Monday, November 17, 2025

قضائے عمری کی حقیقت

قضائے عمری کی حقیقت

تحریر: مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، سعودی عرب

 

سماج میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ جس کی کئی برسوں کی نماز چھوٹی ہوئی ہووہ تمام عمر کی نمازیں قضا کرےگا، اس کو قضائے عمری کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قضائے عمری کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ شریعت محمدی میں اس نام کی کوئی نماز نہیں ہے اور نہ ہی اس قضائے عمری کے لئے ایک ادنی سی دلیل موجود ہے۔ لوگوں نے اپنی طرف سے قضائے عمری کا طریقہ ایجاد کیا ہوا ہے۔ جو لوگ قضائے عمری پڑھتے ہیں وہ بلادلیل اور بلاثبوت عمل کرتے ہیں جبکہ دین اسلام ،کتاب وسنت کے دلائل پر قائم ہے۔ کسی بھی بات پر عمل کرنے کے لئے قرآن اور حدیث سے لازما دلیل چاہئے، جس کام  کی دلیل نہیں ، وہ کام اللہ کی نظر میں باطل ومردود ہے، اس کے کرنے سے کوئی اجر نہیں ملے گا بلکہ بدعت کا ارتکاب کرنے سے الٹا گناہ ملے گا۔

آئیے مزیددلائل کے ساتھ جانتے ہیں کہ قضائے عمری کیوں نہیں پڑھنا چاہئے۔

(1)دین میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی جائےگی، اللہ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہ نے حدیث میں کہیں پر بھی قضائے عمری پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے یعنی قضائے عمری کے لئے کتاب وسنت میں ادنی سی دلیل نہیں ہے۔ اور جس کام  کے لئے کوئی دلیل نہ ہواس پر عمل کرنا بدعت وگمراہی ہے اور وہ عمل باطل ومردود ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مَن عَمِلَ عَمَلًا ليسَ عليه أمْرُنا فَهو رَدٌّ(صحيح مسلم:1718)
ترجمہ:جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو (یعنی دین میں اپنی طرف سے کوئی  عمل نکالے) تو وہ مردود ہے۔

(2) اللہ اور اس کے رسول کے بعد آپﷺ کے پیارے اصحاب میں سے بھی کسی سے قضائے عمری کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ہے، یہاں تک کہ تابعین اور تبع تابعین سے بھی قضائے عمری کا ثبوت نہیں ملتا ہے حتی کہ چار ائمہ میں سے کسی نے بھی اس قضائے عمری کی تعلیم نہیں دی ہے۔ نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق تین زمانے کے لوگ بہترین زمانے والے ہیں ۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ مِنْ بَعْدِهِمْ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَتُهُمْ أَيْمَانَهُمْ، وَأَيْمَانُهُمْ شَهَادَتَهُمْ(صحیح البخاری:6429)

ترجمہ:سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے پھر جو ان کے بعد ہوں گے اور اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔

(3)شریعت میں نماز بھول جانے، سوجانے یا مشغول ہوجانے کے سبب اس نماز کی قضا کا حکم ہے یعنی جو نماز کسی شرعی عذر کے تحت چھوٹ جائے گی ، دوسرے وقت میں اس نماز کی قضا کی جائے گی ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ نَسِيَ صَلَاةً، أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا(صحیح مسلم:684)

ترجمہ:جو شخص کوئی نماز بھول گیا یا اسے ادا کرتے وقت سوتا رہ گیا تو اس (نماز) کا کفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آئے وہ اس نماز کو پڑھ لے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ سے جب کبھی کسی عذر کے باعث کوئی نماز چھوٹ گئی تو آپ نے دوسرے وقت میں اس کو ادا فرمایا ہے  چنانچہ رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے ، رات کا وقت تھا۔ کسی نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا عَنِ الصَّلَاةِ(مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ) ۔ اس پر بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے۔ اور بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوہ سے لگا لی۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم ﷺ بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے حکم دیا:

يَا بِلَالُ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلَاةِ فَتَوَضَّأَ، فَلَمَّا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ وَابْيَاضَّتْ قَامَ فَصَلَّى۔(صحیح البخاری:595)

