تیمم کا طریقہ اور اس
کے بعض مسائل
تحریر: مقبول احمد
سلفی /جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
پہلی آیت :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (النساء:43)
ترجمہ:اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو اور جنابت کی حالت میں جب تک کہ غسل نہ کرلو، ہاں اگر راہ چلتے گزر جانے والے ہوں تو اور بات ہے۔ اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور اپنے ہاتھ مل لو ، بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔
اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ جب شراب حرام نہیں تھی اس دوران شراب کی حالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرآن کی آیت میں غلطی کربیٹھے تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں:
صنعَ لنا عبدُ الرَّحمنِ بنُ عوفٍ طعامًا فدَعانا وسَقانا منَ الخمرِ فأخذَتِ الخمرُ منَّا وحضَرتِ الصَّلاةُ فقدَّموني فقرأتُ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ونحنُ نعبدُ ما تعبدونَ فأنزلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ( صحيح الترمذي:3026)
ترجمہ: عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے ہمارے لیے کھانا تیار کیا، پھر ہمیں بلا کر کھلایا اور شراب پلائی۔ شراب نے ہماری عقلیں ماؤف کر دیں، اور اسی دوران نماز کا وقت آ گیا، تو لوگوں نے مجھے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا، میں نے پڑھا «قل يا أيها الكافرون لا أعبد ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون» ”اے نبی! کہہ دیجئیے: کافرو! جن کی تم عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا، اور ہم اسی کو پوجتے ہیں جنہیں تم پوجتے ہو“، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون» ”اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو، تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو“(النساء:43)۔
بعد میں شراب کی حرمت بھی نازل ہوگئی ،نیز اس آیت میں اللہ نے نماز کے لئے پاکی کا حکم بیان کیا ہے کہ جب کوئی آدمی بیمار ہویا سفر پہ ہو یا قضائے حاجت سے آیا ہو یا مباشرت کی ہو اور اسے پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلے پاکی حاصل کرلے اس کے بعد وہ نماز ادا کرسکتا ہے۔
دوسری آیت:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (المائدة:6)
سورہ مائدہ کی اس آیت کی شان نزول سے متعلق کئی روایات ہیں ، بخاری سے ایک مختصر حدیث نقل کرتا ہوں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
أنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِن أسْمَاءَ قِلَادَةً فَهَلَكَتْ، فَبَعَثَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ رَجُلًا فَوَجَدَهَا، فأدْرَكَتْهُمُ الصَّلَاةُ وليسَ معهُمْ مَاءٌ، فَصَلَّوْا، فَشَكَوْا ذلكَ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فأنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَقالَ أُسَيْدُ بنُ حُضَيْرٍ لِعَائِشَةَ: جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ ما نَزَلَ بكِ أمْرٌ تَكْرَهِينَهُ، إلَّا جَعَلَ اللَّهُ ذَلِكِ لَكِ ولِلْمُسْلِمِينَ فيه خَيْرًا( صحيح البخاري:336)
ترجمہ:انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار مانگ کر پہن لیا تھا، وہ گم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا، جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت آپہنچا اور لوگوں کے پاس (جو ہار کی تلاش میں گئے تھے) پانی نہیں تھا۔ لوگوں نے نماز پڑھ لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق شکایت کی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری جسے سن کر اسید بن حضیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا آپ کو اللہ بہترین بدلہ دے۔ واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فرما دی۔
