Wednesday, December 24, 2025

خریدوفروخت کے آداب و احکام

 

خریدوفروخت کے آداب و احکام

تحریر: مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، السلامہ- سعودی عرب

مذہب اسلام کی تمام ترتعلیمات پاکیزہ اصولوں پر مبنی ہیں، تجارت ومعیشت سے متعلق پیس کئے گئے اسلامی احکام بھی سنہرے اور پاکیزہ اصول پر مبنی ہیں، جن کا سطور ذیل میں تعارف پیش کیا جائے گا۔ اللہ رب العزت جو ہمارا بنانے والا ہے، وہ ہمارے بارے میں بہتر جانتا ہے اس وجہ سے اس نے زندگی گزارنے کے جو بھی اصول بتائے فطرت کے عین مطابق، انسانیت کے حق میں سراسر مفید ہیں۔

اصولی طور پر اسلام میں بیع (کاروبار) کی اجازت ہے اور سودخوری کی ممانعت ہے بلکہ سودخوری اور سودخوروں سے متعلق سخت وعیدیں آئی ہوئی ہیں ان کے ذکر کا یہ موقع نہیں ہے۔ اس بارے میں ایک وعید بیان کردینا ہی کافی ہے۔ اللہ تعالی بیان فرماتا ہے:

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة:275)

ترجمہ: سود خور نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے، یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اللہ تعالیٰ کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف) لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے۔

مشرکین سود کھاتے تھے اور سود کو بیع(کاروبار) کی طرح حلال سمجھتے ہیں ، اللہ تعالی نے سودخوری کا اخروی انجام بیان کیا اور ساتھ ہی بتایا کہ خریدوفروخت کرنا حلال ہے اور سود حرام ہے ۔ آپ غور گے تو معلوم ہوگا کہ کاروبار اور سود کے درمیان کافی فرق پائے جاتے ہیں تاہم ان دونوں کے درمیان یہاں دو فرق ذکرکرتا ہوں۔

پہلا فرق یہ ہے کہ بیع میں ایک چیز کا دوسری چیز سے تبادلہ ہوتا ہے جبکہ سود میں تبادلہ کی صورت نہیں ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ بیع میں نفع و نقصان دونوں کا اندیشہ ہے مگر سود میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ہے بلکہ متعین طور پر منافع آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے سود کو حرام قرار دیا ہے بنابریں ہر وہ تجارت اور کاروبار جس میں سودی معاملہ پایا جاتا ہوشرعی نقطہ نظر سے حرام ہے۔ جہاں تک بیع وشراء کا معاملہ ہے تو اس میں  اصل اباحت ہے تاہم اسلام نے اس کے کچھ اصول وضوابط دئے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے خریدوفروخت کرنا چاہئے۔

اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے بنیادی طور پر تین اہم باتوں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔

(1)اللہ تعالی نے مردوں کو عورتوں کا حاکم مقرر کیا ہےجیساکہ اللہ کا فرمان ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ(النساء:34)

ترجمہ:مرد عورت پر حاکم ہے اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں۔

اللہ نے مردوں کو دو حیثیت سے عورتوں کا حاکم قرار دیا ہے، ایک حیثیت تو یہ ہے کہ مرد تخلیقی اعتبار سے وہ صلاحیت رکھتا ہے جس سے وہ گھر اور قوم وملت کی سربراہی کرسکتا ہے اور اس کا انتظام وانصرام کرسکتا ہے۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ مردوں کے ذمہ کسب معاش کی ذمہ داری ہے، عورت کو اسلام نے کسب معاش سے آزاد کردیا ہے، مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروالوں کے لئے کمائے اور ان کی ضروریات پوری کرے۔ اللہ نے مردوں کے لئے اس کی محنت میں اجر بھی رکھا ہے چنانچہ اس مقام پر دواحادیث پیش کرتا ہوں۔

عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ(صحيح البخاري:55)

ترجمہ:جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پس وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ(صحیح مسلم:995)

ترجمہ:ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن (کی آزادی) کے لیے خرچ کیا، ایک دینار وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا، ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا۔

جب گھروالوں پر خرچ کرنے سے صدقہ کا اجر ملتا ہے اور اجر بھی  بہت عظیم درجہ والا ملتا ہے پھر کسی مرد کو اپنے گھروالوں پر خرچ کرنے میں دلی تنگی محسوس نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی ان کے لئے کسب معاش سے کسی قسم کی حوصلہ شکنی کا شکار ہونا چاہئے۔ بس وہ اپنے دل میں گھروالوں پر خرچ کرنے میں اجر کی نیت کرلے۔

(2)ایک طرف اسلام مردوں کے ذمہ گھروالوں کی معاشی کفالت ڈالتا ہے تودوسری طرف سماج میں موجود فقراء ومساکین ، ضرورت مند اور یتیم ونادارکی دیکھ ریکھ پر ڈھیروں اجروثواب بیان کرتا ہے اور انفاق فی سبیل کے لئے کسب معاش کی ترغیب دیتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے فرامین پر سر فہرست عمل کرنے والے صحابہ کرام نے بڑی محنت اور ایمان داری کے ساتھ تجارت کیااور حصول معیشت کے لئے محنت وجتن کئے تاکہ وہ گھروالوں کے ساتھ دوسرے ضرورت مند مسلمانوں کے لئے  اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرسکے ۔ اس جگہ چند ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں، ان میں سب سے پہلے ایک خاتون کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتاہے کہ اجر کی نیت سے  مال خرچ کرنے والوں میں عورتیں بھی پائی جاتی ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَسْرَعُكُنَّ لَحَاقًا بِي أَطْوَلُكُنَّ يَدًا، قَالَتْ: فَكُنَّ يَتَطَاوَلْنَ أَيَّتُهُنَّ أَطْوَلُ يَدًا، قَالَتْ: فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يَدًا زَيْنَبُ، لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ بِيَدِهَا وَتَصَدَّقُ(صحیح مسلم:2452)
ترجمہ:تم میں سب سے جلدی میرے ساتھ آملنے والی (میری وہ اہلیہ ہو گی جو) تم میں سب سے لمبے ہاتھوں والی ہے۔انہوں نے کہا: ہم لمبائی ناپا کرتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انہوں نے کہا: اصل میں زینب ہم سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی تھیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرتیں اور (اس کی اجرت) صدقہ کرتی تھیں۔

اب صحیح بخاری(3780) کے حوالے سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا واقعہ پڑھیں جو ہجرت کرکے مدینہ آئے تو ساتھ میں کچھ نہیں تھا۔ جب سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ اپنے مال سے اور بیوی سے حصہ دینے لگے تو انہوں نے کہا مجھے باراز کا راستہ دکھاؤ۔ اس طرح وہ گھی اور پنیر سے کاروبار شروع کرتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں نفع کماکر شادی بھی کرلئے۔طبقات ابن سعد وغیرہ میں آپ کی مالداری کی تفصیل مذکورہے، آپ بڑے مالدار صحابہ میں سے ہیں، جب آپ کی وفات ہوئی تو سیکڑوں کی تعداد میں جانور چھوڑے ، اس قدر سونا چھوڑا کہ کاٹنا پڑا، چار بیویاں تھی، ہرایک کے حصے میں اسی اسی ہزار درھم آئے۔

اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ بھی کافی مالدار تھے، ان کی سخاوت کافی مشہور ہے، تبوک کے موقع پر رسول اللہ کی گود میں ایک ہزار دینار رکھ لئے ، اسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ الٹتے پلٹے اور کہہ رہے تھے۔

مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ مَرَّتَيْنِ(سنن ترمذي:3701)

ترجمہ:آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ایسا آپ نے دو بار فرمایا۔

ایک طرف صحابہ کرام کا کسب معاش کے لئے جتن اور راہ خدا میں فیاضی کے ساتھ خرچ کرنا دیکھتے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دین اور دولت میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے تو مال پر دین کو ترجیح دیتے ہوئے پاتے ہیں۔ صہیب رومی رضی اللہ عنہ جب مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے لگے تو قریش نے آپ کا راستہ روک  لیا اور کہا کہ جب تم ہمارے پاس آئے تو کچھ نہیں تھا، ہمارے یہاں آکر ہم سے ہی تم نے سب کچھ کمایا ہے، تم ہمارے پاس سے بھاگ کرمحمد کے پاس کیسے جاسکتے ہو؟ صہیب رضی اللہ عنہ کے کہا کہ اگر میں اپنا سارا مال چھوڑ دوں تو تم جانے دوگے ۔ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال چھوڑ کر مدینہ آگئے۔ جب یہ خبر محمد ﷺ کو معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ صہیب نے نفع بخش تجارت کی ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس جگہ تجارت کہاں ہے جس کو آپ ﷺ نے نفع بخش تجارت کہا ۔ اصل میں مومن جب دین کے لئے مال قربان کرتا ہے تو اس کے بدلے آخرت میں اپنا حصہ متعین کرلیتا ہے۔ اسی سے متعلق اللہ رب العالمین کا یہ فرمان ہے:

إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ(التوبہ:111)

ترجمہ:بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔

لہذا کاروبار پر ہمیشہ دین کو ترجیح دینا چاہئے، اور کاروبار کے لئے کبھی بھی دین کا سودا نہیں کرنا چاہئے۔

(3)یہاں ایک تیسری اہم بات یہ ہے کہ ہرمسلمان کو جیسے نماز وروزہ اور دین کے مبادیات کا علم ہونا چاہئے اسی طرح تجارت اور کاروبار کے احکام معلوم ہونا چاہئے۔ بائع اور مشتری دونوں کو احکام تجارت معلوم ہونا چاہئے تاکہ بیچنے والا صحیح سے اور صحیح چیز کی تجارت کرے اور خریدنے والا صحیح سے صحیح چیز خریدے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لَا يَبِعْ فِي سُوقِنَا إِلَّا مَنْ قَدْ تَفَقَّهَ فِي الدِّينِ(سنن ترمذي:487)

ترجمہ: ہمارے بازار میں کوئی خرید و فروخت نہ کرے جب تک کہ وہ دین میں خوب سمجھ نہ پیدا کر لے۔

تاریخ میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کے بازاروں میں دکانداروں سے تجارت کے احکام پوچھے جاتے، اگر وہ بتادئے تو ٹھیک ورنہ اسے یہ کہہ کر بازار سے نکال دیا جاتا کہ تم لوگوں کو سود اور ناجائز مال کھلائے گا۔

تین بنیادی باتوں کے بعد اب کاروبار کے کچھ آداب بیان کرتا ہوں ۔

(1)کاروبار کرتے وقت سب سے پہلے اپنی نیت خالص کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ ایک کاروباری کا معاملہ کئی افراد سے جڑا ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کی غلط کمائی اور غلط کاروبار سے کئی لوگ متاثر ہوسکتے ہیں، خود اس کو دنیا وآخرت میں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لہذا ایک کاروباری حلال طریقے سے کمانے کی نیت کرےتاکہ وہ خود بھی حلال کھائے ، گھر والوں کو بھی حلال کھلائے اور دوسرے لوگوں کو بھی حلال روزی فراہم کرے۔ آج لوگ رونا روتے ہیں کہ کاروبار میں برکت نہیں ہے، مال میں ترقی نہیں ہورہی ہے یا گھر اور زندگی میں طرح طرح کی مشکلات ہیں۔ ان سب باتوں کے لئے یاد رکھے کہ دھوکہ دینے، بے ایمانی کرنے ، حرام چیزوں کی تجارت کرنے اور ناجائز طریقوں پر کاروبار کرنےسے  مال سے برکت اٹھ جاتی ہے حتی اس کا برااثر انسانی زندگی پر بھی مرتب ہوتا ہے۔

اللہ کا فرمان دیکھیں:

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (البقرہ:276)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گناہگار سے محبت نہیں کرتا۔

اسی طرح حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا، بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا، مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا(صحیح البخاری:2079)
ترجمہ: خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار (بیع ختم کر دینے کا) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( «ما لم يتفرقا» کے بجائے) «حتى يتفرقا» فرمایا۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔

کس قدرعبرت حاصل کرنے والے فرامین ہیں کہ حرام کمانے سے مال میں بڑھوتری نہیں ہوتی ، اس کی برکت اٹھالی جاتی ہے، برکت صدق دلی کے ساتھ تجارت کرنے میں ہے۔

(2) کاروبار میں امانت و دیانت کا پاس و لحاظ کرنا ضروری ہے جو ہمارے تقوی کا معیار ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں ایک واقعہ ملاحظہ کریں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے یہاں ایک عورت سوال پوچھنے آئی کہ میں کپڑا کبھی روشنی میں تو کبھی چاندنی میں تیار کرتی ہوں ، کیا مجھے اس کے بارے میں خریدار کو بتانا پڑے گا۔ اس پر تعجب کرتے ہوئے امام صاحب نے خاتون سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ خاتون نے جواب دیا کہ میں بشر الحافی کی بہن ہوں۔ امام صاحب نے کہا کہ یہ تقوی تمہارے ہی گھر کا معیار ہوسکتا ہے۔بشر الحافی بغداد کے بڑے عابد وزاہد تھے۔

(3) کاروبار میں ایک دوسرے کی خیرخواہی مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہ خیرخواہی بائع اور مشتری دونوں کے لئے ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بائع بہلاپھسلاکر کسی بھولے بھالے آدمی کو کم قیمت والی چیز یا عیب والی چیز زیادہ میں بیچ دے۔ اور ایسا بھی نہ ہو خریدار کسی آدمی کو بھولا بھلا دیکھ کر اس سے اس کا کوئی سامان بہلاپھسلاکر سستےداموں  میں خریدلے۔ معجم طبرانی میں ایک عجیب و غریب واقعہ مذکور ہے، اس میں یہ ہے کہ جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو ایک گھوڑا خریدکر لانے کہتے ہیں، وہ تین سو درھم میں سودا کرکے اس کے مالک کو بھی ساتھ لے آتا ہے۔ گھوڑا اعلی قسم کا تھا اس لئے جریررضی اللہ عنہ نے قیمت بڑھانے کو کہا مگر بیچنے والا کہہ رہا ہے، میری یہی قیمت ہے، اصرار پر تھوڑی سی قیمت بڑھادی پھر جریرنے قیمت بڑھانے کا مطالبہ کیا پھر قیمت بڑھائی گئی ، اس طرح کئی دفعہ قیمت بڑھاتےبڑھاتے اس گھوڑے کی قیمت آٹھ سو درھم ادا کی گئی۔ پھر آخر میں جریررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (يا بني! إني بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على النصح لكل مسلم!)اے میرے بچو! میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر ہرمسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کی بیعت کی ہے۔

