Saturday, December 21, 2024

عورتوں کے لئے جہری نماز کا حکم


 
عورتوں کے لئے جہری نماز کا حکم
مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ -سعودی عرب

دن اور رات کی پانچ نمازوں میں ظہر اور عصر کی نماز سری ہیں اور فجر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جہری ہیں۔ سری نماز کا مطلب ہے کہ اسے آہستہ پڑھی جائے یعنی نماز کی قرات اپنے جی میں کی جائے اور جہری نماز کا مطلب ہوتا ہے بلند آواز سے قرات کی جائے۔
یہاں اصل جس سوال کا جواب معلوم کرنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا عورتیں جب جہری نمازیں یعنی فجر، مغرب اور عشاء ادا کریں گی تو انہیں بلند آواز سے پڑھنا ہے یا ظہر و عصر کی طرح سری طور پر ادا کرنا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کے حق میں بھی جہری نماز جہرا پڑھنا مسنون ہے کیونکہ عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دین کے تمام معاملات میں عورتوں کے لئے بھی وہی حکم ہے جو مردوں کے لئے حکم ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: إنما النساء شقائق الرجال(السلسلة الصحيحة:2863)
ترجمہ: عورتیں (شرعی احکام میں) مردوں کی مانند ہیں۔
یہ تو عام دلیل ہے، اس سے زیادہ واضح اور خاص دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت و مرد تمام لوگوں کو اپنی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
صَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي(صحيح البخاري:6008، 7246، 631)
ترجمہ: تم لوگ اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مرد اور عورت سب کے لئے یکساں ہے لہذا مردوں کی طرح عورتیں بھی اسی طرح مکمل نماز ادا کریں گی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نماز کی تعلیم دی ہے۔
غلط فہمی کا ازالہ:
اصل میں برصغیر ہندوپاک میں حنفی عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور احناف کے یہاں عورتوں کو جہری نماز بھی سری طور پر پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے اس لئے عام عورتیں یہی سمجھتی ہیں کہ جہری نمازوں کو سری طور پر ادا کرنا ہے جبکہ احناف کا یہ فتوی بلا دلیل ہے اس لئے اس سے فتوے کو رد کیا جائے گا، ہمارے لئے دلیل کتاب اللہ اور سنت رسول ہے۔
ایک امر کی وضاحت:
قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی مکمل نماز یعنی تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک ہوبہو اسی طرح ادا کریں گی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کرکے دکھایا ہے۔ اس کے ساتھ یہاں پر اس بات کا بھی علم رہے کہ اگر عورت کے لئے نماز کے معاملہ میں الگ سے کوئی استثنائی حکم ہے تو اس معاملہ میں عورت کا حکم مردوں سے الگ ہوگا جیسے عورت کے اوپر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض نہیں ہے جبکہ مردوں پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے۔ اسی طرح عورتیں اگر مردوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھے اور امام غلطی کرے تو امام کو متنبہ کرنے کے لئے عورت زبان سے کچھ نہیں بولے گی بلکہ ہاتھ سے تالی بجائے گی کیونکہ عورتوں کے لئے الگ سے اس کی دلیل ہے، اسی طرح مسجد میں عورتیں نماز پڑھے تو ان کی صف آخر میں ہوگی۔ اس قسم کے بعض استثنائی مسائل کے علاوہ عورتیں بھی مکمل نماز مردوں کی طرح ہی ادا کریں گی گویا نماز کے طریقہ اور اس کی ادائیگی میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
مسئلہ سے متعلق مزید چند مسائل:
٭جب عورت جہری نماز کو اکیلے ادا کرے تو کم از کم اتنی آواز ہو کہ خود اس کو سنائی دے، اگر کانوں تک آواز نہ پہنچے یا خود کو بھی آواز سنائی نہ دے تو اسے جہری نہیں کہیں گے۔ قرات کی آواز بہت زیادہ بلند نہیں کرنی ہے کہ گھر سے باہر تک سنائی دے بلکہ مدھم رکھنی ہے تاکہ اپنے تک یا قریب تک محدود رہے۔
٭بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت سے نماز پڑھنے پر جہری نماز کو جہرا ادا کریں گے لیکن اکیلے نماز ادا کریں تو جہری نماز کو بھی سرا پڑھیں گے یہ لوگوں کی بھول ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جہری نماز اکیلے پڑھنے پر بھی جہرا پڑھی جائے گی خواہ مرد پڑھے یا عورت، دونوں کو جہری نماز میں چہرا قرات کرنا چاہیے۔
٭ایک خاتون نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ گھر میں بلند آواز سے نماز پڑھنے پر خشوع برقرار رکھنا مشکل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اولا،عورت کو گھر میں نماز پڑھنے کے لئے مناسب اور پرسکون جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ثانیا، جہری نماز کی قرات بہت اونچی نہیں رکھنی ہے بلکہ اتنی آواز ہو کہ کم از کم خود کو سنائی دے۔ ثالثا، جہری قرات تو نماز میں خشوع اور توجہ کا سبب ہے، اس سے آدمی کی توجہ قرات اور نماز کی طرف ہوتی ہے۔
٭جب کوئی عورت، دوسری عورتوں کی جماعت کرائے تو اس وقت جہری نماز میں کم از کم اتنی آواز ہو کہ مقتدیوں کو سنائی دے۔
٭جہری نماز پڑھتے وقت اگر عورت کی آواز اس کے محرم مرد تک پہنچے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ محرم سے اس کی آواز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
٭عورت ایسی جگہ موجود ہو جہاں اجنبی مرد ہو تو جہری نماز کو پست آواز میں ادا کرے گی کیونکہ جہر کرنے سے اس کی آواز اجنبی مرد تک پہنچے گی اور اسی طرح اپنے چہرہ سمیت مکمل جسم کو بھی ڈھک کر نماز پڑھے گی کیونکہ اجنبی مرد سے پردہ کرنا واجب ہے۔
کلام آخر:
جہری نماز عورتوں کے حق میں بھی مردوں کی طرح جہرا پڑھنا مشروع و مسنون ہے۔ شیخ البانی، شیخ ابن باز ، شیخ سلیمان الرحیلی اور شیخ صالح فوزان رحمہم اللہ وغیرہم کا یہی موقف ہے اس لئے عورتوں کو سری نمازیں سرا پڑھنا چاہیے اور جہری نمازیں جہرا پڑھنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سری نماز کو سرا اور جہری نماز کو جہرا پڑھنا مسنون ہے۔ بایں سبب اگر کسی عورت نے جہری نماز کو سرا پڑھ لیا تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے تاہم اس معاملہ میں جو افضلیت ہے وہ اس سے فوت ہورہی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