اس شان نزول سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سبب تیمم کی آسانی اللہ کی طرف سے میسر ہوئی ۔ بظاہر سیدہ کا ہار گم ہوجانے کی وجہ سے لوگوں کو وقتی طور پر تکلیف لاحق ہوئی اور ایک جگہ نبی اور صحابہ کو رکنا پڑا تھا جہاں پانی میسر نہیں تھامگر اللہ نے اس تکلیف کے سبب تمام مسلمانوں کے لئے آسانی پیدا فرمادی جیساکہ اسیدبن حضیررضی اللہ عنہ کے کلام ظاہر ہے ۔ شیعہ حضرات بھی تیمم کرتے ہیں جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سبب میسر ہوا اس کے باوجوداہل تشیع اماں عائشہ کے بارے میں نازیبا کلمات کہتے ہیں ۔ ہداہم اللہ
سورہ مائدہ کی آیت میں اللہ تعالی نے نماز سے پہلے وضو کرنے کا حکم دیا ساتھ ہی وضو کا مختصر طریقہ بھی بتایا جس کی تفصیل احادیث میں مذکور ہے ۔ موقع کی مناسبت سے وضو کے طریقہ سے متعلق ایک حدیث بھی ذکر کردیتا ہوں جس میں عثمان رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی طرح وضو کرکے دکھا یا ہے ۔ حمران عثمان کے مولیٰ نے خبر دی:
أنَّهُ، رَأَى عُثْمَانَ بنَ عَفَّانَ دَعَا بإنَاءٍ، فأفْرَغَ علَى كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ أدْخَلَ يَمِينَهُ في الإنَاءِ، فَمَضْمَضَ، واسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وجْهَهُ ثَلَاثًا، ويَدَيْهِ إلى المِرْفَقَيْنِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ مَسَحَ برَأْسِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ إلى الكَعْبَيْنِ، ثُمَّ قالَ: قالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مَن تَوَضَّأَ نَحْوَ وُضُوئِي هذا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ لا يُحَدِّثُ فِيهِما نَفْسَهُ، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ(صحيح البخاري:159)
ترجمہ:انہوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا، انہوں نے (حمران سے) پانی کا برتن مانگا۔ (اور لے کر پہلے) اپنی ہتھیلیوں پر تین مرتبہ پانی ڈالا پھر انہیں دھویا۔ اس کے بعد اپنا داہنا ہاتھ برتن میں ڈالا۔ اور (پانی لے کر) کلی کی اور ناک صاف کی، پھر تین بار اپنا چہرہ دھویا اور کہنیوں تک تین بار دونوں ہاتھ دھوئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر (پانی لے کر) ٹخنوں تک تین مرتبہ اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرح ایسا وضو کرے، پھر دو رکعت پڑھے، جس میں اپنے نفس سے کوئی بات نہ کرے۔ تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت میں اللہ نے وضو کے بعد تیمم کا ذکر کیا ہے اور تیمم وضواورغسل کا بدل ہے جس سے وضو بھی ہوجاتا ہے اور غسل بھی ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالی تیمم کی صورتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تم مریض ہویا سفر پہ ہو یا قضائے حاجت سے آئے ہو یا مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلوپھرتیمم کا مختصر طریقہ بھی بتایا کہ پاک مٹی کو اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لو۔
اللہ نے تیمم کے لئے چار صورتوں کا ذکر کیا ہےوہ مرض، سفر، قضائے حاجت اور جنابت ہیں ۔ ان صورتوں سے سمجھاجاسکتا ہے اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرلے یہی اس کے غسل کے لئے کافی ہے اور اس سے وضو بھی ہوجائے گا مثلا جنبی کو پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرلےاس سے حالت جنابت بھی دور ہوجائے گی اور وضو بھی ہوجائے گا پھروہ نماز پڑھ سکتا ہے ۔
تیمم کا مسنون طریقہ :
تیمم وضو اور غسل کے قائم مقام ہے، جب آدمی وضو یا غسل کے لئے تیمم کرےتو شروع میں نیت کے بعد بسم اللہ کہے اور تیمم کرکے وضو کے بعد کی دعا پڑھے جیسے وضو کے وقت پڑھتے ہیں ۔
تیمم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی پاک مٹی پر ایک مرتبہ دونوں ہتھیلوں کو مارے پھر پھونک مار کر ہتھیلی سے غبار صاف کرلے اس کے بعد بائیں ہاتھ کی باطنی ہتھیلی سے دائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پرمسح کرے پھردائیں ہاتھ کی باطنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کرے ،اس کے بعد دونوں ہاتھ مکمل چہرے پر پھیرلے ۔
