Monday, November 17, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(86)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(86)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب

سوال: عقیقہ کا گوشت گھر میں پکا کر خود بھی کھا سکتے ہیں اور باقیوں کو بھی کھلا سکتے ہیں یا سارا تقسیم کرنا ہوتا ہے۔

جواب:عقیقہ کا گوشت پکاکر خود بھی کھا سکتے ہیں، دوسروں کو بھی کھلا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔پورا گوشت تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ضرورت کے مطابق خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں۔

سوال:کیا کسی غیر مسلم کو مسلم اپنے پہنے ہوئے  کپڑے دے سکتا ہے؟

جواب:مسلم یا غیر مسلم کسی کو بھی اپنے استعمال کا کپڑا دے سکتے ہیں اس میں قطعا کوئی حرج نہیں ہے۔ غیر مسلم پر پیسہ، سامان اور استعمال کی چیزیں صدقہ کرسکتے ہیں۔

سوال: بہت سے لوگ گھروں میں کتا پالتے ہیں اور وہ کتا ان کے بیڈ رومز میں، ان کے کچن میں اوران کے لاؤنج میں گھومتا پھرتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے یا کتے کو صرف گیراج میں رکھا جائے یا گھر کے اندربھی  رکھا جاسکتا ہے ؟

جواب:شرعی طور پر تین قسم کے کتوں کو اپنے پاس رکھنے کی  اجازت ہے۔ شکاری کتا، کھیتی کی حفاظت کے لیے کتا اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کتا۔ ان تین قسم کے کتوں کے علاوہ دیگر کتوں کو رکھنے  کی اجازت نہیں ہے۔گھر کی حفاظت یا چور کو پکڑنے کے لیے کتا پالنے کا بھی جائزہے مگر کتوں کو گھر کے اندرونی حصے میں یا اپنے اٹھنے بیٹھنے اور سونے کی جگہ میں نہیں رکھنا چاہیے کیونکہ گھروں میں کتا ہونے سے رحمت کے فرشتے نہیں داخل ہوتے اور نیکیوں میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوتا ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا، لَيْسَ بِكَلْبِ مَاشِيَةٍ، أَوْ ضَارِيَةٍ، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطَانِ(صحیح البخاری:5480)

ترجمہ:جس نے ایساکتاپالا،جونہ مویشی کی حفاظت کے لیے ہے اور نہ شکار کرنے کے لئے لیےہے، تو روزانہ اس کی نیکیوں میں سے دو قيراط کی کمی کی جاتی ہے۔

کسی نے ضرورت کے واسطے کتا رکھا ہے تو گھر سے باہر دروازے پر رکھے۔ یاد رہے کہ شوقیہ طور پر کتا پالنا جائز نہیں ہے۔

سوال: اگر پرانا سونا دے کر نیا سونا تبدیل کرتے ہیں، تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب:پرانا سونا دے کر نیا سونا بدلنا جائز نہیں ہے کیونکہ سونا اور چاندی کے لین دین میں برابری ہونی چاہیے جبکہ پرانا سونا کا ریٹ کم ہوتا ہے اور نیا سونا کا ریٹ زیادہ ہوتا ہے اس وجہ سے پرانا سنا دے کر نیا سونا لینا جائز نہیں ہے۔جس کسی کو پرانا سونا ہٹا کر نیا سونا لینے کی ضرورت ہو تو اسے چاہیے کہ پرانا سونا بیچ دے اور اس کی قیمت سے نیا سونا خرید لے، یہ جائز طریقہ ہے لیکن ادل بدل نہ کرے۔

سوال: اگر شوہر کے مال میں سے بیوی کچھ پیسے نکال لیتی ہے تاکہ بعد میں کچھ مالی ضرورت پڑے تو شوہر کو نکال کر دے تو کیایہ عمل  صحیح ہے؟

جواب:کسی عورت کو یا کسی بھی آدمی کو کسی کے رکھے ہوئے پیسے میں سےبغیربتائے  کچھ لینا یہ چوری ہے۔ ایک بیوی بھی شوہر کے مال سے اس کے بتائے بغیر یا اس کی اجازت کے بغیر کچھ مال لیتی ہے تو یہ چوری میں شمار ہوگا اور ایک مومن چور نہیں ہوسکتا ہے۔

شوہر کا کمایا ہوا پیسہ شوہر کی ملکیت ہے، بیوی اپنے شوہر کے مال اور گھر کی حفاظت کرے گی، نہ کہ اس کا سامان یا اس کا مال چرائے گی۔بیوی کی ذمہ داری نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے چوری کرکے شوہر کی مدد کے لیے یا کسی کام کے لیے پیسہ جمع کرے۔ شوہر کے مال میں سے ایک روپیہ بھی بغیر اجازت اور بغیر بتائے لینا چوری میں داخل ہے، کسی بھی عورت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔

سوال: ہم کسی مستحق کو بغیر بتائے اس کی تنخواہ کیساتھ زکوۃ  کی رقم بھی شامل کرکے دے سکتے ہیں۔ اصل میں ایک امام مسجد ہیں جوایک حادثہ کا شکا ر ہوکر معذور ہوگئے ہیں اور ہمارے ذمہ ان کی تنخواہ ہے جو متعین نہیں ہے؟

