آپ کے سوالات اور ان کے جوابات
(84)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر حی السلامہ- سعودی عرب
سوال: علمائے دین جو کہ دن و رات دین کے
کام میں مصروف رہتے ہیں، روزگار اور معیشت کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ نفلی
صدقات سے ان کا تعاون کرنا، کیا ان کا حق نہیں ہے اور اکثر علماء خطبات کی رقم
لیتے ہیں یا ذمہ داران اپنی خوشی سے انہیں کچھ دیتے ہیں کیا اس طرح یہ ان کا حق
نہیں ہے جبکہ ان نفلی صدقات کے وہ سب سے زیادہ حق دار ہوتے ہیں؟
جواب:ایک ہے نفلی صدقہ ہے جس سے ہرقسم کا نیک کام
کرسکتے ہیں اور یہ نفلی صدقہ کے مستحق غریب و مسکین ہوتے ہیں۔
دوسری چیز ہے زکوۃ۔ یہ نفل نہیں بلکہ واجبی چیز ہے۔ یہ
آٹھ جگہ صرف کرسکتے ہیں ان میں شروع کے مصارف میں فقیر اور مسکین ہیں۔ فقیر کہتے
ہیں جو ضرورت مند ہو اور لوگوں سے مانگا کرے اور مسکین بھی ضرورت ہے مگر شرم کے
مارے لوگوں سے نہیں مانگتا۔
جہاں تک تبلیغ کرنے والے یا درس دینے والے علماء کو
زکوۃ دینے کا معاملہ ہے تو اس بارے میں صحیح بات یہی ہے کہ جو مالدار عالم ہو ان
کو زکوۃ سے اجرت نہیں دی جاسکتی ہے، صدقہ سے بھی نہیں کیونکہ یہ فقراء اور مساکین
کا حق ہے۔ ہاں اگر کوئی عالم فقیر یا مسکین کے زمرے میں آئے تو ان کو زکوۃ بھی دے
سکتے ہیں اور نفلی صدقہ بھی۔
کچھ علماء کا کہنا ہے کہ جو علماء خود کو دین کے لئے
متفرغ کرلیتے ہیں اور سارا وقت دین پر خرچ کرتے ہیں تو ان کو زکوۃ دے سکتے ہیں، یہ
بعض علماء کا نظریہ ہے۔ دیکھا جائے تو اسی کے تحت ہندو پاک کے مدارس میں علماء کو
زکوۃ سے تنخواہ دی جاتی ہے۔ پھر یہاں پر ایک مجبوری بھی ہے کہ اگر اساتذہ کو زکوۃ
نہ دی جائے تو مدارس بند ہو جائیں گے۔
بہرکیف! مجبوری کی حالت میں زکوۃ علماء پر خرچ کرسکتے
ہیں بشرطیکہ زکوۃ کے علاوہ دوسرا ذریعہ نہ ملے۔ اور جہاں پر دعوت اور درس کے واسطے
زکوۃ کے علاوہ سہولت میسر ہے وہاں اجرت میں زکوۃ دینے سے پرہیز کیا جائے حتی کہ
صدقات سے بھی۔
سوال: کیالین دین کے معاملہ میں نیت
دیکھی جائے گی کہ بالکل خلوص دل سے کسی کو دیا جائے، اگر کوئی نہ چاہتے ہوئے کسی
کو صرف فرض نبھاتے ہوئے کچھ دے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی کو کچھ دینے میں خلوص کا ہونا بہت ضروری ہے
اس کے بغیر اس کا دیا ہوا فضول اور بے معنی ہے۔ دراصل اس طرح کا معاملہ اس وقت
پیدا ہوتا ہے جب کسی سے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوتے اور ہمارے دل میں بھی دوسروں
سے کینہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں پہلے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دل سے کسی کے
خلاف بغض و نفرت نکال باہر کریں اور اپنا تعلق محبت کے ساتھ جوڑے رکھیں پھر جو کچھ
بھی رشتہ داروں یا دوسروں کو عنایت کریں گے اس میں یقینا خلوص ہوگا۔
سوال: جس دن بچے کا عقیقہ ہوتا ہے اس وقت
لوگ بچے کے لیے تحفے تحائف لے کر آتے ہیں تو کیا اس کا تعلق دین سے ہے یا کہ یہ
دین میں نئی بدعت ہے؟
جواب: بچے کی پیدائش پر لوگ ملنے کے لیے آئیں اور
دعائیں دیں، اسی طرح تحائف پیش کریں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ بچے کی