اس طرح تیمم ہوجائے گااور تیمم کا یہی راحج طریقہ ہے۔ واضح رہے مٹی پر صرف ایک بار ہاتھ مارنا ہے اور ہاتھوں کو کہنی تک مسح نہیں کرنا ہے بلکہ صرف ہتھیلی کو مسح کرنا ہے۔ تیمم کے اس طریقہ کی دلیل بخاری کی وہ روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ جب نبی ﷺ نے عماررضی اللہ عنہ کو ایک سفر پر بھیجا اور ان کو غسل کی حاجت پیش آگئی اور پانی نہیں ملا تو انہوں نے اپنے آپ کو مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ کرلیا ۔ پھر جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے لئے صرف اتنااتناکرلینا کافی تھا ۔ پھرنبیﷺ نے انہیں تیمم کا طریقہ بتایا۔
إنَّما كانَ يَكْفِيكَ أنْ تَصْنَعَ هَكَذَا، فَضَرَبَ بكَفِّهِ ضَرْبَةً علَى الأرْضِ، ثُمَّ نَفَضَهَا، ثُمَّ مَسَحَ بهِما ظَهْرَ كَفِّهِ بشِمَالِهِ أوْ ظَهْرَ شِمَالِهِ بكَفِّهِ، ثُمَّ مَسَحَ بهِما وجْهَهُ(صحيح البخاري:347)
ترجمہ: تمہارے لئے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پرایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔
اس حدیث پر امام بخاریؒ نے باب باندھا ہے"بَابُ التَّيَمُّمُ ضَرْبَةٌ" یعنی تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے۔
اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ نبی ﷺ نے ایک ہی مرتبہ زمین پر ہاتھ مارا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ یہاں پر تیمم کا وہی طریقہ مذکور ہے جو میں نے اوپر ذکرکیا ہے ، ہاں راوی کو اس بات میں شک ہے کہ بائیں ہتھیلی سے دائیں پر مسح کیا یا دائیں سے بائیں پرتاہم دوسری روایات سے یہ شک رفع ہوجاتا ہے جیساکہ صحیح مسلم اس طرح مذکور ہے ۔ جب عمار رضی اللہ عنہ نے سفر سے متعلق اپنا واقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:
إنَّما كانَ يَكْفِيكَ أنْ تَقُولَ بيَدَيْكَ هَكَذَا ثُمَّ ضَرَبَ بيَدَيْهِ الأرْضَ ضَرْبَةً واحِدَةً، ثُمَّ مَسَحَ الشِّمَالَ علَى اليَمِينِ، وظَاهِرَ كَفَّيْهِ، ووَجْهَهُ(صحيح مسلم:368)
ترجمہ: تمہارے لیے بس اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرنا کافی تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ ایک بار زمین پر مارے، پھر بائیں ہاتھ کو دائیں پر اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کی پشت پر اور اپنے چہرے پر ملا۔
اس حدیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے زمین پر ایک مرتبہ دونوں ہاتھوں کو مارا پھر بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پرمسح کیا اور دونوں ہتھیلیوں کی پشت پر مسح کیا ۔ اس میں پوری طرح واضح نہیں ہے کہ ہے آپ نے بائیں ہاتھ سے دائیں پر مسح کرکے پھر دائیں ہاتھ سےبائیں پر مسح کیا مگر چونکہ پہلے یہ مذکور ہے کہ بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر مسح کیا پھر مذکور ہے کہ دونوں ہتھیلیوں کے ظاہر کا مسح کیا ، جس سے معلوم ہوتا ہے بائیں ہاتھ سے دائیں پر مسح کیا پھر بعد میں دائیں سے بائیں کا مسح کیا تبھی دونوں ہتھیلی کا مسح ہوگا۔
اس روایت سے صاف اور واضح روایت ابوداؤد اور سنن نسائی میں ہے ۔ ابوداؤد کے الفاظ ہیں ۔ آپ ﷺ عمار سے فرماتے ہیں :
إنَّما كان يكفيك أن تصنعَ هكذا فضرب بيدِه على الأرضِ فنفضها ثمَّ ضرب بشمالِه على يمينِه وبيمينِه على شمالِه على الكفَّيْن ثمَّ مسح وجهَه(صحيح أبي داود:321)
ترجمہ:تمہیں تو بس اس طرح کر لینا کافی تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا، پھر اسے جھاڑا، پھر اپنے بائیں سے اپنی دائیں ہتھیلی پر اور دائیں سے بائیں ہتھیلی پر مارا، پھر اپنے چہرے کا مسح کیا۔
یہاں بالکل وثوق اور وضاحت کے ساتھ پہلے بائیں ہتھیلی سے دائیں ہاتھ پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہتھیلی کا مسح مذکور ہے ۔اسی طرح سنن نسائی کے الفاظ ہیں ۔
إنما كان يكفيكَ، أن تقولَ هكذا. وضرب بيديْهِ على الأرضِ ضربةً، فمسح كفَّيْهِ، ثم نفَضَهما، ثم ضرب بشمالِه على يمينِه، وبيمينِه على شمالِه، على كفَّيْهِ ووجهِه(صحيح النسائي:319)
ترجمہ: تمہارے لیے بس اس طرح کر لینا ہی کافی تھا، اور آپ نے اپنا دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا، پھر انہیں جھاڑا، پھر آپ نے اپنی بائیں (ہتھیلی) سے اپنی داہنی (ہتھیلی) پر اور داہنی ہتھیلی سے اپنی بائیں (ہتھیلی) پر مارا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں اور اپنے چہرے کا مسح کیا۔
