Thursday, February 26, 2015

اذان کا جواب اور اس کے بعد کی دعا

اذان کا جواب اور اس کے بعد کی دعا

٭سب سے پہلے تو مؤذن کی اذان کا جواب دے اوراذان کا جواب ویسے ہی دینا ہے جیسے مؤذن کہتا ہے اس کی دلیل مندرجہ ذیل روایت ہے :

(إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول، ثم صلوا علي فإنه من صلى علي واحدة صلى الله عليه بها عشرا، ثم سلوا الله لي الوسيلة فإنها منـزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله وأرجو أن أكون أنا هو، فمن سأل لي الوسيلة حلت له الشفاعة) 
عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتےہوئے سنا :جب تم موذن (کی آواز) سنو تو بالکل ایسا ہی کہو جیسا موذن کہتا ہے، پھر مجھ پر درود بھیجو ، جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ہے ، اس پر اﷲ تعالیٰ اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہےاور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلے کا سوال کروکیونکہ یہ جنت میں ایک مقام ہے جس پر اللہ کا ایک بندہ فائز ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہوں، تو جس نے میرے لئے وسیلہ طلب کیا اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو گئی۔ (رواہ مسلم(
ایک دوسری روایت ہے ۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ:اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ،  حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ(بخاري)
جو شخص اذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھے:اللهم رب هذه الدعوة التامة، والصلاة القائمة، آت محمدًا الوسيلة والفضيلة، وابعثه مقامًا محمودًا الذي وعدته(اے اللہ! يہ دعوت تامہ اور قائم شدہ نماز ہے، تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما، اور انہیں مقام محمود پر فائز فرما، جس کا تونے ان سے وعدہ فرمایا ہے) تو قیامت کے دن اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔

* أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمداً رسول الله پہ پہلے اسی طرح جواب دے پھر یہ کلمہ کہے:"رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا" کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ﷺ نے فرمایا: من قال حين يجيب المؤذن عند الشهادة رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا، غفر له ذنبه.
ترجمہ : مؤذن جب أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمداً رسول الله کہے اور جو اس کے جواب میں کہے رضيت بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد رسولا تو اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔

* حی علی الصلاۃ اور حی الفلاح کا جواب "لاحول ولاقوۃ الاباللہ " دینا ہے .

*الصلاۃ خیر من النوم کا جواب الصلاۃ خیر من النوم ہی دیا جائے گا کیونکہ اس کا الگ سے جواب وارد نہیں ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کا جواب صدقت و بررت ہے ۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ کلمہ جس حدیث میں مذکور ہے وہ ضعیف ہے ۔

*اذان کا جواب دینے کے بعد درود شریف پڑھے :
اللهم صلي على محمد وعلى آل محمد كما صليت على آل إبراهيم إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد.

 *پھر یہ دعا پڑھے :
اللهم رب هذه الدعوة التامة, والصلاة القائمة آت محمداً الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاماً محموداً الذي وعدته(بخاری)

مقبول احمدسلفی






مکمل تحریر >>

Wednesday, February 25, 2015

وضو سے متعلق حدیث

وضو سے متعلق حدیث

عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " يا أبا هريرة إذا توضأت فقل بسم الله والحمد لله فإن حفظتك لاتزال تكتب لك الحسنات حتى تحدث من ذلك الوضوء " 
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ) سے روایت ہے کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان سے فرمایا:
اے ابو ہریرہ (رضی اللہ)! جب تم وضو کرو تو بسم اللہ والحمد للہ کہو لیا کرو ( اس کا اثر یہ ہوگا ) جب تک تمارا یہ وضو باقی رہے گا اس وقت تک تمارے محافظ فرشتے ( یعنی کتابین اعمال ) تمارے لئے برابر نکیاں لکھتے رہیں گے .( معارف الحدیث جلد ٣ صفحہ ٧٥ )

حضرت ابوہریرہ‏ؐرضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کو علامہ البانی ؒ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ‏ؐرضی اللہ عنہ سے وضو سے متعلق صحیح روایت یہ ہے ۔
عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم يقول: لا صلاة لمن لا وضوء له، ولا وضوء لمن لم يذكر اسم الله عليه. أخرجه أحمد وصححه الألباني.
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ‏ؐرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اس کی نماز نہیں جس نے وضو نہیں کیا، اور اس کا وضو نہیں جس نے اللہ کا نام نہیں لیا۔
اسے امام احمد نےتخریج کی ہے اور علامہ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔

مقبول احمد سلفی

مکمل تحریر >>

رزق کی کنجیاں

رزق کی کنجیاں
(1) توبہ و استغفار:
مراد : گناہوں پر نادم ہونا، اس کو چھوڑنا،اور آئندہ اس سے دور رہنے کا عزم کرنا۔
دلیل : قرآن کریم میں ہے ۔﴿فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (11) وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا﴾ (نوح: 10-12)
ترجمہ: پس میں (نوحؑ) نے کہا، اپنے رب سے گناہوں کی معافی طلب کرو،بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ، وہ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گااور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا،اور تمہارے لئے باغات پیدا کرے گا،اور نہریں نکالے گا۔

