چھ ربوی اموال اور ان کے احکام
تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی
السلامہ – سعودی عرب
سود کو عربی زبان
میں" ربا "کہا جاتا ہے۔ ربا کا معنی اضافہ اور زیادتی ہے اور شریعت میں
ربا کچھ مخصوص اشیاء میں زیادتی اور اضافہ
کو کہا جاتا ہے۔ اس تحریر میں انہیں مخصوص اشیاء یعنی ربوی اموال کے بارے میں جانکاری حاصل کریں گے۔
سود کی دو قسمیں ہیں۔ ایک
قرض والا سود ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی کسی کو کوئی چیز بطور قرض دیتا ہے اور شرط
لگاتا ہے کہ واپسی پراتنا اضافہ کے ساتھ لوٹانا پڑے گا بطور مثال ایک آدمی ، دوسرے
کو ہزار روپیہ دوماہ کے لئے قرض دیتا ہے اور شرط لگاتا ہے کہ واپسی پہ ڈیڑھ ہزار
روپئے لوٹانا ہے۔ مشروط طور پر اضافہ کے ساتھ اس طرح قرض واپس کرنا سودی قرض
کہلاتا ہے۔
سود کی دوسری قسم
کاروباری سود ہے۔ اس کی دوقسمیں ہوتی ہیں۔
(1)ربا الفضل: فضل اضافہ
کو کہتے ہیں ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اصناف ربویہ میں اضافہ کے ساتھ سودی
معاملہ کرنا جیسے ایک آدمی سونا کا سونا کے ساتھ
تبادلہ کرے مگر اضافہ کے ساتھ ، بطور مثال پچاس گرام پرانا سونا دے اور تیس
گرام نیا سونا حاصل کرے۔ یہ ربا الفضل ہے۔
حضرت عثمان بن عفان
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَبِيعُوا
الدِّينَارَ بِالدِّينَارَيْنِ، وَلَا الدِّرْهَمَ بِالدِّرْهَمَيْنِ(صحيح
مسلم:4058)
ترجمہ:تم ایک دینار
کی دو دیناروں کے عوض اور ایک درہم کی دو درہموں کے عوض بیع نہ کرو۔
(2) ربا النسیئۃ:نسیئہ
تاخیر کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ اصناف ربویہ میں سودی معاملہ تاخیرسے
متعلق ہو جیسےکوئی پیسے سے سونا خرید رہا
ہے مگر ادھار معاملہ کررہا ہے۔ اس کی مثال یہ ہوگی کوئی پیسے سے سونا خریدنا چاہتا
ہے، اس نے آج کچھ پیسہ جمع کرکے سونا اپنے نام بک کرلیا، باقی بچا پیسہ پھر کبھی
آکر جمع کے سونا قبضہ میں کرتا ہے۔ اسی طرح کوئی آن لائن سونا خریدتے ہوئے پیسہ
ابھی جمع کردیتا ہے اور سونا کچھ دنوں کے بعد اس کے قبضہ میں آتا ہے۔اسی طرح روپیہ
پیسہ قرض(ادھار) دے کر کچھ دنوں بعد اضافہ کے ساتھ قرض واپس لیا جاتا ہے۔ یہ سارےادھار اور تاخیر والےسود ہیں۔
عبادہ بن صامت رضی
اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَلَا بَأْسَ
بِبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ، وَالْفِضَّةُ أَكْثَرُهُمَا يَدًا بِيَدٍ،
وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلَا، وَلَا بَأْسَ بِبَيْعِ الْبُرِّ بِالشَّعِيرِ،
وَالشَّعِيرُ أَكْثَرُهُمَا يَدًا بِيَدٍ، وَأَمَّا نَسِيئَةً فَلَا (سنن ابي
داود:3349)
ترجمہ:سونے کو چاندی
سے کمی و بیشی کے ساتھ نقدا نقد بیچنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ادھار درست
نہیں اور گیہوں کو جو سے کمی و بیشی کے ساتھ نقدا نقد بیچنے میں کوئی حرج نہیں
لیکن ادھار بیچنا صحیح نہیں۔
یہاں یہ بات پوری طرح
واضح اور صاف رہنی چاہئے کہ اسلام میں ہرقسم کا سود منع ہے خواہ قرض والا ہو یا
کاروباری ہو۔ سود کی حرمت سے متعلق قرآن وحدیث میں متعدد نصوص ہیں جن کے احاطہ کا
یہ مقام نہیں ہے تاہم بطور استشہاد چند دلائل ذکر کرتا ہوں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ
الرِّبَا(البقرۃ؛275)
ترجمہ:اور اللہ
تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا
الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ
وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (آل عمران:130)
ترجمہ:اے ایمان والو!
بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ ، اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہیں نجات ملے۔
حضرت جابر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
لَعَنَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ
وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ (صحيح مسلم:1598)
ترجمہ:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں
گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔
سمرہ بن جندب رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:
رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ
رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي، فَأَخْرَجَانِي إِلَى أَرْضٍ مُقَدَّسَةٍ، فَانْطَلَقْنَا
حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ، وَعَلَى وَسَطِ
النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي
النَّهَرِ، فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ، رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ
فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ، فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي
فِيهِ بِحَجَرٍ، فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ فَقَالَ: الَّذِي
رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ، آكِلُ الرِّبَا(صحيح البخاري:2085)
ترجمہ:رات (خواب میں)
میں نے دو آدمی دیکھے، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس میں لے گئے، پھر
ہم سب وہاں سے چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے، وہاں (نہر کے کنارے) ایک
شخص کھڑا ہوا تھا، اور نہر کے بیچ میں بھی ایک شخص کھڑا تھا۔ (نہر کے کنارے پر)
کھڑے ہونے والے کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ بیچ نہر والا آدمی آتا اور جونہی وہ
چاہتا کہ باہر نکل جائے فوراً ہی باہر والا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ کر مارتا
جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا۔ اسی طرح جب بھی وہ نکلنا چاہتا کنارے
پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا اور وہ جہاں تھا وہیں پھر لوٹ
جاتا۔ میں نے (اپنے ساتھیوں سے جو فرشتے تھے) پوچھا کہ یہ کیا ہے، تو انہوں نے اس
کا جواب یہ دیا کہ نہر میں تم نے جس شخص کو دیکھا وہ سود کھانے والا انسان ہے۔
مستدرک حاکم اور
بیہقی میں ہے جسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
دِرهمُ ربًا يأكلُه
الرَّجلُ وهوَ يعلَمُ ؛ أشدُّ من سِتةٍ وثلاثين زَنْيَةٍ(صحيح الترغيب :1855)
ترجمہ:سود کا ایک
درہم جسے انسان جانتے بوجھتے کھاتا ہے، یہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی بدتر ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الرِّبَا سَبْعُونَ
حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ(سنن ابن ماجه:2274و صححه
الباني)
ترجمہ:سود ستر گناہوں
کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔
آج زمانے میں سود کی
مختلف شکلیں رائج ہیں بلکہ بعض ادارے سود پر ہی مبنی ہیں جیسے بینکنگ سسٹم(ماسواشرعی اصول پرمبنی
