Monday, October 7, 2024

طلب علم کے آداب


 
طلب علم کے آداب
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
 
دین اسلام   جو شریعت کی علم ومعرفت اور وحی الہی کا دوسرا نام ہے، اس کا حصول ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے ۔جب تک ہم شریعت کا علم نہیں حاصل کریں گےہمیں معرفت الہی اور دین اسلام اور محمد ﷺ کی سیرت وسنت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ اپنے خالق کی معرفت ، اس کی بندگی کا علم و طریقہ ، حق وباطل کی تمیز ، حلال وحرام  میں فرق، اچھائی وبرائی میں امتیاز نہیں معلوم ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان کے لئے دین پر عمل کرنے سے پہلے اس کا علم حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ صحیح ڈھنک سے سنت کے مطابق دین پر عمل کرسکے ۔ اللہ اور اس کے رسول نے دینی تعلیم کے حصول کے بڑے فضائل بیان کئے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے:
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ(المجادلۃ:11)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
من سلك طريقًا يطلبُ فيه علمًا ، سلك اللهُ به طريقًا من طرقِ الجنةِ ، وإنَّ الملائكةَ لتضعُ أجنحتَها رضًا لطالبِ العِلمِ ، وإنَّ العالِمَ ليستغفرُ له من في السماواتِ ومن في الأرضِ ، والحيتانُ في جوفِ الماءِ ، وإنَّ فضلَ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ ليلةَ البدرِ على سائرِ الكواكبِ ، وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ ، وإنَّ الأنبياءَ لم يُورِّثُوا دينارًا ولا درهمًا ، ورَّثُوا العِلمَ فمن أخذَه أخذ بحظٍّ وافرٍ(صحيح أبي داود:3641)
ترجمہ: جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لئے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا۔
یوں توحصول علم کے بہت سارے فضائل ہیں مگرعلم کی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے ایک آیت اور ایک حدیث ہی کافی ہےاور  یہاں طلب علم کے آداب بتانا مقصد ہے اس لئے اصل موضوع کی طرف رخ کرتا ہوں ۔
طلب علم سے قبل طالب کو دو اہم امور کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔
(1) نیت کی اصلاح:چونکہ یہ علم ، علم نبوت اور وحی الہی ہے اس لئے طالب علم اول وحلہ میں اپنی نیت کو اللہ کے لئے خالص کرے ، یہ نیت کرے کہ وہ اللہ کی رضاپانے، محمد ﷺ کے طریقہ کے مطابق اس کی عبادت کرنے اور اللہ  کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے دین حاصل کررہا ہوں ۔ اس نیت سے علم حاصل کرتے ہیں تو حصول علم کی فضیلت بھی حاصل ہوگی اور اللہ کی نصرت ملے گی جس سے اس کی بندگی کرنا اور اس کے دین پر عمل کرنا آسان ہوگا۔ قرآن کریم کے بعد مقام ومرتبہ میں صحیح بخاری کا درجہ ہے، یہ کتاب جو علم نبوت کی کتاب ہے ، اس میں امام بخاری ؒ نے سب سے پہلی حدیث نیت سے متعلق ذکر فرمائی ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إنَّما الأعْمالُ بالنِّيّاتِ، وإنَّما لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَى، فمَن كانَتْ هِجْرَتُهُ إلى دُنْيا يُصِيبُها ، أوْ إلى امْرَأَةٍ يَنْكِحُها، فَهِجْرَتُهُ إلى ما هاجَرَ إلَيْهِ(صحيح البخاري:1)
ترجمہ: تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
اس حدیث کو سب سے پہلے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ صحیح بخاری پڑھنے والا سب سے پہلے اپنی نیت اللہ کے لئے حاصل کرلے ، ورنہ آپ جانتے ہیں کہ اگر علم کے حصول میں نیت خالص نہ ہو، شہرت اور ریاونمود ہو تو یہی علم جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔
(2)اللہ سے علم وہدایت کی دعا:نیت کو خالص کرنے کے بعد دوسرے نمبرپر طالب اللہ سے علم میں زیادتی کی دعا کرے خصوصا اللہ سے دین کی سمجھ حاصل کرنے کی بکثرت دعا کرے۔ اگر کسی کو دین کی سمجھ نہ حاصل ہو تو وہ جس قدر بھی پڑھے دین سے رہنمائی حاصل نہیں ہوگی۔ دین کی سمجھ اللہ کی طرف سے بہت بڑی سعادت ہے اس لئے نبی ﷺ فرماتے ہیں :
مَن يُرِدِ اللَّهُ به خَيْرًا يُفَقِّهْهُ في الدِّينِ( صحيح البخاري:3116)
