سوال وجواب کا مجموعہ (اگست 2024 کا آخری ہفتہ)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ ، سعودی عرب
سوال: کچھ لوگویانا سے جدہ شادی میں شرکت کے لئے آرہے ہیں ، اگروہ یہاں آکر پہلے دن عمرہ کریں تو کہاں سے احرام باندھیں گے اور اسی طرح ایک عورت ویانا میں ہی عمرہ کا احرام باندھا مگر وہ نہیں آسکی تو کیا وہ احرام میں ہی باقی ہے اور اس کو کیا کرنا ہوگا؟
جواب:جو لوگ ویانا سے جدہ آئے ہوئے ہیں شادی میں شرکت کے لیے اور وہ عمرہ کا ارادہ کرتے ہیں تو اپنی رہائشی سے احرام باندھ کر عمرہ کریں گے، انہیں میقات جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض لوگ پہلے سے ہی عمرہ کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اپنی سہولت کے لیے جدہ آکر، یہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرتے ہیں تو یہ عمل غلط ہے۔ ایسی صورت میں ایسے آدمی کو واپس اپنی میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرنا پڑے گا۔
جہاں تک اس بہن کا مسئلہ ہے جس نے ویانا میں عمرہ کا ارادہ کیا مگر وہ وہیں اپنے وطن میں ہی رہ گئی تو اس کے اوپر کچھ بھی نہیں ہے اور وہ احرام کی حالت میں نہیں ہے۔ احرام کی حالت میں آدمی اس وقت ہوتا ہے جب وہ میقات پر آکر زبان سے لبیک عمرہ کہہ کر احرام باندھتا ہے یعنی میقات سے پہلے کوئی بھی احرام میں نہیں ہوتا اور احرام نام ہے میقات پر حج یا عمرہ کی نیت کرنے کا۔
سوال:ایک بہن کا سوال ہے کہ انگلینڈ کے غیرمسلم لوگ جو جوان بھی ہیں اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں ، ان کو حکومت پیسے دیتی ہے ، ان کو اسائنمنٹ بنانا ہوتا ہے جس سے وہ ڈپلومہ لیتے ہیں۔ حکومت سے ڈپلومہ کے ذریعہ پیسے حاصل کرتے ہیں ، وہ اسائنمٹ مجھ سے بنواتے ہیں ، وہ تو ادارہ اور کالج میں اسائنمنٹ جمع کرکے زیادہ پیسے لیتے ہیں مگر ہمیں کم پیسے دیتے ہیں تو کیا ہمیں ان کا اسائنمنٹ بنانا چاہئے اور اس کی کمائی حلال ہے؟
جواب: جس طرح سے اسائنمنٹ کی تیاری سے متعلق مسئلہ دریافت کیا گیاہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس طرح کا اسائنمنٹ بنا کر اس کی کمائی کھانا اس بہن کے لیے جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اس ادارے کے ساتھ دھوکہ ہے جس ادارے میں یہ اسائنمنٹ جمع کیا جاتا ہے۔ جس ادارے میں یہ اسائنمنٹ جمع کیا جاتا ہے وہ ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ اسائنمنٹ اس بندے نے تیار کیا ہے جو جمع کررہا ہے اور جس کو ڈپلومہ لینا ہے۔
اس لحاظ سے اس طرح کا اسائنمنٹ تیار کرنا ادارے کے ساتھ دھوکہ ہے اور اس طرح کے دھوکے کا کام کر کے اس کی کمائی کھانا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ تم ظلم اور گناہ کے کام پر کسی کی مدد نہ کرو۔
باقی اسائنمنٹ بنانے والا زیادہ پیسہ لیتا ہے اور اس بہن کو کم پیسہ دیتا ہے، یہ بعد کا مسئلہ ہے، اس میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام کرنا ہی ناجائز اور غلط ہے۔
سوال:کل ہم نے کتاب الرقاق میں ایک حدیث پڑھی جس کا مفہوم ہے کہ جنت میں حوض کوثر سے کچھ لوگوں کو ہٹایا جائیگا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے کہ یہ میری امت کے لوگ ہیں تو آپ کو بتایا جائیگا کہ آپکو معلوم نہیں انہوں نے آپکے بعد دین میں نئی نئی چیزیں گھڑ لی تھیں یعنی بدعات کے مرتکب ہوئے تو یہ سوال ذہن میں آیا کہ کیا جنت میں بدعتی لوگ بھی جائیں گے کہ جنہیں دور کیا جارہا ہوگا جبکہ ہم نے ایک اور جگہ پڑھا تھا کہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے؟
جواب:محشر میں تمام انبیاء کو ایک حوض عطا کیا جائے گا جس سے وہ نبی خود بھی اور اپنی امت کو بھی سیراب کریں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حوض ملے گا جیسے سارے انبیاء کو ملے گا اور آپ کے حوض کو حوض کوثر اس لیے کہا جاتا ہے کہ جنت میں کوثر نام کی ایک نہر ہے جہاں سے پانی مسلسل جاری ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض میں آئے گا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوض کوثر جنت میں نہیں ہوگا بلکہ محشر میں ہوگا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوْضًا وَإِنَّهُمْ يَتَبَاهَوْنَ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ وَارِدَةً، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَكْثَرَهُمْ وَارِدَةً(سنن الترمذی:2443)
ترجمہ:ہر نبی کا ایک حوض ہوگا اورسارے انبیاء اپنی امتیوں کی تعداد کے بارے میں فخر کریں گے اور مجھے امید ہے کہ امتی کی تعداد کے تعلق سے میں سب سے زیادہ ہوں گا۔
جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ حوض کوثر جنت میں نہیں بلکہ محشر میں ہوگا تو بدعتیوں کا معاملہ بھی محشر سے ہی تعلق رکھتا ہے۔
