Thursday, September 5, 2024

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات

 

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: اپنے گھر میں پیسوں کی تنگی ہو اور اپنی آفس میں بھی پیسوں کی تنگی ہو، کہیں سے پیسوں کا انتظام بھی نہیں ہوپارہا ہو بلکہ تجارت بھی مندی ہو اور نظربد لگ جانے سے کہیں سے کوئی حل نہ نکلے تو ایسی صورت میں گھر اور آفس میں اذان دینا صحیح ہے؟
جواب:اگر کسی کے گھر میں پیسوں کی تنگی ہو یا آفس کے معاملات درست نہ ہوں، اسی طرح تجارتی معاملہ بھی مندا ہو تو ایسی صورت میں گھر یا آفس میں اذان نہیں دی جائے گی کیونکہ تنگی کی صورت میں اس طرح گھر یا کہیں پر اذان دینے کی تعلیم ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دی ہے۔
جس کے گھر میں پیسوں کی تنگی ہے یا آفس میں تنگی ہے یا کاروبار میں تنگی ہے، اسے چاہیے کہ اپنے معاملات اور کاروبار کا جائزہ لے اور کس بنیاد پر تجارت میں کمزوری ہے ایسے اسباب کا پتہ لگا کر اپنی تجارت کو درست کرے۔ بسا اوقات کسی جگہ کوئی تجارت سود مند نہیں ہوتی ہے اس جگہ سوچ سمجھ کر مناسب تجارت کرے یا وہ تجارت مناسب ہو پھر بھی سودمند نہ ہو تو اس کے پیچھے کچھ اسباب ہوسکتے ہیں لہذا تجارتی معاملات میں حالات اور اسباب کا جائزہ لے کر اور اس کو درست کرکے اپنے معاملات کو ٹھیک کرلیں اور اللہ رب العالمین نے روزی روٹی کے لیے ہزاروں لاکھوں وسائل بنائے ہوئے ہیں، انسان محنت کرکے متعدد طریقے سے حلال روزی کما سکتا ہے اور خاص طور سے آج کے زمانے میں روزی کمانے کے دروازے بہت زیادہ ہیں اس لیے ضرورت ہے، محنت کرنے کی، صبر کرنے کی، اللہ پر توکل کرنے کی اور دینداری اپنانے کی۔ اکثر ہم لوگ اللہ سے غافل ہوتے ہیں تو اللہ تعالی بھی ہمیں اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔
آخر میں آپ کے سوال کے تعلق سے دو باتوں پر تنبیہ کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کے حالات میں کہیں پر اذان دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایسی چیزوں کا نظربد سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے آپ اس طرح کا خیال بالکل بھی دل میں پیدا نہ کریں اور اوپر جو صورت بتائی گئی ہے اس پر عمل کریں۔
سوال: میرے بچے تین بچے ہیں ایک کی عمر چودہ سال، دوسرے کی سولہ سال اور تیسرے کی اٹھارہ سال ہےاور تینوں بالغ ہیں ۔ میں یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ میں نے جو زیور اپنے پاس رکھا ہوا ہے ان کو دینے کے لیے کہ جب ان کی شادی ہوگی تو میں ان کو دوں گی، کیا میں زیور ابھی سے ان کو باندھ دوں کیونکہ مجھے زکوۃ دینا بہت مشکل لگ رہا ہے اور میرے سے ان سارے زیور کی زکوۃ نہیں نکالی جا رہی ہے۔ اگر ان کا نصاب سے اندر اندر حصہ ہوگا تو وہ زکوۃ نہیں دیں گے اور اگر نصاب سے اوپر حصہ ہوگا ان کا تو پھر ان کو زکوۃ دینی پڑے گی یعنی کہ پھر میں ان کی طرف سے دے دوں گی تو کیا میں ایسے بچوں میں بانٹ سکتی ہوں کیونکہ میں زکوۃ نہیں دے پا رہی ہوں ؟
جواب:صرف زکوۃ نہ دینے کے ڈر سے بچوں میں اپنے زیورات کو تقسیم کرنا درست نہیں ہے، اللہ نے آپ کو زیورات کی شکل میں سونے اور چاندی دئے ہیں تو یہ بھی دولت ہے اور اس دولت کی زکوۃ کچھ زیورات کو بیچ کر بھی دے سکتے ہیں، زکوۃ دینے کے لئے الگ سے آپ کے پاس پیسے ہونا ضروری نہیں۔
ہاں اگر واقعی یہ زیورات آپ نے بچوں کے لئے رکھے ہوئے ہیں اور شادی کی مناسبت سے دینے کا ارادہ تو اس حال میں آج بھی بچوں کے نام سے اتنا حصہ زیور خاص کر سکتے ہیں جتنا دینا چاہتے ہیں، ایسی صورت میں آپ کے زیورات جب بچوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور کسی کا حصہ نصاب تک نہیں پہنچے گا تو پھر زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر کسی کا حصہ نصاب تک پہنچے تو اس میں زکوۃ دینی ہے۔
سوال: طارق مسعود کو سننا کیسا ہے ؟
جواب: مولانا طارق مسعود دیوبندی عالم ہیں اور اپنے مسلک کے حساب سے تقریر کرتے ہیں یعنی کتاب وسنت کی روشنی میں فتوی نہیں بتاتے بلکہ وہ تقلید کرتے ہیں اور اپنے امام کا فتوی بتاتے ہیں ایسے عالم کی تقریر ایک عام آدمی کو نہیں سننا چاہئے کیونکہ وہ ان کی تقریر سن کر تقلید کی طرف لگ جائے گا جبکہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے قرآن وحدیث کی پیروی کا حکم دیا ہے اس لئے جو علماء قرآن وحدیث کی دعوت دیں، ان کی تقریر سنیں ۔
سوال: کیا قبلہ کی طرف پیر کرکے سونے سے گناہ ہوتا ہے؟
جواب:قبلہ کی طرف پیر کرکے سونا کوئی گناہ کا کام نہیں ہے اور شریعت میں کہیں پر بھی قبلہ کی طرف پیر کرنا نہ منع ہے اور نہ اسے گناہ بتایا گیا ہے۔ لوگوں نے اپنی طرف سے اسے جھوٹ موٹ کا گناہ بنا ڈالا ہے اور معاشرے میں اس جھوٹ کو پھیلا دیا ہے۔
آپ بلا شبہ قبلہ کی طرف پیر کرکے سو سکتے ہیں، اس میں قطعا کوئی گناہ نہیں ہے اور اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
سوال: اگرگھر پہ میت ہو تو کیا عورتیں صلاة الجنازه پڑھ سکتی ہیں، اور کیا ميت محرم مذكر ہو یا مونث، مرد امامت کرائے گا يا عورت امامت کرےگی؟ اسی طرح جنازہ لے جا چکے ہیں تو کیا عورت جنازہ لے جانے کے بعد بھی نماز جنازہ ادا کر سکتی ہے؟