(4) کاروبار میں عدل وانصاف کا معاملہ کرنا چاہئے خواہ کوئی بھی صورت حال ہو۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایک شخص نے دوسرے شخص سے مکان خریدا اور مکان کے خریدار کو اس مکان میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا جس سے وہ مکان اس نے خریدا تھا اس سے اس نے کہا بھائی گھڑا لے جا کیونکہ میں نے تم سے گھر خریدا ہے سونا نہیں خریدا تھا لیکن پہلے مالک نے کہا کہ میں نے گھر کو ان تمام چیزوں سمیت تمہیں بیچ دیا تھا جو اس کے اندر موجود ہوں۔ یہ دونوں ایک تیسرے شخص کے پاس اپنا مقدمہ لے گئے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے پوچھا کیا تمہارے کوئی اولاد ہے؟ اس پر ایک نے کہا کہ میرے ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میری ایک لڑکی ہے۔ فیصلہ کرنے والے نے ان سے کہا کہ لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور سونا انہیں پر خرچ کر دو اور خیرات بھی کر دو۔ (صحيح البخاري:3472)

(5)صبح سویرے سے کاروبار شروع کردینا چاہئے کیونکہ نبی ﷺ نے اپنی امت کے لئے صبح میں برکت کی دعا فرمائی ہے۔ صخر غامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم بارك لأمتي في بكورها» ”اے اللہ! میری امت کے لیے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے“ اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی سریہ یا لشکر بھیجتے، تو دن کے ابتدائی حصہ میں بھیجتے۔ (عمارہ کہتے ہیں) صخر ایک تاجر آدمی تھے، وہ اپنی تجارت صبح سویرے شروع کرتے تھے تو وہ مالدار ہو گئے اور ان کا مال بہت ہو گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: صخر سے مراد صخر بن وداعہ ہیں۔ (سنن ابي داود:2606)

آج ہمارا حال یہ ہے کہ صبح اٹھنے اور کاروبار کرنے کا تو چھوڑیں فجر بھی چھوڑ کر دیر تک سوئے رہتے ہیں۔ اس مقام پر سوچنے اور غوروفکر کے لئے دو احادیث پیش کرتا ہوں تاکہ اپنی نیت واعمال کا جائزہ لے کر اپنی اصلاح کریں۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر آیا کہ وہ صبح تک پڑا سوتا رہا اور فرض نماز کے لیے بھی نہیں اٹھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کر دیا ہے۔ (صحيح البخاري: 1144)
اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سو جا ابھی رات بہت باقی ہے پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز (فرض یا نفل) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔  اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق و چوبند خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ سست اور بدباطن رہتا ہے۔ (صحيح البخاري: 1142)

اس دوسری حدیث میں فجر کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنے والے کو نبی ﷺ نے "طیب النفس " کہا ہے اور جو نماز چھوڑ کر سویا رہے اس کو خبیث النفس کہا ہے۔ اس سے ہم اپنی حقیقت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

اب آپ کے سامنے خریدوفروخت کے بعض اہم مسائل واحکام بیان کرتا ہوں ۔

خریدوفروخت میں پانچ چیزیں ارکان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بائع(بیچنے والا)، مشتری(خریدنے والا)، مبیع(بیچی جانے والی چیز)، بائع اور مشتری کے درمیان ایجاب وقبول کے الفاظ اور دونوں کے درمیان باہمی رضامندی۔ یہ  پانچ ارکان مل کر کوئی بیع مکمل ہوتی ہے۔

(1)اشیاء کی قیمت: کسی ایک شخص کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اجتماعی طورپر پورے مارکیٹ کی چیزوں کی قیمت وہ متعین کردے، قیمت حالات وظروف کے اعتبار سے خود بخود بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گرانی بڑھ گئی ہے لہٰذا آپ (کوئی مناسب) نرخ مقرر فرما دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ، الْبَاسِطُ، الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى اللَّهَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ(سنن ابي داود:3451)

ترجمہ:نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، (میں نہیں) وہی روزی تنگ کرنے والا اور روزی میں اضافہ کرنے والا، روزی مہیا کرنے والا ہے، اور میری خواہش ہے کہ جب اللہ سے ملوں، تو مجھ سے کسی جانی و مالی ظلم و زیادتی کا کوئی مطالبہ کرنے والا نہ ہو (اس لیے میں بھاؤ مقرر کرنے کے حق میں نہیں ہوں)۔

آج کل حکومت اشیاء کی قیمت متعین کردیتی ہے مگر اکثر چیزیں من مانی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں ۔ اگر بعض چیزیں مقررہ قیمت پر بکتی بھی ہیں تو ردی والی جبکہ عمدہ چیزیں مہنگی قیمت میں فروخت ہوتی ہیں۔

انفرادی طورپر جس کا سامان ہے، وہ اپنے سامان کی قیمت متعین کرسکتا ہے کیونکہ وہ اس کی ملکیت ہے اور اس کا ذاتی سامان ہے۔ نبی ﷺ نبو نجار سے اس کا باغ خریدنا چاہ رہے تھے جہاں مسجد بنانے کا ارادہ تھا تو آپ نے باغ والے سے اس کی قیمت مقرر کرنے کو کہا چنانچہ صحیح بخاری میں ہے، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے بنو نجار! اپنے باغ کی قیمت مقرر کر دو۔ اس باغ میں کچھ حصہ تو ویرانہ اور کچھ حصے میں کھجور کے درخت تھے۔ (صحيح البخاري:2106)

اب یہاں اہم مسئلہ یہ ہے کہ جو کوئی کاروبار کرتا ہے اور کچھ سامان خریدکر لایا ہے،ایسے میں وہ کتنا منافع رکھ کر اس سامان کو بیچ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں شرعی طور پر منافع لینے کی کوئی حد بندی نہیں ہے تاہم منافع لینے میں لوٹ کھسوٹ کا معاملہ نہ ہو بلکہ خیرخواہی کی نیت سے مناسب منافع لے۔  جس طرح وہ خود کسی جگہ سے سامان خریدتے وقت مناسب قیمت میں خریدنا چاہتا ہے، اپنے خریدار کے لئے بھی ایسے ہی جذبہ رکھے۔ امام بخاری ؒ نے کتاب البیوع میں محمد بن سیرین ؒ کا قول ذکر کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ دس کا مال گیارہ میں بیچنے میں کوئی قباحت نہیں اور جو خرچہ پڑا ہے اس پر بھی یہی نفع لے۔(بخاری:2210)

اس قول کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں بائع اپنے خریدے ہوئے سامان پہ دس فیصد منافع لے سکتا ہے اور خریدنے میں باربرداری وغیرہ پہ جوصرفہ آیا ہو اس کا بھی اسی طرح منافع لے سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی اسی طرح دس فیصد منافع لے سکتا ہے بلکہ یہاں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مناسب منافع رکھ کر اپنا سامان بیچے۔ دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ ہزار روپئے کے سامان کا دس دس ہزار دام لگاتے ہیں اور جس خریدار سے جس طرح معاملہ طے ہوجائے اسی طرح بیچا جاتا ہے۔ اس طرح معاملہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایک مناسب قیمت متعین کرکے ہر خریدار کو اس قیمت پہ بیچا جائے۔ اس سے کم میں کسی کو دیدے یہ اچھی بات ہے مگر بڑھاچڑھاکرقیمت بتانایا کسی کی بھولی بھالی شکل دیکھ کر من مانی قیمت وصول کرنا دھوکہ اور فریب ہے، ایسی کمائی میں برکت نہیں ہوگی۔

