جمعہ کے احکام
ومسائل
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (الجمعة:9)
یہاں پر اللہ تعالی مومنوں کومخاطب کرکے تین باتیں عرض کررہا ہے ۔
(1) پہلی بات جمعہ کی نماز کے لئے اذان سے متعلق ہےیعنی نماز جمعہ کے لئے اذان دے کر مومنوں کومسجد بلایاجائے گا۔اس اذان کے کلمات پورے قرآن میں کہیں بھی مذکور نہیں ہیں، یہ اذان ہمیں حدیث سے معلوم ہوتی ہے ۔ آئیے حدیث رسول کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ اذان کی ابتداء کیسے ہوئی ۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے:
كانَ المُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا المَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَاةَ ليسَ يُنَادَى لَهَا، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا في ذلكَ، فَقالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى، وقالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ اليَهُودِ، فَقالَ عُمَرُ: أوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بالصَّلَاةِ، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: يا بلَالُ قُمْ فَنَادِ بالصَّلَاةِ(صحيح البخاري:604)
ترجمہ: جب مسلمان (ہجرت کر کے) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا (بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو) لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے۔
صحیح بخاری میں اس سے ماقبل انس رضی اللہ عنہ سے مروی اس طرح روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
ذَكَرُوا النَّارَ والنَّاقُوسَ، فَذَكَرُوا اليَهُودَ والنَّصَارَى فَأُمِرَ بلَالٌ أنْ يَشْفَعَ الأذَانَ، وأَنْ يُوتِرَ الإقَامَةَ(صحيح البخاري:603)
ترجمہ: (نماز کے وقت کے اعلان کے لیے) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ۔
اس حدیث سے پتہ چل رہا ہے کہ اذان دہری دینی چاہئے اور اقامت اکہری کہنی چاہئے، یہی معتبر روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
یہ تو اذان کی تاریخ تھی ، اذان سے متعلق یہاں ہم یہ بھی جانتے ہوئے چلتے ہیں کہ جمعہ کے لئے اصل میں ایک ہی اذان دینا چاہئے، یہی رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔ سائب بن یزید سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں :
كانَ النِّدَاءُ يَومَ الجُمُعَةِ أوَّلُهُ إذَا جَلَسَ الإمَامُ علَى المِنْبَرِ علَى عَهْدِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وأَبِي بَكْرٍ، وعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عنْهمَا، فَلَمَّا كانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عنْه، وكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ علَى الزَّوْرَاءِ(صحيح البخاري:912)
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہو گئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔
اس روایت کے آخر میں زوراء کی شرح میں ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔
عہد عثمانی میں ضرورت ومصلحت کے تحت مزید ایک اذان کا اضافہ کیا گیا تھا مگر آج کے ترقی یافتہ زمانہ میں اس اذان کی ضرورت نہیں ہے لہذا جمعہ کے لئے ایک ہی اذان دی جائے گی جب امام خطبہ کے لئے ممبر پر بیٹھ جائے جیسے عہد رسول میں ہوا کرتا تھا۔
(2) اللہ دوسری بات یہ ذکر کررہا ہے کہ جب جمعہ کے لئے اذان دی جائے تو نماز کی طرف دوڑ پڑویعنی اب اس میں ذرہ برابر سستی وکاہلی نہ کرو،یہاں اللہ تعالی نماز جمعہ کے لئے دوڑنے اور جلدی کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ جمعہ ایک عظیم دن ہے بلکہ اذان جمعہ سے ہی پہلے مسجد میں حاضر ہونا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ فضیلت حاصل ہو۔ عام نمازوں کے لئے جلدی کرنے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب اقامت کہہ دی جائے تو اب جلدی جلدی دوڑ کر نماز میں نہیں ملنا ہے بلکہ سکون سے چل کر آنا ہے ۔آدمی اصل میں یہاں پر دوڑنا شروع کرتا ہے تاکہ رکعت فوت نہ ہوجائے، اس کی ممانعت ہے تاہم اذان ہونے پر نماز کے لئے جلدی کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔
(3) تیسری بات یہ ہے کہ نماز جمعہ کے لئے اذان ہوجانے پر کاروبار بند کردینا چاہئے ۔ آیت میں بیع کا ذکر ہے اور بیع کہتے ہیں بیچنے کو یعنی جب دوکاندار بیچنا بند کردے گا تو خریدار بھی نہیں آئے گااس لئے اصل کام پر روک لگایا گیا ہے تاہم اس میں خریدنے کی ممانعت بھی داخل ہے۔ اس بات سے حنفیہ یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ جمعہ کی نماز صرف شہر میں پڑھی جائے گی ، گاؤں میں جمعہ کی نماز نہیں ہے۔ دراصل یہ استدلال غلط ہے کیونکہ خریدوفروخت گاؤں اورشہر ہرجگہ ہوتی ہے اور اصل میں یہاں پر کام کاج مراد ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہونے لگے تو آدمی جو بھی کام کررہا ہوخواہ تجارت ہو یا دنیا کا کوئی اور کام ہو، تمام کام ترک کرکے نماز کی طرف دوڑ پڑے ۔ نماز جمعہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گاؤں و دیہات ہرجگہ نماز جمعہ پڑھی جائے گی ۔
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کہتے ہیں:
