صرف چہرے کا پردہ کیا جاتا ہے ، اس میں دونوں آنکھوں کی جگہ آنکھ کے بقدردیکھنے کے لئے سوراخ ہوتا ہے۔
آج کل نقاب کے سلسلے میں مسلمان عورتوں میں بڑی تساہلی اور بے اعتدالی پائی جاتی ہے ۔ ایک تو پہلے سے برقع کے نام پر فیشن والے لباس چل رہے تھے جس میں پردہ کم، فتنہ زیادہ نظر آتا ہے ۔ اب اس کے ساتھ چہرے کے نقاب میں فیشن کے ساتھ بے اعتدالی وبے حجابی نظر آتی ہے۔ نقاب میں فیشن یہ ہے کہ لڑکیاں ایسے نقاب پہن رہی ہیں جس پر موٹے حروف میں ماشاء اللہ لکھا ہوتا ہے یا کسی پر کلمہ یا کسی پر نام یا پھربھڑکیلے نقش ونگار بنے ہوتے ہیں ۔ اور نقاب میں بے اعتدالی وبے حجابی کی صورت یہ پائی جاتی ہے کہ اب نقاب نہیں نوزپیس(ماسک) چل رہا ہے یعنی جیسے ناک اورمنہ کو وائرس سے حفاظت کے لئے ماسک لگایا جاتا ہے اسی طرح نقاب لگایا جاتا ہے جس سے مکمل چہرے کا پردہ نہیں ہوتا ۔ اس میں پیشانی ، آنکھوں سے زائد حصہ،رخساراور ناک کا کچھ حصہ نظر آتا ہے ۔ یہ لباس شرعی نقاب ہرگز نہیں کہلائے گا۔
شرعی نقاب کی صفت یہ ہے کہ وہ لباس پیشانی، رخسار اور ناک سمیت مکمل چہرے کو ڈھکنے والا ہو، اس میں صرف آنکھوں کے بقدر دیکھنے کی ضرورت کے لئے سوراخ ہو۔ اگر نقاب میں سوراخ اس قدر بڑا ہو کہ پیشانی ، رخسار ، ناک اور چہرے کا حصہ نظر آتا ہوتو وہ نقاب نہیں ہے ۔اسی طرح فیشن والا نقاب ہو یانقش ونگار والا اور بھڑکیلانقاب ہویا اس پر ماشاء اللہ لکھا ہویا آنکھوں میں سرمہ اور خوبصورت چشمہ لگاکرنقاب لگایا گیا ہو وہ نقاب، نقاب نہیں ، خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔ شریعت میں حجاب کا مقصد دل ونظر کی حفاظت اور تقوی وپرہیزگاری کا حصول ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ(الاحزاب:53)
ترجمہ:جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب
کرو تو تم پردے کے پیچھے سے طلب کرو، تمہارے اور ان کے دلوں کیلئے کامل پاکیزگی
یہی ہے۔
جب عورت فیشن کے طورپرنقاب لگائے یا نقاب کے نام پر چہرے کی خوبصورتی ظاہرکرے وہ عورت خواہشات کے مرض میں مبتلا ہے اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خواہشات کی پیروی کا انجام بھیانک ہے ۔ اس بارے میں بہت سارے نصوص ہیں مگر عبرت ونصیحت کے لئے فقط دوآیات کے ذکرپر اکتفا کرتا ہوں ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ (ص:26)
ترجمہ: اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا(الفرقان:43)
ترجمہ: کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور
کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہو، کیا تم ایسے شخص کو راہ
راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟
میں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اس تحریر کو لکھنے کا محررک بعض وہ خواتین ہیں جو بڑے ذوق و شوق سے دینی بیانات کے ویڈیوزبنواتی ہیں جو غیرشرعی نقاب پہنی ہوتی ہیں۔ ماشاء اللہ کثرت سے امہات المومنین، صحابیات اور صالح خواتین کی سیرت پہ بیانات دیتی ہیں مگر خود ان پاکباز ہستیوں کے پردہ سے سبق حاصل نہیں کرتیں۔ مجھے زیادہ افسوس اس وجہ سے بھی ہے کہ نوجوان لڑکیاں ان داعیات کو فالو کرتی ہیں اور ان کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں غلط نقاب کررہی ہیں۔
