Monday, November 17, 2025

حیض اور استحاضہ کے احکام و مسائل

 حیض اور استحاضہ  کے احکام و مسائل

تحریر: مقبول احمد سلفی / جدہ دعوہ سنٹر-سعودی عرب


حیض کیا ہے؟

حیض کا لغوی معنی بہنے کے ہے، اس سے مراد بالغہ عورت کے رحم سے ہرماہ  مخصوص ایام  میں بہنے والا خون ہے جو کسی بیماری  یا بچہ پیدا ہونے کے سبب نہ ہوبلکہ وہ فطری طور پر جاری ہو۔ جب بیماری کے سبب خون آتا ہے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں اور جب بچہ پیدا ہونے کے سبب خون آتا ہے تو اسے نفاس کہتے ہیں۔زیرنظرمضمون میں حیض اور استحاضہ کے مسائل بیان کئے جائیں گے ۔

حیض کی علامات کیا ہیں؟

حیض کے خون میں چار قسم کی علامات پائی جاتی ہیں جن کے ذریعہ  ایک عورت حیض کو پہچان سکتی ہے۔

(1) حیض کے خون کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔

(2) حیض کا خون غلیظ یعنی گاڑھا ہوتا ہے۔

(3) حیض کے خون میں بدبو ہوتی ہے۔

(4) حیض کا خون رحم سے نکلنے کے بعد منجمد نہیں ہوتا ۔

عموما عورتوں کو حیض کے پہچاننے میں دقت ہوتی ہے انہیں ان چار وصفوں سے پہچاننا چاہئے۔

حیض کی اقل اور  اکثر عمر کیا ہے؟

سوال یہ ہے کہ ایک لڑکی کو کس عمر سے حیض آنا شروع ہوجاتا ہے اور کس عمر تک حیض آتا رہتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے حیض کی کم سے کم عمر اور زیادہ سے زیادہ عمر متعین نہیں کی ہے اس لئے متعین طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ لڑکی کو کس عمر سے حیض آنا شروع ہوتا ہے اور کب تک حیض آنے کی عمر ہوتی ہے۔ اہل علم کے اقوال کی روشنی میں تقریبا نو سال کی عمر سے حیض آنا شروع ہوجاتا ہے اور لگ بھگ پچاس سال تک حیض آتا ہے مگر اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں اقل اور اکثر عمر کی تحدید کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں ہے لہذا  جس عمر سے لڑکی کو حیض آنا شروع ہوجائے وہ بالغہ شمار ہوگی اور احکام شریعت کی مکلف ہوجائے گی ۔ اور جس عمر تک اسے حیض آئے ، ایام حیض میں نمازوروزہ سے اجتناب کرے گی اور جب (جس ماہ وسال سے) حیض آنا بند ہوجائے پھراس کے لئے کسی دن نماز کی رخصت نہیں ہے۔ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ (سنن ابي داود:641)

ترجمہ:بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض آنے کی عمر متعین نہیں ہے تاہم جس عمر سے بھی حیض آنا شروع ہوجائے وہ بالغہ شمار ہوگی۔

حیض کی اقل اور اکثر مدت کیا ہے؟

کم سے کم کتنے دنوں اور کتنے وقت تک حیض آتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کتنے دنوں تک حیض آسکتا ہے، اس بارے میں بھی کوئی قطعی نص نہیں ہے۔ شریعت میں حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا اعتبار حیض کے جاری رہنے اور منقطع ہونے سے ہوگا یعنی ایک عورت کو جب تک حیض آئے ، وہ مدت حیض ہے اور جب حیض منقطع ہوجائے تو پاک ہے چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي(صحيح البخاري:331)

ترجمہ:جب حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ زمانہ گزر جائے تو خون کو دھو اور نماز پڑھ۔

اقل مدت سے متعلق مسئلہ:اس مقام پر ایک مسئلہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کم سے کم کتنے دن یا کتنے وقفہ تک حیض آئے گا اس بارے میں وہی بات کہی جائے گی جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ عورت کو جتنے دن یا جتنی دیرتک  حیض آئے اتنے وقت  کا اعتبار ہوگا خواہ ایک دو دن ہو یا چند گھنٹے ہوں تاہم غالب احوال میں عورتوں کو چھ یا سات دنوں تک حیض آتا ہے اس سلسلے میں نبی ﷺ کی ہدایت ورہنمائی موجود ہے۔ جب حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے استخاضہ کی شکایت کیں تو آپ نے انہیں غالب حال کے تحت چھ یا سات دن حیض شمار کرنے کا حکم دیا:

إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ، فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ۔(سنن ترمذي:128،حسنہ البانی)

ترجمہ:یہ تو صرف شیطان کی چوٹ (مار) ہے تو چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں تو حیض کے شمار کر پھر غسل کر لے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک و صاف ہو گئی ہو تو چوبیس یا تئیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اسی طرح کرتی رہو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں۔

اکثرمدت سے متعلق مسئلہ:دوسری بات یہ ہے کہ اللہ نے بنات آدم پر ہرماہ حیض کو مقرر کردیا ہے جس کی وجہ سے انہیں ہرماہ حیض آتا ہے اور اس وجہ سے وہ نمازو روزہ چھوڑتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک عورت زیادہ سے زیادہ کتنے دنوں تک آنے والے خون کو حیض شمار کرے جب حیض کے صفات والا خون تسلسل سے آئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ پندرہ دنوں تک حیض شمار کیا جائے گا ، اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ مانا جائے گا کیونکہ نصف ماہ سے زیادہ ناپاکی عبادت کے ایام سے زیادہ ہوجائے گی۔حیض کی اکثر مدت کے سلسلے میں عام طور پر علماء کی رائے پندرہ دن ہے۔ اس وجہ سے جس کسی خاتون کو مسلسل پندرہ دنوں سے زیادہ حیض آئے تو وہ پندرہ دن کے بعد غسل کرکے نماز کی پابندی کرے۔

طہر(پاکی) کی پہچان کیسے کریں؟

بہت ساری عورتوں کو حیض سے پاک ہونے کی کیفیت معلوم نہیں ہوپاتی جس کی وجہ سے وہ غسل کرنے اور نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے میں تذبذب کا شمار رہتی ہیں۔ حیض سے پاک ہونے کی دو علامات ہیں جن کے ذریعہ ایک عورت پاکی کا علم حاصل کرسکتی ہے۔

پہلی علامت :بہت ساری عورتوں کو حیض کے اختتام پر شرمگاہ سے سفید پانی خارج ہوتا ہے ، جب سفید پانی خارج ہونے لگے تو عورت سمجھ لے کہ وہ پاک ہوگئی ہے۔ امام بخاری ؒ نے تعلیقا یہ روایت ذکر کی ہے کہ ‏‏‏‏ عورتیں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ڈبیا بھیجتی تھیں جس میں کرسف(روئی) ہوتا۔ اس میں زردی ہوتی تھی۔عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں:

((لَا تَعْجَلْنَ حَتَّى تَرَيْنَ الْقَصَّةَ الْبَيْضَاءَ تُرِيدُ بِذَلِكَ الطُّهْرَ مِنَ الْحَيْضَةِ)) (صحيح البخاري - كتاب الحيض ـ باب: إقبال الحيض وإدباره)

ترجمہ:جلدی نہ کرو یہاں تک کہ صاف سفیدی دیکھ لو۔ اس سے ان کی مراد حیض سے پاکی ہوتی تھی۔

دوسری علامت:بعض عورتوں کو حیض کے اختتام پر سفید پانی کا اخراج نہیں ہوتا ہے ایسی عورت ، حیض کے اختتام پر یعنی جب حیض آنا بند ہوجائے وہ روئی شرمگاہ میں داخل کرکے چیک کرے اگر اس میں خون لگا ہوا نہ دکھے، روئی بالکل خشک ہوتو اس کو طہر(پاکی) خیال کرے ۔ یہ بات بھی اوپر والی صحیح بخاری کی معلق روایت سے معلوم ہوتی ہے کہ عہدرسالت میں  عورتیں اپنے حیض سے پاکی،  روئی کے پھاہا سے معلوم  کرتیں۔

