خواتین کی تصاویروویڈیوز اور سوشل
میڈیا
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر(حی السلامہ ) سعودی عرب
سوال(2): بعض عورتیں کہتی ہیں کہ چلتے ہوئے یا گلے ملتے ہوئے پردہ کے ساتھ تصویر اور ویڈیوز بناکر لوگوں میں اس لئے نشر کرتے ہیں تاکہ دوسری خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب ملے ، کیا اس مقصد سے باحجاب تصویر بنانا اور شیئر کرنا جائز ہے؟
جواب: آپ کے اس دوسرے سوال سے متعلق جواب کے مختلف پہلو ہوسکتے ہیں جنہیں مندرجہ ذیل نکات کی صورت میں بیان کرتا ہوں ۔
٭جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جاندار کی تصویر کھیچنا اور اس کو شیئر کرنا حرام ہے تو پھر تمام قسم کے جاندار کی تصویر خواہ چلتے ہوئے ہو، بیٹھے ہوئے ہو، سوئے ہوئے ہو یا گلے ملتے ہوئے ہو اسے شیئر کرنا حرام ہے۔
٭جاندار کی تصویروں میں عورت کی تصویر مزید گناہ کا باعث ہے کیونکہ عورت سراپا پردہ ہے، اسے ہمیشہ اور ہرحال میں اجنبی مردوں سے اوپر سے نیچے تک اپنے آپ کو ڈھک کر اور چھپا کر رکھنا ہے۔
٭آج کل کے اکثر و بیشتر نقاب اور برقع بطور حجاب نہیں بطور فتنہ ہیں کیونکہ یہ سب جاذب نظر اور دلکش و پر فتن ہوتے ہیں اور عموما لڑکیاں اسی قسم کے جاذب نظرنقاب کی تصویر لیتی ہیں اور شیئر کرتی ہیں ، ایسی تصویروں سے فتنہ تو پھیل سکتا ہے مگر فائدہ لاحاصل ہوگا۔
٭برقع کے تعلق سے ایک بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھی لکھی خاتون بلکہ آپ کہہ لیں عالمہ اور فاضلہ، وہ بھی جو دعوت کے میدان میں ہیں اور اپنے بیانات کی ویڈیوز بناتی ہیں وہ اپنے چہرے کا شرعی طور پردہ نہیں کرتی ہیں، آپ دیکھیں گے ان کی پیشانی اور آنکھوں کے ساتھ چاروں طرف کا حصہ کھلا ہوا ہوتا ہے اور ان عالمہ و فاضلہ کو دیکھ کر ان کی طالبات اور ان کو سننے والی عورتیں اسی طریقے سے پردہ کرتی ہیں ۔ الحفظ و الاماں
٭ خواتین کا اپنے بیانات کی ویڈیوز بنانا درست نہیں ہے ، اہل علم نے سختی سے اس عمل سے منع کیا ہے اس کے باوجود متعدد خواتین کثرت کے ساتھ بیانات رکارڈ کرواتیں ہیں اور سوشل میڈیا پر نشر کرواتی ہیں اور اس وقت افسوس زیادہ ہوتا ہے جب بعض سلفی اداروں کے ذمہ دار اپنے اسٹوڈیومیں خواتین سے مسلسل پروگرام کرواتے ہیں اور اپنے چینل کو پروموٹ کرتے ہیں جبکہ ایسی خواتین کا پردہ تک صحیح نہیں ہوتا یعنی پردہ میں وہی خامی پائی جاتی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔
٭اگر کوئی عورت نقاب یا برقع لگا کر وہ بھی ایسا نقاب جو فتنے کا سبب ہو اس مقصد سے تصویر کھینچ کر انٹرنیٹ پہ ڈالے کہ اس سے لوگوں کو حجاب کے لئے نصیحت ملے گی، کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کیونکہ مقصد صحیح ہونے کے ساتھ طریقہ بھی سنت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی آدمی نیت کرے کہ صدقہ کرے گا لیکن وہ چوری کر کے صدقہ کرے تو ایسا صدقہ حرام ہے، ٹھیک یہی مسئلہ مذکورہ بالا تصویر سے بھی متعلق ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تین صحابہ کو نیک عمل کرنے سے منع کردیا تھا جو عمل سنت کے خلاف تھا حالانکہ وہ عمل اپنی جگہ عظیم اور صالح تھا۔
