Monday, October 30, 2023

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:36)

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:36)
جواب از : مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب

سوال(1):ایک بہن پوچھتی ہے کہ جو مطلقہ ہوتی ہے اس کی عدت تین مہینے ہوتی ہے تو کیا  وہ تین مہینے گھر سے باہر نہیں نکلے گی یا پھرکن کن ضرورتوں کے وقت نکلے گی اس کی وضاحت کریں ؟
جواب:جس عورت کو طلاق دی جائے اس کی عدت تین مہینے نہیں بلکہ تین  حیض ہوتی ہے اور عدت کے دنوں میں اسےاپنے گھر میں رہنا ہے لیکن اگر کوئی ایسی ضرورت پیش آئے جس کے لیے باہر نکلنا ضروری ہو تو باہر جاسکتی ہے جیسے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس ۔ بنیادی طور پر یہ جاننا ہے کہ جس کام کے لیے مطلقہ کا باہر نکلنا ناگزیر ہو اس کے لیے باہر نکل سکتی ہے اور جب ایسی عورت کوعدت میں  باہر نکلنےکوئی ضرورت پیش آئےاور اسے اس بابت شرعی علم نہ ہو تو وہ اس ضرورت کو ذکر کرکے عالم سے رہنمائی  حاصل کرلے کہ اس صورت  میں گھر سے  نکل سکتی ہے کہ نہیں ؟
سوال(2): اگر کوئی عورت حج پہ جارہی ہو اور  اس عورت کا اپنی بہو سے نااتفاقی ہو تو حج پہ جانے سے پہلے اس سے معافی مانگنا ضروری ہے، جبکہ غلطی بہو کی ہو اس نے ساس سے بدتمیزی کی ہو، اگر ساس معافی مانگے تو بہو سمجھے گی کہ ساس کی غلطی ہے، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:اگر کوئی عورت حج پہ جارہی ہے اور ساس و بہو میں نا اتفاقی ہے تو آپس میں صلح کرلے، بات چیت کرلے اور دلوں کی رنجش دور کرلے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی تیسری عورت کو حکم بنائے وہ ساس و بہو کے درمیان آکر دونوں کی صلح کرا دے۔اس معاملہ  میں ساس کو ہرگزیہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم صلح کی  پیش قدمی کرتے ہیں تو بہو کو لگے گا ساس غلطی پر ہے ، حق پر ہوتے ہوئے بھی آگے بڑھ کرجو صلح کی پیش قدمی کرے وہ  بڑے اجر اور نصیب کا کام  کرتاہے۔
ذرا غور کریں کہ حج کتنی عظیم عبادت ہے اوراس عبادت کا مقصد اللہ کی رضا ، گناہوں سے پاکی اور مغفرت  حاصل کرنا ہےپھرحج پہ جانے والے جب صلح کرنے میں اتنی چھوٹی سوچ رکھیں گے تو وہ اللہ سے اپنی معافی کی کیسے امید لگائیں گے جبکہ انسان تو اللہ کا سراپا گنہگار ہے ۔معافی وصلح کے معاملہ میں اصل بات یہ ہے کہ  صلح صرف حج کے لیے نہیں ہوتی ہے بلکہ کبھی بھی تین دن سے زیادہ آپس میں دو مسلمان کو بات چیت بند کرکے نفرت سے نہیں رہنا چاہیے  بلکہ آگے بڑھ کر صلح کرلینا چاہئے۔ یہ انجام کے اعتبار سے بہتر ہے۔
سوال(3): ایک شخص کو دو بیویاں تھیں، دونوں کو اولاد ہیں ، مرد کا انتقال ہوگیا ہے اس نے مرنے سے پہلے اپنی ساری جائیداد ایک بیوی کے نام کردیا ہے ، بیویاں بھی فوت ہوگئی ہیں ، کیا یہ جائیداد صرف ایک بیوی کی اولاد کے لئے ہے یا سب کو اس میں حصہ ملے گا؟