كُنتُ قائدَ أبي حينَ ذَهَبَ بصرُهُ، فَكُنتُ إذا خَرجتُ بِهِ إلى الجمعةِ فسمِعَ الأذانَ استَغفرَ لأبي أُمامةَ أسعدَ بنِ زُرارةَ، ودعا لَهُ، فمَكَثَتُ حينًا أسمعُ ذلِكَ منهُ، ثمَّ قُلتُ في نَفسي: واللَّهِ إنَّ ذا لعَجزٌ، إنِّي أسمعُهُ كلَّما سمعَ أذانَ الجمعةِ يستغفِرُ لأبي أُمامةَ ويصلِّي عليهِ، ولا أسألُهُ عن ذلِكَ لمَ هوَ ؟ فخَرجتُ بِهِ كما كنتُ أخرجُ بِهِ إلى الجمُعةِ، فلمَّا سمعَ الأذانَ استغفَرَ كما كانَ يفعَلُ، فقُلتُ لَهُ: يا أبتاهُ، أرأيتَكَ صلاتَكَ على أسعَدَ بنِ زُرارةَ كلَّما سَمِعتَ النِّداءَ بالجمعةِ لمَ هوَ ؟ قالَ: أي بُنَيَّ، كانَ أوَّلَ من صلَّى بنا صلاةَ الجمُعةِ قبلَ مَقدَمِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ من مَكَّةَ، في نقيعِ الخضَماتِ، في هزمٍ مِن حرَّةِ بَني بياضةَ، قُلتُ: كَم كنتُمْ يومئذٍ ؟ قالَ: أربعينَ رجلًا(: صحيح ابن ماجه:893)
ترجمہ: جب میرے والد کی بینائی چلی گئی تو میں انہیں پکڑ کر لے جایا کرتا تھا، جب میں انہیں نماز جمعہ کے لیے لے کر نکلتا اور وہ اذان سنتے تو ابوامامہ اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار اور دعا کرتے، میں ایک زمانہ تک ان سے یہی سنتا رہا، پھر ایک روز میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اللہ کی قسم یہ تو بے وقوفی ہے کہ میں اتنے عرصے سے ہر جمعہ یہ بات سن رہا ہوں کہ جب بھی وہ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے لیے استغفار اور دعا کرتے ہیں، اور ابھی تک میں نے ان سے اس کی وجہ نہیں پوچھی، چنانچہ ایک روز معمول کے مطابق انہیں جمعہ کے لیے لے کر نکلا، جب انہوں نے اذان سنی تو حسب معمول (اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے) مغفرت کی دعا کی تو میں نے ان سے کہا: ابا جان! جب بھی آپ جمعہ کی اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرماتے ہیں، آخر اس کی وجہ کیا ہے، تو انہوں نے کہا: میرے بیٹے! اسعد ہی نے ہمیں سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے قبیلہ بنی بیاضہ کے ہموار میدان «نقیع الخضمات» میں نماز جمعہ پڑھائی، میں نے سوال کیا: اس وقت آپ لوگوں کی تعداد کیا تھی؟ کہا: ہم چالیس آدمی تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ کی ہجرت سے قبل ہی مدینہ میں جمعہ کی نماز پڑھی گئی گویا پہلا جمعہ پڑھانے والے صحابی کا نام اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ہے۔ اس جگہ یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نماز جمعہ مدینہ میں فرض ہوئی تو پھر رسول کی آمد سے قبل کیسے نمازجمعہ پڑھی گئی۔ اس کا اہل علم نے یہ جواب دیا ہے کہ اصل میں نماز جمعہ مکہ میں ہی فرض ہوگئی تھی مگر اس جگہ حالات کی وجہ سے جمعہ قائم مناسب نہیں تھا اس لئے مدینہ والوں کو جمعہ پڑھنے کا حکم دیاگیا۔ ایک دوسرا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ نمازجمعہ مدینہ میں ہی فرض ہوئی اور اسعد رضی اللہ عنہ کا جمعہ پڑھانا بغرض تعلیم تھا تاکہ لوگوں کو ہفتہ میں ایک دن جمع کرکے دین کی بات بتائی جاسکے پھر بعد میں اللہ تعالی نے اس کو فرض قرار دیا۔
جب نبی ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو مسجد نبوی میں جمعہ کی نماز ہونے لگی۔ مسجد نبوی میں جمعہ کے بعد سب سے پہلے جہاں جمعہ کی نماز پڑھی گئی وہ ایک گاؤں تھا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا:
أَوَّلُ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثَى يَعْنِي قَرْيَةً مِنَ الْبَحْرَيْنِ(صحيح البخاري:4371)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی بحرین کا ایک گاؤں تھا۔
امام بخاری نے اس حدیث کو دوسری جگہ بھی ذکر کیا ہے، 892 نمبر پر وہاں پر باب باندھا ہے۔ بَابُ الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى وَالْمُدْنِ:یعنی گاؤں اور شہر میں جمعہ قائم کرنے کا باب۔اسی طرح سنن ابی داؤد میں ہے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں:
إنَّ أوَّلَ جمعةٍ جمِّعت في الإسلامِ بعدَ جمعةٍ جمِّعت في مسجدِ رسولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بالمدينةِ لجمعةٌ جمِّعت بجواثاءَ قريةٍ من قرى البحرين. قالَ عثمانُ قريةٌ من قرى عبدِ القيس(صحيح أبي داود:1068)
ترجمہ: اسلام میں مسجد نبوی میں جمعہ قائم کئے جانے کے بعد پہلا جمعہ قریہ جواثاء میں قائم کیا گیا، جو علاقہ بحرین کا ایک گاؤں ہے، عثمان کہتے ہیں: وہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گاؤں ہے۔
اس حدیث پر امام ابوداؤد نے باب باندھا ہے"باب الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى"یعنی دیہات (گاؤں) میں جمعہ پڑھنے کا باب۔
نماز جمعہ کی تاریخ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ ایک گاؤں میں پڑھا گیا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جیسے شہر میں جمعہ کی نماز پڑھیں گے ویسے ہی گاؤں میں بھی جمعہ کی نماز پڑھیں گےلہذا احناف کا فتوی حدیث کے خلاف ہے جبکہ ائمہ ثلاثہ شہر اوردیہات ہر جگہ جمعہ کے قائل ہیں۔
جمعہ کے فضائل:
اب آپ کے سامنے جمعہ کے چند فضائل بیان کرتا ہوں ۔
(1)جمعہ عید کا دن ہے: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ هذا يومُ عيدٍ، جعلَهُ اللَّهُ للمسلمينَ، فمن جاءَ إلى الجمعةِ فليغتسل، وإن كانَ طيبٌ فليمسَّ منْهُ، وعليْكم بالسِّواك(صحيح ابن ماجه:908)
ترجمہ: یہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسے عید کا دن قرار دیا ہے، لہٰذا جو کوئی جمعہ کے لیے آئے تو غسل کر کے آئے، اور اگر خوشبو میسر ہو تو لگا لے، اور تم لوگ اپنے اوپر مسواک کو لازم کر لو۔
جمعہ ہفتہ واری عید کا دن ہے اس وجہ سے آج کے دن خصوصی اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جمعہ کے دن مسلمانوں کو غسل کرنا چاہئے ، خوشبو لگانا چاہئے اور مسواک کرنا چاہئے۔