جواب:عورتیں میت کا جنازہ پڑھ سکتی ہیں کیونکہ اس کی دلیل ملتی ہے اور عورت گھر پر ہی یعنی جہاں میت ہو جنازہ پڑھ سکتی ہے۔
جنازہ کی نماز عورتیں جماعت بناکر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتی ہے اور جنازہ کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ میت مصلی کے درمیان ہو جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات پر مسجد میں جنازہ طلب کیا اور صحابیات نے آپ کے جنازے کی نماز ادا کیں۔
میت چاہے مرد ہو یا عورت اور محرم ہو یا غیرم ، کسی بھی میت کا جنازہ عورتیں پڑھ سکتی ہیں، مرد امام ہونا ضروری نہیں ہے اور عورتیں چاہیں تو مردوں کے ساتھ جنازہ کی نماز میں بھی شریک ہوسکتی ہیں اگر مسجد میں قائم کی جائے ۔
سوال: کیا مسجد کی تعمیر کے لئے زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب:مسجد کی تعمیر میں صدقہ کا پیسہ تو لگا سکتے ہیں مگر زکوۃ کا پیسہ نہیں لگا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے زکوۃ کے لیے آٹھ مصارف بیان فرمائے ہیں ان آٹھ مصارف میں مسجد کا ذکر نہیں ہے لہذا مسجد کی تعمیر میں زکوۃ کا پیسہ نہیں لگایا جائے گا البتہ صدقہ و خیرات کا پیسہ لگا سکتے ہیں۔
سوال:حدیث ہے"من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمش فقد ادرك الصبح" یعنی جس نے طلوع شمس سے پہلے ایک رکعت پالی اس نے صبح کی نماز پالی۔ اس حدیث کی روشنی میں سوال ہے کہ اگر صبح آنکھ کھلنے کے بعد صرف ایک رکعت پڑھنے کا وقت ہے تو پہلے سنت پڑھیں یا فرض پڑھیں؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح بخاری میں موجود ہے یعنی یہ صحیح حدیث ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے جب اس طرح کا سوال کیا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ اولا انسان کو الارم وغیرہ کا استعمال کرکے اذان سے پہلے اٹھنا چاہیے تاکہ وہ وقت پر نماز ادا کرے۔ پھر آگے کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں پہلے سنت پڑھے پھر فرض ادا کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی عمل کرتے تھے۔
جبکہ اس مسئلے میں دوسرے اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ اگر صرف فرض ادا کرنے کا وقت باقی ہے یا سورج نکلنے میں کم از کم اتنا وقت ہے کہ ایک رکعت ادا کی جا سکتی ہے تو فرض نماز ادا کر لیں تاکہ فجر کی نماز وقت پر ادا ہو جائے اور سنت فرض نماز کے بعد یا سورج طلوع ہو جانے کے بعد ادا کر لیں، میں سمجھتا ہوں یہ دوسرا موقف اس صورت میں راحج ہے۔
سوال:ایک بہن کا سوال ہے کہ ان کی سہیلی کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے تو کیا وہ جنازہ میں شرکت کر سکتی ہے جبکہ وہ خود عدت میں ہے؟
جواب:جو خاتون عدت میں ہے اس خاتون کو چاہیے کہ وہ عدت ہی میں رہے اور اپنی سہیلی کے شوہر کے انتقال پر جنازے میں شرکت کے لیے نہ جائے ۔ اس عدت والی بہن کے لیے ابھی اس کی اپنی عدت سب سے زیادہ اہم ہے لہذا وہ اپنے عدت کا خیال کرے۔
سوال: میرے پاس تین بچے ہیں ، شوہر کی آمدنی کم ہے، دو بچے اسکول جاتے ہیں اور اخراجات زیادہ ہیں ، اگر میری پھوپھو یا چاچو مجھے زکاۃ کے پیسے یا اللہ کے نام پہ پیسے دیں تو کیا میرے لئے لینا درست ہوگا؟
جب حالات اچھے نہیں ہیں تو پھر بچوں کو فیس دے کر دنیاوی تعلیم دلانا ، جو تعلیم ہمارے لیے ضروری نہیں ہے اس پر پیسہ صرف کرنا اور خود لوگوں سے زکوۃ لینے کے لیے محتاج بن جانا یہ صحیح نہیں ہے۔
آپ وہ پیسہ جو اپنے بچوں پر اسکول کی فیس کے لیے ادا کر رہے ہیں اس پیسے کو بچا کر اپنے گھر کی بنیادی ضرورت پر لگائیں تاکہ آپ کو زکوۃ کے لیے محتاج نہ ہونا پڑے۔
الحمدللہ ہمارے سماج میں دینی اور اسلامی ادارے موجود ہیں ان اداروں میں بچوں کو دینی تعلیم دلائیں جس پر کوئی پیسہ آپ کو خرچ نہیں کرنا پڑے گا اور بچوں کو دین کا دین اور والدین کو ثواب کا ثواب ملے گا۔
آپ کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ آپ کے وہ پیسے جو بلا ضرورت دنیاوی کاموں میں لگ رہے ہیں، ان پیسوں کو بچا کر گھر پر لگائیں اور شوہر کو مزید محنت کرکے کمانے کے لیے کہیں تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، لوگوں سے مانگنا کوئی اچھی چیز نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کمانے اور محنت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اگر آپ نہیں مانگتے ہیں، کوئی خود ہی زکوۃ آپ کو دے رہا ہے تو یہ بھی مانگنے ہی جیسا ہے کیونکہ آپ نے اپنی پوزیشن مانگنے والی بنا رکھی ہے اس لیے آپ اپنی پوزیشن کو درست کریں۔
سوال: نبی ﷺ نے جب مکہ فتح کی تو آپ نے آٹھ رکعت بطور شکرانہ ادا فرمائی ، کیا ہم اس نماز کو نمازشکر مانیں گے ؟
جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت اٹھ رکعت نماز ادا کی تھی وہ نماز شکرانے کی نہیں تھی وہ صلوۃ الضحی تھی یعنی چاشت کی نماز تھی۔ اور چاشت کی نماز ہر دن پڑھنا مسنون ہے، چاشت کی کم از کم دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ اٹھ رکعت ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث جو ام ھانی سے مروی ہے اس میں صراحت ہے کہ فتح مکہ پہ پڑھی گئی آٹھ رکعت صلاۃ الضحی تھی اس لئے اس نماز کو نمازشکر نہیں کہیں گے اور آپ کی معلومات کے لئے یہ بھی بتادوں کہ دین میں نماز شکر نام سے کوئی نماز نہیں ہے، شکر کے طور پر سجدہ کرنا ثابت ہے ۔
سوال: اگر کوئی انسان بنا عقیقہ کے انتقال کرگیا، بچپن سے موت تک کبھی عقیقہ نہیں ہوا، تو کیا اس کی روح قید ہوگی؟
جواب:صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں عقیقہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اس کے باوجود اگر کسی کا عقیقہ نہ ہوا ہو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے تو وہ معذور ہے کیونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے لہذا اگر کسی کا عقیقہ نہیں ہوا اور اس کی موت ہو گئی ہے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی روح قید میں ہے بلکہ یہ کہیں گے کہ اگر وہ ایمان والا ہے تو اچھی حالت میں ہوگا اور برا ہوگا تو اس کی حالت بھی بری ہو سکتی ہے ۔
سوال:ایک عورت عدت میں ہے، ان کو تیسرا حیض آچکا ہے تو کیا وہ اب باہر آسکتی ہے یا پھر تیسرا حیض مکمل کرنا ہوگا؟
جواب:اگر کوئی عورت طلاق کی عدت گزار رہی ہے اور اس کو تیسرا حیض آچکا ہے تو صرف حیض آنا عدت ختم ہونے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ تیسرے حیض کا گزر جانا ضروری ہے یعنی جب تیسرا حیض ختم ہو جائے گا تب جا کر عدت پوری ہوگی۔
سوال:مجھے اس بارے میں دلیل چاہئے کہ عورت کو اپنی بھنویں نہ بنانی چاہئے اور اپنا بال نہیں اکھاڑنا چاہئے تاکہ دوسری خاتون کو بتاسکوں ؟
جواب:عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ، وَالْمُوتَشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ(صحیح البخاری: 4886، صحیح مسلم؛2782)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ
نے گودوانے والیوں اور گودنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں
اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے کہ یہ اللہ
کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرتی ہیں۔
اس حدیث میں "المنتصمات" کا ذکر ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ، چہرے کے بالوں کو کسی دوسرے سے اکھڑوانے والی جبکہ دوسری احادیث میں مزید کئی الفاظ آئے ہیں جیسے یہ حدیث دیکھیں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
لُعِنَتِ الْوَاصِلَةُ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ وَالنَّامِصَةُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ وَالْوَاشِمَةُ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ مِنْ غَيْرِ دَاءٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَتَفْسِيرُ الْوَاصِلَةِ الَّتِي تَصِلُ الشَّعْرَ بِشَعْرِ النِّسَاءِ وَالْمُسْتَوْصِلَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالنَّامِصَةُ الَّتِي تَنْقُشُ الْحَاجِبَ حَتَّى تُرِقَّهُ وَالْمُتَنَمِّصَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا، وَالْوَاشِمَةُ الَّتِي تَجْعَلُ الْخِيلَانَ فِي وَجْهِهَا بِكُحْلٍ أَوْ مِدَادٍ وَالْمُسْتَوْشِمَةُ الْمَعْمُولُ بِهَا.
ترجمہ: ملعون قرار دی گئی ہے بال جوڑنے والی، اور جڑوانے والی، بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے والی، اور بغیر کسی بیماری کے گودنے لگانے والی اور گودنے لگوانے والی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «واصلة» اس عورت کو کہتے ہیں جو عورتوں کے بال میں بال جوڑے، اور «مستوصلة» اسے کہتے ہیں جو ایسا کروائے، اور «نامصة» وہ عورت ہے جو ابرو کے بال اکھیڑ کر باریک کرے، اور «متنمصة» وہ ہے جو ایسا کروائے، اور «واشمة» وہ عورت ہے جو چہرہ میں سرمہ یا سیاہی سے خال (تل) بنائے، اور «مستوشمة» وہ ہے جو ایسا کروائے۔(ابوداؤد:4170، اسے شیخ البانی نے صحیح کہا ہے)
عموما زینت کے لئے عورتیں ابرو کے بال تراش خراش کرتی ہیں گویا خود سے چہرے کے بال تراشنا یا دوسروں سے ترشوانا جائز نہیں ہے بلکہ اس حدیث میں امام ابوداؤد کی صراحت بھی ہے کہ ناصمہ ابرو کے بال اکھیڑکر باریک کرنے کو کہتے ہیں اور منتصمہ یہی کام دوسرے سے کروانے کو کہتے ہیں ، یہ عمل کسی مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں ہے ۔اور اسی طرح بالوں کو جوڑنا بھی جائز نہیں ہے ۔
سوال: اگر میں جہاز میں سفر کرتی ہوں تو راستے میں قرآن پڑھنا دکھاوا تو نہیں ہوگا؟
جواب: قرآن کی تلاوت سفر و حضر ہر جگہ کرسکتے ہیں، کہیں پر بھی قرآن کی تلاوت ممنوع نہیں ہے تاہم سفر میں بعض مقامات پر ہاتھ میں مصحف لے کر تلاوت کرنے سے بعض لوگوں کو بدگمانی ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ لوگوں کی وجہ سے قاری کے دل میں بھی نمود کا عنصر پیدا ہوجائے اس لئے سفر میں جہاں کہیں اس قسم کے شبہ کا امکان ہو وہاں مصحف سے گریز کریں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا(بخاری:52)۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کے سامنے مصحف سے تلاوت دکھاوا ہے بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ کہیں پر لوگوں کا ایسا منظر ہو جہاں کسی کو ریاکاری کا شبہ ہوسکتا ہے تو فقط اس جگہ اس عمل سے پرہیز کریں۔