جواب:وہ امام جو کسی حادثہ سے متاثر ہو کر معذور ہو گئے ہیں اور اپنی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں تو ان کو تنخواہ کے ساتھ الگ سے زکوۃ کی رقم ملا کر دے سکتے ہیں اور زکوۃ کو زکوۃ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، بغیر بتائے بھی دے سکتے ہیں تاہم یاد رہے کہ زکوۃ کا پیشہ تنخواہ میں شمار کرکے نہیں دینا چاہیے بلکہ الگ سے دینا چاہیے۔

سوال: ایک بالغ بچی جس کی عمر گیارہ سال ہے، اس کے اسکول میں قرآن کے ٹیچر ایک مرد ہیں تو ایسی حالت میں شریعت میں پردے کا کیا حکم ہے؟

جواب:اس سلسلے میں ایک بنیادی بات یہ جاننی چاہیے کہ ایسے اسکول میں بچوں کو تعلیم دلانا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں پڑھتے ہوں جائز نہیں ہے کیونکہ اسلام میں اختلاط مرد و زن حرام ہے۔ اس وجہ سے اگر اس طرح کا اسکول ہے تو اپنی بچی کو وہاں سے نکال لینا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ لڑکیوں کا اسکول ہو اور اس میں مرد بھی پڑھاتے ہوں تو اس کی کچھ حد تک گنجائش ہے لیکن ضروری ہے کہ تعلیم کے وقت مرد ٹیچر اور بچیوں کے درمیان پردہ حائل ہو یعنی فیس ٹو فیس تعلیم نہیں دینا چاہیے۔جب فیس ٹو فیس مرد ٹیچر تعلیم نہیں دے گا تو بچیوں کے لیے پردہ کرنے میں خاصی دقت نہیں ہوگی کیونکہ بچیاں پردے کے پیچھے ہوں گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اسی طرح پردے کے پیچھے سے مرد صحابہ کرام کے سوالوں کا جواب دیتی تھیں۔

ویسے قرآن کے ٹیچر کے طور پر لڑکیوں کے لیے مرد ٹیچر بالکل بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ قرآن کی تجوید میں زبان کو مختلف طرح سے حرکت دے کر یعنی مخارج کی ادائیگی کے ساتھ اور آواز کو بہترین بنا کر پڑھنا ہوتا ہے جبکہ ایک عورت کو مرد کے سامنے اپنی آواز بنانے کی اجازت نہیں ہے لہذا میری رائے یہ ہے کہ بالغہ لڑکی کو قرآن پڑھانے یا حفظ کرانے کے لیے خاتون ٹیچر کا انتخاب کیا جائے۔چھوٹی بچی کے لیے ناظرہ قرآن کے طور پر مرد استاد کے ہونے میں زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: میرے مامو کو فالج اٹیک ہوا تھا، ذہن پر بھی اثر تھا، وہ کسی کو پہچان نہیں پارہے تھے ، نہ بات کرسکتے تھے ایسی حالت میں رہ کر آٹھ ماہ بعدوہ  انتقال کرگئے ۔ ان کی فوت شدہ نمازوں کا کیا فدیہ دینا ہوگا اور کس کو دینا ہے؟

جواب:جب صورتحال ایسی تھی کہ فالج لگنے سے ذہنی توازن کھو گیا تھا اور وہ کسی کو پہچان نہیں پا رہے تھے، ایسی صورت میں فالج کے بعد انہیں نماز کے بارے میں بھی کچھ خیال نہیں رہا ہوگا۔ جب ایک آدمی کا ذہنی توازن اس طرح بگڑ جائے کہ اسے کسی چیز کی سمجھ نہ ہو تو ایسا آدمی مجنوں کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ مرفوع القلم ہوتا ہے یعنی اس سے نماز اور روزہ ساقط ہوجاتے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ جو آدمی فوت ہو جاتا ہے اس کی طرف سے کسی قسم کی نماز نہیں ادا کی جاتی ہے یعنی آدمی کے فوت ہو جانے کے بعد نماز کا کوئی کفارہ اور فدیہ نہیں ہے۔ نماز کا تعلق بس زندگی سے ہے۔

سوال: ایک لڑکی کے نکاح کے بعد اس کا شوہر اس کو ہر وقت برے لہجے میں یہ کہہ رہا ہے کہ میں شادی سے پہلے سکون میں تھا، میرا ہر کام بن جاتا تھا لیکن جب سے تجھ سے شادی ہوئی میں نقصان میں ہوں اور پریشان ہوں۔ ہر کام میں رکاوٹ ہو رہی ہے، تیرا قدم اچھا نہیں ہے، تجھ  سے شادی کرکے میں نے غلط کیا، مجھے پچھتاوا ہو رہاہے۔ تجھ سے شادی کے بعد میری کار بھی خراب ہوگئی اور تیری وجہ سے میری جاب بھی چلی گئی گویا شوہر کے ساتھ جو بھی برا ہوتا ہے وہ اس کے لئے اپنی بیوی کو قصوروار ٹھہرا رہا ہے۔ ان دونوں کو کیا فیصلہ کرنا ہوگا، کیا یہ دونوں الگ ہوجائے یا آگے زندگی ساتھ ہی گزارے؟