ترجمہ: اے بلال! اٹھ اور اذان دے۔ پھر آپ ﷺ نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ ﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نمازجوکسی عذر (مثلانیند، بھول اورمشغولیت وغیرہ) کے سبب چھوٹ جائے اس کی قضا کی جائے گی لیکن جو نماز جان بوجھ کر چھوڑی جائے اس کی قضا نہیں ہے، خصوصا جب یہ نمازیں ایک دو نہیں کئی برسوں کی ہوں۔ جان بوجھ کر چھوڑی گئی کئی برسوں کی  نماز  کی قضا کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے۔جو دلیل ملتی ہے، وہ کسی عذر کے تحت ایک دو  نماز چھوٹ جانے پر اس کی قضا سے متعلق ہےجیسے مذکورہ بالا حدیث ہے۔

(4)  شریعت میں جان بوجھ کر ایک وقت کی نماز چھوڑنا کفر ہے اور مسلسل  کئی مہینے اور کئی برس تک جان بوجھ کر نمازیں چھوڑنا ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا عمل ہے۔ بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلَاةُ فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ (سنن ترمذي:2621)

ترجمہ:ہمارے اور منافقین کے درمیان نماز کا معاہدہ ہے تو جس نے نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز قائم کرنے والا مسلمان ہے اور جو نمازوں کا تارک ہووہ اسلام سے نکل جاتا ہے ، اس پر کافر کے احکام مرتب ہوں گے ۔ آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ جب کوئی جماعت سے مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے نہیں آئے تو رسول اللہ ﷺ ان کو ان کے گھروں سمیت جلانے کی بات کرتے ہیں۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ يُحْتَطَبُ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ(صحیح البخاری:7224)
ترجمہ:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میرا ارادہ ہوا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان دینے کا، پھر کسی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اس کے بجائے ان لوگوں کے پاس جاؤں (جو جماعت میں شریک نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔

کتاب وسنت میں بے شمار نصوص ہیں جن میں  ترک نماز پر سخت سے سخت وعید کا تذکرہ ہے ۔ اس امر کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والا بڑے کفر کا ارتکاب کرتا ہے، اس طرح عمدا چھوڑی گئی نماز کی کوئی قضا نہیں ہے ۔

فوت شدہ نمازوں سے متعلق صحیح عمل  

اب سوال یہ ہے کہ ایک آدمی کئی برسوں سے جان بوجھ کر نماز چھوڑرہا تھااور وہ کلمہ پڑھنے والا مسلمان بھی ہے بلکہ ہفتہ میں جمعہ کی نماز قائم کرنے والا تھا، ایسے بندہ کو نماز چھوڑنے پر افسوس بھی ہے اسے کیا کرنا چاہئے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اسلام میں نماز کی بڑی اہمیت ہے ، کلمہ کے اقرار کے فورا بعد اس پر نماز قائم کرنا ضروری ہوجاتا ہےمگر جو مسلمان ہوکر مسلسل نماز نہ پڑھے اس کا اسلام خطرہ میں پڑ جاتا ہے۔ ایساآدمی اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی فورا اللہ رب العالمین سے سچے دل سے ، توبہ کرے ۔ اللہ تعالی سچی توبہ کرنے والے کو معاف کردیتا ہے ۔ یہی توبہ کرنا اس کے اسلام کو بھی درست کردے گا اور سابقہ چھوڑی ہوئی نمازوں کا بھی کفارہ ہوجائے گا۔ سچی توبہ کی تین شرطیں ہیں۔ سب سے پہلے آپ اپنے گناہ پر شرمندہ ہوں اور دل سے احساس کریں کہ واقعتا آپ نے کوئی خطا کی ہے اور اس پر پشیماں ہیں۔دوسری شرط یہ ہے کہ اس گناہ کو ترک کردیں، کبھی اس کے قریب نہ جائیں اور تیسری شرط یہ ہے کہ دل سے یہ پختہ ارادہ بھی کریں کہ آئندہ اس گناہ کو انجام نہیں دوں گا۔اللہ تعالی نے نمازیں ضائع کرنےوالوں اور خواہشات کی پیروی کرنے والوں کو توبہ کی ترغیب دی ہے، فرمان باری تعالی ہے:

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ، إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا (مریم:59-60)

ترجمہ: پھر ان کے بعد ایسے اطاعت نہ کرنے والے پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا بجز ان کے جو توبہ کرلیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں۔ ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور ان کی ذرا سی بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔

اگرنماز میں کوتاہی کرنے والا اور خواہشات پر چلنے والا توبہ نہ کرے تو پھر اس کا انجام بہت برا ہے، اللہ اپنے بندوں پر کتنا مہربان ہے کہ وہ توبہ کے لئے موت تک مہلت دیتا ہے یعنی مرنے سے پہلے پہلے آدمی توبہ کرلے، اللہ بخش دے گا۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ (سنن ترمذي:3537)

ترجمہ:اللہ اپنے بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ (موت کے وقت) اس کے گلے سے خر خر کی آواز نہ آنے لگے۔

توبہ کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ اوپر ذکر کردہ تین شرطیں پائی جائیں، نیز توبہ کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ توبہ عالم نزع (حالت غرغرہ) یعنی موت سے پہلے پہلے ہو۔

اب پورے بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ اگر کسی نے کئی برسوں کی نماز چھوڑی ہے تو وہ مذکورہ بالا تین شرطوں کےساتھ  سچی توبہ کرلے ، اللہ تعالی اپنے بندوں کو بہت معاف کرنے والا ہے اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سچی توبہ ہی گزشتہ برسوں کی چھوٹی نمازوں کا کفارہ ہے اور ان چھوٹی نمازوں کے لئے یہی صحیح طریقہ اور صحیح عمل ہے۔

ساتھ ہی ہمارے لئے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے معاشرے میں قضائے عمری کی  جو تعلیم دی جاتی ہے وہ لوگوں کی ایجاد کردہ ہے، اس نوایجاد طریقہ پر عمل کرنے میں کوئی خیروبھلائی نہیں ہے۔ لوگوں کو قضائے عمری کے متعدد طریقے بتائے جاتے ہیں ۔ان طریقہ پر بھی غورکریں تو معلوم ہوگا کہ اس طرح عبادت نہیں کی جاتی ۔ذرا آپ  سنجیدگی کے ساتھ قضائے عمری کے عمل سے متعلق اندازہ لگائیں۔

٭ سب سے پہلے عمربھرکی نمازوں کا حساب لگانے اور ڈائری بنانے کو کہاجاتا ہے، بھلابتائیں کہ جتنی بھی کوشش کرلے،  کسی کو عمر بھر کی چھوٹی نمازوں کا یقینی علم ہوپائے گا، نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ پھر قضا کرتے وقت اندھیرے میں اور وہم وگمان کے ساتھ نماز ادا کی جائے گی  جبکہ نمازاللہ کی عبادت ہے ، اس کی بنیاد وہم وگمان پر نہیں ، یقین واعتماد پر ہے۔

٭ چونکہ عمربھر کی چھوٹی نمازوں کا یقینی علم نہیں ہوتا تو اندازہ لگاکر نماز قضا کی جاتی ہے، اس وجہ سے نماز کی نیت میں بھی بہت جھول ہوتا ہے۔ بعض علماء ہر نماز کی قضا کی نیت کے لئے فلاں تاریخ ، فلاں دن اور فلاں وقت زبان سے کہنے کی تعلیم دیتے ہیں جبکہ بعض علماء کہتے ہیں اس طرح زبان سے نیت کرو، میری چھوٹی نمازوں میں اول نماز۔کیا یہ وہمی نیت  عبادت کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے ۔ کتاب وسنت میں اس طرح نیت کرنے کی کوئی بھی دلیل سرے موجود نہیں ہے۔ نماز کی مروجہ نیت ہی بتاتی ہے کہ یہ نماز پڑھنا بھی بدعت ہے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے جو یقین مستحکم پر مبنی ہے  ، اس میں زبان سے اظہار نہیں ہے اور نہ ہی ماہ وسال کی وہمی اورخیالی نیت ہے۔

٭نیت کے بعد قضائے عمری کے  طریقے دیکھیں تو جتنے منہ اتنے طریقے، شریعت سے طریقہ تو لینا نہیں ہے، نہ وہاں قضائے عمری کا طریقہ ملے گا۔ اس وجہ سے جس کے جی میں جو آیااپنی طرف  سے طریقہ بتادیتاہے۔ اس امر کی تفصیل یہاں ذکر کی جائے تو بات طویل ہوجائے گی ۔

