Wednesday, January 31, 2018

جامعہ اسلامیہ ممبرا کا مجلہ منہج سلف کا معیاری ترجمان


جامعہ اسلامیہ  ممبرا  کا مجلہ منہج سلف کا معیاری ترجمان

صحافت وکتابت جہاں زوداثرہے وہیں اس کے گہرے اور دیرپا نقوش اذہان وقلوب پر ثبت ہوتے ہیں،اس لئے اسلاف نے کتاب وسنت کی ترویج واشاعت میں تقریر کے ساتھ تحریر کا بھی علم بلند کیا بلکہ انہوں نے جو تحریری وراثت چھوڑی ان سے قیامت تک خوشہ چینی ہوتی رہے گی ، اس وقت عموما لوگ ان  ہی  کے علمی شہ پاروں اور دینی حکمت وبصیرت سے علم کشید کررہے ہیں ۔ایک ایک موضوع پر ضخیم سے ضخیم کتابیں یا دو دو، تین تین  ہندسوں پر محیط جلدیں اعلی پیمانے پر تحریروکتابت اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ دین متین کی دعوت وتبلیغ کا غماز ہیں ۔دراصل یہ سنت نبوی ﷺہے ۔آپ ﷺنے صحابہ کو قرآن کی کتابت کا حکم دیا ،ساتھ ہی احادیث کو بھی الگ سے تحریر کرنے کا حکم صادر فرمایااور صحابہ کرام نے فرمان نبوی کو عملی جامہ پہنایا۔اس لحاظ سے دینی اداروں اور تعلیمی مراکز سے شائع ہونے والے ماہانہ ،سہ ماہی ، ششماہی اور سالانہ دینی وعلمی  مجلے سنت نبوی اور اسلاف کا ترجمان ہیں ۔
شیخ عبدالباری شفیق سلفی حفظہ اللہ کے ذریعہ بذریعہ میل اور واٹس ایپ پابندی کے ساتھ جامعہ اسلامیہ نور باغ، کوسہ ممبراکا دینی ، علمی، اصلاحی اور ادبی ترجمان "ماہنامہ  مجلہ النور" ملتا رہا ہے اور خاکسارکو ہمیشہ اس کے علمی اور ادبی شہ پاروں سے فیضیاب ہونے کا سنہرا موقع ملتا  رہاہے ۔ اس کے لئے میں اپنے عزیز محترم عبدالباری سلفی صاحب کا تہ دل سے مشکور وممنون ہوں۔
عصر حاضر میں سلفی منہج کی عکاسی اور خالص سلفیت کی نشر واشاعت کرنے والے مجلوں میں النور کا بھی شمار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ہندوستان بھر میں مقبول خاص وعام ہے اور سوشل میڈیا کی سہولت کی وجہ سے کئی ممالک میں پڑھا جاتا ہے۔مضامین کا تنوع اور ان کا حسن انتخاب ، حالات کی عکاسی اور ان کا تجزیہ ، مؤقر علمائے کرام کے رشحات قلم اور اہم مسائل وفقہ کا اضافہ اس  مجلے کے امتیازی محاسن ہیں ۔ دینی مجلوں کے گرتے گراف کو دیکھتے ہوئے بلکہ دین کے نام پرآج  مجلوں کے ذریعہ بدعات وخرافات اور کشف وکرامات کو ہوا دی جارہی ہے ایسے ماحول میں عوام الناس سے گزارش کے قرآن وحدیث سے مزین مجلہ  النور کو حاصل کریں اور دین کا صحیح علم حاصل کریں ، اگر آسانی سے کوئی دوسرا مجلہ بھی دستیاب ہوسکے  جوقال اللہ اور قال الرسول کے عطر سے مشکبارہو تو اسے بھی علم کے حصول کا اپنا ذریعہ بنائیں ۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعاگوہوں کہ جامعہ اسلامیہ اور اس کی نگرانی میں شائع ہونے والا مجلہ النور کو امت کے لئے نفع بخش بنائے ، اس کا فیض ہرفردبشر کو عام کرے اور اسکے شرکاء، معاونین ، منتظمین اور جملہ کارکنان کو جزائے خیر سے نوازے ۔ آمین
خاکسار
مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ) ، سعودی عرب


مکمل تحریر >>

سات سمندر پار سے پیغام مادر وطن اور اس کے مؤقر ایڈیٹرکے نام


سات سمندر پار سے پیغام مادر وطن  اور اس کے مؤقر ایڈیٹرکے نام

روزنامہ پیغام مادر وطن دہلی سے شائع ہونے والا عوام کا ہردلعزیز اردو اخبار ہے ۔آج سے پانچ سال پہلے اس کی شروعات بے سروسانی میں  مگر رات ودن کی محنت ولگن سے ہوئی ۔ مجھے میرے عزیز ومشفق مطیع الرحمن عزیز (ایڈیٹر پیغام مادر وطن) کی اس اخبار کے لئے وقت کی بے لوث قربانی یاد آتی ہے،آپ نے جہد مسلسل اور سعی پیہم سے اخبار کوہرطرح سے ،ہراردو داں ہندوستانی  سے متعارف کرایا خواہ وہ ملک میں ہو یا دنیا کے کسی کونے میں اور اس سے قوم وملت کی قابل قدر خدمات انجام دی ، شہرشہرمحبت واتحاد کی خوشبو بکھیری، ملک وبیرون ملک آواز وطن پہنچائی ،  ہرہندوستانی کےدل میں گنگا جمنی تہذیب کا جوت جگانے کا کام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سب کی توجہ کا مرکز مادرپیغام  وطن، سب کا انتظارپیغام مادروطن، سب کی اردو پیغام مادر وطن ، بلا تفریق قوم وملت سب کے لئے قابل اعتناءخبر پیغام مادر وطن یعنی زبان زدخاص وعام پیغام مادر وطن ،پیغام  مادر وطن ۔
ہندوستان میں اخبار کا جال بجھا ہے ،ایک ایک شہر سے کئی کئی اخبار نکلتے ہیں مگر دہلی سے شائع ہونے والا روزنامہ پیغام مادر وطن کئی جہت سے اپنےاندر انفرادی وامیتازی کشش رکھتا ہے ۔فرقہ پرستی کے ماحول میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کا ماحول صرف  پیغام مادر وطن سے ملتا ہے ۔یہ  حرف حرف خوشبو، سطر سطر محبت اور صفحہ صفحہ حب وطن بکھیرتا ہے ۔مصنوعی خبروں ،تاریک صحافت، شکست اردو میڈیااور فرقہ پرستی سے متعفن ماحول  میں آپسی بھائی چارہ ، حب الوطنی، گنگا جمنی تہذیب، معیاری آواز وطن ، جملہ محب وطن  کی پسند اوربہترین اردومیڈیا کوریج کا سچانقیب ہے۔
دو لفظوں میں  اپنی بات کہوں تو یہ کہوں کہ سات سمندرپار،ہزاروں میل دور ،خلیجی ملک  میں سانچ سالوں سے وطن سے دور ، اپنے وطن کی خوشبو پیغام مادر وطن سے محسوس کرتا ہوں ۔
18/فروری 2018 کو اس کا پانچواں سنہرا سال مکمل ہورہاہے ،اس مناسبت سے پیغام مادر وطن کی پوری ٹیم کو اپنی جانب سے گلہائے عقیدت وسلام پیش کرتا ہوں ۔اس دعا کے ساتھ کہ سدا یونہی یہ اخبار لوگوں کی توجہ کا مرکز اصیل بنارہے ،اس کے ذریعہ عوام میں اتحادویگانگت کی فضا قائم رہے اور ملک ووطن سے فرقہ پرستی کے خاتمہ ، لوگوں میں حب الوطنی اور گنگا جمنی تہذیب برقرار رکھنے کا سبب بنا رہے ۔

پیغام مادر وطن کا ادنی  قاری وخادم
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ، شمالی طائف(سعودی عرب)