بنک) اور تجارتی انشورنس کی تمام تر
اسکیمیں وغیرہ۔اسی طرح قرضوں میں مشروط
نفع واضافہ، تجارت میں متعین رقم والا منافع،شیئر مارکیٹ ، نٹورک مارکیٹ اور اشیاء
کی خریدوفروخت میں مختلف قسم کے سودی اسکیم وغیرہ ۔ غرض یہ کہ آج کل سود کے بے
شمارراستے کھل گئے ہیں، ان سب کے بارے میں
ایک جملہ میں یہ سمجھ لیں کہ سود کسی قسم کا ہو ،جائز نہیں ہے۔اسلام نے سرے سے سود
کو حرام قرار دیا ہے۔ کبھی آدمی کے لئے سودی معاملہ کرنے کی اضطراری صورت درپیش
ہوجاتی ہےایسی صورت میں اس کی گنجائش ہے جیسے گاڑیوں کے لئے انشورنس کرانا ضروری
ہوتا ہے ، اسی طرح باہری ممالک سے روپیہ پیسہ بھیجنے کے لئے سودی بنک کا سہارا
لینا ضروری ہوتا ہے یا مختلف اشیاء کی خریدوفروخت کے لئے آن لائن پیمنٹ دینے کی
ضرورت ہوتی ہے ۔ اس قسم کے ناگزیرصورت حال میں اضطراری سودی کام کرگزرنے کی گنجائش
ہے۔
اب آتے ہیں چھ ربوی
اموال کی طرف ۔ رسول اللہ ﷺ نے چھ قسم کی اشیاء کو ربوی اصناف قرار دیا ہے یعنی آپ
اس بات کو اس طرح سمجھ لیں کہ چھ قسم کی چیزوں میں سود واقع ہوتا ہے۔ ہمیں ان
صورتوں کو جاننے کی ضرورت ہے جن میں سود واقع ہوتا ہے تاکہ ان اشیاء کے تبادلہ میں
سودی پہلو سے بچ کر جائز طور پر کاروبار کریں۔
سيدنا عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ
بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ ،
وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ ،
وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلا بِمِثْلٍ سَوَاءً
بِسَوَاءٍ يَدًابِيَدٍ،فَإِذَا اخْتَلَفَتْ هَذِهِ الأَصْنَافُ فَبِيعُوا كَيْفَ
شِئْتُمْ إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ(صحیح مسلم:ترقیم عبدالباقی:1587، ترقیم
شاملہ:4063)
ترجمہ: سونے کے عوض سونا، چاندی کے عوض چاندی، گندم کے عوض
گندم، جو کے عوض جو، کھجور کے عوض کھجور اور نمک کے عوض نمک (کا لین دین) مثل
بمثل، یکساں، برابر برابر اور نقد بنقد ہے۔ جب اصناف مختلف ہوں تو جیسے چاہو بیع
کرو بشرطیکہ وہ دست بدست ہو۔
مذکورہ بالا حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ان چھ اصناف کا ذکر
فرمایاہے جن میں سود واقع ہوتا ہے اور وہ سونا، چاندی، گندم ، جو، کھجور اور نمک
ہیں۔ نیز ان چھ چیزوں میں سونا اور
چاندی میں علت ثمن(قیمت ہونا) ہے اور گندم وجو، کھجور ونمک میں علت غذاہے یعنی وہ
یہ کھائی جانے والی چیز ہے جو ناپی جاسکے یا تولی جاسکے۔
ان چھ اموال کی تین صورتیں بنتی ہیں ۔
پہلی صورت : جنس کا جنس سے تبادلہ
اس کی وضاحت حدیث میں گزر چکی ہے کہ ایک جنس کا تبادلہ دوسری
جنس سے ہو تو دونوں طرف جنس(مقدار میں ) برابر برابر ہونا چاہئے اور سودا نقد یعنی
ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے۔اس کو مندرجہ ذیل ایک مثال سے سمجھیں ۔
٭سونا کا تبادلہ سونا سے: جب ہم سونا کا تبادلہ سونا سے کریں
تو دونوں طرف سونا برابر ہوجیسے دس گرام سونا دیتے ہیں تو دس ہی گرام سونا لینا
ہے اور معاملہ نقد یعنی ایک ہی مجلس میں
دس گرام سونا دے کر دس گرام سونا پر قبضہ کرنا ہے۔ اسی طرح کھجور کا تبادلہ کھجور سے کریں تو