حیض سے پاک ہونے پرعورت  کیا کرے؟

جب عورت کو حیض سے پاکی کا یقینی علم حاصل ہوجائے تو وہ دو کام کرے۔

پہلا کام :حیض لگے کپڑے کی صفائی ،  سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:

كَانَتْ إحْدَانَا تَحِيضُ، ثُمَّ تَقْتَرِصُ الدَّمَ مِن ثَوْبِهَا عِنْدَ طُهْرِهَا، فَتَغْسِلُهُ وتَنْضَحُ علَى سَائِرِهِ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ(صحیح البخاری:308)

ترجمہ:ہمیں حیض آتا تو کپڑے کو پاک کرتے وقت ہم خون کو مل دیتے، پھر اس جگہ کو دھو لیتے اور تمام کپڑے پر پانی بہا دیتے اور اسے پہن کر نماز پڑھتے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیض والی عورت جس کپڑے کو حیض کی حالت میں استعمال کی ہے اس کپڑے میں جہاں حیض کا خون لگاہو اس کو مل کر پانی سے دھولے، کپڑا پاک ہوجائے گا ، اب اسی کپڑے میں وہ نماز پڑھ سکتی ہے۔ اور جو کپڑا خشک ہو، اس میں حیض کا خون نہ لگا ہو وہ پہلے سے پاک ہے اس کو دھونے کی بھی ضرورت نہیں ہے جیسے قمیص اور دوپٹہ ، عموما ان میں خون نہیں لگتا ہے صرف شلوار میں خون لگتا ہے۔ اگر خدانخواستہ قمیص میں بھی خون لگ جائے تو اس کو بھی دھل لے اور دھل جانے کے بعد تو کپڑا بالکل پاک ہے اب اس میں نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

ہاں یہ ممکن ہے کہ دھلنے سے کپڑے کی نجاست دور ہوجائے مگر کپڑے پر خون کے نشانات لگے رہ جائیں تو ان نشانات کی وجہ سے بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کپڑا پاک ہوگیا ہے چاہے اس پر نشان کیوں نہ معلوم ہوتا ہو۔

کپڑے کو خون اور اس کے نشانات وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لئے عورتیں پیڈ یا لنگوٹ کا استعمال کرسکتی ہیں۔ یاد رہے کہ اگر حیض والی عورت پیڈ استعمال کرے اور کپڑے پر خون نہ لگے تو پھر بغیر کپڑا دھلے، غسل حیض کے بعد اسی کپڑے میں نماز ادا کرسکتی ہے کیونکہ کپڑے پر نجاست نہ لگنے کی وجہ سے وہ پہلے سے ہی پاک ہے۔بعض خواتین حیض میں استعمال شدہ کپڑا پھینکنا ضروری سمجھتی ہیں، یہ خیال غلط ہے ۔حیض میں پہنا ہوا یا حیض لگاہوا کپڑا دھل کر استعمال کرسکتے ہیں۔

دوسرا کام: غسل حیض،  جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تو وہ بلاتاخیر فورا غسل کرلےتاکہ اس کا جسم پاک وصاف ہوجائے اور نماز کی پابندی کرنے لگ جائے۔ غسل حیض ، کا وہی طریقہ ہے جوغسل جنابت کا ہے۔ غسل جنابت کا طریقہ مندرجہ ذیل ہے۔

غسل سے پہلے طہارت کی نیت کریں اور بسم اللہ کہیں ۔غسل کی ابتداء کرتے ہوئے پہلے دونوں ہاتھوں کو کلائی تک دھوئیں پھر بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کی صفائی کریں، اس کے بعد نماز کی طرح وضو کریں۔

وضو کرنے کے بعد پہلے ترانگلیوں سے بالوں کا اس طرح خلال کریں کہ جڑیں خوب ترہوجائیں پھر تین چلو سر پہ پانی ڈالیں۔ اب سر کے دائیں جانب چلو سے پانی ڈالیں پھر بائیں جانب ڈالیں اور پورے جسم پر پانی بہاکر اچھی طرح تمام حصوں کو دھولیں اور آخر میں غسل کی جگہ سے کچھ ہٹ کر دونوں پیر دھل لیں۔ غسل جنابت ہوگیا، یہی غسل حیض اور غسل نفاس بھی ہے۔ واضح رہے کہ غسل حیض میں چوٹی بندھی ہو تو اس کو کھولنا ضروری نہیں ہے، پورے بالوں کو گیلا کرنا اور ان کی جڑوں تک پانی پہنچانا کافی ہے۔

چونکہ حیض بدبودار خون ہوتا ہے جو مسلسل کئی دنوں تک جاری رہنے کے سبب حائضہ کے جسم وکپڑے میں بورہتی ہے اس وجہ ہے نبی ﷺ نے حائضہ کو غسل کے وقت پانی وبیری کے پتے سے اچھی طرح طہارت حاصل کرنے اور غسل کرنے کا حکم دیا ہے پھر عورت غسل کے بعد کستوری(خوشبو) لگے ہوئے کپڑے یا روئی سے اپناجسم یابووالے مقامات پوچھ لے تاکہ جسم سے بوزائل ہوجائے اور فریش ہوکر نماز ادا کرے۔

اگر کوئی  عورت کبھی  غسل کامل(وضووالا) نہ کرسکے اور کفایتی غسل کرے تو اس سے بھی غسل ہوجائے گا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے غسل طہارت کی نیت کرکے بسم اللہ کہے پھر کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے پھر پورے جسم پر اس طرح پانی بہائے کہ سر سے لے کر پیرتک تمام حصے گیلے ہوجائیں حتی کہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے ۔ اس طرح کرنے سے بھی غسل ہوجائے گا تاہم افضل طریقہ غسل جنابت والا ہے۔

مسئلہ : جب عورت حیض سے پاک ہواور اسے غسل کرنے کے لئے پانی نہ ملے یا اس کے لئے پانی کا استعمال مضر صحت ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرلے ، وہ پاک ہوجائے گی ، اب اس کے بعد وہ نماز پڑھ سکتی ہے نیز شوہر سے جماع کرنابھی جائز ہوجائے گا۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی پاک مٹی پر ایک مرتبہ دونوں ہاتھ مارے پھر ہاتھوں میں لگی دھول مٹی کو پھونک کر صاف کرلے اور بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کرے پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کی ظاہری ہتھیلی پر مسح کرلے اس کے بعد دونوں ہاتھوں سے پورے چہرے کا مسح کرے۔ تیمم ہوگیا۔(ابوداؤد:321)

مسئلہ: ویسے حیض کی حالت میں غسل کرنے سے ناپاکی دور نہیں ہوتی ہے تاہم  گرمی، تھکان اور فریش ہونے کے لئے غسل کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔اس سے وابستہ ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ  عورت جنابت کی حالت میں تھی ، اسی اثناحیض آگیا تو عورت پر حائضہ ہونے کے سبب غسل واجب نہیں ہے ، پاک ہونے تک اپنے غسل کو موخر کرسکتی ہےلیکن اگر وہ غسل کرلیتی ہے تو جنابت کی ناپاکی دور ہوجائے گی اور اس کے سبب اب وہ تلاوت کرسکتی ہے جبکہ جنبی کے لئے تلاوت منع ہےمگر حائضہ تلاوت کرسکتی ہے۔

صفرہ اور کدرہ کے احکام :

  حیض والی عورت کو صفرہ اور کدرہ جاننا انتہائی ضروری ہے۔

صفرہ، شرمگاہ سے نکلنے والے زردرنگ کے پانی کو کہتے ہیں اور کدرہ ، شرمگاہ سے نکلنے والے مٹیالے اور گدلے پانی(زردی اورسیاہی کے درمیانی رنگ) کو کہتے ہیں ۔