ولادت، خوشی کا موقع ہوتا ہے خواہ لوگ اس موقع سے آپ کو ہدیہ دیں یا جس کے ہاں بچہ
پیدا ہو وہ خوشی سے لوگوں کو کچھ کھلائے پلائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: ایک خاتون کناڈا سے اپنی بہن کے
ساتھ عمرہ کرنے آنا چاہ رہی ہے لیکن کوئی محرم نہیں ہے، ساتھ ہی ویزا لگ گیا ہے
لیکن اس کو پتہ چلا ہے کہ عمرہ کے لئے محرم ضروری ہے تو اب اس کے لئے کیا حکم ہے ،
کیا عمرہ ہوگا کہ نہیں؟
جواب:ہرمسلمان عورت کو معلوم ہے کہ سفر میں عورت کو
محرم کی ضرورت ہوتی ہے، یہ الگ مسئلہ ہے کہ جس وقت غلطی کا احساس ہوتا ہے مسئلہ اس
وقت پوچھا جاتا ہے۔
شرعی طور پر کسی عورت کے لیے محرم کے بغیر کسی بھی جگہ
کا سفر کرنا جائز نہیں ہے خواہ حج و عمرہ کا سفر ہو یا تعلیمی، تجارتی اور دنیا کا
کوئی سفر ہو۔ حج و عمرہ کے مسائل میں یہ واضح مسئلہ ہے کہ اگر عورت کے پاس محرم
نہیں ہے اور اس کے اوپر حج فرض ہوگیا ہے تو اس سے حج ساقط ہو جاتا ہے۔
جو صورتحال سوال میں مذکور ہے کہ دو خاتون، یہ دونوں
بغیر محرم کے عمرہ کرنے آرہی ہیں، اس حال میں کہ انہوں نے ویزا لگا لیا ہے، یہ سفر
ان دونوں کے حق میں شرعی لحاظ سے غلط ہے۔ اگر یہ اس طرح بغیر محرم کے سفر کرتی ہیں
تو گنہگار ہوں گی، گرچہ ان کا عمرہ ہوجائے گا تاہم بغیرمحرم سفر کرنے کا گناہ ان
دونوں کے سر آئے گا۔
ویزا لگنا کوئی بات بڑی بات نہیں ہے، اس کو کنسل بھی
کیا جاسکتا ہے۔ باقی شرعی حکم میں نے بیان کر دیا ہے۔
سوال: کیا اللہ کے تمام ناموں کے ساتھ
عبد لگاکر ہی نام رکھنا چاہئے یا کچھ نام بغیر عبدلگائے بھی رکھ سکتے ہیں جیسے
کبیر، یہ نام رکھا جاسکتا ہے؟
جواب:اللہ رب العالمین کے لیے جتنے بھی اسمائے حسنی
ثابت ہیں ان تمام اسمائے حسنی کے ساتھ عبد لگا کر بلاشبہ نام رکھ سکتے ہیں اس میں
کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ کچھ ایسے بھی نام ہیں جو اللہ اور بندوں کے لیے مشترکہ
طور پر استعمال ہوتے ہیں لہذا ان میں سے بعض ناموں کو بغیر عبد کے بھی استعمال
کرسکتے ہیں جیسے عزیز، کبیر وغیرہ۔ان ناموں کو عبد العزیز اور عبد الکبیر اور بغیر
عبد کے دونوں طرح جائز ہے۔
سوال: آخری تشہد میں کیا کیا پڑھنا ہے؟
جواب:آخری تشہد کے اذکار مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)التَّحِيَّاتُ
لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ
وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ
الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ
مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، (سنن ابی داؤد:968)
(2)اللَّهُمَّ
صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ
وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى
مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ
إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ. (صحیح البخاری:3370)
(3)اللهمَّ
إني ظلمتُ نفسي ظلمًا كثيرًا، ولا يغفرُ الذنوبَ إلا أنت، فاغفرْ لي مغفرةً من
عندِك، وارحمْني، إنك أنت الغفورُ الرحيمُ .(صحيح البخاري:834)
(4)اللهم
! إني أعوذُ بك من عذابِ جهنمَ . ومن عذابِ القبرِ . ومن فتنةِ المحيا والمماتِ .