(2)جمعہ افضل دن ہے، اس دن کثرت سے دورد پڑھاجائے: اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ من أفضلِ أيَّامِكُم يومَ الجمعةِ فيهِ خُلِقَ آدمُ وفيهِ قُبِضَ وفيهِ النَّفخةُ وفيهِ الصَّعقةُ فأكْثِروا عليَّ منَ الصَّلاةِ فيهِ فإنَّ صلاتَكُم معروضةٌ عليَّ قالَ قالوا يا رسولَ اللَّهِ وَكَيفَ تُعرَضُ صلاتُنا عليكَ وقد أرِمتَ - يقولونَ بليتَ - فقالَ إنَّ اللَّهَ عزَّ وجلَّ حرَّمَ علَى الأرضِ أجسادَ الأنبياءِ(صحيح أبي داود:1047)
ترجمہ:تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اسی دن چیخ ہو گی اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ اوس بن اوس کہتے ہیں: لوگوں نے کہا:اللہ کے رسول! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ (مر کر) بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے زمین پر پیغمبروں کے بدن کو حرام کر دیا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں جمعہ کے دن مسلمانوں کو کثرت کے ساتھ نبی ﷺ پر درود وسلام پڑھنا چاہئے اور کہیں سے بھی آپ پر درود پڑھا جائے ، آپ تک پہنچایا جاتا ہے ، ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے آپ تک درود پہنچاتے ہیں ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ للَّهِ ملائِكةً سيَّاحينَ في الأرضِ، يُبلِّغوني من أُمَّتي السَّلامَ(صحيح النسائي:1281)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں، وہ مجھ تک میرے امتیوں کا سلام پہنچاتے ہیں۔
جو لوگ دوسروں کے ہاتھوں مدینہ سلام بھیجتے ہیں وہ بدعت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے کہ کوئی شخص دوسرسے کی جانب سے نبی ﷺ کے مقبرہ پر درود وسلام پیش کرے بلکہ حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کہیں سے بھی درود پڑھیں ، آپ تک پہنچایا جاتا ہے پھر کسی کے ذریعہ درود بھجوانے کا سوال بھی نہیں پیدا ہوتا۔
(3)جمعہ کے دن جلدی مسجد پہنچنے میں قربانی کا اجر ہے:اس کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنِ اغْتَسَلَ يَومَ الجُمُعَةِ غُسْلَ الجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَدَنَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَقَرَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ كَبْشًا أقْرَنَ، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ دَجَاجَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الخَامِسَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الإمَامُ حَضَرَتِ المَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ(صحيح البخاري:881)
ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبے کے لیے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔
اس حدیث جن پانچ گھڑیوں کا ذکر ہے ان کے اوقات کے سلسلے میں شیخ ابن عثیمین ؒ ذکر کرتے ہیں ۔"نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے طلوع شمس سے ليكر امام كے آنے تك كو پانچ حصوں ميں تقسيم كيا، تو اسطرح ہر حصہ تقريبا اس وقت معروف ايك گھنٹہ كے برابر ہو گا، اور بعض اوقات اس سے زيادہ يا كم بھى كيونكہ وقت ميں تغير ہوتا رہتا ہے، لہذا طلوع شمس سے ليكر امام كے آنے تك پانچ گھڑياں ہيں اور ان كى ابتدا طلوع شمس اور ايك قول يہ بھى ہے كہ طلوع فجر سے ہوتى ہےليكن پہلا قول زيادہ راجح ہےكيونكہ طلوع شمس سے قبل تو نماز فجر كا وقت ہے"۔(مجموع فتاوى ابن عثيمين:16/سوال نمبر1260)۔
(4)نماز جمعہ ادا کرنے سے اگلے جمعہ تک گناہوں کی مغفرت:سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنِ اغْتَسَلَ يَومَ الجُمُعَةِ، وتَطَهَّرَ بما اسْتَطَاعَ مِن طُهْرٍ، ثُمَّ ادَّهَنَ أوْ مَسَّ مِن طِيبٍ، ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ يُفَرِّقْ بيْنَ اثْنَيْنِ، فَصَلَّى ما كُتِبَ له، ثُمَّ إذَا خَرَجَ الإمَامُ أنْصَتَ، غُفِرَ له ما بيْنَهُ وبيْنَ الجُمُعَةِ الأُخْرَى(صحيح البخاري:910)
ترجمہ:جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوب پاکی حاصل کی اور تیل یا خوشبو استعمال کی، پھر جمعہ کے لیے چلا اور دو آدمیوں کے بیچ میں نہ گھسا اور جتنی اس کی قسمت میں تھی، نماز پڑھی، پھر جب امام باہر آیا اور خطبہ شروع کیا تو خاموش ہو گیا، اس کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
جمعہ کے دن غسل کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے تاہم جسے کوئی عذر نہ ہو وہ جمعہ کو ضرور غسل کرے کیونکہ اس کی تاکید آئی ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:
أنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عنْه، بيْنَما هو يَخْطُبُ يَومَ الجُمُعَةِ إذْ دَخَلَ رَجُلٌ، فَقالَ عُمَرُ بنُ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: لِمَ تَحْتَبِسُونَ عَنِ الصَّلَاةِ؟ فَقالَ الرَّجُلُ: ما هو إلَّا أنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ تَوَضَّأْتُ، فَقالَ: ألَمْ تَسْمَعُوا النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ: إذَا رَاحَ أحَدُكُمْ إلى الجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ(صحيح البخاري:882)
ترجمہ: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک بزرگ (عثمان رضی اللہ عنہ) داخل ہوئے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ نماز کے لیے آنے میں کیوں دیر کرتے ہیں۔ (اول وقت کیوں نہیں آتے) آنے والے بزرگ نے فرمایا کہ دیر صرف اتنی ہوئی کہ اذان سنتے ہی میں نے وضو کیا (اور پھر حاضر ہوا) آپ نے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ جب کوئی جمعہ کے لیے جائے تو غسل کر لینا چاہیے۔