جواب:سوال میں مرد کی طرف سے جتنی باتیں ذکر کی گئی ہیں، یہ سب فضول، نادانی اور جہالت کی باتیں ہیں یعنی ایک آدمی اپنی غلطی کو دوسرے کے ذمہ ڈال رہا ہے۔

گھر سے باہر مرد کا جو بھی کام خراب ہوا، اس کے لیے جو بھی رکاوٹ آئی وہ سب اس کی اپنی وجہ سے ہے، اس میں بیوی ذرہ برابر بھی قصوروار نہیں کہلائے گی۔

گھر میں بیوی اپنے ہاتھ سے کوئی کام خراب کرتی ہے تو اس کے بارے میں بیوی کو کہہ سکتے ہیں لیکن گھر سے باہر جو کچھ ہوتا ہے اس کا ذمہ دار خود مرد ہے۔پھر کسی لڑکی سے شادی اپنی مرضی سے مرد خود کرتا ہے، اس میں مرد کے نقصان کے لئے عورت کا کوئی دخل نہیں ہے۔

مذکور ہ صورتحال میں، میں سمجھتا ہوں مقامی عالم سے رابطہ کرکے ان کے ذریعہ شوہر کو دینی رہنمائی اور نصیحت کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے کہ عالم کے سمجھانے سے اس کی عقل ٹھکانے آئے۔ شوہرکے دماغ میں فتور بھرا ہوا ہے۔اسے سمجھانے اور نصیحت کرنے کی ضرورت ہے تاہم  نصیحت اور کوشش کے باوجود اگر شوہر نہیں سمجھتا ہے تو بیوی ایسے مرد سے خود کو الگ کر سکتی ہے پھربھی  پہلے کسی عالم کے ذریعہ اسے سمجھانے کی بھرپور کوشش کرے۔

سوال: ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جو  عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے "دنیا میں ایک بھائی نے دوسرے بھائی پر احسان کیا تو وہ یہ ہے کہ موسی علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کے لئے نبوت مانگی"کیا یہ مستند حدیث ہے ؟

جواب:ایک اثر نقل کیا جاتا ہے جس میں یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک اعرابی جماعت کے لوگوں سے پوچھتا ہے کہ دنیا میں وہ کون شخص ہے جو اپنے بھائی کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہے۔ پھر خود ہی جواب دیتا ہے کہ اللہ کی قسم میں اس کو جانتا ہوں۔ وہ موسی ہیں جنہوں نے اللہ سے اپنے بھائی کے لیے نبوت مانگی۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم اس نے سچ کہا۔

اسی طرح سلف کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتا ہے کہ "کسی نے کسی کے بارے میں اس قدر شفاعت نہیں کی ہوگی جس قدر موسی نے ہارون کے بارے میں شفاعت کی کہ اسے نبوت مل جائے"۔

اس بات کو کچھ اس انداز میں بھی کہا جاتا ہے کہ "کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو موسی علیہ السلام نے ہارون پر کیا کہ اللہ سے دعا کرکے انہیں نبی بنوا دیا".
بہرکیف! یہ سلف کا قول ہے۔نیزقرآن کی مختلف آیات میں ان باتوں کا ذکر ہے کہ موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے اپنے بھائی کے لیے نبوت مانگی تو اللہ نے کہا کہ تمہاری مانگ ہم پوری کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کی مانگ پوری کرتے ہوئے آپ کے بڑے بھائی ہارون علیہ السلام کو نبی بنا دیا۔

سوال: اگر آپ کی آنکھوں کے سامنے کسی کا انتقال ہورہا ہو مگر اس کے سامنے نہ کوئی کلمہ کا ورد کیا اور نہ ہی تلاوت کی  اور آدمی انتقال کرگیا۔ اب وہ بہت پریشان ہے کیونکہ مرتے وقت وہ آدمی کے سامنے  کلمہ نہیں پڑھا اور کچھ تلاوت بھی نہیں کی ، کیااس میں گناہ ملے گا؟

جواب:جب کسی آدمی کی وفات ہو رہی ہو تو حدیث میں آیا ہے کہ اس کے پاس بیٹھ کر آہستہ آہستہ کلمہ کی تلقین کرنا چاہیے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر میت کلمہ سن کر وہ بھی کلمہ کا ورد کر لے تو اس کو کلمہ پر خاتمہ نصیب ہوگا۔دوسری بات یہ ہے کہ مرنے والے کے پاس کچھ بھی تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے معاشرے میں قرآن پڑھا جاتا ہے یا سورہ یاسین کی تلاوت کی جاتی ہے ،یہ درست نہیں ہے۔

اور جو آپ کا اصل سوال ہے کہ مرنے والے کے پاس اس کی زبان سے کلمہ نہیں نکل سکا، اس میں اس کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے ہرکسی کو یہ حکم نہیں دیا ہے کہ مرنے والے کے پاس واجبی طور پر کلمہ پڑھے۔ مسنون ہے کہ کوئی ایک آدمی میت کے قریب بیٹھ کر وہاں آہستہ آہستہ کلمہ کا ورد کرتا رہے۔جس کا سوال ہے، اسے اپنے اس معاملہ میں قطعا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کلمہ پڑھنے کا تعلق زندگی سے ہے، وہ اپنے لیے زندگی بھر کلمہ پڑھے اور کلمہ کا تقاضا پورا کرتا رہے۔ اور اس نے کوئی ایسی غلطی نہیں کی ہے جس کے لیے اسے گناہ ملے گا۔