آخری پوائنٹ: اپنی اس تحریر میں آخری نصیحت یہ کرتا ہوں کہ جب ہمیں معلوم ہے کہ جاندار کی تصویر حرام ہے اور لڑکی کی تصویر میں مزید شدت حرمت ہے تو کسی بھی طرح کی تصویر سوتے، جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، بلاگ بناتے، یوٹیوب چینل کے لئےویڈیوزبناتے، کھانا بناتے یا اور کسی کام کاج کی تصویر وویڈیوزعورت کو سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی اس بارے میں الگ الگ سوال پوچھنا چاہیے کیونکہ ان سارے سوال کا یہی جواب ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
سوال(3): اکثر ہم عورتیں کسی مرد سکالر کی ویڈیوز یا پوسٹ واٹس ایپ سٹیٹس پر یا خواتین گروپ میں شیئر کرتے ہیں تاکہ دوسری خواتین فائدہ اٹھائیں تو کیا سٹیکر وغیرہ سے چہرہ ڈھک دینا چاہئے یا ویسے ہی شیئر کریں تو عورتوں کی نظر اس طرح غیر محرم پہ پڑنے سے شئیر کرنے والے کو گناہ ہوتا ہے؟
جواب: اللہ تعالی نے عورتوں کو اپنا چہرہ چھپانے کا حکم دیا ہے بلکہ عورت چہرہ سمیت پورا جسم چھپائے گی لیکن اللہ نے مردوں کو اپنا چہرہ چھپانے کا حکم نہیں دیا ہے یہ الگ مسئلہ ہے کہ راہ چلتے مرد کو بھی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم ہے لیکن چہرے کا پردہ کرنے کا اسے حکم نہیں دیا گیاہے اس لئے مردوں کی جو دعوتی ویڈیوز آپ، خواتین کے درمیان شیئر کرتے ہیں ان میں چہرہ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک مرد اجنبی عورت کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا ہے لیکن عورت اجنبی اور غیرمحرم مرد کا چہرہ دیکھ سکتی ہے ، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے اپنی چادر سے پردہ کئے ہوئے ہیں۔ میں حبشہ کے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں (جنگی) کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے، آخر میں ہی اکتا گئی۔ اب تم سمجھ لو ایک کم عمر لڑکی جس کو کھیل تماشہ دیکھنے کا بڑا شوق ہے کتنی دیر تک دیکھتی رہی ہو گی۔(صحیح بخاری:5236)
اس حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے اپنی زوجہ کو مردوں سے چھپایا جبکہ آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ نے مردوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا گویا ایک عورت اجنبی مردوں کو دیکھ سکتی ہے اس میں حرج نہیں ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ یہاں پر یہ بھی ہے کہ موبائل کی تصویر اور ویڈیو بھی ممنوع تصویر میں داخل ہے لیکن وقت اور حالات کی ضرورت کی وجہ سے علماء کرام دینی بیانات ریکارڈ کرتے ہیں جو وقت کی بہت بڑی ضرورت اور لوگوں کے لیے باعث رحمت ہے۔اگر علماء کرام بیانات ریکارڈ نہ کرتے اور یہ بیانات سوشل میڈیا پر نشر نہ ہوتے تو آج عام لوگ یوٹیوب اور دیگر سوشل پلیٹ فارم پر محض گانے سنتے، فلمیں دیکھتے، سیریل میں لگے رہتے اور نہ جانے کون کون سی بےحیائی کی چیزوں میں مصروف رہتے ۔ الحمدللہ دینی بیانات سے لوگ گھر بیٹھے دین سیکھ رہے ہیں۔
