Monday, November 17, 2025

سفر کی مسافت اور اس کی مدت کی تحدید

 سفر کی مسافت اور اس کی مدت کی تحدید

تحریر:مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر۔ حی السلامہ- سعودی عرب


سفر سے متعلق یہ ایک اہم اور کافی اختلافی مسئلہ ہے کہ کتنی مسافت(دوری) کاقصد کریں گے تو اس پر سفر کا اطلاق ہوگا۔ چنانچہ اس سلسلے میں مختلف قسم کی احادیث ملتی ہیں ، بایں سبب اہل علم کے درمیان اس بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اختلافی باتوں کودرکنار کرتے ہوئے مسئلہ کو سمجھنے کی غرض سے اس بابت اہم بات پر توجہ دیتے ہیں تو معاملہ آسان نظر آتا ہے۔

صحیح مسلم ، کتاب الحج میں "باب سَفَرِ الْمَرْأَةِ مَعَ مَحْرَمٍ إِلَى حَجٍّ وَغَيْرِهِ"(باب: عورت کو محرم کے ساتھ حج وغیرہ کا سفر کرنے کا بیان) کے تحت مختلف قسم کی احادیث مروی ہیں کہ کوئی عورت بغیر محرم کے کتنے دنوں کا سفر نہ کرے، اس بارے میں تین دن سے زیادہ والی بھی حدیث ہے، تین دن بھی اور دو دن بھی مذکور ہے اور کم ازکم ایک دن سے متعلق بھی حدیث ہے۔ دراصل ہمیں یہی دیکھنا ہے کہ کم ازکم کتنے دن کاقصد کرنا سفر کہلاتا ہے چنانچہ اس بارے میں، میں نے صحیح مسلم کے حوالہ سے بتایاکہ مختلف قسم کی احادیث ہیں ، ان میں کم ازکم ایک دن والی بھی حدیث ہے۔میں یہاں زیادہ دنوں والی احادیث ذکر نہیں کررہا ہوں ، بلکہ سفر سے متعلق کم ازکم ایک دن والی احادیث ذکر کرنے پر اکتفا کررہاہوں ۔ آئیے اس بارے میں چند احادیث دیکھیں۔


(1)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ(صحیح البخاری:1088)

ترجمہ: کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔

(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ لَيْلَةٍ، إِلَّا وَمَعَهَا رَجُلٌ ذُو حُرْمَةٍ مِنْهَا(صحیح مسلم:1339)

ترجمہ:کسی مسلما ن عورت کے لیے حلال نہیں وہ ایک رات کی مسافت طے کرے مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ ایسا آدمی ہو جو اس کا محرم ہو۔

(3)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ(صحیح مسلم:1339)

ترجمہ:کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے حلال نہیں کہ وہ ایک دن کی مسافت طے کرے مگر یہ کہ محرم کے ساتھ ہو۔

(4)ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَاحِدٍ، لَيْسَ لَهَا ذُو حُرْمَةٍ(سنن ابن ماجه:2899، صححہ البانی)

ترجمہ:کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، یہ درست نہیں ہے کہ وہ ایک دن کی مسافت کا سفر کرے، اور اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔

ان چاروں احادیث پہ غور فرمائیں تو معلوم ہوگا کہ سفر کے لئے کم ازکم ایک دن کا اعتبار کیا گیا ہے، اسی بات کو کہیں پرایک دن اور ایک رات کہا گیا ہے، کہیں پرایک رات کہاگیا ہے، کہیں پر ایک دن کہاگیا ہے اور کہیں پر وضاحت کے ساتھ "یوم واحد" (ایک دن) کا لفظ آیا ہے ، یہ ایک دن چوگھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے۔

مسافت سفر سے متعلق ایک دن والی بات نبی ﷺ سے منقول ہے، اب اس ایک دن کی مزید وضاحت دیکھتے ہیں چنانچہ امام بخاری ؒ نے كِتَاب تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ(نماز میں قصر کرنے کا بیان) میں " بَابٌ في كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ" (نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے) کے تحت جو ذکر کیا ہے اسے بھی پڑھیں۔

"وَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَلَيْلَةً سَفَرًا، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يَقْصُرَانِ وَيُفْطِرَانِ فِي أَرْبَعَةِ بُرُدٍ وَهِيَ سِتَّةَ عَشَرَ فَرْسَخًا"

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اور ایک رات کی مسافت کو بھی سفر کہا ہے اور عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم چار برد (تقریباً اڑتالیس میل کی مسافت)

پر قصر کرتے اور روزہ بھی افطار کرتے تھے۔ چار برد میں سولہ فرسخ ہوتے ہیں (اور ایک فرسخ میں تین میل)۔

مذکورہ بالا عبارت سے دو باتوں کا علم ہوا۔

پہلی بات یہ ہے کہ نبی ﷺ کم ازکم ایک دن کی مسافت کو سفر قرار دئے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ابن عمراور ابن عباس رضی اللہ عنہما چاربردکی مسافت پر قصر کرتے تھے ۔

بُرُد: برید کی جمع ہے، ایک برید چار فرسخ کا ہوتا ہے اور چاربریدسولہ فرسخ ہوا۔ ایک فرسخ ،تین میل ہوتا ہے اور سولہ فرسخ اڑتالیس میل ہوا۔ اسی اڑتالیس میل کو تقریبا اسی کلو کااعتبار کیا جاتا ہےکیونکہ ایک میل، انگریزی پیمائش کے اعتبار سے ایک اعشاریہ چھ ہوتا ہے اس حساب سے اڑتالیس میل ، چھہتراعشاریہ آٹھ کلومیٹر بنتا ہے ۔ بعض نے چار برد کو اٹھاسی کلو میٹر کہا ہے، انہوں نے میل کو شرعی مقدار (ایک میل برابر 1848 مٹر )سے حساب لگایا ہے۔

ایک امر کی وضاحت : اوپر بتایا گیا ہے کہ ایک بریدچار فرسخ کا ہوتا ہے، یہاں یہ بھی علم میں رہے کہ برید نصف یوم (آدھا دن) پر بھی بولا جاتا ہے اس اعتبار سے چار برد کا مطلب دو دن ہوگا یعنی سفر کی اقل مسافت دن کے اعتبار سے دودن ٹھہرے گی۔یہ اس وقت ممکن ہے جب سوارسامان لدے اونٹ پر یا پیدل عام چال میں سفرکرےاور رکتا ہوا جائے مگریہاںسوار کا تیزچلنامراد ہوگا، اس اعتبار سے چاربرد ایک کامل دن کے برابر مسافت معلوم ہوتی ہے۔ اس بات کی تائید ابن عمر رضی اللہ عنہماکے عمل سے بھی ہوتی ہے۔

عن سالِمِ بنِ عَبْدِ اللهِ: أنَّ عَبْدَ اللهِ بنَ عُمَرَ كانَ يَقصُرُ في مَسيرةِ اليَوْمِ التَّامِّ.

(الخلافيات للبيهقي:2634) اسے بیہقی اور شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے۔

ترجمہ:سالم بن عبداللہ نے کہا کہ ابن عمر ایک مکمل دن سفر کرنے پر قصر کرتے تھے۔

یہاں"الیوم التام" سے مراد پورے دن تیزی سے چلنا ہے۔

اسی طرح بیہقی (5465) میں ہے، عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:سُئِلَ بنُ عباسٍ : أَأقْصِرْ الصلاةَ إلى عَرَفَةَ ؟ فقالَ : لا. ولكنْ إلى عُسْفَانَ، وإلى جدَّةَ، وإلى الطائِفِ (المجموع للنووي:4/328)

ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ کیا عرفہ میں نماز قصر کی جائے گی تو انہوں نے کہا نہیں لیکن عسفان ، جدہ اور طائف میں قصر کرسکتے ہیں۔