سوال: شوہر کی دو بیویاں ہیں، اس نے دوسری بیوی اور اس کے گھر والوں کے دباؤ میں آکر پہلی بیوی کو طلاق دے دی ہے۔ دھوکہ سے بلوایا اور دوسری بیوی کے گھر والوں نے کہا اسے طلاق دو، تو شوہر نے تین بار ایک ساتھ کہہ دیا کہ میں نے طلاق دی، اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں۔دوسری بیوی اور اس کے گھر والوں نے شوہر کو کہیں رکھا ہوا ہے۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا دس سال کا ہے اور ایک بیٹی چھ ماہ کی دودھ پیتی ہے۔ کیا طلاق ہو گئی ہے؟

جواب:مذکورہ بالا سوال کے تحت دو صورتیں بنتی ہیں۔

ایک صورت یہ ہے کہ اگر شوہر نے بالکل دباؤ میں آکر پہلی بیوی کو طلاق دیا ہے اور دباؤ بھی اس طرح ہے وہ کہ تلوار یا بندوق کی نوک پر طلاق دینے کے لیے کہا گیا ہو، ورنہ اس کی جان کو خطرہ ہو تو ایسی صورت میں یہ طلاق واقع نہیں ہوگی یعنی جبری طلاق شمار نہیں کی جائے گی ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر یونہی تھوڑی بہت زبردستی اور ضد کرکے شوہر کو طلاق دینے کے لیے کہا گیا ہو تو ایسی صورت میں طلاق واقع ہو جائے گی۔

اب اس خاتون کے لیے کون سی صورتحال ہے اس کا پتہ لگانے کے لیے مقامی طور پر عالم دین سے رابطہ کرکے اور ان کو صحیح حالات بتا کرکے اپنے بارے میں فتوی طلب کرے۔

سوال: اگر کسی شخص کے بہکاوے میں آکر کوئی حرام کام کرلے اور اسکے بعد اسے کوئی بیماری لاحق ہو جاۓ تو کیا یہ اللہ کی جانب سے سزا ہے۔اب وہ بار بار توبہ بھی کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ میرا اللہ مجھ سے ناراض ہے اس لئے میں بیمار ہوں۔ آپ اس بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب:جس آدمی نے حرام کام کیا اور وہ اس کے بعد کسی بیماری میں مبتلا ہوا تو یہ ممکن ہے کہ وہ اسی حرام کام کی سزا ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ (الشوری:30)

ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ۔

جس بندے نے حرام کام کیا ،اسے چاہیے کہ اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے یعنی وہ اپنے گناہوں پر بےحد شرمندہ ہو اور اس گناہ کو ترک کر دیا ہو اور وہ اللہ سے اس گناہ کے دوبارہ نہ کرنے کا وعدہ کرے۔اس کا یہ احساس کرنا کہ اللہ مجھ سے ناراض ہے، بالکل درست ہے، وہ اس احساس کے ساتھ مزید اور بار بار توبہ کرتا رہے، ساتھ ہی برے لوگوں کی صحبت سے خود سے دور رکھے اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرے اور خشوع وخضوع کے ساتھ رب کی بندگی کرے۔

سوال: ایک حدیث میں ہے کہ مجنون سے قلم اٹھالیا گیا ہے جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ چار قسم کے لوگ اللہ سے قیامت میں گفتگو کریں گے ان میں سے ایک پاگل بھی ہوگا جو اللہ سے کہے کہ اسلام آیا مگر میں اس حال میں تھا کہ بچے مجھ پر میگنیاں پھینک رہے تھے۔ اللہ تعالی ان لوگوں کی بات سن کر کہے گا کہ جہنم میں کود جاؤ، جو کود جائے گا ، ان پر آگ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجائے گی۔ مسند احمد۔ بظاہران دونوں میں تعارض لگ رہا ہے اس کا حل کیا ہے؟

جواب:مجنوں کے بارے میں اصل معاملہ یہی ہے کہ قیامت میں اس کا محاسبہ نہیں ہوگا لیکن جو مجنوں اپنی زندگی میں کچھ دیر کے لیے بھی ٹھیک رہا ہو تو پھر اس کا اتنی دیر کے لیے محاسبہ ہوگا۔ اسی طرح جس مجنوں کے والدین کافر رہے ہوں گے اس کا بھی محاسبہ ہوگا۔ اسی طرح جس قوم تک دعوت نہیں پہنچی ہو اس قوم کے لوگوں کا امتحان ہوگا، اس قوم کے مجنوں کا بھی آخرت میں امتحان ہوگا۔خلاصہ یہ ہے کہ محاسبہ اور امتحان کا معاملہ کچھ خاص قسم کے مجنوں کے ساتھ ہے جبکہ علی الاطلاق مجنوں کا حساب و کتاب نہیں ہوگا۔

سوال: ایک خاتون کا سوال ہے کہ ہم اپنی تصویریں جو کھینچتے ہیں اور کسی نامحرم کو نہیں دکھاتے ہیں تو اسے کیا موبائل اور لیپ ٹاپ میں رکھا جا سکتا ہے؟