سوال:رہن سے متعلق یہ حدیث میں نے پڑھی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گروی جانور پر اس کا خرچ نکالنے کے لیے سواری کی جائے، دودھ والا جانورگروی ہو تو اس کا دودھ پیا جائے۔
اس حدیث کی روشنی میں سوال ہے کہ کیا رہن میں آئے سونے کے زیور کو استعمال کیا جاسکتا ہےاوراسی طرح رہن میں کوئی سواری ہو جیسے گاڑی یا موٹر سائیکل وغیرہ تو کیا اسے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے؟
جواب:اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ جو جانور گروی ہو اس پر جو بھی خرچ آئے اس خرچ کی وجہ سے اس جانور سے خرچ کے برابر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اور ہم جانتے ہیں کہ کوئی بھی جانور کسی کے پاس گروی ہو تو جانور کو ہر حال میں چارہ کھلانا پڑے گا، اس کو پالنا پڑے گا یعنی کہ اس میں آدمی کو محنت بھی لگے گی اور اس پر خرچ بھی کرنا پڑے گا اس لحاظ سے گروی والے جانور سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک ایسے سامان کاکا مسئلہ ہے جس کے رکھنے پر کوئی خرچ نہیں آتا ہو تو اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے جیسے گروی شدہ زیور ہو یا گروی شدہ مکان ہو یا گروی شدہ گاڑی اور موٹر سائیکل ہو یعنی ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔
سوال:اگر بچہ ماں کے کپڑے پر پیشاب کرے تو اگر اسے دھولیں تو ان کپڑوں میں نماز پڑھنا درست ھوگاکیونکہ ماں بار بار کپڑے بدل نہیں سکتی ہے؟
جواب:بہت ساری خواتین صرف اس لیے نماز نہیں پڑھ پاتی کہ انہیں بچوں کے پیشاب کی شکایت ہوتی ہے جبکہ دیکھا جائےتو شریعت نے اس معاملے میں بہت آسان حکم بیان کیا ہے۔
لبابہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
بَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ فِي حِجْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي ثَوْبَكَ، وَالْبَسْ ثَوْبًا غَيْرَهُ، فَقَالَ:إِنَّمَا يُنْضَحُ مِنْ بَوْلِ الذَّكَرِ، وَيُغْسَلُ مِنْ بَوْلِ الْأُنْثَى(سنن ابن ماجہ : 522، وقال الالبانی :حسن صحیح)
ترجمہ:حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں پیشاب کر دیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے اپنا کپڑا دے دیجئیے اور دوسرا کپڑا پہن لیجئیے (تاکہ میں اسے دھو دوں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بچے کے پیشاب پہ پانی چھڑکا جاتا ہے، اور بچی کے پیشاب کو دھویا جاتا ہے۔
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر لڑکا کپڑے پر پیشاب کر دے تو اس جگہ پر صرف چھینٹا مارنے سے کپڑا پاک ہو جائے گا اور اگر لڑکی پیشاب کر دے تو اس جگہ کو دھلنا کافی ہے جہاں پر پیشاب لگا ہوا ہے یعنی پیشاب والی جگہ کو دھل کر ماں اس کپڑے میں نماز ادا کرسکتی ہے، اسے کپڑا بدلنے کی ضرورت نہیں ہے اور یہ بھی معلوم رہے کہ یہ حکم مدت رضاعت یعنی دو سال کی مدت کے درمیان کے لیے ہے۔ دو سال کے بعد جیسے بڑے کے پیشاب کا حکم ہے ویسے چھوٹے بچے کے پیشاب کا بھی حکم رہے گا یعنی جہاں پر پیشاب لگ جائے اس جگہ کو پانی سے دھلنا پڑے گا۔
سوال: اگر کوئی صحت مند ہو اور کامیاب کاروبار کر رہا ہو لیکن کچھ سال بعد ذہنی مریض بن جائے اور ڈیڑھ سال اسی حالت میں رہے پھر زہر پی کر نہر میں چھلانگ لگا کر مر جائےتو کیا یہ خودکشی میں شمار ہوتا ہے؟
جواب:جو آدمی ذہنی طور پر مریض ہو یعنی اس کی عقل ماؤف ہو چکی ہو تو وہ دیوانہ اور مجنوں کے حکم میں ہے، ایسا شخص اگر زہر پی لے اور ندی میں کود جائے تو ایسے شخص کا اللہ تعالی گناہ نہیں لکھتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ عمل خودکشی ہے یعنی ایک آدمی نے خود کو ہلاک کیا ہے لیکن اس عمل پر اس مجنوں کا مواخذہ نہیں ہوگا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَحْتَلِمَ، وَعَنِ الْمَجْنُونِ حَتَّى يَعْقِلَ(ابوداؤد:4403، وصححہ البانی)
ترجمہ:قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے: سوئے ہوئے شخص سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے، بچے سے یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے، اور دیوانے سے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے۔
سوال: استخارہ کےبعد بار بار ذہن میں خیال آتا ہو تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب:ان خیالوں پر توجہ اور دھیان نہیں دینا ہے اور آج کے دور میں انسانوں کے ساتھ ہزاروں قسم کے مسائل ہیں اس لیے انسان اپنے آپ کو خیالوں سے کبھی باز نہیں رکھ سکتا حتی کہ انسان کی عبادت تک کے درمیان خیالات آتے ہیں۔
ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم فضول چیزوں کی طرف دھیان نہ دیں، جو عمل بتایا گیا ہے اس پر سنت کے مطابق عمل کریں، یہی ہم سے شریعت کا مطالبہ ہے اور اسی عمل کے مطابق ہمیں بدلہ ملے گا، باقی جو خیالات دل میں پیدا ہوتے ہیں اس پر اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ہے، ہم ان خیالات پر توجہ نہیں دیں گے اور غلط خیالات کو عملی جامہ نہیں پہنائیں گے۔ہاں اگر خیالات اچھے آتے ہوں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہےلیکن غلط خیالات یا مایوسی والے خیال کی طرف دھیان نہ دیں ۔
سوال: اگر عمرہ کرنے جائیں اور مدینہ نہ جاسکیں تو کوئی گناہ تو نہیں ہے؟
جواب:مدینہ طیبہ کی زیارت کا عمرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے لہذا جو عمرہ کرنے کے لیے گیا ہے وہ عمرہ کر کے اپنا وطن واپس آسکتا ہے، اسے مدینہ جانے کی ضرورت نہیں ہے اور جو ثواب کی غرض سے مدینہ جانا چاہے اس کی اپنی مرضی ہے وہ جا سکتا ہے لیکن عمرہ کا مدینے کی زیارت سے کوئی تعلق نہیں ہےلہذا جو عمرہ کرنے آیا اور سنت کے مطابق عمرہ ادا کرلیا تو اس کو عمرہ کا پورا اجر ملے گا۔
سوال:بیوہ کی عدت ایک سو تیس دن کے حساب سے کیا جائے یا مہینوں کے حساب سے کیونکہ مہینے انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے اس لیے کچھ ایام کا فرق پڑ جاتا ہے؟
جواب:عدت کے شمار کرنے میں اصل قمری مہینے کا ہی اعتبار کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالی نے عبادتوں کو اسی قمری تاریخ سے جوڑا ہے تاہم جب عربی مہینے کے اعتبار سے تاریخ شمار کرنا مشکل ہو تو وہ ایک سو تیس دن کا حساب لگا کر بیوہ عورت اپنی عدت مکمل کر سکتی ہے۔
اور عربی مہینے کاحساب لگا سکے تو عربی کا اعتبار کریں یہ افضل ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ کوئی مہینہ انتیس کا یا کوئی مہینہ تیس کا ہے، اصل چار مہینے کا اعتبار ہوگا نیزدس دن اور اس میں جوڑے جائیں گے۔
سوال: ہم لوگوں سے حلقات القرآن کافی سنتے یا پڑھتے رہتے ہیں ، یہ حلقات کیا ہے؟
جواب:حلقہ عربی لفظ ہے جو دائرہ کے معنی میں آتا ہے اور اس کی جمع حلقات ہے۔ اور حلقات القرآن سے مراد قرآنی تعلیم کا دائرہ یا دینی تعلیم کی جماعت۔ پرانے زمانوں میں قرآن و حدیث کی تعلیم کے لیے استاد کے چاروں طرف طالب علم بیٹھ کر درس لیا کرتے تھے، اسی کو حلقہ کہا جاتا ہے اور آج بھی عرب ممالک میں بطور خاص مساجد میں حفظ قرآن کے حلقات پائے جاتے ہیں۔اگر دائرہ کی شکل میں طلباء نہ بیٹھے ہوں تب بھی طلبہ کی مجلس اور جماعت کو حلقہ کہاجاسکتا ہے ۔
سوال: مدینہ کا سفر مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے کرنا چاہیے یا روضہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی زیارت کی نیت سے ، اس بارے میں صحیح عقیدہ کیا ہے ؟
جواب: نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کا زیارت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے ، وہ تین مساجد(مسجدحرام ، مسجدنبوی اور مسجداقصی ) ہیں ۔ اس حدیث کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کی نیت سے تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ کا سفر نہیں کیا جائے گا۔ آپ جب مدینہ طیبہ کا سفر کریں تو مسجدنبوی کی زیارت کی نیت سے سفر کریں گے یعنی آپ قبررسول کی زیارت کی نیت سے مدینہ کا سفر نہیں کریں گے کیونکہ مذکورہ بالاحدیث سے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے ۔ ہاں جب آپ مدینہ آجائیں تب آپ قبررسول کی بھی زیارت کریں ، بقیع الغرقد کی بھی زیارت کریں، مسجد قبا کی بھی زیارت کریں ، شہدائے احد کی بھی زیارت کریں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم مدینہ سفر کرتے وقت زیارت کا مقصد مسجدنبوی کی زیارت ہو۔ ہندوپاک میں جو لوگ مزارات کی زیارت کے لئے سفر کرتے ہیں یہ جائز نہیں ہے بلکہ قبر پر مزار تعمیرکرنا ہی جائز نہیں ہے ، قبرکچی اورزمین کی سطح کے برابر قدرے بالشت اونچی ہو۔
سوال:کسی سے سنا ہوں کہ حجر اسود جنت کا سفید پتھر ہے ۔اس کو بوسہ لینا یا چھونا یہ حج کے ارکان میں سے ہے ،اس کو چھونے سےیہ ہمارے تمام گناہ کھینچ لیتا ہے اس لئے یہ کالا پڑھ گیا ہے ، اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
جواب:حجراسود کے سلسلے میں صحیح حدیث میں یہ ہے کہ یہ جنت کا پتھر ہے اور پہلے سفید تھا مگر لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے کالا پڑ گیا۔ حدیث اس طرح سے ہے۔ ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَ هُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ(سنن الترمذی:877)
ترجمہ: حجر اسود جنت سے اترا، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کر دیا۔
حجر اسود کے اور بھی فضائل ہیں جیسے کہ ایک حدیث میں ہے حجر اسود کو چھونا گناہوں کا کفارہ ہے۔