(2)باہمی رضامندی: جیساکہ اوپر بیع کے پانچ ارکان میں آپ نے پڑھا کہ ایک رکن باہمی رضامندی بھی ہے یعنی جب تک بائع اور مشتری دونوں دلی اطمینان کے ساتھ اور بغیر جبرواکراہ کے کسی بیع پہ راضی نہ ہوجائیں تب تک وہ بیع مکمل نہیں ہوگی۔ بیع مکمل ہونے کے لئے خوش دلی کے لئے ساتھ دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَيْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ(سنن ترمذي:1248)

ترجمہ:بائع اور مشتری بیع (کی مجلس) سے رضا مندی کے ساتھ ہی جدا ہوں۔

یاد رہے کہ دونوں میں کسی ایک رضامندی نہیں ہوئی یا پھر جبری طور پر بیع کے لئے منوایا گیا ہے تو ایسی بیع کا اعتبار نہیں ہوگا۔ بیع صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ بائع و مشتری دونوں ہوش و حواس میں مکمل دلی رضامندی کے ساتھ معاملہ کئے ہوں۔

(3)عیب ظاہرکرنا: اگر سودا میں کوئی عیب ہو تو اس کا ظاہر کرنا ضروری ہے۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:

الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِيهِ بَيْعًا فِيهِ عَيْبٌ إِلَّا بَيَّنَهُ لَهُ(سنن ابن ماجه:2246)

ترجمہ:مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے۔

بہت سے لوگ اپنے سامان کا عیب بیان نہیں کرتے ہیں یا بعض لوگ سامان بیچتے وقت ایسا وصف بیان کرتے ہیں جو اس سامان میں موجود نہیں ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو بیع میں ان دونوں باتوں سے بچنا ضروری ہے۔ دیکھیں ، رسول اللہ ﷺ نے غلہ بیچنے والے ایک آدمی سے کیا کہا؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: ”غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟“ اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”تو تم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے) کو اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے؟ جس نے دھوکا کیا، وہ مجھ سے نہیں۔“ (ان لوگوں میں سے نہیں جنہیں میرے ساتھ وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔) (صحيح مسلم:284)

(4)سودا واپس کرنے کا اختیار: جب دوآدمی(بائع ومشتری) آپس میں بیع کررہے ہوں تو ان کو ایک دوسرے سے جدا ہونے تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ جب دونوں بیع کرکے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو بیع مکمل ہوجاتی ہے۔ اب بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں رہتا ہے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا۔ (صحيح البخاري:2079)

ترجمہ:خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار (بیع ختم کر دینے کا) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں۔

٭ اس معاملہ میں ایک پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی بائع اپنے مشتری کو کچھ شرطوں کے ساتھ یا کچھ دنوں میں سامان واپس کرنے کی شرط لگاتا ہے تو خریدار حسب شرط اپنا سامان واپس کرنے کا حق رکھتا ہے۔

٭اگر سامان میں کوئی عیب نکل آئے تب بھی خریدار کو سامان واپس کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

٭ کبھی کوئی آدمی سامان خرید لیتا ہے مگر اسے کسی مجبوری کے تحت واپس کرنے کی ضرورت درپیش ہوجاتی ہےحالانکہ خریدار کے پاس سامان واپس کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ہے پھربھی اگر بائع ، مشتری  کا سامان مجبوری دیکھ کرواپس لے لیتا ہے تو ایسے آدمی کو اجر ملتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ.(سنن ابي داود:3460)

ترجمہ:جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے فروخت کا معاملہ فسخ کر لے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف کر دے گا۔

(5) ملکیت والی چیز بیچنا:  ایک آدمی وہی چیز بیچ سکتا ہے جو اس کی ملکیت  میں ہو۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيُرِيدُ مِنِّي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَفَأَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ. فَقَالَ: لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.(سنن ابي داود:3503)


ترجمہ: اللہ کے رسول! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کر لوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو۔

کاروبار کے لئے ضروری ہے کہ آدمی کے پاس اس کی ملکیت میں جو سامان ہو، وہی بیچے مگر آج کل لوگ ایسی بہت ساری چیزیں فروخت کررہے ہیں جو اس میں ملکیت میں نہیں ہوتے۔ ایسا کام آن لائن تجارت اور شیئر مارکیٹ میں کافی زیادہ ہوتا ہے۔ بہت سارے بلڈرس بھی ایسا کام کرتے ہیں کہ وہ ایک جگہ ایک بلڈنگ خریدنے کا سودا کئے اور ابھی بیع مکمل کرکے اس بلڈنگ پر قبضہ نہیں کیا گیا کہ وہ دوسرے کے ہاتھوں بیچ دیتا ہے، یہ عمل جائز نہیں ہے۔

(6)ناپ تول میں پورا پورا وزن کرنا: جو چیز ناپ تول کربیچنے والی ہو اس کو بیچتے وقت پورا پورا وزن کرکے بیچنا ضروری ہے۔ ناپ تول میں کمی کرنا برترین قوم کی خصلت ہے، اللہ تعالی نے ایسی قوم کو ہلاک کردیا ہے۔ قرآن میں قوم شعیب کا ذکر ہے، اللہ نے اس قوم کو پورا پورا وزن کرنے کا حکم دیا مگر اس کی عادت یہ تھی کہ جب لینے کا معاملہ ہوتا تو زیادہ تول کر لیتی اور دیتے وقت کم تول کردیتی ۔ اس قوم میں کفرومعصیت کے ساتھ ناپ وتول میں کمی کا معاملہ حد سے زیادہ بڑھاہوا تھا۔ شعیب علیہ السلام کے باربار سمجھانے پر بھی یہ قوم نہ مانی تو آخرکاراللہ تعالی نے عذاب بھیج کراسے ہلاک کردیا۔اس تعلق سے کچھ احادیث دیکھیں جن میں ناپ تول میں کمی کی سزا بیان کی گئی ہے۔

نبیﷺ فرماتے ہیں:

ما طفَّف قومٌ الميزانَ إلا أخذَهم اللهُ بالسِّنينَ(السلسلة الصحيحة:1/219)

ترجمہ: جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو اللہ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کردیتا ہے۔

اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ , إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ , وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ , وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ (سنن ابن ماجه:4019)

ترجمہ:جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

٭ اگر گنجائش ہوتو تولنے میں کچھ جھکاکر تولنا چاہئے ۔ جیساکہ سوید بن قیس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی دونوں مقام ہجر سے ایک کپڑا لے آئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ہم سے ایک پائجامے کا مول بھاؤ کیا۔ میرے پاس ایک تولنے ولا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تولنے والے سے فرمایا: ”جھکا کر تول“۔ (سنن ترمذي:1305)