(2) تقوی:
مراد : اپنے آپ کو ہرگناہ سے بچانا۔
دلیل:اللہ تعالی نے فرمایا:  وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ )سورۃ الطلاق :2،3)
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (ہرمشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔

(3)توکل :
مراد:اس بات کا یقین رکھنا کہ کائنات میں سب کچھ تخلیق رزق، نفع ، نقصان،بیماری، موت اور زندگی، غرضیکہ ہرچیز تنہا اللہ تعالی کے حکم سے ہے ۔
دلیل : امام ترمذی نے حضرت عمربن خطاب  سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا: لوانکم توکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما ترزق الطیرتغدو خماصا وتروح بطانا(جامع الترمذی 7/7)

(4) توجہ اور دلجمعی سے عبادت:
دلیل:امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ  سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان اللہ تعالی یقول :یاابن آدم !تفرغ لعبادتی املا صدرک غنی، واسد فقرک وان لم تفعل ملات یدک شغلا ولم اسدک فقرک (جامع الترمذی 7/14)
ترجمہ: یقینا اللہ تعالی نے فرمایا:اے ابن آدم ! میری عبادت کے لئے خود کو فارغ کرویعنی توجہ اور دلجمعی سے میری عبادت کرو، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو ختم کردوں گا۔اور اگر تونے ایسا نہ کیاتو میں تیرے ہاتھ کاموں میں الجھا دوں گا اور تیری مفلسی ختم نہ کروں گا۔

(5) یکے بعد دیگرے حج و عمرہ:
دلیل : امام ترمذی نے حضرت ابن مسعود  سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تابعوا بین الحج والعمرۃ فانھما ینفیان الفقر والذنوب کما ینفی الکیر خبث الحدید و الذھب والفضۃ۔(جامع الترمذی 3/454)
ترجمہ :" حج اور عمرے کو ایک دوسرے کے بعد ادا کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں غربت اور گناہوں کواس طرح دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونےاور چاندی کے زنگ کو دور کرتی ہے "۔

(6)صلہ رحمی:
مراد: نسبی اور سسرالی قرابتداروں کے ساتھ احسان کرنا، ان کے ساتھ ہمدردی والا سلوک کرنا،اور ان کا خیال رکھنا۔
دلیل:امام بخاری ؒ نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من سرہ ان یبسط لہ فی رزقہ و ینسا لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ۔(صحیح البخاری 10/405)
ترجمہ: جو شخص اپنے رزق میں وسعت اور عمر میں اضافہ پسند کرے وہ صلہ رحمی کرے ۔

(7) انفاق فی سبیل اللہ :
مراد: دین کی رو سے پسندیدہ جگہوں میں خرچ کرنا۔
دلیل: اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ )سورة سبأ: 39)
ترجمہ : اور تم اللہ کی راہ میں جو خرچ کروگے وہ اللہ تعالی اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین زرق دینے والا ہے ۔

(8)دینی طلبہ پر خرچ کرنا:
دلیل : امام ترمذی نے انس بن مالک  سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے ایک حصول علم کی خاطر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھااور دوسرا حصول معاش کے لئے جدوجہد کرتا۔ حصول معاش کے لئے جدوجہد کرنے والے نے نبی ﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا:" لعلک ترزق بہ"
ترجمہ: شاید تمہیں اسی کی وجہ سے رزق دیا جارہاہے ۔(جامع الترمذی7/8)

(9)کمزوروں کے ساتھ احسان:
دلیل : امام بخاری نے مصعب بن سعد سے روایت نقل کی ہے کہ سعد نے خیال کیاکہ انہیں اپنے سے کمزور لوگوں پر فوقیت ہے تو اس پررسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ھل تنصرون و ترزقون الا بضعفائکم(صحیح بخاری 14/179)
ترجمہ: تمہاری مدد اور تمہیں رزق تو تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے ملتا ہے ۔

(10)اللہ تعالی کی راہ میں ہجرت :
مراد : دارالکفر سے دارالایمان کی طرف کوچ کرجاناجیساکہ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی گئی ۔
دلیل : اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً (سورۃ النساء : 100)
ترجمۃ : اور جو کوئی اللہ  کی راہ میں ہجرت کرے وہ زمین میں رہنے کی بہت جگہ اور (رزق میں) وسعت پائے گا۔

(11) نکاح
دلیل : امام بزار نے حضرت عائشہ  سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تزوجوا النساء یاتینکم بالاموال(مجمع الزوائد4/255)
ترجمہ: عورتوں سے شادی کرو،وہ تمہارے پاس مالوں کو لائیں گی۔