 صفرہ(پیلے )اورکدرہ( مٹیالے رنگ کے پانی) کے تین حالات ہیں ۔

پہلی حالت: حیض کی آمد سے ایک دو دن قبل کسی کسی عورت کو پیلے یا مٹیالے رنگ کا پانی شرمگاہ سے نکلتا ہے۔ اگر یہ پانی حیض سے متصلا ہویعنی گدلے پانی کے ساتھ متصلا حیض آنا شروع ہوجائے تو یہ حیض مانا جائے گاجیسے ایک دن گدلا پانی نکلا اور دوسرے دن سے باقاعدہ حیض جاری ہوگیا تو پہلے دن سے ہی عورت حیض شمار کرے اور نماز وروزہ سے رک جائے ۔ عام طور پر حیض شروع ہونے پرتکلیف ومروڑ بھی شروع ہوجاتی ہے لہذا اس علامت سے بھی حیض کی شروعات جان سکتے ہیں ۔ اور اگر گدلے رنگ کا پانی حیض سے منفصل طور پر آئے جیسے ایک دن گدلا پانی ظاہر ہوا پھر درمیان میں ایک یا دو دن خشکی رہی پھر حیض شروع ہوا تو پہلے والا دن جب گدلا پانی ظاہر ہوا حیض شمار نہیں ہوگا بلکہ جب سے حیض شروع ہوا تب سے حیض مانا جائے گا۔

دوسری حالت: زردی اور مٹیالے رنگ کا پانی حیض کے دوران آئے جیسے ایک عورت کو چھ دن حیض آتا ہے ، ان چھ دنوں کے درمیان کسی دن گدلا پانی آئے تو اسے حیض ہی مانا جائے گا۔

تیسری حالت: ایک عورت جب حیض سے پاک ہوجائے یعنی علامت طہر ظاہر ہوجائے پھر اس کے بعد زردی یا مٹیالے رنگ کا پانی ظاہر ہوتو اسے حیض شمار نہیں کیا جائے گا۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:

كُنَّا لَا نَعُدُّ الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ بَعْدَ الطُّهْرِ شَيْئًا (سنن ابي داود:307)

ترجمہ: ہم حیض سے پاک ہو جانے کے بعد زردی اور گدلے پن کو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔

اور اگر یہ مٹیالے رنگ کا پانی حیض کے اختتام پر متصلا آئے تو اسے بھی حیض ہی مانا جائے گاجیسے ایک عورت کو چھ دن حیض آیا اور متصلاساتواں دن مٹیالے رنگ کا پانی ظاہر ہوا تو ساتواں دن بھی حیض ہی مانا جائے گا۔

مسئلہ: اگر حیض کے دنوں سے ہٹ کر دوسرے ایام میں عورت کی شرمگاہ سے زردیا گدلا پانی ظاہرہوتو اسے کچھ بھی شمار نہ کرے ، اس حال میں اسے نماز کی پابندی کرتے رہنا ہے۔

مسئلہ : کسی عورت کو لیکوریا کہ شکایت ہوتی ہے اور شرمگاہ سےمسلسل  سفیدرطوبت(پانی) خارج ہوتی رہتی ہے۔ یہ رطوبت حکما پاک ہے، اس کو دھلنے یا کپڑا صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ ناقض وضو ہے اس وجہ سے لیکوریا والی عورت کو ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز پڑھنا ہے جیسے استحاضہ والی عورت ہرنماز کے وقت وضو کرتی ہے۔ استحاضہ والی عورت کووضو سے پہلے  خون لگے حصے کو صاف کرنے کی ضرورت ہے مگر لیکوریا والی عورت کو وضو سے پہلے رطوبت صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

حیض سے متعلق مزیدچند احکام :

٭بسا اوقات ،کسی عورت کو غسل حیض کے بعد دوبارہ خون کے دھبے یا زردو مٹیالے رنگ کا پانی نظر آتا ہے اس زرد یا گدلے پانی کو کچھ نہیں شمار کرنا ہے اور عورت کو نماز کی پابندی کرنے لگ جانا ہےکیونکہ حیض سے پاکی(طہر) حاصل ہونے کے بعد زردی اور مٹیالے رنگ کو کچھ شمار نہیں کرنا ہے۔

٭کسی عورت کو مسلسل پندرہ دن سے زیادہ حیض کے صفات والا خون آئے تو وہ صرف پندرہ دن تک ہی حیض شمار کرے اور اس کے بعد غسل کرکے نماز کی پابندی کرے۔

٭کسی کسی عورت کو رک رک کرحیض آتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ ایک سے زائد مرتبہ حیض آتا ہے ، جیسے دو دن حیض آیا پھر ایک یا دودن خشکی رہی پھر دو تین دن  حیض آیا۔ اسی طرح کسی کو تین چار دن حیض آیا پھر دو تین دن ناغہ کرکے پھر دوتین دن حیض آیا تو ایسی صورت میں عورت کیا کرے۔ اس طرح رک رک کر حیض آنا ماہانہ تعداد کے اعتبار سے دراصل ایک ہی حیض ہےاور عورت کو مہینہ میں ایک بار ہی حیض آئے گاجیساکہ ہم جانتے ہیں کہ طلاق کی عدت  میں ایک ماہ میں ایک حیض مانا جاتا ہے۔ایک دوسرا مسئلہ جس میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے مگر اس میں درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ رک رک کر حیض آنے میں حیض کے دنوں کو حیض شمار کرے اور درمیان میں خشکی کے دنوں کو پاکی شمار کرکے ان میں نماز کی پابندی کرے ۔

اس میں ایک صورت یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو مثلا چھ دن حیض آتا ہے ، اس دوران کبھی دن کے کچھ گھنٹوں میں خشکی نظر آتی ہے تو اس دن کو حیض ہی شمار کرے یعنی کچھ دیر کی خشکی کو پاکی کا دن خیال نہ کرےلیکن دوران حیض ایک دن دو دن بالکل خشکی رہے تو اس میں نماز پڑھے۔

٭کبھی کسی عورت کو حیض کی آمد کی طرح تکلیف محسوس ہو تو مجرد تکلیف کو حیض شمار نہیں کیا جائے گا جب تک کہ حیض آنا شروع نہ ہوجائے۔

٭اگر کوئی  عورت چالیس پچاس سال کی ہوگئی تھی اور حیض منقطع ہوگیا تھا پھر کچھ زمانے بعد حیض کی طرح خون آنا شروع ہوگیا تو مذکورہ صورت میں جب سے حیض کی طرح خون آنے لگے ، ان دنوں کے خون کو حیض شمار کرنا ہے اور مدت حیض میں نماز وروزہ سے رک جانا ہے۔بڑی عمر میں جب حیض منقطع ہونے لگتا ہے تو ماہواری میں بدنظمی بھی پیدا ہوجاتی ہے اس بارے میں اوپررک رک کر حیض آنے سے متعلق جو مسئلہ بیان گیا ہے اس کی طرف التفات کریں۔

٭ حیض کے ایام، مہینہ میں آگے پیچھے ہوسکتے ہیں نیزممکن ہے کہ کسی عورت کو کبھی کم دن اور کبھی زیادہ دن حیض آتا ہو ایسےمیں  اس عورت کے لئے مدت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ جس ماہ جتنے دن حیض آئے اتنے  دنوں حیض شمارکرنا ہے۔

حمل میں حیض کا حکم :

عموما حمل میں حیض نہیں آتا، اس کے باوجود کبھی کسی عورت کو حالت حمل میں خون جاری ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کو ماہواری سمجھا جائے گا؟ اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو حمل میں بھی حیض آسکتا ہے اور بعض اس کی نفی کرتے ہیں۔  اس معاملہ میں اصل یہی ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا ہےچنانچہ  جب حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ بات نبی ﷺ سے عرض کی تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:

مُرْه فليراجعها، ثمَّ لْيُطلقها طاهرًا، أو حاملًا(مسلم: 1471)

ترجمہ: اسے حکم دو کہ وہ اس (مطلقہ بیوی) سے رجوع کرے پھر اسے حالت طہر میں یا حالت حمل میں طلاق دے۔

اس حدیث پہ غور کریں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا منع ہے لیکن آپ ﷺ نے حمل میں طلاق دینے کا حکم دیا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ حمل میں حیض نہیں آتا اس وجہ سے حمل میں طلاق دینے کی اجازت ہےاور حاملہ کی عدت بھی وضع حمل بتایا گیا ہے نیز اطباء کا بھی اس بارے میں یہی کہنا ہے کہ حمل میں حیض نہیں آتا لہذا جب کسی عورت کو حمل میں خون نکلے خواہ کسی قسم کاہو تو اس کو حیض شمار نہ کرے اور اس میں نماز کی پابندی کرے۔