(7)سودا پہ سودا کرنے کی ممانعت: ایک آدمی کوئی چیز خرید رہا ہے، ابھی اس کی بیع طے ہورہی ہے کہ دوسرا درمیان میں جاکر اس سامان کا سودا کرنے لگ جائے ،اس کی ممانعت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ، وَلَا يَسُومُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ(سنن ابن ماجه:2172)

ترجمہ:کوئی شخص اپنے بھائی کے سودے پر سودہ نہ کرے، اور نہ اپنے بھائی کے دام پر دام لگائے۔

٭ اپنے معاشرے میں خصوصا زمین ، مکان یا قیمتی چیزوں کے بارے میں ایسا بہت ہوتا ہے کہ ایک آدمی کسی چیز کے خریدنے کے لئے معاملہ شروع کرتا ہے اور درمیان میں دوسرا آدمی زیادہ قیمت دے کر اس سامان کو خرید لیتا ہے حتی کہ بسااوقات  پہلے سے بیعانہ بھی دیا گیا رہتا ہے پھر بھی دوسرا آدمی زیادہ قیمت کا لالچ دے کر اپنے لئے سودا کرلیتا ہے۔ ایسے میں بیچنے والا اور درمیان میں داخل ہوکر خریدنے والا دونوں غلط کررہے ہیں۔ ایک مسلمان کو اس عمل سے باز رہنا چاہئے۔ جب معاملہ طے ہورہا ہو تو طے ہونے دے یا وہ اس کے لینے سے رک جائے تب کوئی اپنا معاملہ کرے۔

٭ کچھ بائع اپنا سامان بیچنے کے لئے دائیں بائیں کچھ لوگ، خریدار کی حیثیت سے متعین کئے رہتے ہیں، ان کی نیت خریدنے کی نہیں ہوتی بلکہ فقط بولی لگاکرقیمت بڑھانے کی نیت ہوتی ہے تاکہ جب کوئی خریدار آئے تو اس کی بولی پر بولی لگاکر زیادہ قیمت میں سامان خریدے ، اس طرح معاملہ کرنا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں دھوکہ پایا جاتا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ النَّجْشِ(صحيح البخاري:2142)

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «نجش» (فریب، دھوکہ) سے منع فرمایا تھا۔

٭ ایک معاملہ نیلامی کاہوتا ہے یعنی کوئی آدمی اپنا سامان بولی لگاکر نیلام کرتا ہے، اس کے کئی خریدار ہوتے ہیں، سبھی خریدنے کی نیت سے قیمت بڑھاکر بولی لگاتے ہیں اور جو زیادہ قیمت دیتا ہے وہ سامان خرید لیتا ہے اس کی طرح نیلامی کرنے کو علماء جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ یہاں پر دھوکہ کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ہر کوئی خریدنے کی نیت سے بولی لگاتا ہے۔

(8) پھل پکنے سے پہلے بیچنے کی  ممانعت: ابھی درخت میں جو پھل توڑنے اور کھانے کے قابل نہیں ہوا ہے ایسے پھل کو بیچنا جائز نہیں ہے ، جب تک کہ وہ پھل کاٹنے اور کھانے کے قابل نہ ہوجائے ۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا:

نَهَى النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن بيعِ الثمرةِ حتى يَبْدُو صَلاحُهَا ، وكان إذا سُئِلَ عن صَلاحِهَا ، قال : حتى تَذْهَبَ عَاهَتُهُ .(صحيح البخاري:1486)

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو (درخت پر) اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب پوچھتے کہ اس کی پختگی کیا ہے، وہ کہتے کہ جب یہ معلوم ہو جائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا۔
لوگ پھلوں میں نقصان سے بچنے کے لئے وقت سے پہلے بیچ دیتے ہیں جیسے آم کے موسم میں چھوٹے پھلوں کو ہی بیچ دیا جاتا ہے یا وقت سے پہلے سال دو سال کے لئے آم کے پھلوں کا سودا کرلیا جاتا ہے، یہ جائز نہیں ہے۔ نہ تو پھلوں کو پکنے سے پہلے بیچنا ہے اور نہ ہی ایسے پھلوں کا سودا کرنا ہے جو ابھی ظاہر بھی نہیں ہوا ہے کیونکہ اس میں نقصان کو اندیشہ ہے۔ اسی طرح جانور کے تھن سے نکالے بغیر اندازہ کرکے دودھ کا سودا کرلیا جاتا ہے یا جانور کے پیٹ میں موجود بچے کا سودا کرلیا جاتا ہے یا تالات سے مچھلی نکالے بغیر سودا کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح اندازہ کرلے سودا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ ہے۔

٭ اگر درخت سمیت پھل بیچ دیا جائے تو اس طرح کا سودا کرنا جائز ہے کیونکہ یہاں اب صرف پھل نہیں بیچا جارہا ہے بلکہ درخت بیچا جارہا ہے اور پھل اس کے تابع ہے۔

٭ اسی طرح اگر کوئی چھوٹے پھل کا سودا کرتا ہے اور اس وقت پھل کاٹ لینے کی شرط لگاتا ہے تو ایسا سودا بھی جائز ہے کیونکہ پھل اسی وقت کاٹ لینے سے نقصان کا اندیشہ نہیں رہے گا۔

٭ یہاں بیع سلف جسے بیع سلم بھی کہتے ہیں اس کا مسئلہ بھی جان لیا جائےتاکہ مذکورہ بالا مسئلہ سے یہ بات ممتاز رہے۔ اگر کسی آدمی کو مستقبل میں کوئی چیز چاہئے تو اس کی قیمت پیشگی دے کر اس کا سودا کیا جاسکتا ہے ، اسے بیع سلم کہتے ہیں مگر اس کا مخصوص طریقہ ہے ۔ بیع سلم کے طورپر جو چیز بیچنی یا خریدنی ہے اس چیز کی مقدار ، اس کی نوعیت اور اس کی ادائیگی کی میعاد بیع کرتے وقت طے کرنا ضروری ہے، تبھی بیع سلم ہوگی ۔ جیسے کسی کو آم چاہئے یا آم میں بیع سلم کرنا ہے تو وہ بائع سے آم کے لئے سودا کرتے وقت آم کی مقدار کتنا آم چاہئے ، اس آم کی نوعیت کیسی ہونی چاہئے اور کب چاہئے وہ وقت متعین کرنا ضروری ہے مثلا پانچ ماہ کے اندرپانچ کوئنٹل  لنگڑانامی کچاآم  چاہئے ، یہ بیع طے ہوگئی، اب اسی وقت پیشگی پیسہ دیدے۔ یہ بیع سلم یا بیع سلف ہے۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ کھجور میں دو اور تین سال تک کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی:

مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ، فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ(صحیح البخاری:2240)

ترجمہ:جو کسی چیز میں بیع سلم کرے تو مقررہ ناپ، مقررہ وزن میں مقررہ مدت تک کے لیے کرے۔

سال دوسال کے لئے کسی درخت کا جو آم بیچ لیا جاتا ہے، یہ جائز نہیں ہےلیکن بیع سلم کرنا جائز ہے کیونکہ بیع سلم میں ایک چیز کسی کے ذمہ ہوتی ہے، اس میں کسی خاص درخت کی شرط نہیں ہوتی ہے بلکہ بائع کے ذمہ ایک چیز مقدار، نوعیت اور اجل کے ساتھ ہوتی ہےجبکہ سال دوسال کسی خاص درخت کا آم بیچ لینے میں نقصان کا خطرہ ہے اس وجہ سے اس کی بیع جائز نہیں ہے۔