مکمل تحریر >>

نوید ضیاء تحریکی صدا اور ایک روشن تاریخ کا نام ہے۔

نوید ضیاء تحریکی صدا اور ایک روشن تاریخ کا نام ہے۔

میری نظر میں اخبار اور آئینہ دونوں ایک ہی چیز کا نام ہے کیونکہ جو کام آئینہ کا ہے وہی کام اخبار کرتا ہے ، اگر کوئی اخبار آئینی فریضہ انجام نہیں دیتا تو اخبار نہیں صرف تجارت ہے جس میں ملمع سازی تو ہوسکتی ہے مگر حقیقت کا پرتو نہیں ہوگا۔ ہفت روزہ "نوید ضیاء " ہمیشہ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں اور بہت شوق سے پڑھتا ہوں کیونکہ یہ واقعی وہ اخبار ہے جو حقیقت کا آئینہ دار ہے اور سماج ومعاشرہ کواپنے آئینے میں اس کا چہرہ دکھاتا ہے ۔ یہاں پر حقیقت بیانی، سماجی عکاسی ، دین ودنیا کی منظر کشی، عوامی بیداری ، روح بدن کی مکمل سیرابی، حکمت و معانی کی دریافت اور قلم وکاعذ کی عظیم پاسبانی دلکش انداز میں پائی جاتی ہے ۔ قابل مبارک ہیں نوید ضیاء کے تمام ذمہ داران و اراکین جنہیں معیاری انداز میں لوح وقلم کی حکمرانی نصیب ہوئی ہے ۔اس ہفت واری اخبار کی سالانہ اشاعت پر بالخصوص اس کے چیف ایڈیٹر محمد ابرار ظہیر صاحب جنکی علمی اور فکری صلاحیت نے اخبار کو چار چاند لگا دیا ہے کی خدمت میں نہاں خانہ دل سے گلدستہ تبریک پیش کرتا ہوں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ان کے علم میں مزید پختگی ، فکر میں اصابت اور مشن میں کامیابی عطا فرمائے ۔
یقین مانیں یہ میں نہیں جم غفیر کہہ سکتا ہے کہ نوید ضیاء ایک تاریخ رقم کر رہاہے جس کے صفحات باربار کھولے جائیں گے اور زبان پر اس کےتذکرے عام رہیں گے۔ میں نےعمومی طور پر اخبار کو آئینہ کہاہے اور خصوصی طور پر "نوید ضیاء " کو تاریخی باب کے ساتھ ایک تحریک کا بھی نام دیتا ہوں یعنی نوید ضیاء ایک تاریخ اور ایک تحریک کا نام ہے جو بالکل اسم بامسمی ہے۔ نوید بمعنی تحریکی صدا اور ضیاء بمعنی روشن تاریخ ۔
اس تحریک نے جہاں ایک طرف علماء کو قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھا تو دوسری طرف طلباء کو فکر و ہنر سے سنوارا، ایک جانب کتاب و سنت کی خدمت کی تو دوسری جانب دنیا کی حقیقی صورت حال سے واقف کرایا، ایک طرف نوجوانوں کو صحیح سمت دی تو دوسری طرف عوام کو بیدار کیا یہاں تک کہ پورے سماج وسوسائٹی یا کہہ لیں سماج کے ہر طبقہ کو حقیقت کا آئینہ دکھایا۔
اس پرمسرت موقع پر رب العالمین سے دعا کرہاہوں کہ اس اخبار کو استحکام وترقی دے ، اسے امت مسلمہ کے حق میں سدا نفع بخش بنائے اور اس کے جملہ رضاکاروں و جملہ بہی خواہوں کو بہتر بدلہ عطا فرمائے ۔ آمین

قاری نوید ضیاء
مقبول احمدسلفی
داعی /اسلامک دعوۃسنٹر، شمالی طائف (سعودی عرب)

مکمل تحریر >>

Monday, January 29, 2018

کیا عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے ؟

کیا عورت مردوں کی  امامت کرا سکتی ہے ؟


مضمون نگار : مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ )


سوشل میڈیا پہ کئی دفعہ عورت کا مردوں کی امامت کرنے کی تصویر دیکھنے کو ملی مگر تصنع بھری دنیا میں اس قسم کی چیزوں پر اعتبار مشکل سے ہوتا ہے البتہ دو مواقع پر خبروں کے مطابق عورتوں کا مردوں کی امامت کا معاملہ سامنے آیا تھااور اس پرعالم اسلام کی جانب سے سخت نقد وتبصرہ بھی کیا گیا تھا۔ پہلا موقع جب افریقہ نژاد نومسلمہ ڈاکٹر امینہ ودود نے نیویارک میں سوسے زائد لوگوں کی امامت کرائی تھی جس میں مرد وعورت اور بچے شامل تھے ۔دوسرا موقع جب کنیڈا میں راہیل رازا نامی عورت نے آکسفورڈ سٹی کے ایک اسلامی مرکز میں نمازجمعہ پڑھائی تھی ، اس میں بھی عورت ومرد شامل تھے ۔ ابھی اخبارات کی سرخیوں میں ایک تیسرا موقع سامنے آیا ہے جب کسی مسلم خاتون نے مردوں کی امامت کرائی ہے ۔ خبروں کے مطابق قرآن وسنت سوسائٹی کی جنرل سیکریٹری 34 سالہ مسلم خاتون جمیتہ نے کیرلا کے مسلم اکثریتی ضلع میں عورت ومرد کی نماز جمعہ میں امامت کرائی ہے جس میں عورت ومرد کی تعداد اسی کے قریب تھی ۔
جمیتہ نے جس طرح اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور عورت کو کہیں بھی امامت کرنے سے نہیں روکا ہے ،کچھ ایسی ہی بات ڈاکٹرامینہ ودود نے بھی اپنے انٹرویو میں کہی تھی ۔ گویا کہ عورت کی امامت کرنے کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ عورت ومرد میں مساوات پایا جاتا ہے اور اسلام نے عورتوں کوامامت کرنے سے نہیں روکاہے ۔
اس مسئلہ کی وضاحت سے قبل یہ بات جان لی جائے کہ عورتوں کا فتنہ دنیا میں سب سے زیادہ بھیانک اور غیرمعمولی نوعیت کا ہے ۔جب کوئی فتنہ عورت جنم دے یا کوئی عورت کا فتنہ پھیلائے تو اس فتنے کے ذریعہ آنے والی تباہی کو روک پانا مشکل ترین امر ہوجا تا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما تَركتُ بَعدي فِتنَةً أضرَّ على الرجالِ منَ النساءِ(صحيح البخاري:5096)
ترجمہ: میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ خطرناک کوئی فتنہ نہں چھوڑا۔
اسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کے حقوق واختیارات کی رعایت کی ہے ،کہیں بھی انہیں اجر وثواب سے ، عمل ومحنت سے ، جودوسخا سے ، زہدوورع سے اور عبادت ومعاملہ سے نہیں روکا ہے مگر جس طرح اللہ نے عورت کی جسمانی ساخت اور بعض فطری اوصاف مردوں سے جداگانہ رکھے ہیں اسی طرح عبادات واحکام سے لیکر حقوق ومعاملات تک بعض مسائل میں فرق رکھا ہے جو ان کے شایان شان ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ نعرہ لگاتے ہیں اسلام دین مساوات ہے جبکہ اصل نعرہ ہونا چاہئے اسلام دین عدل ہے جیساکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔ عورت ومرد میں بعض چیزوں میں مساوات ہے اور بعض چیزوں میں اختلاف پایا جاتاہے اس لئے مکمل مساوات کا نعرہ نہیں لگایا جائے گا۔ اور جہاں تک روشن خیال مغرب زدہ لوگوں کا خیال ہے کہ عورت ومرد میں ہرقسم کی برابری ہو،عورت خودمختار ہو،عورت سربراہ ہو،عورت ہرمحکمہ ، تنظیم ، ادارہ اور جماعت میں موجود ہو، ہر کام میں مردوں کی طرح عورتوں کی نصف شمولیت ہو ۔ یہ ایک غیرفطری سوچ ہے دنیا میں شراب وکباب، رقص وسرود، اباحیت پسندی ،فحاشیت وعریانیت اور خواہشات کا ننگا ناج سب اسی سوچ کی دین ہے ۔
سربراہی صرف مردوں کا حق ہے لہذا کوئی عورت ملک وقوم کی سربراہ یا مردوں کا قائد ورہنما نہیں ہوسکتی ہے ۔ گواہی میں دو عورت ایک مرد کے قائم مقام ہے ، میراث میں مردوں کے آدھا ہے ، عورت مکمل پردہ اور مرد کے لئےصرف ناف سے گھٹنہ تک سترہے ۔مرد بیک وقت چار شادی کر سکتاہے مگر عورت ایک وقت میں صرف ایک مرد کی زوجیت میں رہے گی ۔ عورت کے لئے ریشم وسونا حلال ہے اور یہی چیز مردوں پر حرام ہے ۔ عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ، نہ ہی جماعت سے مسجدحاضر ہونا لازم ہے بلکہ اس کی افضل نماز گھر میں ہے ۔ ان سارے فرقوں کے ساتھ مردوزن میں عبادات ومعاملات کی بہت ساری چیزوں میں مساوات پایا جاتا ہے مثلا وضو، غسل، نماز ،روزہ، حج ،زکوۃ ۔ ان میں صرف بعض احکام میں فرق ہے اور اکثر چیزیں مماثل ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَلا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا اكْتَسَبْنَ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً(النساء:32)
ترجمہ: اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالٰی نے تم میں سے بعض کو بعض پر بُزرگی دی ہے ۔ مردوں کا اس میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے ان میں سے حصّہ ہے جو انہوں نے کمایا ، اور اللہ تعالٰی سے اس کا فضل مانگو، یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔
یہاں ایک مسئلہ حل ہوگیا کہ عورت ومرد میں مکمل مساوات نہیں ہے ،یہی فطرت ہے جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ فطرت سے بغاوت کرتا ہے اور ساری دنیا مل کر بھی جتنی طاقت لگالے عورت ومرد میں مکمل یکسانیت پیدا نہیں کی جاسکتی ۔ حیض عورت کو ہی آئے گا مرد کو نہیں ، بچہ عورت ہی پیدا کرے گی مرد نہیں ،حمل عورت کا خاصہ ہے مرد کا نہیں اور ساخت کا جو فرق ہے اپنی جگہ مسلم ہے بڑے سے بڑا سائنس داں اس فرق کوختم نہیں کرسکتا۔مغربی ممالک میں مساوات کے علم برداروں نے کتنے مردوں کو داڑھی اگنے سے روک لیا یا کتنی عورتوں کے چہرے پر ڈارھی کے ابال اگائے ؟ کس کس چیز میں مساوات قائم کریں گے ؟ مر جائیں گے مگر فطرت کو بدل نہیں سکتے ۔اور جوسکون ازدواجی زندگی میں مرد کو عورت سے ہے اسی سبب ہے کہ مرد مرد ہے اور عورت عورت۔ ہم جنس پرستی سوائے جنون وپاگل پن کے اور کچھ نہیں ۔
یہ بات نصوص سے ثابت ہے کہ ایک عورت دوسری عورتوں کی جماعت کراسکتی ہےخواہ فرض ہو یا نفل مگر کوئی عورت کسی مرد کی امامت نہیں کرسکتی حتی کہ بیوی اپنے شوہر کی بھی امامت نہیں کرسکتی تو اجنبی عورت ،اجنبی مرد کی کہاں سے امامت کرسکتی ہے ؟۔
مردہی عورتوں کا سربراہ ہے اورجس طرح دنیاوی معاملات میں عورت مرد کا سربراہ نہیں ہوسکتی اسی طرح نماز میں بھی وہ امام وپیشوا نہیں بن سکتی ۔ مسجد میں عورتوں کی حاضری صرف مقتدی کی حیثیت سے ہوتی ہے اور عورتوں کے لئے الگ سے کوئی مسجد قائم نہیں ہوسکتی ہے ۔ مسجد میں حاضری کے مزید اصول یہ ہیں کہ جن سے فتنے کااندیشہ ہو وہ عورتوں کے لئے ممنوع ہے مثلا عطر لگاکر آنا، آواز نکالنا حتی کہ امام کی غلطی پر تنبیہ کرنے کے لئے آواز نہیں نکالنا ہے بلکہ ایک ہاتھ دوسرے پر مارنا ہے۔عورتوں کا اول صف میں ہونا شر اورآخری صف میں ہونا خیرہے۔
عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ہے یہی حکم الہی اور فرمان نبوی ہے ، اس پرچودہ صدیوں سے مسلمانوں کا عمل رہا ہے جو لوگ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور مساوات کا بہانہ بناکر عورتوں کے ذریعہ دین اسلام میں فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئےکہ عبادت توقیفی معاملہ ہے اس کے کرنے کی دلیل چاہئے نہ کہ نہ کرنے کی ۔اگر شریعت اسلامیہ نے عورت کو صریح لفظوں میں مردوں کی امامت کرانے سے منع نہیں کیا ہے تو کیا ہوا اسلام کی واضح تعلیمات سے روشن وعیاں ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ۔ اس کے لئے صرف ایک حدیث کافی ہے ۔
التسبيحُ للرجالِ، والتصفيحُ للنساءِ (صحيح البخاري:1204)
ترجمہ: تصفیق (خاص طریقے سے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارنا) عورتوں کے لیے ہے اور تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ عورت مردوں کی موجودگی میں نماز میں آواز نہیں نکال سکتی ، امام کو غلطی پر متنبہ کرنے کے لئے جب عورت معمولی سی آواز نہیں نکال سکتی تو مکمل نماز کی امامت کیسے کرسکتی ہے ؟
مجھے حیرت ہے کہ امامت کا معاملہ خالص مسلمانوں کا ہے اور غیرمسلموں سے اس مسئلہ کا کوئی تعلق نہیں ہے اور سارے فقہی علماء بشمول ائمہ سلف وخلف سبھی کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کراسکتی ۔ پھر کس قسم کے مسلمان عورتوں کے ذریعہ ایسا فتنہ پھیلاتے ہیں ؟ کیا ان کا کوئی مذہب نہیں یا یہ عورتیں خود ہی غیروں کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہورہی ہیں ؟ اللہ کی پناہ
امام نووی رحمہ اللہ نے المجموع شرح المھذب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے عورتوں کا مردوں کی امامت پر ممانعت سے متعلق ضعیف حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا اتفاق ہے کہ کسی عورت کے پیچھے بچے اور بالغ مرد کی نماز جائز نہیں ہے ،،، آگے لکھتے ہیں خواہ ممانعت عورت کی امامت مردوں کے لئے فرض نمازسے متعلق ہو یا تراویح سے متعلق ہو یا سارے نوافل سے ۔ یہی ہمارا مذہب ہے اور سلف وخلف میں سے جمہور علماء کا ۔اور بیہقی نے مدینہ کے تابعین فقہائے سبعہ سے بیان کیا ہے اور وہ امام مالک ، امام ابوحنیفہ ، سفیان ، امام احمد اور داؤد ہیں ۔ (المجموع شرح المهذب،كتاب الصلاة » فصل إمامة المرأة في الصلاة)
ام ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے قوم کی عورتوں کی امامت کراتی تھیں اس سے دلیل پکڑی جاتی ہے کہ ان کی امامت میں محلے کے مرد اور مؤذن بھی شامل ہواکرتے تھے ۔ یہ ٖغلط بیانی ہے ، ابوداؤد میں صراحت نہیں ہے مگر دارقطنی میں نساء کا لفظ وارد ہے کہ ام ورقہ عورتوں کی امامت کراتی تھیں اس میں کوئی مرد شامل نہیں ہوتا تھا حتی کہ مؤذن بھی نہیں ۔ لہذا کسی مسلمان عورت کے لئے روا نہیں کہ وہ مردوں کی امامت کرائے ۔ کیرلا میں جو کچھ ہوا ہمیں اس پہ سخت کاروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ فتنہ مزید سر نہ اٹھا سکے۔

