میت کی طرف سے عمرہ کرنا
فقہائے کرام نے فی الجملہ دوسرے کی طرف سے عمرہ کرنےکو جائز قرار دیا ہے، اس لیے کہ عمرہ حج کی طرح بدنی عبادت ہونے کے ساتھ مالی عبادت بھی ہے اورشریعت میں مالی عبادت کی دوسرے کی جانب سے انجام دہی کو جائز قرار دیاگیا ہے۔ البتہ اس کی تفصیلات میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے عمرہ کرنا اس وقت صحیح ہوگا جب وہ ایسا کرنے کو کہے۔ مالکیہ کے نزدیک دوسرے کی طرف سے عمرہ مکروہ ہے، لیکن اگر کرلیاجائے تو ادا ہوجائے گا۔ شوافع کہتےہیں کہ دوسرے کی طرف سےعمرہ کرنا اس وقت صحیح ہے جب اُس شخص پر عمرہ واجب رہا ہو اور اس کی ادائی سے قبل اس کا انتقال ہوگیا ہو، یا نفلی عمرہ وہ خود نہ کرسکتا ہو۔ حنابلہ کہتے ہیں کہ کسی میت کی طرف سے عمرہ کیا جاسکتا ہے، البتہ کسی زندہ شخص کی طرف سے عمرہ اس وقت صحیح ہوگا جب اس نے ایسا کرنے کو کہا ہو۔( تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۳۲۸/۳۰۔۲۳۹)
ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