دونوں طرف کھجور برابر ہونا چاہئے اور معاملہ نقد ہونا چاہئے جیسے ایک کلو کھجور
دیتے ہیں تو ایک کلو کھجور لینا ہےاور اسی مجلس میں سودا پر قبضہ کرنا ہے۔
اگر ایک جنس کا اسی جنس سے تبادلہ کرتے وقت مقدار میں فرق ہوا
جیسے دو کلو،ردی کھجور دےکر ایک کلو عمدہ کھجور لئے تو یہ سودی معاملہ ہوجائے گا۔
اسی طرح اگر دونوں طرف جنس ایک ہی ہو اور مقدار میں دونوں برابرہوں مگر سودا ادھار
ہو یعنی ابھی ایک طرف سے دے دیا گیا لیکن
دوسری طرف سے قبضہ نہیں کیا گیا تو یہ بھی سودی معاملہ ہے۔
|
نمک +نمک |
کھجور +کھجور |
جو +جو |
گندم +گندم |
چاندی +چاندی |
سونا +سونا |
|
نفس علت+نفس جنس |
نفس علت+نفس جنس |
نفس علت+نفس جنس |
نفس علت+نفس جنس |
نفس علت+نفس جنس |
نفس علت+نفس جنس |
|
ہاتھوں ہاتھ+برابربرابر |
ہاتھوں ہاتھ+برابربرابر |
ہاتھوں ہاتھ+برابربرابر |
ہاتھوں ہاتھ+برابربرابر |
ہاتھوں ہاتھ+برابربرابر |
ہاتھوں ہاتھ+برابربرابر |
دوسری صورت: جنس مختلف ہو مگر ان کی علت ایک ہو۔
اس صورت کی بھی وضاحت حدیث میں گزر چکی ہے کہ اگر اصناف بدل
جائیں تو کیسے بھی بیچو مگر معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے ، یہ اس صورت میں ہے جب دونوں جنس میں علت ایک ہی ہو۔ اوپر میں نے چھ
اشیاء کی علت بیان کردی ہے کہ دو چیزوں میں علت قیمت ہے اور چار چیزوں میں علت
غذائیت ہے ۔ اس کو مثال سے سمجھیں۔
٭سونا کو چاندی سے یا گندم کو جو سے بیچیں: اس صورت میں سونا
اور چاندی تو دو مختلف جنس ہیں مگر دونوں میں علت قیمت ہے ، اسی طرح گندم اور جو
دو مختلف جنس ہیں مگر ان دونوں میں علت غذا ہے۔ اگر اس طرح دو مختلف جنسوں کا
تبادلہ ہو اور دونوں میں علت ایک جیسی ہو تب سودا کرتے وقت کسی بھی طرح یعنی کسی
مقدار میں سودا کرسکتے ہیں مگر سودا ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے۔ مثال کے طورپر ایک
کلو چاندی کے ساتھ پچاس گرام سونا کا معاملہ طے ہوا ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے
تاہم چاندی دے کر سونا پر اسی وقت قبضہ کرنا ہے جب معاملہ کیا جائے۔ اگر معاملہ
ادھار ہو یا کسی ایک طرف سے قبضہ نہ ہو تو یہ سودی معاملہ ہوجائے گا۔
|
نمک +کھجور |
کھجور +جو |
جو +گندم |
چاندی +سونا |
|
نفس علت+ جنس الگ |
نفس علت+ جنس الگ |
نفس علت+ جنس الگ |
نفس علت+ جنس الگ |
|
ہاتھوں ہاتھ+کمی بیشی |
ہاتھوں ہاتھ+کمی بیشی |
ہاتھوں ہاتھ+کمی بیشی |
ہاتھوں ہاتھ+کمی بیشی |
تیسری صورت : جنس مختلف اور علت بھی مختلف ہو۔
صحیح مسلم کی مذکورہ بالا حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کی روشنی
میں اہل علم نے ربوی اموال کی ایک تیسری قسم بیان کی ہے ، وہ یہ ہے کہ دو مختلف
جنس کا آپس میں تبادلہ ہو اور ان دونوں جنسوں کی علت بھی مختلف ہوتو ایسی صورت میں مقدار میں بھی
فرق جائز ہے اور ادھار سودا کرنا بھی جائز ہے ۔ جیسے چاندی کا کھجور سے سودا کرتے
ہیں تو یہ دونوں مختلف جنس بھی ہیں اور ان دونوں میں علت بھی مختلف ہے، ایک میں
قیمت اور دوسرے میں غذا ہے۔ مثال سے یوں سمجھیں کہ ایک آدمی کا دوسرے آدمی سے دس
گرام چاندی کے بدلے پچاس کلو کھجور کا معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ میں کوئی حرج نہیں ہے