جمعہ کا غسل فجر کے بعد کیا جائے گا کیونکہ یہ نماز جمعہ کے لئے غسل ہے اور اگر کسی نے عذر کی وجہ سے فجر سے پہلے غسل کرلیا تو کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ خطبہ کے دوران ذکرکرتے ہیں ، یہ غلط ہے ۔ اصل یہ ہے کہ دوران خطبہ پوری خاموشی اختیار کی جائے اور بالکل دھیان سے خطبہ سنا جائے جیساکہ مذکورہ بالا حدیث میں خطبہ کے وقت خاموش ہونے کا ذکر ہے ، اس سے پہلی والی حدیث بھی اس بات کی دلیل ہے جس میں فرشتے خطبہ سننے لگ جاتے ہیں۔ اس وقت خطبہ سننے کے علاوہ کوئی دوسرا عمل انجام نہیں دیا جائے حتی کہ بات کرنا تو ممنوع ہے ہی کسی کو چپ رہ کہنا اور کنکری چھونا بھی لغو کام ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَومَ الجُمُعَةِ: أنْصِتْ، والإِمَامُ يَخْطُبُ، فقَدْ لَغَوْتَ(صحيح البخاري:882)
ترجمہ: جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہے کہ ”چپ رہ“ تو تو نے خود ایک لغو حرکت کی۔
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَن تَوَضَّأَ فأحْسَنَ الوُضُوءَ، ثُمَّ أتَى الجُمُعَةَ، فاسْتَمع وأَنْصَتَ، غُفِرَ له ما بيْنَهُ وبيْنَ الجُمُعَةِ، وزِيادَةُ ثَلاثَةِ أيَّامٍ، ومَن مَسَّ الحَصَى فقَدْ لَغا(صحيح مسلم:857)
ترجمہ: جس شخص نے وضو کیا اوراچھی طرح وضو کیا، پھر جمعے کے لئے آیا، غور کے ساتھ خاموشی سے خطبہ سنا، اس کے جمعے سے لے کر جمعے تک گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔اورتین دن زائد کے بھی۔اور جو (بلاوجہ) کنکریوں کو ہاتھ لگاتا رہا (ان سے کھیلتا رہا)، اس نے لغو اورفضول کام کیا۔
(5)جمعہ کے دن قبولیت کی ایک گھڑی ہے: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ذكَر يومَ الجمُعةِ، فقال : فيه ساعةٌ، لا يُوافِقُها عبدٌ مسلمٌ، وهو قائمٌ يُصلِّي، يَسأَلُ اللهَ تعالى شيئًا، إلا أعطاه إياه . وأشار بيدِه يُقَلِّلُها (صحيح البخاري:935)
ترجمہ : نبی ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا:اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کوئی مسلمان بندہ نماز کی حالت میں اللہ تعالٰی سے جو کچھ طلب کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اسکو ضرور عنایت کرتا ہے ـ اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے اس وقت کے تھوڑےہونے کااشارہ کیا۔
٭ ایک قول نمازشروع ہونے سے لے کر ختم ہونے تک ہے، اس بارے میں ترمذی(490) اور ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے جسے شیخ البانی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے اس لئے یہ قول راحج نہیں ہے۔ حدیث اس طرح سے ہے۔ عمرو بن عوف مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
في يومِ الجمعةِ ساعةٌ منَ النَّهارِ، لا يسألُ اللَّهَ فيها العبدُ شيئًا إلَّا أُعْطيَ سؤلَهُ قيلَ أيُّ ساعةٍ قالَ حينَ تقامُ الصَّلاةُ إلى الانصرافِ منها(ضعيف ابن ماجه:214)
ترجمہ: جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت (گھڑی) ہے کہ اس میں بندہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگے اس کی دعا قبول ہو گی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: وہ کون سی ساعت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کے لیے اقامت کہی جانے سے لے کر اس سے فراغت تک۔
٭ دوسرا قول عصر کے بعد سے لے کر سورج ڈوبنے تک ہے، یہی قول راحج ہے کیونکہ اس بارے میں صحیح حدیث موجود ہے۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يومُ الجمعةِ ثِنتا عشرةَ - يريدُ - ساعةً لا يوجَدُ مسلِمٌ يسألُ اللَّهَ عزَّ وجلَّ شيئًا إلَّا آتاهُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ فالتمِسوها آخرَ ساعةٍ بعدَ العصرِ(صحيح أبي داود:1048)
ترجمہ:جمعہ کا دن بارہ ساعت (گھڑی) کا ہے، اس میں ایک ساعت (گھڑی) ایسی ہے کہ کوئی مسلمان اس ساعت کو پا کر اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور دیتا ہے، لہٰذا تم اسے عصر کے بعد آخری ساعت (گھڑی) میں تلاش کرو۔
ہمیں معلوم یہ ہوا کہ جمعہ کے دن اس ساعت کا خیال کرتے ہوئے عصر ومغرب کے درمیان کثرت سے دعاکریں ، اگر قبولیت کی ساعت سے ہماری دعا ٹکراجائے تو خیر ہی خیر ہے۔
(6) جمعہ کے دن وفات پانا حسن خاتمہ کی علامت ہے: عبداللہ بن عمر عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
ما مِن مسلمٍ يموتُ يومَ الجمعةِ أو ليلةَ الجمعةِ إلَّا وقاهُ اللَّهُ فِتنةَ القبرِ(صحیح الترمذٰی: 1074)
ترجمہ :جو کوئی مسلمان جعمہ کی رات یا دن میں وفات پاتا ہے اللہ تعالٰی اس کو قبر کے فتنے سے بچاتا ہے۔