ماخوذ از رزق کی کنجیاں از پروفیسر ڈاکٹر فضل الہی
مکمل تحریر >>

Tuesday, February 24, 2015

کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ کرنا

کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ کرنا
-------------------
کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں،اس لئے از روئے شرع ایسا کرنا بدعت ہے۔فاتحہ خوانی میت کے لئے دی جاتی ہے جبکہ میت کو نہ تو کھانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس طرح ثواب پہنچانے کا طریقہ مشروع ہے ۔
میت کےایصال ثواب کے لئے بغیر دن کی تعیین کے کھانا فقراء و مساکین میں تقسم کردیا جائے ، یا روپئے پیسے بانٹ دئے جائیں ۔  
مکمل تحریر >>

تین سو بندے والی حدیث کی تحقیق

تین سو بندے والی حدیث کی تحقیق


عَنْ عَبْدِ اللہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ ﷺ، اِنَّ لِلہ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْخَلْقِ ثَلَاثُمِائَۃ قَلُوْبُہمْ عَلٰى قَلْبِ آدَمَ عَلَیہ السَّلَامُ، وَلِلہ فِی الْخَلْقِ اَرْبَعُونَ قُلُوْبُہمْ عَلٰى قَلْبِ مُوسٰى عَلَیہ السَّلَامُ، وَلِلہ فِی الْخَلْقِ سَبْعَۃ قُلُوْبُہمْ عَلٰى قَلْبِ إِبْرَاہیمَ عَلَیہ السَّلَامُ، وَلِلہ فِی الْخَلْقِ خَمْسَۃ قُلُوبُہمْ عَلٰى قَلْبِ جِبْرِیلَ عَلَیہ السَّلَامُ، وَلِلہ فِی الْخَلْقِ ثَلَاثَۃ قُلُوبُہمْ عَلٰى قَلْبِ مِیكَائِیلَ عَلَیہ السَّلَامُ، وَلِلہ فِی الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُہ عَلٰى قَلْبِ اِسْرَافِیلَ عَلَیہ السَّلَامُ ، (أخرجه أبو نعيم في " الحلية " (1/8 - 9) والذهبي في " الميزان ")

ترجمہ :حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہﷺ نے کہ اللہ کی مخلوق میں اللہ کے بندے تین سو ہیں جن کے دل حضرت آدم کے دل پر ہیں اور اللہ کی مخلوق میں چالیس ہیں جن کے دل حضرت موسیٰکے دل پر ہیں۔ اللہ کی مخلوق میں سات ہیں جن کے دل حضرت خلیل اللہ کے دل پر ہیں اور اللہ کی مخلوق میں پانچ ہیں جن کے دل حضرت جبرائیل کے دل پر ہیں اور اللہ کی مخلوق میں تین ہیں جن کے دل حضرت میکائیل کے دل پر ہیں اور اللہ کی مخلوق میں ایک ہے جس کا دل حضرت اسرافیل کے دل پر ہے.

اس حدیث کو بریلوی علماء قطب و ابدال پہ فٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی قطب وابدال نفع و نقصان کے مالک ہیں، وہ روزی بھی دیتے ہیں اور زندگی و موت بھی دیتے ہیں۔

یہ حدیث من گھڑت ہے ، لہذا اس سے استدلال کرنا غلط ہے ، مزید برآن ایسا کوئی عقیدہ بھی رکھتا ہے تو وہ مشرک ٹھہرے گا، اور دائرہ اسلام سے باہر ہوجائے گا۔

٭علامہ البانی نے اسے موضوع قرار دیا ہے ۔(السلسلۃ الضعیفۃ :2681)
٭علامہ ابن الجوزی نے "الموضوعات (3/150) میں ذکر کیا ہے ۔

٭ابوفرج نے کہا اس کی سند مظلم ہے ، اور اس کے اکثر رجال مجہول ہیں۔
مکمل تحریر >>

Monday, February 23, 2015

اذان کا جواب

اذان کا جواب

اذان کا جواب ویسے ہی دینا ہے جیسے مؤذن کہتا ہے لیکن حی علی الصلاۃ اور حی الفلاح کا جواب "لاحول ولاقوۃ الاباللہ " دینا ہے ، اس کی دلیل مندرجہ ذیل روایت ہے :
) إِذَا سَمِعتُمُ المُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثلَ مَا يَقُولُ ) رواه البخاري (611) ومسلم (318(
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے.