ترجمہ:جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ دے دیتا ہے۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن پڑھنے والے بہت لوگ ہیں مگر ہدایت کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے بلکہ ہدایت اس کو نصیب ہوتی ہے جسے اللہ دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے ۔ اہل علم نے ہدایت کی دو قسمیں بیان کی ہیں ۔ پہلی قسم : ہدایت بیان ہے، اسے ہدایت علم وارشاد اور ہدایت تبلیغ بھی کہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء اور علماء کا کام لوگوں کو تبلیغ کرنا ہے جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ( المائدۃ:67)
ترجمہ:اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی ۔
اس آیت میں اللہ نے رسول کی ذمہ داری تبلیغ بتایا ہے یعنی رسول کا کام ہے کہ وہ اپنی امت کو اللہ کے دین کی تبلیغ کریں ، رسول کے جانے کے بعد یہی ذمہ داری اب علماء کی ہے اور اس کام کو ہدایت بیان یا ہدایت تبلیغ کہتے ہیں ۔
دوسری قسم: ہدایت توفیق ہے۔ جب انبیاء یا علماء لوگوں کو اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے ہیں تو ہرکوئی اللہ کے دین پر ایمان نہیں لاتا بلکہ جسے اللہ کی طرف سے ہدایت کی توفیق نصیب ہوتی ہے وہی دین میں داخل ہوتا ہے اور اسلام پر عمل کرتا ہے ، اس کو ہدایت توفیق کہتے ہیں ۔ یہ ہدایت انبیاء کے بھی ہاتھ میں نہیں ہے، ہدایت توفیق صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے  چنانچہ نبی ﷺ نے جب آخری وقت میں اپنے چچا ابوطالب کو کلمہ پڑھنے کے لئے دعوت دیتے ہیں تو آپ کے چچا کلمہ نہیں پڑھ پاتے ہیں کیونکہ اللہ کی طرف سے انہیں ہدایت توفیق نصیب نہیں ہوسکی جس کا ذکر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح قرآن میں کیا ہے:
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (القصص:56)
ترجمہ: آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے۔
لہذا طالب علم اللہ تعالی سے بکثرت اور خصوصی طور پر دین کی سمجھ حاصل کرنے کی دعا کرتا رہے نیز علم میں زیادتی اورشرح صدر کے لئے بھی دعا کرے  اور غیرنافع علم سے اللہ کی پناہ طلب کرے ۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سَلوا اللهَ عِلمًا نافعًا وتعَوَّذوا باللهِ مِن علمٍ لا ينفعُ(صحيح ابن ماجه:3114)
ترجمہ:تم اللہ تعالیٰ سے اس علم کا سوال کرو جو فائدہ پہنچائے، اور اس علم سے پناہ مانگو جو فائدہ نہ پہنچائے۔
اللہ کے رسول محمد ﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عہنما کے لئے اللہ سے دین کی سمجھ اور کتاب وحکمت کا علم عطا کرنے کی دعا فرمائی تھی ، ہم بھی اس طرح سے دعا کرسکتے ہیں جیسے یہ دعا کریں ۔
اللَّهمّ علّمني الكتاب، وفقّهني في الدين۔
ترجمہ: اے اللہ ! مجھے کتاب کا علم عطا فرما اور دین کی سمجھ دے۔
(یہ دو دعاؤں سے ماخود ہے، ایک بخاری (75) اور دوسری بخاری(143) سے)۔
آپ کی دعا کی برکت سے ابن عباس رضی اللہ عنہما فقیہ امت قرار پائے ۔
اسی طرح قرآن کی ایک دعا ہے:
رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طہ:114)
ترجمہ:اے میرے پروردگار! مجھے مزیدعلم عطا کر۔
اسی طرح موسی علیہ السلام کی دعا کریں ۔
رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي (طہ:25-28)
ترجمہ:پروردگار! میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان بنا دے اور میری زبان سے (لکنت کی) گرہ کھول دے تاکہ وہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
اسی طرح فجر کی نماز کے بعد ایک عظیم دعا پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے، ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے:
اللَّهمَّ إنِّي أسألُكَ عِلمًا نافعًا ورزقًا طيِّبًا وعملًا متقبَّلًا(صحيح ابن ماجه:762)
ترجمہ:اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔
اس کے علاوہ اپنی زبان میں بھی دعا کریں اور افضل اوقات میں دعا کرنا نہ بھولیں ۔
علم کے حصول سے پہلے دو بنیادی باتیں بتادی گئیں، اب حصول علم کے لئے چند آداب ملحوظ خاطررکھیں ۔
(1)طلب علم سے پہلے ادب سیکھیں ۔اس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول بہت مشہور ہے :
تَأَدَّبُوا ثُمَّ تَعَلَّمُوا(غذاء الألباب:1/36)