مکمل تحریر >>

Friday, January 26, 2018

عقیقہ کا جانور اوراسکی عمر

عقیقہ کا جانور اوراسکی عمر

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

عقیقہ عق سے مشتق ہے جس کا لغوی معنی پھاڑنے کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں اس جانور کو کہا جاتا ہے جو نومولود کی پیدائش پر ساتویں دن اس نعمت کے اظہار کے طور پرذبح کیا جائے ۔عقیقہ کابہتر نام نسیکہ یا ذبیحہ ہے ۔ یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ عقیقہ کرنا دلائل کی روشنی میں سنت مؤکدہ ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :من وُلِدَ لهُ ولدٌ فأحبَّ أن يَنسُكَ عنهُ فلينسُكْ( صحيح أبي داود:2842)
ترجمہ: جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےقربانی (عقیقہ )کرنا چاہتا ہو تو کرے ۔
عقیقہ چھوٹے جانور یعنی بکرا /بکری اور بھیڑ ودنبہ سے دینا چاہئے ، بڑے جانور میں عقیقہ دینے سے اجتناب کرنا چاہئے الا یہ کہ مجبوری ہو ۔حدیث میں عقیقہ کے لئے شاۃ کا لفظ آیا ہے جو بھیڑ اوربکری دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے ۔
ابن حزم نے لکھا ہے : واسم الشاة يقع على الضائنة والماعز بلا خلاف (المحلي 6/234)
ترجمہ: اور شاۃ کا لفظ بھیڑ اور بکری دونوں پربلااختلاف اطلاق ہوتا ہے۔
 بعض اہل اعلم بڑے جانور  میں بھی عقیقہ کے قائل ہیں ۔بہرحال امر واسع ہے جسے میں اس طرح بیان کرنا چاہتا ہوں کہ پہلے چھوٹے جانور میں عقیقہ کرنے کی کوشش کرے ،اگر یہ ممکن نہ ہوسکے تو مجبوری میں بڑے جانور میں عقیقہ دے سکتے ہیں مگر واضح رہے عقیقہ میں مکمل جانور ذبح کرناہے کیونکہ خون بہانے کا حکم ہےاور اس میں اشتراک جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:معَ الغُلامِ عقيقةٌ فأَهريقوا عنهُ دَمًا وأميطوا عنهُ الأذَى(صحيح الترمذي:1515)
ترجمہ: لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ ہے، لہذا جانور ذبح کرکےاس کی طرف سے خون بہاؤ اوراس سے گندگی دورکرو۔
اکثر مسلمانوں کے یہاں عید قرباں کے موقع پر ایک بڑے جانور میں قربانی کے ساتھ بچے کا عقیقہ بھی حصہ لیا جاتا ہے جو کہ سنت کی صریح مخالفت ہے ۔ اگر طاقت ہے تو بچہ کی طرف سے مستقل جانور کا عقیقہ دیں ایسا کرنے سے سنت پوری ہوگی اور طاقت نہیں ہو تو نہ دیں اس پر اللہ تعالی مواخذہ نہیں کرے گا۔
عقیقہ کے جانور کی عمر کے سلسلے میں بصراحت کچھ منقول نہیں ہے اس لئے بعض علماء نے کہا کہ کسی بھی عمر کا جانور عقیقہ کیا جاسکتا ہے خواہ تین ماہ ہو، پانچ چھ ماہ ہومگر یہ قول قوی نہیں معلو م ہوتا ہے کیونکہ عموما لوگ ایسے جانور کو ذبح کرتے ہیں جو کم ازکم ذبح کرنے اور کھانے کے لائق ہو ،ایسے میں ایک سالہ بکری ہی مناسب معلوم ہوتی ہےاور مذکورہ بالا ابوداؤد کی حدیث میں نسک کا لفظ آیا ہے جو ہدی (حج کا جانور) کے لئے استعمال ہوتا ہے ،گویا عقیقہ بھی ہدی کے قائم مقام ہےاور اس بابت امام مالک ؒ کا قول بھی جو آگے آرہا ہےاس لئے اس میں بھی ہدی کی شرائط بجا لانی چاہئے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی اس  حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں دلیل ہے کہ عقیقہ میں وہی کفایت کرے گا جو نسک میں کفایت کرتا ہے خواہ اضحیہ(عیدکی قربانی) ہویا ھدی(حج کی قربانی)۔آگے لکھتے ہیں کہ اس میں اس عمر کا اعتبار کیا گیا ہےجو قربانی اور عقیقہ میں کفایت کرتا ہےاور کامل وصف مشروع کیا گیا ہے ۔اس لئے بچہ کے حق میں دوبکری مشروع کی گئی جو دونوں برابر ہوں ،ان میں سے کسی میں نقص نہ ہوتو یہاں سال کا اعتبار کیا گیا ہے جو ذبح کے لئےمامور بہ سال ہے۔ (تحفۃ المودودص 63)
اس سلسلے میں جمہور کا یہی موقف ہے کہ عقیقہ میں قربانی کی شرائط ملحوظ رکھے جائیں گوکہ بعض مسائل میں عقیقہ وقربانی مختلف بھی ہیں مثلا قربانی میں اشتراک جائز ہے جبکہ عقیقہ میں نہیں ہے۔
نیچے اہل علم کے کچھ اقوال ذکر کئے جاتے ہیں جو عقیقہ کوقربانی کے حکم میں مانتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ عقیقہ کے جانور میں بکری کے لئے ایک سال کی عمر چاہئے ۔
(1)ابن قدامہ لکھتے ہیں :ويجتنب فيها من العيب ما يجتنب في الأضحية ، وجملته : أن حكم العقيقة حكم الأضحية ، في سنها , وأنه يمنع فيها من العيب ما يمنع فيها (المغني  : 7/366) .
ترجمہ: اور عقیقہ میں اس عیب سے اجتناب کیا جائے گا جس سے قربانی میں اجتناب کرتے ہیں اور منجملہ عقیقہ کا حکم عمر میں قربانی کا ہی حکم ہے اور اس میں ایسے عیب سے بھی منع کیا جائے گا جو قربانی میں ممنوع ہے۔
(2)امام مالک نے کہا : وإنما هي – أي العقيقة - بمنزلة النسك والضحايا.(الموطا 2/400)
ترجمہ:  اور عقیقہ ہدی اور قربانی کے درجہ میں ہے ۔
(3)اور امام  نووی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔ (المغنی 9/436)
(4) امام ترمذی نے علماء کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : لایجزی فی العقیقۃ من الشاۃ ما یجزی فی الاصحیۃ (جامع الترمذی 4/86)
ترجمہ:بکری کے عقیقہ میں وہی کفایت کرے گا جو قربانی میں کفایت کرتا ہے۔
(5) ابن الحاج مالکی کہتے ہیں:و حكمها حكم الأضحية في السن و السلامة من العيوب (المدخل 3/277)
ترجمہ: اور عقیقہ کا حکم عمر کے سلسلے میں اور عیوب سے پاک ہونےکے سلسلے میں قربانی کے حکم کی طرح ہے۔
(6) ابن حبيب المالكي کہتے ہیں : سنها و اجتناب عيوبها و منع بيع شئ منها مثل الأضحية الحكم واحد (التاج و الأكليل 4/390)
ترجمہ: عقیقہ کی عمر اور اس کا عیوب سے پاک ہونا اور اس میں سے کچھ بیچنا قربانی کی طرح ہے ،حکم ایک ہی ہے۔
(7) عرب کے علماء مثلا شیخ ابن عثیمین، شیخ محمد صالح منجد، عبد الرحمن بن ناصر البراك، شیخ صالح فوزان، شیخ بکرابوزید،شیخ عبداللہ بن غدیان اورشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور فقہاء کا قول ہے کہ عقیقہ میں ان عیوب سے بچا جائے گا جن سے قربانی میں بچا جاتا ہے ۔ (الاستذكار 15/384)
مذکورہ بالا سطور کی روشنی میں خلاصہ کے طور پر یہ کہا جائے گا کہ عقیقہ کے جانور کی عمر کے بارے میں نص صریح موجود نہیں ہے تاہم عقیقہ سے متعلق نصوص  اورمذکورہ  بالااقوالِ اہل علم کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ میں جانور کی شرائط کو لازم قرار نہیں دیا جائے گا مگر احتیاط کے طور پر قربانی کی شرائط کو عقیقہ میں ملحوظ رکھا جائے گاکیونکہ حدیث میں وارد لفظ شاۃ کا اطلاق بچہ دینے والی بکری پر ہوتا ہے ،نسک سے حج کی قربانی کا حکم نکلتا ہے، کبش کا لفظ بھی وراد ہےا س سے جوان میڈھا مراد ہوتا ہے اور شاتان مکافئتان سے بے عیب اور معتبر عمر کی طرف اشارہ ہے ۔ ہاں قربانی کی طرح عقیقہ میں شرائط ملحوظ رکھنا مشکل ہو تو سال سے کم بکری یا بلاضرر عیب والاجانور عقیقہ کر سکتے ہیں ۔
یہاں یہ بات بتلانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ میں بہت وسعت ہے اس لئے وسعت میں زیادہ سختی کرنا ٹھیک نہیں ہے ، مندرجہ ذیل سطور میں وسعت سے متعلق چند مسائل بیان کئے جاتے ہیں ۔
(1)اگر چھوٹا جانور نہ ملے یا اس سے عاجزہوتوبڑے جانورمیں  بھی عقیقہ کرسکتے ہیں البتہ قربانی کی طرح مشارکت جائزنہیں ہے۔
(2)قربانی کی طرح شرائط پورے نہ کرسکتے ہوں تو جس عمر کا جانور عقیقہ کرنا میسر ہو کر سکتے ہیں۔
(3)اگر ساتویں دن میسر نہ ہو تو بعد میں بھی عقیقہ  دے سکتے ہیں حتی کے بڑی عمر میں بھی ۔
(4)بغیر عقیقہ کے کوئی بچہ وفات پا گیا یا کسی ایسے شخص کا انتقال ہوگیا جس کا عقیقہ نہیں ہواتھا تواس کی طرف سے وفا ت کے بعد بھی عقیقہ  دے سکتے ہیں،فوت شدہ  بچہ کی طرف سے عقیقہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ ساتویں دن کے بعد انتقال کیا ہو۔
(5)لڑکا کی طرف سےدوجانور عقیقہ کرنا ہے مگر بروقت صرف ایک جانور عقیقہ کرنے کی طاقت ہو تو ایک بھی دے سکتے ہیں اور ایک دوسرا بعد میں طاقت ہونے پر عقیقہ کرے۔
(6)اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ اس کا عقیقہ نہیں ہوا ہے تو خود اپنا عقیقہ  بھی کرسکتے ہیں۔
(7)اگر کوئی ایسے عیوب سے پاک جانور کا عقیقہ کرنے سے عاجز ہو جن کا قربانی میں اعتبار کیا جاتا ہے تو  پھر عیب دار کا عقیقہ بھی کرسکتے ہیں بشرطیکہ ایسا عیب نہ ہو جو ضرر پہنچانے والا ہو۔
مکمل تحریر >>