کوئی شخص ہرنماز کے بعد ایک نماز، کوئی شخص ایک وقت میں ایک دن کی نماز، کوئی شخص مختلف اوقات میں ، کوئی شخص پہلے ساری عمر کی نمازفجرپھرظہر پھرعصر۔۔۔اس ترتیب سے ، اس میں بھی کوئی شروع زندگی سے تو کوئی آخری زندگی سے الٹاشروع کرے۔ غرضیکہ جس کو جو من میں آتا ہے اپنے معتقدین کو وہ طریقہ بتاتا ہے۔ شریعت کا معاملہ واضح ومتعین ہے، اس میں اپنی مرضی اور اختلاف نہیں ہے۔پھر فوت شدہ ،عمر بھر کی نمازوں کابوجھ لے کر ایک آدمی جب کسی وقت کی نماز پڑھے گا، اسے دوسرے وقت کی فوت شدہ  نماز بھی قضا کرنا ہے۔ بھلا بتائیں کہ وہ کیسے اللہ کی عبادت ، خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون سے کرے گا۔ اس کی تو اس وقت کی نماز بھی بے لذت ہوجائے گی۔

قضائے عمری پڑھنے والوں کو نمازقضا کا حکم نہیں دیا جاتا بلکہ اپنے سر سے یا اپنے نام سے عمربھرچھوٹی نمازوں کو رسما فہرست سے کٹانے کا مختلف طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  قضا نماز سے پہلے سنت غائب کرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ نماز تخفیف کرنے کے لئے سورہ فاتحہ کی جگہ تین بارسبحان اللہ پڑھ لو، سجدہ میں ایک بار تسبیح پڑھ لو، درود ابراہیمی کی جگہ دونوں تشہد میں صرف "اللھم صل علی محمد وآلہ" پڑھ لو۔ یہ لوچندلمحہ میں  تمہاری مخفف(جھٹ پٹ) نماز ہوگئی۔ بتائیں  کہ یہ  نماز کی قضا ہے یا عبادت کا مذاق ہے۔ نماز رب سے ملاقات اور اس سے گفتگو کا ذریعہ ہے ، اس لئے محمد ﷺ فرماتے ہیں کہ تم نماز اس طرح پڑھو گویا اللہ کو دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو نہیں دیکھ سکتے تو خیال کرو کہ اللہ تم کو دیکھ رہا ہے۔

بہرکیف! قضائے عمری کے تصور نے عوام کی نظر میں نہ صرف نماز کی اہمیت کو ہلکا کردیا ہے بلکہ قضائے عمری اتارنے والے پرانی نمازوں کی فکر میں موجودہ نماز کی  لذت وچاشنی سے محروم ہوتے ہیں ۔ یقین نہ آئے تو ان کی نمازوں کی ادائیگی میں جلدبازی  اور کوے کی چونچ مارنے کی طرح رکوع وسجدہ دیکھئے ۔ اس طرح کی نماز کے بارے میں وعید آئی ہوئی ہے۔عبدالرحمٰن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أنَّ رَسولَ اللَّهِ نَهَى عن ثَلاثٍ : عن نَقرةِ الغُرابِ ، وافتراشِ السَّبُعِ ، وأن يوطِّنَ الرَّجلُ المقامَ للصَّلاةِ كما يوطِّنُ البعيرُ(صحيح النسائي:1111)

ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں سے منع کیا ہے: ایک کوے کی طرح ٹھونگ مارنے سے، دوسری درندوں کی طرح ہاتھ بچھانے سے اور تیسری یہ کہ آدمی نماز کے لیے ایک جگہ خاص کر لے جیسے اونٹ اپنے بیٹھنے کی جگہ کو خاص کر لیتا ہے۔

جو کوے کی چونچ مارنے کی طرح نماز پڑھتا ہے اس کی چالیس سال اور ساٹھ سال کی نماز بھی رائیگاں وبے کار ہے۔ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت ہے:

إن الرجل ليصلي ستين سنة وما تقبل له صلاة ولعله يتم الركوع ولا يتم السجود ويتم السجود ولا يتم الركوع(سلسلہ صحیحہ:2535)

ترجمہ: ایک آدمی ساٹھ سال تک نماز پڑھتا ہے اوراس کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ رکوع صحیح سے کرتا ہے تو سجدہ ٹھیک سے نہیں کرتا اور سجدہ ٹھیک سے کرتا ہے تو رکوع ٹھیک سے نہیں کرتا۔