جہاں تک زبانی تلاوت کا معاملہ ہے تو اس کا مجال وسیع ہے ، زبانی تلاوت جس میں بلند آواز نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، زبانی تلاوت جہاں چاہیں کرتے رہیں ، ہم صرف مصحف سے بعض ان مقامات پر جہاں شبہ کا امکان ہو وہاں تلاوت کرنے سے پرہیز کرنے کہہ رہے ہیں۔
سوال:اگر کسی کو وائٹ ڈسچارج کے ساتھ براؤن مادہ بھی نکلتا ہو تو کیا وہ غسل کرکے نماز ادا کرسکتی ہے یا براؤن مادہ کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہے ؟
جواب:اگر وائٹ ڈسچارج کے ساتھ براؤن مادہ بھی خارج ہو تو اس کا مطلب ہے کہ عورت پاک نہیں ہوئی ہے یعنی اسے حیض آہی رہا ہے۔ لہذا وہ اس وقت تک انتظار کرے جب مکمل وائٹ ڈسچارج ہونے لگے۔
سوال:ہمارے گھر میں تین قرآن ہیں، ہم سب کا سبق صرف دو قرآن میں ہوتا ہے،انہی دونوں قرآن کو ہم استعمال کرتے ہیں جبکہ تیسرا قرآن رکھا ہوا ہوتا ہے ،اس کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ کیا اس کو مسجد میں دینا ضروری ہے اور ہمارے رشتہ دار کا قرآن اپنے گھر رکھنا کیسا ہے جبکہ ہمارے پاس دو قرآن کافی ہے، اسی میں ہمارا حفظ وسبق ہوتا ہے ، کیا اس کو لوٹادینا چاہئے ؟
جواب: آپ کے گھر میں صرف آپ دو ہی لوگ ہیں یا اور بھی لوگ ہیں اور قرآن پڑھنے والے، صرف آپ ہی دو ہیں یا آپ کے علاوہ بھی ہیں، ان باتوں کو دھیان میں رکھ کر آپ اپنے گھر میں اس حساب سے مصحف کی تعداد رکھ سکتے ہیں۔
آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صرف دو ہی مصحف کی ضرورت ہے، تیسرے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے، یوں ہی رکھا ہوا رہتا ہے تو اس طرح رکھنے سے بہتر ہے کہ کسی کو پڑھنے کے لیے تحفہ دے دیں یا مسجد میں ہدیہ کر دیں۔
اسی طرح جب آپ کے پاس ضرورت بھر مصحف ہو تو دوسروں سے مصحف نہ لیں بلکہ اسے کہیں کہ کسی ایسے آدمی کو مصحف دے جس کو اس کی ضرورت ہو یا مسجد میں یا مدرسے میں ہدیہ کیا جائے۔
المہم ! مصحف رکھنے میں اپنی ضرورت کا خیال کریں ۔
سوال:خاتون ہوائی جہاز سے عمرہ کیلئے جارہی تھی ،میقات سے پہلے خاتون کو محسوس ہوا کہ حیض شروع ہوگیا ہے، انہوں نے نیت نہیں کی ،مکہ پہنچ کر احساس ہوا کہ ایسا نہیں ہے اب وہ کیا کرے، واپس میقات پہ جاکر نیت کرے اور پھر عمرہ کرے؟
جواب:جو خاتون عمرہ کے لیے جا رہی تھی اور اسے حیض محسوس ہونے کی وجہ سے میقات پر اس نے عمرہ کی نیت نہیں کی گویا کہ اس نے یہاں پر غلطی کی ،اس کو عمرہ سے پہلے عمرہ کے احکام جان لینا ضروری تھا۔
ایک عورت حیض کی حالت میں بھی میقات پر احرام باندھ سکتی ہے مگر اس نے محض شک کی بنیاد پر میقات پر احرام ہی نہیں باندھا، یہ اس کی غلطی تھی، وہ تو حیض کی حالت میں بھی احرام باندھ سکتی تھی۔
بہرکیف! اس صورت حال میں کہ وہ بغیر احرام کے مکہ پہنچ گئی ہے اسے چاہیے کہ واپس اپنی میقات پر آئے اور میقات سے احرام باندھ کر پھر عمرہ کرنے جائے۔
سوال:میت کو قبلہ رخ کرنا واجب ہے یا سنت ہے؟
جواب:میت کو قبلہ رخ کرنا واجب ہے اور دلیل وہی مذکورہ حدیث ہے جس میں ہے کہ زندہ اور مردہ سب کا قبلہ بیت اللہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی کو غیرقبلہ پر دفن کردیا جائے تو قبر کھود کر اس کو قبلہ رخ کیا جائے گا۔
سوال:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم پاکی کے بعد صفراء و کدراء کو کچھ شمار نہیں کرتے تھے تو اس سے کیا مراد ہے ؟
جواب:اس حدیث میں پاکی(حیض سے خشکی) حاصل ہونے کے بعد زردی مائل کچھ ظاہر ہونے کو کچھ نہ شمار کئے جانے کا ذکر ہے لیکن جب تک پاکی حاصل نہ ہو اس وقت تک زردی مائل یا لال یا سیاہی مائل سب حیض میں شمار ہوگا۔
سوال: ایک عالم بتارہے تھے کہ یہ دعا" اللھم انی ضعیف فقونی" حضرت موسی علیہ السلام پڑھا کرتے تھے، کیا یہ صحیح ہے اور ہم یہ دعا پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:یہ دعا الجامع الصغیر میں بریدہ اسلمی سے مروی ہے اور اسے شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔
قلْ : اللهم إني ضعيفٌ فقَوِّنِي، وإني ذليلٌ فأَعِزَّنِي، وإني فقيرٌ فارْزُقْنِي۔(دیکھیں:ضعيف الجامع:4100)
سوال:کیا یہ تسبیح مستند ہے اور ہم روزانہ اپنے اذکار میں اس کو پڑھ سکتے ہیں؟
سبحان الله عدد ما خلق ، سبحان اللهِ مِلْ ما خلق ، سبحان الله عدد ما في الأرض والسماء
سبحان الله ملء ما في الأرض والسماء،
سبحان الله عدد ما أحصى كتابه،
سبحان اللهِ مِلْءَ ما أحصى كتابه،
سبحان الله عدد كل شيء ،
سبحانَ اللهِ مِلْءَ كُلِّ شَيْءٍ،
الحمد لله عدد ما خلق ،
والحمد لله مِلْءَ ما خلق ،
والحمد لله عدد ما في الأرض والسماء،
في الأرض والسماء، والحمد الله . مل ما في
والحمدُ للهِ عدَدَ ما أحصى كتابه،
الله ملء ما أحصى كتابه، والحمد لله .