جواب: کوئی اپنے مال میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے وہ معمولی مقدار میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اپنی پوری جائیداد کسی ایک کو دے کر باقی کو محروم نہیں کرسکتا ہے ، اگر کسی نے اس طرح کسی ایک بیوی کے نام ساری جائیداد لکھ دیا تھا تو اس لکھنے کو نہ دیکھا جائے بلکہ جائیداد کو تمام وارثوں میں نظام وراثت کے تحت تقسیم کیا جائے تاکہ سب کو اپنا حق ملے اور میت کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے تاکہ ان سے جو غلطی ہوگئی اللہ تعالی معاف فرمائے ۔
سوال(4):میرا بیٹا تیرہ برس کا ہے، اس کی آواز تبدیل ہوگئی ہے اور زیر ناف بال بھی ہیں،کیا وہ بالغ ہے یعنی محرم بننے کے قابل ہے اور  کیا وہ میری پھوپھی اور اپنی پھوپھی کا بھی محرم ہےاور کیا وہ میری بہن کے محرم کے طور پر عمرہ پہ جاسکتا ہے؟
جواب:لڑکے میں مونچھ ، داڑھی، زیر ناف ، بغل کا بال یا احتلام ان میں سے کوئی بھی چیز پائی جائے تو وہ بالغ ہے اور محرم بننے کے قابل ہے لہذا آپ کا بیٹا آپ کی بہن کے لئے یعنی اپنی خالہ کے لئے محرم ہے اور اسی طرح وہ اپنی پھوپھی کا بھی محرم ہے اور ماں کی پھوپھی یعنی نانا کی سگی بہن کا بھی محرم ہے۔اس وجہ سے آپ کا بیٹا آپ کی بہن یعنی خالہ  کا محرم بن کرعمرہ پہ جاسکتا ہے۔
سوال(5) :اسلام میں عورت کو مہندی لگانے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ مہندی زینت ہے اور ہاتھوں کو چھپا نا ایک ناممکن کام ہے کیونکہ میں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں تو اس معاملہ میں کیا جائے؟
 جواب:جوائنٹ فیملی میں صرف مہندی کا معاملہ نہیں ہے، متعدد معاملات ہیں جو عورتوں کے لئے غیرمحرم سےمتعلق ہیں ، وہاں چہرے کا پردہ کرنا مشکل ہوتا ہے، ایک عورت زینت کی جتنی چیزیں استعمال کرتی ہیں ، میک اپ ہو، زیورات کا استعمال ہو ، زینت کی  ان چیزوں کے استعمال میں گھر کے غیرمحرموں سے دشواری پیش آتی ہے۔ایک عورت کو دیور کے لئے دسترخوان پرکھانا لگانا، پانی لانا، کپڑے دھلنا، پریس کرنا ، ایک جگہ بیٹھنا ، کھانا پینا ، حتی کہ ہنسی مذاق کرنا ، یہ سب جوائنٹ فیملی میں عام ہے، صرف مہندی لگانا ہی یہاں مسئلہ  نہیں ہے۔ آپ جوائنٹ میں فیملی میں جس قدر ہوسکے حرام امور سے بچتے رہیں، مہندی لگانے سے آپ کے لئے دقت ہو تو مہندی نہ لگائیں بلکہ زینت کی دوسری چیزیں بھی اسی قدر اور اسی طرح استعمال کریں جس سے آپ ممنوع امور سے بچ سکیں ۔
سوال(6):کیا عورت عمرہ پر جانے سے قبل مہندی لگاسکتی ہے، اور خوشبو والا تیل تو نہیں لگاسکتی ہے مگر ناریل تیل لگانا کیسا ہے، اسی طرح  محرمہ عورت  سفر کرکے مکہ پہنچے توپرانا عبایا اتار کر نیا عبایا پہن سکتی ہے، ساتھ میں ایک بچی ہے وہ قے وغیرہ کردے تو عبایا بدلنا اور دھونا کیسا ہے؟
جواب:عمرہ جانے سے قبل عورت مہندی لگاسکتی ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مہندی والے ہاتھ غیرمردوں پر ظاہر نہیں کرنا ہے۔ خوشبو والا تیل احرام کی حالت میں نہیں لگاسکتے ہیں، ناریل تیل میں خوشبو نہیں ہے تو اس کو احرام کی حالت میں لگاسکتے ہیں، آپ احرام کی حالت میں ضرورت کے وقت  جتنی بار چاہیں عبایا بدلیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بچی قے کردے یا گندگی لگ جائے ، کوئی بھی ضرورت ہو عبایا بدل سکتے ہیں  اور دھو بھی سکتے ہیں ۔ احرام اصل میں عمرہ کی نیت کو کہتے ہیں ، احرام کسی کپڑے کا نام نہیں ہےکہ اس کو بدلنے سے کوئی فرق پڑے گا۔
