Wednesday, May 21, 2025

اسپرے والی بوتل سے وضو کا حکم

اسپرے والی بوتل سے وضو کا حکم

 

تحریر: مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب

 

آج کل حرم شریف کے نام پر اسپرے والی بوتل سے وضو کا نیا ٹرینڈ گردش میں ہے ۔ خصوصا حج کے موقع پر حجاج کو باقاعدہ حج کی ٹریننگ میں اسپرے والی بوتل ساتھ میں رکھنے اوربھیڑبھاڑوالی جگہوں جیسے گاڑی، بس، فلائٹ اور بطور خاص حرم شریف میں اس اسپرے سے وضو کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسپرے والی بوتل سے  وضو کرنے کا جو طریقہ لوگوں کو بتایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے ان سے کہاجاتا ہے کہ "کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض نہیں ہے اس لئے وضو میں اس کی ضرورت نہیں ہے پھر بتایا جاتا ہے کہ اسپرے سے پہلے چہرے پر پانی مارکر ہاتھ سے مل لوپھر دونوں ہاتھوں پر اسپرے مارو پھر مسح کرو، اس کے بعد دونوں پیروں پر اسپرے مارلو، بیٹھے بٹھائے وضو ہوگیا"۔

چونکہ اس طرح وضو کرنے کا طریقہ مولوی نما لوگ یا مولوی حضرات بیان کرتے ہیں اس لئے عوام اس طریقہ وضو کو صحیح سمجھتی ہے اور اس پر عمل بھی کرتی ہے ۔ عوام کی اکثریت مقلدوں کی ہے اور مقلد کے یہاں آنکھ بند کرکے اپنے مولوی کی بات مانی جاتی ہے اس لئے مقلدوں کے لئے قرآن وحدیث  کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ، ان کے لئے اپنے عالم کا بیان کرنا ہی کافی ہوتا ہے تاہم جو کتاب وسنت پر عمل کرنے والے ہیں ان کی رہنمائی کے لئے دلائل کی روشنی میں اس مسئلہ کو بیان کررہا ہوں تاکہ وہ اس طرح کے غلط عمل سے بچ سکیں اور ممکن ہے  عوام میں سچ تلاش کرنے والوں کو بھی اس سے رہنمائی مل جائے ۔

سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ نماز کے لئے وضو کی کیا اہمیت ہے اورکس طرح وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؟

وضو کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ اسے آدھا ایمان قرار دیا گیا ہے چنانچہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:

الْوُضُوءُ شَطْرُ الْإِيمَانِ(سنن ترمذي:3517،صححه الباني)

ترجمہ:وضو آدھا ایمان ہے۔

اور وضو کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

لَاتُقْبَلُ صَلَاةٌ بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلَا صَدَقَةٌ مِنْ غُلُولٍ(صحيح مسلم:224)

ترجمہ:نماز پاکیزگی کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور صدقہ ناجائز طریقے سے حاصل کیے ہوئے مال سے قبول نہیں ہوتا۔

اب آپ دیکھیں کہ نبی ﷺ اور آپ کے صحابی کس طرح وضو کیاکرتے تھے اور وضو کرنے کا فائدہ کیا ہے؟

عمارہ بن غزیہ انصاری نے نعیم بن عبداللہ مجمر سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا، انہوں نے اپنا چہرہ دھویا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر اپنا دایاں بازو دھویا حتیٰ کہ اوپر بازو کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنا بایاں بازو دھویا حتیٰ کہ اوپر بازو کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پاؤں دھویا حتیٰ کہ اوپر پنڈلی کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنا بایاں پاؤں دھویا حتیٰ کہ اوپر پنڈلی کی ابتداء تک پہنچے، پھر کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مِنْ إِسْبَاغِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ، فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ(صحیح مسلم:246)

اچھی طرح وضو بنانے کی فضیلت سے متعلق صحیح مسلم کی ایک اور حدیث دیکھیں۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:

مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ يَتَوَضَّأُ، فَيُبْلِغُ، أَوْ فَيُسْبِغُ الْوَضُوءَ، ثُمَّ يَقُولُ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ، يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ(صحیح مسلم:234)

ترجمہ:تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اپنے وضو کو پورا کرے (یا اچھی طرح وضو کرے) پھر یہ کہے: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس سے چاہے داخل ہو جائے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کو نماز کے لئے اچھی طرح وضو کرنا چاہئے اسی لئے آپ ﷺ نے ہر عضو کو تین تین بار دھونے کا حکم دیا ہے گوکہ اس سے کم میں بھی وضو ہوجائے گا بشرطیکہ اعضائے وضو بھیگ جائیں تاہم افضل و بہتر ہے تین تین دفعہ ہر عضو کو دھلا جائے تاکہ اچھی طرح کامل طور پر تمام اعضاء بھیگ جائیں، جلد تک مکمل طور پر پانی پہنچ جائے اور عضو کا معمولی حصہ بھی خشک نہ رہ جائے  نیز اچھی طرح وضو  کرنے کے بہت سارے فوائد ہیں جن میں سے بعض کا اوپر ذکر ہوا ہے اور بعض کا ذکر آگے آئے گا۔