والحمد لله عدد كل شيء ، والحمدُ للهِ مِلْءَ كُلِّ شَيْءٍ
جواب:یہ ذکر ثابت ہے، اسے شیخ البانی نے صحیح الترغیب میں صحیح کہا ہے اس لئے اسے آپ بطور ذکر پڑھ سکتے ہیں ۔
بأيِّ شيءٍ تحرِّكُ شفَتَيكَ يا أبا أمامةَ ؟ . فقلتُ : أذكرُ اللهَ يا رسولَ اللهِ ! فقال : ألا أُخبرُكَ بأكثرَ وأفضلَ من ذِكرِك باللَّيلِ والنَّهارِ ؟ . قلتُ : بلى يا رسولَ اللهِ ! قال : تقولُ : ( سبحان اللهِ عدَدَ ما خلق ، سبحان اللهِ مِلْءَ ما خلَق ، سبحان اللهِ عدَدَ ما في الأرضِ [والسماءِ] سبحان اللهِ مِلْءَ ما في الأرضِ والسماءِ ، سبحان اللهِ عدَدَ ما أحصى كتابُه ، سبحان اللهِ مِلْءَ ما أحصى كتابُه ، سبحان اللهِ عددَ كلِّ شيءٍ ، سبحانَ اللهِ مِلْءَ كلِّ شيءٍ ، الحمدُ للهِ عددَ ما خلق ، والحمدُ لله مِلْءَ ما خلَق ، والحمدُ لله عدَدَ ما في الأرضِ والسماءِ ، والحمدُ لله مِلْءَ ما في الأرضِ والسماءِ ، والحمدُ للهِ عدَدَ ما أحصى كتابُه ، والحمدُ لله مِلْءَ ما أحصى كتابُه ، والحمدُ للهِ عدَدَ كلِّ شيءٍ ، والحمدُ للهِ مِلْءَ كلِّ شيءٍ ) .
(دیکھیں:
صحيح الترغيب:1575)
سوال:احرام میں کیا چہرے کو ڈھانپ سکتے ہیں جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ قافلے آتے تو وہ چہرے پر چادر لٹکا لیتیں اور آج کل ہر جگہ قافلے ہوتے ہیں؟
جواب:عورتوں کو ہرحال میں اجنبی مردوں سے اپنا چہرہ ڈھکنا ہے، عورت خواہ احرام میں ہو یا غیراحرام میں جیسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے چہرہ کو اجنبی مردوں سے ڈھکتی تھیں۔ اور بھی متعدد صحابیات سے احرام میں چہرہ ڈھکنے کی دلیل ملتی ہے ۔ احرام میں عورت کے لئے نقاب وبرقع منع ہے ، وہ بڑی چادر کا استعمال کرے جس سے اپنا چہرہ سمیت دونوں ہاتھوں کا بھی پردہ کرے ۔ گویا احرام کی حالت میں بھی عورت اپنے چہرہ کا پردہ کرے گی اور جو لوگوں میں مشہور ہے کہ احرام میں پردہ نہیں ہے، یہ سراسر جھوٹ ہے۔
سوال: کیا تراویح ، تہجد، قیام الیل ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں؟
اگر اس نماز کو پڑھ لیں تو ثواب اور نہ پڑھیں تو گناہ نہیں ہوتا ہے؟
رمضان میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اس لئے تراویح کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے؟
اور کیا تراویح نفلی عبادت ہے، اسکو سنت موکدہ کہہ سکتے ہیں؟
جواب:
٭ہاں نماز تہجد، تراویح اور قیام اللیل ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں ۔
٭اس نماز کو ادا کرتے ہیں تو ثواب ملے گا اور نہیں ادا کرتے ہیں تو کوئی گناہ نہیں ملے گا۔
٭رمضان میں قیام اللیل کا اجر زیادہ ہوتا ہے اس لئے افضل ہے کہ رمضان میں قیام اللیل کریں ، یہ ضروری نہیں ہے اور قیام اللیل نفلی عبادت میں بہت اہم عبادت ہے اس لئے عام دنوں میں بھی پڑھتے ہیں تو بہتر ہے۔
٭تراویح یا تہجد نفلی عبادت ہے تاہم یہ سنت مؤکدہ ہے ۔
سوال: وظائف میں تعداد کی کیا اہمیت ہے جیسے بعض لوگ کہتے ہیں آیت کریمہ کو سوا لاکھ بار پڑھنا اور بھی نمبر بتائے جاتے ہیں، اس میں وظائف کی صحیح تعداد اور اہمیت کیا ہے؟
جواب:لوگوں کے بتائے ہوئے مخصوص وظائف جو مخصوص تعداد میں ہوتے ہیں ، یہ بدعت ہے، اس پر عمل کرنا گناہ کا باعث ہے ۔ شریعت نے کسی بھی آدمی کو اجازت نہیں دی ہے کہ وہ کسی عمل کے لئے اپنی طرف سے کوئی وظیفہ مخصوص کرے۔ اگر کوئی اپنی طرف سے کسی حاجت کے لئے وظیفہ مخصوص کرتا ہے تو یہ بدعت ہے اور اسی طرح کسی وظیفہ کے لئے اپنی طرف سے تعداد مخصوص کرنا مثلا سو ، ہزار یا لاکھ ، یہ بھی بدعت ہے ۔ ذکر عبادت ہے اور اس عبادت کو اسی طرح اور اسی تعداد میں کرنا ہے جیسے نبی ﷺ نے تعلیم دی ہے ۔ تفصیل کے لئے اس بارے میں میرا مضمون "مجرب وظیفہ کی شرعی حیثیت" مطالعہ کریں۔
سوال:کیا قرآنی آیات کو فریم میں کرواکر دیواروں پر لٹکا سکتے ہیں ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ حرم شریف میں بھی آیات لکھی ہوئی ہیں؟
جواب:قرآنی آیات کو دیواروں پر لٹکانے سے متعلق بعض علماء کہتے ہیں کہ جائز ہے لیکن اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ دیواروں پر قرآنی آیات لٹکانا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اہانت کا پہلو نکلتا ہے۔ اور دین قرآن و حدیث کا نام ہے، جو قرآن یا حدیث میں ہے وہی دین ہے ۔ حرم میں کچھ ہونا شرعی دلیل نہیں ہے لہذا حرم میں پائے جانے والے کسی عمل کو شرعی طور پر دلیل نہیں بنا سکتے ہیں۔
