Sunday, November 1, 2015

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اعزاء پر اعمال کا پیش ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اعزاء پر اعمال کا پیش ہونا
======================


اِس ضمن میں اعمال پیش ہونے کے متعلق جو روایات پیش کی جاتی ہیں ، وہ صحیح نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ جو کچھ اِ ن کے سامنے ہے اُسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ اِ ن سے اوجھل ہے اس سے بھی واقف ہے اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔‘‘(الحج : ۲۲)


یعنی کائنات میں کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ کوئی دوسرا نہیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۃ ۲۱۰، آل عمران ۱۰۹، سورۃ حدید ۵ وغیرہ میں بیان کیا ہے اور صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب النھی عن الشحناء والتھا جر کے تحت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر جمعرات اور سوموار کو تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو بخش دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا سوائے اس آدمی کہ جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے ان دونوں کو چھوڑ دیجئے۔ یہا تک کہ صلح کر لیں۔‘‘(صحیح مسلم ۲/۳۱۷)


سنن نسائی، ابو داؤد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں حدیث ہے کہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر کسی دوسرے مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں رب العالمین کی طرف اعمال کو اُٹھایا جاتا ہے میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔‘‘


اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس دن اللہ کے ہاں اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش ہو تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔‘‘


صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اُٹھایا جاتا ہے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے۔‘‘


ان تمام احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے محدث شہیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری تحفۃ الاحوذی ۵۵/۲پر رقم طراز ہین:
(سوموار اور جمعرات کو اعمال کا پیش کیا جانا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے منافی نہیں جس میں ہے کہ رات کا عمل دن سے قبل اور دن کا عمل رات سے قبل اُٹھایا جاتا ہے۔ اس لئے رفع (یعنی اُٹھانے) اور عرض (یعنی پیش کئے جانے) میں فرق ہے ۔ اس لئے کہ پورے ہفتے میں اعمال جمع کئے جاتے ہیں اور ان دو دنوں (سوموار اور جمعرات) میں پیش کئے جاتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر جمعہ میں دو مرتبہ سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر مومن کو بخش دیتا ہے سوائے ان دو آدمیوں کے جن کی آپس میں عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مؤخر کر دو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ احادیث اس حدیث کے بھی خلاف نہیں جس میں ہے کہ اعمال شعبان کے مہینے میں اُٹھائے جاتے ہیں اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں اُٹھایا جائے۔ اس لئے کہ جائز ہے ہفتے کے اعمال تفصیلاً اُٹھائے جاتے ہوں اور سال کے اعمال اجمالی طور پر شعبان میں اُٹھائے جاتے ہوں۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمارے تمام اعمال اللہ کی طرف اُٹھائے اور پیش کئے جاتے ہیں جو ان کی جزا و سزا کا مالک ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی مُتَصَرِّفُ الْاُ مُور نہیں جس کے سامنے ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہوں۔ مسند احمد ۱۶۵/۳کے حوالے سے جو روایت پیش کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارے اعمال تمہارے عزیز و اقاربب میں سے مرنے والوں پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ اگر اعمال بہتر ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر بہتر نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں، اے اللہ تو ان کو اتنی دیر تک موت نہ دے جب تک انہیں ہماری طرح ہدایت نہ دے دے۔‘‘
یہ روایت ضعیف ہے اس لئے کہ اس کی سند میں سفیان اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان مجہول راوی ہے۔
حلیۃ الاولیاء ۱۷۹/۶ اور کنزل االعمال ۳۱۸/۵ پر مروی روایت:
’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر جمعہ کو مجھ پر میری امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ زنا کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب بہت سخت ہوتا ہے۔‘‘
یہ روایت بھی انتہائی ضعیف ہے۔
اِسی مضمون کی دو اور روایتیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں۔ ایک روایت کو امام ابنِ عدی نے ۱۲۴/۲پر نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں فراش بن عبداللہ الاعتبار ہے اور دوسری روایت میں محمد بن عبدالملک بن زیاط ابو سلمہ انصاری ہے جو من گھڑت اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے جسے امام ابن طاہر نے کذاب کہا ہے۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی (۹۷۵)۴۰۴/۲۔
قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ مرفوعہ سے یہ بات بالیقین درست ہے کہ تمام اعمال کا مرجع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے جو متصرف الامور ، جزا و سزا کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ہستی اسبابِ عالم سے بالا تر ہو کر متصرف الامور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو متصرف الامور سمجھنا اور اعمال کو اس کی طرف لوٹانے کا عقیدہ رکھنا قطعاً غلط اور باطل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایک ایسے واقعات ہوئے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہے اور وہ اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش نہیں کئے گئے جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کا ایک خادم (یا خادمہ) تھا جو وہاں صفائی کا انتظام سرانجام دیتا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر اطلاع کئے اسے دفنا دیا گیا۔ چند روز بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ تو فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہیں دی۔ مجھے اس کی قبر پر رہنمائی کرو۔ مشکوٰۃ (۱۶۰۹) ۱/۵۲۳۔ اس حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ یہ سارا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر مخفی رہا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال اُمت کو پیش کرنے والی بات درست ہوتی تو یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی بھی مخفی نہ رہتا۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جب حدیبیہ کے موقع پر سفیر بناکر بھیجا گیا تو ان کا معاملہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہا۔ لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال پیش نہیں کئے گئے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کئے جاتے ہیں اور اعمالِ صالحہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں اور اعمال سیۂ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دُعا کرتے ہیں اور اسی طرح اعزاء وا قارب کے بارے میں ایسا عقیدہ درست نہیں ہے۔


محدث فورم


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