جواب:گوکہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ موبائل کی تصویر حرمت والی تصویروں میں داخل ہے یا نہیں ہے تاہم اکثر علماء کا یہی کہنا ہے کہ موبائل کی تصویر بھی ان تصاویر میں داخل ہے جن کی حرمت بیان کی گئی ہے۔

جب موبائل کی تصویر کو بھی حرام تصویروں میں شامل مانا جائے پھر ایسی تصویر کھینچنا اور انہیں موبائل یا لیپ ٹاپ میں محفوظ رکھنا جائز نہیں ہے۔اس بارے میں، میں یہی کہوں گا کہ ان تصویروں کے تئیں  بھی جتنا احتیاط برتتے ہیں اتنا ہی بہتر ہے۔ساتھ ہی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، کب موت آجائے پھر محفوظ تصویریں باقی رہ جائیں گی ۔ عورت کا معاملہ ویسے بھی نازک ہے۔

سوال: کیا میں رکوع کی تسبیح پڑھتے ہوئے سجدہ میں جاسکتی ہوں؟

جواب:جب آپ رکوع کریں گے تو رکوع میں رکوع کی تسبیح پڑھیں گے پھر رکوع سے اٹھنے کے لیے سمیع اللہ لمن حمدہ کہیں گے اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائیں گے۔رکوع سے اٹھنے اور سجدہ میں جانے کا یہ طریقہ ہے۔ایسے میں بھلا کوئی رکوع کی تسبیح پڑھتے ہوئے سجدہ میں کیسے جائے گا کیونکہ اسے رکوع سے اٹھنے کے لیے اور سجدہ میں جانے کے لیے اللہ کا ذکر کرنا پڑتا ہے جسے تکبیرات انتقال کہتے ہیں۔

سوال: ایک خاتون حیض ختم ہونے کی عمر کو پہنچ رہی ہے۔ ابھی اسے بارہ دن حیض آیا پھر دس دنوں کا وقفہ رہا ،پھر دوبارہ حیض شروع ہوگیا، ایسے میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب:دوسری مرتبہ جو حیض آیا، اگر اس کے اندر حیض کے صفات پائے جاتے ہیں یعنی اس کا رنگ کالا، گاڑھا اور بدبودار ہے تو اس کو حیض شمار کیا جائے گا لیکن اگر اس کے اندر حیض کے صفات نہ ہوں تو پھر اس کو حیض شمار نہ کیا جائے بلکہ اس میں نماز کی پابندی کی جائے۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب بھی حیض آجائے وہ حیض ہے خواہ دو حیض کی مدت لمبی ہو جائے یا کم ہو جائے۔ جب عورت کو حیض آئے اور وہ پاک ہوجائے خواہ پانچ دن، چھ دن یا سات دن میں پھر دوبارہ ماہواری شروع ہو جائے تو وہ رک جائے گی اور نماز نہیں پڑھے گی کیونکہ یہ حیض ہے۔

سوال: اگر میرے پاس  کسی شہر میں وراثتی زمین ہے مگر وہاں نہیں رہتے یا وہ زمین بیج دی ہے ، پھر کبھی اس طرف جائیں تو وہاں نماز کیسے پڑھیں؟

جواب:نماز قصر کرنے کا اصول آپ کو بتاتا ہوں۔جہاں آپ قیام کرتے ہیں یعنی جو آپ کے قیام کی جگہ ہے، وہاں آپ کسی شہر یا ملک سے لوٹ کر آتے ہیں تو اس جگہ مکمل نماز پڑھیں گے کیونکہ یہ آپ کے قیام کی جگہ ہے۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کسی ایسی جگہ جاتے ہیں جہاں پر آپ کی رہائش نہیں ہے یعنی وہاں آپ قیام نہیں کرتے خواہ وہ کوئی جگہ ہو۔ اگر وہاں پر چار دن یا اس سے کم ٹھہرتے ہیں تو قصر کریں گے اور چار دن سے زیادہ ٹھہریں گے تو مکمل نماز پڑھیں گے۔

سوال: ہاتھ پہ سرجری ہوئی ہے تو وضو کیسے کرنا چاہئے؟

جواب:اگر ایک ہاتھ پر سرجری ہوئی ہے اور دوسرے ہاتھ سے پانی استعمال کرنا ممکن ہے تو ایسی صورت میں دوسرے ہاتھ کا استعمال کرکے وضو کریں گے۔وضو کرتے ہوئے جس جگہ سرجری ہوئی ہے اس جگہ پانی استعمال نہیں کریں البتہ ہاتھ کو تر کرکے اس پر تر ہاتھ پھیر لیں جیسے سر پر مسح کرتے ہیں۔ عموما زخم پر پٹی لگی ہوتی ہے، پٹی پر تر ہاتھ سے مسح کرلیں گے۔بقیہ اعضائے وضو اسی طرح دھلیں جیسے وضو میں دھلتے ہیں۔  جب پانی کا استعمال مضر یا طبیب کی طرف سے ممنوع ہو یا پانی سے وضو کرنا ممکن نہ ہوتو ایسی صورت میں وضو کے لئے پاک مٹی سے تیمم کرلیں گے۔