مکہ سے عسفان، مکہ سے جدہ اور مکہ سے طائف کی دوری تقریبا برابر ہے یعنی اسی کلو میٹر کے قریب ، یہی بات امام مالک ؒ نے (موطا میں) کہی ہے کہ ان علاقوں (عسفان، جدہ اور طائف) کی مسافت مکہ سے چاربرد ہے۔ اور چار برد کی اوپر وضاحت ہوچکی ہے۔

مذکورہ بالا مرفوع احادیث اور آثار سلف، خصوصاابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے معلوم ہوتا ہے کہ کم ازکم جتنی مسافت پر قصر کیا جائے گا وہ ایک دن کی مسافت ہے ۔ اور کلو میٹر کے اعتبار سے تقریبا اسی کلو میٹر بنتا ہے۔

ایک امر کی وضاحت : ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا مسافت سے بھی کم پر قصر کرسکتے ہیں، وہ حدیث اس طرح سے ہے۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے بارے میں پوچھا گیاتو انہوں نے کہا:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا خَرَجَ مَسِيرَةَ ثَلَاثَةِ أَمْيَالٍ أَوْ ثَلَاثَةِ، فَرَاسِخَ شُعْبَةُ الشَّاكُّ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ"(صحيح مسلم:1583)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر نکلتے (مسافت کے بارے میں شک کرنے والے شعبہ ہیں) تو دو رکعت نماز پڑھتے۔

راوی کو تین میل یا تین فرسخ کے بارے میں شک ہواہے، اکثر کا رجحان تین فرسخ ہے کیونکہ اس میں تین میل بھی داخل ہوجاتا ہے۔ اور تین فرسخ نومیل ہوتا ہے اس لحاظ سےتقریبا چودہ کلو میٹر بنتا ہے۔

یہ بات یاد رکھیں کہ نبی ﷺ کے قصر والے جتنے اسفار ہیں سب لمبے لمبے اسفار ہیں خواہ جہاد کا سفر ہو، ہجرت کا سفر ہویاعمرہ اور حج کا سفر ہو۔ ان میں سے کوئی بھی تین میل یا تین فرسخ والا سفر نہیں ہے اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے جس سفر کے بارے میں یہ بات بتائی ہے دراصل یہ حجۃ الودواع کا موقع ہے، گویا آپ کے ایک لمبے سفر کا شروعاتی جزء ہے، یہ مکمل سفر نہیں ہے۔یہی وہ سفر ہے جس کی بابت دوسری جگہ یہی صحابی(راوی حدیث) انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

صَلَّيْتُ الظُّهْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ(صحيح البخاري: 1089)

ترجمہ:میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی۔

اس حدیث پر امام بخاری ؒ نے اس طرح باب باندھا ہے:"باب يقصر إذا خرج من موضعه"(باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے)۔ اس باب کو سامنے رکھ کر حدیث پہ غور کریں تو اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مسافر جب سفر کرنے لگے تو اپنی بستی سے نکل جائے پھر قصر کرنا شروع کرے یعنی وہ اپنی بستی سے ہی قصر نہیں کرے گا بلکہ بستی سے نکل کر قصر کرنا شروع کرے گا۔

اب مسئلہ واضح ہوگیا کہ تین میل یاتین فرسخ والی حدیث قصر کی مسافت کے لئے دلیل نہیں ہے بلکہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسافر ،سفر شروع کرتے وقت کس مقام سے قصر کرنا شروع کرے گا۔

کتنے دن قیام کی نیت ہو تو قصر کرے؟

سفر سے متعلق اب دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ مسافر کسی مقام کا سفر کرے وہاں کتنے دن قیام کی نیت ہو تو قصر کرے اور کب سے مکمل نماز ادا کرے؟

اس بابت رسول اللہ ﷺ کے بارے میں مختلف قسم کی احادیث منقول ہیں، ان میں سے چند احادیث کو دیکھتے ہیں ۔

(1)فتح مکہ کے موقع پر نبی ﷺ کتنے دن ٹھہرے اس بارے میں کئی قسم کی احادیث ملتی ہیں۔

