Thursday, November 2, 2023

خودکشی بڑا گناہ اور قابل نفرت عمل ہے

خودکشی بڑا گناہ اور قابل نفرت عمل ہے
تحریر:مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر ، حی السلامہ – سعودی عرب
 
خودکشی ایک جرم ، بڑا گناہ اور ہلاکت کا سنگین اقدام ہے ، اس عمل کی قطعی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی بہانہ تلاش کیا جاسکتا ہے کہ بندہ غریب تھا، تکلیف میں تھا، ٹینشن کا شکار تھا۔ خودکشی ، ہلاکت و جرم ہے خواہ کسی حالت میں ہو۔نبی ﷺ نے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ہےمگر آپ نے دوسرے صحابہ کو نماز جنازہ پڑھنے سے منع بھی نہیں کیا  ۔ اس سےایک  طرف یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قابل نفرت عمل ہے اس کی نماز جنازہ میں معروف اہل علم و دانش شامل نہ ہوں تاکہ دوسرے لوگ اس عمل سے باز رہیں اور عبرت حاصل کریں ۔
خودکشی کرنے والوں سے متعلق چند ارشادات نبوی ملاحظہ فرمائیں تاکہ ہم اس جرم کی سنگینی کا احساس کرسکیں
(1)نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن قتل نفسه بشيء في الدنيا عذب به يوم القيامة (رواه البخاري :5700 ومسلم: 110 ) .
ترجمہ :جس نے دنيا ميں اپنے آپ كو كسى چيز سے قتل كيا اسے قيامت كے روز اسى كا عذاب ديا جائيگا۔
 (2)نبی ﷺ کا فرمان ہے:
مَن تَرَدَّى مِن جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهو في نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فيه خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ في يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ في يَدِهِ يَجَأُ بِهَا في بَطْنِهِ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا.(صحيح البخاري:5778)
ترجمہ: جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔
(3)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
كانَ فِيمَن كانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ به جُرْحٌ، فَجَزِعَ، فأخَذَ سِكِّينًا فَحَزَّ بهَا يَدَهُ، فَما رَقَأَ الدَّمُ حتَّى مَاتَ، قالَ اللَّهُ تَعَالَى: بَادَرَنِي عَبْدِي بنَفْسِهِ، حَرَّمْتُ عليه الجَنَّةَ (صحيح البخاري:3463)
ترجمہ:پچھلے زمانے میں ایک شخص (کے ہاتھ میں) زخم ہو گیا تھا اور اسے اس سے بڑی تکلیف تھی، آخر اس نے چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خون بہنے لگا اور اسی سے وہ مر گیا پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے خود میرے پاس آنے میں جلدی کی اس لیے میں نے بھی جنت کو اس پر حرام کر دیا۔
یہ اور قرآن وحدیث کے دیگر نصوص کی روشنی میں  اہل علم نے یہ کہا ہے کہ خودکشی گناہ کبیرہ ہے ، خودکشی  کرنے والا مسلمان ہے ، اس کے لئے مغفرت کی دعاکی جاسکتی ہے، اس کو غسل دیا جائے گا اور نمازجنازہ پڑھ کر دفن کیا جائے گا تاہم جرم بہت بھیانک ہے ، اس جرم کی وجہ سے قاتل جہنم میں جاسکتا ہے اور ہوسکتا ہے اللہ معاف فرمادے یا جہنم میں ڈال کرسزا دے ۔
29 /اکتوبر2023 کو مولانا طارق جمیل صاحب کے منجھلے بیٹے عاصم جمیل کی خودکشی بیحد افسوسناک ہے ۔ اس واقعہ نے ہرسننے والے کو سکتہ وحیرانی میں ڈال دیا ہے ۔ ویسے ہم اسے ایک ناگہانی واقعہ کہہ کر نظراندازکر سکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس سے ہمیں عبرت حاصل کرنا چاہئے ۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ خودکشی ہے جس کی تصدیق مولانا کے بڑے صاحبزادے مولانا یوسف جمیل نے کردی ہے۔ دوسری طرف مولانا کے بھائی ڈاکٹر طاہر صاحب کا انٹرویو سنیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عاصم جمیل بھلاچنگا، ہنسی خوشی زندگی گزارنے والا، مولانا کی آبائی حویلی سنبھالنے والا ، باقاعدہ جم میں کسرت کرنے والا، شام کو دوست واحباب کے ساتھ میٹنگ کرنے والا ایک نارمل انسان تھا، وہ ذہین وفطین بھی تھا۔