(7) جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت مشروع ہے: جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت سے متعلق جتنی احادیث وارد ہیں ان میں سب سے قوی ابوسعیدرضی اللہ عنہ سے مروی احادیث ہیں جیساکہ حافظ ابن حجر ؒ نے کہا ہے۔ جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت سے متعلق وارد احادیث کی تحقیق کے لئے دکتور عبداللہ بن فوزان بن صالح الفوزان کی کتاب " الاحادیث الواردۃ فی قراءۃ سورۃ الکھف یوم الجمعۃ"ملاحظہ کریں ، اس کتاب میں مذکورہ حدیث کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے کہ ابوسعید کی حدیث مرفوعا اور موقوفا دونوں طرح مروی ہے ، اس کا موقوف ہونا صحیح ہے اور موقوفابھی لفظ جمعہ کے بغیر صحیح ہے یعنی ابوسعید سے سورہ کہف کی تلاوت کرنا موقوفا ثابت ہے مگر جمعہ کے دن کی تخصیص ثابت نہیں ہے۔اس کے باوجود اکثر اہل علم نے جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کو مشروع قرار دیا ہے ۔ امام شافعی ؒ جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کیا کرتے تھے ، امام نووی ؒ نے کہا کہ جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنا مستحب ہے ، علامہ ابن تیمیہ ؒ سے سوال کیا گیا کہ جمعہ کے دن عصر کے بعد سورہ کہف کی تلاوت کرنے سے متعلق کوئی حدیث ہے یا نہیں تو آپ نے جواب دیا کہ الحمد للہ جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کے بارے میں آثار وارد ہیں جنہیں اہل علم نے ذکر کیا ہے مگر یہ مطلق جمعہ سے متعلق ہیں ، میں نے عصر کے بعد سے متعلق نہیں سنی ہے۔
مزیددوسری جگہ شیخ بیان کرتے ہیں کہ اس بارے میں احادیث بیان کی جاتی ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت دیتی ہیں اوراس سے جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کی مشروعیت ظاہر ہوتی ہے ۔ اس بارے میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت ثابت ہے ، اس قسم کی حدیث پر عمل محض رائے کے سبب نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس سنت موجود ہے۔(اقتباس: جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کا حکم از مقبول احمد سلفی)
مردوعورت کے حق میں نماز جمعہ کا حکم :
جمعہ کی نمازہرمسلمان آزاد، عاقل ، بالغ ، مقیم مرد پرواجب ہے لیکن عورتوں کے حق میں واجب نہیں ہے ۔ طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجمعةُ حقٌّ واجبٌ على كلِّ مسلمٍ في جماعةٍ إلاَّ أربعةً عبدٌ مملوكٌ أوِ امرأةٌ أو صبيٌّ أو مريضٌ( صحيح أبي داود:1067)
ترجمہ:جمعہ کی نماز جماعت سے ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے سوائے چار لوگوں: غلام، عورت، نابالغ بچہ اور بیمار کے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے لیکن مردوں کے ساتھ نماز جمعہ پڑھ سکتی ہے بلکہ پڑھنا چاہئے اور مسجد بنانے والوں کو عورتوں کے لئے مسجد میں علاحدہ انتظام کرنا چاہئےتاکہ وہ بھی جمعہ میں حاضرہوسکیں اور نماز کے ساتھ وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھاسکیں جیسے عہد رسول میں صحابیات مسجد میں نمازیں اور جمعہ ادا کیا کرتی تھیں ۔سیدہ اُم ہشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
ما حَفِظْتُ ق، إلَّا مِن في رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، يَخْطُبُ بهَا كُلَّ جُمُعَةٍ، قالَتْ: وَكانَ تَنُّورُنَا وَتَنُّورُ رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ وَاحِدًا(صحيح مسلم:873)
ترجمہ: میں نے سورہ ق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سن کر یاد کی، آپ ہر جمعہ میں اسے پڑھ کر خطاب فرماتے تھے۔ انہوں نے کہا: ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تندور ایک ہی تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ام ہشام رضی اللہ عنہا رسول اللہ کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز جمعہ ادا کرتی تھیں تبھی تو نبی ﷺ سے خطبہ سن کر مکمل سورہ ق حفظ ہوگئی ۔اگر عورت جمعہ کے دن گھر میں نماز ادا کرتی ہے تو ظہر کی نماز ادا کرے گی اور فرض سے پہلے اور بعد کی سنت بھی ادا کرےگی لیکن الگ سے عورتوں کی نماز جمعہ نہیں ہے اس لئے جو عورتیں جمع ہوکرالگ سے اپنی نماز جمعہ ادا کرتی ہیں ان کا طریقہ درست نہیں ہے۔
نماز جمعہ میں غفلت :
عموما مسلمانوں میں پنچ وقتہ نماز کے تئیں سستی دکھائی دیتی ہے حتی کہ بعض لوگوں میں نماز جمعہ کے تئیں بدترین غفلت نظر آتی ہے خواہ سبب مصروفیت ، کام کاج یا کاہلی ہو ۔ اللہ تعالی نے نمازجمعہ کے لئے کاروبار ترک کرنے کو کہا ہے جبکہ یہاں کچھ مسلمان کام کے لئے جمعہ چھوڑ دیتے ہیں ۔ جمعہ کے دن کمپنی میں یا اپنے طور پرفل ڈیوٹی کرنے والےاور اسی طرح جمعہ کے دن کالج واسکول میں پڑھنے والوں میں کافی سارے لوگ جمعہ کی پرواہ نہیں کرتے اور یہ سوچتے ہیں کہ ہم مصروف ہیں ہمارے اوپر جمعہ فرض نہیں ہے بلکہ بعض تو جمعہ کو خیال میں بھی نہیں لاتے ۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں دو احادیث بیان کرتا ہوں تاکہ کچھ نصیحت حاصل کریں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ اپنے منبر کی لکڑیوں پر (کھڑے ہو ئے) فر ما رہے تھے:
لَيَنْتَهينَّ أقْوامٌ عن ودْعِهِمُ الجُمُعاتِ، أوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ علَى قُلُوبِهِمْ، ثُمَّ لَيَكونُنَّ مِنَ الغافِلِينَ(صحيح مسلم:865)
ترجمہ:لو گوں کے گروہ ہر صورت جمعہ چھوڑ دینے سے باز آجا ئیں یا اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غا فلوں میں سے ہو جا ئیں گے۔
اسی طرح ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (انہیں شرف صحبت حاصل تھا) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ترَكَ ثلاثَ جُمَعٍ تَهاونًا بِها طبعَ اللَّهُ علَى قلبِهِ(صحيح أبي داود:1052)
ترجمہ: جو شخص سستی سے تین جمعہ چھوڑ دے تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔
جو لوگ کاروبار یا تعلیم کی وجہ سے جمعہ چھوڑتے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنے شیڈول مرتب کریں اور نماز جمعہ کے لئے ہرحال میں وقت نکالیں اور مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کریں جیساکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے اذان دی جائے تو کاروبار چھوڑ کر نماز کی طرف دوڑ پڑو۔
نماز جمعہ کی رکعات:
جمعہ کی نماز کی رکعات کے طور پر دو رکعات فرض ہیں ، فرض سے پہلے سنت مؤکدہ نہیں ہے تاہم مسجد میں آنے والا تحیہ المسجد کی نیت سےکم ازکم دو رکعت اد ا کرے گا۔ جمعہ کی نماز کے بعد دو رکعت یا چار رکعت سنت مؤکدہ ہے۔ تفصیل کے لئے میرا مضمون" نمازجمعہ کی رکعات اور اس کے چند مسائل" دیکھ سکتے ہیں۔
٭ جمعہ کی فرض نماز سے قبل نماز: اس بارے میں ایک حدیث پہلے گزر چکی ہے جس کے الفاظ ہیں " فَصَلَّى ما كُتِبَ له" یعنی جو آدمی خطبہ سے پہلے مسجد جاتا ہے اور جتنی قسمت میں ہو نماز ادا کرتا ہے ۔ یہاں پر یہ نماز، نوافل کے طورپر ہے اس لئے جمعہ کو سویرے مسجد میں آنے والا جس قدر چاہے بغیر تحدید کے دو دو رکعت ادا کرسکتا ہے ۔ قتادہ رضی عنہ اور صفیہ رضی اللہ عنہا سے نماز جمعہ سے قبل چار رکعات پڑھنا ثابت ہے جبکہ ابن عمررضی اللہ عنہما سے بارہ رکعات پڑھنا ثابت ہے مگر یہ نوافل ہیں ، سنت مؤکدہ نہیں ہیں ۔
٭ جمعہ کی فرض نماز اور اس کے بعدسنت: نبی ﷺ سے دو رکعت فرض اور دو رکعت سنت پڑھنا منقول ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہےوہ نبی ﷺ سے متعلق بیان کرتے ہیں:وكان لا يُصلِّي بعدَ الجمُعةِ حتى يَنصَرِفَ، فيُصلِّي ركعتَينِ .(صحيح البخاري:937)
ترجمہ: جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
دراصل یہی نماز جمعہ کی اصل رکعات ہیں ، دو رکعت فرض اور اس کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ ہے ۔ فرض نماز کے بعد چار رکعت سنت بھی پڑھ سکتے ہیں کیونکہ چار رکعت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إذا صلَّى أحدُكم الجمعةَ فليصلِّ بعدها أربعًا(صحيح مسلم:881)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھ چکے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔
جمعہ سے پہلے نفل نماز سے متعلق پہلے حدیث گزری کہ جو مسجد آئے اور جس قدر پڑھے، یہ مرضی کی بات ہے اسی کو نفل کہتے ہیں ۔
خلاصہ یہ ہےکہ جمعہ کی فرض نماز سے پہلے سنت مؤکدہ نہیں ہے لیکن مسجد میں آنے والا کم ازکم مسجد میں داخل ہوتے وقت دو رکعت تحیۃ المسجد کی نیت سے ضرور پڑھ کر بیٹھے گا اور خطبہ میں وقت ہو تو دو دو رکعت کرکے جتنا پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے ۔ امام کے ساتھ فرض نماز ادا کرنے کے بعد دو رکعت بھی پڑھ سکتےہیں اور چار رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں ، اس بارے میں بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ مسجد میں جمعہ کے بعد کی سنت پڑھیں گے تو چار رکعت پڑھیں گے اور گھر میں سنت پڑھیں گے تو دو رکعت پڑھیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تفریق کی کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے یہ بات بے دلیل ہے ، آپ مسجد یا گھر کہیں پر بھی فرض نماز کے بعد دو رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں اور چار رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ اس بارے میں مزید جانکاری کے لئے میرا مضمون" نمازجمعہ کے بعد تعداد رکعات میں مسجد اور گھر کی تفریق" پڑھیں جو میرے بلاگ پر موجود ہے۔
نمازجمعہ کےلئے مسجد آنے والوں کے چند حالات:
نماز جمعہ کے واسطے مسجد میں آنے والے کے لئے پانچ حالات میں سے کوئی ایک حالت ہوسکتی ہے، ان پانچوں حالات کے احکام مندرجہ ذیل ہیں ۔
(1) نماز جمعہ کے لئے سویرے آنے والا آدمی جو نماز جمعہ اور خطبہ سے پہلے مسجد میں حاضر ہوتا ہے ایسا آدمی بیٹھنے سے قبل کم ازکم دو رکعت تحیۃ المسجد ضرور پڑھ کر بیٹھے کیونکہ مسجدمیں داخل ہونے والے کے لئے دو رکعت نماز پڑھے بغیر بیٹھنا منع ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
دَخَلْتُ المَسْجِدَ وَرَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ جَالِسٌ بيْنَ ظَهْرَانَيِ النَّاسِ، قالَ: فَجَلَسْتُ، فَقالَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ: ما مَنَعَكَ أَنْ تَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تَجْلِسَ؟ قالَ: فَقُلتُ: يا رَسولَ اللهِ، رَأَيْتُكَ جَالِسًا وَالنَّاسُ جُلُوسٌ، قالَ: فَإِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ، فلا يَجْلِسْ حتَّى يَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ(صحيح مسلم:714)
ترجمہ:میں مسجد میں اس حال میں داخل ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان تشریف فرما تھے تو میں بھی بیٹھ گیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ہے؟ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو بیٹھتے ہوئے دیکھا (اس لیے میں بیٹھ گیا) آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں آئے تو دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
تحیۃ المسجد پڑھنے کے بعد مزید نوافل ادا کرنا چاہے توادا کرسکتا ہے اور صرف دو ہی رکعت پر اکتفا کرتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ یہاں پر ایک شبہ عوام میں موجود ہے کہ زوال کے وقت نماز نہیں ہوتی ہے اس لئے جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہونے والے بعض افراد کوئی نماز نہیں پڑھتے اور جاتے ہی فورا بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہ اس آدمی کی غلطی ہے۔
٭ پہلی بات یہ ہے کہ سورج نکل کر ایک نیزہ بلند ہونے کے بعد سے لے کر نصف النہار سے پہلے تک نوافل پڑھنا منع نہیں ہے ، یہی تو صلاۃ الضحی کا وقت ہے اس لئے جمعہ کے دن مسجد جاکر نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
٭ دوسری بات یہ ہے کہ نصف النہار کے وقت نوافل ادا کرنا ممنوع ہے مگر جمعہ کے دن نصف النہار سے پہلے یا نصف النہار کے وقت یا نصف النہار کے بعد بھی نوافل ادا کرسکتے ہیں، اس بات کی جانکاری کے ساتھ کے سبب والی نمازیں مثلا تحیۃ المسجد ، تحیۃ الوضوء ، نماز طواف وغیرہ تو کبھی بھی ادا کرسکتے ہیں ، ان کے لئے کبھی بھی کسی وقت کی ممانعت نہیں ہے ۔ نیز یہاں ایک اثر بھی دیکھتے چلیں جس سے اس مسئلہ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
حضرت عبداللہ بن سیدان سلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
شهدتُ الجمعةَ مع أبي بكرٍ الصِّدِّيقِ فكانت خطبتُه وصلاتُه قبل نصفِ النهارِ ، ثم شهِدْنا مع عمرَ فكانت خطبتُه وصلاتُه إلى أن أقولَ : انتصف النهارُ ، ثم شهدنا مع عثمانَ فكانت خطبتُه وصلاتُه إلى أن أقولَ : زال النهارُ ، فما رأيتُ أحدًا عاب ذلك ولا أنكَرَه(الأجوبة النافعة للالبانی :23 اسنادہ جسن)
ترجمہ: میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر ہوا، ان کا خطبہ اور نماز نصف النہار سے پہلے ہوتی تھی پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضر ہوا ،ان کا خطبہ اور نماز نصف النہار کے وقت ہوتی تھی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں حاضرہوا،ان کا خطبہ اور نماز زوال کے وقت ہوتی تھی ۔ میں نے کسی بھی صحابی کو ان حضرات کے فعل پر اعتراض یا احتجاج کرتے نہیں دیکھا۔
یہ اثر اس بات کے لئے دلیل ہے کہ نصف النہار کے وقت بھی نوافل ادا کرسکتے ہیں حتی کہ نماز جمعہ بھی ادا کرسکتے ہیں اس کی گنجائش ہے تاہم جمعہ کی فرض نماز ظہر کے وقت کے حساب سے پڑھی جائے کیونکہ جمعہ کا وقت بھی اصل وہی ہے جو ظہر کاہے ۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں:
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يُصَلِّي الجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ(صحيح البخاري:904)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔
(2) نماز جمعہ کے لئے آنے والا اس وقت مسجد میں داخل ہوجب امام ممبر پر بیٹھ گیا ہو اور اذان ہورہی ہو۔ ایسی صورت میں اس کے حق میں بہتر ہے کہ وہ اذان کا جواب دے پھر اذان کے بعد تحیۃ المسجد پڑھے، اس طرح اس کو اذان کا جواب دینے کا اجر بھی مل جائے گا لیکن اگر کوئی اذان کا جواب دئے بغیر فورا تحیۃ المسجد پڑھنے لگ جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ اذان کا جواب دینا مسنون ہے، اس کو چھوڑدینے سے کوئی گناہ نہیں ملے گا جبکہ تحیۃ المسجد پڑھنے کا اس سے زیادہ تاکیدی حکم آیا ہے۔
(3)نما زجمعہ کے لئے آنے والا اس وقت مسجد آئے جب امام خطبہ دے رہا ہو، ایسی صورت میں اس آدمی کو چاہئے کہ ہلکی دو رکعت نماز ادا کرکے بیٹھے ۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےکہا:
جَاءَ سُلَيْكٌ الْغَطَفَانِيُّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ " يَا سُلَيْكُ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، وَتَجَوَّزْ فِيهِمَا "، ثُمَّ قَالَ: إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا (مسلم:875)
ترجمہ:سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ جمعے کے دن (اس وقت) آئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گئے۔آپ نے ان سے کہا: "اے سلیک!ا ٹھ کر دو رکعتیں پڑھو اور ان میں سے اختصار برتو۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!جب تم میں سے کوئی جمعے کےدن آئے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے اور ان میں اختصار کرے۔
احناف کے یہاں اس حدیث کے برخلاف عمل کیا جاتا ہے یعنی خطبہ دیتے وقت مسجد میں آنے والا تحیۃ المسجد نہیں پڑھتا ، مسجد میں آتے ہی فورا بیٹھ جاتا ہے۔ یہ سراسر فرمان رسول کی مخالفت ہے۔ کس قدر حیران کن معاملہ ہے کہ لوگ امام کی تقلید میں امام کائنات محمد ﷺ کا فرمان چھوڑ دیتے ہیں ، آپ ﷺ نے مسجد آکر بیٹھ جانے والے صحابی کو اٹھ کر دو رکعت نماز ادا کرنے کا حکم دیا، یہ حکم رسول ہے ۔ اورسورہ نساءکی آیت(مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ) سے ہمیں معلوم ہوتا ہےکہ رسول کی اطاعت ، اللہ کی اطاعت ہے ۔ گویا حکم رسول ترک کرنے والا اللہ کی اطاعت سے روگردانی کررہا ہے۔
(4) نمازجمعہ کے لئے آنے والا اس وقت مسجد میں داخل ہوجب جمعہ کی نماز شروع ہوچکی ہو۔ اگر شروع نماز سے جمعہ کی دونوں رکعات مل گئیں تو الحمد للہ جمعہ کی نماز کا مکمل اجر مل گیا ۔اور اگر کوئی دوسری رکعت میں امام کے ساتھ ملے تو وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد دوسری رکعت مکمل کرکے اپنا سلام پھیرے اس طرح اس کو بھی جمعہ کی جماعت کا اجر مل جائے گا کیونکہ امام کے ساتھ کم ازکم ایک رکعت مل جانے سے جماعت کا اجر مل جاتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلَاةِ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ(صحیح البخاری:580)
ترجمہ: جس نے ایک رکعت نماز (باجماعت) پا لی اس نے نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔
اسی طرح خصوصیت کے ساتھ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ أَوْ غَيْرِهَا، فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ (صحيح ابن ماجه:929)
مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْجُمُعَةِ أَوْ غَيْرِهَا فَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُهُ (صحيح النسائي:556)
جہاں تک مدرک رکوع کا معاملہ ہے یعنی جو امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں پائے وہ کیا کرے؟مدرک رکوع کی رکعت کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے ، بعض رکعت شمار کرتے ہیں اور بعض رکعت شمار نہیں کرتے ہیں ۔ اس میں قوی موقف یہ ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت نہیں ہوتی ہے لہذا دوسری رکعت کے رکوع میں ملنے والا آدمی امام کے سلام پھیرنے کے بعد ظہر کی نماز ادا کرے گا۔
(5) نماز جمعہ کے لئے آنے والا اس وقت مسجد میں جاتا ہے جب امام دوسری رکعت کے سجدہ میں یا تشہد میں ہو تو اس صورت میں وہ نماز میں شامل ہوجائے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد ظہر کی نیت سے چار رکعت نماز ادا کرے کیونکہ اس سے نماز جمعہ فوت ہوگئی ہے اور نماز جمعہ پانے کے لئے کم ازکم امام کے ساتھ ایک رکعت ملنا ضروری ہےجیساکہ دلائل کی روشنی میں اوپر یہ مسئلہ واضح کیا گیا ہے۔
نماز جمعہ کے مزید کچھ احکام ومسائل:
٭ مردوں کی طرح عورت بھی یوم جمعہ کی فیوض وبرکات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔وہ بھی غسل کرے، مسواک کرے،سورہ کہف پڑھے، کثرت سے درود پڑھے ، مسجد میں عورتوں کے لئے علاحدہ انتظام ہو تو مسجد میں جمعہ پڑھے ورنہ گھرپہ ظہر ادا کرے ۔ عصر ومغرب کے درمیان قبولیت کی گھڑی میں دعا کرے ۔حائضہ عورت ہے تو نماز نہیں پڑھے گی لیکن تلاوت ، دعا، درود اور ذکر واذکار کرسکتی ہے۔
٭آدمی کسی بھی دن سفر کرسکتا ہے اور نبی ﷺ عموما جمعرات کو سفر کیا کرتے تھے ۔اگر کسی کو جمعہ کے دن سفر درپیش ہوتو زوال کے وقت سے پہلے سفر کرسکتا ہے یا جمعہ کی نماز کے بعد لیکن زوال کے بعد جمعہ کا وقت شروع ہوجاتا ہے اس لئے اب سفر نہ کرے مسلمانوں کے ساتھ جمعہ پڑھے ۔
٭مسافر کے اوپر نماز جمعہ نہیں ہے ،وہ ظہر پڑھے گا، نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرعرفہ میں جمعہ نہیں پڑھا لیکن اگر مسافر شہر والوں کے ساتھ جمعہ پڑھ لیتا ہے تو کفایت کرجائے گا۔ چونکہ مسافر دو نمازوں کو جمع بھی کرسکتا ہے مگر جمعہ کے ساتھ عصر کو جمع نہیں کیا جائے گا۔
٭ جمعہ کے دن بارش ہونے لگے اس حال میں کہ راستے میں کیچڑ ہو اور مسجد تک پہنچنا دشوار ہو تواس وقت گھر میں ظہر پڑھ سکتے ہیں ، اسی طرح کوئی مریض ہو اور مرض کی وجہ سے مسجد نہ جاسکتا ہو تو گھر میں ظہر ادا کرلے گا۔
٭جمعہ کے دن عید آجائے تو جمعہ کی نماز پڑھنا بستی والوں کے لئے ضروری نہیں ہے ،جمعہ چھوڑ سکتے ہیں اس کے بدلے ظہر ادا کرلیں اور جمعہ پڑھنا چاہیں تو جمعہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
٭ جمعہ کے دن خصوصیت کے ساتھ اکیلا روزہ رکھنے کی ممانعت ہے اس لئے صرف جمعہ کا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ ایک دن پہلے یا بعد والے دن کے ساتھ ملاکر رکھا جائے تاہم جمعہ کے دن یوم عرفہ آجائے تو اس دن روزہ رکھنے میں حرج نہیں ہے۔
٭جمعہ کا خطبہ مقامی زبان میں دے سکتے ہیں تاکہ سامعین خطبہ کے وعط ونصیحت سے فائدہ اٹھاسکیں ۔احناف عربی کے علاوہ دوسری زبان میں خطبہ کے قائل نہیں ہیں اس لئے عربی میں ہی خطبہ دیتے ہیں مگر یہاں پر احناف سے دو قسم کی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ خطبہ سے پہلے عجمی زبان میں لمبا بیان کرتے ہیں جو دین میں نئی ایجاد اور بدعت ہے ۔ خطبہ سے قبل بیان دینے کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ احناف کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ عربی میں خطبہ فقط رسم پوری کرنے کے لئے دیتے ہیں اس لئے ان کا خطبہ دوچار منٹ کا ہوتا ہے۔احناف کو بھی چاہئےعجمی زبان میں خطبہ دے تاکہ اپنی مساجد سے خطبہ سے پہلے انجام دی جانے والی بدعت ختم کرسکے۔
٭ ممبر پر کھڑے ہوکر دوخطبہ دینا چاہئے اور دونوں کے درمیان کچھ دیر کے لئےبیٹھنا چاہئے ۔ ممبر کے لئے عالم وباعمل امام کا ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ خطبہ کا مقصد پورا ہو۔خطبہ متوسط ہو، طویل نہ ہو۔ امام پوری امانت داری کے ساتھ خطبہ کی تیاری کرے اور مناسب موضوعات کا انتخاب کیاکرے ۔بسا اوقات خطبہ کی طوالت یا امام کی عدم تیاری کے سبب یا موزوں امام نہ ہونے کی وجہ سے نمازی خطبہ میں تاخیر سے کام لیتے ہیں ۔
٭خطیب کی دعاؤں پر مقتدی آہستہ سے آمین کہہ سکتا ہے مگر خطبہ کے دوران لوگوں کا ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا درست نہیں ہے ۔ اسی طرح خطبہ کے دوران ذکر کرنا بھی درست نہیں ہے نیز خطبہ کے دوران کوئی دوسرے کو سلام بھی نہ کرے ۔ مسجد میں داخل ہونے والا تحیۃ المسجد پڑھ کر خاموشی سے بیٹھ جائے۔
٭اصل یہی ہے کہ جو خطبہ دے وہی جمعہ کی نماز پڑھائے لیکن اگر خطیب کے علاوہ دوسرا آدمی نماز پڑھادے تو حرج نہیں ہے ۔
٭ جمعہ کی نماز میں رسول اللہ ﷺ کبھی سورہ جمعہ اور سورہ منافقون کی تلاوت کرتے اور کبھی سورہ اعلی وسورہ غاشیہ کی تلاوت کرتے اس لئے نماز جمعہ میں اس سنت کی پیروی کی جائے تاہم دوسری سورت پڑھنے میں بھی حرج نہیں ہے۔
٭ احناف کے یہاں گاؤں میں جمعہ قائم کرنا صحیح نہیں ہے پھر بھی یہ لوگ گاؤں میں جمعہ پڑھتے ہیں ساتھ ہی جمعہ کی نماز کے بعد اس نیت سے ظہر احتیاطی بھی پڑھتے ہیں کہ کہیں جمعہ کی نماز نہیں ہوئی ہو تو ظہر کی نماز ہوجائے گی ۔ یہ عبادت کے ساتھ ایک قسم کا کھلواڑ ہے ۔ اس معاملہ میں حق یہ ہے کہ جمعہ گاؤں اور شہر دونوں جگہ ادا کیا جائے گاجیساکہ اوپر دلائل سے بات کی گئی ہےاور ظہراحتیاطی پڑھنا دین میں نئی ایجاد ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