۔ اور یہ معاملہ ادھار کرنا بھی جائز ہے یعنی ایک طرف سے ایک آدمی چاندی دیدے تو
دوسری طرف سے کھجور بعد میں ملے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
|
نمک +چاندی |
کھجور +چاندی |
جو +سونا |
گندم +سونا |
|
علت الگ+ جنس الگ |
علت الگ+ جنس الگ |
علت الگ+ جنس الگ |
علت الگ+ جنس الگ |
|
ادھار جائز+کمی بیشی |
ادھار جائز+کمی بیشی |
ادھار جائز+کمی بیشی |
ادھار جائز+کمی بیشی |
سونا اور چاندی سے متعلق بعض احکام ومسائل :
یہاں یہ بات واضح رہے کہ عموما سونا یا چاندی کو غلہ کے بدلہ فروخت نہیں کیا جاتا کیونکہ
سونا اور چاندی مہنگے ہیں ، پیسوں سے ہی
سونا اور چاندی خریدے جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کرنسی میں ثمن ہونا پایا
جاتا ہے اس وجہ سے کرنسی سونا و چاندی کی طرح ربوی مال ہے، اس میں بھی سود واقع
ہوگا۔ اگر کوئی سعودی ریا ل کو انڈین یا پاکستانی کرنسی سے تبادلہ کرے تو مقدار
میں فرق کے ساتھ معاملہ کرنا جائز ہے کیونکہ یہ دو الگ الگ کرنسی ہیں جنہیں دو الگ
الگ اصناف کہہ سکتے ہیں تاہم تبادلہ کرکے کرنسی پر دونوں طرف قبضہ ایک ہی مجلس میں کرنا ضروری ہے کیونکہ ان دونوں میں
علت ایک ہی ہے ، اور وہ قیمت ہونا ہے۔
سونا
وچاندی کے درمیان تبادلہ کی تین صورتیں پائی جاتی ہیں۔
پہلی
صورت : سونے کا تبادلہ سونا سے : جب سونا کا تبادلہ سونا سے ہوگا تو دونوں طرف
مقدار برابر برابر ہونا چاہئے اور معاملہ نقد (ہاتھوں ہاتھ) ہونا چاہئے۔
دوسری
صورت : سونے کا تبادلہ چاندی سے : جب سونا کا تبادلہ چاندی سے ہوگا تو مقدار میں
فرق جائز ہے مگر معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے جیساکہ نبی ﷺ نے فرمایا جنس بدل
جائے تو جیسے چاہو بیچو مگر ہاتھوں ہاتھ معاملہ ہو۔
تیسری
صورت : پیسے سے سونا اور پیسے سے چاندی کا تبادلہ : عموما آج کل پیسوں سے ہی سونا
اور چاندی خریدے جاتے ہیں ۔ جب پیسہ سے سونا یا پیسہ سے چاندی خریدی جائے تو جیسے
چاہیں بیچیں مگر سودا نقد ہونا ضروری ہے۔
سونا اور
چاندی کے زیورات کے بعض مسائل:
٭عموما
عورتوں کو مخصوص قسم کا زیور آڈر پر بناناہوتا ہے اور زیور فورا نہیں بنتا ہے بلکہ
اس میں وقت لگتا ہے۔ایسے میں اپنے یہاں عموما کچھ روپئے بطور اڈوانس دئے جاتے ہیں
اور باقی بچے پیسے جب زیور تیار ہوجاتا ہے اس وقت دئے جاتے ہیں۔ اس طرح کا ادھار
معاملہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ جب دو مختلف جنس میں علت ایک ہو تو نقد معاملہ
کرنا ضروری ہے۔
حل: اس
کا ایک حل یہ ہے کہ زیوربنانے میں دو چارج دینے پڑتے ہیں ، ایک سروس چارج ،
دوسرا سونا یا چاندی کی قیمت ۔ زیور بناتے
وقت زیور خریدنے کا معاملہ نہیں کرنا ہے بلکہ ایک ڈیزائن بنانے کا معاملہ کرنا ہے،
اس کا سروس چارج جمع کرسکتے ہیں اور جب سامان بن کر تیار ہوجائے اس وقت سامان
خریدنے کا اس طرح سودا کریں کہ زیور کی
قیمت ادا کرکے سامان پر فورا قبضہ کرلینا ہے،اس طرح کرنے سے سودی معاملہ سے بچ
جائیں گے۔
ایک
دوسرا حل یہ ہے کہ جتنے گرام سونا یا چاندی کا زیور بنانا ہے اتنی مقدار میں سونا یا چاندی ایک ہی مجلس میں نقد
خرید لیں پھر اس سونا یا چاندی کو سونار کے حوالے کرکے کہیں کہ اس سے فلاں ڈیزائن