Thursday, January 25, 2018

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل

جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی

(1)غلام دست گیر نام رکھنا کیسا ہے ؟
جواب : دست گیر کا معنی مدد کرنے والا ہوتا ہے اور عام طور سے ہندوپاک میں دست گیر کی نسبت عبدالقادر جیلانی کی طرف کی جاتی ہے کہ وہ بندوں کی دست گیری (مدد کرنے والے) ہیں  اسی عقیدے کے تحت انہیں پیردست گیر سے موسوم کیا جاتاہے۔ اگر دست گیر سے مراداللہ ہے تو غلام دست گیر نام رکھنا صحیح ہے اور اگر اس کی نسبت جیلا نی کی طرف ہے تو جائز نہیں ہے اور چونکہ لوگوں کا ذہن اس لفظ سے فورا  غیراللہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس لئے ویسے ہی اس نام سے بچنا بہتر ہے۔
(2)کیا ابلیس کو بھی موت آئے گی اور اسی طرح شیطانوں کو بھی جبکہ ان کا کام انسانوں کو گمراہ کرنا ہے ؟
جواب :  جب اللہ تعالی نے ابلیس کو آدم علیہ السلام کا سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے انکار کردیا اور سجدہ نہیں کیا۔ اس وجہ سے اللہ تعالی نے ابلیس کو اپنے دربار سے دھتکار دیا۔ ابلیس نے اللہ تعالی سے مہلت مانگی تو اللہ نے اسے مہلت دیدی۔ اس وقت ابلیس اللہ کی مہلت میں ہے اور قیامت تک اس مہلت سے فائدہ اٹھاکر لوگوں کو گمراہ کرتا رہے گالیکن قیامت کے وقت وہ، اس کے چیلے اور سارے شیطان مر جائیں گے ۔
(3)ایک بہن جو پہلے غیراسلامی ماحول میں پلی بڑھی اب اسے دین کا احساس ہوا تو اس نے ترک نماز پر توبہ کرلی ، روزوں کی قضا کررہی ہے کیا اسے مسکینوں کو فدیہ بھی دینا ہوگا؟
جواب :  رمضان کے فرض روزے جس نے جان بوجھ کر چھوڑے ہوں اس کی قضا کے سلسلے میں علماء کے درمیان اختلا ف پایا جاتا ہے ۔ بعض قضا کا حکم دیتے ہیں اور بعض عدم قضا کا۔ توبہ کے ساتھ قضا کرلینا بہتر ہے لیکن فدیہ کی کوئی بات نہیں ہے۔
(4)فری میں حج کرنا یعنی کسی کے دئےہوئےپیسے سے حج کرنا کیسا ہے اور اس قسم کے حج سے فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ؟
جواب :  دوسروں کے جائز مال سے حج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس طرح ادا کئے گئے حج سے فریضہ ساقط ہوجائے گا۔
(5)کیا مسلمان لڑکا شیعہ لڑکی سے شادی کرسکتا ہے ؟
جواب :  شیعہ میں بہت سارے فرقے ہیں ، شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے سفارینی  کے حوالے سے بائیس فرقے کا ذکر کیا ۔ شیخ ابن باز نے کہا کہ شیعہ میں بہت سے فرقے ہیں ان میں سے بعض کافرہیں اور بعض کافر نہیں ہیں۔ اس بنیاد پر علی الاطلاق شیعہ کے سارے فرقوں کو کافر کے حکم میں نہیں مانا جائے گا۔ جہاں تک  شیعہ لڑکی سے شادی کا مسئلہ ہے تو پہلےاس کا عقیدہ معلوم کیا جائے گا،اگر وہ عام شیعہ کے کفریہ عقائد سے پاک ہو اور توبہ کرکے اسلامی عقیدہ کا قائل ہو تو اس صورت میں وہ شیعہ نہیں مسلم شمار ہوگی اورتب اس سے نکاح کرنا درست ہوگا ورنہ نہیں ۔
(6)گھروں میں بچوں کی  گڑیا ہو تو وہاں نماز یا دیگر عبادت ہوتی ہے کہ نہیں ؟
جواب :  اس میں پہلا مسئلہ گڑیا سے متعلق ہے کہ اسے گھروں میں رکھنا کیسا ہے ؟، اس سلسلے میں گوکہ بعض علماء نے رکھنے کا جواز نکالا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیا سے دلیل پکڑی ہے تاہم  گڑیا کو گھروں میں نہ رکھنا ہی احوط واولی ہےکیونکہ روح والی تصویروں کے متعلق بڑی مذمت اور شدت گرفت آئی ہےالبتہ جس جگہ تصویر یا گڑیا ہو اس جگہ پڑھی گئی نماز صحیح ہے ۔
(7)ایک مسلم اگر غیرمسلم کا دنیا میں حق مارتا ہے تو روز قیامت اس مسلمان و کافر کا کیسے حساب وکتاب ہوگا؟
جواب :  حقوق العباد کا فیصلہ بروز قیامت ہوگا جو بدلے کا دن ہے، جس کا حق مارا گیاہوگا اسے اللہ جل وعلا کامل انصاف دے گا اور جس نے کسی کاحق مارا ہوگا اسے بھی اپنے کئےکا بدلہ ملے گا خواہ  کافر ہو یا مسلم ہو۔اب رہی بات کہ مظلوم کافر کو بدلہ کس طرح دیا جائے گا؟اس کی کیفیت صرف اللہ کو معلوم ہے، اس بابت شریعت خاموش ہے ، ہمیں یوم حساب کے عدل وانصاف پہ کامل ایمان لانا ہے اور غیبی امور میں سے جس کی تفصیل نہیں بیان ہوئی ہے وہاں خاموشی اختیار کرنا ہے۔
(8)بیٹی کا نام آیات رکھنا کیسا ہے ؟
جواب :  آیات ،آیت کی جمع ہے جس کا معنی حجت وبرہان اورعلامت و نشانی ہے۔ اس لفظ میں کوئی خرابی نہیں ہے اس لئے یہ نام رکھا جاسکتا ہے۔
(9)اس میسج کی کیا حقیقت ہے "آج رات جو دعا مانگو وہ قبول ہوگی کیونکہ آج رات کو چاند خانہ کعبہ کا طواف کرے گا۔"؟
جواب:  دعا کی قبولیت کا افضل وقت بغیر دلیل کے نہیں مانی جائے گی اور مذکورہ قول کی کوئی دلیل نہیں ہے ، یہ ایک گھڑی ہوئی بات ہے۔ لوگوں نے یہ بات گھڑی ہے کہ ایک لاکھ سال میں ایک بار 3:25 صبح کے وقت چاند کعبہ کے گرد گھومتا ہے اس وقت جو دعا کی جائے قبول ہوتی ہے ،سراسر فضول اور واہیات ہے،اس جھوٹی بات کو صرف اندھی عقیدت کا شکار ہوکر سوشل میڈیا پرشیئر کیا جارہاہے۔ آپ خبردار رہیں۔
(10)فوت شدہ بچہ کی جانب سے عقیقہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب: بچے کی پیدائش پر اس کے ساتویں دن  عقیقہ کرنا مسنون ہے ، جو بچہ سات دن کے بعد وفات پائے اس کی طرف سےعقیقہ کرسکتے ہیں اور جو سات دن سے پہلےہی انتقال کرجائے اس کی طرف سے عقیقہ نہیں ہے۔
(11)ایک عورت نے فجر کی دو سنت پڑھی مگر سلام پھیرنا بھول گئی اور پھر کھڑے ہوکر دو رکعت فجر کی نماز ادا کی یعنی ایک سلام سے چار رکعات ادا کی ، دو سنت کی اور دو فرض کی ۔ اس نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب :  فجر کی فرض نماز میں کوئی کمی نہیں ہے ،وہ ادا ہوگئی اور سنت نماز میں سلام نہیں پھیرنے کی وجہ سے نماز کا ایک رکن چھوٹ گیا ،اس کا حکم یہ ہے کہ  اگر وہیں مصلے پہ سلام چھوٹنے کا علم ہوگیا تو سنت کی نیت کرکے سلام پھیرلے اور سجدہ سہو کرے او ر اگر درمیان میں لمبا وقفہ گزر گیا تو پھر سے دو رکعت سنت ادا کرلے کیونکہ رکن چھوڑ دینے سے نماز نہیں ہوتی۔
(12)شہید کو قتل کے وقت چیونٹی کے برابر تکلیف ہوتی ہے کیا یہ خصوصیت اس عورت کو بھی مل سکتی ہے جن پر شہید کا اطلاق ہو؟
جواب :  حدیث میں یہ خصوصیت اس مجاہد کی بیان کی گئی ہے جو میدان جنگ میں قتل ہو تو انہیں محض چٹکی یا چیونٹی کے برابر قتل سے پہلے تکلیف ہوتی ہے۔ اور وہ مرد یا خاتون  جومیدان جنگ میں قتل کے علاوہ دوسرے اعمال کی وجہ سے شہید کا درجہ پاتے  ہیں ان کے متعلق  اللہ سےاس خصوصیت کی امید کی جاسکتی ہے مگر وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتاہے۔
(13)کیا عقیقہ کے جانور کا دانتا ہونا ضروری ہے ؟
جواب: عقیقہ کے لئے  بکرا / بکری کا  ایک سال  مکمل ہونا ضروری ہے ، ساتھ ہی جانورجسمانی عیوب ونقائص سے بھی پاک ہو۔
(14)شوہر اگر بیوی کو اپنے والدین یا کسی رشتہ دار سے بات چیت کرنے سے منع کرے تو بیوی کو بات ماننی چاہئے یا نہیں ؟
جواب :  نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی کی اطاعت صرف بھلی باتوں میں ہی کی جائے گی اور اللہ کی معصیت میں کسی مخلوق کی بات نہیں مانی جائے گی۔ شوہرکا اپنی بیوی کو اس کے والدین سے بات چیت کرنے سے منع کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ اسکےکسی رشتہ دارسے بات کرنے سے روکے ۔ اگر کسی عورت  کو ایساسنگین مسئلہ درپیش ہو تو بالفور شوہر کی مخالفت نہ کرے بلکہ شوہر کو راضی کرنے اور سسرال  والوں سےاس کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرے ۔ خود سے مسئلہ حل نہ کرسکے تو کسی کو ثالث بنالے اور خوشگوار ماحول میں معاملہ کا تصفیہ کرے ۔
(15) زکوۃ کے پیسے سے کسی کو حج کرایا جاسکتا ہے میرا مطلب یہ ہے کہ کیا زکوۃ کے پیسے کو حج کے مصرف میں صرف کرنا اور اس رقم سے کسی مسکین کو حج کرانا درست ہے ؟
جواب :  حج فی سبیل میں داخل ہے اس کی صراحت حدیث میں موجود ہے ۔اس لئے مال زکوۃ سے محتاج ومسکین کو حج کرایاجاسکتا ہے ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہی موقف( یعنی مال زکوۃ سے فقیر کو حج کرانا) ہے جسے الاختیارات میں ذکر کیا ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر نفلی حج ہو تو زکوۃکامال حج کی ادائیگی کے لئے صرف نہیں کیا جائے گا لیکن اگر فریضہ (پہلا حج)ہو تو اس کی ادائیگی کے لئے مال زکوۃ دے سکتے ہیں ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, January 24, 2018