اور الصلاۃ خیر من النوم کا جواب الصلاۃ خیر من النوم ہی دیا جائے گا کیونکہ اس کا الگ سے جواب وارد نہیں ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کا جواب صدقت و بررت ہے ۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کیونکہ یہ کلمہ جس حدیث میں مذکور ہے وہ ضعیف ہے ۔
واللہ اعلم





مکمل تحریر >>

اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں رکھنا

اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں رکھنا

سنت سے یہ ثابت ہے کہ اذان دیتے ہوئے اپنی انگلی کو کان کے سوراخ میں داخل کرنا چاہیے ۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اسی طرح اذان دیتے تھے ۔
سیدنا ابو جحیفہ وہب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
رَأَيْتُ بِلَالًا يُؤَذِّنُ وَيَدُورُ وَيُتْبِعُ فَاهُ هَا هُنَا وَهَا هُنَا وَإِصْبَعَاهُ فِي أُذُنَيْهِ
میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا وہ اپنا چہرہ دائیں بائیں گھماتے تھے اور انکی انگلیاں انکے کانوں میں تھیں ۔(جامع ترمذی ابواب الصلاۃ باب ما جاء فی ادخال الاصابع فی الاذن عند الاذان ح ۱۹۷)
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیاہے ۔
اس سلسلہ میں ایک روایت ضعیف ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال رضی اللہ عنہ کو کانوں میں اُنگلیاں رکھنے کا حکم و امر کا ذکر ہے ۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اذان دیتے وقت کان میں انگلی ڈالنا ثابت نہیں ہے ، یہ کہنا درست نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ ﷺ کی قولی یا فعلی صحیح روایت نہیں مگر تقریری روایت ہے ۔
بعض لوگ  کان میں انگلی نہیں رکھتے یہ سنت کی مخالفت ہے ، بعض لوگ ایک کان میں انگلی دوسرا کان کھلا رکھتے ہیں یہ بھی مخالفت ہے اور اگر بعض لوگ اذان کے وقت سینے پر ہاتھ باندھتے ہیں تو بھی درست طریقہ نہیں کیونکہ ایسا کرنا ثابت نہیں ہے ۔

واللہ اعلم

مکمل تحریر >>

نماز تسبیح کا حکم

نماز تسبیح کا حکم

نماز تسبیح کے حکم میں اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیں پڑھنا جائز ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اسے پڑھنا جائز نہیں ہے ۔
آئیے ہم دیکھتے ہیں جس حدیث سے نماز تسبیح ثابت ہوتی ہے اس کا درجہ کیا ہے ۔
نماز تسبیح والی  حديث سیدنا عبد اللہ بن عباس(ابو داود:1297) کی روایت کے بارے میں اہل علم کے دو مختلف موقف پائے جاتے ہیں۔امام البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ،جبکہ شیخ ابن باز اور شیخ صالح العثیمین اسے ضعیف اور موضوع قرار دیتے ہیں۔اگر ان کے دلائل کو دیکھا جائے تو شیخ ابن باز اور شیخ صالح العثیمین کا موقف زیادہ وزنی نظر آتا ہے۔اور ہمارا رجحان بھی اسی طرف ہی ہے۔

واللہ اعلم 
مکمل تحریر >>

دم کرنے کے لئے تھوڑاسا تھوکنا

دم کرنے کے لئے تھوڑاسا تھوکنا

اس میں کوئی حر ج نہیں ہے۔ یہ جائز اوردرست ہے بلکہ علماء نے اسے مستحبّ قرار دیا ہے۔ یہ کام احادیث نبویہ کی روشنی میں محقق علماء کے ہاں صراحۃً ثابت ہے۔
چنانچہ امام بخاری نے ان الفاظ میں عنوان قائم کیاہے ’’دم کرنے کے لئے تھوڑاسا تھوکنا ‘‘پھر اس کے ذیل میں حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث درج کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
’’جب تم میں سے کوئی شخص خواب میں کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو بیدار ہونے پر تین مرتبہ دائیں طرف ہلکا ساتھوکے اوراس کے شر سے پناہ مانگے۔ تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گی‘‘۔-- صحیح البخاری، کتاب الطّب، باب النّفث فی الرّقیۃ۔حدیث: 5747--
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی ذکر کی ہے کہ :
’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بسترپرلیٹتے توقُلْ ہُوَا للّٰہُ اَحَدٌ اورمعوذتین پڑھ کردونوںہتھیلیوں پرہلکا ساتھوکتے پھردونوںکواپنے چہرے اورجسم پر جہاں تک پہنچتے ہاتھ پھیرلیتیے‘‘۔-- صحیح البخاری، کتاب الطّب، باب النّفث فی الرّقیۃ۔حدیث: 5748--
مزید انہوں نے حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ذکر کی ہے جس میں سورۃ فاتحہ کے ذریعے دم کرنے کا ذکر ہے۔ امام مسلم کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ :
’’انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کردی وہ اپناتھوک جمع کرکے آدمی پر ڈالتے رہے یہاں تک کہ وہ شفایا ب ہوگیا‘‘۔ -- صحیح البخاری، کتاب الطب، باب النفث فی الرقیۃ۔حدیث: 5749، صحیح مسلم، حدیث: 2201-- ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم دَم کرتے وقت یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے ‘‘۔
’’بِسْمِ اللّٰہِ تُرْبَۃُ أَرْضِنَا وَرِیْقَۃُ بَعْضِنَا ، یُشْفٰی سَقِیْمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا ‘‘۔
’’اللہ تعالیٰ کے نا م کے ساتھ ، ہماری مٹی اور ہمارے ایک شخص کی تھوک کے ذریعے ہمارے ربّ کے حکم پرہمارے مریض کو شفامل جائے‘‘۔-- صحیح البخاری، کتاب الطب، باب رقیۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم ۔حدیث: 5745-- ۔
امام نوووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے دم کرنے کے لئے تھوکنا مستحبّ ہے۔ اس کے جائز ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے جبکہ اکثر صحابہ کرام ، تابعین اور اسلاف اسے مستحبّ قراردیتے ہیں۔
امام بیضاوی کہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ لعاب دہن کا انسانی مزاج کے تحفظ اور ازالہ ضرر کے سلسلہ میں حیران کن اثر ہے۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ دم کرنے کے ایسے عجیب وغریب اثرات ہیں کہ عقل ودانش اس کی حقیقت تک پہنچے سرعاجزہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ نے زاد المعاد میں پھونک لگاکر دم کرنے کے اسراراور شرعی حکم پرطویل گفتگو کرنے کے بعد آخرمیںفرمایاہے کہ :
’’مختصریہ ہے کہ دم کرنے والے شخص کا روح ان بَدروحوں کا مقابلہ کرتاہے اورتکلیف کو دورکردیتاہے۔ اسے دم کرنے اورتھوکنے کے ذریعے ا س کا اثر کے زائل کرنے میںمدد ملتی ہے۔ ا س کا ان سے مددلینا ایسے ہی ہے جیسے ان گھٹیا روحوں سے ڈسنے سے مددلینا۔
تھوکنے میں ایک اورراز ہے اور وہ یہ ہے کہ اچھی اوربری تمام روحیں اس سے مدد حاصل کرتی ہیں۔ اس بناپر اہل ایمان کی طرح جادوگر بھی ایسے ہی کرتے ہیں ‘‘۔