کا زیور بنادے، زیور بنانے کا چارج بعد میں بھی دے سکتے ہیں، اس طرح سے بھی معاملہ
کرکے سودی معاملہ سے بچ سکتے ہیں۔
شادی بیاہ کے وقت جو لوگ زیورات بناتےہیں ان کو مذکورہ بالا
دونوں حل سامنے رکھ کرسودی معاملہ سے بچتے ہوئے صحیح طریقہ پر زیورات بنوانا
چاہئے۔
٭کبھی کسی کو جیویلرکے پاس کوئی زیور پسند آتا ہے مگر اسے
خریدنے کی بر طاقت نہیں ہوتی تو وہ کچھ پیسے اڈوانس دے کر اپنے نام وہ زیور بک
کرالیتا ہے ، بعد میں جب پورا پیسہ ہوجاتا ہے پھر آکر زیور خریدتا ہے ۔ یہ معاملہ
بھی سودی ہے ۔
حل : اس کا حل یہ ہے کہ آپ جیویلر سے کہیں کہ فلاں
ڈیزائن میرے لئے رکھ دیں ، کچھ دنوں میں پیسہ جمع ہوجائے گا پھر آکر لے جاؤں گا
مگر اڈانس دے کر خریدکامعاملہ نہ کریں، بس اپنی پسند کا اظہا کریں اور جب پیسہ
ہوجائے پھر وہ زیور نقد خرید لیں۔ اگر وہ ڈئزائن بک بھی جائے تو دوبارہ اس ڈیزائن
کا زیور بنوانا بھی آسان ہے ، اور زیور بنوانے کے لئے صحیح طریقہ اوپر بیان کیا
گیا ہے۔
٭بہت سارے سونار لوگوں کو قسطوں میں زیورات خریدنے کی سہولت
دیتا ہےلیکن عموما قسطوں میں پیسہ موجودہ قیمت کے حساب سے بڑھاکر لیتا ہے۔ قسطوں
میں پیسہ دے کر سونے یا چاندی کے زیورات خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ پیسہ سے سونا
یا چاندی کے زیور خریدنے پر ایک ہی مجلس میں پیسہ دے کر اسی مجلس میں زیور پر قبضہ
کرنا ضروری ہے ۔ زیورات خریدنے میں قسطوں میں پیسہ جمع کرنا سودی معاملہ ہے ، اسی
طرح پیسہ ابھی دیں یا قسطوں میں جمع کریں اور زیور پر قبضہ بعد میں کریں ، یہ بھی
سودی معاملہ ہے۔
حل: جب ایک آدمی کو ابھی زیور خریدنے کی طاقت نہیں ہے تو وہ
ابھی زیور نہ خریدنے ، جو پیسہ سونار کے پاس جمع کرنا چاہتا ہے ، وہ پیسہ اپنے پاس
ہی جمع کرے اور جب زیور خریدنے برابر پیسہ ہوجائے پھر اس پیسے سے زیور
خریدے۔
٭سونا اور چاندی کے علاوہ ودوسرے دھات
کے زیورات جیسے چاہیں خرید سکتے ہیں کیونکہ ان پر ربوی حکم نافذ نہیں ہوگا۔
٭ پرانے زیورات(سونا یا چاندی) کے ذریعہ
نئے زیورات کا مقدار میں فرق کے ساتھ تبادلہ کیا جاتا ہے، یہ بھی سودی معاملہ ہے کیونکہ ایک ربوی جنس کا اسی جنس سے فرق کے ساتھ تبادلہ کرنا سودی
معاملہ ہے اس لئے اس طرح کا سودا کرناجائز نہیں ہے۔
حل: اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پرانے
زیورات کو بیج دیا جائے اور اس کی قیمت سے نئے زیورات خریدے جائیں تب سودی معاملہ
سے بچ پائیں گے ۔ نبی ﷺ نے ردی کھجور کے بارے میں یہی حکم دیا ہے۔ ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے
بیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ
عمدہ قسم کی کھجور لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا
خیبر کی تمام کھجوریں اسی قسم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور
(اس سے گھٹیا قسم کی) دو صاع کھجور کے بدل میں اور دو صاع، تین صاع کے بدلے میں
خریدتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ایسا نہ کر، البتہ
گھٹیا کھجوروں کو پیسوں کے بدلے بیچ کر ان سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔ اور
تولے جانے کی چیزوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم فرمایا۔ (صحيح
البخاري:2303)
٭ ایک
آدی سونے اور چاندی کی انگوٹھی بناتا ہے ، اس میں دھات اور نگینہ بھی جڑتا ہے اور
اس کو آگے تاجر کو ادھار فروخت کرتا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد تاجر انگوٹھی کے برابر
سونا اور چاندی دیتا ہے، اس میں مزدوری، دھات اور نگینہ کی قیمت شامل ہوتی ہے۔
اس طرح
معاملہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہاں پر سونا کا تبادلہ سونا سے اور چاندی کا
تبادلہ چاندی سے ہورہا ہے مگر فرق کے ساتھ اور معاملہ ادھار بھی کیا جارہا ہے اس
وجہ سے یہ سودی معاملہ ہے۔ ضروری ہے کہ سونا کا سونا سے اور چاندی کا چاندی سے
معاملہ کرتے وقت برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ کیا جائے۔ مذکورہ صورت میں انگوٹھی
بنانے والے کے لئے صحیح طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ انگوٹھی کو قیمت کی شکل میں
ہاتھوں ہاتھ بیچ دے اور جب اسے خالص سونا یا چاندی کی ضرورت ہو، اس قیمت سے سونا
چاندی نقد خریدلے۔
٭
ہیرے جواہرات سے بنے زیورات جن میں سونا یا چاندی نہ ہو یابہت ہی معمولی مقدار میں
ہویعنی جس کو سونا یا چاندی میں اعتبار نہ کیا جائے تو ایسے زیورات میں سود واقع
نہیں ہوگا اس لئے ایسی چیزوں کو کسی بھی طرح خرید سکتے ہیں حتی کہ ادھار بھی خرید
سکتے ہیں ۔ ہاں اگر ایسے زیورات ہوں یا ایسی کوئی چیز ہو جس میں سونا یا چاندی
کافی مقدار میں ہو یا اس حد تک ہو کہ اس سونے یا چاندی کا اعتبار کیا جائے تو
اس میں سود واقع ہوگا اس لئے سونے یا
چاندی مکس ایسی چیزوں کو خریدتے وقت ادھار معاملہ کرنے سے بچاجائے گاتاکہ سود سے
بچا جائے ، ایک ہی مجلس میں قیمت اداکرکے ایک مجلس میں سودا پر قبضہ حاصل کیا جائے
گا۔
٭وائٹ گولڈ بھی سونا میں داخل ہے کیونکہ
ایک دھات میں سونا ملاکر وائٹ گولڈ بنایا جاتا ہےلہذا اس کا معاملہ بھی وہی ہوگا
جو معاملہ اوپر سونا کا بتایا گیا ہے۔
٭ آج کل بہت ساری چیزوں پر سونے یا
چاندی کا پانی چڑھا ہوتا ہےجیسے قلم، گھڑی ، برتن ، براسلیٹ ، چین وغیرہ ۔ اس
سلسلے میں ایک مسئلہ استعمال کا ہے اور دوسرا مسئلہ ربوی حکم سے متعلق ہے ۔ مردوں
کے حق میں چاندی کی انگوٹھی جائز ہے مگر سونے سے بنی کوئی چیز حتی کہ سونا سے پالش
کی ہوئی کوئی چیز استعمال کرنا جائز نہیں ہے جبکہ سونے اور چاندی کا برتن مردو
عورت دونوں کے لئے ممنوع ہے حتی کہ سونا یا چاندی سے پالش شدہ برتن سے بھی پرہیز
کیا جائے۔سونا اور چاندی کااستعمال عورت کے لئے جائز ہےلہذا جسمانی زینت کے طور پر
عورت سونے یا چاندی سے پالش شدہ چیزیں استعمال کرسکتی ہیں جیسےزیورات ، گھڑی ،
انگوٹھی ، چشمہ وغیرہ ۔دوسرا مسئلہ جو سود سے متعلق ہے اس بارے میں حکم یہ ہے کہ
ایسی چیزیں جس میں معمولی مقدار میں سونا یا چاندی مکس ہے جیسے پالش لگی ہے یا معمولی رنگ ہے تو ان چیزوں پر سود کا حکم
نافذ نہیں ہوگا اس لئے ان چیزوں کو جیسے خریدیں ، ادھاریا نقد کوئی حرج نہیں ہے۔
آن لائن سونا اور چاندی کی خریدوفروخت:
آج کل بہت سارے لوگ انٹرنیٹ سے آن لائن
سونا یا چاندی خریدتے ہیں، اس میں قیمت پہلے ادا کردی جاتی ہے اور سونا یا چاندی
بعد میں قبضہ میں آتے ہیں۔ یہ معاملہ سودی ہے ۔