سوال: ایک شخص ہے جس نے قبضہ کر کے کسی اور کی زمین پر مسجد بنائی تو کیا اس مسجد میں نماز ہوگی اور اسی طرح اگر کوئی گٹکھے کی تجارت کرتا ہے یا پھر سامان چوری کرتا ہے تو کیا اس سے مسجد کے لیے چندہ وصول کرنا درست ہوگا ؟

جواب:اگر کسی مسجد کی زمین غصب کی ہوئی ہو تو اس میں نماز ہوگی یا نہیں ہوگی؟ اس سے متعلق اہل علم اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں نماز ہوجائے گی اور غصب کا گناہ اس کے اوپر ہوگا جس نے زمین غصب کی ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ مغصوب زمین پر بنی مسجد میں نماز پڑھنا علماء کے نزدیک اجماعی طور پر حرام ہے۔اس سلسلے میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس جگہ کی مسجد کا یہ معاملہ ہے، وہاں کے مقامی عالم سے مدد لی جائے کیونکہ اس طرح کے مسائل میں تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے کہ مسجد کی زمین غصب کی ہوئی ہے یا نہیں ہے، بعض لوگ جھوٹی خبریں بھی اڑا دیتے ہیں۔

دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر میں ایسے آدمی سے چندہ نہیں لیا جائے گا جس کی کمائی حرام کی ہو، مسجد کی تعمیر میں  خالص حلال پیسہ ہی استعمال کیا جائے گا۔

سوال: میں ایک کمپنی میں آئی ٹی ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتا ہوں۔میری ذمہ داریوں میں  پرانے یا خراب لیپ ٹاپس فروخت کرنا، ان کی مرمت کروانا اور نئے لیپ ٹاپس خریدنا شامل ہیں۔ میرا ایک سوال یہ ہے کہ کچھ دن پہلے کمپنی نے پرانے اور خراب لیپ ٹاپس فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے دوست (جو وینڈر بھی ہے) کو اس بارے میں بتایااور اس نے فی لیپ ٹاپ 8, کا کوٹیشن دیا۔ بعد میں ،میں نے اپنے منیجر سے پوچھا کہ کیا میں خود انہی لیپ ٹاپس کو اسی قیمت پر خرید سکتا ہوں مگر منیجر نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر کمپنی کو پتہ چلا تو یہ قانونی مسئلہ بن سکتا ہے۔اس کے باوجود، میں نے اپنے دوست سے علیحدہ بات کی اور کہا کہ جب وہ کمپنی سے لیپ ٹاپس خرید لے تو مجھے دے دےاور میں اسے فی لیپ ٹاپ 1,000 اضافی دوں گا۔ اس نے حامی بھر لی اور میں نے وہ لیپ ٹاپس لے کر منافع کے ساتھ فروخت کرنا شروع کر دیے۔ کیا میں نے اسلامی اعتبار سے غلط کام کیا ہے؟اسی سے متعلق دوسرا سوال یہ ہے کہ ہماری کمپنی اپنے لیپ ٹاپس کی مرمت (repairs) ڈیل (Dell) اور ایپل (Apple) کے منظور شدہ سروس سینٹرز سے کرواتی ہے لیکن ان کے چارجز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈیل ایک ڈسپلے کی تبدیلی کے لیے تقریباً 75,000 لیتا ہےجبکہ میں نے ایک اور وینڈر ڈھونڈا جو وہی کام 32,000 میں کرتا ہے۔ اسی طرح، ایپل نے ایک مرتبہ ایک مسئلے کی مرمت کے لیے 90,000 لیے، جبکہ ایک اور وینڈر نے وہی کام صرف 6,500 میں کر دیا۔ اب میرا سوال یہ ہے چونکہ کمپنی ویسے بھی اتنی بڑی رقم ادا کرتی ہےاور میں نے ایک سستا وینڈر ڈھونڈ لیا ہے جو وہی کام کم پیسوں میں کر دیتا ہے، تو کیا میں کمپنی کو تھوڑا زیادہ بل دے کر خود کچھ منافع رکھ سکتا ہوں؟ مثلاً اگر وینڈر مجھ سے 32,000 لیتا ہے تو کیا میں کمپنی کو 45,000 کا بل دے سکتا ہوں تاکہ کمپنی کو بھی فائدہ ہو (کیونکہ پہلے وہ 75,000 دیتی تھی) اور مجھے بھی کچھ منافع مل جائے، کیا ایسا کرنا جائزہوگا؟

جواب:آپ جس کمپنی میں نوکری پر کام کر رہے ہیں، اس کمپنی کا سامان اپنے لیے خرید کر دوسروں سے بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ آپ  کے لیےاس جگہ  مالک کی طرف سےلیپ ٹاپ خریدنے کی اجازت نہیں ہےخواہ  وہ براہ راست مینیجر سے خریدیں  یا کسی دوست کے حیلہ سے خریدیں ، جائز عمل نہیں ہے۔آپ  کا دوسرا عمل بھی ناجائز اور حرام ہے۔

