Saturday, October 24, 2015

مقلدین کے چند شبہات کا رد

مقلدین کے چند شبہات کا رد
================

اعداد : مقبول احمد سلفی

(1) شہ : اہل حدیث میں بھی کئی فرقے ہیں مثلا البانی، مسعودی،اور داؤدی وغیرہ ، ان میں سے ایک ہی حق پر ہوگا دوسرا جہنمی
جواب : اہل حدیث ایک منہج ہے اس کا نصب العین کتاب و سنت ہے اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے-
اگر اہل حدیث دینی کام کے لئے کوئی ادارہ کھولے یا کسی نام سے مدرسہ چلائے تو اس سے جماعت سے باہر نہیں ہوجاتا کیونکہ اس کے ادارے یا مدرسے کا منہج کتاب وسنت ہی ہوتا ہے ۔ فرقے تو اصل میں حنفیوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کے منہج وعقائد میں شدید اختلاف بھی پایا جاتا ہے جیسے حنفی ، دیوبندی، حیاتی ، مماتی ، جماعتی ، صوفی، نقشبندی ، سہروردی ، چشتی، قادری وغیرہ ۔

(2) شبہ : ان اللّٰہ یبعث لھذہ الامۃ علی راس کل مائۃ سنۃ من یجدد لھا دینھا (رواہ ابوداؤد وصححہ البانی )
یعنی ہر صدی میں ایک مجدد ہوگا۔
جواب : اس حدیث کو لیکر مقلدوں نے قطب و ابدال اور کراماتی اشخاص کو دین کا مجدد قرار دے کر ان کے اقوال خالص اسلام میں داخل کردئے اور عام مسلمانوں کو اصل دین سے منحرف کردیا۔ حالانکہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر صدی میں ایک خاص آدمی مجدد بن کر پیدا ہوگابلکہ اس کا مطلب یہ ہے ہر صدی کا مجدد شخص واحد ہی نہیں بلکہ جماعت ہے، یعنی کبھی فرد بھی ہوسکتا اور کبھی جماعت ۔ لہذا صدی بصدی شخص معین کو صدی کا مجدد قرار دینا دھوکہ ہے ۔

(3) شبہ : "سواد اعظم کی پیروی کرو کیونکہ جس نے شذوذ (مخالفت کرتے ہوئے جدا راستہ اختیار) کیا تو اسے آگ میں گرایا جائے گا۔" (ابن ماجہ:3950)
اس حدیث سے یہ شبہ پیدا کیا جاتا ہے کہ حنفی کی تعداد زیادہ ہے اس لئے حق پر ہے ۔
جواب : پہلی بات یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ، یہ حدیث اور بھی طریقے سے مروی ہے سب میں ضعف ہے اس لئے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث دینی امر سے متعلق نہیں ہے اگر دینی امور سے ہو تو پھر ہر مسئلہ جس کو سوادِ اعظم صادر کرے دینی مسئلہ بن جائے گا اور یہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم کے قطعا منافی ہیں ۔
اور قرآن وحدیث کے دیگر نصوص بھی یہ معنی مراد لینے سے مانع ہیں۔
٭وإن تطع أكثر من في الأرض يضلوك عن سبيل الله(سورة الأنعام )مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے۔
٭و قلیل من عبادی الشکور (سورة سبا)میرے بندوں میں شکر گزار تھوڈے ہی ہوتے ہیں ۔
٭وإن كثيرا من الخلطاء ليبغي بعضهم على بعض إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وقليل ما هم۔(سورة ص)اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں ایسے لوگ تھوڈے ہی ہوتے ہیں (یعنی مومنین ، صالحین کی تعداد کم ہی ہوتی ہیں ۔
٭و إن کثیراً من الناس لفسقون.(سورة المائدة)بے شک کثیر لوگ فاسق ہوتے ہیں۔
اتبعوا ما أنزل إليكم من ربكم ولا تتبعوا من دونه أولياء قليلا ما تذكرون ۔ (سورة الأعراف)
قال أرأيتك هذا الذي كرمت علي لئن أخرتن إلى يوم القيامة لأحتنكن ذريته إلا قليلا ۔(سورة الإسراء)شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کرتا رہے گاالبتہ تھوڑے سے لوگ بچ جائیں گے ۔۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ ( إنما الناس كالإبل المائة لا تكاد تجد فيها راحلة ) سواری کے قابل نہ ملے یعنی ناقص لوگوں سے اکثریت ہوگی ۔( صحیح بخاری و مسلم )
اگر حنفی کی بات مان لی جائے تو
٭اس زمانے میں بریلویوں کی اکثریت ہیں پھر دیوبندیوں کو چاہیئے کہ بریلویوں میں شامل ہوجائے ۔
٭حنفی اپنی ابتداء میں کم رہے ہوں گے پھر دوسرے فرقے میں ضم کیوں نہیں ہوئے ؟
٭ بعد جب حنفی کی اکثریت ہوئی تو اپنے علاوہ مالکی شافعی اور حنبلی کو اپنے میں ضم ہونے کی دعوت کیوں نہیں دیتے ؟

(4) شبہ : مقلد کا ایک شبہ یہ بھی ہے کہ چودہ صدیوں میں اہل حدیث کی تفسیری ، اصولی اور حدیثی خدمات نہیں ہیں ۔
جواب : حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے متعلق تمام علوم و فنون پہ صرف اہل حدیث علماء کے ہی خدمات جلیلہ ہیں ، دوسروں کے تھوڑے ہیں۔ کیونکہ دین کی اصل فہم اہل الحدیث ہی رکھتے ہیں ، انہوں نے ہی دنیا کو حدیث اور اس کے علوم سے دنیا کو متعارف کرایا یہ کام کوئی مقلد اور قرآن و حدیث سے دور اندھی تقلید کرنے والا کیسے انجام دے سکتا ہے ؟