سوال(7):میری لڑکی کے لئے ایک رشتہ آیا ہے ، لڑکا پولیس میں ٹی آئی کا کام کرتا ہے ، کیا یہ رشتہ صحیح ہوگا؟
جواب:ٹی آئی جاب نہیں جانتا ہوں ، پولیس کوجانتا ہوں ، پولیس کی  نوکری اپنے آپ میں جائز ہے بشرطیکہ حرام کاموں سے ،ظلم سے اور رشوت سے بچتا رہے، اس لئے آپ اس  لڑکےکے کام کے بارے میں تفصیل جانیئےکہ وہ کس نوعیت کا کام کرتا ہے اور کس طرح اپنا فریضہ انجام دیتا ہے، براہ راست اس لڑکا سے پوچھیں ، یہ آپ کا حق ہے ۔رشتہ سے کرنے سے قبل اس بات کی جانکاری حاصل کرنا ضروری کہ وہ دیندار ہے کہ نہیں اور کمائی کرتا ہے تو یہ جاننا کہ  اور اس کی کمائی حلال ہے کہ نہیں؟
سوال(8):ایک لڑکی اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ پہ گئی ہے، وہ حالت حیض میں مسجد حرام میں بیٹھ سکتی ہے اپنی فیملی کے ساتھ کیونکہ وہ اکیلی کہاں رہے گی ؟
جواب:عورت حالت حیض میں مسجد حرام میں نہیں ٹھہر سکتی ہے ، مسجد سے باہر میدان وصحن میں بیٹھ سکتی ہے اور گھر والے حرم جائیں  تووہ اپنی رہائش پر رہے جو گھر والوں کی رہائش ہے  یا مسجد حرام کے باہری حصے یعنی میدان میں بیٹھے ۔
سوال(9): ایک بہن  نے آن لائن ایک کپڑا منگایا ، پہلے پتہ نہیں چلا ،سلاکر پہننے کےبعد پتہ چلا کہ اس میں جاندار جیسی تصویر ہے تو کیا اس کپڑے میں پڑھی گئی نماز صحیح ہے؟
جواب:پہلی بات تو یہ کہ عورتوں کو عموما آن لائن کپڑے خریدنے سے بچنا چاہئے کیونکہ آپ نے آنکھوں سے مکمل کپڑا نہیں  دیکھاہوتا ہے کہ اس میں کیسے نقش ونگار ہیں، محض ایک تصویر میں اس کا کچھ حصہ دیکھتے ہیں ، ممکن ہو کہ وہ تصویر بھی دوسری ہو۔اگر آن لائن کپڑا خرید بھی لیتے ہیں تو پہلے اچھی طرح دیکھ لیں تاکہ اس میں جاندار کی تصویر ہو  یا چست یا باریک یا چھوٹا جس سے ستر نہ چھپے یابھڑکیلا یا فاسق و فاجر والاکپڑاہوتوایسے کپڑے لوٹادیں ۔
دوسری بات یہ کہ اگر آپ نے کسی ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لی جس میں جاندار کی تصویر بنی تھی تو آپ کی نماز ہوجائے ، نماز کا اصل مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایسا کپڑا ہی نہ پہنیں جس میں جاندار کی تصویر بنی ہو، ایسا کوئی کپڑا ہے جس میں تصویر بنی ہو تو اس کو ہٹادیں یا پھر اس پہ اس طرح سلائی کرلیں کہ تصویر کا پتہ نہ چلےیا مٹ جائے۔
سوال(10): ہمارے ہاں رواج پایا جاتا ہے کہ شادی کی  تاریخ متعین کر دینے کے بعد اگر لڑکی کو یا لڑکے کو کہیں جانے کی نوبت آتی ہے سفر وغیرہ کی تو دونوں کو اپنے گھروالے یا سماج والے کہیں جانے نہیں دیتے ،  یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد لڑکا یا لڑکی کہیں جائے تو اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، یہ عقیدہ رکھنا اسلام کی رو سے درست ہے؟