اللہ اکبر، ساٹھ سال کی نماز نماز نہیں ہے اگر نماز میں جلدی جلدی رکوع اور جلدی جلدی سجدہ کیا جائے تو ۔ اس طرح کی ایک اور حدیث ملتی ہے جس میں چالیس سال کا تذکرہ ہے ۔حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أنَّهُ رأى رجلاً يصلِّي فطفَّفَ ، فقالَ لَهُ حذيفةُ : منذُ كم تصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ ؟ قالَ : منذُ أربعينَ عامًا ، قالَ : ما صلَّيتَ منذُ أربعينَ سنةً ، ولو متَّ وأنتَ تصلِّي هذِهِ الصَّلاةَ لمتَّ على غيرِ فطرةِ محمَّدٍ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ ثمَّ قالَ : إنَّ الرَّجلَ ليخففُّ ، ويتمُّ ويحسن(صحيح النسائي:1311)

ترجمہ:انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے، اور اچھی طرح نہیں پڑھ رہا ہے، اس میں وہ کمی کر رہا ہے، تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: اس طرح سے نماز تم کب سے پڑھ رہے ہو؟ اس نے کہا: چالیس سال سے، تو انہوں نے کہا: تم نے چالیس سال سے کامل نماز نہیں پڑھی، اور اگر تم اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مر جاتے تو تمہارا خاتمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کے علاوہ پر ہوتا، پھر انہوں نے کہا: آدمی ہلکی نماز پڑھے لیکن پوری اور اچھی پڑھے۔

٭ اوپر میں نے بتایا ہے کہ قضائے عمری کی ادائیگی کے مختلف طریقے ایجاد کئے گئے ہیں اور لوگ مختلف طریقوں سے فوت شدہ نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ ان طریقوں سےہٹ کر قضائے عمری کا شارٹ کٹ راستہ بھی بتایا جاتا ہے جسے لوگ اپناتے ہیں۔ یہ شارٹ کٹ راستے بھی مختلف ہیں۔ کوئی رمضان میں آخری جمعہ کے بعد چار نفل مخصوص انداز میں ایک سلام سے پڑھتا ہےجس سے یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ تمام عمر کی قضا نمازیں ادا ہوگئیں ۔کوئی رمضان کے آخری جمعہ کو پانچ نمازیں مع وتر ادا کرنے کو عمربھر کی قضا نمازوں کا کفارہ سمجھتا ہے اس وجہ سے بدعتیوں میں الوداعی جمعہ کے نام سےاس دن  بڑی دھوم دھام نظر آتی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ایک صاحب ہرسال لوگوں کو قضائے عمری کے نام سے چار رکعت پڑھاتا ہے۔کچھ لوگ رمضان کے آخری جمعہ کو ظہروعصر کے درمیان دو دو رکعت کرکے قضائے عمری کے نام سے بارہ رکعات ادا کرتے ہیں۔

قضائے عمری سے متعلق مذکورہ بالاشارٹ کٹ راستوں کے بارے میں  پہلی بات یہ ہے کہ  دین میں کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ عبادت کا مخصوص طریقہ ایجاد کرکے اپنی طرف سے ثواب و فضیلت بیان کرنا کسی انسان کا کام نہیں ہے۔ اس وجہ سے کوئی شخص ، دین اور عبادت کے نام پر بدعتی طریقہ ایجاد کرتا ہے یا اس بدعتی طریقہ کی فضیلت بیان کرتا ہے یا اس پرعمل کرتا ہے ، وہ گمراہ آدمی ہے۔ جسے اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے وہ اللہ کی بندگی ویسے کرے گا جیسے محمد ﷺ نے اپنی امت کو سکھایا ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:

صَلُّوا كما رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي(صحيح البخاري:6008، 7246، 631)

 ترجمہ: تم اس طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ شریعت میں جو نمازیں ثابت شدہ ہیں ان کو محمد ﷺ کے طریقہ پر ادا کرنا ہے، اس سے ذرہ برابر بھی ہٹ کر ادا نہیں کرنا ہے۔ ذراغور کریں کہ جوثابت شدہ نمازیں ہیں ان کو، طریقہ محمدی سے ہٹ کر ذرہ برابر اپنی مرضی سے ادانہیں کرسکتے ہیں پھر کسی کو نماز کا نیا طریقہ ایجاد کرنے یا کسی نماز کو مخصوص طرز پر پڑھنے اور اپنی طرف سے فضیلت بیان کرنے کی کیسے اجازت ہوگی ؟