سوال:كیا وہ فرائض جو قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہیں یعنی عبادات کے علاوہ جہاد فی سبیل اللہ، عورتوں کا پردہ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور وراثت کی تقسیم تو ان کو ترک کرنے والے کا عقیدہ باطل ہو جائے گا؟ ان فرائض اور نماز، روزہ، زکاۃ اور حج کی فرضیت میں کیا فرق ہے؟
جواب:عبادات اور معاملات میں جو بھی وجوب کا درجہ رکھتا ہے اس کا تارک گنہگار ہے اور قیامت میں واجب کے ترک پر مواخذہ ہوگا لیکن جو عمل واجب سے نیچے ہو یعنی سنت ومستحب ہو اس کا تارک گنہگار نہیں کہلائے گا اور اس پر محاسبہ نہیں ہوگا۔ اس لئے دینی احکام خواہ عبادات سے متعلق ہوں یا معاملات سے متعلق ، یہ دونوں ہمارے لئے دین ہی ہیں اور ہمارے لئے ہرقسم کے فرائض و واجبات پر عمل کرنا ضروری ہے اور ہر قسم کے محرمات سے بچنا ضروری ہے۔
سوال: لون پر گھر لینا کیسا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اتنے پیسے نہ ہوں کہ وہ گھر لے سکے اور اس کے پاس گھر بھی نہ ہو، مثلا آدمی کے پاس دس لاکھ روپئے ہوں اور پچیس لاکھ میں گھر آتا ہو تو کیا وہ پندرہ لاکھ بنک سے لون لے سکتا ہے تاکہ گھر خرید لے اور وہ دھیرے دھیرے لون جمع کردے بلکہ نیت یہ ہو کہ جتنی جلدی اس کے پاس پیسے ہوجائیں فورا اپنا لون ختم کرلے ؟
جواب:ایسی کسی مجبوری میں ہوم لون لینا جائز نہیں ہے کیونکہ لون سودی قرض ہے اور سودی قرض لینا حرام ہے ۔ جس کے پاس گھر نہیں ہے لیکن کچھ پیسے ہیں اسے چاہئے کہ وہ اور پیسے پہلے جمع کرلے اور جب گھر خریدنے کے لئے پیسے جمع ہوجائیں تب گھر خریدلے ۔ آخر لون لینے پر بنک کو قسط دینا ہی ہوتا ہے ، وہی قسط کا پیسہ اپنے پاس جمع کرتے رہیں اور جب پیسہ جمع ہوجائے پھر گھر خریدا جائے۔ اس سے حرام کام سے بھی بچ جائیں گے اور سود کے نام سے زیادہ پیسہ بھی نہیں دینا پڑے گا۔
سوال:ایک عورت نے کسی کی بچی کو دو تین گھونٹ دودھ پلایا ہے، جس عورت نے دودھ پلایا ہے ، اب وہ اس بچی سے اپنے بھائی کی شادی کروانا چاہتی ہے، کیا دو تین گھونٹ سے رضاعت ثابت ہوجاتی ہے؟
جواب: دو تین گھونٹ دودھ پلانے سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ رضاعت ثابت ہونے کے لئے دو شرطیں ہیں ۔ ایک شرط یہ ہے کہ پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر بچے کو دودھ پلایا جائے ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مدت رضاعت یعنی دوسال کے اندر دودھ پلایا جائے ۔
ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط کم ہوگی تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی اور جہاں تک مذکورہ مسئلہ کا تعلق ہے تو چونکہ عورت اپنے بھائی کا نکاح اس لڑکی سے کرنا چاہتی ہے جس کو چند گھونٹ دودھ پلایا ہے لہذا اس نکاح میں کوئی حرج ہی نہیں ہے کیونکہ بہن کا دودھ پلانا بھائی کے لئے موثر نہیں ہے اور ویسے بھی بہن نے رضاعت کی حد سے کم ہی دودھ پلایا ہے اس وجہ سے رضاعت بھی ثابت نہیں ہوتی ہے۔
سوال:عارض نام کا مطلب بتادیجئے اور اگر اس نام کو آرض لکھیں تو اس کا مطلب کیا ہوگا، ہمارے ایک عزیز ہیں جنہوں نے اپنے بیٹے کا نام (آرض) رکھا ہے؟
جواب:یہ دونوں طرح سے لکھنا درست ہے اور دونوں کے الگ الگ معنی ہیں۔
عارض: اس کے مختلف معنی ہیں مثلا رخسار، رکاوٹ، عرض کرنے والا، درپیش معاملہ وغیرہ
آرض: خوشنما منظر، دیمک کا لکڑی کو کھانا وغیرہ۔
اس طرح کے نام رکھنا درست معلوم نہیں ہوتا ہے ہمیں اپنا نام اسلاف کے نام کے حساب سے رکھنا چاہیے۔
ان دونوں الفاظ کے بعض معنی صحیح بھی ہیں، بعض معنی درست نہیں ہیں اس لیے بہتر نام رکھا جانا چاہیے، ویسے کسی نے نام رکھ لیا ہے تو رکھا جا سکتا ہے تاہم عام نصیحت یہ ہے کہ اس طرح کے ناموں سے بچا جائے اور سیرت کی کتابوں سے دیکھ کر مناسب نام رکھاجائے۔
سوال:کیا دف کے ساتھ نعت پڑھنا یا سننا درست ہے، کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جب عرش سے واپس آئے تو دف بجا کر مولا یا صلی وسلم دائما پڑھا گیا کیا یہ ایسا ہی ہوا؟
جواب:جس طرح دیگر آلات ساز ممنوع ہیں اسی طرح سے اصلا دف بھی ممنوع ہے تاہم بعض مواقع پر اس کی اجازت ملتی ہے، ان موقعوں میں عید کا موقع، شادی کا موقع اور سفر سے واپسی کا موقع ہے۔
اور دف صرف لڑکی ہی بجا سکتی ہے، مردوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