پہلی فرصت میں آپ  کو گزشتہ عمل سے توبہ کرنا چاہئےاورآئندہ کے لئے ناجائز عمل سے باز رہناچاہئے۔آپ  اس کمپنی میں رہتے ہوئے کمپنی کے نظام کے تحت محض اپنی ذمہ داری ادا کریں، آپ  اپنی نوکری کی تنخواہ پاتے ہیں ،اس کے عوض جو کام آپ  کے سپرد ہے وہ ٹھیک اسی طرح انجام دیں  جیسے کمپنی کی پالیسی ہے۔سامان کی  مرمت میں کہیں سے سستا وینڈر مل رہا ہے تو اس کے لئے آپ  محض کمپنی کو آگاہ کرسکتے ہیں  کہ فلاں جگہ سے سستی قیمت پر لیپ ٹاپ ٹھیک ہوجائے گا۔ کمپنی اجازت دے تو اس جگہ سے بھی مرمت کرواسکتے ہیں  مگر اس کام کے لئے بغیر کمپنی کی اجازت کے اپنے لئے منافع لینا یا وینڈر کو کم قیمت دے کر اپنی کمپنی کو زیادہ بل دینا جائز نہیں ہے۔ ایک لفظ میں یہ سمجھیں کہ اس کمپنی میں کام کرتے ہوئے اس کمپنی کے سامانوں سے خفیہ طور پر اپنے لئے منافع کماناجائز نہیں ہے۔ آپ  اس کمپنی کا ایک ملازم ہیں ، آپ  کواپنے کام کی  تنخواہ مل رہی ہے  لہذا آپ  امانتدار ی کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائیں  تاکہ کمپنی سے ملنے والی تنخواہ آپ کے لئے حلال ہو۔

سوال: جو اذکار سو دفعہ والے ہوتے ہیں ،میں انہیں  انگلیوں پر کرتی ہوں، اگر اسے تسبیح پر کروں  تو کیا اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا انگلیوں پر کرتی ہو کیونکہ کبھی کبھی گنتی بھول بھی جاتی ہوں تو کیا میں دانوں  پرتسبیح  کر سکتی ہوں اور انگلیوں پر تسبیح کرنے جیسا اجر ملے گا؟

جواب:ویسے انگلیوں پر تسبیح پڑھنا افضل ہے کیونکہ انگلیاں قیامت میں گواہی دیں گی تاہم تسبیح کے دانوں پر بھی تسبیح پڑھ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کا جو ثواب ہے وہ برابر ملے گا۔ایسا نہیں ہے کہ انگلی پر تسبیح کرنے سے پورا ثواب ملے گا اور دانوں پر تسبیح کرنے سے کم ثواب ملے گا، ان دونوں صورتوں میں برابر ثواب ملے گا۔

سوال: کیا بدعتی مسلمان جو رشتے دار بھی ہیں، ان کی مغفرت کے لئے دعا کرسکتے ہیں؟

جواب:جو مسلمان ہیں اور وہ بدعت میں بھی ملوث ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ایک ذمہ داری ہماری یہ ہے کہ ہم انہیں بدعت سے روکیں اور کتاب و سنت کی طرف بلائیں۔ان کے تعلق سے ایک دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں یعنی اللہ رب العالمین سے دعا کریں کہ اللہ انہیں بدعت سے بچاکر سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

اور جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ ایسے لوگوں کی مغفرت کے لیے دعابھی  کر سکتے ہیں کیونکہ یہ منجملہ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں اور کلمہ پڑھنے والے ہیں۔

سوال: گھر میں کام کرنے والے ملازمین جو  بہت غریب ہیں کیا ان کو زکوۃ کے پیسوں سے مدد کرسکتے ہیں اگر ان کو کوئی مزید ضرورت  درپیش ہوجائے جیسے سخت بیماری میں علاج کےلئے یا کپڑہ وغیرہ کےلئے۔ تنخواہ تو دی ہی جارہی ہے مگر ضرورت کے وقت مانگنے پر زکوۃ سے مدد کرسکتے ہیں اور کسی نے ملازم کو زکوۃ دیدی ہو تو کیا پھر سے زکوۃ دینی پڑے گی ؟

جواب:گھر کے ملازم کو ضرورت اور بیماری میں زکوۃ کے پیسوں سے مدد کی جا سکتی ہے جبکہ زکوۃ کے پیسہ تنخواہ کے طور پر نہ ہو۔ملازم کو زکوۃ  دینے کے لیے شرط یہی ہے کہ وہ اپنی ضرورت پورا کرنے سے عاجز ہو تو اس کو ،ضرورت کی تکمیل کے لیے زکوۃ دے سکتے ہیں۔ اور جس نے اپنے ضرورت مند ملازموں کو زکوۃ سے مدد کی ہواس کی زکوۃ ادا ہوگئی ، اسے دوبارہ زکوۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال:بائیکاٹ کمپنیوں اور  پروڈکٹس کے استعمال کا کیا حکم ہے جیسے چاکلیٹ، بسکٹ ، صرف اور دیگر اشیاء جو دوسرے برانڈز کے مقابلے میں اچھی کوالٹی کے ہوتے ہیں؟