ترجمہ: پہلے ادب سیکھو پھر علم حاصل کرو۔
اور ابن مبارک ؒ کا قول ہے:
طلبت الأدب ثلاثين سنةً, وطلبت العلم عشرين سنةً, وكانوا يطلبون الأدب قبل العلم(غاية النهاية في طبقات القراء لابن الجزري :1/446)
 ترجمہ: میں نے تیس سال ادب سیکھا، اور بیس سال علم حاصل کیا اور لوگ علم سے پہلے ادب سیکھتے تھے۔
ہمیں نبی ﷺ کی تعلیمات میں بھی علم کے ساتھ ادب سکھانے کا حکم ملتا ہے اور ادب کو علم پر مقدم کیا گیاہےچنانچہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا:
إِذَا أَدَّبَ الرَّجُلُ أَمَتَهُ فأحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فأحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا كانَ له أَجْرَانِ( صحيح البخاري:3446)
ترجمہ:اگر کوئی شخص اپنی لونڈی کو اچھی طرح ادب سکھلائے اور پورے طور پر اسے دین کی تعلیم دے۔ پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اسے دوگنا ثواب ملتا ہے۔
بہرکیف! طالب کے پاس ادب واخلاق ، تہذیت وثقافت اور صبروتحمل کے ساتھ ہرقسم کے اخلاق حسنہ اوراوصاف حمیدہ ہونا چاہئے۔ وہ تعلیم سیکھنے آئے تو ہراعتبار سے اس سے ادب جھلکے، اس کی زبان وبیان، سلوک وتعامل ، آمدوروفت اورتعلیم وتعلم کے ساتھ اپنے ساتھی ، عام لوگ اور خاص طور پراپنے استاد کے ساتھ حسن  احترام واکرام سے پیش آئے۔ اور ادب کے خلاف جو بھی باتیں ہیں مثلا بدکلامی، بدسلوکی، بے حیائی وغیرہ  سے دوری اختیار کرے ۔
(2) علم کا شوق: یہ مشاہدہ اور عام تجربہ ہے کہ جسے علم کا شوق ہو وہی آگے بڑھ پاتا، قدر ومنزلت حاصل کرپاتا اور علم وہنر سے لیس ہوتا ہے اور جس میں علم کے حصول کا شوق وجذبہ نہ ہو یا جو جبری طورپر یا کسی حرص وطمع میں علم سیکھے تو اسے علم کی حقیقی منزل نہیں مل پاتی لہذا اپنے اندر علم کا قلبی شوق بیدارکریں ۔آئیے عہد رسالت سے علم سیکھنے کی کچھ مثالیں دیکھتے ہیں ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
قالتِ النِّسَاءُ للنبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: غَلَبَنَا عَلَيْكَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِن نَفْسِكَ، فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيهِ، فَوَعَظَهُنَّ وأَمَرَهُنَّ(صحيح البخاري:101)
ترجمہ:عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ اٹھانے میں) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے (وعظ کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔ اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انہیں وعظ فرمایا اور (مناسب) احکام سنائے۔
علم کے حصول کا عورتوں میں اس قدر شوق تھا کہ انہوں نے نبی ﷺ سے وعظ ونصیحت کے لئے اپنے واسطے دن مقرر فرمایا اور آپ ﷺ نے ان عورتوں کے لئے دن مقرر کردیا اور نصیحت فرمائی ۔ یہ شوق ہمارے یہاں مردوں میں بھی نہیں ہے جو عہد رسالت کی خواتین میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے جبکہ عام عورتوں کے علم کا یہ حال ہے کہ انہیں اپنے نجی مسائل مثلا طلاق، خلع، حقوق زوجین، مسائل حیض ونفاس اور دیگر عائلی امور کی خبر نہیں ہے۔
عورتوں کی طرح مرد حضرات بھی خدمت رسول میں حاضر ہوکر علم حاصل کیا کرتے،ابوسلیمان مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
أَتَيْنَا النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، ونَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فأقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، فَظَنَّ أنَّا اشْتَقْنَا أهْلَنَا، وسَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا في أهْلِنَا، فأخْبَرْنَاهُ، وكانَ رَفِيقًا رَحِيمًا، فَقَالَ: ارْجِعُوا إلى أهْلِيكُمْ، فَعَلِّمُوهُمْ ومُرُوهُمْ، وصَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، وإذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أحَدُكُمْ، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمْ أكْبَرُكُمْ(صحيح البخاري:6008)