باقی آپ نے جو باتیں ذکر کی ہیں ان میں کئی باتیں غلط ہیں جیسے کہ ایک غلط بات یہ ہے کہ حجر اسود کا چھونا حج کے ارکان میں سے ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ حجر اسود کو چھونا یا بوسہ دینا سنت ہے اور اسی طرح سے یہ بات بھی غلط ہے کہ حجر اسود کو چھونے سے تمام گناہ کھینچ لیتا ہے، یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ اس کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے یا اس کے چھونے و بوسہ دینے سے گناہ مٹتے ہیں لیکن یہ نہیں کہا جائے گا کہ ہمارے سارے گناہ کو کھینچ لیتا ہے۔
سوال:کیا اللہ ھو کا ورد کر سکتے ہیں ؟
جواب:"الله هو" کوئی ذکر نہیں ہے، یہ صوفیوں اور بدعتیوں کا مصنوعی ذکر ہے اس کے پڑھنے سے کوئی ثواب نہیں ملے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کہیں ایسے ذکر کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ ہی اس طرح سے ادھورا ذکر کیا جائے گا۔
صوفیوں کے یہاں اللہ اللہ کا ذکرہوتا ہے، ھو ھوکا ذکرہوتا ہے ، یہ ذکر نہیں ہے ۔ ذکر وہی ہے جس کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول نے خبردی ہے مثلا" اللہ اکبر"کہنا ذکر ہے، "سبحان اللہ" ذکرہے، "الحمدللہ" ذکر ہے ، "لاالہ الااللہ" ذکر ہے ۔ اسی طرح مزید اذکار مسنون ذکرکے تحت دیکھ سکتے ہیں ۔
سوال: کیا کسی میت کو حیض کی حالت میں غسل دیا جاسکتا ہے اس کی کوئی دلیل ہے تو بتادیں۔
جواب:حیض والی عورت کو نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے باقی وہ عبادت کے سارے کام کر سکتی ہے مثلا تلاوت، دعا، اذکار ، تسبیح و تقدیس وغیرہ اور اسی طرح وہ دنیا کے سارے کام کاج کر بھی سکتی ہے۔اور ایک عورت جیسے حیض کی حالت میں کپڑے دھوتی ہے، بچوں کو نہلاتی ہے، کھانا بناتی ہے، گھر کی صفائی کرتی ہے ویسے ہی حیض کی حالت میں میت کو غسل دے سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے چٹائی طلب کیا جبکہ وہ حیض کی حالت میں تھیں تو انہوں نے کہا میں تو حائضہ ہوں، اس پر آپ نے جواب دیا کہ حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے یعنی ایک عورت حیض کی حالت میں اپنے ہاتھوں سے کام کاج کر سکتی ہے۔(مسلم:298)
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں اپنے سر مسجد سے باہر نکالتے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حالت حیض میں ہوتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک دھلتیں۔(مسلم:371)
ان سب دلائل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حیض والی عورت میت کو غسل دے سکتی ہے۔
سوال:کیا حیض والی عورت مسجد میں بیان سننے جاسکتی ہے؟
جواب:حیض والی عورت مسجد کے کسی حصے میں درس کے لیے یا تعلیم کے لیے نہیں ٹھہر سکتی ہےکیونکہ حائضہ کا مسجد میں ٹھہرنا صحیح موقف کی روشنی میں جائز نہیں ہے، وہ ضرورت کے وقت مسجد سے فقط گزر سکتی ہے البتہ وہ وعظ ونصیحت سننے کی غرض سے مسجد کے گیٹ سے باہر بیٹھ سکتی ہے لیکن مسجد کے اندرونی حصے میں نہیں بیٹھ سکتی ہے۔
سوال:میرے ابو کو انتقال ہوئے چھ ماہ ہوئے ہیں اور میں اپنے ابو کے بارے میں عجیب عجیب خواب دیکھتی ہوں ، کبھی برا بھی دیکھتی ہوں جس کی وجہ سے پریشان رہتی ہوں ۔میرے ابو زندگی میں اچھائی بھی کرتے تھے اور ان کی برائی بھی تھی اور میرے بھائی کو گزرے ایک سال ہوگئے مگر اس کے بارے میں ایسے خواب نہیں آتے تو اس بارے میں مجھے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:میت کو ہم خواب میں دیکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کسی بھی طرح سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میت خواہ اپنی زندگی میں اچھا کام کیا ہو یا برا کام کیا ہو اس کی وفات کے بعد اس کی زندگی اور اعمال کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور وہ اپنا مسئول خود ہے،اس کا مسئول اس کی اولاد یا دنیا کا کوئی بھی آدمی نہیں ہے اس لیے اس معاملے میں کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور ہر کسی کو اللہ تعالی زندگی دے کر اس کوعمل کرنے کی مہلت دیتا ہے، میت کی مہلت ختم ہوگئی ہے اور جو زندہ ہے اسے اپنی فکرکرنی چاہیے تاکہ اس کا حساب و کتاب قیامت میں آسان ہو۔
رہا مسئلہ میت کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں تو شریعت میں جن کاموں کی اجازت ہے ان کاموں کو ہمیں میت کے لیے انجام دینا چاہیے جیسے میت کے لیے دعائے مغفرت کریں، ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کریں، ان کے گناہوں کی معافی کے لیے دعا کریں، ان کی طرف سے صدقہ کریں، یہ اعمال ایصال ثواب کے طور پر میت کے لیے انجام دے سکتے ہیں۔
باقی اور کسی چیز کے لیے بے چین ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اپنے لیے زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ پتہ نہیں ہمارا خود کا معاملہ کتنا سنگین ہوگا کیونکہ آخرت کی زندگی اور آخرت کا حساب کوئی معمولی حساب نہیں ہے۔
