عورتوں کے لئے جہری نماز کا حکم
مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ -سعودی عرب
دن اور رات کی پانچ نمازوں میں ظہر اور عصر کی نماز سری ہیں اور فجر، مغرب اور عشاء کی نمازیں جہری ہیں۔ سری نماز کا مطلب ہے کہ اسے آہستہ پڑھی جائے یعنی نماز کی قرات اپنے جی میں کی جائے اور جہری نماز کا مطلب ہوتا ہے بلند آواز سے قرات کی جائے۔
یہاں اصل جس سوال کا جواب معلوم کرنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا عورتیں جب جہری نمازیں یعنی فجر، مغرب اور عشاء ادا کریں گی تو انہیں بلند آواز سے پڑھنا ہے یا ظہر و عصر کی طرح سری طور پر ادا کرنا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کے حق میں بھی جہری نماز جہرا پڑھنا مسنون ہے کیونکہ عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دین کے تمام معاملات میں عورتوں کے لئے بھی وہی حکم ہے جو مردوں کے لئے حکم ہے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: إنما النساء شقائق الرجال(السلسلة الصحيحة:2863)
ترجمہ: عورتیں (شرعی احکام میں) مردوں کی مانند ہیں۔
یہ تو عام دلیل ہے، اس سے زیادہ واضح اور خاص دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت و مرد تمام لوگوں کو اپنی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
صَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي(صحيح البخاري:6008، 7246، 631)
ترجمہ: تم لوگ اسی طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مرد اور عورت سب کے لئے یکساں ہے لہذا مردوں کی طرح عورتیں بھی اسی طرح مکمل نماز ادا کریں گی جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو نماز کی تعلیم دی ہے۔
غلط فہمی کا ازالہ:
ایک امر کی وضاحت:
مسئلہ سے متعلق مزید چند مسائل:
٭بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت سے نماز پڑھنے پر جہری نماز کو جہرا ادا کریں گے لیکن اکیلے نماز ادا کریں تو جہری نماز کو بھی سرا پڑھیں گے یہ لوگوں کی بھول ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جہری نماز اکیلے پڑھنے پر بھی جہرا پڑھی جائے گی خواہ مرد پڑھے یا عورت، دونوں کو جہری نماز میں چہرا قرات کرنا چاہیے۔
٭ایک خاتون نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ گھر میں بلند آواز سے نماز پڑھنے پر خشوع برقرار رکھنا مشکل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اولا،عورت کو گھر میں نماز پڑھنے کے لئے مناسب اور پرسکون جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ ثانیا، جہری نماز کی قرات بہت اونچی نہیں رکھنی ہے بلکہ اتنی آواز ہو کہ کم از کم خود کو سنائی دے۔ ثالثا، جہری قرات تو نماز میں خشوع اور توجہ کا سبب ہے، اس سے آدمی کی توجہ قرات اور نماز کی طرف ہوتی ہے۔
٭جب کوئی عورت، دوسری عورتوں کی جماعت کرائے تو اس وقت جہری نماز میں کم از کم اتنی آواز ہو کہ مقتدیوں کو سنائی دے۔
٭جہری نماز پڑھتے وقت اگر عورت کی آواز اس کے محرم مرد تک پہنچے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ محرم سے اس کی آواز کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
٭عورت ایسی جگہ موجود ہو جہاں اجنبی مرد ہو تو جہری نماز کو پست آواز میں ادا کرے گی کیونکہ جہر کرنے سے اس کی آواز اجنبی مرد تک پہنچے گی اور اسی طرح اپنے چہرہ سمیت مکمل جسم کو بھی ڈھک کر نماز پڑھے گی کیونکہ اجنبی مرد سے پردہ کرنا واجب ہے۔
کلام آخر:
جہری نماز عورتوں کے حق میں بھی مردوں کی طرح جہرا پڑھنا مشروع و مسنون ہے۔ شیخ البانی، شیخ ابن باز ، شیخ سلیمان الرحیلی اور شیخ صالح فوزان رحمہم اللہ وغیرہم کا یہی موقف ہے اس لئے عورتوں کو سری نمازیں سرا پڑھنا چاہیے اور جہری نمازیں جہرا پڑھنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سری نماز کو سرا اور جہری نماز کو جہرا پڑھنا مسنون ہے۔ بایں سبب اگر کسی عورت نے جہری نماز کو سرا پڑھ لیا تو اس کی نماز اپنی جگہ درست ہے تاہم اس معاملہ میں جو افضلیت ہے وہ اس سے فوت ہورہی ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