عورتوں کے لئے ویڈیوز بنانے میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ہرگز اپنے بیانات کے ویڈیوز نہیں بنانا چاہئے کیونکہ اس میں فتنہ ہے اور عورتوں کا فتنہ دنیا میں سب سے بڑا فتنہ ہے، یہ بات حدیث رسول سے واضح ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی عورت راہ چلتے ہوئے غیرشرعی نقاب لگاکر نکلے حتی کہ چہرہ کھول کر کسی مرد کے بغل سے گزر جائے اس سے بھی بھیانک فتنہ ویڈیوز میں غیرشرعی نقاب لگانا ہے کیونکہ ویڈیوہمیشہ کے لئے بن جاتی ہے اور وہ ہزاروں لاکھوں میں نشر ہوتی ہے پھر ویڈیومیں عورت کی بے پردگی بہت قریب سے، کثرت سے اور تسلسل کے ساتھ دیکھی جاتی ہے۔
بہت افسوس کا مقام ہے کہ غیروں کی نقالی اور فیشن پرستی میں مسلم عورتیں کدھر جارہی ہیں، انہیں کیا ہوگیا ہے؟ یہ عورتیں امہات المومنین کا حوالہ دے کر پردہ کرتی ہیں مگر کیا وہ ان کی طرح پردہ کرتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ نام تو امہات المومنین کالیا جاتا ہے اور پردہ خواہشات نفس کے مطابق ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ عورت کا چہرہ مردوں کے لئے سب سے زیادہ رغبت کی چیز ہے اس لئے اس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ عورت جو چہرے کا پردہ نہیں کرتی یا پردے کے نام پر بے اعتدالی کرتی ہے، اسے نبی ﷺ کا یہ فرمان پڑھنا چاہئے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: زِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، والنَّفْسُ تَمَنَّى وتَشْتَهِي، والفَرْجُ يُصَدِّقُ ذلكَ أوْ يُكَذِّبُهُ(صحيح البخاري:6612)
ترجمہ: آنکھوں کا زنا (غیرمحرم) کو دیکھنا
ہے، زبان کا زنا غیرمحرم سے گفتگو کرنا ہے، دل کا زنا خواہش اور شہوت ہے اور
شرمگاہ اس کی تصدیق کردیتی ہے یا جھٹلا دیتی ہے ۔
میری پیاری بہنو! آپ پردے کا مقصد سمجھیں اور شرعی طور پر پردہ کریں تاکہ آپ کی حفاظت بھی ہو، اس عمل پہ اجر بھی ملے اور آخرت میں آپ کا مقام بلند ہو۔ یاد رکھو، اگر آپ نے مائلات ممیلات کی صفت اپنائی تو آخرت میں انجام بہت برا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا(صحيح مسلم:2128)
ترجمہ:وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔
اس لئے خواہشات نفس کو شریعت کے حوالے کردو اور اسلام پر اپنی مرضی سے نہیں ، اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق عمل کرو۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :لايؤمنُ أحدُكم حتَّى يَكونَ هواهُ تبعًا لمَّا جئتُ بِهِ(الأربعون النووية:41، وقال النووی حسن صحیح)
ترجمہ:تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو
سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات اس کے تابع ہوجائیں جو میں آیا ہوں۔
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
ترجمہ:میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔
جب عورتوں کا معاملہ مردوں کے حق میں اس قدرسنگین اور فتنہ کا سبب ہے پھر ہمیں اس معاملہ میں بیحد محتاط رہنا چاہئےمگر جب معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں توغیروں کی طرح ، مسلم عورتیں بھی بے پردگی، بے حیائی ، جنسی انارکی ، اباحیت پسندی ، اختلاط کے ساتھ رونق محفل اور بازار کی زینت بنی ہوئی ہیں جیسے معلوم پڑتا ہے کہ مسلم و غیرمسلم عورت میں امتیاز مٹ گیا ہے۔الحفظ والاماں