سوال:کیا ہم اپنے بہت قریبی رشتہ داروں کو زکات دے سکتے ہیں جن کی صورتحال اس طرح سے ہے کہ ان کی کچھ عرصہ سے نوکری نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اور ذرائع آمدنی ہیں لیکن وہ اپنے ذاتی گھر میں رہتے ہیں۔ گاڑی بھی ہے لیکن روزمرہ کے اخراجات کے لئے بالکل کچھ بھی نہیں ہے یہاں تک کہ کھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ ان کے پاس کچھ نہ کچھ زیور بھی ہے جس کی تفصیل ہم نہیں جانتے اور رشتہ ایسا ہے کہ پوچھ بھی نہیں سکتے۔ وہ بڑے درجے کی پریشانی اور مصیبت میں مبتلا ہیں؟
جواب:جب صورتحال ایسی ہو جیساکہ مذکور ہے کہ گھر کا بنیادی خرچ بھی پورا نہ ہو پاتا ہو گرچہ اس کےپاس گاڑی یا کچھ زیورات ہوں، اس کا مسئلہ نہیں ہے اصل یہ ہے کہ اس کے پاس ذرائع آمدنی نہیں ہے اور گزر بسر مشکل ہے تو اس کو گزر بسر کرنے کی حد تک یا یہ کہیں کہ اس کی بنیادی ضرورت پورا کرنے کی حد تک زکوۃ اور صدقہ و خیرات دے سکتے ہیں۔
سوال:ایک فیملی کئی سالوں سے ایک مکان میں کرایہ دار تھے پھر ایسا ہوا کہ مالک مکان کا انتقال ہوگیا اور کافی عرصہ تک کوئی ان سے کرایہ طلب کرنے نہیں آرہا تھا تو انہوں نے کچھ کاغذات بنوا کر مکان اپنے نام کرلیا، اب وہ اس مکان کے قانونی مالک ہوگئے ہیں تو کیا ایسا کرنا صحیح عمل ہے اور وہ مکان کے حقدار ہوگئے، کہا یہ جاتا ہے کہ جب کسی میت کے وارث کا اتا پتا نہیں تو اب ہم رہ رہے ہیں، یہ ہمارا ہوگیا ،کیاان کا کیا یہ عمل جائز ہے؟
جواب:کوئی آدمی کسی کا مکان یا کسی کی زمین قبضہ کر لے اور اپنے نام کر لے تو یہ معاملہ بہت ہی خطرناک ہے اور قیامت میں اس کے ساتھ انتہائی خطرناک معاملہ کیا جائے گا کیونکہ یہ حقوق العباد ہے اور حقوق العباد اس وقت تک معاف نہیں ہوتا ہے جب تک دنیا میں حق والوں کا حق نہیں لوٹا دیا جائے، اور کوئی کسی کا حق مار کر دنیا سے چلا جائے تو قیامت میں اس کا سخت محاسبہ ہوگا۔
اگر واقعی مکان مالک کا انتقال ہوگیا ہے تو اس کے وارث کا پتہ لگاکر یہ مکان اس کے حوالے کیا جائے کیونکہ یہ میت کا ترکہ ہے ، کوشش کے باوجود مکان مالک کا کوئی وارث نہ ملے تو معتمددینی ادارہ کو اس بارے میں خبرکی جائے وہ اس مکان کو میت کی طرف سے محتاج وضرورت منداور مناسب جگہ پرمیت کے نام سے صدقہ کردے گا۔ یاد رہے فرضی کاغذبنالینے میں کرایہ دار کا مکان نہیں ہوگا، یہ ہرگزاس کی ملکیت نہیں ہے ۔ اس بارے میں اسے اللہ کا خوف کھانا چاہئےاور اوپر بتائے طریقہ پرعمل کرناچاہئے۔
سوال:اگر کسی ہندوستانی کی فلائٹ ڈائرکٹ سعودی کی نہ ہوکر دبی کی ہو تو ان کی میقات یلملم ہوگی یا گلف والوں کی طرح قرن المنازل ہوگی؟
جواب:آپ انڈیا سے ڈائریکٹ جدہ پہنچیں یا وایا دبئی جدہ پہنچیں، ان دونوں صورتوں میں فلائٹ طائف کے قریب سے گزرتی ہے اور عمرہ کرنے والے کو خلا میں ہی طائف کے قریب قرن المنازل سے عمرہ کی نیت کر لینی ہے۔
سوال:بغیر محرم ماں بیٹی عمرہ پر جا سکتے ہیں؟
جواب:بغیر محرم کے ماں اور بیٹی عمرہ کے سفر پر نہیں جا سکتے ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر محرم کے سفر کرنے سے عورت کو منع فرمایا ہے، اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ لَيْلَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا رَجُلٌ ذُو حُرْمَةٍ مِنْهَا(ابوداؤد:1723، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
ترجمہ:کسی مسلمان عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ ایک رات کی مسافت کا سفر کرے مگر اس حال میں کہ اس کےکے ساتھ اس کا کوئی محرم ہو۔
سوال: میرے شوہر سعودی میں ہوتے ہیں کیا میں پاکستان سے اکیلے عمرہ کرنے سعودی جاسکتی ہوں ، میرے پاس صرف ایک آدمی کے لئے زاد راہ ہے ؟
جواب:اس سلسلے میں ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کو بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع فرمایا ہے لہذا ایک عورت پاکستان سے سعودی عرب اور سعودی عرب سے پاکستان بغیر محرم کے سفر نہیں کر سکتی ہے، خواہ شوہر کہیں بھی ہو، سعودی عرب میں ہو یا پاکستان میں ہو، اس سے غرض نہیں ہے ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ عورت ہر حال میں محرم کے ساتھ سفر کرے یعنی سفر میں جانا اور سفر سے لوٹنا ان دونوں صورتوں میں محرم ہونا ضروری ہے۔اور اس معاملہ میں اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں ہے کہ عورت کے پاس عمرہ کرنے کے لئے صرف خود کا زاہ سفر ہے، بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ عورت بلامحرم سفرنہ کرے، اور محرم نہ ہو تو عمرہ کا سفر نہ کرے ، یا محرم کا خرچ نہ ہوتب بھی عمرہ کا سفر نہ کرے۔
سوال: ایک بہن کا سوال ہے کہ ان کی امی کا کچھ روزہ باقی ہے اور وہ اکیلے پورے روزہ قضا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے ، ان کی خالہ کی لڑکی ان کی قضا روزے میں ساتھ دینا چاہتی ہے تو کیا وہ روزہ رکھ سکتی ہے؟
جواب:کسی زندہ آدمی کا روزہ کوئی دوسرا نہیں رکھ سکتا ہے یہ شکل جائز ہی نہیں ہے۔