ومن شرِّ فتنةِ المسيحِ الدجالِ (صحيح مسلم:588)
(5)اللهمَّ
! اغفرْ لي ما قدَّمتُ وما أخَّرتُ . وما أسررتُ وما أعلنتُ . وما أسرفتُ . وما
أنت أعلمُ به مِنِّي . أنت المُقدِّمُ وأنت المُؤخِّرُ . لا إله إلا أنتَ(صحيح
مسلم:771)
آخری تشہد میں التحیات، پھر درود اور اس کے بعد وہ
دعائیں جو محمد ﷺ سے منقول ہیں جنہیں اوپر بیان کیا ہوں، پڑھ کر سلام پھیر دیں۔ ان
دعاؤں کے علاوہ اگر کوئی مزید مسنون و ماثور دعائیں پڑھ کر سلام پھیرنا چاہے تو
کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: کئی سارے دوست ہیں ، وہ لوگ روزانہ
گیم کھیلتے ہیں ، ایک بار ایسے ہی مذاق مذاق میں یہ شرط لگادیا کہ جو ہارے گا وہ
ہم سب کو کچھ کھلائے گا۔ دو لوگ ہی کھیل رہے ہیں اور ہارنے والا سارے دوستوں کو
کھلائے گا تو کیا یہ جوا میں شمار ہوگا اور وہ چیز کھانی جائز ہے؟
جواب:جو سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کچھ لوگ روزانہ کھیل
کھیلتے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ یہ کھیل موبائل کا ہی ہوگا جس کی وضاحت سوال میں
نہیں کی گئی ہے جیسے کیرم بورڈ ، لڈو وغیرہ ۔
اس سوال کے تعلق سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایسا کھیل
جس میں کوئی فائدہ نہیں بلکہ وقت گزاری کے لیے کھیلا جا رہا ہے، اس کا شمار لایعنی
کاموں میں ہوگا اگرچہ اس میں جوا شامل نہ ہو اور اگر اس میں جوا بھی شامل ہو تو یہ
سراسر حرام ہے لہذا ایسے لایعنی کھیلوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ چند لوگوں کا شرط کے ساتھ کھیلنا کہ
ہارنے والا سب کو کھانا کھلائے گا، یہ جوا کی شکل ہے۔ جوا میں بھی یہی ہوتا ہے کہ
جو ہارتا ہے وہ نقصان اٹھاتا ہے۔
ایسی شرط کے ساتھ کھیلنا حرام کھیل مانا جائے گا اور اس
طرح کا کھانا، کھلانا بھی غلط ہے اور کھانا بھی غلط ہے۔
سوال: گھٹنے کا ریپلیس آپریشن میں ہڈی کا
کچھ حصہ کاٹ کر ہٹا دیا جاتا ہے تو کیا اسے دفن کردینا چاہئے؟
جواب:اگر آپریشن میں جسم کا کوئی حصہ کاٹنا پڑے تو اسے
کپڑے میں لپیٹ کر قبرستان میں دفن کر دینا چاہیے۔ اس کو غسل دینے یا اس کے لیے
جنازہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، بس کپڑے میں لپیٹ کر اسے دفن کر دیا جائے۔
سوال: شادی میں مہندی کی وجہ سے اکثر
خواتین تیمم کرکے نماز پڑھتی ہیں، کیا یہ جائز ہے اور اس طرح نماز ہوجائے گی؟
جواب:تیمم کرنے کی دو حالتیں ہیں۔
پہلی حالت یہ ہے کہ جب پانی موجود نہ ہو اس وقت تیمم
کرنا جائز ہے۔ اور دوسری حالت یہ ہے کہ جب پانی موجود ہو اور اس کے استعمال سے
خطرہ لاحق ہو اس وقت تیمم جائز ہے۔
ان دو صورتوں کے علاوہ تیمم کرنا جائز نہیں ہے۔
جو دلہن اپنے ہاتھوں اور پیروں پر مہندی لگائی ہے اس کے
لیے پانی کا استعمال مضر نہیں ہے لہذا دلہن کے لیے تیمم کرکے نماز جائز نہیں ہے
اور اگر وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے تو اس کی نماز نہیں ہوگی۔ نماز کے لیے لازما وضو
کرنا پڑے گا۔
سوال: زیرناف بالوں کی صفائی کتنے دن بعد
کرنی چاہئے ، سنا ہے کہ ہے کہ چالیس دن گزرجانے پہ عورت گنہگار ہوجاتی ہے؟
جواب:زیر ناف بالوں کی صفائی فطری سنتوں میں سے ہے اور
ان بالوں کو چالیس دن کے اندر ہرحال میں ایک مرتبہ ضرور صاف کر لینا چاہیے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے
کہا:
وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ
الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ
أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۔
ترجمہ: ہمارے لیے مونچھیں کترنے، ناخن تراشنے، بغل کے
بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے لیے وقت مقرر کر دیا گیا کہ ہم ان کو چالیس
دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (صحيح مسلم:599)
اس حدیث سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ چالیس دن کے اندر
زیرناف کی صفائی کرنا ضروری ہے، ورنہ آدمی گنہگار ہوگا۔
ہاں اگر کسی عذر کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوگئی ہو تو اس
میں گناہ نہیں ہے جیسے کوئی بیمار ہو اور اس کی صفائی کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو یا
بھول کر ایسا ہوجائے۔ جان بوجھ کر اور قدرت رکھتے ہوئے چالیس دن کے اندر زیر ناف
کی صفائی نہ کرنا گناہ کا باعث ہے۔
سوال: ایک خاتون پوچھتی ہے کہ ہمارا ایک
گروپ ہے جس سے ہم لوگوں کی مدد کرتے ہیں پیسوں کے ذریعہ۔ اس میں کبھی ایک ضرورت
مند کے لئے کچھ رقم منگواتے ہیں لیکن کبھی زیادہ رقم آجاتی ہے جتنا اپیل کی گئی
تھی اس سے زیادہ تو ایسے میں اس زائد رقم کو اسی ضرورت مند کو دینا چاہئے یا کسی
اور ضرورت مند کو دے سکتے ہیں؟
جواب:جب لوگوں کے تعاون کے لئے آپ نے تنظیم بنائی ہے تو
اس تنظیم میں جو بھی پیسہ آتا ہے اسے لوگوں کے تعاون میں کہیں بھی لگاسکتے ہیں۔
صرف ایک آدمی کے تعاون کے لئے تو تنظیم نہیں بنی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ
ضرورت مندوں کا نام لے کر یا ان کی ضرورت بتاکر لوگوں سے صدقہ وصول کیا جائے مگر
اس تنظیم میں جو بھی پیسہ آئے اسے تمام قسم کے ضرورت مندوں پر صرف کرسکتے ہیں
کیونکہ یہ تنظیم ہے، یہ صرف ایک آدمی کے تعاون کے لئے نہیں بنی ہے۔ تنظیم میں جمع
ہونے والا پیسہ اس ضرورت مند کے لئے ہے جس کے نام سے اعلان ہوا ہے اور بچ جائے تو
دوسرے پر بھی صرف کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی قید لگاکر کہے کہ میرا پیسہ فلاں مریض پر
ہی لگانا ہے تو اس کے پیسے کو اسی طرح استعمال کریں، اس وقت زیادہ ہوجانے پر دینے
والے کو اطلاع کریں اور اس کی اجازت سے کہیں صرف کریں، ورنہ عام انداز میں آنے
والا پیسہ سماج کے ضرورت مندوں پر لوگوں کی ضرورت کے حساب سے صرف کریں۔
سوال: آج عورتوں میں رجحان ہے کہ ان کا
شوہر کسی جگہ نوکری کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک دیڑھ گھنٹے کی فلائٹ ہو ، ایک
جگہ سے گھر والے بٹھادیتے ہیں اور آگے اس کا شوہر ریسیو کرلیتا ہے۔ یہ صحیح طریقہ
ہے یا عورت اکیلے سفر کرسکتی ہے اس بارے میں محرم کا کیا مسئلہ ہے؟
جواب:اسی کلو میٹر یا اس سے زیادہ کا عورت کہیں بھی سفر
کرے، بغیر محرم کے اس کے لئے سفر کرنا جائز نہیں ہے خواہ بس، ٹرین ، جہاز یا پیدل
سفر کرے۔ سفر میں جاتے ہوئے اور آتے ہوئے دونوں طرف عورت کے ساتھ اس کا محرم رہے
یعنی ساتھ میں محرم ہونا ضروری ہے۔ ایک طرف گھر والے عورت کو سواری پر سوار کرا دے
اور دوسری طرف محرم لینے آجائے یہ طریقہ درست نہیں ہے کیونکہ اس میں سفر کے دوران
محرم موجود نہیں ہے۔
سوال: ہمارے گھر ایک دو ہفتے بعد دیوالی