بروایت مھنّا امام احمد کا فتویٰ یہ ہے کہ اگرکوئی شخص قرآن مجید کی تلاوت کسی برتن میں کرے پھراسے مریض کو پلادے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صالح کا بیان ہے کہ کئی مرتبہ ایسا ہواکہ میں بیمار پڑگیا تو میرے والد محترم نے پانی لے کردم کیا اور مجھے کہا کہ اسے پی لے اور اس سے چہرے اور ہاتھوں کو دھوڈال۔
مکمل تحریر >>

Saturday, February 21, 2015

پانی پر دم کرنے کا حکم

پانی پر دم کرنے کا حکم

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر -طائف

پانی پر پھونک مارنے کی دو قسمیں ہيں ، ایک قسم جائز ہے اور ایک قسم ناجائز ۔
پہلی قسم :ایک پھونک مارنا تبرکاً ہے جو عموماً صوفیوں کے یہاں پایا جاتا ہے ،اس سے وہ برکت لیتے ہیں جبکہ نبی ﷺ کے علاوہ کسی کے آثار یا تھوک وپھونک سے برکت لینا  حرام اورشرک کے قبیل سے ہے ۔
دوسری قسم :شرعی دم جسے عربی میں رقیہ شرعیہ کہتے ہیں وہ جائز ہے ،اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی مسنون دعائیں پڑھ کر جسم پر پھونک مارے ، اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ ماثورہ دعائیں اور قرآنی آیات پڑھ کر آدمی پانی پر دم کرے اور اس کو پئے یا  استعمال کرے۔اس کا ثبوت نبی ﷺ کے علاوہ صحابہ وتابعین وغیرہ سے ملتا ہے مگر یہ نہیں صحیح ہے کہ کاغذ پرکچھ لکھ کر پانی میں تحلیل کرے اورمریض کو اسے پئے ۔
دوسری قسم سے متعلق میں یہاں کچھ دلائل ذکر کرتا ہوں جن سے یہ معلوم ہوگا کہ قرآنی آیات ومسنون دعائیں پڑھ کر پانی پر پھونک سکتے ہیں ، اسے مریض کو پلاسکتے ہیں اور اس سے غسل بھی کراسکتے ہیں ،اس میں اللہ کی طرف سے شفا ہے ۔
 (1) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ كُلَّ لَيْلَةٍ جَمَعَ كَفَّيْهِ ثُمَّ نَفَثَ فِيهِمَا فَقَرَأَ فِيهِمَا ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) وَ ( قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ) وَ ( قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ) ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا مَا اسْتَطَاعَ مِنْ جَسَدِهِ يَبْدَأُ بِهِمَا عَلَى رَأْسِهِ وَوَجْهِهِ وَمَا أَقْبَلَ مِنْ جَسَدِهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ(صحیح بخاری: 5017 )
ترجمہ: نبی کریم ﷺ جب اپنے بستر پر آرام کرتے تو ہر شب اپنے دونوں ہاتھ اکٹھے کر کے ان پر ’قل ہو اللہ احد‘ ’قل اعوذ برب الفلق‘ اور ’قل اعوذ برب الناس‘ پڑھ کر دم کرتے اور پھر دونوں ہتھیلیوں کو جہاں تک ممکن ہوتا اپنے جسم پر پھیر لیتے۔ پہلے سر، چہرے اور بدن کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے اور ایسا تین مرتبہ کرتے تھے۔
طریقہ  استدلال : نبی ﷺ کا دونوں ہاتھوں پر پھونک مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ پانی یا تیل پر بھی پھونک مارسکتے ہیں جیساکہ بدن پر۔ اگر کسی چیز پرپھونک سرے سے ممنوع ہوتی تو ہاتھ پر بھی ممنوع ہوتی۔
(2) حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
كنا نَرْقي في الجاهليةِ . فقلنا : يا رسولَ الله ِكيف ترى في ذلك ؟ فقال " اعرِضوا عليَّ رُقاكم . لا بأسَ بالرُّقى ما لم يكن فيه شِركٌ " .(صحيح مسلم:2200)
ترجمہ:ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :اپنے دم کے کلمات میرے سامنے پیش کرو دم میں کو ئی حرج نہیں جب تک اس میں شرک نہ ہو۔
طریقہ استدالال : یہ روایت عام ہے ، دم اگر شرکیہ قول سے پاک ہوتو پانی ، تیل اور ہاتھ وجسم سب پر پڑھ کر پھونک مارسکتے ہیں ۔