حیض اور استحاضہ کے احکام

اوپر آپ نے حیض کے خون اور اس کے صفات کے بارے میں جانکاری حاصل کی، حیض کی طرح ایک خون استحاضہ کا ہوتا ہے جو کسی مرض کے سبب عورت کی شرمگاہ سے برابر نکلتا رہتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ حیض کے خون میں اور استحاضہ کے خون میں بڑا فرق ہوتا ہے یعنی یہ دو الگ الگ طرح کا خون ہوتا ہے،ان دونوں کے درمیان  نیچے بتائے گئے صفات سے امتیاز کریں۔

٭حیض کے خون کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے جبکہ  استحاضہ کے خون کا رنگ لال ہوتا ہے۔

٭حیض کاخون گاڑھا ہوتا ہے جبکہ  استحاضہ کا خون پتلا ہوتا ہے۔

٭ حیض کے خون میں بدبو ہوتی ہے کیونکہ رحم سے نازل ہوتا ہے جبکہ استحاضہ کے خون میں بدبو نہیں ہوتی ہے، یہ عام رگ سے جاری ہوتا ہے۔

٭ حیض کا خون رحم سے نکلنے کے بعد منجمد نہیں ہوتا ہے جبکہ استحاضہ کا خون منجمد ہوجائے گا۔

کسی کسی عورت کو مسلسل خون جاری رہتا ہے اور اسے استحاضہ کی شکایت رہتی ہے تو ایسی عورتوں کے تین حالات ہوسکتے ہیں ۔

پہلی حالت: عادت والی عورت(معتدہ) ، وہ عورت جس کے لئے اپنے حیض کی ایک عادت معروف ہو کہ اسے شروع ماہ یا درمیان ماہ یا آخر ماہ میں پانچ ، یا چھ یا سات دن حیض آتا ہے۔ اگر اس قسم کی عورت کو استحاضہ کی شکایت ہوجائے تو وہ اپنی عادت پر عمل کرے گی یعنی وہ اپنی عادت کے دنوں میں حیض شمار کرکے نماز و روزہ سے رک جائے گی اور عادت کے علاوہ بقیہ دنوں میں آنے والے خون  کو استحاضہ سمجھے گی ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا، جو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خون (استحاضہ) کی شکایت کی تو آپ نے ان سے فرمایا:

امْكُثِي قَدْرَ مَا كَانَتْ تَحْبِسُكِ حَيْضَتُكِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ (صحیح مسلم:334)

ترجمہ:جتنے دن تمہیں حیض روکتا تھا اتنے دن توقف کرو، پھر نہاؤ۔ تو وہ ہر نماز کے لیے نہاتی تھیں۔

یہ حدیث عادت والی مستحاضہ سے متعلق ہے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق استحاضہ کے دوران حیض شمار کرے، اس سے بھی واضح ایک اور حدیث ہے۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا، تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لِتَنْظُرْ عِدَّةَ اللَّيَالِي وَالْأَيَّامِ الَّتِي كَانَتْ تَحِيضُهُنَّ مِنَ الشَّهْرِ قَبْلَ أَنْ يُصِيبَهَا الَّذِي أَصَابَهَا، فَلْتَتْرُكِ الصَّلَاةَ قَدْرَ ذَلِكَ مِنَ الشَّهْرِ، فَإِذَا خَلَّفَتْ ذَلِكَ فَلْتَغْتَسِلْ، ثُمَّ لِتَسْتَثْفِرْ بِثَوْبٍ، ثُمَّ لِتُصَلِّ فِيهِ(سنن ابي داود:274، صححہ البانی)

ترجمہ:اس عورت کو چاہیئے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے مہینے کی ان راتوں اور دنوں کی تعداد کو جن میں اسے حیض آتا تھا ذہن میں رکھ لے اور (ہر) ماہ اسی کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کرے، پھر کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے پھر اس میں نماز پڑھے۔

دوسری حالت : تمیز والی عورت(ممیزہ)، وہ عورت جس کے لئے حیض کی کوئی عادت معروف نہ ہویعنی اس کے حیض کے ایام کم یا زیادہ  یا پھر آگے پیچھے ہوتے رہے ہوں  لیکن وہ حیض کے صفات سے حیض اور استحاضہ میں تمیزکرلیتی ہوجیساکہ اوپر حیض واستحاضہ کے صفات میں فرق بیان کیا گیا ہے ، ایسی عورت خون میں جب سے جب تک حیض کے صفات دیکھے، ان دنوں میں نماز وروزہ سے رکی رہے اور جب حیض کے صفات نہ پائے تو غسل کرکے نماز کی پابندی کرے۔اس کی دلیل یہ روایت ہے۔فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کی شکایت تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
إِذَا كَانَ دَمُ الْحَيْضِ فَإِنَّهُ دَمٌ أَسْوَدُ يُعْرَفُ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَمْسِكِي عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِذَا كَانَ الْآخَرُ فَتَوَضَّئِي وَصَلِّي"(سنن ابي داود:304، حسنہ البانی)

ترجمہ:جب حیض کا خون ہو جو کہ بالکل سیاہ ہوتا ہے اور پہچان لیا جاتا ہے تو تم نماز سے رک جاؤ اور جب دوسری طرح کا خون آنے لگے تو وضو کرو اور نماز پڑھو۔

تیسری حالت: غالب حالات والی عورت(متحیرہ)، جب کسی عورت کے لئے حیض کی معروف عادت نہ ہو، نہ ہی وہ حیض کو اس کے صفات سے ممیز کرپاتی ہو، ایسی عورت ،غالب حال پر عمل کرتے ہوئے چھ یا سات دن حیض مان کر نماز وروزہ سے رکی رہے گی اور چھ یا سات کے بعد استحاضہ کا خون مان کر غسل کرکے نماز کی پابندی کرے گی۔ اوپر اس بارے میں حدیث گزرچکی ہے کہ عورتوں کے حیض کے غالب حالات چھ یا سات دن ہوتے ہیں۔اس کی دلیل یہ روایت ہے۔جب حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے استخاضہ کی شکایت کیں تو آپ نے انہیں حکم دیا:

إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ، فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ۔(سنن ترمذي:128،حسنہ البانی)

ترجمہ:یہ تو صرف شیطان کی چوٹ (مار) ہے تو چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں تو حیض کے شمار کر پھر غسل کر لے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک و صاف ہو گئی ہو تو چوبیس یا تئیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اسی طرح کرتی رہو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں۔

اہم نکتہ: ممکن ہے کہ کسی عورت کو حیض کے صفات والا ممیزخون پندرہ دنوں تک یا اس سے بھی زیادہ دنوں تک جاری رہےایسی صورت میں عورت پندرہ دنوں تک ہی حیض شمار کرے ، اس کے بعد استحاضہ مان کرغسل کرے اور نماز کی پابندی کرنے لگے ۔

مستحاضہ کیسے پاکی حاصل کرے ؟

سب سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ مستحاضہ اصل میں پاک ہی ہوتی ہے، اس سے جو خون جاری ہوتا ہے وہ کسی مرض کے سبب ہوتا ہےاس وجہ سے مستحاضہ کے لئے ہرقسم کی عبادات انجام دینا جائز ہے یعنی نماز وروزہ ، حج وعمرہ، طواف   اور ذکر وتلاوت وغیرہ سارے اعمال  جائز ہیں حتی کہ مستحاضہ سے جماع کرنا بھی جائز ہے تاہم یہاں پر مستحاضہ کی پاکی سے متعلق دو باتیں جان لیں۔

(1)مستحاضہ  کوجن دنوں میں حیض آتا ہےوہ جب حیض سے پاک ہوجائے ، اس وقت اس کو حیض سے پاکی کا غسل کرنا ہوگااور یہ غسل ، غسل جنابت کی طرح کرنا ہے جیساکہ اوپر واضح کیا گیا ہے۔