جواب: آپ نے جو بات بتائی کہ شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد لڑکا اور لڑکی کو کہیں جانے سے روکا جاتا ہے اس عقیدہ سے کہ کوئی نقصان ہوجائے گا۔ یہ سماج میں ایک پھیلنے والا غلط عقیدہ ہے، شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد بھی لڑکا اور لڑکی پہلے جیسے ضرورت کے تحت باہر جا آ سکتے ہیں، شریعت میں شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد کہیں جانے کی ممانعت نہیں ہے ، ہاں بلاضرورت گھوم گھام نہیں کرنا چاہئے اور نفع ونقصان کا مالک تو اللہ ہے ، ایک مسلمان کو اللہ کی ذات پر بھروسہ ہونا چاہئے  ۔ یہاں پر اسلامی بہنوں کی ذمہ داری ہے کہ جہاں اس قسم کی باتیں سنیں وہاں اس کی اصلاح کریں اور اس قسم کے پھیلے غلط نظریات سے سماج کو آگاہ کریں اور اسلام کی صحیح بات بتائیں ۔ خود تو ان غلط باتوں سے دور رہنا ہی ہے ، دوسروں کو بھی صحیح باتوں سے آگاہ کرنا ہے تاکہ سماج کی اصلاح ہو۔
سوال(11): اگر کوئی ماں یا باپ اپنی کچھ اولاد کی شادی بیاہ کی تمام ذمّہ داری ادا کر دے لیکن ابھی ایک دو اولاد باقی ہیں جنکی ذمّہ داریاں مکمل نہیں ہوئی ہیں تو کیا ایک ماں  اس طرح کی وصیت کرسکتی ہے کہ اب میرے بعد جو میرا گھر یا زیور ہے وہ سب غیر شادی شدہ اولاد کو دے دئے جائیں؟
جواب:شادی کی ذمہ داری والد کی ہے، والدہ کے سر پر اولاد کی شادی کی ذمہ نہیں ہوتی کیونکہ بچوں کا کفیل والد ہے  البتہ ماں کے جو زیورات ہیں وہ ان کی ذاتی ملکیت ہے وہ اپنی صوابدید سے بغیر جابنداری کےاپنی زندگی میں  ضرورت مند اولاد کو دے سکتی ہیں ، جو بچ جائے وہ مال وراثت ہے۔یاد رہے ظلم کرنے کی نیت سے ایک کو کچھ دینا اور دوسری اولاد کو محروم کرنا شرعا غلط اور یہ ناانصافی ہے۔
رہا والد کا معاملہ ، وہ جب تک باحیات ہیں بچوں کی شادی کریں گے ، جب وہ فوت ہوجائیں تو گھر کے سرپرست باقی بچے بچوں کی شادی کردیں ، شادی میں پیسے کی ضرورت ہو تو افراد خانہ مل کر آپسی رضامندی سے والد کی جائیداد سے یا اپنی طرف سے لگاکر شادی کرادیں اور جو جائیداد بچ جائے اس کو ورثاء میں تقسیم کردی جائے۔ گویا شادی کے لئے باقی بچے بچوں کے واسطے ساری پروپرٹی وقف نہیں کریں گے ، نہ اس کی قسم کی وصیت کرنا ہے تاہم غیرشادی شدہ بچوں کے لئے باپ اتنی رقم مختص کرسکتا ہے جس سے ان کی شادی ہوسکے۔
سوال(12):نیا کپڑا کس دن اور کس وقت پہننا چاہئے؟
جواب:نیاکپڑا پہننے کا کوئی خاص دن یا کوئی خاص وقت نہیں ہے، جب مرضی ہو رات و دن کے کسی بھی حصے میں نیا کپڑا پہن سکتے ہیں ۔ اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں نیا کپڑا پہننے کی دعا آئی ہے ہمیں اس کا التزام کرنا چاہئے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو قمیص یا عمامہ (کہہ کر) اس کپڑے کا نام لیتے پھر فرماتے:
اللَّهمَّ لك الحمدُ أنت كسوْتنِيهِ أسألُك من خيرِه وخيرِ ما صُنِعَ له ، وأعوذُ بك من شرِّهِوشرِّ ما صُنِعَ له(صحيح أبي داود:4020)
ترجمہ:اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں تو نے ہی مجھے پہنایا ہے، میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس کے لیے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی برائی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
