Monday, November 18, 2024

فرض نماز کے بعدفورا اللہ اکبر کہنا



فرض نماز کے بعدفورا اللہ اکبر کہنا
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
 
پاک وہند کے اہل حدیث کے یہاں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فورا بعد" اللہ اکبر "کہنے کا معمول ہے اور میں بھی اس پر عمل کرتا آرہا ہوں مگرعرب میں اس پہ عمل نہ پائے جانے کی وجہ سے بارہا یہ سوال آتا رہتا ہے اور پہلے کبھی اس مسئلہ کی چھان بین نہیں کیا تھا۔ جب حالیہ دنوں پھر یہ مسئلہ زیربحث آیا تو اس بارے میں دلائل پہ غورکرنا شروع کیا۔ پھر میرے سامنے جو بات آئی وہ حاضر خدمت ہے ۔
اس مسئلہ کی حقیقت جاننے کے لئے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد "اللہ اکبر " کہنے کی  کون سی دلیل ہےچنانچہ اس بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک اثر ملتا ہے وہ اثر یہ ہے۔
ابو معبد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے فرمایا:
كُنْتُ أعْرِفُ انْقِضاءَ صَلاةِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بالتَّكْبِيرِ(صحيح البخاري:842)
ترجمہ: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کو تکبیر کی وجہ سے سمجھ جاتا تھا۔
جس دلیل کی وجہ سے فرض نماز کے فورا بعد "اللہ اکبر "کہا جاتا ہے وہ ابن عباس سے مروی یہی ایک اثر ہے ۔ اس اثر میں تکبیر کا لفظ آیا ہے اور کہاجاتا ہے کہ اس سے مراد اللہ اکبر ہے۔اب سطور ذیل میں تکبیر سے متعلق وضاحت ملاحظہ کریں ۔
جب ہم تکبیر سے متعلق احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر سے کبھی اللہ اکبر مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس سے مراد ذکر کرنا ہوتا ہے بلکہ کلمہ  كبَّرَ يكبِّرجس سے مصدر تكبيرًا آتاہے۔ یہ فعل بھی کبھی اللہ اکبر کے معنی میں آتا ہے اور کبھی ذکر کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ اس بات کو دلیل سے واضح کرتا ہوں تاکہ مسئلہ کی سمجھ آئے۔ تکبیر یا كبَّرَ يكبِّرسے مراد اللہ اکبر بھی ہوتا ہے اس کی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے ، یہ بالکل واضح ہے تاہم یہاں اصل جس چیز کی ضرورت ہے اس کی دلیل بیان کرتا ہوں ۔
٭تکبیر سے مراد ذکر ہوتا ہے اس کی دلیل :
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
لَمَّا غَزَا رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ خَيْبَرَ -أوْ قالَ: لَمَّا تَوَجَّهَ رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ- أشْرَفَ النَّاسُ علَى وادٍ، فَرَفَعُوا أصْوَاتَهُمْ بالتَّكْبِيرِ: اللَّهُ أكْبَرُ اللَّهُ أكْبَرُ، لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ(صحيح البخاري:4205)
ترجمہ: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر لشکر کشی کی یا یوں بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خیبر کی طرف) روانہ ہوئے تو (راستے میں) لوگ ایک وادی میں پہنچے اور بلند آواز کے ساتھ تکبیر کہنے لگے اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہٰ الا اللہ ”اللہ سب سے بلند و برتر ہے ‘ اللہ سب سے بلند و برتر ہے ‘ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
٭ كبَّرَ يكبِّرسے مراد بھی کبھی ذکر ہوتا ہے اس کی دلیل:
عن ابنِ مسعودٍ رضي اللهُ عنهُ أنهُ كان يُكبِّرُ أيامَ التشريقِ اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ( إرواء الغليل:3/125)
ترجمہ: ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایام تشریق میں اس طرح تکبیر کہتے : اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ لفظ تکبیر سے اللہ اکبر بھی مراد ہوتا ہے اور ذکر بھی مراد ہوتا ہے اور ابن عباس کے اثر میں جو تکبیر کا لفظ آیا ہے وہ مجمل ہے اس میں یہ صراحت  نہیں ہے کہ یہاں تکبیر سے اللہ اکبر مراد ہے بلکہ ایسی کوئی روایت  بھی موجود نہیں جس سےمعلوم ہو کہ تکبیر سے مراد اللہ اکبر ہے  البتہ ابن عباس سے مروی دوسری روایت میں یہ صراحت ملتی ہے کہ عہد رسول میں صحابہ کرام سلام پھیرنے کے بعد بلند آواز سے ذکر کرتے  بلکہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسی بلندذکر سے سلام پھیرنے کا علم ہوجاتا۔ روایت اس طرح سے ہے۔
٭  صحیح بخاری کی حدیث جسے امام بخاری نے " بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت ذکر کیا ہے:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابو معبد نے خبر دی:
أنَّ ابْنَ عبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عنْهما، أخْبَرَهُ: أنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ، بالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَكْتُوبَةِ كانَ علَى عَهْدِ النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وقالَ ابنُ عبَّاسٍ: كُنْتُ أعْلَمُ إذا انْصَرَفُوا بذلكَ إذا سَمِعْتُهُ(صحيح البخاري:841)
ترجمہ: انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بلند آواز سے ذکر، فرض نماز سے فارغ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جاری تھا۔ اور (ابو معبد) نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب لوگ سلام پھیرتے تو مجھے اس بات کا علم اسی (بلندآواز کے ساتھ کیے گئے ذکر) سے ہوتا تھا۔
٭صحیح  مسلم کی حدیث جسے امام مسلم نے ": باب الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت ذکر کیا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ ےغلام ابو معبد نے بتایا:
أنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ: أنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ المَكْتُوبَةِ، كانَ علَى عَهْدِ النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ. وَأنَّهُ قالَ: قالَ ابنُ عَبَّاسٍ: كُنْتُ أَعْلَمُ إذَا انْصَرَفُوا بذلكَ، إذَا سَمِعْتُهُ(صحيح مسلم:583)
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں خبر دی کہ جب لوگ فرض نماز سے سلام پھیرتے تو اس کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں (رائج) تھا اور (ابو معبد) نے کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب لوگ سلام پھیرتے تو مجھے اس بات کا علم اسی (بلندآواز کے ساتھ کیے گئے ذکر) سے ہوتا تھا۔
٭سنن ابی داؤد کی حدیث جسے امام ابوداؤد نے " باب التَّكْبِيرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت ذکرکیاہے:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابو معبد نے خبر دی:
أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنّ" رَفْعَ الصَّوْتِ لِلذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ، كَانَ ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَأَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِكَ وَأَسْمَعُهُ(سنن ابي داود:1003)
ترجمہ:عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبردی کہ ذکر کے لیے آواز اس وقت بلند کی جاتی تھی جب لوگ فرض نماز سے سلام پھیر کر پلٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہی دستور تھا، ابن عباس کہتے ہیں: جب لوگ نماز سے پلٹتے تو مجھے اسی سے اس کا علم ہوتا اور میں اسے سنتا تھا۔
اب تکبیر والی مجمل روایت کو صحیح بخاری، صحیح مسلم اور ابوداؤد وغیرہ کی ایک دوسری حدیث سے ملاکر دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر سے مراد ذکر کرنا ہے یعنی نماز کے بعد بلند آواز سے نماز کے بعد کے اذکار کئے جائیں گے۔یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نےاوپر بیان کردہ باب کے تحت  تکبیر والی حدیث سے پہلے ذکر والی حدیث بیان کی ہےپھر ذکر والی حدیث اور امام مسلم نے پہلے تکبیروالی حدیث بیان کی پھر ذکر والی حدیث ۔اور امام ابوداؤد نے "باب التَّكْبِيرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ" کے تحت پہلے تکبیروالی حدیث پھر ذکر والی حدیث بیان کی ۔ ان تمام محدثین نے دونوں احادیث ذکر کی ہیں ان کی نظر میں ایک حدیث دوسرے کی شرح ہے بلکہ شیخین نے باب الذکرقائم کرکے صراحت کردی کہ تکبیر سے مراد بھی ذکر ہی ہےمزید اس اجمال کی شرح ذکر والی حدیث سے ہوجاتی ہے۔
اب ایک اہم نکتہ سمجھیں کہ ابن عباس نے نبی ﷺ کے سلام پھیرنے کی علامت یہ بیان کی کہ آپ جب تکبیرکرتے تو ہم آپ کی نماز ختم ہونا سمجھ جاتے ۔ اس تکبیروالی حدیث کو ذکر والی حدیث سے ملاکر دیکھ چکے ہیں ، اب اس حدیث سے ملاکر دیکھتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ آپ سلام پھیرکرتین مرتبہ استغفار کرتے ۔۔۔۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، إذَا انْصَرَفَ مِن صَلَاتِهِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقالَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ. قالَ الوَلِيدُ: فَقُلتُ لِلأَوْزَاعِيِّ: كيفَ الاسْتِغْفَارُ؟ قالَ: تَقُولُ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ(: صحيح مسلم:591)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتےاور اس کے بعد کہتے: اللہم انت السلام و منک السلام، تبارکت ذاالجلال والاکرام ” اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت و برکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!“ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا: استغفار کیسے کیا جائے؟ انھوں نے کہا: استغفر اللہ، استغفر اللہ کہے۔
ابن عباس سے مروی تکبیر والی حدیث میں  تکبیر کی صراحت نہیں ہے، ابن عباس سے مروی دوسری حدیث سے ذکر کرنا معلوم ہوتا ہے مگر پھربھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کیا ذکر کرتے تھے یعنی ذکر کے الفاظ کیا تھے جسے سن کر معلوم ہوجاتا کہ آپ نے سلام پھیردیا ہے۔ اب ثوبان کی حدیث سے یہ معاملہ واضح ہوجاتا ہے کہ نبی ﷺ جب سلام پھیرتے یا نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتے پھر "اللھم انت السلام۔۔۔ کہتے ۔ اگر آپ ﷺ اللہ اکبر بھی کہتے تو یہاں اس حدیث میں اس کا ذکر ضرور ہوتا ۔ کیا آپ یہاں غور نہیں کرتے کہ راوی استغفار سے متعلق صیغہ پوچھتے کہ آپ ﷺکن الفاظ میں استغفار کرتے ۔ اس حدیث میں مذکور یہی وہ کلام ہے جسے آپ ﷺ نماز سے فراغت کے بعد قبلہ رخ ہوکرکہتے  اور استغفار سب سے عظیم ذکر ہے پھر اپنا چہرہ مقتدی کی طرف کرلیتے جیساکہ صحیح مسلم کی  اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كانَ النبيُّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إذَا سَلَّمَ لَمْ يَقْعُدْ إلَّا مِقْدَارَ ما يقولُ: اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ. وفي رِوَايَةِ ابْنِ نُمَيْرٍ يا ذَا الجَلَالِ وَالإِكْرَامِ( صحيح مسلم:592)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرنے کے بعد صرف یہ ذکر پڑھنے تک ہی (قبلہ رخ) بیٹھتے: اللہم! انت السلام ومنک السلام تبارکت ذاالجلال والاکرام ”اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت وبرکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے!“ ابن نمیر کی روایت میں: یا ذالجلال والاکرام (یا کے اضافے کے ساتھ) ہے۔
صحیح مسلم کی اس روایت میں استغفار کا ذکر نہیں ہے مگر دوسری حدیث سے جو زیادتی ثابت ہے اس پر عمل کرنا ہے بلکہ صحیح مسلم کی ثوبان والی روایت میں ذوالجلال والاکرام میں "یا" کا ذکر نہیں ہے مگر دوسری روایت میں یا مذکور ہے اس لئے معمولی زیادتی بھی ہم عمل میں لاتے ہیں ۔
ایک نکتہ کی وضاحت:
اہل علم کی ایک جماعت اس جانب گئی ہے کہ ابن عباس سے مروی تکبیروالی روایت ، ذکر والی روایت کے لئےشرح وبیان ہے اس وجہ سے تکبیر سے "اللہ اکبر" مراد ہے جبکہ دوسری جماعت اس جانب گئی ہے کہ تکبیر مجمل ہے اور اس سے ذکر کرنا مراد ہے۔
شیخ سلیمان الرحیلی سے سوال کیا گیا کہ سلام پھیرنے کے بعد اور استغفار سے پہلے اللہ اکبر کہنے کا کیا حکم ہےتو شیخ نے جواب دیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ وہ نبی ﷺ کی نماز ختم ہونے کو تکبیر سے جان لیتے تھے ۔اور یہ لفظ مجمل ہے ۔ تکبیرکا اطلاق ذکر پر ہوتا ہے اور اس سے اللہ اکبر کہنا بھی مراد لی جاتی ہے۔سلام پھیرنے کے اذکار تفصیل  سےبیان کئے گئے ہیں لیکن اس میں سلام کے فورا بعد اللہ اکبر کہنا موجود نہیں ہےاور نبی ﷺ سے تفصیل کے ساتھ جو چیز ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ سلام پھیرنے کے بعد استغفراللہ کہتے ۔ اس وجہ سے اہل  علم کے راحج قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ سلام پھیرنے کے فورا بعد استغفار کرنا ہے۔ جہاں تک تکبیر کا معاملہ ہے تو اس سے مراد ذکر ہے ، نہ کہ خصوصیت کے ساتھ  اللہ اکبرکہنا مراد ہے۔("السنۃ سفینۃ النجاۃ "یوٹیوب چینل کے ایک سوال وجواب سے ماخوذ)

اس مسئلہ میں اختلافی باتوں اور طول کلامی سے بچتے ہوئے اختصار کے ساتھ محض نفس مسئلہ پرتوجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔ اور مذکورہ ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں تکبیر سے مراد نماز کے بعد ذکر کرنا ہےاور کیا ذکر کرنا ہے اس کی کچھ تفصیل اوپر ہے اور اس کے علاوہ مزید اذکار وارد ہیں جو کتب حدیث اور کتب صلاۃ میں موجود ہیں۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