(2) مستحاضہ کے لئے غسل ایک ہی مرتبہ ہے جب وہ حیض سے پاک ہواور  حیض کے علاوہ  بقیہ  دنوں میں ہرنماز کے وقت نیا وضو کرکے نماز پڑھے یعنی پانچوں اوقات کی ہرنماز کے لئے اسے لازما وضو کرنا ہوگا۔ وضو سے پہلے شرمگاہ ، جسم اور کپڑے میں لگے خون کے اثر کواچھی طرح دھل کرصاف کرلینا ہے ، اس کے بعد شرمگاہ پر کوئی ٹکڑا یا پیڈ لگالینا ہے یا لنگوٹ باندھ لینا ہے تاکہ خون نہ گرے اور اب وضو کرکے نماز پڑھنا ہے۔ ایک وقت میں وضو کرکے ایک وقت کی ساری نمازیں ادا کرسکتی ہے ، پھر دوسرے وقت کی نماز کے لئے اسی طرح پہلے جسم اور کپڑے کی صفائی کرکے اور پیڈلگاکریا لنگوٹ باندھ کروضو کیا کرے اور اس وقت کی نماز ادا کرےجیساکہ فاطمہ بنت ابی حبیش سے متعلق مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ جب تمہیں کالے رنگ کی طرح حیض آئے تو نماز سے رکی رہو اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو غسل حیض کرکے نماز پڑھتی رہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا۔ تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 ذَلِكِ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي(صحیح البخاری:320)

ترجمہ: یہ رگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے۔ اس لیے جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کر اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر کے نماز پڑھ لیا کر۔

مسند احمد میں بالکل واضح ہے کہ نبی ﷺ نے فاطمہ کو غسل حیض کرکے ہرنماز کے لئے صرف وضو کرنے کا حکم دیا ہے۔ الفاظ دیکھیں، نبی ﷺفرماتے ہیں: اجْتَنِبِي الصَّلَاةَ أَيَّامَ مَحِيضِكِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، وَتَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ، ثُمَّ صَلِّي، وَإِنْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَى الْحَصِيرِ(مسند احمد:25681)

ترجمہ: ایام حیض تک تو نماز چھوڑ دیا کرو، اس کے بعد غسل کر کے ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرو اور نماز پڑھا کرو خواہ چٹائی پر خون کے قطرے ٹپکنے لگیں۔

اسی طرح وضاحت کے ساتھ ابوداؤد کی ایک روایت میں بھی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ کے بارے میں فرمایا:

تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتُصَلِّي، وَالْوُضُوءُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ(سنن ابي داود:297، صححہ البانی)

ترجمہ:وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑے رہے، پھر غسل کرے اور نماز پڑھے، اور ہر نماز کے وقت وضو کرے۔

بحالت حیض ممنوع کام

(1)نماز: حیض کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت ہےلہذا جیسے ہی عورت کو حیض آنا شروع ہواسی وقت سے نماز ترک کردے اور حیض کے سبب جتنے دنوں کی نماز چھوٹے گی ان نمازوں کی قضا نہیں کرنی ہے، یہ نمازیں معاف ہیں۔ عاصم نے معاذہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، میں نے کہا:

مَا بَالُ الْحَائِضِ، تَقْضِي الصَّوْمَ، وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ قُلْتُ: لَسْتُ بِحَرُورِيَّةٍ، وَلَكِنِّي أَسْأَلُ، قَالَتْ: كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ(صحیح مسلم:335)

ترجمہ: حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ میں نے عرض کی: میں حروریہ نہیں، (صرف) پوچھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

مسئلہ: حیض شروع ہونے پر،  اگرعورت کو نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد حیض آئے مثلا ظہر کے بعداور عصر سے پہلے حیض آئے تو پاک ہونے پر ظہر کی نماز کی قضا کرنی ہوگی کیونکہ اس نے ظہر کا وقت پالیا تھا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا (النساء:103)

ترجمہ:بے شک نماز مقررہ اوقات میں مومنوں پر فرض کردی گئی ہے۔

مسئلہ: حیض سے پاک ہونے پر، اگر حائضہ عصر کے بعد یا عشاء کے بعد پاک ہوتو اس مسئلہ میں کیا عورت ظہروعصر یا مغرب وعشاء دونوں پڑھے گی، اس مسئلہ  میں اختلاف ہے ۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب عورت ایسے وقت میں پاک ہو جن میں سفر کی وجہ سے دو نمازیں جمع کی جاتیں ہیں تو اسے دونوں نمازوں کو ادا کرنا ہے گویا مذکورہ بالا صورت میں عورت کو ظہروعصر یا مغرب و عشاء دونوں ادا کرنا ہے۔ بعض دوسرے علماء کہتے ہیں کہ دو نمازیں نہیں ادا کرنا ہے بلکہ جس نماز کے وقت پاک ہوئی ہے بس وہی نماز ادا کرنا ہے۔ بہرکیف! جس وقت پاک ہوئی ہے اس وقت کی نماز ادا کرنے سے بری الذمہ ہوجائے گی،دونمازیں ادا کرنا ضروری نہیں ہے کیونکہ مومن پر اسی وقت کی نماز فرض ہے جس وقت کو پائے اس بارے میں رب تعالی کا فرمان گزر چکا ہے۔

مسئلہ: فجر سے پہلےیا ظہر سے پہلے پاک ہونے پر کوئی نماز نہیں پڑھنا ہے لیکن فجر کے بعدیا ظہر کے بعدیا مغرب کے بعدپاک ہونے پر صرف اس وقت کی نماز ادا کرنا ہے۔ اورعصر یا عشاء کے بعد پاکی کا مسئلہ اوپر بتادیا گیاہے کہ اس میں دو اقوال ہیں ۔

(2) روزہ: حیض کی حالت میں روزہ رکھنا منع ہے لہذا جب عورت کو حیض آئے کسی قسم کا روزہ نہیں رکھنا ہے ، نہ فرض ، نہ قضا ، نہ نذر اور نہ نفلی روزہ ۔ رمضان میں حیض کے سبب جتنا روزہ چھوٹ جائے رمضان کے بعد فرصت ملتے ہی ان روزوں کی قضا لازم ہے۔ عاصم نے معاذہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا، میں نے کہا:

مَا بَالُ الْحَائِضِ، تَقْضِي الصَّوْمَ، وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ قُلْتُ: لَسْتُ بِحَرُورِيَّةٍ، وَلَكِنِّي أَسْأَلُ، قَالَتْ: كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ(صحیح مسلم:335)

ترجمہ: حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ میں نے عرض کی: میں حروریہ نہیں، (صرف) پوچھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔

مسئلہ: شوال کے چھ روزوں کا اجر پانے کے لئے ضروری ہے کہ اگر عورت سے رمضان کا روزہ چھوٹا ہو تو پہلے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے ، پھر شوال کے چھ نفلی روزے رکھے۔

مسئلہ: قضا روزوں کے سلسلے میں اصل یہی ہے کہ اس رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا اگلے رمضان سے پہلے پہلے کرلے، اگر کسی عذر کے سبب اگلے رمضان تک قضا نہ کرسکے تو رمضان کے بعد قضاکرلے تاہم قضا کرنا ضروری ہے۔

مسئلہ: اگر عورت نے پاک ہونے کے سبب، فجر سے پہلے روزہ کی نیت کرلی لیکن فجر کے بعد حیض آنا شروع ہوگیا تو اس سے اس کا روزہ باطل ہوگیا۔ روزہ باطل ہونے کے سبب  اب اسے بھوک پیاس برداشت کرنا کوئی ضروری نہیں ہے ، وہ دن میں کھاپی سکتی ہے ۔

مسئلہ: عورت کو روزہ کی حالت میں غروب شمس سے کچھ دیر پہلے بھی حیض آگیا تو اس کا روزہ باطل ہوگیا، بعد میں اسے اس روزہ کی قضا کرنا ضروری ہے۔ ہاں اگر مغرب سے قبل صرف تکلیف محسوس ہواور خون مغرب کے بعد جاری ہو تو یہ روزہ پورا ہوگیا، اس کی قضا نہیں کرنا ہے۔

