Monday, October 26, 2015

کسی خاص آدمی کی طرف مسجد کی نسبت

کسی خاص آدمی کی طرف مسجد کی نسبت
===============
مقبول احمد سلفی

بعض اہل علم نے کسی معین شخص کے نام سے مسجد بنانے یا اس کی طرف مسجد کو منسوب کرنا مکروہ قرار دیا ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک مسجد کا انتساب کسی فرد معین کی طرف کرنا جائز ہے بلکہ ایک مسجد کو دوسرے مساجد سے ممیز کرنے کے لئے انبیاء کرام ، علمائے عظام، متقین و صالحین یا قبائل کی طرف منسوب کرنے میں جمہور کے نزدیک وسعت خیالی پائی جاتی ہے اور اس میں صراحۃ علت قادحہ نہیں پائی جاتی ۔
قرآن کریم میں موجود ہے َ
{وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلا تَدْعُو مَعَ اللَّهِ أَحَداً}[الجن:18].
ترجمہ : اور یہ مساجد اللہ کے گھر ہیں ، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔
اس لئے واقعتا مساجد اللہ کا گھر اور اللہ کی ملکیت ہیں مگر تعارف کے لئے مسجد کو کسی فرد کی طرف منسوب کرنا یا مسجد بنانے والے کی طرف انتساب کرنا تاکہ لوگ اسے دعا دیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اور اس کے جواز کے دلائل بھی ملتے ہیں ، چنانچہ مساجد کے متعلق تحقیق کرنے سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں۔
(1) مسجد بنانے والے کی طرف انتساب : یہ جائز ہے جیساکہ مدینہ طیبہ کی مسجد نبی ﷺ کے نام سے موسوم ہے ۔
(2) قبائل یا جماعت کی طرف انتساب: یہ بھی جائز ہے مثلا مسجد قبا جو مدینے میں ہے ، مسجد بنی زریق جس کا ذکر صحیحین میں ہے اور مسجد السوق جس کا ذکر ترجمۃ البخاری میں ہے ۔
(3) مسجد کا کسی وصف کی طرف انتساب : یہ بھی جائز ہے مثلا المسجد الحرام اور المسجد الاقصی وغیرہ
(4) مسجد کا غیر حقیقی نام کی طرف انتساب: یہ اس زمانے میں بکثرت موجود ہے کیونکہ مساجد کی بتہات ہوگئی ہے ، ایک ہی بستی میں کئی کئی مساجد ہیں ۔ مثلا مسجد ابوبکر، مسجد عمر، مسجد عثمان ارو مسجد علی رضی اللہ عنہم ۔
(5) اللہ کی طرف مسجد کا انتساب: مسجد کو اللہ کی طرف منسوب کرنا بھی آج کل پایا جاتا ہے جیساکہ مسجد القدوس، مسجد السلام، مسجدالرحمن ، حالانکہ مساجد اللہ ہی کے گھر ہیں اسے اختصاص سے ذکر کرنے کا قرون مفضلہ میں ثبوت نہیں ملتا اس لئے اس سے بچنا اولی ہے ۔
(6) کسی بدعتی کی طرف انتساب: یہ قطعی جائز نہیں کہ مسجد کو کسی بدعتی یا فاسق و فاجر کی طرف منسوب کیا جائے کیونکہ اللہ کا گھر ہر عیب سے پاک ہے اور پھر اس میں ان کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے اور عوام کو ان کے مسلک و عقیدہ سے دھوکہ ہوسکتا ہے ۔

بعض علماء کے موقف و آرا:

٭ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے :"  بَاب هَلْ يُقَال مَسْجِد بَنِي فُلاں" پھر ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بنی زریق ذکر کرتے ہیں۔
٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی روشنی میں مسجد بنانے والے یا نماز پڑھنے والے کی طرف انتساب کو جائز قرار دیا ہے ۔
٭ ابن العربی میں احکام القرآن میں کہا کہ گرچہ مساجد اللہ کا گھر ہیں مگر یہاں غیر کی طرف انتساب تعارف کے لئے ہے یعنی کہا جائے گا مسجد فلاں
٭ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ تعارف کے طور پر مسجد فلاں یا مسجد بنی فلاں کہنے میں کوئی حرج نہیں ۔

خلاصہ کلام مسجد کو اس کے بنانے والے کی طرف منسوب کرنا جائز ہے ۔


واللہ اعلم

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