حل: اس کا حل یہ ہے کہ آپ انٹرنیٹ پہ
سونا یا چاندی پسند کریں مگر اس کو ابھی
نہ خریدیں بلکہ جیولر سے کہیں کہ مجھے یہ چیز چاہئے، آپ اپنے مندوب کے ذریعہ مجھے
بھیجو، جب مندوب سامان لے کر آئے اس وقت پسند کرکے اور قیمت دے کر فورا سونا یا
چاندی پر قبضہ کرلیں یا پسند نہ ہو تو اسے واپس کردیں کیونکہ آپ نے پہلے تو سودا
طے نہیں کیا ہے۔
کچھ لوگ آن لائن تجارت میں انٹرنیٹ پر
سونا یا چاندی خریدکر اسے آگے دوسرے خریداروں سے بیچتے ہیں ۔ یہ معاملہ بھی سودی
ہے بلکہ یہاں دہرا سودی معاملہ ہورہا ہے۔ ایک معاملہ تو یہ ہے کہ آن لائن اس نے
سونا یا چاندی خریدا جبکہ آن لائن سوناچاندی خریدنا بغیر قبضہ کے جائز نہیں ہے ۔
پھر اس سونا یا چاندی کو آگے آن لائن فروخت کرنا یہ دوسرا سودی معاملہ ہے۔
مسلمانوں کو بیع وشرا ء میں حرام اور سودی پہلو سے بچتے ہوئےحلال طریقہ پر کاروبار
کرنا چاہئے۔
گندم ، جو ، کھجور اور نمک کے بعض
مسائل:
٭ پیسے سے یہ چاروں (گندم ، جو ، کھجور
اور نمک) غذائی مواد خریدتے ہیں تو ادھار خریدنا بھی جائز ہے کیونکہ ان دونوں
(پیسہ و غذا) میں الگ الگ علت ہے۔ اور اوپر بتاچکا ہوں کہ ایک جنس کا دوسرے جنس سے
تبادلہ کرتے وقت علت الگ ہو تو کمی بیشی کے ساتھ ادھار معاملہ کرنا بھی جائز ہے۔
٭جیسے کرنسی ، سونا و چاندی کے قبیل سے
ہونے کے سبب ربوی صنف میں داخل ہے ، اسی طرح ہر وہ کھائی جانے والی چیز جو ناپی
جاسکے یا تولی جاسکے اس پر بھی ربوی حکم نافذ ہوگا، خواہ وہ چیز ذخیرہ کے قابل ہو
یا نہ ہو۔ جیسے دال، چاول ، مکئی، دودھ ، تیل وغیرہ۔
٭آج کل آن لائن مارکیٹ ہونے کے سبب
کھانے پینے کی چیزیں بھی آن لائن آڈر کرنے سے مہیا ہوجاتی ہیں جیسے سبزیاں، دال ،
چاول ، گندم وغیرہ ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ پیسے سے ربوی غذائی مواد خریدنے پر ادھار
بھی خریدا جاسکتا ہے ، اس میں حرج نہیں ہے کیونکہ دونوں میں علت الگ الگ ہے، ایک
طرف قیمت تو ودسری طرف غذا ہے۔
٭گھریلو زندگی میں خواتین ضرورت کے وقت
پڑوسی سے تیل، نمک، دال ، چاول ادھار لیتی ہیں اور بدلہ میں وہی چیز واپس کرتی
ہیں۔ یہ معاملہ چونکہ بطور قرض ہوتا ہے اس لئے پڑوسی سے غذائی مواد ضرورت کے وقت
قرض کے طور پر لینا جائز ہے بشرطیکہ لوٹاتے وقت زیادہ کرکے لوٹانے کی شرط نہ ہو،
ورنہ سودی معاملہ ہوجائے گا۔ جتنی غذا قرض لی گئی ہے اسی مقدار میں واپس کرنا ہے،
اگردینے والی اپنی طرف سے کچھ بڑھاکر دیدے تو حرج نہیں ہےمگر یہ بڑھاکر دینا پہلے
سے مشروط نہ ہو۔ کہیں پر اس طرح کا قرض لے کر بڑھاکر دینے کا عام رواج ہوتو یہ بھی
سودی معاملہ مانا جائے گا، اس صورت میں برابربرابرلوٹانا چاہئے۔
٭ اس بابت ایک مسئلہ یہ ہے کہ کاروباری
اور تجارتی حیثیت سے کوئی ربوی غذائی اصناف کا تبادلہ کرے جیسے کوئی کسی سے کہے کہ
مجھے ابھی سوکلو دال دو، ایک ماہ بعد تمہیں سوکلو
یا اس سے زیادہ سواسوکلودال واپس کروں گا تو یہ معاملہ سودی ہوجائے گا
کیونکہ ایک جنس کا دوسری جنس سے تبادلہ کرتے وقت سودا برابر برابر اور نقد ہونا چاہئے۔
نہ اس میں فرق کرنا جائز ہے اور نہ ہی ادھار کرنا جائز ہے۔

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