المہم عام حالات میں دف دیگر آلات ساز و موسقی کی طرف حرام اور ممنوع ہے لہذا نعت کے ساتھ یا اور کسی قصیدہ اور حمد کے ساتھ دف جانا شرعا جائز نہیں ہے اور جس نے کہا ہے کہ مولا یا صل وسلم دائما دف کے ساتھ بجایا گیا ہے اس نے جھوٹ کہا ہے شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ نعت تو آج کے زمانے کی ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش سے واپس نہیں آئے تھے بلکہ آسمان سے واپس آئے تھے یا کہہ لیں کہ معراج سے واپس آئے تھے۔
سوال:میں روزانہ کچھ وظائف سو دفعہ پڑھتی ہوں مثلا لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر(سوبار)، لاحول ولاقوۃ مکمل(سوبار)، اللھم صل وسلم علی نبینا محمد(سوبار)، استغفراللہ (سوبار)۔ کیا یہ عمل درست ہے؟
جواب: میرے جس مضمون کو سامنے رکھ کر آپ نے سوال کیا ہے، میں نے اس میں ذکر کیا ہے کہ ذکر کی تعداد کو اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت ہے ۔
جہاں تک آپ جو اذکار کر رہے ہیں تو کیا آپ اپنے من سے صرف ذکر ہونے کی وجہ سے 100 مرتبہ متعین کرکے پڑھ رہے ہیں یا آپ نے کتاب سے باقاعدہ دیکھ کر 100 مرتبہ کی تعداد کو پڑھنا شروع کیا ہے؟
دین کے حوالے سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ عمل کرنے سے پہلے دلیل معلوم کریں پھر اس کے بعد عمل کریں۔
آپ کے اذکار میں دو ذکر 100 مرتبہ پڑھنا دلیل سے ثابت ہے وہ یہ دو اذکار ہیں۔
٭لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير.
٭ استغفر الله
باقی دو اذکار 100 مرتبہ متعین کرکے پڑھنا ثابت نہیں لہذا جس ذکر کی جو تعداد متعین ہو آپ اس تعداد کے ساتھ ذکر کریں اور جس کے لیے کوئی تعداد متعین نہ ہو اس کو کثرت کے ساتھ پڑھیں ، اس میں تعداد متعین نہ کریں۔
سوال:کیا مرد کے لئے ایسے کپڑے لگانا درست ہے جس میں کالر اور بٹن کے نیچے تک بیل بوٹے اور کشیدے ہوتے ہیں یعنی جڑی کا کام ہوتا ہے؟
جواب:مرد کا اس طرح سے لباس پہننا بظاہر اس میں حرمت کا پہلو نظر نہیں آتا ہے تاہم بعض ناحیہ سے اس کا نہ پہننا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ جو آدمی اس طرح کا لباس پہنا ہوگا اس کی طرف اکثر لوگوں کا دھیان جائے گا کیونکہ اس میں نقش و نگار بنے ہونے کے سبب بطور خاص نماز میں توجہ بٹنے کا سبب بنے گا خواہ اس کے لیے ہو یا دیگر اس کے آگے پیچھے دوسرے مصلیوں کے لیے ہو۔
سوال:ترمذی و ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔
اس حدیث کے تحت کس بچے کی وراثت میں حصے کی بات کی گئی ہے جو ماں کے پیٹ میں اسلامی لحاظ سے چار مہینے سے اوپر کا ہے۔چار مہینے کا مطلب ہے کہ 120 دن کے بعد 130، 40 ،50 دن کا بھی ہوگا۔ اور جب پیدا ہوا تو مرا ہوا تھا اس کا وراثت میں بھی حصہ ہوگا؟
جواب:وراثت کے لیے شرط ہے کہ بچہ زندہ پیدا ہوا ہو تبھی اس کے لیے وراثت ہے اور جو بچہ مردہ پیدا ہوا ہو اس کے لیے وراثت میں حصہ نہیں ہے چاہے بچے کی تخلیق مکمل کیوں نہ ہو گئی ہو۔
سوال: کیا عدت والی بیوہ خاتون جمعہ کی نماز اور دروس میں جاسکتی ہے؟
جواب:بیوہ خاتون کو نماز یا دروس کے لیے گھر سے نکلنا اور مسجد جانا جائز نہیں ہے، بیوہ کو اپنے شوہر کے گھر کو لازم پکڑنا ہے اور صرف ضرورت کے وقت ہی گھر سے باہر نکلنا ہے جیسے طبیب سے مراجعہ کے لیے ۔ لجنہ دائمہ کا ایک فتوی ہے جس میں بیوہ کی نماز کے لیے مسجد جانے سے متعلق سوال کیا گیا ہے تو لجنہ نے فتوی دیا ہے کہ عورت گھر میں ہی نماز ادا کرے گی۔ (اس فتوی کمیٹی میں شیخ ابن باز بھی موجود ہیں)۔
سوال: کوئی بیوہ خاتون اپنے شوہر کے جنازے پر آسکتی ہے یعنی وہ نماز جنازہ پڑھ سکتی ہے؟
جواب:کسی عورت کے لیے اپنے شوہر کے جنازہ کے پیچھے جانا جائز نہیں ہے بلکہ تمام عورتوں کے لیے جنازے کے پیچھے چلنا ممنوع ہے، یہ صرف مردوں کے حق میں جائز ہے۔
یہاں یہ بات بھی علم میں رہے کہ جنازہ قبرستان پہنچ چکا ہو تو بعد میں بھی بیوہ عورت کے لیے اپنے شوہر کے جنازے میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔
اس بیوہ عورت کے لئے ضروری ہے کہ عدت مکمل ہونے تک اپنے شوہر کے گھر میں سکونت پذیر رہے۔
باقی عورتیں گھر میں مل کر جنازے کی نماز پڑھ سکتی ہے جب جنازہ گھر پر موجود ہو، وہ بیوہ بھی گھر پہ جنازہ کی نماز پڑھ سکتی ہے۔
سوال: کیا والد اپنی شادی شدہ بیٹی کو زکوۃ دے سکتا ہے جبکہ بیٹی بہت غریب اور پریشان ہو؟
جواب: اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کوئی بھی باپ اپنی شادی شدہ بیٹی کو زکوۃ نہیں دے سکتا ہے خواہ بیٹی غریب، مسکین اور محتاج ہی کیوں نہ ہو۔
باپ پر لازم ہے کہ اگر بیٹی ضرورت مند ہے تو اصل مال سے مدد کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب باپ کو اللہ تعالی نے اتنا مالدار بنایا ہے کہ وہ زکوۃ دینے کے قابل ہو گیا ہے پھر وہ باپ اپنی بیٹی کو زکوۃ دینے کے لیے کیسے سوچ رہا ہے جبکہ اس کے پاس کافی سارا مال موجود ہے۔