کپڑا پہننے کی ایک اور دعا ہے ابوداؤد میں ، وہ دعا یہ ہے ۔
الحمدُ للهِ الذي كساني هذا الثوبَ ورزقنِيهِ من غيرِ حولٍ مني ولا قوةٍ(صحيح أبي داود:4023)
ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور میری طاقت و قوت کے بغیر مجھے یہ عنایت فرمایا ”تو اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
اس دوسری دعا کے بارے میں بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نیا پرانا کوئی بھی کپڑا پہنتے وقت  اسےپڑھنا چاہیے اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ بھی نئے کپڑا پہننے کی دعا ہے جبکہ حدیث میں نئے کپڑا کا ذکر نہیں ہے ، اور امام ابوداؤد نے نیا کپڑا پہننے کے باب میں اسے ذکر کیا ہے ۔
سوال(13):کیا عورت نامحرم میت کی طرف سے عمرہ کرسکتی ہے؟
جواب:ہاں  عورت نامحرم میت کی طرف سے عمرہ کر سکتی ہے ۔
سوال(14): اگر کوئی بچہ نہ ہونے کا ڈیوائس لگائے ہاتھ یا پیٹ پر، اس وجہ سے کہ بچے بڑے ہوگئے ہوں یا کوئی اور مجبوری ہو تو کیا یہ عمل صحیح ہے؟
جواب:کوئی شرعی عذر ہو تو بچہ روکنے کی جائز تدبیر اختیارکر سکتے ہیں   جیسے عورت کا آپریشن ہوا ہولیکن جائز عذر نہ ہو تو حمل روکنے کا کام نہیں کرنا ہےاور بچوں کا بڑا ہونا کوئی عذر نہیں ہے۔
نبی ﷺنے زیادہ بچہ پیدا کرنے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا ہے گویا حمل روکنا مقصد نکاح کے خلاف ہے اور بلا ضرورت بچہ دانہ ہٹانا دینا سراسر غلط ہے ، ضرورت کےتحت  وقتی طور پر مانع حمل گولی یا دوا استعمال کر سکتے ہیں اور بچہ دانی میں خرابی ہونے کے سبب اس کو ہٹانا پڑے تو جائز ہے۔
سوال(15):شوہر اگر بیوی کو میکے جانے سے منع کرے تو اس کی بات مان لینا چاہئے ، یا نہیں ہے ، ان کا کہنا ہےکہ تمہارا گھر اب سسرال ہے؟
جواب :یہ صحیح ہے کہ شادی کے بعد ایک عورت کا اپنا گھر شوہر کا گھر ہوتا ہے اور شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی گھر سے باہر نہیں جاسکتی ہے اس  لئے اگر شوہر گھر سے باہر جانے سے منع کرے یا میکہ جانے سے منع کرے تو شوہر کی بات مانے اور اس کے حکم کی تابعدار ی کرے ۔
شوہر اگر میکہ جانے سے بیوی کو منع کرے تو اس میں کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی وہ بیوی کے علم میں ہوگی مثلا باربار میکہ جانے کی ضد کرنا، میکہ جاکے بیٹھ جانا، شوہر کی نافرمانی کرنا، میاں بیوی کے تعلقات خراب ہونااور سسرالی رشتہ میں خرابی پیدا ہوناوغیرہ ۔ایسی صورت میں بیوی کو چاہئے کہ اس وجہ کو دور کرےجس سبب شوہر اسے میکہ جانے سے منع کرتا ہے ، ایسا ممکن نہیں ہے کہ میاں بیوی میں محبت ہو اور سسرالی رشتہ ٹھیک ٹھاک ہو پھربھی شوہر بیوی کو میکہ جانے سے منع کرے ۔ایک بیوی بحسن وخوبی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اور شوہر کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے گھر میں وفاشعار وعبادت گزار بن کر سکونت پذیر ہو تو اس کی زندگی بہتر گزرے گی، ایسی صورت میں اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوتی ہے ۔
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