(9)خریدوفروخت میں قسم کھانے کی ممانعت : لوگ سامان بیچنے کے لئے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ سامان پہ لوگوں کا اعتبار ہوجائے اور جلدی سے بک جائے مگر رسول اللہ ﷺ نے کاروبار میں قسم کھاکر سامان بیچنے سے منع کیاہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

الْحَلِفُ مُنَفِّقَةٌ لِلسِّلْعَةِ مُمْحِقَةٌ لِلْبَرَكَةِ(صحیح البخاری:2087)

ترجمہ:(سامان بیچتے وقت دکاندار کے) قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے۔

(10) خریدوفروخت میں بیعانہ کا حکم: بیعانہ وہ رقم ہے جو کسی چیز کے خریدنے کے لئے پیشگی کے طور پر بائع کو دی جاتی ہے، یہ رقم دراصل بیع کی قیمت کا حصہ ہوتی ہے۔ خریدوفروخت میں بیعانہ دینا اور لینا جائز ہے ۔

٭جب کوئی آدمی کسی چیز کے خریدنے کے لئے بیعانہ دیا اوروہ چیز خریدلیا پھر اس میں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور اسی طرح کسی نے کوئی چیزخریدنے کے لئے بغیر کسی شرط کے بیعانہ دیا اور وہ بیع فسخ ہوگئی، بائع نے بیعانہ واپس کردیا اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ بیع فسخ ہونے پر بیعانہ کے لوٹانے یا نہ لوٹانے میں ہے۔

٭بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر کوئی شرط لگاکر بیعانہ دے کہ اگر باقی رقم دے کر بیع مکمل نہ کی گئی تو بیعانہ واپس نہیں کیا جائے گا، اس طرح بیعانہ دینا جائز نہیں ہے۔  جبکہ دوسرے علماء جن میں شیخ ابن باز ؒ بھی ہیں ، کہتےہیں کہ اگر اس شرط کےساتھ بیعانہ دیا جائے کہ بیع کی مکمل رقم جمع نہ کی گئی تو بیعانہ واپس نہیں کیا جائے گا، اس طرح کے بیعانہ میں حرج نہیں ہے اور ایسی صورت میں بائع بیعانہ ضبط کرلے گا۔

اس تعلق سے میرا یہ کہنا ہے کہ بہتر وافضل یہی ہے کہ بیعانہ بغیر شرط لگائے ہوئے دیا جائے ، بیعانہ لینے یا دینے میں شرط لگانے سے پرہیز کریں  اور جب کوئی بیع ،بیعانہ کے ذریعہ طے پائےتو بقیہ رقم کی ادائیگی کے لئے ایک مدت متعین کرلی جائے، جب متعین میعاد میں بقیہ رقم جمع کردی گئی تو بیع مکمل ہوگئی لیکن اگرمتعین مدت میں بقیہ رقم جمع نہ ہوسکے اور  بیع فسخ ہوجائے تو بائع کو چاہئے کہ بیعانہ واپس کردے۔

٭بعض بائع ایک مشتری سے بیعانہ لینے کے باوجود دوسرے مشتری سے زیادہ قیمت ملنے پر سامان بیچ دیتے ہیں، یہ اپنے بھائی کے ساتھ دھوکہ اور بے وفائی ہے۔

(11)چھ ربوی اموال :  نبی ﷺ نے چھ چیزوں کو ربوی اموال قرار دیا ہے یعنی چھ اشیاء ایسی ہیں جن میں سود واقع ہوتا ہے۔

سيدنا عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلا بِمِثْلٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ ، فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ (صحيح مسلم: 1587)

ترجمہ:سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی، گندم کے عوض گندم، جو کے عوض جو، کھجور کے عوض کھجور اور نمک کے عوض نمک (کا لین دین) مثل بمثل، یکساں، برابر برابر اور نقد بنقد ہے۔ جب اصناف مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیع کرو بشرطیکہ وہ دست بدست ہو۔

یہ چھ چیزیں الگ الگ جنس کی ہیں اور ان چھ چیزوں میں سونا اور چاندی کی علت ، قیمت ہے اور بقیہ چار چیزوں کی علت غذا ہے۔ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے مسئلہ سمجھیں۔

٭اگر کسی جنس کو اسی جنس سے بیچیں گے تو دونوں مقدار میں برابر ہونا چاہئے اور نقدمعاملہ ہونا چاہئے ، ادھار نہیں جیسے سونا کو سونا سے خریدیں تو دونوں طرف سونا برابر ہو اور معاملہ نقدی (ہاتھوں ہاتھ) ہو، ادھار نہ ہو۔

٭ اگر جنس بدل جائے مگرعلت ایک ہی ہو تو مقدار میں کمی بیشی جائز ہے مگر معاملہ نقد یعنی ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے  جیسے سونا کو چاندی سے بیچیں تو یہاں جنس بدل رہی ہے مگر دونوں کی علت ( قیمت) ایک ہی ہے۔ لہذا سونا اور چاندی کے تبادلہ میں مقدار جو بھی ہو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے، تاخیر جائز نہیں ہے۔

٭ جنس الگ الگ ہوں اور علت بھی الگ ہوں تو مقدار میں کمی بیشی بھی جائز ہے اورمعاملہ نقد و ادھار دونوں طرح جائز ہے جیسے چاندی کو کھجور سے بیچیں تو مقدار میں فرق جائز ہے اور ادھار معاملہ کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہاں جنس بھی الگ الگ ہے اور علت ایک میں قیمت اور دوسرےمیں غذا ہے۔

عموما سونا اور چاندی کا تبادلہ  گندم یا جویا کھجور یا نمک سے نہیں کیا جاتا ہے بلکہ سونا اور چاندی کا معاملہ پیسے سے کیا جاتا ہے پھر ایسی صورت میں سونا یا چاندی پیسے سے  ادھار خریدنا جائز نہیں ہے جبکہ گندم یا جو یا کھجور یا نمک  پیسوں سے ادھار خریدنا، جائز  ہے کیونکہ یہاں جنس بھی الگ اور علت بھی الگ ہے۔

٭بہت ساری خواتین پرانے زیورات کا تبادلہ نئے زیورات سے کرتی ہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ اس میں مقدار کا فرق ہوتا ہے لہذا اس طرح پرانے سونے کے زیورات کو نئے سونے کے زیورات سے مقدار کے فرق کے ساتھ تبادلہ کرنا یا پرانے چاندی کے زیورات سے نئے چاندی کے زیورات سے مقدار کے فرق کے ساتھ تبادلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اس طرح کی صورت میں پرانے زیورات کو بیچ کر اس کی قیمت سے نئے زیورات خریدنا چاہئے تاکہ سودی معاملہ سے بچا جاسکے۔