ترجمہ:ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیس دنوں تک رہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ان کے متعلق پوچھا جنہیں ہم اپنے گھروں پر چھوڑ کر آئے تھے۔ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا حال سنا دیا۔ آپ بڑے ہی نرم خو اور بڑے رحم کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ اور اپنے ملک والوں کو دین سکھاؤ اور بتاؤ اور تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص تمہارے لیے اذان دے پھر جو تم میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔
یہ کافی اہم حدیث ہے اور علم سیکھنے والوں کے حق میں بہت کچھ سبق دیتی ہے جیسے علم کا شوق، طلب علم کے لئے وقت ، علم کے بعد عمل اور اپنے گھروں والوں اور دوسروں کو اس کی تعلیم وغیرہ ۔
اس معاملہ میں جب اصحاب صفہ کے حالات پڑھتے ہیں تو آنکھیں نم ہوجاتی ہیں جن کے پاس گھرنہیں، کھروالے نہیں، ایک تہ بند کے علاوہ دوسرا کپڑا نہیں، اور خوراک نہیں مگر قربان جائیے ان فقراء پر جو مسجد نبوی کے صفہ سے چمٹے رہے اور رسول اللہ ﷺ سے علم وادب سیکھتے رہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان فرمایا:
لقَدْ رَأَيْتُ سَبْعِينَ مِن أصْحَابِ الصُّفَّةِ ما منهمْ رَجُلٌ عليه رِدَاءٌ، إمَّا إزَارٌ وإمَّا كِسَاءٌ، قدْ رَبَطُوا في أعْنَاقِهِمْ، فَمنها ما يَبْلُغُ نِصْفَ السَّاقَيْنِ، ومنها ما يَبْلُغُ الكَعْبَيْنِ، فَيَجْمَعُهُ بيَدِهِ، كَرَاهيةَ أنْ تُرَى عَوْرَتُهُ(صحيح البخاري:442)
ترجمہ: میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہہ بند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنھیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ یہ کپڑے کسی کے آدھی پنڈلی تک آتے اور کسی کے ٹخنوں تک۔ یہ حضرات ان کپڑوں کو اس خیال سے کہ کہیں شرمگاہ نہ کھل جائے اپنے ہاتھوں سے سمیٹے رہتے تھے۔
آج ہمارے پاس دنیا کی تمام آسائشیں ہیں مگرہم میں علم دین کا شوق اور اس کی طلب کافور ہے۔ علم کا شوق پیدا کرنے کے لئے آپ کے درمیان اندلس کے ایک بڑے عالم کا واقعہ بیان کرتا ہے تاکہ ہمارے اندر بھی علم کا شوق بیدار ہو۔
مغربی ملک اندلس جو اس وقت اسپین وبرتغال کا حصہ ہے ، یہاں ایک بہت معروف عالم گزرے ہیں جن کا نام بقی بن مخلد ہے۔ وہ ایک غریب انسان تھے، ان کے پاس مال ودولت نہیں تھی لیکن علم کا شوق اور جذبہ بیحد تھا مگر علم مشرق میں موجود تھا اور انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ کے بارے میں سنا تھا کہ وہ روئے زمین پر سب سے بڑے عالم دین اور اہل سنت والجماعت کے امام ہیں جو بغداد میں رہتے ہیں چنانچہ وہ پیدل وہاں سے سفر کرتے ہیں اور اندلس سے مغرب، جزائر، تونس، لیبیا، مصر، فلسطین اور اردن ہوتے عراق اور بغداد پہنچتے ہیں پھر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں معلومات کرتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ حکومت وقت نے ان پر درس و تدریس کی پابندی لگا رکھی ہے۔ پھر بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور علم سیکھنے کی یہ ترکیب نکالی کہ فقیر و سائل کی شکل بنا کر آپ کے پاس روزانہ آیا کرتے اور روز ایک آدھ حدیث سیکھ کر جایا کرتے، یہاں تک کہ کئی سال تک علم حاصل کرتے رہے اور جب علم سیکھ کر واپس اندلس لوٹے تو اپنے وقت کے بڑے امام کہلائے ، آپ کے بارے میں حافظ ابن عساکرؒ فرماتے ہیں انہوں نے اپنے علم سے پورے اندلس کو منور کر دیا اور علامہ ابوبکر احمد بن ابی خیثمہؒ کہتے ہیں کہ جس شہر میں امام بقی ہو اس شہر کے لوگوں کو ہمارے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے۔
یہ کوئی قصہ نہیں ، امر واقع ہے اور اپنے آپ میں اتنا عظیم ہے کہ اکثر اہل علم نے علم کی کتابوں میں درج کیا ہے بلکہ اس قسم کی کتابوں میں یہ واقعہ درج ہےجیسے كيف أصبحوا عظماء للكريباني (آپ کیسے عظیم بن سکتے ہیں؟)،كيف تصبح عالماللراغب السرجاني( آپ عالم کیسے بن سکتے ہیں؟)حقیقت میں یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آپ عالم اور عظیم کیسے بن سکتے ہیں ۔
اس واقعہ سے جہاں ایک طرف حصول علم کے لئے علم کا شوق  پایا جانا معلوم ہوتا ہے وہیں کئی اور آداب معلوم ہوتے ہیں  جیسے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے علم کے لئے محنت وجہد درکار ہے ، اسی طرح علم کے لئے تسلسل واستمرار بھی ضروری ہے  لہذا طالب علموں کو ادب بعد مذکورہ آداب بجالانے کی ضرورت ہے۔