 (3) عن علي - رضي الله عنه - قال : ( لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي فلما فرغ قال :" لعن الله العقرب لا تدع مصليا ولا غيره " ثم دعا بماء وملح وجعل يمسح عليها ويقرأ بـ } قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَافِرُونَ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ { و } قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ { ( السلسلة الصحيحة: 548 )
ترجمہ:حضرت علی ؓسے مروی ہے انہوں نے کہاکہ نبیﷺ نماز ادا فرمارہے تھے ایک بچھو نے آپکو ڈنک لگادیا,آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بچھو پر لعنت کرے جو نہ نبی کو نہ کسی دوسرے کو چھوڑتا ہے۔ پھر آپ نے پانی سے بھرا ہوا ایک برتن طلب فرمایا جس میں نمک آمیز کیا ہوا تھا اور آپ اس ڈنک زدہ جگہ کو نمک آمیز پانی میں برابر ڈبوتے رہے اور قل ھو اللہ احد اور معوذ تین پڑھ کر اس پر دم کرتے رہے یہاں تک کہ بالکل سکون ہوگیا۔
٭اس روایت کو علامہ البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ میں ذکر کیا ہے ۔
طریقہ استدلال : اس روایت سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے پانی پر دم کیا ہے ،وہ اس طرح کہ جہاں بچھو نے ڈنک مارا تھا اس جگہ نبی ﷺ  نمک آمیز پانی انڈیل کر اسی پانی کی جگہ پھونک مار رہے تھے ۔ برتن میں پانی رکھ کر اس پر پھونکنا یا پانی کسی جگہ گراکر اس پر پھونکنا دونوں برابر ہے ۔
(4) عن رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أنَّهُ دخلَ علَى ثابتِ بنِ قيسٍ - وَهوَ مريضٌ - فقالَ اكشفِ البأسَ ربَّ النَّاسِ عن ثابتِ بنِ قيسِ بنِ شمَّاسٍ ثمَّ أخذَ ترابًا من بَطحانَ فجعلَهُ في قدَحٍ ثمَّ نفثَ عليهِ بماءٍ وصبَّهُ عليهِ(سنن أبي داود:3885)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاں آئے جبکہ وہ مریض تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے لوگوں کے پالنے والے ! اس تکلیف کو ثابت بن قیس بن شماس سے دور فرما دے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی بطحان کی مٹی لی ,اسے ایک پیالے میں ڈالا  پھر اس پر پانی پھونک کر ڈالا اور پھر اسے اس پر چھڑک دیا ۔
اس کی سند میں ایک راوی محمد بن یوسف ہیں جس کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا گیا حالانکہ ابن حبان نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے اور
حافظ ابن حجر ؒنے مقبول کہا ہے نیز اس روایت کو بطور استدلال فتح الباری  کتاب الطب ، باب رقیۃالنبی ﷺمیں درج بھی کیا ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے جید کہا ہے ۔(الفوائد العلمية من الدروس البازية: 2/472)
اس روایت کا ایک شاھد بھی ہے جس سے اسےتقویت ملتی ہے جسے شیخ البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
الحمَّى من فيحِ جهنمَ فأبرِدوها بالماءِ فدخل على ابنٍ لعمارٍ فقال اكشِفْ الباسَ ربَّ الناسِ إلهَ الناسِ(صحيح ابن ماجه:2814)
ترجمہ: بخار جہنم کی بھاپ ہے، لہٰذا اسے پانی سے ٹھنڈا کرو ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمار کے ایک لڑکے کے پاس تشریف لے گئے ( وہ بیمار تھا ) اور یوں دعا فرمائی: «اكشف الباس رب الناس إله الناس» لوگوں کے رب، لوگوں کے معبود! ( اے اللہ ) تو اس بیماری کو دور فرما ۔
طریقہ استدلال : اس روایت میں صاف مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے پہلے پانی پر دم کیا پھر وہ دم شدہ پانی وادی بطحان کی مٹی میں ملایا اور مریض پر جھڑک دیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دم شدہ پانی سے مریض کو غسل بھی دے سکتے ہیں ۔
(5) بخاری شریف میں ایک صحابی اور ان کی اہلیہ کا نبی ﷺ کے لئے  خندق کے موقع سے کھانا پکانے کا ذکر ہے ، اس کا چند ٹکڑا یہاں پیش کرتا ہوں ۔
فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( لاتنزلن برمتكم، ولا تخبزن عجينتكم حتى أجيء ) . فجئت وجاء رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقدم الناس حتى جئت امرأتي، فقالتْ : بك وبك، فقُلْت : قد فعلت الذي قُلْت، فأخرجت له عجينا فبصق فيه وبارك، ثم عمد إلى برمتنا فبصق وبارك(صحيح البخاري:4102)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تک میں نہ آؤں تم ہانڈی چولہے پر سے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹیاں بنانا یہ سن کر میں ( گھر میں) آیا اور نبیﷺ لوگوں کو اپنے پیچھے لئے ہوئے آپﷺ آگے تشریف لائے ۔میں اپنی بیوی کےپاس آیاتووہ مجھے برابھلا کہنےلگیں۔میں نے کہا کہ تم نے جوکچھ مجھ سے کہا تھا میں نے حضور اکر م ﷺ کےسامنے عرض کردیا تھا۔آخر میری بیوی نےگندھا ہوا آٹا نکالا اور حضورﷺ نے ا س میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کردی اور برکت کی دعا کی پھر ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی ۔
طریقہ استدلال : اس حدیث میں صراحت موجودہے کہ نبی ﷺ نے اپنے لعاب کو گندھے ہوئے آٹے اور گوشت کی ہانڈی میں ملایا اور پھر برکت کی دعا کی ,جب آٹے اور گوشت میں لعاب کی آمیزش کرسکتے ہیں تو مسنون دعائیں پڑھ کر پانی پر بدرجہ اولی پھونک مار سکتے ہیں ۔
(6) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
كانَ : يتنفَّسُ في الإناءِ ، ثلاثًا وزعمَ أنسٌ أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يتنفَّسُ في الإناءِ ، ثلاثًا(صحيح ابن ماجه:2775)
ترجمہ: وہ برتن میں تین بار سا نس لیتے تھے ۔ اور انس ؓ نے بیا ن فرما یا کہ رسو ل اللہ برتن میں تین بار سانس لیتے تھے ۔
طریقہ استدلال : جہاں آپ ﷺ نے برتن میں سانس لینے سے منع کیا ہے وہیں آپ سے برتن میں سانس لینا بھی ثابت ہے توبرتن میں سانس لینے سے پانی پر دم کرنا استدلال کیا جاسکتا ہے ۔
(7) مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پانی پر دم کرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے ۔
عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّهَا كَانَتْ لا تَرَى بَأْسًا أَنْ يُعَوَّذَ فِي الْمَاءِ ثُمَّ يُصَبَّ عَلَى الْمَرِيضِ (مصنف ابن أبي شيبة» كِتَابُ الطِّبِّ :رقم الحديث: 22895)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے یہاں اس میں کوئی حرج نہیں کہ پانی میں دم کیا جائے پھر اسے مریض پر بہایا جائے ۔
ان تمام ادلہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پانی پر دم کیا جاسکتا ہے اسی لئے اسلاف سے یہ عمل منقول  بھی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بعض علماء نے اس کے عدم جواز کا بھی فتوی دیا ہے مگر بہت سارے جید علماء نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے ۔
٭امام احمد بن حنبل کے بیٹے صالح فرماتے ہیں۔
بما اعتللت فيأخذ أبي قدحاً فيه ماء، فيقرأ عليه، ويقول لي: اشرب منه، واغسل وجهك ويديك. ونقل عبد الله أنه رأى أباه (يعني أحمد بن حنبل) يعوذ في الماء، ويقرأ عليه ويشربه، ويصب على نفسه منه(الآداب الشرعیۃ والمنح المرئیۃ:2/456)
ترجمہ: جب میں بیمار ہوتا تو میرے باپ پانی کا پیالہ لیتے اور اس پر پڑھتےاور مجھے کہتے کہ اس پانی میں سے پی لو اور اپنے ہاتھوں اور منہ کو دھو لو۔اس کے بعد فرماتے ہیں کہ میں اپنے باپ کو دیکھا کہ وہ پانی پر دم کرتے اور اس پر پڑھتے ،پھر اسے پی لیتے اور اپنے اوپر بہا لیتے تھے۔
٭محمدبن مفلح کہتے ہیں: عبداللہ نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو پانی میں پڑھ کر پیتے ہوئے اور اپنے اوپر ڈالتے ہوئے دیکھا۔( الآداب الشرعية – 2 / 441 )