(12) خریدوفروخت میں دلالی کا مسئلہ : کمیشن جسے اردو اور عربی میں دلالی کہتے ہیں، خریدوفروخت میں دلالی کرنا جائز ہے۔ دلال ،بائع اور مشتری کے درمیان سودا کرواتاہے اور عموما دلالی کی اس وقت ضرورت پڑتی ہے جب آدمی کو کسی چیز کے متعلق گہری معلومات نہ ہو۔
دلال کے لئے ضروری ہے کہ وہ سودا طے کرانے میں امین ہو، خریدار سے سامان کی وہی صفت بیان کرے جو اس سامان میں ہے اور اپنی اجرت سودا طے کرانے سے پہلے طے کرلے۔ بائع کو کچھ قیمت اور مشتری کو کچھ قیمت بتاکر زیادہ مال ہڑپنا حرام ہے۔ آج کل دلالی کی اجرت میں من مانی ہوگئی ہے، بائع ومشتری کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہ طریقہ سراسر دھوکہ اور ناجائز ہے ۔ اسی طرح دلالی کے چکر میں سیدھے سادے عوام کو دھوکہ دینا ، جسے سودے کی ضرورت نہیں بھی ہوتی ہے اسے سیکڑوں لالچ دے کر دھوکے سے سودا کروادینا اسلامی تجارت کے منافی ہے اور اسے کسب معاش کےحرام ذرائع میں شمار کیا جائے گا۔ اس لئے دلالی میں امانتداری لازم ہے۔

٭ ایک آدمی کسی کمپنی کا ملازم ہو، وہ اپنی کمپنی کے لئے کہیں سے مال خریدتا ہے ایسے شخص کا کمیشن لینا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ کمپنی کا ملازم ہے، وہ اپنے اس عمل کی تنخواہ لے رہا ہے لہذا کمپنی کی اجازت کے بغیر الگ سے خریدوفروخت میں کمیشن لینا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔

(13) آن لائن خریدوفروخت کا مسئلہ : آن لائن کاروبار کرنا جائز ہے مگراس میں دھوکہ اور نقصان وخطرہ کا پہلو بھی پایا جاتا ہے ، نیز اس طریقہ تجارت میں بہت سارے غیرشرعی امور بھی انجام دئے جاتے ہیں۔ایک مسلمان جب آن لائن تجارت کرے تو شریعت کے احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے تجارت کرے تاکہ وہ بھی حلال روزی کھائے اور دوسروں کو غلط امور سے بچائے۔ آن لائن تجارت میں دو طرح کا غیرشرعی کام زیادہ کیا جاتا ہے۔ ایک کام تو یہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کے پاس سامان یا کمپنی نہیں ہوتی ہے ، بس فرضی نام رکھ کراور دوسروں کے سامانوں کی تصاویر لے کراس طرح کاروبار کرتا ہے گویا کہ اس کے پاس کوئی تجارتی سنٹر ہو۔ جب کوئی اس سے سامان طلب کرتا ہے تو وہ دوسری جگہوں سے سامان خرید کر آگے بیچتا ہے۔ اسی طرح ایک دوسرا غلط کام یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی کوئی چیز کہیں سےآن لائن خریدتا ہے اور اس سامان پر قبضہ کئے بغیر آگے دوسرے خریدار کو فروخت کردیتا ہے۔یہ دونوں امور ناجائز ہیں۔ کوئی آدمی ایسی چیز کو فروخت نہیں کرسکتا ہے جو اس کے پاس یا اس کی ملکیت میں  نہیں ہے ، اسی طرح کوئی چیزخریدکراس پر قبضہ کرنے سے پہلے دوسروں سے بیچنا بھی جائز نہیں ہے۔

آن لائن تجارت کرتے ہوئے یہ دھیان دینا ہے کہ اس کی ملکیت میں جو سامان ہے وہ فروخت کرے یعنی اپنی ویب سائٹ اور سوشل مقامات پر انہیں سامانوں کا تعارف کرائے جو اس کی ملکیت  وقبضہ میں ہے، اسی طرح سامانوں کے وہی مواصفات بیان کرے جو سامان میں واقعی موجود ہیں۔اور ڈیلیوری کی صورت واضح رکھے ، مواصفات کے مطابق سامان دستیاب نہ ہونے پر یا ٹوٹ پھوٹ اور ادل بدل ہونے پر سامان واپس کرنے کا اختیار بھی ہو۔ آن  لائن تجارت کے سلسلے میں کچھ تفصیل کےساتھ میرا الگ سے مضمون ہے جو میرے بلاگ پرپڑھا جاسکتا ہے۔ 

(14)چوری کا سامان بیچنے کا حکم: آج کل چور بازار کے نام سے متعدد جگہوں پر چوری کے سامان فروخت کئے جاتے ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات ہونا چاہئے کہ جس طرح چوری کرنا حرام ہے اسی طرح چوری کا سامان بیچنا یا چوری کا سامان خریدنا دونوں کا م حرام ہیں۔ ستیاناس ہو آج کل کے جمہوری نظام کا جہاں  چور پکڑنے اور اس پر مقدمہ چلانے کے لئے پولیس اور عدالت موجود ہے وہیں دھڑلے سے چور بازار بھی چلتا ہے۔ جہاں جسم فروشی اور منشیات کی تجارت کے لئے لائسنس جاری کئے جاتے ہیں وہاں چور بازار ہونا معمولی بات ہے۔

بہرکیف! ایک مسلمان کو چور ی کاسامان خریدنے یا بیچنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جس کسی کو اپنا سامان کسی کے پاس نظر آئے وہ اس سے اس قیمت پر خریدسکتا ہے جتنے میں وہ خریدا ہے یا پھر اس کے بیچنے والے کا پتہ لگاکر اس سے وصول کیا جاسکتا ہے اور اس کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے۔

(15)حرام چیزوں کی تجارت بھی حرام ہے: اسلام نے جن چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے ان چیزوں کا کاروبار کرنا بھی حرام ہے، ایسے کاروبار کی کمائی حلال نہیں ہوگی۔ جیسے اسلام میں نشہ آور چیز حرام ہے لہذا نشہ کی کوئی چیز بیچنا جائز نہیں ہے۔ اس وجہ سے کوئی مسلمان سگریٹ و بیڑی کا کاروبار کرتا ہے، شراب کا ٹھیکہ چلاتا ہے، اس کا یہ کاروبار اور اس کی کمائی حرام ہے۔ یہاں بطور مثال نشہ کی بات بیان کیا ہوں، جبکہ مراد یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اسلام میں حرام ہے اس کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے حتی کہ جو حرام کاروبار کرے اس کے کام پہ تعاون کرنا بھی حرام ہے جیسے کوئی اپنی زمین سودی بنک  یا سودی کاروبارکے لئے دے یا اپنا مکان ودکان شراب بیچنے یا چوری کا سامان بیچنے  کے لئے کرایہ پر دے ، یہ گناہ پر تعاون ہے اور یہ حرام ہے ۔

(16) بعض جگہوں پر لاٹری بیچی جاتی ہے جیسے ایک انعام متعین کردیا گیا اور چار سو پانچ  سومیں اس لاٹری میں شرکت کا کوپن خریدا جاتا ہے ، پھر جمع شدہ کوپن میں سے ایک کوپن نکالاجاتا ہے، جس کے نام کا کوپن نکلا اس کو انعام ملتا ہے، بقیہ کوپن خریدنے والوں کا پیسہ ضائع ہوجاتا ہے۔ یہ لاٹری اور جوا ہے ، اسلام نے جوا کو حرام قرار دیا ہے لہذا کسی کے لئے اس قسم کی لاٹری خریدنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کے لئے ایسی لاٹری والی اسکیم چلانا جائز ہے۔

