Wednesday, September 21, 2016

حمل گرنے سے نفاس اور طلاق کا حکم

حمل گرنے سے نفاس اور طلاق کا حکم
=================
حمل گرنے سے نفاس کی مدت کتنی ہوتی ہے اور کیااس میں دی گئی طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟
جواب : عموما چار مہینے کے بعد جنین کے اعضاء کی تخلیق ہوتی ہے اس وجہ سے چار مہینے سے پہلے (مثلا دوسرا یا تیسرا مہینہ )اگر حمل ساقط ہوگیادراں حالانکہ اس کے اعضاء ظاہر نہ ہوئے  ہوں مثلا ہاتھ ،پیر، ناک،کان، آنکھ،سروغیرہ تو صحیح قول کی روشنی میں اس بچے کی بھی نماز جنازہ نہیں نہ ہی غسل دیاجائے گا بلکہ کسی کپڑا میں لپیٹ کر کہیں بھی دفن کردیا جائے گا۔ اس حال میں عورت سے نکلنے والاخون فاسد کہلائے گااور عورت نماز پڑھے گی اور روزہ رکھے گی ۔
اور اگر چار مہینے کے بعد حمل ساقط ہویہاں تک کہ بچے کے اعضاء ظاہرہوں تو بچے کو غسل دیاجائے گا ،اس کی نمازجنازہ پڑھی جائے گی اور قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اور عورت کے رحم سے نکلنے والا خون نفاس کے حکم میں ہوگا۔ نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے ۔ان ایام میں نماز وروزہ سے رک جائے گی ۔ اگر خون چالیس دن سے زیادہ آئے تو چالیس کے بعد اسے نفاس نہ سمجھے اور نمازوروزے کی پابندی کرے ۔اسی طرح اگر چالیس سے پہلے بھی خون بند ہوجائے تو نماز ادا کرے گی ۔
‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوُرِثَ(سنن الترمذی و ابن ماجہ)
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا۔
رہا طلاق کا معاملہ تو حیض ونفاس میں طلاق دینا حرام ہے ، اس حالت میں طلاق دینا طلاق بدعی کہلائے گا ۔ علماء کے درمیان طلاق بدعی کے وقوع اور عدم وقوع سے متعلق دونوں قسم کے فتاوے ہیں ۔ راحج قول کے مطابق حیض ونفاس میں دی گئی طلاق واقع جائے گی مگر طلاق دینے والے کو لوٹانا واجب ہے  ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ (الطلاق:1)
ترجمہ: اے نبی [ اپنی امت سے کہو ]جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو۔
بخاری ومسلم میں ہے ابن عمررضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تھی تو ان کے والد بہت غصہ ہوئے ۔ یہ مسئلہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے پوچھا تو آپ نے حکم دیا:
مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ( صحيح البخاري :5251 – صحيح مسلم :1471)
ترجمہ : اس سے کہو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے۔

اگر طلاق واقع نہیں ہوتی تو لوٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