باپ کو چاہیے کہ زکوۃ دوسرے مستحقین کو ادا کرے اور اپنی ضرورت مند اولاد کو اصل مال میں سے عطا کرے۔
سوال:جب کوئی عورت فجر کی نماز پڑھ کر مصلی پر اسی جگہ بیٹھی رہے پھر اشراق کی نماز پڑھے اس کی نماز تو ٹھیک ہے لیکن جو اسی مصلی پہ کچھ ادھر ادھر کھسک کر بیٹھ جائے تو کیا ایسے میں اشراق کی نماز نہیں ہوگی؟
جواب: اس مسئلے میں پہلی بات یہ سمجھ لیں کہ اشراق کی نماز اس وقت ہے جب کوئی مرد یا کوئی عورت جماعت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھے اس لئے اگر کوئی عورت گھر میں اکیلے فجر کی نماز پڑھ رہی ہے تو ایسی عورت کو چاہیے کہ وہ چاشت کی نماز پڑھا کرے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی مسجد میں جماعت سے فجر کی نماز پڑھتا ہے اور اسی مصلے پہ بیٹھا رہتا ہے حتی کہ اگر آگے پیچھے کچھ کھسک بھی جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ وہ اپنی جگہ پر سورج نکلنے تک ذکر کرتا رہے اور سورج نکلنے کے بعد اشراق کی نماز پڑھ لے۔
سوال: چار ماہ کا بچہ پیدا ہونے کے بعد فوت ہو جائے اور اس کے والد یا والدہ کی جب وراثت تقسیم کی جائیگی تو اس بچہ کا حصہ کس کو دیا جائے گا؟
جواب: باپ کی وراثت سے بچے کو حصہ پانے کے لیے ضروری ہے کہ باپ پہلے فوت ہو اور پھر بچہ فوت ہو۔ اگر کوئی بچہ باپ کی زندگی ہی میں فوت ہو جاتا ہے تو وہ وراثت کا حقدار نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے ماں کی جائیداد میں سے بھی وارث نہیں ہوگا اگر ماں سے پہلے وہ مر جاتا ہے۔
جب بچہ وراثت کا حقدار ہوگا اور وہ خود بھی وراثت پا کر وفات پا جائے گا تو اس کی وراثت بچے کے وارثوں میں تقسیم کی جائے گی۔
سوال: پہلی قوموں پر بہت سارے عذاب آتے تھے لیکن ابھی کچھ عذاب نہیں دیکھتے اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:دنیا میں متعدد قومیں گزری ہیں مگر قرآن میں صرف بعض قوموں کی تباہی کا تذکرہ موجود ہے ۔ اور ان بعض اقوام کی تباہی کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ نے ساری قوموں کو ہلاک کیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ امت محمد، یہ صرف ایک امت ہے، کئی امت نہیں ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی امت ہے جو پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، اس امت سے پہلے ایسی کوئی امت جو پوری دنیا بھر میں پھیلی ہو نہیں گزری ہے کیونکہ سابقہ قومیں الگ الگ خطے میں محدود ہوتیں جبکہ محمدی شریعت پوری دنیا کے لیے ہے۔
پھر یہ کہ عذاب کی مختلف شکلیں ہیں، ہم تاریخ میں بھی بہت سارے عذاب کا ذکر پاتے ہیں اور آئے دن زلزلہ یا طوفان یا قحط یا قتل یعنی مختلف صورتوں میں اللہ عذاب بھیج ہی رہا ہے ۔
یہ الگ مسئلہ ہے کہ اللہ اس پوری قوم کو نہیں مٹائے گا، یہ قوم قیامت تک باقی رہے گی لیکن عذاب کی متعدد شکلیں پہلے بھی رہیں، آج بھی ہیں اور قیامت تک کسی نہ کسی طرح کا عذاب آتا ہی رہے گا اور دنیا اتنی بڑی ہے کہ بہت سارے عذاب کو نہ ہم دیکھ پاتے ہیں، نہ جان پاتے ہیں۔ ویسے بھی ہم لوگ ایسے زمانے میں جی رہے ہیں جہاں بے حیائی اور فتنے اور عروج پر ہیں۔
اس جگہ قرآن کی اس آیت کو بھی مد نظر رکھیں جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کو دو امان یعنی سیکورٹی عطا فرمایا ہے، ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور دوسری استغفار۔
پہلی سیکورٹی (ضمانت) دنیا سے ختم ہو چکی ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے جبکہ اس امت کے لیے دوسری سیکورٹی (ضمانت) موجود ہے اور استغفار کرنے والے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں اس وجہ سے یہ پوری قوم قیامت تک نہیں مٹ سکتی ہے ۔
سوال: "عطر لگانے کی جگہ (حجر اسود، خانہ کعبہ، روضہ رسول، دیگر اور جگہ جہاں پاؤ) ان جگہوں پر عطر لگانا سنت ہے، یہ میری طرف سے نذر ہے اور میرے لیے یہی تبرک بھی ہے"۔کیا یہ باتیں درست ہیں؟
جواب: یہ کسی بدعتی کی تحریر ہے جو کٹر قسم کا بدعتی ہوگا اور بدعتی کہتے ہی اس کو جو اپنی طرف سے دین گھڑگھڑ کے لوگوں کو بیان کرتا ہے۔
دین اسلام میں کہیں پر ایسی باتیں نہیں لکھی گئی ہیں یعنی اس میں لکھی گئی تمام بات جھوٹی اور بے دلیل ہیں، ان باتوں کو سنت کہنا سراسر غلط ہے ، آپ ان تمام باتوں کو جھوٹ کہہ سکتے ہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