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل


جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

(1) اگر میں امام کے ساتھ پہلی رکعت میں بحالت رکوع شامل ہوتا ہوں تو کیا دوسری رکعت میں مجھے ثنا پڑھنا پڑے گا ؟
جواب :  ثنا پڑھنے کا مقام پہلی رکعت کا قیام ہے ۔ یہاں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ رکوع میں ملنے سے رکعت ہوگی یا نہیں ؟ اس میں شدید اختلاف ہے ،دونوں طرف دلائل ہیں جن کا دل جس پرمطمئن ہوجائے عمل کرے تا ہم میری نظر میں اس رکعت کوشمار نہ کرنا ہی قوی معلوم ہوتا ہے ۔ اب سوال کا جواب یہ ہوگا کہ مدرک رکوع نے رکعت مان لی تو اگلی رکعت میں ثنا پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا مقام گزر چکا ہے لیکن اگر اس رکعت کو لوٹانا ہے تو اگلی رکعت میں ثنا پڑھے کیونکہ وہ اس کی پہلی رکعت ہوگی ۔
(2) جو امام کے ساتھ قرات کی حالت میں ملے وہ سورہ ثنا کیسے پڑھے ؟
جواب : شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ایسے سوال کا جواب یہ دیا ہے کہ جو امام کو قرات فاتحہ میں پائے تو خاموش رہے اورامام کی  قرات مکمل ہونے پر ثنا پڑھے پھر سورہ فاتحہ پڑھے لیکن جو امام کو سورہ فاتحہ کے علاوہ قرآن کی دوسری قرات میں پائے تو ثنا نہ پڑھے صرف فاتحہ پڑھے ۔
(3) نبی ﷺ کے جنازہ کی نماز جماعت سے کیوں نہیں پڑھی گئی ؟
جواب : یہ بات صحیح ہے کہ کسی نے نبی ﷺ کے جنازہ کی نماز جماعت سے نہیں پڑھائی ہے ، ہر صحابی نے الگ الگ نماز جنازہ ادا کی ۔ اس کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ آپ ﷺ نے صحابہ کو ایسی ہی وصیت کی تھی ۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ کی عظمت شان کی وجہ سے کسی نے امامت نہیں کرائی ۔ تیسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نبی ﷺدنیا میں  سب کے امام وقائد تھے تو آپ کی  اجازت کے بغیرکسی نے امامت کرانا مناسب نہیں سمجھا ۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپ کی فضیلت واحترام میں ہر صحابی انفرادی طور پر نماز جنازہ پڑھ کر فیض وبرکت حاصل کرنا چاہ رہے تھے  بایں طور کہ ان کا کوئی دوسرا امام نہ ہو۔ یہ وجہ زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے۔
(4) نبی ﷺ اور حضرت عیسی علیہ السلام کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟
جواب :  بخاری شریف میں  سلمان رضی اللہ عنہ کا ایک اثر موجود ہے جس میں چھ سو سال مذکور ہے۔
(5) باپ کی موجودگی میں لڑکی کا بہنوئی اس کا ولی بن سکتا ہے ؟
جواب :  لڑکی کا بہنوئی اس کی شادی میں ولی نہیں بن سکتا کیونکہ ولی عصبات میں سے ہوتا ہے یعنی جنہیں میراث میں حصہ ملتا ہے، نیز قریبی ولی کی موجودگی میں دور والے کی ولایت صحیح نہیں ہےمثلا باپ کی موجودگی میں بھائی کی ولایت ۔
(6) چوڑی میں کھنکھنانے کی آواز ہوتی ہے کیا آواز والی چوڑی عورت گھر میں یا باہر استعمال کرسکتی ہے ؟
جواب :  سورہ نور میں اللہ نے عورتوں کو پیر سے آواز نکال کر چلنے سے منع کیا ہے ، تفسیرابن کثیر میں اس بابت مذکور ہے کہ زمانہ جاہلیت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ عورتیں زور سے پاؤں زمین پر رکھ کر چلتی تھیں تاکہ پیر کا زیور بجے اسلام نے اس سے منع فرمادیا۔ لہذا کسی عورت کے لئے کھنکھنانے والی چیز پہن کر باہر نکلنا یا اجنبی مردوں کے سامنے آنا جائز نہیں ہے البتہ شوہر کے گھر میں جہاں اجنبی نہ ہوں وہاں کھنکھناتی چوڑیا ں یا کھنکھناتے پازیب پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
(7) کوئی حاجی ایسے خریدار سے زمین بیچ کر حج کرتا ہے جس کا مال سودی قرض پر لیا گیا ہواور حاجی کو معلوم بھی ہو ایسے حج کا کیا حکم ہے ؟
جواب :  اس کاحج صحیح ہے لیکن چونکہ اسے معلوم تھا کہ خریدار سود پر لئے پیسے سے قیمت ادا کرے گا اس وجہ سے اس معاملہ میں گنہگار ہے کیونکہ یہ ایک طرح سے سود پر تعاون ہے ۔ اپنے اس گناہ کی اللہ سے توبہ مانگے ۔
(8) کوئی آدمی صحراء میں ہو اور کپڑے کی پاکی یا ناپاکی پریقین نہ ہو تو نماز کے وقت کیا کرے جبکہ ساتھ میں معمولی مقدار میں پانی بھی ہو؟
جواب : اگر کپڑے میں ناپاکی کی علامت موجود نہیں اور نہ ہی نجاست لگنے کا یقین ہو تو اسی کپڑا میں وضو کرکے نماز پڑھے ،محض شک کی بنیاد پر کپڑا نجس نہیں مانا جائے گا۔
(9) نکاح شغار کی حقیقت واضح کریں ۔
جواب : نکاح شغار ممنوع ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے بیٹے یا بھائی کی شادی کسی آدمی کی بیٹی  یا بہن سے کرواتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ بھی اپنے بیٹے یا بھائی کی شادی اس کی بیٹی یا بہن سے کرے ۔ یہ دونوں شادی ایک دوسرے پہ منحصر ہوتی ہے ، ایک باقی تو دوسری باقی اور ایک ٹوٹی تو دوسری بھی ٹوٹ جاتی ہے۔ اس قسم کے نکاح کو شغار کہا جاتا ہے جوکہ اسلام میں جائز نہیں ہے  خواہ  نکاح میں مہر ہو یا نہ ہو ۔
(10) نشہ کرنے والے جہنم میں طوائف کی شرمگاہ سے بہنے والا پانی پئے گا کیامجمع الزوائد میں  ایسی کوئی حدیث ہے؟
جواب :  یہ حدیث مسند احمد، مستدرک حاکم اور صحیح ابن حبان وغیرہ میں اس طرح سے آئی ہے ۔
مَن مات مُدمِنًا للخمرِ سقاه اللهُ جلَّ وعلا مِن نهرِ الغُوطةِ قيل: وما نهرُ الغُوطةِ ؟ قال: نهرٌ يجري مِن فُروجِ المومِساتِ يُؤذي أهلَ النَّارِ ريحُ فُروجِهنَّ ۔(أخرجه ابن حبان :1380 و1381 والحاكم :4/146 وأحمد :4/399)
ترجمہ: ہمیشہ شراب پینے والاجو مرا اللہ تعالیٰ اس کو نہر غوطہ پلائے گا۔ پوچھا گیا کہ نہر غوطہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: زانیہ عورتوں کی شرمگاہوں سے جاری ہوئی نہر ہے ان کی بدبو سے دوزخیوں کو تکلیف دی جائے گی۔
