Monday, November 17, 2014

عورتوں کا دینی تعلیم حاصل کرنا

عورتوں کا دینی تعلیم حاصل کرنا


 عورتوں کی تعلیم سے پہلے یہ قاعدہ بھی یاد رکھیں کہ جو جو امور مردوں کے حق میں ثابت ہیں ،وہ وہ امور عورتوں کے حق میں بھی ثابت ہیں الا یہ کہ تفریق کی کوئی دلیل مل جائے،جیسا کہ اسفارکے تعلق سے  ہے کہ مرد اکیلے سفر کرسکتا ہے مگر عورت بلامحرم سفر نہیں کرسکتی، یہ قاعدہ دین کےتمام امورمیں ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا تعلیم حاصل کرنا صرف مردوں کے ساتھ مختص ہے یا عورتیں بھی اس میں شریک ہیں۔ تو اس سلسلے میں قرآن و سنت سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اس حکم میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی شریک ہیں کیونکہ تعلیم کے حکم پر مبنی تمام نصوص میں عموم پایا جاتا ہے جو مرد اور عورتوں دونوں کو شامل ہیں،اور کسی نص میں بھی مرد اور عورتوں کے درمیان تفریق نہیں پائی جاتی۔
لہذا معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی دین کی تعلیم حاصل کرنا فرض ہے، اب تعلیم حاصل کرنے کی جو شکل ہے اس میں یہ دیکھنا ہے کہ شرعی حدودوقیود کی پابندی ہے کہ نہیں ،  مثلا تعلیم گاہ غیرمخلوط  ہونا، ہاسٹل کا انتظام وانصرام شرع کے دائرے میں ہونا وغیرہ ۔۔۔
عورتوں کی تعلیم سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے۔
’’ واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکنّ من آیات الله والحکمة‘‘ (سورة الاحزاب : 34/ 22)
ترجمہ : اور یاد کرو جو پڑھی جاتی ہیں تمہارے گھروں میں الله کی باتیں اور عقلمندی کی –
یہی وجہ ہے کہ اسلاف کے زمانہ میں مردوں کے ساتھ ساتھ متعدد اہل علم اور فقیہہ خواتین کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ خیر القرون ہی کے زمانہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو بہت سی فقیہہ اور حدیث نبوی کو نقل کرنے والی صحابیات کے نام ہمیں صفحۂ تاریخ میں ملتے ہیں۔
٭ حضرت عائشہ کا علمی مقام تاریخ میں مسلم ہے۔
٭ان کے علاوہ اور صحابیات مثلاً دیگر ازدواج مطہراتؓ، حضرت ام سلیمؓ، حضرت ام حرامؓ ، حضرت ام عطیۃؓ ، حضرت ام کرزؓ ، حضرت ام شریکؓ، حضرت ام الدرداء ؓ، حضرت ام خالدؓ، حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، حضرت فاطمہؓ بنت قیس، حضرت بسرۃ ؓ وغیرہ کے نام علم و فقہ اور روایت حدیث میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
٭ اسی طرح ہر زمانہ میں عورتیں علم و فضل سے وابسہ رہی ہیں، علامہ ابن خلکان نے ’’شہرہ بنت ابی نصر (متوفہ ۵۷۴ھ ؁ ) کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ بہت ہی جید عالمہ تھیں، انہوں نے بڑے بڑے علماء اور محدثین سے علم حاصل کیا اور ان سے بہت سے تشنگان علوم نے استفادہ کیا۔
٭ علامہ مقریزی نے ’’نفح الطیب‘‘ میں عائشہ بنت احمد قرطبیہ (متوفیہ ۴۰۰ھ؁ ) کے بارے میں لکھا ہے کہ اندلس میں علم، فہم، ادب، شعر اور فصاحت میں کوئی ان کے برابر نہیں تھا۔
٭ امام ابو جعفر طحاوی کی کتاب ’’طحاوی‘‘ کا املاء خود ان کی دختر نے کیا جو کہ ایک بڑی عالمہ تھیں۔
اس مختصر کلام سے عورتوں کی تعلیم کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ صالح معاشرہ کی تعمیر ہوسکے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