ابن ماجہ(1076) میں ہے پندرہ دن ٹھہرے، ابوداؤد(1230) میں ہے سترہ دن ٹھہرے اور ابوداؤد(1229) میں ہے اٹھارہ دن ٹھہرے۔ یہ سب شاذ یا ضعیف روایات ہیں، اس بارے میں صحیح حدیث یہ ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا:

أَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةَ عَشَرَ يَقْصُرُ، فَنَحْنُ إِذَا سَافَرْنَا تِسْعَةَ عَشَرَ قَصَرْنَا وَإِنْ زِدْنَا أَتْمَمْنَا(صحيح البخاري:1080)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ میں فتح مکہ کے موقع پر) انیس دن ٹھہرے اور برابر قصر کرتے رہے۔ اس لیے انیس دن کے سفر میں ہم بھی قصر کرتے رہتے ہیں اور اس سے اگر زیادہ ہو جائے تو پوری نماز پڑھتے ہیں۔

(2)حجۃ الوداع کے موقع پر دس دن مکہ میں ٹھہرے اور قصر کرتے رہے، یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:

خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، قُلْتُ: أَقَمْتُمْ بِمَكَّةَ شَيْئًا؟ قَالَ: أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا" (صحيح البخاري:1081)

ترجمہ: ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم ﷺدو، دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا؟ تو اس کا جواب انس رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔

(3)تبوک کے موقع پر بیس دن قیام کے دوران، قصر کرتے رہے، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَبُوكَ عِشْرِينَ يَوْمًا يَقْصُرُ الصَّلَاةَ(سنن ابي داود:1235،صححہ البانی)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور نماز قصر کرتے رہے۔

مذکورہ بالا تینوں قسم کے اسفار میں فتح مکہ اور غزوہ تبوک ، یہ جہاد کا سفر ہے اور جہا د میں آدمی قیام کی نیت سے نہیں نکلتا ہے ، اس میں امن نہیں ہوتا اس وجہ سے ان احادیث سے قصر کی مدت کی دلیل نہیں لے سکتے ہیں البتہ یہاں سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ کہیں سفر میں تذتذب کی حالت ہو یعنی یہ معلوم نہ ہو کہ کب سفر سے لوٹنا ہے اور کب تک قیام ہےیا امن کی حالت نہ ہو، خوف کی حالت ہو تو ایسی صورت میں دس پندرہ دن بھی تذبذب میں گزر جائیں ، ان دنوں قصر کرسکتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کے اسفار میں حجۃ الوداع کا موقع امن کی حالت ہے، اس میں ہمارے لئے دلیل مل سکتی ہے۔ آئیے اس بارے میں دو روایات دیکھتے ہیں ۔

پہلی روایت امن سے متعلق: حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:

صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ أَكْثَرُ مَا كُنَّا قَطُّ، وَآمَنُهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ.(صحیح البخاری:1656)

ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منیٰ میں دو ہی رکعت (قصر) پڑھائی، ایک ایسے وقت میں جس میں کہ ہم لوگ سب سے زیادہ مامون و بےخوف تھے اور تعداد میں زیادہ تھے۔(یہ اللہ کی رخصت کو قبول کرنے کا معاملہ تھا، خوف، بدامنی یا جنگ کا معاملہ نہ تھا۔)
دوسری روایت مکہ آمد سے متعلق:ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:

قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صُبْحَ رَابِعَةٍ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ لَا يَخْلِطُهُمْ شَيْءٌ۔(صحيح البخاري:2505)

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز (عمرہ) نہ ملاتے ہوئے (مکہ میں) داخل ہوئے۔