جس کے ذمہ روزہ باقی ہے اس کے لیے قضا کے واسطے پورا سال ہے، وہ پورے سال میں اپنی سہولت کے اعتبار سے روزہ قضا کر سکتا ہے اور پورے سال میں بھی قضا نہ کر سکے تو اللہ حالات اور نیت کو جاننے والا ہے ، اگلے سال بھی چھوٹے روزوں کی قضا کی جا سکتی ہے۔ بہرحال روزہ خود سے قضا کرنا ہے اگر روزہ رکھنے کی طاقت ہے تو۔
جب روزہ قضا کرنے کی بالکل بھی طاقت نہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ کا فدیہ ادا کرنا پڑتا ہے اس صورت میں بھی کوئی دوسرا روزہ نہیں رکھے گا۔
سوال:میرے ساتھ پیٹ کا مسئلہ چل رہا ہے ، اس کی وجہ سے پیریڈ میں گڑبڑی ہوجاتی ہے ، جب میں واش روم جاتی ہوں تو بس وہیں پر پیریڈ ہوتے ہیں ، اگر یہ چھ دنوں سے زیادہ چلتا رہے تو کیا میں پاک ہوکر نماز پڑھنا شروع کردوں ، اگر اس کے بعد بھی پاک ہونے پر یہی مسئلہ نظر آئے اور واش روم جانے پر خون نظر آئے تو وضو کروں یا غسل کرنا پڑے گا؟
جواب:اصل میں بعض عورتوں کو حیض سے پاکی حاصل ہونے کا علم نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے حیض کو سمجھنے
میں دقت ہوتی ہے۔
حیض کے چند ایام ہوتے ہیں اگر کسی عورت کو مسلسل متعین دن تک حیض آیا پھر بالکل خشکی حاصل ہوگئی یا وائٹ ڈسچارج ہوگیا تو سمجھ لیں پاکی حاصل ہو گئی، اب اس کے بعد عورت غسل کر کے نماز کی پابندی کرے گی نیز یہ علم میں رہے کہ پاکی حاصل ہونے کے بعد پھر اگر زردی مائل یا سرخ رنگ کا کچھ بھی ظاہر ہو تو اسے حیض شمار نہیں کریں گے۔
یہ تو پاکی سے متعلق مسئلہ تھا اسی کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو لگاتار کچھ دنوں تک حیض کے خون آئے اور مہینے میں کم و بیش دن گھٹتے بڑھتے رہے، چند دن یعنی دو چار دن تو اس میں یہ سارے ایام حیض کے شمار کئے جائیں گے، جب بالکل خشکی حاصل ہو جائے یا پاکی حاصل ہو جائے تب عورت غسل کر کے نماز پڑھے گی۔
یہ بھی یاد رہے کہ جب واش روم میں حیض نظر آتا ہے اس وقت آپ حیض سے ہی ہیں اور جب بالکل خشکی حاصل ہو جائے یا وائٹ ڈسچارج ہو جائے تب پاکی حاصل ہوگئی۔
سوال:کیا عرش کرسی سے بڑا ہے؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ عرش کرسی سے بڑا ہے اور یہ اہل علم کے درمیان متفقہ مسئلہ ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
سوال:موبائل فون میں جو اذان ہوتی ہے اس کا جواب دے دینا کافی ہے یا مسجد سے اذان کی آواز پر بھی اذان کا جواب دیا جائے گا؟
جواب:جس اذان کا جواب دیا جائے گا، یہ وہ اذان ہے جو مسجد میں دی جائے اور جو اذان موبائل میں یا کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پہ سنائی دے، اس کا جواب نہیں دینا ہے کیونکہ وہ اصل اذان نہیں ہے بلکہ نقل ہے۔ اذان کا جواب جب مسجد سے اصل اذان سنیں تب ہی دینا ہے۔
سوال:ایک پوسٹ میں دو حدیث لکھی ہے اور ناخن کاٹنے کا طریقہ لکھا ہے۔
پہلی حدیث:نبی ﷺ نے فرمایا کہ فتنہ کے وقت سنت کو تھامنے والے کو سو شہیدوں کا اجر ملے گا۔
دوسری حدیث:حمیدبن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ جو جمعہ کے دن اپنے ناخن کو کاٹنا ہے اللہ اس کو بیماری سے محفوظ کردیتا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ 2/65)
اور ناخن کاٹنے کا یہ طریقہ لکھا ہے ، پہلے دائیں ہاتھ میں شہادت کی انگلی پھر درمیانی پھر چھوٹی پھر اس سے چھوٹی پھر بائیں ہاتھ کی سب سے چھوٹی انگلی پھر اس کے بعد والی پھر درمیانی پھر شہادت والی پھر انگوٹھا پھر دائیں ہاتھ کا انگوٹھا۔ اس کے بعد پیر کے ناخن کاٹنے کے لئے دائیں جانب سے، سب سے چھوٹی انگلی پھر بالکل ترتیب سے دائیں سے بائیں جانب کاٹیں گے۔
کیا یہ صحیح پوسٹ ہے؟
جواب:آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں ناخن کاٹنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے یہ جھوٹی بات ہے، کسی نے اپنی طرف سے اس طرح سے امیج بنایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف سے کام کاج کیا کرتے تھے تو ہم بھی دائیں جانب سے ناخن کاٹ سکتے ہیں جیساکہ یہ حدیث ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي شَأْنِهِ كُلِّهِ : فِي طُهُورِهِ، وَتَرَجُّلِهِ، وَتَنَعُّلِهِ"
ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے تمام کاموں میں جہاں تک ممکن ہوتا، دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند کرتے تھے. طہارت کے وقت بھی، کنگھا کرنے کے وقت بھی اور جوتا پہننے میں بھی.(صحيح البخاری : 426 )
مگر دائیں جانب سے ناخن کاٹنے کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔
اور اس پوسٹ میں جو دو حدیث بیان کی گئی ہے، وہ دونوں حدیث ضعیف ہیں بلکہ ایک بہت ضعیف اور ایک موضوع ہے۔
پہلی حدیث: مَنْ تَمسَّكَ بِسنَّتِي ، عند فَسادِ أُمتِي ، فلَهُ أجرُ مائةِ شَهيدٍ(اس کو شیخ البانی نے بہت ضعیف کہا ہے:ضعيف الترغيب:30)