کی مٹھائی آتی ہے، کیا وہ مٹھائی کھاسکتے ہیں اگر منع کیا جائے تو اس کو برا لگے
گا؟
جواب:دیوالی کی مناسب سے اس کی مٹھائی دیوالی کے دن پیش
کرے یا کچھ دنوں کے بعد پیش کرے، اس مٹھائی کی جو نسبت ہے اس نسبت کی وجہ سے یہ
لینا جائز نہیں ہے۔ یہ غیراللہ کی عبادت میں مشارکت اور اس پہ تعاون جیسا ہے اور
اللہ تعالی نے ہمیں ظلم و گناہ کے کام پہ تعاون کرنے سے منع کیا ہے۔
اگر آپ ہندو کو گائے کا گوشت دیں گے تو کیا وہ اسے قبول
کرے گا، ہرگز قبول نہیں کرے گا کیونکہ وہ گائے کو پوجتا ہے۔ جب وہ اپنے دین کے لئے
سخت ہے، وہ یہ نہیں سوچے گا کہ آپ کو برا لگتا ہے تو پھر عبادت کے معاملہ میں آپ
کیوں اس کی فکر کررہے ہیں کہ اس کو برا لگے گا۔
سوال: کیا بچے کی پیدائش کے ساتویں دن بال
اتروانا سنت ہے اور بچے کے بالوں کے ہم وزن چاندی دینا درست ہے اور کیا یہ لڑکا اور
لڑکی دونوں کے لئے ہیں يا صرف لڑکے کے بال اتروائے جائیں؟
جواب:بچے کی پیدائش کے ساتویں دن اس کا بال منڈوانا سنت
ہے، یہ لڑکا اور لڑکی دونوں کے لئے ہے اور بال کے وزن برابر چاندی صدقہ دینا ہے،
یہ بھی لڑکا اور لڑکی دونوں کے لئے ہے۔
سوال: اگر لڑکی کی طرف سے بارات کی دعوت
ہو اور حرام کام جیسے رقص، موسیقی اور اختلاط وغیرہ نہ ہو تو کیا اس میں جاسکتے
ہیں؟
جواب:ویسے اسلام میں بارات کی دعوت کا تصور نہیں ہے، یہ
دعوت سماج نے اپنی طرف سے ایجاد کیا ہے۔ ہماری کوشش تو یہی ہو کہ اس قسم کی دعوت
کا سماج سے خاتمہ ہوجائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی نے بارات کی دعوت دی
ہے اور اس میں منکرات نہیں ہیں اور عورت و مرد کا اختلاط بھی نہیں ہے تو بادل
نخاستہ اس میں شریک ہوجائیں۔
سوال: ایک خاتون کو مہر میں فون دیا
جارہا ہے جو تقریبا پچپن ہزار کا ہوگا اور یہ ای ایم آئی پر ہے جس میں شاید سود
بھی ہوتا ہے تو کیا یہ لینا جائز ہے؟
جواب:آپ اس بہن کو یا اس کے ذمہ دار کو بتائیں کہ ای
ایم آئی پر موبائل لینے میں سودی معاملہ میں ملوث ہوں گے اور گنہگار ٹھہریں گے اس
لئے ایسا کام نہ کرے۔ لڑکے کی جو حیثیت سے اس اعتبار سے نقد مہر ادا کرے یا مہر طے
کرکے بعد میں دیدے، یہ بہتر ہے۔ مہر میں موبائل دینا ویسے بھی درست نہیں ہے، یہ
ایک مشینری چیز ہے جو کبھی بھی خراب ہوسکتی ہے، نیز اس کا فتنہ الگ ہے۔ بہتر ہے
مہر میں قیمت بننے والی چیز دے جیسے نقد یا سونے چاندی وغیرہ تاکہ عورت کبھی بھی
اس سے اپنی ضرورت کی چیز لے سکے۔
سوال: ہمیں یہ پتہ ہے کہ سجدے میں دعا
صرف نماز کے اندر ہی کرنی چاہیے۔ نماز کے باہر سجدے میں دعا کی کوئی دلیل نہیں
ملتی ہے لیکن نماز نبوی میں لکھا ہے کہ نماز کے باہر سجدے میں دعا کرسکتے ہیں۔ خاص
طور پر یہ سوال اس لئے بھی کیا کہ یہ طریقہ بہت عام ہے ، نماز کے بعد اب لوگو نے
سلام پھیرنے کے بعد سجدے میں دعا کا طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس حدیث کی بنا پر
کہ سجدے میں دعا قبول ہوتی ہے۔ کیا نماز کے بغیر بھی نماز سے باہر سلام پھیرنے کے
بعد سجدے میں دعا کی کوئی دلیل موجود ہے؟
جواب: صرف سجدہ کرکے دعا مانگنا کسی دلیل سے ثابت نہیں
ہے، کتاب میں کوئی دلیل نہیں دی گئی ہے اور سجدہ میں دعا قبول ہوتی ہے یہ حدیث بھی
اس بارے میں دلیل نہیں بن سکتی ہے۔ آپ اس مسئلہ کو سمجھ گئے ہیں تو اس پر عمل
کریں، دوسروں کو غلط کرتے دیکھیں، تو اس کو سمجھادیں، آپ کی بات مان جائے تو ٹھیک
