غسل کا مسنون طریقہ اور اس کے بعض مسائل
تحریر: مقبول احمد سلفی/جدہ دعوہ سنٹر-سعودی عرب
لا تُقْبَلُ صَلاةٌ بغيرِ طُهُورٍ ولا صَدَقَةٌ مِن غُلُولٍ(صحيح مسلم:224)
ترجمہ:نماز طہارت کے بغیر قبول نہیں ہوتی اور صدقہ ناجائز طریقے سے حاصل کئے ہوئے مال سے قبول نہیں ہوتا۔
اس حدیث سے عبادت کے تئیں طہارت وپاکیزگی کی اہمیت واضح ہوتی ہے اس لئے مسلمانوں کو ہمیشہ طہارت کا خیال رکھنا چاہئے نیز نبی ﷺنے جیسے ہمیں طہارت حاصل کرنے کا طریقہ سکھایا ہے اس انداز میں طہارت حاصل کرنا چاہئے ۔ آئیے آپ کو یہاں پر احادیث رسول کی روشنی میں غسل کا مسنون طریقہ بتاتاہوں تاکہ اسی انداز میں ہم غسل کیا کریں ۔ غسل کا طریقہ جاننے کے لئے اس سے متعلق احادیث پر نظر ڈالنا ضروری ہے لہذا میں غسل سے متعلق پہلے چند اہم احادیث بیان کرتا ہوں پھر ان احادیث سے غسل کرنے کی جو مسنون کیفیت ثابت ہوتی ہے اس کو بیان کروں گا۔
(1)عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِي الْمَاءِ فَيُخَلِّلُ بِهَا أُصُولَ شَعَرِهِ، ثُمَّ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ غُرَفٍ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى جِلْدِهِ كُلِّهِ(صحیح البخاری:248)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر اسی طرح وضو کرتے جیسا نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر پانی میں اپنی انگلیاں داخل فرماتے اور ان سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو سر پر ڈالتے پھر تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔
(2)عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، يَبْدَأُ فَيَغْسِلُ يَدَيْهِ، ثُمَّ يُفْرِغُ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ، فَيَغْسِلُ فَرْجَهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ الْمَاءَ، فَيُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِي أُصُولِ الشَّعْرِ، حَتَّى إِذَا رَأَى أَنْ قَدِ اسْتَبْرَأَ، حَفَنَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ (صحیح مسلم:316)
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرماتے تو پہلے اپنے ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرم گاہ دھوتے، پھر نماز کے وضو کی مانند وضو فرماتے، پھر پانی لے کر انگلیوں کو بالوں کی جڑوں میں داخل کرتے، جب آپ سمجھتے کہ آپ نے اچھی طرح جڑوں میں پانی پہنچا دیا ہے۔ تواپنے سر پر دونوں ہاتھوں سے تین چلو ڈالتے۔ پھر سارے جسم پر پانی ڈالتے (اور جسم دھوتے) پھر (آخر میں) اپنے دونوں پاؤں دھو لیتے۔
(3)عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، دَعَا بِشَيْءٍ نَحْوَ الْحِلَابِ، فَأَخَذَ بِكَفِّهِ، بَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ، ثُمَّ الأَيْسَرِ، ثُمَّ أَخَذَ بِكَفَّيْهِ، فَقَالَ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ (صحیح مسلم:318)
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت فرماتے تو تقریباً اتنا بڑا برتن منگواتے جتنا اونٹنی کا دودھ دھونے کا ہوتا ہے۔ اور چلو سے پانی لیتے اور سر کے دائیں حصے سےآغاز فرماتے، پھر بائیں طرف (پانی ڈالتے)، پھر دونوں ہاتھوں (کا لپ بنا کر اس) سے (پانی) لیتے اور ان سے سر پر (پانی) ڈالتے۔
(4)عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ غَسَلَ يَدَيْهِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُخَلِّلُ رَأْسَهُ بِأَصَابِعِهِ حَتَّى إِذَا خُيِّلَ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدِ اسْتَبْرَأَ الْبَشَرَةَ غَرَفَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ(سنن نسائی:423، صححہ البانی)
ترجمہ:ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر اپنی انگلیوں کے ذریعہ سر کا خلال کرتے یہاں تک کہ جب آپ کو یہ محسوس ہو جاتا کہ سر کی پوری جلد تک پانی پہنچا لیا ہے، تو اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے، پھر پورے جسم کو دھوتے۔
(5)میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا:
سَتَرْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وهو يَغْتَسِلُ مِنَ الجَنَابَةِ ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ بيَمِينِهِ علَى شِمَالِهِ، فَغَسَلَ فَرْجَهُ وما أصَابَهُ، ثُمَّ مَسَحَ بيَدِهِ علَى الحَائِطِ أوِ الأرْضِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ غيرَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ أفَاضَ علَى جَسَدِهِ المَاءَ، ثُمَّ تَنَحَّى، فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ(صحیح البخاری:281)
ترجمہ:جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرما رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے، پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی بہایا اور شرمگاہ دھوئی اور جو کچھ اس میں لگ گیا تھا اسے دھویا پھر ہاتھ کو زمین یا دیوار پر رگڑ کر (دھویا) پھر نماز کی طرح وضو کیا۔ پاؤں کے علاوہ۔ پھر پانی اپنے سارے بدن پر بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر دونوں قدموں کو دھویا۔
(6)ام المؤمنین عائشہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے:
أنَّ عمرَ، سأل رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ، عن الغسلِ من الجنابةِ، - واتسقتِ الأحاديث على هذا -، يبدأ فيفرغُ على يدِه اليمنى، مرتين أو ثلاثًا، ثم يدخل يدَه اليُمنى في الإناءِ، فيصب بها على فرجِه، ويدُه اليسرى على فرجه، فيغسل ما هنالك، حتى ينقيَه. ثم يضع يدَه اليُسرى على الترابِ إن شاء، ثم يصب على يدِه اليُسرى حتى ينقيها، ثم يغسل يديه ثلاثًا، ويستنشق، ويمضمض، ويغسل وجهَه وذراعَيه ثلاثًا ثلاثًا، حتى إذا بلغ رأسَه، لم يمسحْ، وأفرغ عليه الماءَ. فهكذا كان غسلُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فيما ذكر(صحيح النسائي:422)
ترجمہ:عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل جنابت کے متعلق سوال کیا، اس جگہ دونوں احادیث (عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی) متفق ہو جاتی ہیں کہ آپ (غسل) شروع کرتے تو پہلے اپنے داہنے ہاتھ پر دو یا تین بار پانی ڈالتے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کرتے، اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالتے، اور آپ کا بایاں ہاتھ شرمگاہ پر ہوتا، تو جو گندگی وہاں ہوتی دھوتے یہاں تک کہ اسے صاف کر دیتے، پھر اگر چاہتے تو بایاں ہاتھ مٹی پر ملتے، پھر اس پر پانی بہا کر صاف کر لیتے، پھر اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوتے، ناک میں پانی ڈالتے، کلی کرتے اور اپنا چہرہ اور دونوں بازووں تین تین مرتبہ دھوتے، یہاں تک کہ جب اپنے سر کے پاس پہنچتے تو اس کا مسح نہیں کرتے، اس کے اوپر پانی بہا لیتے، تو اسی طرح جیسا کہ ذکر کیا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غسل (جنابت) ہوتا تھا۔
غسل کے بارے میں بہت ساری احادیث ہیں مگر ان میں سے جو چند اہم ترین احادیث تھیں جن میں غسل کی الگ الگ کیفیت بیان ہوئی ہے انہیں ذکر کیا ہوں ان سب کی روشنی میں اب غسل کرنے کا مسنون طریقہ آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں جسے غسل جنابت یا غسل کا کامل طریقہ یا غسل حدث اکبربھی کہا جاتا ہے۔
٭ غسل میں سب سے پہلے طہارت حاصل کرنے اور غسل کرنے کی نیت کی جائے گی کیونکہ عمل کا دارومدار نیت پر ہے ۔(صحیح بخاری:1)
٭پھر زبان سے بول کر بسم اللہ کہیں لیکن اگر اٹیچ باتھ روم میں غسل کریں تو دل میں بسم اللہ کہہ لیں ۔ اگر صرف حمام ہو یا تالاب اور نل وغیرہ پر غسل کریں تو زبان سے بسم اللہ کا اظہار کریں ۔(ابوداؤد:101)
٭ اب غسل کی ابتداء کریں اور پہلے دونوں ہاتھوں کو کلائی تک دھوئیں پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی انڈیل کر بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کی صفائی کریں اور بائیں ہاتھ کو مٹی یا زمین پر رگڑ کر صاف کرلیں ۔(صحیح بخاری:281)
٭اس کے بعدنماز کی طرح وضو کریں اور غسل میں وضو کا طریقہ اس طرح منقول ہے جو پانچویں اور چھٹی حدیث میں بیان ہوا ہے ۔ پہلے دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھوئیں پھر ناک میں پانی ڈالیں پھر کلی کریں پھر تین بار چہرہ اور تین بار دونوں بازؤں کو دھوئیں ۔سر کا مسح نہیں کرنا ہے کیونکہ سر کامسح مذکور نہیں ہے اور پیر بھی ابھی نہیں دھلیں ، جب غسل سے فارغ ہوجائیں تو ذرا ہٹ کر دونوں پیر دھولیں ۔(بخاری:281، سنن نسائی :422)
٭ وضو کرنے کے بعد دونوں ہاتھوں کی انگلیاں تر کریں اور بالوں کی جڑوں کو اس طرح خلال کریں کہ بالوں کی جڑیں خوب ترہوجائیں ۔(صحیح بخاری:248)
٭ اب تین چلو سر پہ پانی بہائیں ۔(صحیح بخاری:248)
٭پھر سر کے دائیں جانب چلو سے پانی ڈالیں پھر سر کے بائیں جانب چلو سے پائیں ڈالیں ۔(صحیح مسلم:318)
٭پھر پورے جسم پر پانی بہاکرجسم کے تمام حصوں کو دھل لیں اورغسل کی جگہ سے کچھ ہٹ کر آخر میں دونوں پیردھولیں ۔(بخاری:281)
اس طرح آپ کا غسل جنابت ہوگیا اور یہ حدث اکبر سے طہارت حاصل کرنے کے واسطے غسل کا کامل طریقہ ہے۔
غسل جنابت ہی تمام مواقع کا غسل ہے:
یہی غسل جنابت ، غسل حیض میں بھی کرنا ہےاور غسل نفاس میں بھی کرنا ہے بلکہ جمعہ کے دن ، عیدین کے موقع پراور جب بھی غسل کرنا چاہیں ان تمام مواقع پر یہی غسل جنابت ہی غسل کا کامل اور افضل طریقہ ہے۔ جمعہ کے دن غسل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے اور نبی ﷺ نے جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کرنے کو کہا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ، ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ(صحیح البخاری:881)
ترجمہ: انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کر کے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی (اگر اول وقت مسجد میں پہنچا) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
اس حدیث میں غسل جنابت سے یہی مذکورہ بالاکامل غسل مراد ہے کیونکہ جمعہ بہت اہم دن ہے اس لئے کوئی جھٹ پٹ کفایتی غسل نہ کرے بلکہ کامل غسل یعنی غسل جنابت کرے پھر مسجد آئے ۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث دیکھیں جس میں عورت کو اپنے جسم کی خوشبو دور کرنے کے لئے غسل جنابت کرنے کا نبی ﷺ نے حکم دیا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا خَرَجَتِ الْمَرْأَةُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَلْتَغْتَسِلْ مِنَ الطِّيبِ كَمَا تَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ(سنن نسائی:5130، صححہ البانی)
ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت مسجد کے لیے نکلے تو خوشبو مٹانے کے لیے اس طرح غسل کرے جیسے غسل جنابت کرتی ہے۔
جسم میں خوشبو لگاناہونا حالت جنابت نہیں ہے مگر پھربھی آپ ﷺ نے عورت کو غسل جنابت کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ کامل طور پر جسم کی طہارت ہوجائے اور اچھی طرح خوشبو زائل ہوجائے ۔ ان دونوں احادیث سے بآسانی یہ سمجھاجاسکتا ہے کہ عورت ہو یا مرد اور غسل جنابت ہو یا غسل حیض ونفاس یا جمعہ ، عیدین اور دیگر مواقع کا غسل ، ان تمام مواقع پر غسل جنابت کرنا کامل اور افضل غسل ہے ۔
غسل حیض سے متعلق بیان:
جیساکہ میں نے بتایا کہ غسل جنابت ہی غسل حیض اور غسل نفاس کے لئے بھی کامل غسل ہے اس لئے حیض سے پاکی پر عورت اسی طرح غسل جنابت کرے گی اور چونکہ حیض بدبودار خون ہوتا ہے جو مسلسل کئی دنوں تک بحالت حیض جاری رہنے کے سبب حائضہ کے جسم وکپڑے میں بورہتی ہے اس وجہ ہے نبی ﷺ نے حائضہ کو غسل کے وقت پانی وبیری کے پتے سے اچھی طرح طہارت حاصل کرنے اور غسل کرنے کا حکم دیا ہے پھر عورت غسل کے بعد کستوری(خوشبو) لگے ہوئے کپڑے یا روئی سے اپناجسم یابووالے مقامات پوچھ لے تاکہ جسم سے بوزائل ہوجائے اور فریش ہوکر نماز ادا کرے ۔غسل حیض سے متعلق ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَسْمَاءَ، سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ غُسْلِ الْمَحِيضِ؟ فَقَالَ: تَأْخُذُ إِحْدَاكُنَّ مَاءَهَا وَسِدْرَتَهَا، فَتَطَهَّرُ فَتُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ تَصُبُّ عَلَى رَأْسِهَا، فَتَدْلُكُهُ دَلْكًا شَدِيدًا، حَتَّى تَبْلُغَ شُئُونَ رَأْسِهَا، ثُمَّ تَصُبُّ عَلَيْهَا الْمَاءَ، ثُمَّ تَأْخُذُ فِرْصَةً مُمَسَّكَةً، فَتَطَهَّرُ بِهَا، فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: وَكَيْفَ تَطَهَّرُ بِهَا؟ فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، تَطَهَّرِينَ بِهَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: كَأَنَّهَا تُخْفِي ذَلِكَ، تَتَبَّعِينَ أَثَرَ الدَّمِ، وَسَأَلَتْهُ عَنْ غُسْلِ الْجَنَابَةِ، فَقَالَ: تَأْخُذُ مَاءً، فَتَطَهَّرُ، فَتُحْسِنُ الطُّهُورَ، أَوْ تُبْلِغُ الطُّهُورَ، ثُمَّ تَصُبُّ عَلَى رَأْسِهَا، فَتَدْلُكُهُ حَتَّى تَبْلُغَ شُئُونَ رَأْسِهَا، ثُمَّ تُفِيضُ عَلَيْهَا الْمَاءَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: نِعْمَ النِّسَاءُ، نِسَاءُ الأَنْصَارِ، لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ(صحیح مسلم:332)
ترجمہ:حضرت عائشہؓ سے بیان کرتی تھیں کہ اسما (بنت کشل انصاریہ) ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کےبارے میں سوال کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ایک عورت اپنا پانی او ربیری کے پتے لے کر اچھی طرح پاکیزگی حاصل کرے، پھر سر پر پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح ملے یہاں تک کہ بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانی ڈالے، پھر کستوری لگا کپڑے یا روئی کا ٹکڑا لے کر اس سے پاکیزگی حاصل کرے۔ تو اسماء نے کہا: اس سے پاکیزگی کیسے حاصل کروں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! اسے پاکیزگی حاصل کرو۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: (جیسے وہ اس بات کو چھپا رہی ہوں) خون کے نشان پر لگا کر۔ اور اس نے آپ سے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: (غسل کرنے والی) پانی لے کر اس سے خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر سر پر پانی ڈال کر اسے ملے حتی کہ سر کے بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے، پھر اپنے آپ پر پانی ڈالے۔حضرت عائشہ ؓ نے کہا: انصار کی عورتیں بہت خوب ہیں، دین کو اچھی طرح سمجھنے سے شرم ا نہیں نہیں روکتی۔
اس حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ غسل حیض الگ ہے اور غسل جنابت الگ ہے مگر حقیقت میں دونوں ایک ہی چیز ہے ، دراصل حیض کی حالت میں رہنے کے سبب عورت کو بدبوزائل کا خصوصی اہتمام نبی نے بتایا ہے وگرنہ ہرقسم کے غسل کا کامل اور افضل طریقہ غسل جنابت ہی ہےاور آج کل خوشبودار صابن وشیمپو موجودہے اس لئے بیری کے پتے اور کستوری استعمال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
غسل حیض اور چوٹی:
غسل حیض میں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ اگر عورت کے بالوں میں چوٹی بنی ہو تو لازما اس کو کھولنا پڑے گااور غسل جنابت میں چوٹی کھولنے کی ضرورت نہیں ہےمگر اس معاملہ میں صحیح بات یہ ہے کہ غسل حیض ہو یا غسل جنابت یا غسل نفاس عورت کو چوٹی کھولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس بارے میں صحیح مسلم کی حدیث دیکھیں ۔
عن ام سلمة ، قالت: قلت: يا رسول الله، إني امراة اشد ضفر راسي، فانقضه لغسل الجنابة؟ قال: لا، إنما يكفيك ان تحثي على راسك ثلاث حثيات، ثم تفيضين عليك الماء فتطهرين (مسلم:330)
ترجمہ:حضرت ام سلمہؓ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں ایک ایسی عورت ہوں کہ کس کر سر کے بالوں کی چوٹی بناتی ہوں تو کیا غسل جنابت کے لیے اس کو کھولوں؟آپ نے فرمایا: نہیں، تمہیں بس اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالو، پھر اپنے آپ پر پانی بہا لو تم پاک ہو جاؤں گی۔
گرچہ اس حدیث میں چوٹی نہ کھولنے کا ذکر غسل جنابت کے طورپر ہے جبکہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس طرح بھی مروی ہے۔فَأَنْقُضُهُ لِلْحَيْضَةِ وَالْجَنَابَةِ، فَقَالَ: لَا(کیا میں حیض اور جنابت کے غسل کے لیے اس کو کھولوں؟ تو آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔) بلکہ آگے امام مسلم ؒ نے ایک عام حدیث بھی ذکر فرمائی ہے جس میں چوٹی نہ کھولنے کا ذکر ہے۔
عن عبيد بن عمير ، قال: بلغ عائشة ، ان عبد الله بن عمرو، يامر النساء إذا اغتسلن، ان ينقضن رءوسهن، فقالت: يا عجبا لابن عمر وهذا، يامر النساء إذا اغتسلن، ان ينقضن رءوسهن، افلا يامرهن ان يحلقن رءوسهن، لقد كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد، ولا ازيد على ان افرغ على راسي ثلاث إفراغات (مسلم :331)
ترجمہ: عبید اللہ بن عمیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عائشہؓ کو یہ خبر پہنچی کہ عبداللہ بن عمروؓ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ غسل کرتے وقت سر کے بال کھولا کرین۔ تو انہوں نے کہا: اس ابن عمرو پر تعجب ہے، عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ جب غسل کریں تو سر کے بال کھولیں، وہ انہیں یہ حکم کیوں نہیں دیتا کہ وہ اپنے سر کے بال مونڈ لیں، میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے اور میں اس سے زائد کچھ نہیں کرتی تھی کہ اپنے سر پر تین بار پانی ڈال لیتی۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ کسی بھی قسم کے غسل میں عورت کے لئے اپنے بالوں کی چوٹی کھولنا ضروری ہے ،غسل میں اصل میں ضروری یہ ہے کہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے اور جسم کے تمام اعضاء ترہوجائیں ۔
بعض علماء ابن ماجہ کی ایک حدیث سے دلیل پکڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے غسل حیض میں چوٹی کھولنا ضروری ہے ، وہ روایت اس طرح ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا وَكَانَتْ حَائِضًا: انْقُضِي شَعْرَكِ، وَاغْتَسِلِي، قَالَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِهِ:انْقُضِي رَأْسَكِ(ابن ماجہ:641، صححہ البانی)
ترجمہ: ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ حالت حیض میں تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اپنے بال کھول لو، اور غسل کرو، علی بن محمد نے اپنی حدیث میں کہا: اپنا سر کھول لو۔
اس حدیث کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم استحباب پر محمول کیا جائے گا یعنی یہ وجوبی حکم نہیں ہے ، آپ ﷺ نے انصاری خاتون اسماء کو غسل حیض میں چوٹی کھولنے کا حکم نہیں دیا ہے نیزصحیح مسلم کی روایات سے بھی معلوم ہوتاہے کہ چوٹی کھولنا ضروری نہیں ہے ، یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے ۔ المہم ، غسل حیض میں عورتوں کے لئے اپنے بالوں کی چوٹی کھولنا ضروری نہیں ہے۔
غسل کا دوسرا طریقہ کفایتی غسل :
اوپر غسل کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور افضل طریقہ ہے وہی دراصل غسل کا مسنون طریقہ ہے تاہم غسل کا ایک کفایتی طریقہ بھی ہے اس سے بھی غسل ہوجاتا ہے اور جسم کی طہارت ہوجاتی ہے ۔
کفایتی غسل کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی پہلے غسل طہارت کی نیت کرے ، پھر بسم اللہ کہے ۔ اس کے بعد کلی کرے اور ناک میں پانی ڈال کر اس کی صفائی کرے پھر سر اورپورے بدن پر پانی بہالے ۔ پورے بدن پرپانی بہاکر اعضائے بدن اس طرح ملے کہ ہر جگہ پانی پہنچ جائے اورسارے اعضاء ترہوجائیں حتی کہ بالوں کی جڑوں تک گیلی ہوجائے ۔اس طرح بھی غسل ہوجائے ، اسے کفایتی غسل کہتے ہیں تاہم افضلیت غسل جنابت کو حاصل ہے۔
غسل سے متعلق بعض مسائل :
٭اگر انسان کھلی جگہ یا ایسی جگہ نہائے جہاں اسے لوگ دیکھ سکتے ہوں تو ایسی جگہ لباس لگاکر نہائے ، عریاں ہوکر نہ نہائے ۔ یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يغتسل بالبراز بلا إزار، فصعد المنبر، فحمد الله وأثنى عليه، ثم قال: إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ حيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحبُّ الحياءَ والسِّترَ فإذا اغتسل أحدُكم فلْيستترْ( صحيح أبي داود:4011)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بغیر تہ بند کے (میدان میں) نہاتے دیکھا تو آپ منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ حیاء دار ہے پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیاء اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے۔
٭ اگر پوشیدہ جگہ ہووہاں کوئی دیکھنے والا نہ ہو جیسے بندحمام(بندکمرہ) تو ایسی جگہ میں ننگا ہوکر نہانا جائز ہے اور نبی ﷺ سے بھی ننگاہوکر نہانا ثابت ہے ۔
٭یہاں ایک اہم سوال ہے کہ کیاغسل جنابت کرنے پراس غسل سے وضو بھی ہوجاتا ہے اور اس سے نماز پڑھ سکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب حدث اکبر(جنابت، حیض ، نفاس) کی وجہ سے غسل جنابت کریں تو اس غسل سے وضو بھی ہوجاتا ہے اور اس سے نمازپڑھ سکتے ہیں لیکن اگر بغیرحدث اکبر کے غسل کریں جیسے جمعہ و عیدین یا گرمی سے بچنے یا فریش ہونے کے لئے تو یہ غسل وضو کے لئے کفایت نہیں کرے گا۔
٭جنابت اور حیض ونفاس سے پاک ہونے پر غسل کرنا واجب ہے اور اگر کسی عورت کو جنابت کی حالت میں حیض آجائے یا حیض کی حالت میں احتلام ہوجائے تو عورت غسل جنابت کی ناپاکی دور کرنے کی نیت سے حیض کی حالت میں غسل کرسکتی ہے۔اس سے جنابت کی ناپاکی دور ہوجائے گی اور پھر عورت قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے۔
٭جماع ، احتلام اور شہوت کے ساتھ منی کے خروج سے غسل کرنا واجب ہے نیز اگر مرد اپنی شرمگاہ ، بیوی کی شرمگاہ میں داخل کردیتا ہے تو اس سے بھی غسل واجب ہوجاتا ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہومگر صرف شرمگاہ کا شرمگاہ سے مس ہونے پر غسل واجب نہیں ہوتا خواہ کپڑے کے اوپر سےمس ہو یا بغیر کپڑے کےمس ہو، غسل کے وجوب کے لئے مرد کی سپاری عورت کی شرمگاہ میں داخل ہونا شرط ہے۔
٭ عورتوں کو بیماری کا خون آتا ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں ، جس عورت کو مسلسل استحاضہ کا خون آتا ہے اسےنماز کے لئے غسل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف وضو کرنا ہے اور وضو سے پہلے خون آلودجگہ کی صفائی کرلے۔
٭بعض عورتوں کی شرمگاہ سے رطوبت (سفیدپانی) کا اخراج ہوتا ہے اسے لیکوریا کہتے ہیں ۔ لیکوریا اپنے آپ میں پاک ہے مگر ناقض وضو ہے یعنی اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ مستحاضہ کی طرح لیکوریا والی عورت بھی ہرنماز کے وقت وضو کیا کرے ۔
٭ مرد یا عورت کی شرمگاہ سے شہوت کے بغیرلیس دار مادہ خارج ہوتا ہے اسے مذی کہتے ہیں ، یہ ناپاک ہوتی ہے اور اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔اس میں غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
٭ جب کسی پر غسل طہارت واجب ہوجائے اور اس کے پاس پانی موجود نہ ہو یا پانی کا استعمال مضر صحت ہو تو وہ تیمم کرلے ، اس سے وضو اور غسل دونوں ہوجاتا ہے۔
٭ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی پاک مٹی پر ایک مرتبہ دونوں ہاتھ مارے پھر ہاتھوں میں لگی دھول مٹی کو پھونک کر صاف کرلے اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کرے پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کرلے اس کے بعد دونوں ہاتھوں سے پورے چہرے کا مسح کرے۔ تیمم ہوگیا۔(ابوداؤد:321)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