مسئلہ: رمضان میں بغیرعادت کے کبھی خون کے دھبے یا ہلکے پھلکے زردی یا مٹیالے پانی کے کچھ اثرات نظر آئیں تو اس کی طرف توجہ نہیں دینا ہےکیونکہ اس کو حیض شمار نہیں کیاجائے گا۔روزہ اپنی جگہ درست وصحیح مانا جائے گا۔

مسئلہ : عورت فجر سے پہلے حیض سے پاک ہوگئی ، ابھی اس نے غسل نہیں کیا ہے تو اس حالت میں روزہ کی نیت کرسکتی ہے اور سحری بھی کھاسکتی ہے تاہم غسل حیض میں تاخیر نہ کرے تاکہ فجر کی نماز وقت پر پڑھ سکے ۔ کبھی سستی یا کسی عذر کے سبب غسل حیض میں تاخیر ہوگئی یہاں تک کہ سورج بھی نکل آیا تو اس سے روزہ کی صحت پر اثر نہیں پڑے گا ،اس کا  روزہ اپنی جگہ درست ہوگا۔

مسئلہ: رمضان کا مکمل روزہ رکھنے کے لئے اگر کوئی عورت  مانع حیض گولی کھانا چاہے تو کھاسکتی ہے بشرطیکہ وہ دوا مضر صحت نہ ہواس لئے اس بارے میں پہلے طبیب سے مراجعہ کرلے ۔بہترہے کہ  وہ اپنی فطرت پر باقی رہے اور گولی نہ کھائے کیونکہ گولی کھانے سے بسا اوقات نظام حیض بگڑ جاتا ہے۔

مسئلہ: اگر حاملہ عورت رمضان کا روزہ رکھ رہی تھی اسے دن میں خون آگیا تو اس سے اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا کیونکہ حاملہ کو حیض نہیں آتااور جو خون آیا ہے اس کو خون فاسد سمجھے ۔ یاد رہے کہ اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف بھی ہے اس لئے خلجان کا شکارنہ ہوں۔

(3) جماع: حیض کی حالت میں بیوی سے جماع کرنا حرام ہے۔ جب عورت حیض سے پاک ہوجائے اور پاکی کا غسل کرلے اس کے بعد جماع حلال ہے۔

اللہ کا فرمان ہے:

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ(البقرۃ:222)

ترجمہ:لوگ تم سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرمادیں کہ وہ گندگی ہے‘ حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں پھر جب وہ پاک ہوجائیں تو پاک ہونے پر ان کے پاس جاؤ۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے: اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ، إِلَّا النِّكَاحَ(صحیح مسلم:302)

ترجمہ:جماع کے سوا سب کچھ کرو۔

مسئلہ : اگر کوئی حیض کی حالت میں بیوی سے جماع کرلے تو اس کو  ایک دنیار یا نصف دینارکفارہ دینا پڑے گا ، ساتھ ہی اللہ تعالی سے توبہ کرناپڑے گا کیونکہ اس نے حرام کام کیا ہے۔ جماع کے کفارہ سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"يتصدق بدينار أو بنصف دينار"۔ یعنی وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔(ابو داؤد، نسائی، دارمی، ابنِ ماجہ)

ایک دینار 4.25 گرام سونا ہوتا ہے اور ہر ملک و شہر میں سونے کا الگ الگ ریٹ ہوتا ہے۔ اپنے شہر کے حساب سے سوا چار گرام سونا کی جو قیمت ہو وہ صدقہ کرے یا اس کی آدھی قیمت۔ جسے صدقہ کی استطاعت نہ ہو وہ معذور کے حکم میں ہے۔

مسئلہ: اگر کوئی عورت حیض سے پاک ہوجائے تو اس وقت تک جماع کرنا جائز نہیں ہے جب تک کہ عورت غسل نہ کرلے۔ اگر کوئی آدمی غسل سے قبل ہی بیوی سے جماع کرلے تو اس پر کفارہ کے سلسلے میں اختلاف ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ حیض  کے بعد غسل سے پہلے جماع کرنے پر کفارہ کی واضح دلیل نہیں ہے ، نیز یہ جماع حیض کی حالت میں ہوا بھی نہیں ہے بلکہ حیض تو ختم ہوگیا ہے اس وجہ سے کفارہ نہیں دینا ہے تاہم یہ غلط کام ہے اس کے لئے توبہ کرنا چاہئے۔

مسئلہ :کسی جماع کرتے وقت عورت کو حیض آجاتا ہے، ایسی صورت میں کوئی کفارہ نہیں دینا ہے لیکن جیسے ہی عورت کوعلم ہوکہ حیض آگیا ہے، خود کو ہمبستری سے فورا الگ ہوجائے ۔

مسئلہ :بعض ایسے بھی مرد ہیں جو حیض کی حالت میں بیوی سے مشت زنی کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ کچھ تو اس پر بیوی کو مجبور کرتے ہیں ایسے میں یہ نصیحت ہے کہ مشت زنی حرام ہے ، نہ مرد کو مشت زنی کرنا یا کرانا چاہئے اور نہ ہی بیوی کو شوہر کا یہ مطالبہ پورا کرنا چاہئے ۔ شوہر کی اطاعت صرف بھلی باتوں میں کی جائے گی ۔ مشت زنی کے علاوہ  انزال کا اور بھی کوئی غیرفطری طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے ۔اورل سیکس بھی جائز نہیں ہے۔ میاں بیوی کو اس عمل سے باز رہنا چاہئے۔

(4)مسجد میں وقوف: حیض کی حالت میں عورت کے لئے مسجد میں ٹھہرنا جائز نہیں ہے، کسی ضرورت کے تحت مسجد سے گزرنا جائز ہے لیکن وہاں ٹھہرنا جائز نہیں ہے۔ اس وجہ سے کسی عورت کا بحالت حیض  درس سننے یا تعلیم دینے یا تعلیم لینے اور اسی طرح خطبہ سننے مسجد جانا جا ئز نہیں ہے۔ مسجد سے باہر رہتے ہوئے  لاؤڈاسپیکرسے درس سننے میں حرج نہیں ہے۔

(5)بغیر آڑ کے مصحف چھونا: حیض کی حالت میں عورت کے لئے زبانی یا دیکھ کر قرآن کی تلاوت کرنا جائز ہے لیکن مصحف کو بغیر پردہ اور بغیردستانہ نہ چھوئے ۔

(6) طواف:حیض کی حالت میں عورت کے لئے کعبہ کا طواف کرنا بھی منع ہے لہذا کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ حیض کی حالت میں طواف کعبہ کرے۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دوران حج حائضہ ہوگئی تھیں تو آپ ﷺ نے ان کو یہ حکم دیا تھا۔ إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ(صحیح البخاری:294)

ترجمہ:یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کر لو البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔

(7) طلاق: حیض کی حالت میں طلاق دینا بھی ممنوع ہے اس لئے کسی مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے ۔ یہاں پر ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دیدے تو یہ طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مسئلہ میں جوازوعدم جواز سے متعلق دونوں قسم کے اقوال ملتے ہیں تاہم دلیل کی روشنی میں راجح مسئلہ یہ ہے کہ حیض میں طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ نبی ﷺ نے ابن عمررضی اللہ عنہماکو رجوع کرنے کا حکم دیا تھا جب انہوں نے حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دیا تھا۔ اگر یہ طلاق واقع نہیں ہوتی تو رجوع کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا، روایت اس طرح سے ہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ، ثُمَّ تَطْهُرَ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ(صحيح البخاري:5251)

ترجمہ: انہوں نے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔

جس صحابی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا انہوں نے بذات خود صراحت بھی کردی  ہے کہ حیض والی طلاق شمار کی گئی  بلکہ امام بخاری نے مذکورہ بالا حدیث کو ذکر کرکے اگلی حدیث میں اس کا ذکر کیا ہے۔

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: حُسِبَتْ عَلَيَّ بِتَطْلِيقَةٍ.(صحيح البخاري:5253)

ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا یہ طلاق جو میں نے حیض میں دی تھی مجھ پر شمار کی گئی۔