سوال(4): خوشی کے موقع پر بچیاں ڈانس(رقص) کرسکتی ہیں، کیا اس کی اجازت ہے؟
جواب:رقص مسلم ماں بہن، بیٹی کے لئے کسی طور جائز نہیں ہےو چاہے خوشی کا موقع ہو یا کوئی اور موقع ہو،یہ فساق و فجار کی مشابہت اور فتنے کا سبب ہے اس فتنے سے ہم اپنے گھر اور سماج کو بچائیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل مسلم بچیاں اسکولوں میں رقص کرتی نظرآتی ہیں، جابجا سوشل میڈیا پر اس قسم کی ویڈیوز نظر آتی ہیں اور والدین ذمہ دارکو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ یاد رکھیں ایسی بچیاں آگے چل کر کبھی باحیا نہیں بن سکتیں ، اس عمل سےممکن ہے بچیوں میں بے حیائی کو فروغ ملے اور یہاں رقص کرتے کرتے ٹک ٹاک اور دوسری جگہوں پر رقص کرنے لگے پھرانہیں ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں ہوگی ۔ آج کل دینی مدارس میں بھی ایکشن نظم کے نام پر بچیاں رقص کی طرح حرکات کرتی ہیں جو بیحد شرمناک ہے، اہل مدارس کو اپنے یہاں سے اس قسم کی بے ہودہ حرکتوں کو ختم کرنا چاہئے۔
جواب:عورت سراپا پردہ ہے، اسے اپنا بدن چھپانا ہے اور فتنے کی چیز سے بچنا ہے ، عورت اگر اپنے بدن کے ساتھ ویڈیو بناتی ہے تو وہ گنہگار ہوگی کیونکہ وہ اپنی طرف لوگوں کو دیکھنے کی دعوت دے رہی ہے اورصرف آواز کے ساتھ نظم رکارڈ کرے تویہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ نے عورتوں کو بات کرنے میں لچک ، نرمی اور شیرینی سے منع کیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا(الأحزاب:32)
ترجمہ:اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔
نظم پڑھنے میں آواز کوسردینا پڑتا ہے ، آواز میں کشش پیدا کرنی پڑتی ہے ، ظاہر سی بات ہے اللہ کے مذکورہ کلام کی روشنی میں ایسی سریلی ، شیرینی اور پرکشش آواز بناکر ویڈیو بنانا یا آواز رکارڈ کرنا جائزنہیں ہے ۔یہ فتنے کا باعث ہے اس لئے لڑکیوں کو اس عمل سے باز رہنا چاہئے۔
سوال(6)کیا چھوٹی بچیوں کا رقص کرتے ہوئے نظم پڑھنا شریعت کی رو سے جائز ہے؟
جواب : آجکل مسلمانوں کے یہاں اسٹیج پروگراموں میں بچیاں بدن کو حرکت دیتے ہوئے نظم پڑھتی ہیں ، بعض مقامات پر ایسی حرکات کے ساتھ قرآن بھی تلاوت کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ رقص کوئی اچھی چیز نہیں ہے کہ ہم مدرسوں اور اسکولوں میں مسلم بچیوں کو تلاوت اور اناشید کے ساتھ رقص بھی کروائیں ۔یہ چیز ناظرین کو بھاتی ضرور ہے مگر یہ غیرقوم کی نقالی کے ساتھ سراپا فتنے کا باعث ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما الرقص من النساء فهو قبيح لا نفتي بجوازه لما بلغنا من الأحداث التي تقع بين النساء بسببه ، وأما إن كان من الرجال فهو أقبح ، وهو من تشبه الرجال بالنساء ، ولا يخفى ما فيه ، وأما إن كان بين الرجال والنساء مختلطين كما يفعله بعض السفهاء : فهو أعظم وأقبح لما فيه من الاختلاط والفتنة العظيمة لا سيما وأن المناسبة مناسبة نكاح ونشوة عرس (فتاوى إسلامية: 3/187).
اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ رقص کرنے میں قباحت ہے اس وجہ سے ہم اس کے جواز کا فتوی نہیں دے سکتے اور ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس کے سبب عورتوں میں فتنہ برپا ہوا ہے ۔ اگر مرد رقص کرے توعورت کے رقص سے بھی قبیح ہے کیونکہ اس میں عورتوں کی مشابہت ہے اور اس کی قباحت سب پر عیاں ہے۔ اگر مردوعورت کے ساتھ مخلوط رقص ہو جیساکہ بعض بے وقوف کرتے ہیں تو یہ مردوں کے رقص سے بھی قبیح اور عظیم گناہ ہے کیونکہ اس میں اختلاط کے ساتھ بڑا فتنہ پایا جاتا ہے بطور خاص نکاح اور شادی کی مناسبت سے ہو۔
اس لئے ذمہ داران ادارہ و تنظیم سے گزارش ہے کہ بچیوں سے رقص کراکر ان کا مستقبل خراب نہ کریں ، یہ کل گھروں کی مالکن بنیں گی ، اگر اس نہج پہ بچیوں کی تربیت کی گئی تو اپنے گھروں میں اور معاشرہ میں یہی چیز پھیلائے گی اور فتنے کا سبب بنیں گی ، اس وقت فتنے کا اصل ذمہ دار مربی ہوں گے ۔
سوال(7): نکاح مسجد میں ہو اور لیڈیز کے پورشن میں تمام لیڈیز ہوں اور دلہن بھی ہو پھر نکاح کے بعد دولہا بھی لیڈیز کے پورشن میں آجائے اور دلہن کے ساتھ پکچرز اینڈ موویز بنائے موبائل سے مسجد میں تو یہ صحیح ہے یا اللہ کو ناراض کرنے اور غصہ دلانے والا کام ہے؟
جواب: معاشرے میں ایک غلط بات یہ پھیلی ہوئی ہے کہ مسجد میں نکاح کرنا سنت ہے، یہ صحیح بات نہیں ہے۔حقیقت یہ ہےکہ آپ نکاح کہیں بھی کر سکتے ہیں نکاح کے لیے مسجد کو سنت کہنا غلط ہےاور مسجد میں بھی نکاح ہوسکتا ہے مگر مسجد کے نکاح کوسنت کہنا غلط ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح سے آپ نے نکاح کا منظر ذکر کیا کہ عقد نکاح میں بہت ساری خواتین مسجدمیں علاحدہ جگہ پر ہیں اور ظاہر سی بات ہے مرد بھی مسجد میں بڑی تعداد میں ہوں گے، اس شکل میں مسجد میں نکاح کرنا بالکل بھی غیر مناسب اور مسجد کے ادب کے خلاف ہے۔
عورت و مرد کی اس طرح بڑی بھیڑ نکاح کے نام پر مسجد میں جمع کرنا بالکل بھی صحیح نہیں ہے، مسجد صرف اور صرف اللہ کی بندگی کے لیے ہے۔ ہاں اگر لڑکا کے ساتھ چند مرد حضرات بیٹھ کرمسجد میں عقد نکاح کر لیتے ہیں تو اس میں حرج نہیں ہے لیکن عورت و مرد کی بڑی بھیڑ مسجد میں جمع کرنا بالکل غلط ہے۔
جب مسجد میں اس طرح کی بھیڑ جمع کرنا غلط ہے تو اس سے زیادہ کہیں غلط یہ ہے کہ دولہا خواتین کے حصے میں جائے اور وہاں فوٹو اور ویڈیو بنائے، یہ انتہائی غلط اور ناجائز و حرام ہے بلکہ بڑے فتنے کا سبب ہے۔
آپ لوگوں کو چاہیے کہ مسجد انتظامیہ سے گفتگو کر کے اس طرح کے نکاح کو مسجد میں انجام دینے سے روکنے کی کوشش کریں تاکہ کسی قسم کا غیر شرعی کام مسجد میں نہ ہواور لوگوں میں فتنہ نہ پھیلے ۔
سوال(8): کیا عورت کے لئے کھانا بنانے کی ویڈیوز بناکر یوٹیوب پر اپلوڈ کرنا اور اس سے کمائی کرنا جائز ہے جبکہ ان ویڈیوز میں عورت کی تصویر نہ ہو محض آواز ہو گلفس وغیرہ کے ساتھ؟
جواب:کسی عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یوٹیوب پر اپنا چینل بنائے اور اپنی آواز میں کھانے پینے کی ویڈیوز بنا کر یوٹیوب پر اپلوڈ کرے اور اس سے پیسہ کمائے۔ عورت کی یہ کمائی جائز نہیں ہے بلکہ حرام کمائی ہے۔
ویڈیو میں چاہے عورت اپنی تصویر دکھائے یا نہیں دکھائے، آواز کے ساتھ ویڈیوز بنانا بھی غیر شرعی عمل ہے جو فتنے کا سبب ہے۔