اس حدیث کو امام حاکم نے صحیح الاسناد کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔ ہیثمی نے اس کے رجال کو صحیح کہا ہے اور منذری نے صحیح یا حسن یا ان کے قریب بتلایا ہے ۔
(11) زمین کے معاملے میں دلالی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب : کمیشن جسے اردو اور عربی میں دلالی کہتے ہیں۔ عربی میں سمسرہ بھی کہتے ہیں ، اسی لفظ سے امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے۔ خرید و فروخت یا بازار کے حوالے سے دلالی کافی مشہور ہے ۔ دلال بائع اور مشتری کے درمیان سودا کرواتاہے۔ عموما دلالی کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب آدمی کو کسی چیز کے متعلق گہری معلومات نہ ہو۔ مگر دلالی میں بے راہ روی اور من مانی کی وجہ سے بلاضرورت افراد کو بھی پھنسا لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب سماج میں دلالی کو معیوب پیشہ تصور کیا جاتا ہے اور دلال سے گھن جاتا ہے ۔
امین بن کر دلالی کرنا کوئی معیوب نہیں ہے اور بائع اور مشتری میں سودا کرنے پہ طے شدہ اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں "بَاب أَجْرِ السَّمْسَرَةِ" کے تحت ذکر کیا ہے کہ ابن سیرین، عطاء اور حسن رحمہم اللہ اجمعین دلالی کی اجرت لینےمیں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔ دلال کے لئے ضروری ہے کہ وہ سودا طے کرانے میں امین ہو، خریدار سے سامان کی وہی صفت بیان کرے جو اس سامان میں ہے اور اپنی اجرت سودا طے کرانے سے پہلے طے کرلے ۔ بائع کو کچھ قیمت اور مشتری کو کچھ قیمت بتاکر زیادہ مال ہڑپنا حرام ہے ۔
(12) فوٹوگرافر کا پیشہ اختیار کرنا کیسا ہے؟
جواب : تصویر صرف ضرورت کے وقت جائز ہے اور فوٹو گرافر کوضروری  وغیر ضروری ہر قسم کی تصویر بنانی پڑے گی اس وجہ سے کسی مسلمان کے لئے یہ پیشہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے ۔ افادیت کی غرض سے اسلامی بیانات کی ویڈیوز بنانے کو  بعض علماء نے جائز کہا ہے ان علماء کے قول کی روشنی میں اسلامی بیانات کی ویڈیوز بنانا جائز ہوگا۔
(13) زنا سے کوئی عورت حاملہ ہوگئی اسی سے زانی مرد کی شادی کا کیا حکم ہے ؟
جواب :  زنا اسلام کی نظر میں بہت بڑا گناہ ہے اس لئے اس کی سزا بھی بڑی ہے ، اے کاش! یہ سزا دنیا میں نافذ ہوجائے تو زانیوں کو عبرت ملے ۔توبہ کا دروازہ کھلا ہے ، دونوں سچی توبہ کرلیں تو آپس میں نکاح کرسکتے ہیں ۔
(14) کوئی آدمی روز امام کے سلام پھیرنے کے بعد پیٹھے ہٹ کر بیٹھتا ہے اس کا یہ روزانہ کا عمل کیسا ہے ؟
جواب :  امام کے ساتھ پھیرنے کے بعد نمازیوں کو اسی جگہ پر بیٹھے بیٹھے نماز کے بعد کے اذکار کا اہتمام کرنا چاہئے ، صف میں تنگی کے باعث کوئی مصلی آگے پیچھے کسک جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن  بلاضرورت کوئی پیچھے کسکنے کومعمول بنا لیتا ہے تو اس سے نمازیوں کےلئے سوء ظن اور پچھلی صف والوں کے لئے دقت کا باعث ہے لہذا اس عمل سے باز آئے ۔
(15) ایک آدمی  نےکسی عورت سے اس کی عدت میں نکاح کرلیا اب دونوں شرمندہ ہیں تو کیا کرنا پڑے گا ؟
جواب :  دونوں  نےگناہ کبیرہ کا ارتکاب کیاہے اس لئے سچے دل سے اللہ تعالی سے توبہ کرے اور پھر سے عقد مسنون کرے کیونکہ پہلاوالا نکاح باطل ہے۔
(16) میری ظہر کی نماز چھوٹ گئی ،عصر کے وقت مسجد میں داخل ہواتو پہلے کون سی نماز ادا کروں ؟
جواب : اگر عصر کی جماعت ہونے میں کچھ وقت باقی ہے تو اس دوران ظہر کی نماز ادا کرلیں اور اگر جماعت شروع ہونے والی ہے یا ہوگئی  ہےتو آپ ظہر کی نیت سے امام کے ساتھ مل جائیں ۔ یہ آپ کی ظہر کی نمازہوگئی پھر بعد میں عصر کی نماز پڑھ لیں ۔ جنگ خندق کے موقع سے رسول اللہ ﷺ سے عصر کی نماز فوت ہوگئی تو آپ نے پہلے عصر کی نماز پڑھی حالانہ مغرب کا وقت تھا اور پھر مغرب کی نماز پڑھی ۔
(17) میں طالب علم ہوں ، میں اپنا کپڑا محض میلا ہونے کی وجہ سے ایسے دھوبی سے صاف کرواتا ہوں جو ہندومسلم کے کپڑوں کو ایک ساتھ دھوتا ہے کیا کافر کے نجس کپڑوں میں رکھ کر صاف کرنے سے میرا کپڑا پاک ہوجائے گا؟
جواب : نجس اور میلے  کپڑوں کو ایک ساتھ پاک پانی سے دھونے پر کپڑے پاک ہوجائیں گے ، نجس کپڑے خواہ مسلم کے ہوں یا کافر کے ۔
(18) موبائل میں موجود لڈو گیم کھیلنے کا کیا حکم ہے اورکیا یہ چوسر ہے جس سے منع کیا گیا ہے ؟
جواب : علماء نے لڈو کو نردشیر(چوسر) میں شمار کیا ہے کیونکہ یہ لعبۃ الطاولہ یعنی لکڑی کے تختوں پرکھیلا جانے والاایک کھیل ہے ۔
(19) لڑکا اور لڑکی پر روزہ کب فرض ہوتا ہے نماز کے بارے میں معلوم ہے کہ دس سال پر مارنے کا حکم  دیا گیاہے اس لئے دس سال سے نما ز ادا کرنا ضروری ہے ؟
جواب : لڑکے اور لڑکیا ں بلوغت کے بعد شریعت کا مکلف ہوتے ہیں ،نماز اور روزے کی فرضیت بلوغت کے بعد ہے اس سے پہلے نہیں ۔ دس سال پہ نماز کے لئے مارنے کا حکم محض تادیبا ہے ۔ ہاں باشعور اور روزے کی طاقت رکھنے والے بچوں سے تربیت کے طور پر بلوغت کے پہلے سے ہی روزہ رکھوایا جائے گا۔
(20) جس نے وتر کی نماز نہیں پڑھی اور فجر کے وقت آنکھ کھلی تو وہ وتر کی نماز کب اور کیسے ادا کرے ؟
جواب :  وتر کا وقت عشاء کے بعدسےلیکرفجر تک ہے ، فجر کی اذان سے پہلے پہلے ادا کرسکتا ہے لیکن جب اذا ن ہوجائے تو چاشت کی نمازتک مؤخر کرے اورپھر اس کی قضا کرے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو وتر کی نماز سے سو جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے ۔