، نہ مانے تو اس سے زیادہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے یعنی حق بتانا آپ کی ذمہ داری
ہے، اپنی بات منوانا ذمہ داری نہیں ہے۔
سوال:دوران حیض کچھ گھنٹوں کے لئے خون رک
جائے پھر دوبارہ ہلکا پھلکا مختلف رنگت کا جاری ہو جبکہ حیض کے شروع میں بھی مختلف
رنگت اور شکل ہوتی ہے تو ایسے میں یہ فرق نہیں ہوپاتا کہ کب سے غسل اور نماز شروع
کریں۔ اس وجہ سے مزید ایک دو دن پورا ٹرانسپیرنٹ ہونے تک رکناپڑتا ہے پھر ان دنوں
کی قضانمازیں بھی ادا کرنی ہوتی ہے اس ڈر سے کہ کہیں گناہگار نہ ہوجائیں، کیا اس طرح
شک والی نمازیں ادا کرنا چاہئے یا اللہ تعالی معاف فرمادے گا؟
جواب:حیض آتے ہوئے آخر میں کچھ دیر کے لئے رک جائے پھر
ایک یا دو تک دن خون آئے خواہ ہلکا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ حیض ہی مانا جائے گا۔ اصل
میں کچھ دیر کے لئے آپ کو لگا حیض بند ہوگیا مگر حیض کی حالت باقی رہتی ہے۔ حیض
میں کوئی ضروری نہیں کہ خون نیچے گرے، اندرونی مقام میں حیض کی ہیئت باقی رہنا حیض
ہی ہے۔ اس لئے جب حیض سے پاکی ہو تو اندرونی مقام کو روئی کے ذریعہ چیک کرنا چاہئے
کہ یہ حصہ بالکل خشک ہوگیا ہے تب غسل کرنا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نماز کے معاملہ میں شک نہیں کرنا
ہے، بالکل یقین سے پڑھنا ہےنیز اس بات کا یقین کرکے کہ حیض ختم ہوگیا ہے غسل طہارت
کے بعد نماز کی پابندی کریں۔ حیض کے دنوں کی نماز قضا نہیں کرنا ہے۔
سوال: گھر میں جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے
میت کا منہ قبلہ طرف نہ ہوسکے تو سر قبلہ کی طرف کر سکتے ہیں یا منہ ہی قبلہ طرف
کرنا چاہیے؟
جواب: وفات کے بعد میت کا چہرہ قبلہ رخ کر دینا چاہیے
لیکن جس جگہ میت ہو وہاں پر قبلہ رخ کرنے کی گنجائش نہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں، اسے
اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ کوئی واجبی حکم نہیں ہے۔ اصل چہرہ قبلہ کی
طرف ہو، دقت کی وجہ سے چہرہ قبلہ رخ نہ ہوسکے تو سر قبلہ کی طرف کرنے کی ضرورت
نہیں ہے۔
ہاں جب اسے دفن کیا جائے گا تو اسے قبلہ رخ دفن کیا
جائے گا۔
سوال: میرے مامو جن کا ابھی انتقال ہوگیا
ہے ان کا ایک بیٹا ہے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ان کا ایک گھر ہے جو بہت ہی اونچا ہے
یعنی چھٹی منزل پر اور اس کا دام بہت ہی کم آرہا ہے اور برابر اس سے پیسے بھی نہیں
آرہے ہیں۔ اس وجہ سے بچے یہ چاہ رہے ہیں کہ اس گھر کو نہ بیچیں بلکہ کرائے پر
دیدیں اور جب ایک ایک سال کا کرایہ جمع ہوجائے تو ہم آپس میں تقسیم کرلیں تو کیا
ان کا یہ طریقہ درست ہے؟
جواب: گھر چھوٹا یا کم ہو تو عام طور سے اسے بیچ کر ہی
اس کا پیسہ وارثوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور جس گھر کے تقسیم کی بات آپ کر رہے
ہیں، اگر بروقت بیچنے میں فائدہ نہ ہو یا نہ بک رہا ہو تو مصلحت کے تئیں کچھ تاخیر
سے بیچ سکتے ہیں مگر اس طرح اس مکان کو بغیر تقسیم کئے چھوڑے رکھنا مناسب نہیں ہے۔
نیت یہ ہو کہ جیسے ہی کوئی مناسب خریدار ملے گا اسے بیچ دیا جائے گا۔ سالوں سال
رکھ کر اس کا کرایہ کھانا اور اسے تقسیم نہ کرنا غلط ہوگا۔
ہر کوئی اسے بیچنے کی بھی کوشش کرتا رہے اور جب موقع