اللہ رب العالمین نے عورت کو غیر مردوں سے بلا ضرورت بات کرنے سے منع کیا ہے اور عورت ضرورت پڑنے پر غیر مردوں سے تصنع، لچک، نرم اور سریلی آواز میں بات نہیں کر سکتی ہے ۔
عورت کے کھانا بنانے والی محض آواز والی ویڈیوز پہ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ ویڈیوز عورت کی ضرورت میں شامل نہیں ہے یعنی یہ بلا ضرورت ویڈیوز بنانا ہے اور پھر اس میں عورت کی جو آواز ہوگی اس میں لچک، نرمی، تصنع اور سریلی پن بھی پائی جائے گی۔ یہ سب غیر شرعی عمل ہے ۔
مزید براں یوٹیوب سے جو کمائی آتی ہے وہ پرچاروں کے ذریعہ آتی ہے اور پرچاروں میں بہت ساری غیر شرعی چیزیں داخل ہوتی ہیں اس لئے ایک مسلمان مرد اور عورت کو اس طرح کے غیر شرعی پرچاروں کی کمائی کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سوال(9): ایک لڑکی کے لئے یہ جائز ہے کہ جب وہ عالمہ کا کورس مکمل کرے تو مخصوص کیپ کے ساتھ تصویر بنا کر اسے شئیر کرے نیز عالمہ کا کورس مکمل ہونے پر گل پوشی اور دعوت کرنا کیسا ہے؟
جواب: اگر کسی لڑکی نے عالمہ کا کورس مکمل کیا اور اس کے گھر والے خوشی میں اپنی بچی کو اچھا کھانا کھلائے، گفٹ دے اور اس جیسی دوسری قسم کی حوصلہ افزائی کرے تو شرعی حد میں رہتے ہوئے حوصلہ افزائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن تقریب عام کی شکل میں گاؤں والوں کو اور پورے رشتہ داروں کو جمع کرنا اور پھر لڑکی کو پھولوں کا مالا پہنانا یہ اسلامی طریقہ نہیں ہے بلکہ پھولوں کا مالا یہ ہندوؤں کے مذہبی تہوار کے مشابہ ہے، وہ لوگ مورتیوں کی پھول مالا سے عبادت کرتے ہیں لہذا ہمیں مشابہت کی وجہ سے اس عمل سے پرہیز کرنا چاہیے اور جہاں تک مخصوص کیپ لگاکر اس طرح کی ویڈیو یا تصویر بنا کر لوگوں میں نشر کرنا ہے تو یہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ جاندار کی تصویر ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ عورت حیا اور پردے کی چیز ہے عورت کو پردے میں رہنا چاہیے نہ کہ اپنے آپ کو لوگوں میں ظاہر کرنا چاہیے لہذا فارغ ہونے والی طالبات کو نہ ایسی تصاویر کھچوانی چاہیے اور نہ ہی سوشل میڈیا پر نشر کرنا چاہیے ، نہ رستہ داروں کے مابین شیئر کرنا چاہیے ۔
آپ اس قسم کی تصویر رشتہ داروں کو بھیجیں گے اور آپ کے رشتہ دار دوسروں کو شیئر کریں گے جن میں غیر محرم مرد بھی ہوسکتے ہیں حتی کہ بعض لوگ سوشل میڈیا پر بھی نشر کرسکتے ہیں کیونکہ اس وقت ہرکوئی سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے اور اس طرح آپ کی تصویر سوشل میڈیا کی زینت بنے گی اور گناہ کے مرتکب ہوں گے۔
سوال(10): خواتین کا آن لائن درس دینا یا اپنے دروس وبیانات کی ویڈیوز بناکرلوگوں میں نشرکرنا کیسا ہے ؟
جواب: یہ ایک انتہائی اہم سوال ہےجس کا اختصار کے ساتھ جواب یہ ہے کہ اولا مرد علماء کی کمی نہیں ہیں ، الحمدللہ کثیرتعداد میں سلفی علماء امت مسلمہ کی ہرطرح سے اور ہرپلیٹ فارم پر رہنمائی کررہے ہیں بلکہ یہ کہہ لیں کہ زمانے کے تقاضہ کے مطابق آج بہت سارےجید علماء سوشل میڈیا کا بھی سہارا لے رہے ہیں اور وقت کی ضرورت کے حساب سے آج سوشل میڈیا کے ذریعہ دعوت وتبلیغ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ جب کثیر تعداد میں علماء موجود ہیں اور تمام ترمواد وموضوعات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں تو ایسے میں کسی خاتون کے سوشل میڈیا پر آنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ۔ پھر جب شرعی نقطہ نظر سے خاتون کی آواز ، حجاب اور فتنہ کو دیکھتے ہیں تو عورتوں کی ویڈیوز میں متعدد شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں ۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ترجمہ: میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنہ سے بڑھ کر نقصان دینے والا اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ہے۔