مسئلہ :اگر کسی نے جہالت میں آکر بیوی کو بحالت حیض طلاق دے دیا تو اسے چاہئے کہ اس سے رجوع کرلےپھرطہر تک روکے پھر حیض آکرپاکی حاصل ہوجائے تو اس طہر میں جماع سے قبل طلاق دینا چاہے تو طلاق دےلیکن جس نے رجوع نہ کیا تو یہ طلاق واقع ہوجائے گی اور جس حیض میں طلاق دیا ہے اس کو بطور عدت شمار نہیں کیا جائے گابلکہ اس کے بعد تین حیض عدت شمار کرنا ہے۔

مسئلہ : نکاح کے بعد اور دخول سے قبل حیض کی حالت میں طلاق دینے میں حرج نہیں ہے ، اسی طرح حیض میں خلع لینے  میں حرج نہیں ہے۔ اور یہ بھی علم میں رہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے مگر جب حیض میں خلع کیا جائے تو اس موجودہ حیض کو عدت میں شمار نہیں کیاجائے گا بلکہ مختلعہ کو اگلاحیض عدت شمار کرنا ہے یعنی اگلا حیض آجائے اور پاکی کا غسل کرلے پھر عدت مکمل ہوگی۔

بحالت حیض مباح کام

آدمی جنبی ہو یا عورت ، حائضہ اور نفساء ہووہ پاک ہی ہوتی ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ مومن کبھی ناپاک نہیں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے حائضہ  کا جسم ، پسینہ اور جوٹھاپاک  سب ہے۔ وہ پانی میں ہاتھ ڈال دے یا کسی چیز کو چھولے تو اس سے وہ چیز نجس نہیں ہوجائے گی ۔عورت کی شرمگاہ سے  حیض کا خون جاری ہونے کے سبب وہ وقتی طورپر ناپاکی کی حالت میں ہوتی ہے۔اس کے باوجود شوہر اپنی بیوی کے ساتھ سوسکتاہے، اس سے بوس وکنار کرسکتا ہےسوائے جماع کے۔ عورت حیض کی حالت میں کام کاج کرسکتی ہے، کھانا بناسکتی ہے، گھرآنگن کی صفائی کرسکتی ہے حتی کہ دنیاکے سارے کام انجام دے سکتی ہے ۔یہودی لوگ حائضہ عورت کے ساتھ نہ کھانا کھاتے اور نہ اس کے ساتھ ایک گھر میں رہتے  مگر نبی ﷺنے اپنی امت کو حکم دیا: اصنعوا كل شيء، إلا النكاح(صحیح مسلم:302)

ترجمہ:جماع کے سوا سب کچھ کرو۔

دنیاوی کاموں کے علاوہ ماسوانمازوروزہ کےحائضہ ، جمیع قسم کی عبادات بھی انجام دے سکتی ہے۔ان کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جاتا ہے۔

(1)تلاوت: گوکہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے مگر راحج بات یہی ہے کہ عورت حیض کی حالت میں زبانی طورپر یا دیکھ کر قرآن کریم کی تلاوت کرسکتی ہے، اس میں حرج نہیں ہے۔ اگر مصحف سے قرآن تلاوت کرتی ہے تو ہاتھ میں دستانہ لگالے یا موبائل اور الکٹرانک ڈوائس سے تلاوت کرے ۔ موبائل اسکرین پر قرآنی آیات چھونے میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہ مصحف کے حکم میں نہیں ہے۔ تلاوت کرتے ہوئے آیات سجدہ آئے تو اس حال میں سجدہ تلاوت بھی کرسکتی ہے کیونکہ سجدہ تلاوت کے لئے پاکی شرط نہیں ہے اور اسی طرح اس حال میں سجدہ شکر بھی کرسکتی ہے۔اس مسئلہ کو تفصیل سے پڑھنے کے لئے میرا مضمون"حیض  کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت" پڑھیں جو میرے بلاگ پر دستیاب ہے۔

(2) ذکر: حیض کی حالت میں عورت جملہ قسم کے اذکار کرسکتی ہے جیسے صبح وشام کے اذکار، سونے جاگنے کے اذکار، کھانے پینے اور تکلیف کے وقت پڑھے جانے والے والے اذکارحتی کہ اس حال میں عورت اپنے اوپریا کسی دوسرے پر دم بھی کرسکتی ہے جیسے اپنے بچے پر۔

مسئلہ:سونے کے وقت وضو کرنے کی فضیلت آئی ہوئی ہے اس وجہ سے اگر کوئی حائضہ عورت سوتے وقت وضو کرکے سوتی ہے تو اس میں حرج نہیں ہے ، اسی طرح حائضہ، نماز کے وقت وضو کرکے اپنے مصلی پر ذکرودعا کرے تو جائز ہے مگر وضو ضروری نہیں ہے، بغیر وضو کے بھی ذکرودعا کرسکتی ہے۔

(3)دعا: حیض کی حالت میں عورت دعا بھی مانگ سکتی ہے ، استغفار بھی کرسکتی ہے ۔

(4)میت کو غسل: لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ حائضہ عورت میت کو غسل نہیں دے سکتی ہے مگر یہ بات درست نہیں ہے ۔ حائضہ میت کو غسل دے سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسے وہ ہر قسم کے دنیاوی کام کاج کرسکتی ہےمثلاکھانابنانا، کھاناکھانا، کپڑے دھونا، بچے کو نہانا، گھرصاف کرنااسی طرح میت کو بھی غسل دے سکتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:

نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: إِنِّي حَائِضٌ، فَقَالَ: إِنَّ حَيْضَتَكِ لَيْسَتْ فِي يَدِكِ(صحيح مسلم:689)

ترجمہ:مجھے مسجد میں سے جائے نماز پکڑا دو۔ کہا: میں نے عرض کی: میں حائضہ ہوں۔ آپ نے فرمایا: تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ حائضہ کے ہاتھ میں کسی قسم کی ناپاکی نہیں ہے ، وہ اپنے ہاتھ سے ہرکام کرسکتی ہے۔

مسئلہ: کبھی حیض کی حالت میں ہی  کسی عورت کا انتقال ہوسکتا ہےایسے میں اس عورت کو اسی طرح غسل دینا ہے جیسے عام میت کو غسل دیاجاتا ہے اور ویسے تو موت کے بعد شرمگاہ سے خون نہیں نکلے گا لیکن اگر خون نکلے تو وہاں کوئی کپڑا یا پیڈ لگادے تاکہ خون نکلنا بندہوجائے۔ اورپہلے سے پیڈلگاہو تو غسل کے وقت جگہ کی صفائی کرکے دوسرا صاف پیڈلگادے۔

(5) نکاح:حیض کی حالت میں عورت کا نکاح ہوسکتا ہے،لیکن جب  عورت عدت میں ہو تب اس کا نکاح نہیں ہوگا۔

(6) حائضہ اور جمعہ

ویسے عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ہے لیکن اگر کوئی مسجد میں مردوں کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنا چاہے تو نمازجمعہ پڑھ سکتی ہےبشرطیکہ مسجد میں عورتوں کی نماز کے لئے علاحدہ انتظام ہو۔ جو عورت حیض کی حالت میں ہے اس کے لئے نماز وروزہ ممنوع ہے لیکن ان دونوں عبادات  کے علاوہ دوسرے اعمال انجام دے سکتی ہے ۔جمعہ ایک مبارک دن ہے، یوم جمعہ کو کثرت سے درود پڑھنے کا حکم ہوا ہے حائضہ بھی جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح جمعہ کو سورہ کہف کی تلاوت مشروع ہے ، حائضہ دستانہ لگاکرمصحف سے سورہ کہف کی تلاوت کرسکتی ہے اور موبائل سے تلاوت کرتی ہے تو بغیردستانہ لگانے موبائل سے تلاوت کرسکتی ہے۔ جمعہ کے دن دعا کی قبولیت کی ایک گھڑی ہے جو عصر ومغرب کے درمیان ہے، حائضہ اس وقت میں دعا کرسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی حائضہ دیگر اعمال صالحہ  انجام دے سکتی ہے جونماز اور روزہ کے علاوہ ہو جیسے درس وتدریس،دعوت و تبلیغ، صدقہ وخیرات، دینی وملی تعاون  اور مطالعہ وغیرہ