٭شیخ الاسلام ابن القیم لکھتے ہیں: ایک وقت میں مکہ میں بیمار تھا ، میں ڈاکٹر اور دوا سے محروم تھاتو میں سورہ فاتحہ سے علاج کرتا تھا، اس کا طریقہ یہ تھا کہ زمزم کا پانی لیتا اور اس میں برابر سورہ فاتحہ پڑھتااور پھر اسے پیتا، تو مجھے اس سے مکمل شفا مل گئی۔ (زاد المعاد ج3 ص 188)
٭ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے جب کسی نے پانی اور تیل پر قرآن ومسون دعائیں پڑھ کر دم کرنے اور مریض کو پلانے اور غسل دینے کی بابت سوال کیا گیا تو شیخ نے فرمایا :
لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به۔(موقع بن باز ڈاٹ آرگزڈاٹ ایس اے)
ترجمہ: پانی کے ساتھ دم جسے مریض پی لے یا اس سے غسل کرلے اس میں کوئی حرج نہیں ،دم براہ راست مریض پر پھونک کر بھی ہوتا ہے ، اور پانی پر دم بھی ہوتا ہے جو مریض کو پلایا جائے اس پر چھڑکا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
٭ اکثروبیشتر علمائے کرام نے جادو کے علاج کے تحت پانی پر دم کرنا ذکر کیا ہےاور سحر زدہ شخص پہ علماء ہوں یا عاملین یہی عمل متواتر کرتے ہیں یہاں تک کہ اکثر کو  اللہ کی توفیق سے سحر سے نجات مل جاتی ہے ۔
ایک شبہ کا ازالہ :
احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے پانی پہ پھونکنے سے بھی منع کیا ہے، اسی سبب بعض علماء نے پانی اور تیل وغیرہ پر دم کرنے سے منع کیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء (صحیح البخاری :5630)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی پانی پئے تو برتن میں نہ سانس لے۔
اس حدیث میں سانس لینے کی ممانعت ہے ، ایک حدیث میں پھونکنے کی ممانعت ہے ، وہ اس طرح سے ہے۔
عن ابنِ عبَّاسٍ قالَ : نَهى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ أنْ يُتنفَّسَ في الإناءِ ، أو يُنفَخَ فيهِ(صحيح أبي داود:3728)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے یا اس میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عام پینے والے پانی میں سانس لینے یا اس میں پھونک مارنے کی ممانعت ہےکیونکہ حدیث میں پینے کے لفظ کے ساتھ ممانعت وارد ہے لیکن جس پانی پر دم کرنا ہو وہ مستثنی ہے  یعنی دم کرتے وقت پانی پر پھونک مار سکتے ہیں جیساکہ اوپر کئی روایات ذکر کی گئی ہیں ۔
آج سائنسی علوم سے پتہ چلتا ہے کہ پھونک سے جراثیم خارج ہوتے ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ہیں مگر قرآن کریم یا مسنون اذکار پڑھنے سے ایک قسم کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اسی لیے پھونک مریض کے لئے نفع بخش ہے ، اگر پڑھ کر پھونکنے سے بھی نقصان کا پہلو نکلتا تو مریض کو شفا نہ ملتی جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ مریض کے جسم پر یا پانی پر دم کرکے مریض کو پلایا جائے فائدہ مند ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے بندوں پربہت بڑا احسان ہے ۔بغیر پڑھے پھونکنا اور وہ کتاب پڑھ کے پھونکنا جسے شفا قرار دیا گیا ہے دونوں میں بڑا واضح فرق ہے ۔بنابریں یہ کہا جائے گا کہ پانی پر پڑھ کر دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پانی پیتے وقت بغیر پڑھے پھونکنا منع ہے اور سلف نے دم والی احادیث سے یہی مفہوم سمجھا ہے ، اس پر ان کا عمل بھی رہا ہے  اور نصوص کو سمجھنے کے لئے سلف کی فہم مقدم ہے ۔
امام احمد بن حنبلؒ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ، حافظ ابن کثیر ؒاور شیخ ابن بازؒ وغیرھم کے علاوہ شیخ صالح عثیمین ،عبدالله بن عبدالرحمن الجبرين, عبدالعزيز القحطاني,نووي, محمد بن ايراهيم آل الشيخ, صالح بن فوزان الفوزان, عبدالعزيز الراجحي, الشيخ صالح بن عبدالعزيز آل الشيخ,شیخ محمد بن ابراہیم اور جمہور اہل علم پانی پر دم کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔


مکمل تحریر >>