یہ تو طےہے کہ وہ پاگل نہیں تھا  کہ  کہ اس کی خود کشی کو جنون پر محمول کیا جائے گا۔ جو بندہ ذاتی پسند سے شادی کرے، کاروبار سنبھالے، خود سے گاڑی چلائے، معمول کے مطابق کسرت کرے، اس کے کئی کئی دوست واحباب ہوں ،ان سب کے ساتھ میٹنگ ہوتی ہو،  والد صاحب کی گاؤں والی حویلی سنبھالنے والا ہواس قسم کا آدمی نارمل ہے ۔آپ اندازہ لگائیں کہ واقعی اگر کوئی پاگل ہو وہ اپنے ملازم سے کہے مجھے بندوق دو کیا ملازم بندوق لاکر پاگل کودے گا، ہم اپنے چھوٹے بچے کو اس کے ہاتھ میں چاقوو تلوار نہیں دیتے ۔ رہا مسئلہ ڈپریشن کا تو آج دنیا کی اکثریت اس کا شکار ہے اس کی وجہ سے خودکشی کرنا قطعا جائز نہیں ہوگا۔
میرے پاس ہندوستان سے دس بیس گنازیادہ مسائل پاکستان سے آتے ہیں بالخصوص خواتین اپنے گھر کے کسی مرد کے بارے میں مثلا شوہر، باپ یا بھائی کے بارے میں بتلاتی ہیں کہ فلاں ڈپریشن کا شکار ہے اور وہ ڈپریشن کی دوا استعمال کررہاہوتا ہے ۔ یہ مرض اس زمانے میں عام ہے ۔
یہاں اس مسئلہ کی وضاحت کا مقصد فقط اتنا ہے کہ کہیں سوشل میڈیا کی خبروں سے نوجو انوں کو یہ پیغام نہ جائے کہ کوئی ڈپریشن کا شکار ہے تو وہ خودکشی کرسکتا ہے ۔ ہرگز نہیں ، خودکشی موت ، ہلاکت ، سنگین جرم، بدترین گناہ اور موجب جہنم  ہے ۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسان انتہائی مشکل سے مشکل وقت میں بھی خود کو قتل نہیں کرسکتا ہے، اسے ہرحال میں مصیبت پر صبر کرنا ہوگا اور ہلاکت کا کوئی راستہ اختیار کرنے سے باز رہنا ہوگا بلکہ اسلام میں انسانی جسم کو ضرر لاحق ہونے والے تمام قسم کے وسائل سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔
 فرمان باری تعالی ہے : وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ( البقرة:195)
ترجمہ: اور اپنے ہاتھ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔
کبھی انسانی زندگی میں صبر آزما مرحلہ آجاتا ہے ، اس وقت مصیبت پر صبر بڑا دشوارہوجاتا ہے اس صورت میں بھی  خودکشی نہیں کرسکتے ہیں تاہم اللہ تعالی سے یہ دعا کرسکتے ہیں ۔
اللَّهُمَّ أحْيِنِي ما كانَتِ الحَياةُ خَيْرًا لِي، وتَوَفَّنِي إذا كانَتِ الوَفاةُ خَيْرًا لِي.(صحيح مسلم:2680)
ترجمہ :یااللہ! جلا مجھ کو جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو اور مار مجھ کو جب مرنا میرے لیے بہتر ہو۔
اس مقام پر ٹھہر کر ایک اور مسئلہ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آج کل  ہمارے گھروں سے  اولاد کےدرمیان عدل ناپیدا ہوتا جارہا ہے ۔ گھریل کے تمام معاملات میں بہت کم والدساری اولاد کے درمیان انصاف کرپاتا ہے ۔ کہیں کسی کے ساتھ تعلیم میں زیادتی ، کسی کے ساتھ تربیت میں زیادتی ، کسی کے ساتھ محبت میں زیادتی، کسی کے ساتھ کام کاج میں زیادتی ، کسی کےساتھ لین دین میں زیادتی ،کسی کے ساتھ سلوک میں زیادتی گویا  گھر کے جتنے مسائل ہیں ان میں مختلف اولاد کے ساتھ مختلف قسم کا رویہ برتاجاتا ہے بلکہ بسااوقات کسی ایک کی طرف زیادہ جھکاؤ اور کسی دوسرے کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوتی ہے۔ ان معاملات کا اولاد کی زندگی پر برا اثر پڑتا ہے خصوصا جو بیٹا یا بیٹی اپنے ساتھ گھر میں ظلم دیکھے وہ گھٹ گھٹ کر جی رہے ہوتے ہیں ۔  آپ یہ نہ سمجھیں یہ ظلم وزیادتی صرف عام لوگوں کے گھر ہی ہے ، بڑے بڑے لوگوں کے گھر بھی ہے ، پڑھے لکھے لوگوں کے گھر بھی ہے ۔ مدنی  چینل اور دعوت اسلامی کے امیر الیاس قادری  کوکو ن نہیں جانتا ہے ، ان کا اپنے چھوٹے بیٹے بلال رضا قادری  سے دعوت اسلامی کے حوالے سے اس وقت کوئی تعلق نہیں ہے، الگ کردیا ہےجبکہ بڑے بیٹے عبید رضا قادری کو اپنے بعد جانشین منتخب کردیا ہے ۔
آج اولاد میں  والدین کی نافرمانی کا ایک بڑا سبب والدین کا اولاد کے تئیں ناانصافی ہے اس لئے ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا اور ہم سب کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی ، اور ہمیں اپنی ساری اولاد کے ساتھ گھر کے تمام معاملات میں منصفانہ رویہ اپنانا ہوگا تاکہ  اولادوسماج دونوں  پر اچھے اثرات مرتب ہوں ۔ ظاہرسی بات ہے انہی بچوں سے سماج بنتا اور پھیلتا ہے گویا اولاد کے ساتھ انصاف کرنے میں گھر کی اصلاح کے ساتھ سماج کی بھی اصلاح ہے ۔  

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