دوسری بات یہ ہے کہ وضو میں اگر کوئی حصہ خشک رہ جائے تو اس پر رسول اللہ ﷺ نے وعید سنائی ہے ۔ آئیے اس بارے میں حدیث دیکھتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا:

رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ، تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ الْعَصْرِ، فَتَوَضَّئُوا وَهُمْ عِجَالٌ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ وَأَعْقَابُهُمْ تَلُوحُ، لَمْ يَمَسَّهَا الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ(صحیح مسلم:241)

ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس آئے۔ راستے میں جب ہم ایک پانی والی منزل پر پہنچے تو عصر کے وقت کچھ لوگوں نے جلدی کی، وضو کیا تو جلدی میں تھے، ہم ان تک پہنچے تو ان کی ایڑیاں اس طرح نظر آ رہی تھیں کہ انہیں پانی نہیں لگا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔ وضو اچھی طرح کیا کرو۔

جب آپ ﷺ نے وضو میں معمولی حصہ خشک رہ جانے پر وعید سنائی تو صحابہ کرام بڑے احتیاط سے اچھی طرح وضو کرنے لگے چنانچہ محمد بن زیاد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا:

وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا وَالنَّاسُ يَتَوَضَّئُونَ مِنَ الْمِطْهَرَةِ، قَالَ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ، فَإِنَّ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ(صحیح البخاری:165)
ترجمہ:وہ ہمارے پاس سے گزرے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے۔ آپ نے کہا اچھی طرح وضو کرو کیونکہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خشک) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔

اس حدیث سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ صحابہ وضو کرنے میں کس قدر اہتمام کرتے اور اچھی طرح وضو کیا کرتے۔

اس میں ایک تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وضو کرتے وقت اعضائے وضو میں سے کوئی عضو یا عضو کا کوئی حصہ خشک رہ جائے تو اس سے وضو نہیں ہوتا ہے یعنی ایسے وضو کا اعتبار نہیں ہے پھر سے وضو بنانا پڑے گا ورنہ نماز نہیں ہوگی کیونکہ وضو نہیں تو نماز بھی ہوگی۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا:

أَنَّ رَجُلًا تَوَضَّأَ، فَتَرَكَ مَوْضِعَ ظُفُرٍ عَلَى قَدَمِهِ، أَبْصَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ، فَرَجَعَ، ثُمَّ صَلَّى(صحیح مسلم:243)
ترجمہ: ایک شخص نے وضو کیا تو اپنے پاؤں پر ایک ناخن جتنی جگہ چھوڑ دی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا اور فرمایا: واپس جاؤ اور اپنا وضو خوب اچھی طرح کرو۔ وہ واپس گیا، (حکم پر عمل کیا) پھر نماز پڑھی۔

اندازہ لگائیں کہ محض ناخن کے برابر حصہ خشک رہ گیا تھا مگر نبی ﷺ نے اس آدمی کو لوٹنے اور پھر سے اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا چنانچہ اس آدمی نے پھر سے وضو کرکے نماز ادا کی۔

اس میں چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ وضو میں کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھاکرصاف کرنا وضو کے واجبات میں سے ہے یعنی اگر کوئی کلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ چڑھائے اور اس کی صفائی نہ کرے تو اس کا وضو نہیں ہوگا۔

منہ اور ناک چہرے کا حصہ ہے ، چہرے کے ساتھ ان دونوں کی صفائی ضروری ہے ، نبی ﷺ کے وضو میں کلی اور ناک کی صفائی دونوں شامل ہے اور آپ نے ناک میں پانی ڈالنے کے تعلق سے وجوبی حکم دیا ہے بلکہ مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ لقیط بن صبرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنِ الْوُضُوءِ، قَالَ: أَسْبِغْ الْوُضُوءَ، وَخَلِّلْ بَيْنَ الْأَصَابِعِ، وَبَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا(سنن ترمذی:788، صححہ البانی)
ترجمہ:اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے۔ آپ نے فرمایا: کامل طریقے سے وضو کرو، انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں پانی سرکنے میں مبالغہ کرو، إلا یہ کہ تم روزے سے ہو۔

صرف روزہ کی حالت میں ناک کی صفائی میں کم مقدار میں پانی چڑھانا چاہئے اور روزہ کے علاوہ عام حالات میں مبالغہ کے ساتھ ناک میں پانی چڑھانا چاہئے اور اس کی صفائی کرنی چاہئے۔

شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ کہتے ہیں کہ جس نے چہرہ دھلا اور کلی اور ناک میں پانی چڑھانے کو چھوڑدیا یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑ دیا تو اس کا وضو نہیں ہوگا اس لئے کہ منہ اور ناک چہرے کا حصہ ہے اور اللہ تعالی فرماتا ہے: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ یعنی تم اپنے چہرے کو دھلو۔ پس اللہ پورے چہرے کو دھلنے کا حکم دیتا ہے اس وجہ سے اگر کوئی تھوڑا حصہ بھی چھوڑ دے تو اس سے اللہ کے امر کی بجاآوری نہیں ہوتی اور نبی ﷺ نے کلی بھی کیا اور ناک میں پانی بھی چڑھایا۔(الملخص الفقهي:1/41)

ان ساری باتوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسپرے والی بوتل سے ہرگز وضو نہیں ہوتا ہے اس کی دو وجوہات ہیں ۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ اسپرے والی بوتل سے اعضائے وضو اچھی طرح نہیں دھلے جاسکتے ہیں  اور نبی ﷺ نے جس طرح اعضائے وضو کو دھلنے کا حکم دیا ہے ، اسپرے والی بوتل سے قطعا اس طرح اعضاء کو نہیں دھلا جاسکتا ہے ۔ جلد سے پانی صحیح سے نہیں پہنچے گا اور کتنے سارے حصے خشک رہ سکتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اسپرے والی بوتل سے وضو کے وقت کلی نہیں کی جاتی اور ناک میں پانی نہیں چڑھایا جاتا ہے جبکہ یہ دونوں وضو کے واجبات میں سے ہیں ۔ جو وضو کرتے وقت کلی نہ کرے یا ناک میں پانی نہ چڑھائے یا ان دونوں کو ترک کردے تو اس کا وضو نہیں ہوگا ۔

زائرین وحجاج کو نصیحت : جب آپ طویل سفر اور اس کی مشقت جھیل کر بیت اللہ تک پہنچ گئے اور یہاں تک رسائی ہرمومن کی بڑی تمنا ہوتی ہے ، آپ کو یہ سعادت اللہ نے نصیب فرمائی ہے ۔ اللہ کےاس گھر میں ایک نماز کا اجر ایک لاکھ  نمازکے برابر ہے جو دیگر مقامات کے اعتبار سے پچپن سال کی عبادت کے برابر ہے ۔ اگر حرم میں ہوتے ہوئے وضو ٹوٹ جائے تو حمام جاکرٹوٹی کے پانی سے اچھی طرح سنت کے مطابق وضو کریں اور اس بات کی قطعا پرواہ نہ کریں کہ آپ کو وضو کرنے میں مشقت اٹھانی پڑے گی ۔ کیا آپ کو پیشاب  وپاخانہ کی حاجت لاحق ہو تو حمام نہیں جاتے ، یقینا جاتے ہیں ۔ یہ آپ کی اپنی ضرورت ہے اور وضو اللہ کی عبادت کے لئے کریں گے اس کے لئے کچھ مشقت اٹھانا کیوں نہیں چاہتے ہیں؟ اور ہمیں معلوم ہے کہ جب اچھی طرح وضو نہیں کریں گے تو ہمارا وضو نہیں ہوگا اور وضو نہیں ہوگا تو عبادت بھی نہیں ہوگی ۔ آئیے اس جگہ وضو کی ترغیب دینے کے لئے ایک حدیث بتاتا ہوں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ؟ قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ، وَكَثْرَةُ الْخُطَا إِلَى الْمَسَاجِدِ، وَانْتِظَارُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّبَاطُ (صحیح مسلم:251)

ترجمہ:کیا میں تمہیں ایسی چیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے اور درجات بلند فرماتا ہے؟صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ناگواریوں (کے) باوجود اچھی طرح وضو کرنا، مساجد تک زیادہ قدم چلنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، سو یہی رباط (شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی) ہے۔

اس حدیث سے ہمیں معلوم ہورہا ہے کہ جب ہمیں وضو کرنے میں ناگواری یعنی  مشقت کا سامنا ہو  جیسے ٹھنڈی کے وقت وضو کرنایا بھیڑ والی جگہ میں مشقت اٹھاکروضوکرنا،ایسے وقت میں  اگر ہم اچھی طرح وضو کرتے ہیں تو اس سے ہمارے گناہ معاف ہوتے ہیں اور ہمارے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے میں آپ سب کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ لوگوں کے ایجاد کردہ اسپرے والے وضو سے پرہیز کریں ، اس سے آپ کا وضو نہیں ہوگا۔ آپ اس طرح وضو کریں جیسے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے وضو کرکے دکھایا ہے۔ رسول کے طریقہ میں ہی ہمارے لئے اسوہ ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ جب ایک دوسرے کو وضو کی تعلیم دیتے تو یہ کہتے ہیں کہ اس طرح میں نے رسول اللہ ﷺ کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔اس بارے میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل اوپر گزر چکا ہے۔



 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