آپ ﷺ کے حجۃ الوداع کے سفر کی تفصیل یہ ہے کہ آپ ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ مکرمہ پہنچے، یہاں چار دن قیام کیا اور قصر سے نماز پڑھتے رہے، پھر پانچویں دن یعنی آٹھ ذوالحجہ کو مکہ میں فجر کی نماز پڑھنے کے بعدمنی تشریف لے گئے ۔ چودہ ذوالحجہ کو آپ مدینہ واپس ہوگئے۔ مکہ میں دس دنوں کا قیام تھا، ان دس دنوں میں مستقل طور پر مکہ میں چار دن قیام رہا، بقیہ ایام میں منی، عرفات اور مزدلفہ وغیرہ منتقل ہوتے رہے ۔ اس سفرکے شروعاتی چارروزہ قیام سے جمہور علماء نے دلیل پکڑی ہے کہ اگر کوئی کسی جگہ پر چار دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے تو وہ مسافر کے حکم میں ہے اور وہ اپنی نمازیں قصر کے ساتھ ادا کرے گا لیکن جو کہیں چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ کرتا ہے وہ مقیم کے حکم میں ہے لہذا وہ پہلے دن سے ہی مکمل نماز ادا کرے گا۔

خلاصہ بحث اور نتیجہ :

٭مذکورہ بالابحث سے ایک مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی اسی کلو میٹر یا اس سے زیادہ کا سفر کرتا ہے تو اس پر مسافر کا اطلاق ہوگااور اسی کلو میٹر سے کم کا سفر کرے تووہ مسافر نہیں کہلائے گا۔ اور دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی کسی جگہ پر چار دن یا اس سے کم ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے تو مسافر کہلائے گا لیکن چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو وہ پہلے دن سے مقیم کہلائے گا۔

٭ یہ بات صحیح ہے کہ نبی ﷺ سے بالکل صراحت کے ساتھ اور صاف وشفاف انداز میں اس بات کی تحدید نہیں ہے کہ کم ازکم کتنی مسافت پرقصر کیا جائے اور کتنے دنوں کے قیام پر قصر کیا جائے گا تاہم آثار اور قرائن سے اس مسئلہ کو واضح کیا گیا ہے جس کا آپ نے سطور بالا میں مطالعہ کیاہے ۔

٭مسافت قصر اور مدت قصر کے بارے میں بہت سارے اہل علم اس جانب گئے ہیں کہ ہرسفر میں قصر کرنا چاہئے جسے عرف میں سفر کہاجاتا ہے اور اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اس مسئلہ میں ایک دقت ہے کہ عرفی سفر کا کس بات پر اطلاق ہوگا ، کتنی دور سفر کرنے پر عرف کا اطلاق ہوگا اور کب تک قیام کرنے کو عرفی سفر مانا جائے گا، یہ باتیں عوام کی سمجھ سے باہر ہیں لہذا ان کو معقول وسہل پیمانہ دینا پڑے گا ۔ نیز آج کا سفر کافی سہولت والا ہے، مشقت محسوس ہی نہیں ہوتی ، کتنے لوگ آج بڑی آسانی اور بغیرمشقت کے سو، دو سو کلو میٹر روزانہ نوکری کرنے جاتے ہیں اور گھرواپس آجاتے ہیں ۔ کل زمانے کی سہولت اور بڑھ جائے گی پھر عرفی سفر کا معیار کیا ہوگا، طے کرنا ذرا مشکل ہے اس وجہ سے سطور بالا میں درج مسائل عوام کے لئے قابل اطمینان ہیں۔

٭ایک آخری اور اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی حالت سفر میں ہوتے ہوئے بھی سہولت وآسانی میسر ہونے پر قصر کی بجائے مکمل نماز پڑھ لیتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور عثمان رضی اللہ عنہ سفر میں بھی مکمل نماز پڑھتے تھے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا:

الصَّلَاةُ أَوَّلُ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَيْنِ، فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ"، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ لِعُرْوَةَ: مَا بَالُ عَائِشَةَ تُتِمُّ، قَالَ: تَأَوَّلَتْ مَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ(صحيح البخاري:1090)

ترجمہ: پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تو اپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری (چار رکعت) کر دی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔

گوکہ سفرمیں سہولت کے سبب مکمل نماز پڑھنا جائز ہے تاہم افضل قصر کرنا ہی ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