(5) شبہ : مقلد کا ایک شبہ یہ ہے کہ کیا اہل حدیث گھرانے کے سارے لوگ مجتہد ہوتے ہیں اگر نہیں تو وہ تقلید کرتے ہیں۔
جواب : دین پر عمل کرنے کے لئے سب کو مجتہد ہونے کی ضرورت نہیں ، دین نہایت آسان ہے ، ایک عام آدمی قرآن و حدیث کو سمجھ سکتا ہے اور ٹھیک ٹھیک عمل کرسکتا ہے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے ؛ دین آسان ہے ۔ دین کا جو مسئلہ مشکل ہو اسے جاننے والوں سے پوچھ لیا جائے ۔ اصل چیز ہے دلیل کی پیری کی جائے ۔

(6) شبہ : محدثین یا دیگرمتقدمین علماء کسی نی کسی کے ضرور مقلد رہے ہیں تو کیا یہ مشرک ہیں۔
جواب ؒ: محدثین کسی کے مقلد کبھی بھی نہیں رہے کیونکہ محدث ہونا اور تقلید کرنا ایسا ہی ہے جیسے آگ اور پانی کا اکٹھا ہونا۔ دیگر بعض علماء کے متعلق جو تقلیدی بات لکھی ملتی ہے وہ دراصل تقلید جامد نہیں ہے بلکہ بعض اہل علم خود کو اپنے استاد یا کسی بڑے عالم کی طرف منسوب کرتے تھے مگر ان کا منہج کتاب و سنت ہی ہوا کرتا تھا۔

(7) شبہ : حدیث کے کئی اقسام ہیں ، صحیح ، حسن ، ضعیف وغیرہ تو آپ کس قسم سے ہیں؟
جواب : مقلد واقعی جاہل ہی ہوتا ہے ورنہ ایسا سوال نہ کرتا۔ حدیث کی اقسام حدیث کو جانچ اور پرکھ کرنے کے لئے ہیں، جو حدیث صحیح کے اقسام سے ہو اس پر عمل کیا جائے گا اور جو ضعیف کے قبیل سے ہو اسے چھوڑ دیا جائے گا۔

(8) شبہ : امام بخاری کی حدیث ماننا تقلید ہے ۔
جواب : امام بخاری کی جمع کردہ احادیث کا مجموعہ صحیح بخاری کو ماننا تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ تقلید کہتے ہیں قبول قول ینافی الکتاب والسنۃ کو یعنی کتاب وسنت کے منافی کسی کی بات ماننا تقلید کہلاتا ہے جبکہ صحیح بخاری میں موجود روایات تو وحی الہی اور سنت مطہرہ ہی ہیں اور آدمی کو وحی الہی کی پیروی کا حکم ہوا ہے ۔

(9) حدیث میں صحابہ کی پیروی کا حکم ہے اور اہل حدیث کے نزدیک صحابہ کا قول و فعل حجت نہیں جوکہ حدیث کے خلاف ہے ۔
جواب :  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کرو" (ترمذی:207/2
٭یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امور خلافت کی اقتداء کا حکم دیا ہے نہ کہ امور دین کی ۔
٭بہت سارے مسائل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اختلاف کیا ہے جیسا کہ کتب حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں تو انہوں نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی تقلید کیوں نہ کی؟ کیا آپ اس حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بغاوت کا فتوی لگا سکتے ہیں؟ 
٭ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مانعین زکاة سے جہاد کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف ہوا تھا لیکن جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دلائل دیے تو وہ مان گئےاور جہاد شروع کیا۔ کیا دلائل کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو تقلید کہتے ہیں؟ 
٭اگر حقیقتاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مقلد تھے تو آج کے مقلدین ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو چھوڑ کر آئمہ اربعہ کی تقلید کو کیوں واجب سمجھتے ہیں؟

(10) شبہ : نبی ﷺ نے حدیث پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے یا سنت پہ ؟
جواب : محدثین کے نزدیک سنت کی بھی اصطلاحی تعریف یہی ہے جو حدیث کی بیان ہوئی ہے (ارشاد الفحول للشوکانی مع تحقیق صبحی بن حلاق)
گویا سنت اور حدیث ایک ہی چیز کے دو مترادف نام ہے ، آپ ﷺ نے کا حکم سنت و حدیث دونوں کو شامل ہے اور دونوں ایک ہی ہیں ۔

(11) شبہ : اگر تمہارا عمل صحیح حدیث پر ہے تو نماز میں سینے پہ ہاتھ باندھنے کے متعلق صحاح ستہ سے کوئی صحیح حدیث پیش کرو۔
جواب : بخاری شریف کے علاوہ صحاح کی دیگر کتابوں میں کئی دلائل ہیں ، بطور نمونہ بخاری شریف سے سینے پہ ہاتھ باندھنے کی ایک دلیل ملاحظہ ہو۔
عن سهل بن سعد، قال:كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة۔(بخاری کتاب الأذان:باب وضع الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر740)
ترجمہ : سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازمیںدائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع''پررکھنے کاحکم دیاہے اور''ذراع'' کہتے ہیں''کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ کو''۔
اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا بخاری کی یہ حدیث سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