٭کسی دکان اور سپرمارکیٹ سے سامان خریدنے پر کبھی کبھی انعامی کوپن ملتا ہے۔ تقسیم شدہ ان کوپن میں سے جس کا نمبر نکلتا ہے اس کو انعام ملتا ہے ، اس طرح کے کوپن لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہاں آدمی کوپن نہیں خریدرہا ہے بلکہ سامان خریدرہا ہے ، کوپن فری ہوتا ہے۔ ہاں اگر کوپن کا الگ سے پیسہ لیا جاتا ہو یا سامان کے ساتھ کوپن کا چارج بھی اس میں شامل ہوتو پھر اس قسم کا کوپن لینا جائز نہیں ہے، اس صورت میں یہ جوا کہلائے گا۔ 

(17) ذخیرہ اندوزی حرام ہے: بہت سے لوگ سامانوں کو روک کر رکھ لیتے ہیں جبکہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہوگی پھر جب قیمت بڑھ جاتی تب وہ سامان بیچتے ہیں، اسلام نے اس طرح سامان روک کربعد میں زیادہ قیمت پر بیچنے سے منع کیا ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ(صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: اورذخیرہ اندوزی کرنے والاگنہگارہے۔

روزی روٹی کا مالک اللہ ہے، تاجر ،اللہ پر توکل کرتے ہوئے کاروبار کرے۔ جب آدمی کا اللہ پر پورا بھروسہ ہوگا، پھر وہ مال ذخیرہ کرکے نہیں رکھے۔ وہ اپنے مفاد کے ساتھ بندوں کی ضرورت کو بھی دیکھے گا۔

(17) مسجد میں خریدوفروخت کی ممانعت: مسجد اللہ کا گھر ہے جس میں صرف اللہ کی بندگی کی جائے گی اس وجہ سے وہاں پر خریدوفروخت کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الشِّرَاءِ وَالْبَيْعِ فِي الْمَسْجِدِ، وَأَنْ تُنْشَدَ فِيهِ ضَالَّةٌ، وَأَنْ يُنْشَدَ فِيهِ شِعْرٌ، وَنَهَى عَنِ التَّحَلُّقِ قَبْلَ الصَّلَاةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ(سنن ابي داود:1079، حسنہ البانی)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے، کوئی گمشدہ چیز تلاش کرنے، شعر پڑھنے اور جمعہ کے دن نماز سے پہلے حلقہ بنا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔

اسی طرح ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ، أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ، وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً، فَقُولُوا: لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ(سنن ترمذي:1321، صححہ البانی)
ترجمہ:جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو: اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے۔

٭ جس طرح مسجد میں خریدو فروخت ممنوع ہے اسی طرح کاروبار کے سلسلے میں اعلان کرنا بھی ممنوع قرار پائے گاحتی کہ مسجد میں بیٹھ کر  کاروباری باتیں بھی ممنوع ہوں گی۔

٭ مسجد سے باہر یا مسجد کے پاس خریدوفروخت کرنے میں حرج نہیں ہے تاہم نماز کے وقت کاروبار بند کردینا چاہئے تاکہ کاروبار کرنے والا اور خریدار دونوں نماز میں حاضر ہوکر نماز ادا کریں۔ اللہ تعالی نے نماز جمعہ سے متعلق حکم دیا ہے کہ جب جمعہ کی اذان دی جانے لگے تو کاروبار بند کردو اور اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔ (سورہ جمعہ)

تجارت سے متعلق آخری گزارشات

کاروبار ایسی چیز ہے جس میں آدمی خود کو زیادہ مشغول کرلیتا ہے تو وہ  بہت ساری ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگ جاتا ہے خصوصا اللہ کے ذکر اور اس کی بندگی میں سستی کرنے لگ جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ وہ خود کواللہ کے ذکر سے غافل کرلیتا ہے۔ جب اس کو عبادت کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے فرصت نہیں ملتی ہے۔ یاد رکھیں کہ جو خود کو عبادت کے لئے متفرغ نہیں کرتا اللہ اس کو مزید مشغول کردیتا ہے اور یہ اس کی تباہی کا سبب ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (المنافقون:9)

ترجمہ:اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔

اسی طرح ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: " يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ(سنن ترمذي:2466)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے یکسو ہو جا، میں تیرا سینہ استغناء و بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کروں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرا دل مشغولیت سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی دور نہ کروں گا۔

مذکورہ بالا آیت و حدیث میں غور کریں کہ جو کہتا ہے میرے پاس فرصت نہیں ہے یا جو عبادت کے لئے وقت نہیں نکالتا ہے اس کے لئے دنیا وآخرت میں کس قدر خسارہ ہے۔

پتہ چلا کہ ایک مسلم کاروباری ، تجارت بھی کرتا ہے اور اللہ کی عبادت بھی کرتا ہے یعنی مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا کے ساتھ دین کا تقاضہ بھی پورا کرنا ہے اور ہمیشہ دنیا پر دین کو ترجیح دینا ہے۔ جب بھی کاروبار کی وجہ سے دین متاثر ہو، دین کو بچانا ہے۔ دین میں مشکلات اس وقت شروع ہوتی ہیں جب آدمی کاروبار کو زندگی کا مقصد بنالیتا ہے جبکہ کاروبار محض زندگی گزارنے کا ایک ذریعہ ہے اور اصل کامیابی نیک اعمال اور عبادات کی انجام دہی میں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں:

لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَكُونُ هَمُّ أَحَدِهِمْ فِي بَطْنِهِ ، وَدِينُهُ هَوَاهُ۔ (الزهد والرقائق لابن المبارك , بَابٌ : فِي طَلَبِ الْحَلالِ, رقم الحديث: 601)
ترجمہ: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں آدمی کا اہم مقصد پیٹ پالنا ہوگا اور اپنی خواہش پر چلنا اس کا دین ہوگا۔

لہذا جو دنیا بنانے کے لئے جیتا، جدوجہد کرتا اور کاروبار میں مصروف رہتا ہے اس کی آخرت تباہ ہوجاتی ہے لیکن جو کاروبار کو محض ذریعہ سمجھتا ہے اور اصل میں آخرت کی تیاری میں زیادہ وقت لگاتا ہے وہی کامیاب ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خریدوفروخت کی جگہ یعنی بازار اللہ ک نزدیک سب سے ناپسندیدہ جگہ ہے ، آدمی کو کم ہی بازار جانا چاہئے اور بلاضرورت بازار جانے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 أَحَبُّ البِلَادِ إِلَى اللَّهِ، مَسَاجِدُهَا، وَأَبْغَضُ البِلَادِ إِلَى اللَّهِ، أَسْوَاقُهَا(صحیح مسلم:1528)

ترجمہ:اللہ کے نزدیک (انسانی) آبادیوں کا پسندیدہ ترین حصہ ان کی مسجدیں ہیں، اور اللہ کے ہاں (انسانی) آبادیوں کا سب سے ناپسندیدہ حصہ ان کے بازار ہیں۔

بہرکیف! بازار میں رہتے ہوئے اللہ کے ذکر سے غافل نہ رہیں، نماز کا وقت ہوجائے تو وہاں بھی نماز قائم کریں اور دیانتداری کے ساتھ حلال چیزوں کی تجارت کرکے حلال کمائی کریں۔

 

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