(21) تسبیح فاطمی میں اکبر اللہ 33 بار کہنا ہے یا 34 بار کہنا ہے ؟
جواب : دونوں قسم کی روایتیں موجود ہیں اور صحیح درجہ کی ہیں لہذا 33 بار اور 34 بار دونوں طرح کی تسبیح درست ہیں ۔
(22) کسی مسلم عورت نے کافر سے شادی کرلی دو بچے بھی ہوگئے ،اب اپنے عمل پر شرمندہ ہے اسے کیا کرنا ہے اور اس کے بچوں کا کیا حکم ہے ؟
جواب :  اس عورت کو اللہ سے سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے تاکہ اللہ اس سے ہوئے بڑے گناہ کو معاف کردے اور پھر وہ اس طرح کی بڑی غلطی کا ارتکاب نہ کرے۔ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
(23) کیا نبی ﷺ نے سعودی  عرب والوں کے لئےخاص قسم کی دعا کی ہے ؟
جواب :  نبی ﷺ کے زمانے میں سعودی  عرب تو تھا ہی نہیں اس کا قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے وقت ہوا پھر سعودی عرب والوں کے لئے کوئی خاص دعا کیسے ہوگی ؟ ہاں اس وقت سعودی عرب کے جو شہر تھے ان میں سے بعض  شہروں کے لئے خصوصی دعا کی ہے مثلا مکہ مکرمہ اورمدینہ طیبہ کے لئے اور ابھی سعودی عرب سے کئی  عربی ممالک الگ الگ ہیں  ان میں سے بھی بعض کے لئے دعا وارد ہے جیسے  شام ویمن ۔
(24) ذہن میں ہمیشہ غلط وسوسے آتے ہیں حتی کہ اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں بھی مجھے اسلام سے کوئی علاج بتلائیں ۔
جواب :  یہ جان لیں کہ دل میں برے وسوسے شیطان کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اس سے بچنے کے لئے سب سے اہم وسیلہ دعا کے ذریعہ اللہ سے پناہ طلب کرنا ہے ۔ اس کی توفیق ہوگی تو ہر قسم کے شر سے محفوظ ہوسکتے ہیں ۔ دعا کے علاوہ کچھ مزید کچھ اسباب اپنانے ہوں گے مثلا استغفار کی کثرت، ذکر الہی کا اہتمام، اعمال صالحہ کی طرف کثرت توجہ، برائی کا خوف اور اسباب برائی سے اجتناب،  اچھی صحبت کا انتخاب اور عبادت پر جہد مع التسلسل وغیرہ ۔
(25) شیر خوار بچے کو چھوڑ کر حج پر جانے سے حج نہیں ہوتا ہے ایسا کسی امام نے کہہ کر ایک صاحب کو شک میں ڈال دیا ہے آپ سے اس کی وضاحت مطلوب ہے ۔
جواب : اگر بچے کی دیکھ ریکھ کرنے والا کوئی ہے تو اسے چھوڑ کر حج پر جانے میں کوئی حرج نہیں ہے اس سے حج کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یقینا بچے کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی  ہوگا تبھی  توکوئی اپبے بچوں کو چھوڑ کر آسکتا ہے اور حج کے دوران بہت قسم کی مشکلات ہیں لہذا بچوں کو چھوڑ کر آنے میں ہی بھلائی ہے  اگر اس کی دیکھ ریکھ کا بہتر بندوبست ہے۔ جہاں تک امام کی بات ہے وہ سوائے وسوسہ کے اور کچھ نہیں ہے ، اس پر دھیان نہیں دیا جائے ۔
(26) ایک لڑکا اپنی پسند سے کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر اس کے والد راضی نہیں ہیں میرا سوال یہ ہے کہ کیا کوئی لڑکا والد کی رضامندی کے بغیر اپنی پسند سے شادی کرسکتا ہے ؟
جواب : رضامندی اصل میں صرف لڑکی کو اپنے ولی کی چاہئے ، لڑکے کو ولی اور اس کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے ، والد کی عدم رضامندی سے ہوئی شادی اپنی جگہ صحیح ہےتاہم والدین کے انکار کی وجہ جاننی چاہئے اور ان کی رضامندی سے شادی کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ شادی کے بعد  آپس میں ناچاقی، مقاطعہ اور سوء ظن کے خطرات سے بچا جا سکے ۔
(27) نکاح کو اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے ،ایسی کوئی حدیث یا کوئی قول کہیں ملتا ہے ؟
جواب :  نبی ﷺ کے فرامین میں اس قسم کی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے حتی کہ مجھے  اس معنی کی کوئی ضعیف  روایت بھی نہیں ملی ۔ ممکن ہے کسی  نے گھڑ لیا ہو لہذااس بات کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کرنا یا بطور دلیل پیش کرنا جائز نہیں ہے۔ 
(28) کسی شادی شدہ عورت کو ایک مرد نے بھگاکر شادی کرلی ، اس وجہ سے اس کے شوہر نے بیوی کو طلاق دیدی مگر اسے ایک ماہ بعد اس کی خبر ہوئی تو طلاق کب سے شمار ہوگی اور عدت کہاں گزارے گی جبکہ اس کے لئے سسرال ومیکے دونوں کےدروازے بند ہیں ؟
جواب : جس وقت عورت کو طلاق دی گئی اسی وقت سے طلاق شمار ہوگی خواہ اس کی خبر بیوی کو دیر سے پہنچے اور عدت تو شوہر کے گھر گزارنی چاہئے مگر مذکورہ صورت میں جہاں اس کے لئے امن ہو وہاں عدت گزارے ۔ یہاں عورت کے لئے عدت گزارنے سے زیادہ اہم شوہر کو چھوڑ کر اجنبی مرد کے ساتھ بھاگ جانا ہے،یہ اسلامی اعتبار سے بہت ہی بڑا گناہ ہے ،  اس گناہ کے لئے اللہ سے معافی طلب کرے اور آئندہ ایسی غلطی نہ کرنے کا عزم مصمم کرے ۔ اللہ بہت ہی معاف کرنے والا ہے۔
(29) ایک مولانا سے میری دوستی ہے اسے اکثر گاؤں والے دعوت دیتے رہتے ہیں تو وہ مجھے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ،کیا اس کے ساتھ میرا جانا درست ہے ؟
جواب : اس طرح آپ کا دعوت میں شریک ہونا درست نہیں ہے کیونکہ دعوت دینے والے نے صرف مولانا کو دعوت دی ہے ۔ ہاں اگر مولانا صاحب دعوت دینے والے سے آپ کوساتھ لینے کی منظوری لے لیں تو اس وقت درست ہے۔
(30) ایک مرغی کہیں سے میرے گھر چلی آئی ہے ، پاس پڑوس میں پتہ کیا تو کسی نے میرا ہے نہیں کہا، ایسی صورت میں کیا اس مرغی کو ذبح کو کرکے کھا سکتا ہوں ؟
جواب :  گم شدہ سامان کو ایک سال تک پہنچان کرانے کا حکم ملا ہے لہذااگر آپ نےجلدبازی میں ذبح کرکے کھالیا اور بعد میں مرغی والا مطالبہ کرنے آیا تو اس کی قیمت لوٹانی پڑے گی ۔ آپ اسے گھر سے باہر بھگادیں جہاں سے آئی تھی چلی جائے گی ۔

مکمل تحریر >>