Thursday, September 22, 2016

گدھا اور اس کی خریدوفروخت کا حکم

گدھا اور اس کی  خریدوفروخت کا حکم
=================
مقبول احمد سلفی
پہلے یہ بات جان لی جائے کہ گدھا دو قسم کا ہے ۔
(1) جنگلی گدھا اسے عربی میں حمار وحشی کہتے ہیں اس کا کھانا حلال ہے ۔
جنگلی گدھا حلال ہونے کی دلیل : ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أنَّهُ كانَ معَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ ، حتى إذا كانَ ببعضِ طريقِ مكةَ ، تخَلَّفَ معَ أصحابٍ لهُ مُحْرِمِينَ ، وهوَ غَيرُ مُحْرِمٍ ، فَرَأَى حِمَارًا وحْشِيًّا ، فاستَوى على فرسِهِ ، فسألَ أصحابَهُ أنْ يُنَاوِلُوهُ سَوطَهُ فَأَبَوا ، فسأَلَهم رُمْحَهُ فَأَبَوا ، فَأَخذَهُ ثم شَدَّ على الحمَارِ فقَتَلهُ ، فأكَلَ منهُ بعضُ أصحابِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم وأبَى بعضٌ ، فلمَّا أدْرَكوا رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلمَ سأَلوهُ عن ذلكَ ، قالَ : ( إنمَا هي طُعْمَةٌ أطْعَمَكُمُوهَا اللهُ ) .(صحيح البخاري:2914)
ترجمہ: کہ ہم آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ( صلح حدیبیہ کے موقع پر ) مکہ کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ جو احرام باندھے ہوئے تھے ، لشکر سے پیچھے رہ گئے ۔ خود قتادہ رضی اللہ عنہ نے ابھی احرام نہیں باندھا تھا ۔ پھر انہوں نے ایک گورخر دیکھا اور اپنے گھوڑے پر ( شکار کرنے کی نیت سے ) سوار ہو گئے ، اس کے بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے ( جو احرام باندھے ہوئے تھے ) کہا کہ کوڑا اٹھادیں انہوں نے اس سے انکار کیا ، پھر انہوں نے اپنا نیزہ مانگا اس کے دینے سے انہوں نے انکار کیا ، آخر انہوں نے خود اسے اٹھایا اور گورخر پر جھپٹ پڑے اور اسے مارلیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض نے تو اس گورخر کا گوشت کھایا اور بعض نے اس کے کھانے سے ( احرام کے عذر کی بنا پر ) انکار کیا ۔ پھر جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو اس کے متعلق مسئلہ پوچھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو ایک کھانے کی چیز تھی جو اللہ نے تمہیں عطا کی ۔

 (2) پالتو گدھا اسے عربی میں حمار اھلی کہتے ہیں اس کا کھانا حرام ہے ۔
پالتو گدھا حرام ہونے کی دلیل : ابو ثعلبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
حرَّم رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لحومَ الحُمُرِ الأهليةِ(صحيح مسلم:1936)
ترجمہ : رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گھريلو گدھے كے گوشت كو حرام قرار ديا۔

جنگلی گدھا کی تجارت تو واضح ہے کہ یہ حلال جانور ہے البتہ پالتو گدھے کی خریدوفروخت پہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب حدیث میں آیا ہے کہ حرام چیز کی قیمت بھی حرام ہے جیساکہ یہ حدیث ہے ۔
إنَّ اللهَ إذا حرَّمَ على قومٍ أكْلَ شيءٍ حرَّمَ عليهم ثَمَنَهُ(صحيح الجامع:5107)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی جب کسی قوم پر کوئی چیزکھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت کی اس پر حرام کردیتا ہے ۔
تو پھر گدھے کی بیع وشراء کیسے جائز ہے ؟
پالتو گدھا سواری اور باربرداری کے لائق ہے ، نبی ﷺ نے اس کی سواری بھی کی اور اس سے فائدہ اٹھایاتو یہ ایسا جانور ہے جس سے فائدہ اٹھانا نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔اور جس جانور سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اس کی تجارت بھی جائز ہے ۔ حدیث میں قیمت کی حرمت کا جو مسئلہ ہے یہاں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گدھے کو کھانے کی نیت سے بیچنا  اور اس کی قیمت  لیناحرام ہے مگر فائدہ اٹھانے کی غرض سے اس کی بیع جائز ہے جیساکہ حدیث کے الفاظ " لحومَ الحُمُرِ الأهليةِ " (گھریلو گدھے کا گوشت) سے بھی واضح ہے۔ اس پہ عہد رسول ﷺ سے آج تک مسلمانوں کا اجماع ہے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