اب آتے ہیں موضوع کے اختتام  اور خلاصہ کی طرف ، وہ یہ ہے کہ دین میں قضائے عمری نام سے کوئی چیز نہیں ہے اور نہ سلف سے اس بارے میں کچھ منقول ہے ۔ جو لوگ قضائے عمری کی تعلیم دیتے ہیں وہ اپنی طرف سے اس کی تعلیم دیتے ہیں اور قضائے عمری کی نماز وہم وگمان اور خیال وتصور پر مبنی ہے۔عبادت وہ ہوتی ہے جو دلیل وبرہان پر قائم ہوئی ہے اور یقین واعتماد کے ساتھ محمد ﷺ کے طریقہ کے مطابق انجام دی جاتی ہے۔

قضائے عمری کے سلسلے میں اب آخری سوال یہ ہے کہ کوئی بھی بندہ عمر بھر کی چھوٹی نماز کا صحیح اندازہ نہیں لگاسکتا ہے، پھر جب کوئی اپنے گمان سے قضائے عمری ادا کرنے لگتا ہے تو وہ کبھی بھی عمربھر کی ساری متروکہ نماز نہیں پڑھ سکتا ہے۔ موت کب آجائے کسی کو خبر نہیں ، اس کے باوجود کسی سے بیس تیس چالیس سال سے نمازیں چھوٹی ہوں تو وہ ان نمازوں کو عمر بھر نہیں ادا کرسکتا ہے۔ جب معاملہ یہ ہے کہ برسوں کی چھوٹی ساری نمازوں کی قضا نہیں کی جاسکتی ہے، آخر نمازیں چھوڑ کر ہی مرنا ہوتا ہے پھر قضاعمری کا طریقہ اختیار کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟  غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس عمل سے اس کا نقصان ہی ہوتا ہے ، وہ اصل نمازوں کو بھی ضائع کررہا ہوتا ہے کیونکہ جس طرح اعتدال وسکون اور تعدیل ارکان کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے، اس طرح وہ نمازنہیں پڑھ پاتا ۔ گھوم پھرکرآخری راستہ وہی بچتا ہے جس کے بارے میں شروع میں ہی بتادیا گیا ہے  کہ عمربھر کی چھوٹی نمازوں کا صحیح طریقہ – سچے دل سے توبہ کرکے آئندہ کے لئے مخلص ہوکر پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی کرنا ہے۔

یہ اللہ کی طرف سے اعلان ہے کہ اس کے حق میں جو کوئی غلطی کرے اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے پھر وہ اللہ کی طرف سچی  توبہ کے ساتھ رجوع کرلے تو اللہ اسے معاف کرنے والا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ(طه: 82)

ترجمہ:اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقینا بہت زیادہ معاف کرنے والا ہوں۔

اسی طرح اللہ کے پیارے حبیب محمد ﷺ نے بھی ہمیں بتلادیا ہے کہ اللہ تو دن ورات بندوں کے توبہ کے انتظار میں رہتا ہے تاکہ کوئی توبہ کرے اور اللہ اسے معاف کردےچنانچہ ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْسُطُ يَدَهُ بِاللَّيْلِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ النَّهَارِ، وَيَبْسُطُ يَدَهُ بِالنَّهَارِ لِيَتُوبَ مُسِيءُ اللَّيْلِ، حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا(صحیح مسلم:2759)

ترجمہ: اللہ عزوجل رات کو اپنا دست (رحمت بندوں کی طرف) پھیلا دیتا ہے تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کرے اور دن کو اپنا دست (رحمت) پھیلا دیتا ہے تاکہ رات کو گناہ کرنے والا توبہ کرے (اور وہ اس وقت تک یہی کرتا رہے گا) یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔

اس لئے میرے مسلمان بھائیو! جس کسی سے کئی  برسوں کی نمازیں چھوٹ گئی ہیں وہ اپنی سابقہ نمازوں کے لئے اللہ سے سچی توبہ کرے، زندگی کا کوئی   بھروسہ نہیں ہے کہ کب موت آجائے پھر گناہوں میں توبہ پر بالکل تاخیر نہ ہو اور اگلی زندگی کے لئے  پابندی کے ساتھ نمازیں ادا کرنے کا عزم مصمم کرلیں اور نمازوں کی پابندی کے ساتھ، زندگی گزاریں۔ رب نے ہمیں عبادت کے واسطے ہی اس دنیا میں بھیجا ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