دوسری حدیث: مَنْ قَلَّمَ أظفارَهُ يومَ الجمعَةِ ، وُقِيَ مِنَ السوءِ إلى مثلِها(اسے شیخ البانی نے موضوع کہا ہے،ضعيف الجامع:5796)
سوال:کسی بہن نے کہا ہے کہ اگر ہمارے پاس اضافی کپڑے یا اضافی گھر ہو تو اس کے بارے میں بھی ہم سےسوال ہوگا، کیا یہ بات کسی حدیث میں آئی ہے؟
جواب:آج دولت کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے عام طور سے سب کے گھروں میں اکثر چیزیں اضافی ہوتی ہیں جیسے برتن، کپڑے، چپل، بستر ،گدا، تکیہ، گھر، زمین، زیورات یعنی بہت ساری چیزیں ہیں جو ہمارے ہاں ضرورت سے زائد پائی جاتی ہیں۔
ان سارے مسائل میں اصل بات یہ ہے کہ انسان کو فضول حد تک بہت زیادہ چیزیں نہیں رکھنی چاہیے لیکن کسی سامان کو زیادہ تعداد میں رکھنے پر جبکہ وقتا فوقتا اس کی ضرورت پڑتی رہتی ہے تواس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اللہ نے وسعت دی ہے تو وسعت کا اظہار کر سکتے ہیں تاہم دو باتوں کا خیال رہے ۔
پہلی بات یہ کہ اسراف کی حد تک کوئی چیز استعمال نہ کی جائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ محتاج و ضرورت کا وہ خیال رکھتا ہو۔
اس جگہ یہ بات دھیان میں رہے کہ ایک عام آدمی کو کیا معلوم کہ ضرورت کسے کہتے ہیں؟
صحابہ کرام میں کتنے ایسے تھے کہ ان کے پاس صرف ایک کپڑا ہوا کرتا تھا جیسے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ستر اصحاب صفہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس صرف ایک تہبند تھا مگر اوپر اوڑھنے کے لیے کوئی چادر نہ تھی اور اسی طرح بعض صحابیات کے پاس بھی ایک کپڑا ہوتا تھا اور اس کے پاس پردہ کے لیے کوئی لباس نہیں ہوتا جیساکہ عید کی نماز سے متعلق ام عطیہ والی حدیث میں آپ نے پڑھا اور سنا ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی چیز کا ڈبل یا ایکسٹرا ہونا جبکہ ہم اس کو بدل بدل کر استعمال میں لاتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اسراف نہیں ہونا چاہیے، اسراف کہتے ہیں حد سے زیادہ کسی چیز کا بلا ضرورت اور فضول میں رکھنا۔
سوال: کوئی محتاج ہے تو اس کیلئے صدقہ کھانا بہتر ہے یا زکات کھانا بہتر ہے ؟
جواب:کسی محتاج کو صدقہ دیں گے یا زکوۃ دیں گے، اس میں افضل اور غیر افضل کا کوئی سوال نہیں ہے، زکوۃ سے متعلق مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس مال زکوۃ ہو اور اس پر سال گزر جائے تو فورا اس کی زکوۃ ادا کرے اور مستحق کو زکوۃ دے۔ اور کسی کے پاس مستحق کو دینے کے لیے زکوۃ نہ ہو تو صدقہ و خیرات میں سے دیا کرے گویا کہ دینے والے کے پاس جو سہولت ہے اس اعتبار سے دینا ہے، اور سامنے والے کو نہیں دیکھنا ہے کہ اس کو صدقہ دینا ہے یا زکوۃ دینا ہے بلکہ ہم اپنے حال کو دیکھیں گے کہ محتاج کو دینے کے لیے ہمارے پاس زکوۃ ہے یا صدقہ ہے؟
سوال:اگر کوئی پاکستان سے دس دن کے لیے عمرہ کرنے جائے تو وہ ایک سے زائد عمرہ کر سکتا ہے اور ایسی صورت میں دوبارہ احرام کہاں سے باندھے گا؟
جواب:جو آدمی عمرہ کرنے کے لیے گیا ہے وہ مکہ میں دس دن رکے یا پندرہ دن رکے، اسے ایک عمرہ کرکے وطن واپس آجانا چاہیے ، اس کے حق میں یہی مسنون ہے کیونکہ ایک سفر میں ایک ہی عمرہ کرنا ثابت ہے۔ کسی نے حلال پیسے سے اور سنت کے مطابق ٹھیک ڈھنگ سے ایک عمرہ ادا کر لیا تو اجر و ثواب کے لیے یہ ایک عمرہ ہی اس کے حق میں بہت زیادہ ہے۔
سوال:اگر شوہر حج پر جارہا ہے اور بیوی کو اپنے پیسے سے حج پر لے جائے تو کیا اس عورت کے حج کا فریضہ ادا نہیں ہوگا، اپنے ہی پیسہ سے حج کا فریضہ ادا ہوگا اور جو شوہر لے جارہاہے اس کا فرض ادا نہیں ہوگا، نفلی حج ہوگا؟
جواب:آپ نے جو بات ذکر کی ہے، شاید کوئی عورت اس طرح سے بول رہی ہوگی کہ اپنے پیسے ہی سے حج کا فریضہ ادا ہوتا ہے اور شوہر اگر بیوی کو حج کراتا ہے تو شوہر کا حج نفلی ہو جائے گا یہ دونوں بات جھوٹ اور بے دلیل ہے اور جس نے بھی ایسا کہا ہے وہ اس معاملے میں جاہل ہے، اسے اللہ کا خوف کھانا چاہیے اور بغیر دلیل اور بغیر علم کے دین کے بارے میں زبان نہیں کھولنی چاہیے، اللہ بہت سختی سے ایسے لوگوں کو منع کرتا ہے جو بغیر علم کے دین کے بارے میں بات کرے۔
بہر کیف! مذکورہ صورت میں یعنی جب شوہر اپنے پیسے سے خود بھی حج کرے اور بیوی کو بھی اپنے پیسے سےحج کرائے اور دونوں کا یہ پہلا حج ہو تو ان دونوں کے حج کا فریضہ ادا ہو جائے گا،اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
سوال : مردو خواتین اگر اپنے سر کے بالوں کو کالے رنگ سے رنگے تو اس حالت میں پڑھی گئی نماز قبول نہیں ہوتی ہے؟
جواب:نماز اپنی جگہ درست ہے، نماز میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ کسی مرد یا کسی عورت کو اپنے بالوں میں کالا رنگ نہیں لگانا چاہیے، جو کالا رنگ لگائے وہ سنت کی خلاف ورزی کر رہا ہے تاہم نماز اپنی جگہ پر درست ہے۔