عورت سرتاپیرپردے کا سامان ہے، اسے ضرورت کے وقت ہی گھر سے نکلنا ہے اور اگرگھر سے نکلتی بھی ہے تو اسے مکمل ساتراور سادہ لباس میں باہر نکلنا ہے۔ شیطان ہمیشہ موقع کی تلاش میں ہوتا ہے ، جب عورت گھر سے نکلتی ہے اس وقت شیطان کو فتنہ پھیلانے کا زیادہ موقع ملتا ہے ۔اس بارے میں نبی ﷺ کے ایک فرمان پر غور فرمائیں، آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
المرأةُ عورةٌ فإذا خرجتِ استشرفَها الشَّيطانُ(صحيح الترمذي:1173)
ترجمہ:عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔
اس فتنہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے بنیادی مسئلہ یہ جان لیا جائے کہ اسلام میں عورتوں کے چہرہ کا پردہ واجب ہے، یہ کوئی مستحب عمل نہیں ہے کہ عورت چاہے توپردہ کرے اور نہ چاہے تو پردہ نہ کرےبلکہ ہرایک مسلم بالغ عورت پراجنبی مرد سے پورے جسم اور اپنے چہرہ کا پردہ کرنا واجب ہے ۔ عہدرسول کی خواتین گھر سے نکلتے وقت عمومی طور پر جلباب لگاکر گھر سے باہر نکلتی تھیں ۔جلباب ایک بڑی چادر کو کہتے ہیں جو سرتا پیرڈھک دیتا ہے۔ عید کی نماز سے متعلق ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺنے انہیں عورتوں کو عیدگاہ لے کر نکلنے کا حکم دیا تھا، اس حدیث میں ہے۔
قالتِ امْرَأَةٌ: يا رَسولَ اللَّهِ إحْدَانَا ليسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِن جِلْبَابِهَا(صحيح البخاري:351)
ترجمہ: ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر(جلباب) نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر (جلباب)کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔
اسی جلباب کا ذکر واقعہ افک میں ہے ۔ اس واقعہ کا ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں جب ایک غزوہ میں ان کا ہارگم ہوگیاتھا، قافلہ کوچ کرگیا ہے اور وہ اپنے پڑاؤ کی جگہ آرام فرمارہی تھیں، اتنے میں حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ آئے پھرام المومنین بیان فرماتی ہیں:
فَرَأَى سَوَادَ إنْسَانٍ نَائِمٍ فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي، وكانَ رَآنِي قَبْلَ الحِجَابِ، فَاسْتَيْقَظْتُ باسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي، فَخَمَّرْتُ وجْهِي بجِلْبَابِي، ووَاللَّهِ ما تَكَلَّمْنَا بكَلِمَةٍ، ولَا سَمِعْتُ منه كَلِمَةً غيرَ اسْتِرْجَاعِهِ( صحيح البخاري:4141)
ترجمہ: انہوں نے ایک سوئے انسان کا سایہ دیکھا اور جب (قریب آکر) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فوراً اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! میں نے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ سوا اناللہ کے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ سنا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے جلباب سے اپنا چہرہ چھپالیا تاکہ صفوان رضی اللہ عنہ آپ کا چہرہ نہ دیکھ سکیں گویا گھر سے باہر جلباب لگاکر نکلنے اور اجنبی مردوں سے چہرہ چھپانے کا عہدرسول میں خواتین کا معمول تھابلکہ بعض دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے گھر سے نکلتے وقت عورتیں برقع و نقاب اور دستانہ بھی لگاتی تھیں اسی لئے نبی ﷺ نے عورتوں کو احرام میں نقاب اور دستانہ لگانے سے منع فرمایا ہے۔آپ ﷺ فرماتے ہیں:ولَا تَنْتَقِبِ المَرْأَةُ المُحْرِمَةُ، ولَا تَلْبَسِ القُفَّازَيْنِ(صحيح البخاري:1838)