ملے بیچ دیا جائے تاہم جب تک نہیں بکتا ہے اس کا کرایہ آپس میں تقسیم کر لیا کریں۔
سوال: ایک جینیکولوجسٹ ڈاکٹر کے لیے
مسئلہ کا حل کیا ہوگا، اسے مریض کے پرائیویٹ ایریا میں انفیکشن اور دوسری وجوہات
کی بنا پر دیکھنا اور چھونا ضروری ہوتا ہے ایسی صورت میں کیا وضو ٹوٹ جائے گا اور
دوبارہ وضو کرکے نماز پڑھنا ہوگا؟
جواب: بغیر پردہ کے اگلی شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو
ٹوٹ جاتا ہے لہذا ڈاکٹر کا ہاتھ بغیر پردہ کے مریض کی شرم گاہ سے مس ہوجائے تو اس
کا وضو ٹوٹ جائے گا لیکن اگر ہاتھ پہ دستانہ ہو یا کپڑے کے اوپر سے ہاتھ مس کرے تو
وضو نہیں ٹوٹے گا۔
سوال: ایک خاتون کی خواہش ہے کہ وہ ایک
یتیم لڑکی کو اڈاپٹ کرے اور اپنا دودھ پلاکر بیٹے اور شوہر کے لئے محرم بنالے۔ وہ
اجر کی نیت سے ایسا کرنا چاہتی ہے اور اپنے بچوں کے برابر اس کی بھی پرورش کرنے کی
نیت ہے۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہوگا؟
جواب: اس میں شرعا کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن یہاں
پر رضاعت کا مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ رضاعت دو شرطوں کے ساتھ ثابت ہوتی ہے۔
پہلی شرط یہ ہے کہ بچہ دو سال کے اندر کا ہو اور دوسری
شرط یہ ہے کہ بچے کو کم از کم پانچ مرتبہ پیٹ بھر کر دودھ پلایا جائے۔
جب یہ دو شرطیں پائی جائیں گی تب ہی رضاعت ثابت ہوگی
ورنہ رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔
سوال: علائینہ نام رکھنا کیسا ہے؟
جواب: علائینہ لفظ مجھے کسی ڈکشنری میں نہیں ملا اور
میرے علم کے مطابق یہ کوئی صحیح لفظ نہیں ہے۔لوگوں نے انٹرنیٹ پہ علینا یا علینہ
بھی کافی مشہور کر رکھا ہے، یہ بھی نام رکھنے کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔
سوال: روزہ قضا کا جو فدیہ دیتے ہیں یعنی
فقیرو مسکین کو کھانا دیتے ہیں، اگر فیملی بھی ساتھ کھائے گی تو کیا وہ بھی روزہ
کا فدیہ گنا جائے گا؟
جواب: جو لوگ روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں جیسے معمر اور
معذور لوگ، ان کے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔
ایک روزہ کا فدیہ تقریبا ڈیڑھ کلو اناج ہے، اس حساب سے
روزہ کے بدلے فدیہ نکالنا ہے اور یہ فدیہ مستحق فیملی کو آپ دے دیں، اس فیملی میں
جو کھائے گا اس سے دینے والے کو کوئی غرض نہیں ہے۔ دینے والا بس مسکین فیملی کو یا
مسکین آدمی کو فدیہ دے دے، اب وہ خود کھائے یا کسی اور کو کھلائے اس سے کوئی غرض
نہیں ہے۔
اگر سوال کا یہ مقصد ہے کہ مسکین کے ساتھ بیٹھ کر فدیہ
دینے والا یا اس کے گھر کے افراد کھائیں تو گھر کے لوگوں کا کھانا فدیہ نہیں ہوگا،
صرف مسکین کا کھانا فدیہ ہوگا۔
سوال: کیا کسی غریب عیسائی کو اس نیت سے
رقم دینا کہ وہ کرسمس منائے اور اپنے بچوں کے لئے کپڑے خرید لے، جائز ہے؟
جواب: کسی غریب عیسائی کا اس نیت سے تعاون کرنا کہ وہ
اس پیسے سے کرسمس منائے اور اپنے بچوں کو کپڑا خریدے ، جائز نہیں ہے کیونکہ یہ
گناہ کے کام پر تعاون ہے اور اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ظلم و گناہ کے کام
پر ایک دوسرے کا تعاون نہ کریں۔
سوال: کیا ایک اہل حدیث شخص مشرک کی نماز
جنازہ پڑھے گا جبکہ وہ اپنا بھائی بہن وغیرہ ہو؟
جواب: کوئی اہل حدیث یا کوئی مسلمان کسی مشرک کے لیے