سوال: اگر کوئی عورت اپنی کمائی سے صدقہ کرتی ہے اس صدقہ میں اپنے شوہر یا والدین یا کسی اور کی نیت بھی کرلیتی ہے تو کیا یہ صحیح ہے یا سب کی طرف سے الگ الگ صدقہ کرنا افضل ہے ؟
جواب:صدقہ کرنا اپنی استطاعت پر منحصر ہے، اگر اللہ تعالی نے زیادہ مال دیا ہے تو سب کی طرف سے الگ الگ صدقہ کریں ، اس صورت میں یہ زیادہ بہتر ہے اور اگر مال کی فراوانی نہیں ہے تو اپنے صدقہ میں اپنے ساتھ اپنے والدین کو بھی شریک کر لیں ان شاءاللہ سب کو ثواب ملے گا۔
سوال:اگر عورت کو حیض کی حالت میں موت آتی ہے تو کیسے غسل دیں گے اور کیا اس کو پیڈ لگانا پڑے گا؟
جواب:جس عورت کو حیض کی حالت میں موت آجائے اس کے غسل کا بھی طریقہ وہی ہے جو عام عورت کا ہے یعنی دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، نجاست کی صفائی کے وقت اچھی طرح خون کی بھی صفائی کردی جائے۔
اور یہ معلوم ہونا چاہیے کہ عورت کی وفات کے بعد میت سے عموما خون جاری نہیں ہوتا، یہ صرف زندہ عورت میں ہی ہوتا ہے پھر بھی اگر کسی حائضہ عورت کو غسل دینے کے بعد بھی اس سے خون بہتا ہوا نظر آئے تو پٹی یا پیڈ وغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ خون رکا رہے اور خون جاری نہ ہو تو پھر کوئی پیڈ یا پٹی لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال:جو بچے مدرسہ میں حفظ کرنے جاتے ہیں تو کیا ان کو شیاطین زیادہ پریشان کرتے ہیں ؟
جواب:نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ مدرسہ میں پڑھنے والے بچوں کو جنات زیادہ تنگ اور پریشان کرتے ہیں، اس طرح کی بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر آپ کے یہاں لوگ اس طرح بولتے ہیں تو یہ ان لوگوں کی بات ہے اور سماج میں لوگ جنات و شیطان کے تعلق سے بہت ساری جھوٹی جھوٹی باتیں بیان کرتے رہتے ہیں، ان باتوں پر ہمیں دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم خود نیک اور عبادت گزار بنیں، اپنے بچوں کی دینی تربیت کریں، ان سے بھی نماز پڑھوائیں اور اپنے گھر کو نجاست سے پاک رکھیں تاکہ اللہ کی رحمت ہمارے گھر پر اور گھر والوں پر نازل ہوتی رہے، باقی اللہ پر توکل رکھیں، کوئی جن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر ہم اپنے آپ میں ایمان والے اور نیک عمل والے ہوں۔
سوال: کسی مجبوری کے تحت پلنگ پر نماز پڑھ سکتے ہیں جب زمین پر پانی ہو اور اسی طرح کیا بیڈ پر نماز ہوسکتی ہے؟
جواب:اگر کسی کے گھر میں یا جہاں پر آدمی موجود ہے وہاں زمین پر نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے، یا کسی مجبوری کے تحت زمین پر نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں تو بیڈ پر، پلنگ پر یا کسی بھی اونچی جگہ پر نماز پڑھ سکتے ہیں اور نماز پڑھتے ہوئے یہ خیال رہے کہ ایسی جگہ نماز پڑھیں جہاں سجدے میں پیشانی زمین پر یا اس جگہ پر ٹکی رہے جہاں پر ہم سجدہ کریں۔ بعض لوگ فوم والے نرم اور موٹے گدے پر سجدہ کرتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں پیشانی گدے میں دھنس جائے گی جبکہ سجدہ کرتے ہوئے پیشانی کو زمین پر قرار حاصل ہونا چاہیے۔
سوال: ہندوپاک میں میت کو عموما پیٹھ کے بل لٹاکر ہاتھ سینے پر رکھ دیا جاتا ہے ، کیا یہ طریقہ صحیح ہے، اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب:میت کو دفن کرتے وقت "بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ " کہہ کر پیر کی جانب سے قبر میں ڈالا جائے گا اور اسے دائیں پہلو پر لٹایا جائے گا اس حال میں کہ اس کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ سے متعلق فرماتے ہیں:
قِبْلَتِكُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا(رواه أبو داود :2875، اسے شیخ البانی نے صحیح کہا ہے)
ترجمہ:بیت اللہ تمہارے زندوں اور مردوں کے لیے قبلہ ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ میت کو بھی قبلہ رخ لٹایا جائے گا۔
جب ہمیں دلائل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میت کو قبلہ رخ لٹانا چاہیے پھر اس سے ہٹ کر دوسرے طریقے پر دفن کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہمارے یہاں عموما پیٹ کے بل میت کو لٹایا جاتا ہے اور دونوں ہاتھ سینے پر رکھا جاتا ہے اس طرح کی کیفیت منقول نہیں ہے۔
قبر کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک لحد یعنی بغلی والی اور دوسری شق یعنی بغیر بغلی والی۔
جب ہم شق والی قبر میں میت کو دفن کریں تو دائیں پہلو پر لٹانے کے لیے پیٹھ کی جانب سے کچھ رکھ کر میت کو دائیں پہلو پر کیا جائے تاکہ سنت کے مطابق تدفین ہو اور چاہیں تو دیوار سے سہارا دے کر بھی دائیں پہلو پر لٹا سکتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ ہم قبر مذکورہ بالا دونوں صورت میں سے کسی قسم کی بھی کھو دیں تاہم میت کو دفن کرنے کا جو طریقہ ہے اسی طریقہ پر دفن کرنا چاہیے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