(3)علم کے لئے جدوجہد:وہی جدوجہد جو آپ نے بقی بن مخلد کے واقعہ سے معلوم کیا اپنے اندر پیدا کریں ۔ بہت مشہور مقولہ ہے:اَلْعِلْمُ لَا یُعْطِیْک بَعضہ حَتّٰی تُعْطِیہ کُلَّکَ(علم اس وقت تک آپ کو اپنا کوئی حصہ عطا نہیں کرے گا،جب تک آپ خود کو مکمل طور پر اس کے حوالے نہیں کر دیتے)۔
(4) حصول علم میں نظام کی پابندی:حصول علم کے لئے ایک نظام بنائیں یا مدرسہ وادارہ سے جڑے ہیں تو ان کے پاس مرتب تدریسی نظام ہوتا ہے ، ہمیں یونہی ایک طے شدہ نظام تعلیم کا پابند ہوکر علم حاصل کرنا  ہے۔ نظام نہ ہونے سے علم میں بڑا خلل پیدا ہوتا ہے اور نظام ہوتا ہے تو آپ دیکھیں کیسے مدارس سے علماء  اور فقہاء پیدا ہوتے ہیں ۔
(5) تعلیم کے لئے تسلسل واستمرار:حصول علم کے لئے بیحد ضروری ہے کہ آپ تسلسل کے ساتھ علم حاصل کرتے رہیں ، اگر کبھی آپ نے علم سیکھا اور کبھی چھوڑدیا تو پرانے درس کو بھی بھلادیں گے بلکہ علم سیکھنے کی دلچسپی بھی ختم کرلیں گے۔
(6) علم کے لئے خرچ: علم سیکھنے کے لئے مال خرچ کرنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے لہذا شرعی علوم کے حصول کے لئے پیسہ خرچ ہو تو اس میں دریغ نہ کریں ۔ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ مدارس میں بچوں سے معمولی فیس لی جاتی ہے تو ہم سے یہ ادا نہیں ہوتی یا اپنے بچے اور بچیوں کو ایسے مدارس میں داخل نہیں کرتے جبکہ اسکول وکالج میں گرانقدر فیس لگتی ہے  اوروہاں  ہم فیس دینے میں ذرہ برابر نہیں پرواہ کرتے۔ اس جگہ یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جن لوگوں کےلئے حصول علم میں پیسہ رکاوٹ ہے ان کی ہم مدد کریں خواہ معمولی امدا د کیوں نہ ہوجیسے ایک کتاب یا ایک قلم یاایک کاپی یاایک بیک یاایک ڈریس یا ایک جوتا چپل یا فیس وخوراک وغیرہ ، اس سے اللہ آپ کے رزق میں برکت دے گا۔ انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
كانَ أخَوانِ على عَهْدِ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فَكانَ أحدُهُما يأتي النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ والآخرُ يحترِفُ، فشَكَى المحترفُ أخاهُ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فقالَ: لعلَّكَ ترزقُ بِهِ(صحيح الترمذي:2345)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا تھا اور دوسرا محنت و مزدوری کرتا تھا، محنت و مزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو۔
اس حدیث میں اب سب لوگوں کے لئے بشارت ہے جو شرعی تعلیم کے حصول پر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔
(7) علم سیکھنے میں شرم نہ کی جائے: بہت سارے لوگوں کے لئے طلب علم میں شرم وحیا رکاوٹ ہے جبکہ طلب علم میں شرم نہیں کرنا چاہئے ۔ ہمارا رب حق بیان کرنے میں شرم نہ کھاتا اسی لئے ہمارے رب کا فرمان ہے:
وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ(الاحزاب:53)
ترجمہ:اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔
عہد رسول کی خواتین طلب علم میں عار محسوس نہیں کرتی تھیں اور بغیرشرم کے رسول اللہ ﷺ سے مسائل دریافت کرتی تھیں، ذرا غور کریں، قرآن کی مذکورہ آیت کا حوالہ دے کر ایک صحابیہ کس انداز میں آپ ﷺ سے سوال کرتی ہیں ۔ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ امْرَأَةُ أبِي طَلْحَةَ إلى رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَقالَتْ يا رَسولَ اللَّهِ: إنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي مِنَ الحَقِّ، هلْ علَى المَرْأَةِ مِن غُسْلٍ إذَا هي احْتَلَمَتْ؟ فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: نَعَمْ إذَا رَأَتِ المَاءَ(صحيح البخاري:282)
ترجمہ: ام سلیم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ اللہ تعالیٰ حق سے حیاء نہیں کرتا۔ کیا عورت پر بھی جب کہ اسے احتلام ہو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں اگر (اپنی منی کا) پانی دیکھے (تو اسے بھی غسل کرنا ہو گا)۔
یہی وجہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا:
نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الأنْصَارِ لَمْ يَكُنْ يَمْنَعُهُنَّ الحَيَاءُ أنْ يَتَفَقَّهْنَ في الدِّينِ( صحيح مسلم:332)
ترجمہ:انصار کی عورتیں بہت خوب ہیں، دین کو اچھی طرح سمجھنے سے شرم ا نہیں نہیں روکتی۔
نبی ﷺ کے پاس ایک عورت غسل حیض سے متعلق مسئلہ دریافت کرنے آئی تھیں اس پس منظر میں سیدہ عائشہ  کا یہ فرمان ہے۔
ان باتوں سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرد ہو یا عورت کسی کو دین کا علم حاصل کرنے میں شرم نہیں کرنا چاہئے حتی کہ کوئی بڑی عمر کو پہنچ جائے تب بھی مسئلہ دریافت کرنے یا علم سیکھنے میں عمر کی وجہ سے لجانا نہیں چاہئے اور اگرشرم رکاوٹ بننے لگے تو مذکورہ باتوں پہ غور کریں بلکہ اللہ کا یہ فرمان بھی مدنظر رکھیں:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا(البقرۃ:26)
ترجمہ:یقیناً اللہ تعالیٰ کسی مثال کے بیان کرنے سے نہیں شرماتا خواہ مچھر کی ہو، یا اس سے بھی ہلکی چیز۔
(8) دین کی باتوں کو سنی سنائی کہنا: بہت سارے لوگوں کی زبان سے سنیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ فلاں جگہ جاکر کیا فائدہ وہ سنی سنائی باتیں ہیں اور آج کل مجلس میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، سب کچھ یوٹیوب پر موجود ہے ۔ یہ بہت بڑی زیادتی ،جہالت اور علم نبوت کے ساتھ  ایک قسم کا سخریہ ہے۔ اولا ہمارے علماء دین کی اساسیات بلکہ علم توحید وعقیدہ پر زیادہ توجہ دلاتے ہیں اور عموما اپنی مجلسوں میں یہی موضوع اختیار کرتے ہیں ، یہ  وہ علم ہے جسے تمام انبیاء دے کر بھیجے گئے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ(النحل:36)
ترجمہ:ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الانبیاء:25)
ترجمہ:تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔
ان دوآیات سے عقیدہ توحید کی اہمیت کا اندازہ لگائیں جس کی دعوت تمام انبیاء نے اپنی اپنی امت کو دی ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر جس کا عقیدہ درست ہوتا ہے اسی کا عمل قبول ہوگا اور جس کا عقیدہ درست نہیں اس کا عمل ضائع ہوجاتا ہے ۔ اس لئے نہ صرف عقائد کی اصلاح کے لئے بلکہ پورے دین کو صحیح طور پر جاننے اور سمجھنے کے لئے علمائے ربانین سے جڑ کر اور ان کی مجلس میں حاضر ہوکر علم حاصل کرنا چاہئے ۔ ویسے بھی یہ فتنہ کا زمانہ ہے، شرک وبدعت اور کفروضلالت آج مزین کرکے پیش کیا جارہاہے ، عام لوگ اس کا شکار ہورہے ہیں ، ہمیں ان فتنوں سے اپنی حفاظت اور صحیح دین کی معرفت کے لئے کتاب وسنت کے اصل دعاۃ ومعلمین  سے مربوط ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اللہ تعالی نے قرآن اور حضرت محمد ﷺ کو بھیج کر دین اسلام مکمل فرمادیا ، اب یہی دین قیامت تک پڑھنا اور پڑھانا ہے ، اس دین کی ادنی سی بات کو ہلکے میں لینا اور اس کے ساتھ سخریہ کرنا کفر کے دائرہ میں آتا ہے ۔ نیز اللہ رب العزت نے ایک ودسرے کو نصیحت کرتے رہنے کا حکم دیا ہے تاکہ دین معلوم ہوتا رہے اور لوگ عمل کرتے رہیں ، فرمان الہی ہے :
وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاریات:55)
ترجمہ:اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمانداروں کو نفع دے گی۔
ایک دوسرے کو علمی نصیحت و تذکیر کرتے رہنا یہ تو مومن کا خاصہ ہے اور اللہ نے اس کا مومنوں کو حکم دیا ہے ، ایسے میں کوئی یہ کہے کہ یہ تو سنی سنائی بات ہے اس کو بیان کرنے یا نصیحت کرنے کی کیا ضرورت ہے، یہ کلام الہی اور علم شریعت کے ساتھ گستاخی کے مترادف ہے ۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ علم دراصل عالم کی مجلس میں بیٹھ کر حاصل کیا جاتا ہے جیسے صحابہ کرام نبی ﷺ کی مجلس میں حاضر ہوکر علم دین حاصل کیا کرتے تھے ۔ آپ حدیث کی سند کے بارے میں جانتے ہیں ، اس میں صحابہ بالمشافحہ رسول سے حدیث سماعت کرتے ہیں پھر وہ بالمشافحہ دوسرے صحابی یا تابعی سے روایت بیان کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ حدیث ہمیں بتاتاہے کہ جس طرح حدیث کا علم بالمشافحہ حاصل کرنا اصل ہے اسی طرح دین اسلام کا علم علماء کی مجلس میں حاضر ہوکر سننا ہی اصل اور اہم ہے۔
(9)علم کی حفاظت : طالب کی طرف سے یہ عام شکایت ہوتی ہے کہ ہم جو سنتے ہیں وہ یاد نہیں رہ پاتا ہے ، بھول جاتے ہیں اس کے لئے کیا طریقہ کار اپنایا جائے ؟ اس سوال کے جواب میں یہ عرض ہے کہ  بھول جانا انسانی خاصہ ہے اور ہرکوئی بھولتا ہے تاہم کچھ توجہ سے علمی پختگی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہاں پر امام شافعی ؒ کے استاد امام وکیعؒ کی اپنے شاگرد کو نصیحت یاد رکھنا انتہائی اہم ہے۔ جب امام شافعی نے اپنے استاد امام وکیع سے بھولنے کی شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا:
شَکَوْتُ إِلیٰ وَکِیْعٍ سُوْئَ حِفْظِيْ-فَأَوْصَانِيْ إِلیٰ تَرْکِ الْمَعَاصِيْ
فَإِن الْعِلْمَ نُوْرٌ مِنْ إِلٰہٖ-وَنُوْرُ اللّٰہِ لَا یُعْطیٰ لِلْعَاصِيْ
ترجمہ:میں نے اپنے استاد امام وکیع سے سوء حفظ کی شکایت کی تو انہوں نے گناہوں سے بچنے کی تاکید فرمائی اور کہا کہ علم نورالٰہی ہے اور یہ نور نافرمان کوعطا نہیں کیا جاتا۔
اس لئے علم حاصل کرنے والوں کو گناہوں سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ اس نے جو علم حاصل کیا ہے وہ محفوظ رہے ، اور اس کے لئے مزید کچھ امور کو انجام دے ۔
٭ طالب کو درس میں پابندی کے ساتھ حاضری دینا چاہئے اور ہمہ تن گوش ہوکر پوری توجہ سے اپنے استاد کی بات سننا چاہئے جیسے اس کے سر پر چڑیا بیٹھی ہو۔
٭ساتھ میں ایک نوٹ بک ہو جس میں اہم علمی نکات کو لکھتے رہیں۔
٭ درس ومحاضرہ کے بعد لکھی ہوئی چیزوں کا مراجعہ کریں اور اپنے ساتھیوں سے پھر اس کا مذاکرہ بھی کرتے رہیں ۔
(10) علم کس سے حاصل کیا جائے؟  
آج کے پرفتن دور میں جہاں ہر ایرا غیرا سوشل میڈیا پر آکر تبلیغ کررہا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کا یہ سوال رہتا ہے کہ علم کس سے حاصل کیا جائے ؟ 
سوال کا جواب دینے سے قبل بنیادی مسئلہ یہ ذہن میں رکھیں کہ ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول کا علم حاصل کرنا ہے کیونکہ نبی ﷺہمارے لئے بطور وراثت یہی علم چھوڑ گئے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
ترَكْتُ فيكم أَمرينِ ، لَن تضلُّوا ما تمسَّكتُمْ بِهِما : كتابَ اللَّهِ وسنَّةَ رسولِهِ(أخرجه مالك في الموطأ:2/899 و حسنه ألباني في تخريج مشكاة المصابيح:184)
ترجمہ: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہاہوں ، تم ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے جب تک ان دونوں کو تھامے رہوگے ، وہ ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ۔
اسی طرح نبی ﷺ کا فرمان ہے:
فضلُ العالمِ على العابدِ كفضلِ القمرِ على سائرِ الكواكبِ إنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبياءِ إنَّ الأنبياءَ لم يورِّثوا دينارًا ولا درْهمًا إنَّما ورَّثوا العلمَ فمَن أخذَ بِهِ فقد أخذَ بحظٍّ وافرٍ( صحيح الترمذي:2682)
ترجمہ: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے (علم نبوی اور وراثت نبوی سے) پورا پورا حصہ لیا۔
گزشتہ دو احدیث پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں انہیں لوگوں سے علم حاصل کرنا ہے جو حقیقت میں  علماء طبقہ سے ہوں کیونکہ نبی نے اپنے علم کا وارث علماء کو بنایا ہے ، یہ علم نبوت وشریعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے کہ ہمہ شما سے حاصل کرلیں بلکہ وہ علماء  جو خود کتاب وسنت کا علم رکھتے ہوں اور دوسروں کو کتاب وسنت کی تعلیم دیتے ہوں، صرف انہیں سے دین کا علم حاصل کرنا ہے ۔ اللہ نے عالم کو عابد پر فوقیت دی ہے اس لئے محض عابد سے بھی علم نہیں حاصل کریں گے ،عالم سے علم حاصل کریں گے ۔ یہیں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ڈاکٹر، انجینئر، دکیل ، بردر اور سسٹرحضرات جوعلماء طبقہ سے نہیں آتے ہیں ان سے علم حاصل کرنا درست نہیں ہے   کیونکہ انہوں سلف کے معروف طریقہ کے مطابق علم حاصل نہیں کیااس وجہ سے یہ خود بھی شریعت کو فہم سلف کے مطابق نہیں سمجھتے ہیں ایسے میں وہ ودسروں کو کیسے شریعت کی صحیح تعلیم دے سکیں گے ؟  ایسے لوگوں کے بارے میں فرمان نبوی دیکھیں،سیدنا ابوامیہ جمحی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ من أشراطِ الساعةِ أنْ يُلتمسَ العلمُ عند الأصاغرِ(سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 695)
ترجمہ:‏‏‏‏یہ چیز علامات قیامت میں سے ہے کہ چھوٹے لوگوں کے پاس علم تلاش کیا جائے گا۔
 ‏‏‏‏اسی مناسبت سے یہ قول بھی دیکھیں ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
لا يزالُ الناسُ بخيرٍ ما أخذُوا العلمَ عن أكابرِهم فإذا أخذُوه من أصاغرِهم وشرارِهم هلَكوا(السلسلة الصحيحة:2/310)
ترجمہ:’لوگ خیر خیریت سے رہیں گے جب تک اُن کو علم ان کے بڑے لوگوں سے پہنچتا رہے گا، اور جب ان کو علم اُن کے اصاغر(چھوٹوں) اور برے کے پاس سے آنے لگے گا تو یہ وہ وقت ہو گا جب وہ ہلاک ہوں گے۔
اصاغر میں وہ سب لوگ داخل ہیں جو علم یا عمر ہر دولحاظ سے چھوٹے ہوں اور مزیدوضاحت کی جائے تو آپ یہ سمجھیں کہ جنہوں نے صحیح سے کتاب وسنت کا علم حاصل نہ کیا ہو یا جو دین کو فہم سلف کے مطابق نہیں سمجھتے ہوں وہ چھوٹے لوگ ہیں ان سے علم حاصل نہ کیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابریں کم علم لوگوں سے اور غیرعالموں اور اہل بدعات سے علم حاصل کرنے سے منع کرتے تھے ، آئیے اس بارے میں سلف کے کچھ اقوال بیان کرتا ہوں تاکہ یہ حساس مسئلہ مزید واضح ہوسکے ۔
٭ شیخ  بکر ابوزید اپنی کتاب "حلیۃ طالب العلم میں فرماتے ہیں : "من دخل في العلم وحده،خرج وحده" یعنی جو طلب علم میں بغیر شیخ اور عالم کے نکلتا ہے وہ بغیر علم کے باہر آتا ہے ، گویا اس کے پاس حقیقی علم نہیں ہوتا ہے۔
٭ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا:"إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَلْيَنْظُرْ الرَّجُلُ عَمَّنْ يَأْخُذُ دِينَهُ" یعنی یہ علم  دین ہے، آدمی کو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا دین کیسے آدمی سے لے رہا ہے۔(مقدمہ صحیح مسلم)
٭امام مالک بن انس فرماتے ہیں:
إن هذا العلم هو لحمك ودمك وعنه تسأل يوم القيامة ، فانظر عمن تأخذه" بے شک یہ علم تمہارا گوشت اور تمہارا خون ہے اور اس کے بارے میں قیامت میں تم سے سوال کیا جائے گا پس دیکھو تم کس سے علم حاصل کررہے ہو۔(موطا امام مالک بروایۃ یحی)
اس سلسلے میں بہت سارے اقوال ہیں جن سے علماء اور محدثین کا موقف پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح کے لوگوں سے علم حاصل کرتے اور کس طرح کے لوگوں سے علم حاصل کرنے کی نصیحت کرتے ۔ ان سب باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے علماء سے علم حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے صحیح عقیدہ ومنہج کے مشائخ سے معروف طرز پر علم حاصل کیا ہو اور وہ خود بھی صحیح عقیدہ ومنہج پرقائم ہو اور کتاب وسنت کا حقیقی عالم ہو۔
(11) طلب علم کا عملی تقاضہ : جب ہم علم حاصل کرتے ہیں تو اس عمل کا تقاضہ یہ ہے کہ اس پر عمل کریں ۔ ساتھ ہی دوسروں کو اس کی دعوت دیں اور دعوت دین میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ۔ بنیادی طور پر علم کے یہ تین تقاضے ہیں جن کا ذکر اللہ رب العالمین نے سورہ العصر میں کیا ہے ۔ ہرطالب کو اس سورہ  کی شرح پڑھنی چاہئے اور نجات وکامیابی کے جو اصول اللہ نے بیان فرمائے ہیں ان کو عمل میں لانا چاہئے ۔
(12) ماحول اور حفظ ومطالعہ سے متعلق : اب آخر میں طالب علم کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ طالب کو بہترماحول اور اچھے علم دوست ساتھی کا انتخاب ضروری ہے تاکہ پڑھنے سے اس کا دل اچاٹ نہ ہو، جو پڑھے  اس کو یاد رکھنے کے ساتھ برتنے میں تعاون ملے ۔ علمی دوست نہ بھی میسر ہو تو دینی کتاب کو اپنا دوست  اور اوڑھنا بچھونا بنالے ۔ عربی زبان کے ایک شاعر متنبی کا ایک مصرعہ ہے " خیرجلیس فی الزمان کتاب" کہ زمانے میں سب سے بہترین ساتھی کتاب ہے۔ آپ اپنے استاد کے ذریعہ  اپنے لیول کے حساب سے دینی کتابوں کا انتخاب کریں اور مناسب اوقات میں کتب بینی کرتے رہیں ۔ اس کے علاوہ آپ قرآن اور حدیث سے اہم اہم سورت ، آیات اور احادیث ، اپنے استاد کی رہنمائی میں حفظ کریں ۔ تھوڑا تھوڑا ہی سہی مگر حفظ کرنے کی پابندی کریں اور حفظ کے چار اصول یاد رکھیں تاکہ حفظ میں آسانی رہے ۔ پہلے استاد سے اس کی تصحیح کرالیں جو یاد کرنا ہے پھر دھیان سے حفظ کریں ۔ حفظ کے بعد اس کی تکرار کرتے رہیں ورنہ بھول جائیں گے اور آخر میں اس کا مراجعہ کرتے رہیں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