اس حدیث پر غور فرمائیں کہ عورت کا فتنہ مردوں کے لئے کس قدر شدید ہے اور آج ہم جب شدیدقسم کے فتنے والے دور میں ہیں ، ایسے میں عورت کا فتنہ اور بھی شدید ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے عورتوں کو گھروں میں سکونت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، ان کے لئے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر گھر میں نماز پڑھنا ہے اور اگر وہ مردوں کے ساتھ نماز میں ہوتی ہے تو امام کی غلطی پہ تنبیہ کے لئے عورت کو تالی بجانے(ہاتھ پر ہاتھ مارنے) کو کہاگیا ہے، منہ سے آواز نکالنا منع ہے۔ ذرا اس نکتہ پر غور کریں ، مزید برآں اللہ نے لوگوں کی رہنمائی اور دعوت کے لئے مردوں کا انتخاب کیا ہے جبکہ زمانے میں ایک سے ایک عالمہ وفقیہ گزری ہوں گی مگر کسی ایک عورت کو اللہ نے نبی اور رسول نہیں بنایا۔
خلاصہ یہ ہے کہ عورت پردہ کی چیز ہے اسے پردہ میں ہی رہنا چاہئے ، نہ وہ بلاضرورت گھر سے نکلے گی اور نہ ہی بلاضرورت مردوں سے کلام کرے گی۔
آپ جب عورتوں کی ویڈیوز پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب بلاضرورت ویڈیوز ہیں کیونکہ مردعلماء کے بیانات عورت ومرد سب کےلئے کافی ہیں ۔ پھر عورت جو گھر کی چیز ہے وہ اپنے آپ کو ویڈیوز کے ذریعہ باہرنکال رہی ہے اور جب لوگ عورت کی ویڈیوز دیکھتے ہیں تو اس عورت کے تمام خدوخال ، حرکات وسکنات ، آواز واسلوب اور نازوادا ساری باتوں پر توجہ ہوتی ہے کیونکہ ویڈیوٹکٹکی باندھ کر دیکھنے اور سننے والی چیز ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ عورت ویڈیو میں کیا کہہ رہی ہے کسی مرد کے لئے جائزنہیں کہ اس کے جسم وبدن پرٹکٹکی لگاکر غور سے کردیکھے ۔ ایک مرتبہ قبیلہ خثعم کی عورت نبی ﷺسے مسئلہ دریافت کررہی تھی ، فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ٹھوڑی پکڑ کرفضل کا چہرہ دوسری طرف گھمادیا۔(بخاری:6228)
آج کل زیادہ تر لوگ کان کے ذائقہ کے لئے تقریرسنتے ہیں اس لئے لوگ تقریر میں اسلوب ، جاذبیت، تصنع،اسٹائل، شیرینی اور انداز بیاں پر دھیان رکھتے ہیں جبکہ اسلام نے عورت کو لچک اور تصنع کے ساتھ مردوں سے بات کرنے سے منع کیا ہے پھر عورتوں کا شیریں بیان، تصنع اور اسٹائل سے بھرا خطاب ، سریلی اور خوش الحانی والی تقریر اور نرم گداز اندازبیان ویڈیوکی شکل میں کیسے جائز ہوگا؟
المہم عورت اگر معلمہ اور عالمہ ہے تو عورتوں کے حلقہ میں درس وبیان دے اور عورت عورتوں میں دعوت کا کام کرے اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن ویڈیوز نہ بنائے اور نہ سوشل میڈیا پر نشر کرے اور آج کل بعض خواتین داعیہ بن کرشہردرشہر تبلیغ کے لئے جاتی ہیں ، یہ عمل بھی سلفی منہج کے خلاف ہے ۔ ایک عورت اپنے حلقہ میں اور شرعی حدود میں رہ کر درس وخطاب کا اہتمام کرے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