جواب:کوئی بائیکاٹ کمپنی اور کوئی بائیکاٹ پروڈکٹ نہیں ہے، یہ جذباتی لوگوں کا بائیکاٹ ہے۔ کہیں سے مستند علماء نے بائیکاٹ کا کوئی فتوی صادر نہیں کیا ہے۔ جو نوجوان دن و رات یہودی مشینری ایجادات کا استعمال کرتے ہیں وہی چند کھانے پینے کی چیزوں کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرتے ہیں حتی کہ یہ بات بھی یہودیوں کے ایجاد کردہ انٹرنیٹ ، موبائل اور اپلیکیشنز پر کرتے ہیں۔ آخر بائیکاٹ سے یہودیوں کا کیا نقصان ہوا، یہودی کئی مہینوں سے بلکہ کئی سالوں سے اب تک  فلسطین میں مسلمانوں کا قتل کرتے آرہے ہیں۔اصل میں  بائیکاٹ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ آپ حلال چیزیں جہاں سے چاہیں خریدیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: فجر کی نماز میں پہلے دو سنت پھر دو فرض پڑھتے ہیں اور اگر کبھی کبھار فجر قضا ہو جائے تو کیا پہلے فرض پڑھیں پھر سنت پڑھیں یا ویسے ہی جیسے فجر کے وقت پہلے سنت اور پھر فرض پڑھیں؟

جواب:اگر آپ وقت پر فجر کی نماز نہ ادا کر سکیں تو جب اس نماز کو ادا کرنے کا موقع ملے، پہلے سنت پڑھیں پھر اس کے بعد فرض پڑھیں کیونکہ فجر کی نماز کی یہی ترتیب ہے یعنی فجر کی نماز کو ترتیب سے ادا کریں گے۔

سوال: میرے پڑوس میں ایک گھر میں دو افراد کی شادی ہوگئی ہے اور چار لوگوں کی نہیں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ  سب کی شادی نمبر سے ہوگی اور رشتہ ہونے میں تاخیر بھی ہو رہی ہے اور سب کی عمر نکلتی جا رہی ہے لیکن جو پانچواں  سب سے چھوٹا ہے، اس کی عمر اٹھائیس سال ہو چکی ہے۔ وہ اپنا رشتہ پکا کرنا چاہتا ہے لیکن گھر والے نہیں  مان رہے ہیں  اور کہتے ہیں کہ  ایسا ہوگا تو جس کا رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں  اس رشتے پے غلط پیغام جائے گایعنی  بڑے کے رہتے ہوئے چھوٹا کر لیا ۔ اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں ؟

جواب:اسلام نے ترتیب عمر کے ساتھ اولاد کی شادی کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ بلوغت کے بعد لڑکا اور لڑکی کی شادی کی جا سکتی ہے اور اس میں عمر کی ترتیب کا خیال کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ بڑے سے پہلے چھوٹے کی شادی ہو جانے کو سماج میں لوگ معیوب سمجھتے ہیں اور آج کل کے مسلمان بھی کتنے دین دار ہیں ہم سبھی دیکھ رہے ہیں لہذا کوئی احتیاط کرتے ہوئے ترتیب سے اپنی  اولاد کی شادی کرنا چاہے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور بغیر ترتیب کے کسی کا رشتہ آجائے تو اس کی شادی کرنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔پانچویں نمبروالا نکاح کی زیادہ ضرورت محسوس کررہا ہے تو اس کے گھروالوں کو نکاح سے نہیں روکنا چاہئے ۔آج کا زمانہ پرفتن ہے، نکاح میں تاخیر سے بہت سارے فتنے برپا ہورہے ہیں اس لئے وقت پر اولاد کی شادی کردینی چاہئے۔ شادی کی تاخیر کی ایک بڑی وجہ ذات وبرادری اور دنیاوی معیار تلاش کرنا ہے۔ اگر ہم دین دیکھ کر شرعی تعلیمات کی روشنی میں نکاح کریں تو نکاح میں تاخیر نہیں ہوگی۔

سوال: کیا کنگارو کھا سکتے ہیں کیونکہ میں نے ایک ویڈیو میں دیکھا لوگ   کنگارو کھا رہے ہیں جو کہ عرب کی ویڈیو ہے؟

جواب:کھانے پینے کی چیزوں میں اصل اباحت ہے جب تک کہ اس کی حرمت کی کوئی دلیل نہ آجائے۔ کنگارو گھاس کھانے والا جانور ہے یعنی یہ چیر پھاڑ کرنے والا کوئی درندہ نہیں ہے اور پھر اس کی حرمت پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے لہذا یہ جانور حلال ہے، اسے کھایا جاسکتا ہے۔

سوال: دل میں اٹھنے والے غلط خیال پہ مواخذہ نہیں ہوگا پھر قرآن کی آیت (ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسئولا-اسراء:36- کا کیا مطلب ہے؟

جواب: انسان جو بھی عمل کرتا ہے اس کا تعلق دل سے ہی ہوتا ہے کیونکہ ہرعمل کے لئے اس کی  اچھی  یابری نیت کا صدور یہیں سے ہوتا ہے ۔ پھر دل میں پیداہونے والے غلط خیال تو لکھے نہیں جاتے جب تک کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے یا زبان سے اظہار نہ ہومگر اچھی نیت پیدا ہونے پراس کا ثواب لکھا جاتا ہے اگرچہ اس پر آدمی کسی عذر کے سبب  عمل نہ کرسکے ۔ یہ اللہ کا اپنے بندوں پر بڑا فضل ہے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