(7)حائضہ اور رمضان

رمضان میں جب خواتین کو حیض آجاتا ہے تو بعض خواتین پریشان ہوجاتی ہیں کہ اب وہ رمضان جیسے مقدس مہینے میں عبادت سے محروم ہوگئیں حالانکہ انہیں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان  کے لئے روزہ اور نماز کی ممانعت ہے، بقیہ سارے اعمال انجام دے سکتی ہیں یعنی حائضہ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے، ذکرواذکار کرسکتی ہے، دعا کرسکتی ہے، توبہ واستغفار کرسکتی ہے، صدقہ وخیرات کرسکتی ہے، درس وتدریس اور دعوت و تبلیغ کا کام کرسکتی ہے، کتابوں کا مطالعہ اور بیانات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے غرضیکہ نماز و روزہ کے علاوہ ہرقسم کے اعمال صالحہ انجام دے سکتی ہے لہذا عورت حیض کی حالت میں بھی رمضان کے دنوں کو یونہی نہ گنوائے خصوصا آخری عشرہ میں حیض آجائے تو راتوں کو بیدار ہوکر قیام کے علاوہ دیگر عبادات انجام دے۔عید کے دن نبی ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ حائضہ کو بھی عیدگاہ نکلنے کا حکم دیا ہے ۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحی میں عید گاہ لے جائیں جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کو بھی ، ہاں حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہیں لیکن وہ اخیر میں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ،میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی ایک کے پاس جلباب نہ ہوتو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔ (صحیح البخاري:324،وصحیح مسلم:890)

(8)حائضہ اور عمرہ

عورت اگر عمرہ کا ارادہ رکھتی ہو اور اسے قریب ہی حیض آنے کی امید ہو تو ابھی عمرہ کا ارادہ ملتوی کردے اور جب حیض سے پاک ہوجائے تب عمرہ پہ جائے۔ اوروہ خاتون جو عمرہ کے ارادے سے نکل پڑی اور میقات پہ یا اس سے پہلے حیض آگیا تو اس کے لئے مسنون یہ ہے کہ غسل کرکے عمرہ کی نیت کرلے(لبیک عمرۃ کہےاور احرام میں داخل ہوجائے) کیونکہ نیت اور احرام باندھنے کے لئے طہارت شرط نہیں ہے اور میقات سے مکہ تک تلبیہ پکارتی رہی اور مکہ میں(ممنوعات احرام سے بچتے ہوئے) اپنے حیض سے پاک ہونے کا انتظار کرے ۔جب پاک ہوجائے تومسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ حالت احرام میں ہی ہےلہذاوہ  اپنی رہائش پہ ہی غسل کرے اور وہیں سےحرم جاکر عمرہ ادا کرے۔ اسی طرح اگر عورت نے پاکی کی حالت میں عمرہ کا احرام باندھ لیا اور مکہ پہنچ کر اسے حیض آگیا یا طواف کرتے ہوئے حیض آگیا تو وہ عمرہ سے بروقت رک جائے اور پاکی کا انتظار کرے، جب پاک ہوجائے پھر غسل کرکے حرم جاکر عمرہ کرے، یاد رہے کہ سعی میں حیض آجائے تو عمرہ جاری رکھے اور اپنا عمرہ مکمل کرلے کیونکہ سعی کرنے کے لئے پاکی شرط نہیں ہے اور سعی کی جگہ بھی مسجد حرام میں داخل نہیں ہے۔ بسا اوقات عورت کو احرام باندھنے کے بعد مکہ پہنچ کر حیض آجاتا ہے اور اسے وطن بھی جلدی لوٹنا رہتا ہے، یہاں پر مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس کے پاس انتظار کے لئے وقت نہ ہو نیز اس کا دوبارہ لوٹ کرمکہ  آنا بھی ممکن نہ ہو تو کس کے لنگوٹی باندھ لے اور اسی حال میں عمرہ مکمل کرلے اور اگر سعودی عرب کے کسی شہر سے آئی ہو تو اس کا لوٹنا ممکن ہے لہذا ابھی وہ واپس چلی جائے اور پاک ہوکر آئے پھراپنا عمرہ مکمل کرے۔

احرام باندھنے سے قبل شرط لگانے کا فائدہ: جو عورت عمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے پاک ہو اسے احرام باندھنے کے بعد حیض آنے کا خدشہ ہو اور حیض کی وجہ سے عمرہ مکمل کرنا مشکل لگ رہا ہو تو ایسی عورت کو چاہئے کہ عمرہ کا احرام باندھتے وقت شرط بھی لگالے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ احرام باندھنے کے بعد حیض آجائے تو عمرہ سے حلال ہوسکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے ۔

پہلے وہ عمرہ کی نیت کرے:"اللهم لبيك عمرةً"پھر اس طرح شرط لگائے:"إِنْ حَبَسِنِيْ حَابِسٌ فَمَحَلِّيْ حَيْثُ حَبَسْتَنِيْ"(اگر مجھے کوئی روکنے والا روک دے تو میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہو گی جہاں تو مجھے روک دے گا)(بخاری:5089)

اس طرح نیت کرکے جب عورت پاکی کی حالت میں میقات سے احرام باندھ لے پھر مکہ جاتے ہوئے راستے میں یا مکہ میں یا طواف کے دوران حیض آجائے اور پاکی کا انتظار کرکے عمرہ مکمل کرنا مشکل لگ رہا ہو تو ایسی عورت اپنے عمرہ سے حلال ہوجائے یعنی عمرہ کا ارادہ ترک کرےدے۔ اس کے اوپر کوئی فدیہ نہیں، کوئی قربانی نہیں اور اسے اپنا بال بھی نہیں کاٹنا ہے۔

(9)حائضہ اور حج

عورت حیض کی حالت میں احرام بھی باندھ سکتی اور حج بھی کرسکتی ہے، اس کے لئے صرف طواف کی ممانعت ہےچنانچہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دوران حج حائضہ ہوگئی تھیں تو آپ ﷺ نے ان کو یہ حکم دیا تھا۔ إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ(صحیح البخاری:294)

ترجمہ:یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کر لو البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔

حج سے متعلق بہت سارے مسائل ہیں، سب کا یہاں احاطہ مشکل ہے، ان میں سے چند کا یہاں پرتذکرہ کرتا ہوں ۔

مسئلہ: سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو میقات پر یا اس سے پہلے حیض آجائے اور وہ حج تمتع کرنا چاہتی ہواس حال میں کہ حج کے ایام قریب ہوں اور  یوم الترویہ(آٹھ ذوالحجہ)آنے ہی والا ہوتو وہ حج تمتع نہ کرے، وہ حج قران کی نیت کرلے، اس میں حج وعمرہ دونوں ایک ساتھ ہوجائے گا ۔اور اگر ایام حج میں  ابھی وقت ہو، اسے امید ہوکہ احرام باندھنے کے بعد یوم الترویہ سے قبل پاکی حاصل ہوجائےگی  اور تمتع کا عمرہ کرنے کا وقت مل جائے گا تو ٹھیک ہے، حیض کی حالت میں احرام باندھتے وقت حج تمتع کی نیت کرلے۔

مسئلہ: حیض کے سبب طواف افاضہ(جویوم النحرکوکیاجاتا ہے) کوپاک ہونے تک  مؤخر کیاجاسکتا ہے لیکن وطن واپسی سے پہلے حیض سے پاکی حاصل نہ ہوتو لنگوٹ باندھ  کرطواف افاضہ کرسکتی ہے، یاد ہے یہ عذر کے وقت ہے۔

مسئلہ : حج کے آخر میں حیض آجائے یعنی ایام تشریق میں اس حال میں کہ اس نے یوم النحرکو طواف افاضہ کرلیا ہو تو ان دنوں جمرات کو کنکری مارنی ہوتی ہے، حائضہ کنکری مارسکتی ہے، رہامسئلہ طواف الوداع کا تو حیض کی وجہ سے طواف الوداع عورت سے  معاف ہوجاتا ہے۔

مسئلہ : رمضان کا روزہ مکمل کرنے کے لئے، عمرہ کے لئے یا حج کی ادائیگی  کے لئے عورت مانع حیض گولی کھانا چاہے تو کھاسکتی ہے تاہم گولی نہ کھائے اور  اپنی فطرت پر باقی رہے تو یہ افضل وبہتر ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