نماز جنازہ نہیں پڑھے گا کیونکہ مشرک کے لیے مغفرت نہیں ہے اور جنازے کی نماز اصل
میں مغفرت کے لیے ہی پڑھی جاتی ہے۔
تاہم اس جگہ پر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر
کوئی کلمہ گو شرک کرتا ہے تو اسے فورا مشرک نہیں کہا جائے گا بلکہ اس پر اصل توحید
پیش کی جائے گی اور شرک سے خبردار کرکے شرک سے منع کیا جائے گا۔ حق پیش کرنے کے
باوجود وہ شرک اکبر پر مصر رہے پھر وہ مشرک اور مرتد قرار پائے گا۔
سوال:لوگوں کو ایمان مجمل اور ایمان مفصل
بتایا جاتا ہے اس کی کیا حقیقت ہے، کیا یہ دونوں سنت سے ثابت ہیں؟
جواب: ایمان کی اس طرح دو تقسیم ایمان مجمل اور ایمان
مفصل قرآن یا حدیث کہیں پر موجود نہیں ہے یعنی اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ لوگوں
نے اپنی طرف سے ایجاد کیا ہے اور یہ ہندو پاک میں بچے بچے کو رٹایا جاتا ہے۔
آپ غور کریں تو ایمان مجمل میں نقص نظر آئے گا۔ ایمان
مجمل میں صرف اللہ پر لانا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ایمان میں چھ ارکان شامل ہیں اس
وجہ سے یہ تعریف درست نہیں ہے۔
ایمان کو اہل سنت والجماعت یا سلفی علماء نے جس طرح
متعارف کرایا ہے اس طرح جاننا چاہیے۔
ایمان کی لغوی تعریف کے ساتھ ایک شرعی تعریف ہے اور پھر
ایمان کے چھ ارکان کی مکمل تفصیل ہے۔
اہلِ علم ایمان کی تعریف کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
اَلْإِیمَانُ لَہٗ خَمْسَۃُ أَرْکَانٍ: اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ
بِالْجِنَانِ وَعَمَلٌ بِالْأَرْکَانِ یَزِیْدُ بِطَاعَۃِ الرَّحْمٰنِ وَیَنْقُصُ
بِطَاعَۃِ أَبِی مُرَّۃِ الشَّیْطَانِ۔
"ایمان کی تعریف کے پانچ ارکان ہیں: زبان سے اقرار
کرنا۔ دِل سے تصدیق کرنا۔ جوارح (یعنی اعضاء) کے ساتھ عمل کرنا۔ ایمان رحمن کی
اطاعت سے بڑھتا ہے۔ اور شیطان کی اطاعت سے کم ہوتا ہے"۔
سوال: قیام اللیل کی نماز کس وقت پڑھی
سکتی ہے اور اگر کوئی عورت عشاء میں تاخیر کرنا چاہے تو کیا فجر کی اذان سے پہلے
پڑھ سکتی ہے؟
جواب: عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہوتا ہے، ایک
عورت عشاء کی نماز کو آدھی رات تک مؤخر کرسکتی ہے لیکن آدھی رات کے بعد تک عشاء کی
نماز مؤخر نہیں کرے گی بلکہ اس سے پہلے پہلے ادا کرلے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ قیام اللیل کا وقت عشاء کی نماز کے
بعد سے شروع ہو جاتا ہے اور فجر سے پہلے تک رہتا ہے اس دوران آپ کبھی بھی قیام
کرسکتے ہیں۔
کوئی چاہے تو رات کے آخری حصے میں بھی قیام کرسکتا ہے
جیساکہ آپ فجر کی اذان سے پہلے یعنی فجر کا وقت داخل ہونے سے پہلے پہلے قیام اللیل
کرسکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے۔
سوال: کیا والد کے سوتیلے بھائی، بیٹیوں
کے لیے محرم ہوتے ہیں یعنی سگے چچا جیسے۔ اور اسی طرح والد کی سوتیلی بہن، والد کے
لیے محرم بن جاتی ہے اور لڑکوں کے لیے سگی پھوپھی جیسی بن جاتی ہے؟
جواب: سوتیلے بہن بھائی جن کے ماں باپ الگ الگ ہوں، یہ
آپس میں غیرمحرم ہیں لہذا باپ کا سوتیلا بھائی، سوتیلا چچا ہے جو بیٹی کے لئے
غیرمحرم ہے۔
اسی طرح باپ کی سوتیلی بہن، سوتیلی پھوپھی ہے، یہ بیٹوں
کے لیے غیرمحرم ہے۔ یہاں پر سوتیلا سوتیلا ہی رہتا ہے وہ سگا نہیں ہوتا۔

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