ترجمہ: اوراحرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔
یہاں جس نقاب کا ذکر ہوا ہے دراصل اسی نقاب کی وضاحت کے لئے یہ تحریر لکھی گئی ہے جبکہ سطوربالا کا تعلق نقاب کو سمجھنے میں معاون تمہیدسے ہے ۔
نقاب(نون کے زیرکےساتھ): یہ لفظ نقب سے بناہےاور نقب سوراخ کوکہتے ہیں اور نقاب کہتے ہیں ایسے کپڑےکوجس سے عورت اپنے چہرہ کا پردہ کرے، اس میں دونوں آنکھوں کی جگہ دیکھنے کے لئے سوراخ ہوتا ہے اسی وجہ سے اسے نقاب کہاجاتا ہے۔ نقاب چہرے کی ساخت کا ہوتا ہے اور اس سے چہرہ کا پردہ کرنا مقصد ہوتا ہے ۔ اسی کو برقع بھی کہاجاتا ہے۔ احرام والی حدیث میں نقاب کا ذکر اس بات کی صریح دلیل ہے کہ عورتیں اپنے چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں اسی لئے نقاب کا استعمال کرتی تھیں ، ورنہ نقاب لگانے کی ضرورت کیا تھی گویا اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جوچہرے کے پردہ کے قائل نہیں ہیں۔
نقاب عبایا کی طرح بڑالباس نہیں ہے جس سے جسم کا پردہ کیا جائے بلکہ یہ ایک چھوٹا کپڑا ہے جس سے صرف چہرے کا پردہ کیا جاتا ہے ، اس میں دونوں آنکھوں کی جگہ آنکھ کے بقدردیکھنے کے لئے سوراخ ہوتا ہے۔
آج کل نقاب کے سلسلے میں مسلمان عورتوں میں بڑی تساہلی اور بے اعتدالی پائی جاتی ہے ۔ ایک تو پہلے سے برقع کے نام پر فیشن والے لباس چل رہے تھے جس میں پردہ کم، فتنہ زیادہ نظر آتا ہے ۔ اب اس کے ساتھ چہرے کے نقاب میں فیشن کے ساتھ بے اعتدالی وبے حجابی نظر آتی ہے۔ نقاب میں فیشن یہ ہے کہ لڑکیاں ایسے نقاب پہن رہی ہیں جس پر موٹے حروف میں ماشاء اللہ لکھا ہوتا ہے یا کسی پر کلمہ یا کسی پر نام یا پھربھڑکیلے نقش ونگار بنے ہوتے ہیں ۔ اور نقاب میں بے اعتدالی وبے حجابی کی صورت یہ پائی جاتی ہے کہ اب نقاب نہیں نوزپیس(ماسک) چل رہا ہے یعنی جیسے ناک اورمنہ کو وائرس سے حفاظت کے لئے ماسک لگایا جاتا ہے اسی طرح نقاب لگایا جاتا ہے جس سے مکمل چہرے کا پردہ نہیں ہوتا ۔ اس میں پیشانی ، آنکھوں سے زائد حصہ،رخساراور ناک کا کچھ حصہ نظر آتا ہے ۔ یہ لباس شرعی نقاب ہرگز نہیں کہلائے گا۔
شرعی نقاب کی صفت یہ ہے کہ وہ لباس پیشانی، رخسار اور ناک سمیت مکمل چہرے کو ڈھکنے والا ہو، اس میں صرف آنکھوں کے بقدر دیکھنے کی ضرورت کے لئے سوراخ ہو۔ اگر نقاب میں سوراخ اس قدر بڑا ہو کہ پیشانی ، رخسار ، ناک اور چہرے کا حصہ نظر آتا ہوتو وہ نقاب نہیں ہے ۔اسی طرح فیشن والا نقاب ہو یانقش ونگار والا اور بھڑکیلانقاب ہویا اس پر ماشاء اللہ لکھا ہویا آنکھوں میں سرمہ اور خوبصورت چشمہ لگاکرنقاب لگایا گیا ہو وہ نقاب، نقاب نہیں ، خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔ شریعت میں حجاب کا مقصد دل ونظر کی حفاظت اور تقوی وپرہیزگاری کا حصول ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ(الاحزاب:53)
جب عورت فیشن کے طورپرنقاب لگائے یا نقاب کے نام پر چہرے کی خوبصورتی ظاہرکرے وہ عورت خواہشات کے مرض میں مبتلا ہے اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خواہشات کی پیروی کا انجام بھیانک ہے ۔ اس بارے میں بہت سارے نصوص ہیں مگر عبرت ونصیحت کے لئے فقط دوآیات کے ذکرپر اکتفا کرتا ہوں ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ (ص:26)
ترجمہ: اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی ۔
ایک دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا(الفرقان:43)
میں بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اس تحریر کو لکھنے کا محررک بعض وہ خواتین ہیں جو بڑے ذوق و شوق سے دینی بیانات کے ویڈیوزبنواتی ہیں جو غیرشرعی نقاب پہنی ہوتی ہیں۔ ماشاء اللہ کثرت سے امہات المومنین، صحابیات اور صالح خواتین کی سیرت پہ بیانات دیتی ہیں مگر خود ان پاکباز ہستیوں کے پردہ سے سبق حاصل نہیں کرتیں۔ مجھے زیادہ افسوس اس وجہ سے بھی ہے کہ نوجوان لڑکیاں ان داعیات کو فالو کرتی ہیں اور ان کی وجہ سے ہزاروں لڑکیاں غلط نقاب کررہی ہیں۔
عورتوں کے لئے ویڈیوز بنانے میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ہرگز اپنے بیانات کے ویڈیوز نہیں بنانا چاہئے کیونکہ اس میں فتنہ ہے اور عورتوں کا فتنہ دنیا میں سب سے بڑا فتنہ ہے، یہ بات حدیث رسول سے واضح ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی عورت راہ چلتے ہوئے غیرشرعی نقاب لگاکر نکلے حتی کہ چہرہ کھول کر کسی مرد کے بغل سے گزر جائے اس سے بھی بھیانک فتنہ ویڈیوز میں غیرشرعی نقاب لگانا ہے کیونکہ ویڈیوہمیشہ کے لئے بن جاتی ہے اور وہ ہزاروں لاکھوں میں نشر ہوتی ہے پھر ویڈیومیں عورت کی بے پردگی بہت قریب سے، کثرت سے اور تسلسل کے ساتھ دیکھی جاتی ہے۔
بہت افسوس کا مقام ہے کہ غیروں کی نقالی اور فیشن پرستی میں مسلم عورتیں کدھر جارہی ہیں، انہیں کیا ہوگیا ہے؟ یہ عورتیں امہات المومنین کا حوالہ دے کر پردہ کرتی ہیں مگر کیا وہ ان کی طرح پردہ کرتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ نام تو امہات المومنین کالیا جاتا ہے اور پردہ خواہشات نفس کے مطابق ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ عورت کا چہرہ مردوں کے لئے سب سے زیادہ رغبت کی چیز ہے اس لئے اس کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ عورت جو چہرے کا پردہ نہیں کرتی یا پردے کے نام پر بے اعتدالی کرتی ہے، اسے نبی ﷺ کا یہ فرمان پڑھنا چاہئے۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: زِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ، والنَّفْسُ تَمَنَّى وتَشْتَهِي، والفَرْجُ يُصَدِّقُ ذلكَ أوْ يُكَذِّبُهُ(صحيح البخاري:6612)
میری پیاری بہنو! آپ پردے کا مقصد سمجھیں اور شرعی طور پر پردہ کریں تاکہ آپ کی حفاظت بھی ہو، اس عمل پہ اجر بھی ملے اور آخرت میں آپ کا مقام بلند ہو۔ یاد رکھو، اگر آپ نے مائلات ممیلات کی صفت اپنائی تو آخرت میں انجام بہت برا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا(صحيح مسلم:2128)
ترجمہ:وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔
اس لئے خواہشات نفس کو شریعت کے حوالے کردو اور اسلام پر اپنی مرضی سے نہیں ، اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق عمل کرو۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :لايؤمنُ أحدُكم حتَّى يَكونَ هواهُ تبعًا لمَّا جئتُ بِهِ(الأربعون النووية:41، وقال النووی حسن صحیح)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