اس روایت میں مزید ایک بات کا اضافہ ہے وہ یہ کہ نبی ﷺ نے زمین پر دونوں ہاتھ ایک بار مار کر دونوں ہتھیلیوں کا مسح کیا پھر انہیں جھاڑ کر بائیں ہاتھ کو دائیں اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر مارا۔
تیمم کا دوسرا طریقہ :
بعض اہل علم نے تیمم کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ پہلے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ماریں پھر انہیں پھونک دیں اس کے بعد دونوں ہاتھوں کو مکمل چہرے پر پھیریں پھر دونوں ہتھیلیوں کو ایک دوسرے پر مل لیں یعنی تیمم میں پہلے چہرے کا مسح کرنے کہتے ہیں اس کے بعد دونوں ہتھیلیوں کا مسح کرنے کہتے ہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالی نے تیمم کا ذکر کرتے ہوئے پہلے چہرےکا ذکر کیا ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ(المائدۃ:6)
اور تیمم سے متعلق سب سے مشہور حدیث عمار میں اس طرح سے بھی مذکور ہے ، صحیح بخاری میں ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں:
إنَّما كانَ يَكْفِيكَ هَكَذَا فَضَرَبَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بكَفَّيْهِ الأرْضَ، ونَفَخَ فِيهِمَا، ثُمَّ مَسَحَ بهِما وجْهَهُ وكَفَّيْهِ(صحيح البخاري:338)
ترجمہ: تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔
اس طرح تیمم کے دوطریقے ہوگئے ۔
تیمم میں راحج موقف:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ نے قرآن میں تیمم کا ذکر کرتے ہوئے پہلے چہرے کا ذکر کیا ہے مگر ہم سبھی جانتے ہیں کہ قرآن مجمل ہے، اس کی تفسیر حدیث ہے ۔ نبی ﷺ نے قرآن کے اجمالی تیمم کا جب مفصلا بیان کیا ہے تو اس میں پہلے ہتھیلی کا ذکر کیا ہے جس کا بیان میں نے تیمم کے پہلے طریقہ میں کیا ہے لہذا نبی ﷺ جب کسی قرآنی آیت کے اجمال کی تفصیل بیاں کریں تو اس تفصیل کے حساب سے عمل کیا جائے گا۔ جہاں تک حدیث عمار سے متعلق بعض مقامات پر پہلے چہرہ کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی قرآن جیسے اجمالی طور پرذکر آیا ہے یعنی راوی نے تیمم کے طریقہ کو اجمالی طور پر بیان کرتے ہوئے پہلے چہرہ کا ذکر کردیا ہے جبکہ ہمیں تفصیلا معلوم ہے کہ پہلے ہتھیلیوں کا مسح کیا جائے گا بلکہ ہتھیلیوں کے مسح کی کیفیت بھی منقول ہے یعنی پہلے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے دائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کیا جائے گا پھر دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کیا جائے گا۔
تیمم کے طریقہ سے متعلق خلاصہ اور تنبیہ :
٭تیمم کے طریقہ اور اس کی کیفیت کا خلاصہ یہ ہے کہ تیمم کا راحج طریقہ وہی ہے جو پہلے نمبر میں بیان کیاگیا ہے نیز تیمم میں پہلے دونوں ہتھیلیوں پر مسح کیا جائے گا پھر چہرے پر مسح کیا جائے گاخواہ وضو کے لئے تیمم ہو یا غسل کے لئے۔ تیمم میں زمین پردومرتبہ ہاتھ نہیں مارا جائے گا، صرف ایک مرتبہ ہاتھ مارا جائے گا اور پورے ہاتھوں پر مسح نہیں کیا جائے گابلکہ دونوں ہاتھوں کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کیا جائے گا اور چہرے کے مسح میں مکمل چہرے کا مسح کیاجائے گا، بعض حصہ مسح کرنے سے تیمم نہیں ہوگا۔
٭شیخ ابن بازؒ اور ابن عثیمینؒ وغیرھمانے بیان کیا ہے کہ غسل کے تیمم میں امر واسع ہے ، اس میں ترتیب واجب نہیں ہے لیکن وضو کے لئے تیمم میں ترتیب واجب ہے یعنی پہلے چہرے پر مسح کیاجائے گا پھر دونوں ہتھیلیوں کو مسح کیا جائے گا، ان کی دلیل اللہ کا فرمان ہے اور بعض وہ احادیث جن میں چہرہ کو مقدم کیا گیا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن میں تیمم کا ذکر صرف وضو کے لئے نہیں کیا ہے بلکہ وضو اور غسل دونوں کے لئے کیا ہے جس کی وضاحت میں اوپر کرچکا ہوں یعنی وضو ہو یا حدث اکبر سے غسل کرنا ہو ان دونوں صورتوں کا ذکر کرکے اللہ بیان کرتا ہے کہ اگرتمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو۔اور اس کا ایک دوسرا جواب اوپر دے چکا ہوں کہ قرآن اور حدیث میں جہاں چہرہ مقدم ہے وہ تیمم کا اجمالی طریقہ ہے جبکہ تیمم کے تفصیلی طریقہ میں ہاتھ چہرے پر مقدم ہے لہذا تیمم وضو کے لئے ہو یا غسل کے لئے ہو ان دونوں صورتوں میں تیمم کی ایک ہی کیفیت راحج ہے اور اس میں دونوں ہاتھوں کو چہرے پر مقدم کیا جائے گا۔
٭اس اشکال سے متعلق آخری نکتہ یہ ہے کہ ایک صحابی ابوجہیم نے نبی ﷺ سے سلام کیا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا حتی کہ آپ ایک دیوار کے پاس آئے اور اپنےچہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر سلام کا جواب دیا ، اس میں تیمم کرنے کی کیفیت اس طرح مذکورہے : حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ فَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَيَدَيْهِ(صحیح البخاری:337) یعنی آپ دیوار کے قریب آئے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا۔ یہ وضو کا تیمم تھا ،آپ نے بظاہر چہرے سے شروع کیا ۔ دوسری قسم کی حدیث، حدیث عمار ہے اس میں غسل کے لئے تیمم ہے اور اس تیمم سے متعلق احادیث میں دو طریقے بیان ہوئے ہیں ، ایک تیمم کا مفصل طریقہ ہے جس میں ہاتھوں کا مسح مقدم ہے اور دوسرا اجمالی طریقہ ہے جس میں چہرہ کا مسح مقدم ہے ۔ اس باب میں ایک تیسری حدیث صحیحین اور سنن وغیرہ میں مذکور ہے کہ ایک شخص جنبی ہوگیا اورحضرت عمررضی اللہ عنہ سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے کہا نماز نہ پڑھو مگر وہی مذکورہ صحابی عمار کیا جواب دیتے ہیں حدیث میں پڑھیں۔
ترجمہ: ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا (تو میں اب کیا کروں) اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انہیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور ہتھیلیوں کا مسح کیا۔
ان تینوں قسم کی احادیث پر نظر ڈالنے کے بعد یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تیمم کا ایک اجمالی طریقہ ہے اور دوسرا تفصیلی طریقہ ہے ، ظاہر سی بات ہے کہ تفصیل کو اجمال پر تقدم حاصل ہوگا ، دوسری بات یہ ہے کہ حدیث عمار کے تحت ہم تیمم کا تفصیلی طریقہ جان چکے ہیں ، یہاں تیسری قسم کی حدیث میں تیمم کا طریقہ بھی عمار رضی اللہ عنہ سے منقول ہے مگر یہاں پر چہرے کا مسح مقدم ہے جبکہ تفصیلی طریقہ میں ہتھیلی کا مسح مقدم ہے، اس سے یہ بات صاف طور پرظاہر ہوتی ہے کہ تیمم کو اجمالا بیان کرتے ہوئے راوی اسی طرح بیان کرتے ہیں جیسے قرآن نے بیان کیا ہے اور اس کی تفصیل کیاہے وہ حدیث عمار سے ہم معلوم کرچکے ہیں ۔
تیمم کی شرائط:
اہل علم نے تیمم کی متعدد شرائط بیان کی ہیں، اختلافی امور سے صرف نظرکرتے ہوئےتیمم کی چاراہم شرائط ذکر کرتا ہوں ۔
(1)تیمم کے لئے سب سے پہلے نیت کرنا شرط ہے کیونکہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔
(2)دوسری شرط یہ ہے کہ پانی موجود نہ ہو تبھی تیمم کرسکتےہیں ، پانی کی موجودگی میں تیمم نہیں ہوگا۔اسی میں یہ پہلو بھی ہے کہ پانی وضو یا غسل کے لئے کافی نہ یا صرف ضرورت بھرپانی ہوتب بھی تیمم کرسکتے ہیں۔
(3) تیسری شرط یہ ہے کہ پانی موجود ہومگر اس کا استعمال مضرہو مثلا مرض یا سخت ٹھنڈی کے سبب ۔اسی میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ پانی انتہائی ٹھنڈا ہوجس سے غسل کرنا مشکل ہو اور گرم کرنے کا آلہ نہ ہو تب غسل کے لئے تیمم کرسکتے ہیں ۔
(4) چوتھی شرط پاک مٹی سے تیمم کیا جائے گا، جو مٹی پاک نہ ہو یا جو مٹی کے قبیل سے نہ ہو اس سے تیمم نہیں ہوگا۔
تیمم کی مشروعیت، مدت اور اس کے نواقض کا ذکر:
٭جب انسان کو وضو یا غسل کی ضرورت ہو اور پانی موجود نہ ہو یا پانی کا استعمال مضرصحت ہو تو اس کے لئے تیمم کرنا مشروع ہوجاتا ہے اور تیمم کرنے سے وضو بھی ہوجاتا ہے اور غسل بھی یعنی آدمی حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے پاک ہوجاتا ہے۔
٭ ایک مرتبہ تیمم کرنے کے بعد جب تک تیمم باطل کرنے والا کوئی امر لاحق نہ ہو تب تک آدمی اسی ایک تیمم سے نماز پڑھ سکتا ہے یعنی تیمم باقی ہے توآدمی دوسرے یا تیسرے وقت کی بھی نماز پڑھ سکتا ہے اور اسے اپنے تیمم کی تجدید کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
٭ان تمام امور سے تیمم باطل ہوجاتا ہے جن امور سے وضو باطل ہوتا ہے ، اسی طرح پانی دستیاب ہوجانے یا پانی کے استعمال پر قدرت حاصل ہوجانے سے تیمم ختم ہوجاتا ہے۔
متیمم کو نماز پڑھتے وقت یا بعد میں پانی مل جائے:
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ نماز کے وقت وضو کرنے کے لئےپانی دستیاب نہیں ہوتا تو انسان تیمم کرکے نماز پڑھنے لگ جاتا ہے اور جیسے نماز شروع کرتا ہے یا نماز پڑھنے لگ جاتا ہے اسی دوران پانی کی موجودگی کا علم ہوتا ہے ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جاری شدہ نماز توڑ کر پانی سے وضو بناکر پھر سے نماز ادا کی جائے گی یا تیمم والی نماز مکمل کی جائے گی اور یہی کفایت کر جائے گی ؟
اس سلسلے میں ایک قول تو یہ ہے کہ متیمم اپنی نماز جاری رکھے اوراسے مکمل کرے ، یہی کفایت کرجائے گی دہرانے کی ضرورت نہیں ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ متیمم اپنی نماز توڑدے اور وضو بناکر پھر سے نماز پڑھے ۔ میرے نزدیک دوسرا قول دلیل سے قوی معلوم ہوتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَلَمْ تَجِدُوا مَاء فَتَيَمَّمُوا(النساء:43)ترجمہ: اور تمہیں پانی نہ ملے تو تیمم کرو۔
پاک مٹی سے تیمم عذرکے وقت ہے اور وہ عذر پانی کا نہ ملنا ہے ، جب اور جیسے ہی پانی مل جائے عذر ختم ہوجائے گا لہذا متیمم کو جاری نماز ختم کرکے پانی سے وضو بناکر ازسرے نو نماز ادا کرنا ہوگا۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ جب پانی مل جائے تو تیمم کا حکم باطل ہوجائے گا اور جب تیمم باطل تو نماز بھی باطل ہوگئی کیونکہ حدث(ناپاکی) پھر سے لوٹ آئی ۔ (الشرح الممتع:1/404)
اسی طرح سنن الترمذی کی مندرجہ ذیل حدیث بھی دلیل ہے کہ پانی ملنے سے تیمم باطل ہوجائے گا اور جب تیمم باطل ہے تو اس میں جاری نماز بھی باطل ہوجائے گی کیونکہ پھر سے حدث لوٹ آیا۔ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ الصعيدَ الطيبَ طهورُ المسلمِ وإن لم يجدِ الماءَ عشرَ سنين فإذا وجد الماءَ فليمسَّه بشرتَه فإن ذلك خيرٌ(صحيح الترمذي:124)
ترجمہ: پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب وہ پانی پا لے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے، یہی اس کے لیے بہتر ہے۔
اب رہا ایک دوسرا مسئلہ وہ یہ کہ اگر کوئی پانی کی عدم دستیابی پر تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد پانی مل جائے تو کیا پڑھی گئی نماز دہرانی ہوگی یا اداکی گئی نمازہوجائے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے بعد پانی ملنے پر متیمم کو اپنی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے وہی نماز کافی ہے ۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
خرجَ رجلانِ في سفَرٍ، فحضرتِ الصَّلاةُ وليسَ معَهُما ماءٌ، فتيمَّما صَعيدًا طيِّبًا فصلَّيا، ثمَّ وجدا الماءَ في الوقتِ، فأعادَ أحدُهُما الصَّلاةَ والوضوءَ ولم يُعدِ الآخرُ، ثمَّ أتيا رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فذَكَرا ذلِكَ لَهُ فقالَ للَّذي لم يُعِد: أصبتَ السُّنَّةَ، وأجزَأتكَ صلاتُكَ. وقالَ للَّذي توضَّأَ وأعادَ: لَكَ الأجرُ مرَّتينِ(صحيح أبي داود:338)
ترجمہ: دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی:تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا:تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تیمم کرکے پڑھی گئی نماز پانی ملنے سے دہرانی نہیں ہے اور یہ بھی علم ہوگیا کہ یہی سنت طریقہ ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ دہرانے والے صحابی سے کہا"اصبت السنۃ" یعنی تم نے سنت کو پالیا۔ اس لئے سنت معلوم ہونے کے بعد کوئی دہرا اجر پانےکی نیت سے نماز نہیں دہرائے گا۔
برف سے تیمم کرنا کفایت کرجائے گا؟
برف کا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا بھی ہے ، بخاری و مسلم میں دعا ہے کہ اے اللہ میرے دل کو اولے اور برف کے پانی سے دھو دے ۔
اللَّهمَّ اغسل قلبي بماءِ الثَّلجِ والبَرَدِ (صحيح البخاري:6377)
اے اللہ! میرے دل کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے۔
اللهمَّ طهِّرْني بالثَّلجِ والبَرَدِ والماءِ البارِدِ( صحيح مسلم:476)
ترجمہ: اے اللہ ! مجھے برف ، اولے اور ٹھنڈے پانی سے پاک کردے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ برف کے بہتے پانی سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں لیکن جمی ہوئی برف سے تیمم کرنے کے متعلق جواز وعدم جواز میں اختلاف ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا(النساء:43)
ترجمہ:اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے پاک مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے اور یہ مٹی زمین کا حصہ ہے اس وجہ سے مٹی یا اس کی دوسری اجناس ریت،غبار، کنکری، پتھر، مٹی کی ٹھیکری ، کچی اینٹ، مٹی کی دیوار، مٹی کا پلسٹروغیرہ سے تیمم کرسکتے ہیں مگر جو مٹی کی جنس نہیں ہے اس سے تیمم نہیں کرسکتے اور برف مٹی کی جنس سے نہیں ہے لہذا اس سے تیمم کفایت نہیں کرے گا۔
فتح الباری میں عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے :" إنَّ الثَّلجَ لا يُتيمَّمُ به" کہ برف سے تیمم نہیں ہوگا مگر ابن رجب نے اس کی سند میں ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري لابن رجب:2/233)
سخت سردی کے موسم میں جنبی کے تیمم کرنے کا حکم:
ٹھندی کے موسم میں عام طور سے لوگ یہ سوال بار بار پوچھتے ہیں کہ جسے فجر کی نماز کے لئے غسل کی ضرورت ہے مثلا جنبی یا محتلم تو کیا ایسا آدمی سخت ٹھنڈی کے سبب غسل کی بجائے تیمم کرسکتا ہے اس حال میں کہ پانی گرم کرنے کی سہولت نہ ہو ؟
یہ سوال میری نظر میں کافی اہم ہے خاص طور پر اس جہت سے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل کا خوفناک تصور کرکے لوگ غسل چھوڑدیتے ہیں حتی کہ نماز فجر جیسی اہم عبادت بھی ترک کردیتے ہیں۔ اس لئے یہ اہم مسئلہ جان لینا ضروری ہے ۔
اللہ تعالی نے بندوں کو طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایاہے اور دین مشکل کا نام نہیں ، اس میں بندوں کے لئے آسانی ہے ۔ اگر کوئی آدمی رات کو جنبی ہوگیا یا اسے فجر سے پہلے احتلام ہوگیا ۔ پانی موجود ہے مگر اسے گرم کرنے کی کوئی صورت نہیں اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے پر بیمار ہوجانے یا پہلے سے بیمار ہوتو اس کی بیماری میں اضافہ ہوجانے کا سبب ہو تو اس صورت حال میں غسل کی بجائے تیمم کرنا کافی ہوگا جو غسل اور وضو دونوں کے لئے کفایت کرے گا ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا (النساء:43)
اس آیت میں بیمار اور مسافرکو پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے ۔ بیمار سے وہ آدمی مراد ہے جسے وضو اور غسل سے نقصان یا بیماری میں اضافہ کا اندیشہ ہو۔ اس بیمار میں وہ مقیم بھی داخل ہے جس نے رات میں بیوی سے جماع کیا یا اسے احتلام ہوگیا ، گرم پانی میسر نہیں، ٹھنڈ پانی سے غسل باعث ضرر یا ضرر میں اضافہ کا سبب ہے ۔ حدیث سے اس کی خاص دلیل بھی ملتی ہے ۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
احتَلمتُ في ليلةٍ باردةٍ في غزوةِ ذاتِ السُّلاسلِ فأشفَقتُ إنِ اغتَسَلتُ أن أَهْلِكَ فتيمَّمتُ، ثمَّ صلَّيتُ بأصحابي الصُّبحَ فذَكَروا ذلِكَ للنَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ فقالَ: يا عَمرو صلَّيتَ بأصحابِكَ وأنتَ جنُبٌ ؟ فأخبرتُهُ بالَّذي مَنعَني منَ الاغتِسالِ وقُلتُ إنِّي سَمِعْتُ اللَّهَ يقولُ:( وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ) فضحِكَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ولم يَقُلْ شيئًا(صحيح أبي داود:334)
ترجمہ: غزوہ ذات سلاسل میں مجھے ایک ٹھنڈی رات احتلام ہو گیا ، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے غسل کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا ، چنانچہ میں نے تیمم کر لیا اور اپنے ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی ، انہوں نے یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ذکر یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :اے عمرو ! کیا تو نے جنبی ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی جماعت کرائی تھی ؟ میں نے بتایا کہ کس وجہ سے میں نے غسل نہیں کیا تھا اور میں نے یہ بھی کہا کہ میں نے اللہ کا فرمان سنا ہے «ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما»(اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، اللہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور کچھ نہ کہا ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
وفي هذا الحديث جواز التيمم لمن يتوقع من استعمال الماء الهلاك سواء كان لأجل برد أو غيره ، وجواز صلاة المتيمم بالمتوضئين .( فتح الباري 1 / 454 ) .
ترجمہ: اس حديث ميں اس كا جواز پايا جاتا ہے كہ سردى وغيرہ كى بنا پر اگر پانى استعمال كرنے سے ہلاكت كا خدشہ ہو تو تیمم كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح تيمم كرنے والا شخص وضوء كرنے والوں كى امامت بھى كروا سكتا ہے.
تیمم سے متعلق مزید چند مسائل واحکام :
٭ تیمم سےپاکی حاصل کرنے کے بعد جمیع قسم کی عبادات کرسکتے ہیں جیسے فرض نماز، نفل نماز ،قیام اللیل ، جنازہ کی نماز، حج وعمرہ ،طواف ، نماز طواف وغیرہ ۔
٭جو آدمی پانی نہ ملنے وجہ سے حدث اکبر(جنابت، حیض ونفاس) سے پاکی کے لئے تیمم کیا تھا اسے بعد میں پانی مل جائے تو اب وہ غسل کرے گا اور اسی طرح وہ بھی غسل کرے گا جس کے لئے پانی کا استعمال مضر تھا مگر اب وہ استعمال کی قدرت رکھتا ہے۔
٭ اگرکوئی ایسا مریض یا معذور ہو جو وضویا تیمم کرنے کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ اسی حال میں نماز پڑھ لے گا، نماز کو نہ وقت سے تاخیرکرے گا اور نہ ہی نماز ضائع کرے گا۔
٭ اگر کوئی جنبی فجر کی نماز سے سویا رہ گیا اور سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے اٹھا تو وہ نماز کا وقت فوت ہوجانے کے خوف سے تیمم کرکے نماز نہیں پڑھے گا بلکہ اسے غسل کی حاجت ہے تو وہ غسل کرکے نماز پڑھے گا چاہے نماز کا وقت ہی کیوں نہ فوت ہوجائے ۔
٭بروقت پانی موجود نہ ہوتو کیا پانی کی تلاش میں نماز میں تاخیر کی جاسکتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ۔ جس وقت نماز ادا کرنا ہو اس وقت پانی موجود نہ ہو یا پانی کے استعمال پرقادر نہ ہوتو تیمم کرکے اول وقت پر آدمی نماز ادا کرے گا، نماز کے لئےتاخیر نہیں کرے گاتاہم پانی کی تلاش کے لئے کوشش ضرور کرے گا۔
٭ تیمم پاک مٹی سے کیا جائے گا ،زمین اور دیوار بھی پاک مٹی کے حکم میں ہے خواہ اس پہ دھول لگی ہو یا نہ لگی ہو۔ ہاں اگر دیوار مٹی /اینٹ کی بجائے اس پہ لکڑی یا ٹائلس لگی ہو تو اس پہ تیمم نہ کرے کیونکہ یہ مٹی کے حکم میں نہیں ہے ، اس پہ دھول مٹی جمی ہوتب اس سےتیمم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
٭آج کل اکثر جگہ پانی گرم کرنے کی سہولت موجود ہےلیکن کہیں یہ سہولت میسر نہ ہو ہے اور ٹھنڈے پانی سے بدن دھونا ممکن ہوتو جہاں تک ہوسکےبدن دھولیں ، سر دھونا نقصان دہ ہو تو سر چھوڑ دیں اور ساتھ ہی تیمم بھی کرلیں ۔اسی طرح غسل کے لئے پانی کم ہو تو جس قدرہوسکے بدن دھولیں ، باقیہ حصہ پر مسح کرلیں ۔
٭سردی میں عام طور سے لوگ زکام میں مبتلا ہوتے ہیں ، اگر زکام مسلسل چلا آرہاہواور غسل سے طبیب نے منع کیاہوتوجنابت سے طہارت کے لئے بس تیمم کرلے لیکن معمولی سردی وزکام ہواور پانی سے خواہ سرد ہو یا گرم نقصان نہ ہوتوغسل واجب ہے۔
٭ تیمم کرکے نماز پڑھنے والا آدمی امامت بھی کراسکتا ہے جیساکہ اوپر عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ گزرا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