Sunday, October 19, 2025

توحید کی لفظی و اصطلاحی تعریف اور اس کے اقسام

توحید کی لفظی و اصطلاحی تعریف اور اس کے اقسام

تحریر: مقبول احمد سلفی / جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

 

توحید کی لفظی تعریف:

توحید لغت میں: وحَّد، يوحِّدسے توحيدًامصدر ہے، اس کا معنی ہے کسی چیز کو ایک ماننا اور اس کو منفرد و یکتا قرار دینا۔اس کے دیگر مشتقات میں واحد، احد اور وحید بھی آتے ہیں جو منفرد و یکتا کے معنی میں ہے۔

توحید کی شرعی تعریف:

توحید کی مختلف الفاظ میں اہل علم سے متعدد تعریفات منقول ہیں ان میں سب سے جامع و مانع یہ تعریف ہے۔اس تعریف کو حافظ ابن القیم ، شیخ ابن عثیمین اور دیگر اہل علم نے بھی نقل کیا ہے۔

"إفرادُ اللهِ سُبحانَه بما يختصُّ به من الرُّبوبيَّةِ والألوهيَّةِ والأسماءِ والصِّفاتِ"۔یعنی اللہ تعالى كو اس کی ربوبيت(متصرف الامورہونے)، اس کی الوہیت(عبادت وبندگی) اور اس کے اسماء و صفات ميں اسے يكتا و اكيلا ماننا ہے۔

توحید کے معنی پر دلیل: توحید کا جو معنی بیان کیا گیا ہےاس کے لئے ایک تو لغت کی کتاب دیکھی جاسکتی ہے نیز شرعی معنی ومفہوم کے لئے کتاب وسنت میں بے شمار دلائل ہیں چنانچہ قرآن وحدیث سے چند دلائل پیش کرتا ہوں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ(ص:5)

ترجمہ:کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کردیا واقعی یہ بہت ہی عجیب بات ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِن لَّمْ يَنتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (المائدۃ:73)

ترجمہ:وہ لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔

ان دونوں آیات میں واحد کا لفظ ہے جو حقیقی معبود کے لئے بیان کیا گیا ہے، اسی واحد سے توحید بھی  ہے۔ ابن فارس لفظ وحد کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

"الواو والحاء والدال: أصل واحد يدل على الانفراد"(معجم مقاييس اللغةص: 1084)

وادحاء دال ، یہ واحد کی اصل ہے جو منفرد ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

توحید کا معنی اور اس کی حقیقت سمجھنا ہو تو سورہ اخلاص کا مطالعہ کریں، اس سورت کو توحید والی سورت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں خالص توحید کا بیان ہے اور کلمہ توحید کے اظہار کے لئے وہاں "احد" کا استعمال ہوا ہے یعنی اللہ یکتا اور اکیلا ہے۔

نبی ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ تم اہل کتاب کی طرف جارہے ہو، ان کو سب سے پہلے توحید کی دعوت دینا ۔ صحیح بخاری(7372) میں مروی آپ ﷺ کے الفاظ یوں ہیں:

فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ تَعَالَى(سب سے پہلے انہیں توحید کی دعوت دینا یعنی ان سے سب سے پہلے اس بات کا اقرار کروانا کہ اللہ ایک ہے)۔
اس حدیث میں لفظ توحید نہیں بلکہ توحید کے اصل معنی کا بیان ہے جس سے توحید کے معنی کی بخوبی صراحت ہوجاتی ہے۔ ٹھیک اسی انداز میں ارکان اسلام سے متعلق صحیح مسلم(16) کی حدیث میں توحید اور اس کے معنی کی صراحت آئی ہوئی ہے۔ نبی ﷺ ارکان اسلام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
بُنِيَ الإسْلامُ علَى خَمْسَةٍ: علَى أنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ یعنی ارکان کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے، ان میں پہلا رکن یہ ہے کہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے۔

ان چند دلائل سے توحید کا معنی واضح ہوجاتا ہے اور تفصیل کے لئے تو پورا قرآن ہے جس میں ایک تہائی توحید کا ہی بیان ہے۔

شرک کا معنی ومفہوم:

توحید کی تعریف کے ساتھ شرک کو جاننا ضروری ہے تاکہ پوری طرح توحید کو جانا جاسکے۔ شرک کی اصطلاحی تعریف ٹھیک توحید کے برخلاف ہے کیونکہ شرک توحید کی ضد ہے۔ اس بنا پر شرک  کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے لئے اس کی ربوبیت میں ، اس کی الوہیت میں اور اس کے اسماء وصفات میں کسی کو شریک کرنا۔ربوبیت میں شرک جیسےاللہ کے علاوہ غیراللہ کو داتا اور غوث ماننا ۔الوہیت وبندگی میں شرک کی مثال، اللہ کے علاوہ مخلوق کی عبادت کرنا  یا اللہ کی عبادت میں اس کو شریک کرنا جیسے قبرکو سجدہ، مردوں سے فریاد وغیرہ۔اسماء وصفات میں شرک کی مثال اسماء وصفات  کا انکار کرنایا ان میں اللہ کو مخلوق کے مشابہ قرار دینا۔

تعریفات کے پس منظر میں توحید کا مفہوم :

توحید سے مراد کلمہ" لاالہ الااللہ" ہے۔اس میں دو اجزاء ہیں ، ایک میں اثبات  یعنی توحید اور دوسرے میں نفی یعنی شرک  ہے۔ جب ہم توحید کہتے ہیں  تو ایک طرف ایک اللہ کی الوہیت کا اقرار کرتے ہیں ، یہ توحیدکہلاتی ہے تو دوسری طرف تمام معبودان باطلہ (طاغوت)کی نفی کرتےہیں، یہ شرک کہلاتا ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی ارشاد فرماتا ہے:

فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا(البقرۃ:256)

ترجمہ:جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا۔

توحید صرف یہ نہیں ہے کہ بندہ اپنے رب کو کائنات کا خالق ومالک سمجھے ، یہ تو مشرکین بھی مانتے تھے ۔ توحید اصل یہ ہے کہ بندہ اللہ کو اس کے سارے افعال میں(مثلا پیداکرنا، روزی دینا، حکمرانی کرنا، تدبیرکرنا، زندگی دینا اور موت دینا وغیرہ) یکتاسمجھے ، اس کی تمام تر عبادات (مثلا نماز، روزہ، زکوۃ ، حج، قربانی ، نذر، دعا، توکل ، خوف، امیدوغیرہ) میں اسے یکتا سمجھےاور اس کے جمیع اسماء اور جمیع صفات( مثلا قادرہونے، مختارہونے، عالم الغیب ہونے ، الحی القیوم ہونے، ابدی ہونے ، بے مثال وباکمال ہونے اور تمام نقائص وعیوب سے پاک ہونے وغیرہ) میں اسے یکتا سمجھے  اور اس کی ذات میں ، اس کے افعال میں اور اسماء وصفات میں کسی کو شریک وساجھی نہ بنائے۔ جو اس اعتقاد کےساتھ  اپنے رب پر ایمان لاتا ہے اور اسی پر کاربند رہتا ہے ، دراصل وہی توحید والا کہلائے گا اور اگر ان میں ذرہ برابر بھی کہیں خلل آیا تو اہل توحید سے نکل جائے گا۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان سے کلمہ پڑھ لیا ہم مسلمان ہوگئے، دل سے کوئی تصدیق نہیں، اس کے تقاضا سے کوئی سروکار نہیں ۔ دیکھا جائے تو اسی قسم کے مسلمان زیادہ ہیں  مگرایسے لوگ حقیقت میں توحیدوالے نہیں ہیں اور جب توحید والے نہیں ہوں گے تو آخرت میں نجات بھی نہیں ملے گی ، بھلے وہ دنیا میں  خود کو مسلمان سمجھتے رہے۔نبی ﷺ فرماتے ہیں :

فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ(صحیح البخاری:1186)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے «لا إله إلا الله‏» اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔

صرف کلمہ پڑھنے سے نجات نہیں ملے گی، اخلاص قلب کے ساتھ کلمہ پڑھنا پڑے گایعنی زبان ودل کے ساتھ توحید کا اقرار کریں اور اس کا تقاضا پورا کریں، پھر توحید مکمل ہوگی اوربایں سبب نجات ملے گی۔

صوفی طبقہ سے متعلق اضطراب :

مسلمانوں کا ایک  بڑاطبقہ شرک وبدعت میں ڈوبا ہوا ہے، یہ صوفی طبقہ ہےجوتوحید کے معاملہ میں اس کے تمام اقسام میں شرک کرتا ہے۔ حیرانی واضطراب کی بات یہ ہے کہ جس کلمہ توحید(لاالہ الااللہ ) کا اقرار کرکے آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے ، آخر اسی کلمہ کو پڑھنے والا شرک کیسے کررہا ہےاور شرک بھی وہ جس سے سارے اعمال اکارت ہوجاتے ہیں اور آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس سے زیادہ حیرانی اس بات پر ہے کہ یہ صوفی لوگ بڑی ڈھٹائی سے شرک کرتے ہیں ۔ ان کو منع کرنے سے بجائے بات سمجھنے اور اصلاح کرنے کے الٹا ناراض ہوتے ہیں بلکہ اکثر گالی گلوج دینے لگتے ہیں اور لڑائی جھگڑے کی نوبت آجاتی ہےکیونکہ ان کے ذہنوں میں ان کے علماء نے اہل توحید کے خلاف نفرت کا زہر گھول رکھا ہے۔ اہل توحید سے ملنے ، سلام کرنے، ان کی بات سننے ، ان سے تعلقات رکھنے ، ان کی کتابیں اور بیانات سننے سے سختی کے ساتھ منع کیا جاتا ہے ۔اگر کوئی ایسا کام کرلے تو صوفیوں کے یہاں اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ اس قدر غلو پایا جاتاہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے ،  کیا صوفیوں کے یہاں توحید کی تعریف الگ ہے، کیا وہ قرآن وحدیث کے نصوص نہیں سمجھتے ؟

اس بات کے اعتراف   کے ساتھ متعدد بریلوی علماء توحید و شرک کی تعریف میں ڈنڈی مارتے ہیں ، اس کے باوجود بعض صوفی حضرات کے یہاں بھی توحید کی وہی تعریف ملتی ہے جو عموما اسلاف کے یہاں موجود ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری ، بریلویوں کا غالی صوفی ہے۔ ان کی ایک کتاب "کتاب التوحید " ہے ۔ اس کتاب میں توحید کا شرعی واصطلاحی مفہوم کے تحت لکھتے ہیں:شریعت کی اصطلاح میں یہ عقیدہ رکھنا توحید ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور جملہ اوصاف و کمالات میں یکتا و بے مثال ہے، اس کا کوئی ساجھی یا شریک نہیں، کوئی اس کا ہم پلہ یا ہم مرتبہ نہیں۔‘‘

طاہرالقادری کی پیش کردہ توحید کی تعریف وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ بریلوی شوق اور ڈھٹائی کے ساتھ شرک وبدعت انجام دیتا ہے؟  اس سوال کا مختصر اور معقول جواب یہ ہے کہ بریلوی اپنے امام کی اندھی تقلید کرتا ہے اس وجہ سے امام نے جو کچھ کہہ دیا اسی پر عمل کیا جاتا ہے۔ تقلید میں یہ چیز عام ہے۔  ہم احناف کو دیکھتے ہیں کہ اپنے امام کے قول کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کا قول ترک کردیتے ہیں یا اس میں من مانی تاویل کرتے ہیں ، یہی حال بریلویوں کا ہے۔ یہ لوگ بھی خود کو امام ابوحنیفہ ؒ کا مقلد کہتے ہیں ۔ ساتھ ہی گونگے ، بہرے اور اندھے مقلد بن کر احمد رضا بریلوی کی پیروی کرتے ہیں ۔ احمد رضا نے ہندوستان میں ایسا شرکیہ نظریہ پیش کیا کہ آج اس کے ماننے والے برصغیر میں رائی کے دانے کے برابربھی اس کے فتوی سے انحراف نہیں کرتے ،چاہے اس کے لئے اللہ کا حکم چھوڑنا پڑے یا رسول اللہ ﷺ کا فرمان ترک کرنا پڑے ، اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بریلوی حضرات اپنے خلاف توحید سے متعلق قرآن اور حدیث کے نصوص کو اپنے امام کے نظریہ کے مطابق تاویل کرتے ہیں ۔ کھلے الفاظ میں تو یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس آیت کو نہیں مانتے یا اس حدیث کا انکار کرتے ہیں تاہم انکار کے ہی پہلو میں اپنے باطل افکار ونظریات کو صحیح ٹھہرانے کے لئے من مانی تشریح کرتے ہیں۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کلمہ گو ہونے کے باوجود ایسے شرکیہ اعمال کرتے ہیں جو جہنم میں لے جانے والے ہیں ۔ اللہ تعالی ان لوگوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

توحید کے اقسام :

کتاب وسنت کے نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے علمائے اسلام نے توحید کے تین اقسام بیان کئے ہیں۔

پہلی قسم: توحید ربوبیت ، دوسری قسم : توحید الوہیت اور تیسری قسم : توحید اسماء وصفات ہے۔ توحید کے ان تینوں اقسام کا بیان، پورے قرآن میں جابجا ہے تاہم قرآن کی ایک آیت میں بھی اکٹھے ان تینوں کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا (مريم:65)

ترجمہ:آسمانوں کا، زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب وہی ہے تو اسی کی بندگی کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔ کیا تیرے علم میں اس کا ہم نام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟

اس آیت کے پہلے حصے "رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا" میں ربوبیت کا ذکر ہے کیونکہ اللہ اس میں ذکر کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا وہی رب یعنی ان کا خالق اور پالنہار ہے۔ وہی اکیلا پوری کائنات کی ضرورت پوری کرنے والا اور تدبیر و انتظام سنبھالنے والا ہے۔ آگے اللہ کہتا ہے "فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ" ، اس میں توحید الوہیت کا بیان ہے کیونکہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو۔ پہلے والے حصے سے اس کو جوڑ کر سمجھیں کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق و پالنہار ہے پھر وہی اکیلا عبادت کا بھی مستحق ہے لہذا اسی کی عبادت کی جائے گی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا جائے گا۔ آگے اللہ فرماتا ہے "هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا"، اس میں اللہ توحید اسماء و صفات کو بیان کرتا ہے کہ کائنات میں کوئی اس کا ہم نام اور ہم پلہ نہیں۔ کوئی اس کے مشابہ ومماثل اور برابری کرنے والا نہیں ہے۔

 ان تینوں کی تعریف اور وضاحت ذیل کے سطور میں آرہی ہے۔

توحید کی پہلی قسم :   توحیدربوبیت ہے ۔ توحید ربوبیت یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اس کی ربوبیت یعنی  ذات اور اس کے افعال  جیسے پیدا کرنے، مارنے جلانے، روزی دینے، بادشاہت کرنے ، تدبیرکرنے اور کائنات میں تصرف کرنے وغیرہ میں یکتا، بے نظیر اور منفرد ماننا ہے۔

توحید ربوبیت کو سمجھنے کے لئے قرآن کریم سے اس پہ چند دلائل پیش کرتا ہوں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِن شُرَكَائِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٰلِكُم مِّن شَيْءٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ (الروم:40)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر روزی دی پھر مار ڈالے گا پھر زندہ کر دے گا بتاؤ تمہارے شریکوں میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو ان میں سے کچھ بھی کرسکتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے لئے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرۃ:29)

ترجمہ:وہ اللہ جس نے تمہارے لئے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا  پھر آسمان کی طرف قصد کیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الملک:1)

ترجمہ:بہت بابرکت ہے وہ ذات (اللہ)جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدۃ؛5)

ترجمہ:وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے۔ پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔

اللہ کی ربوبیت کوسمجھنے کے لئے کہ وہی اکیلا خالق ، مالک، رازق، مدبر، مختار ، مارنے جلانے والا اور پالنہار ہے، یہ آیات کافی ہیں جبکہ قرآن میں اور بھی بہت سی آیات ہیں جو اللہ کے مختلف افعال بیان کرتی ہیں اور ان میں اللہ یکتا و منفرد ہے۔ طوالت کی وجہ سے احادیث ذکر نہیں کررہا ہوں۔

مشرکین اورآج کے مسلمان:

مسلمانوں  کا ایک بڑا طبقہ جسے صوفی اور بریلوی کہا جاتا ہے وہ  کلمہ پڑھنے کے باوجودتوحید ربوبیت میں بھی شرک کا ارتکاب کررہا ہے حالانکہ عہدرسالت میں جنہیں مشرک کہا جاتا تھا ، مشرک ہونے کے باوجود توحید ربوبیت کو مانتا تھا۔ اللہ تعالی بیان فرماتا ہے:

وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيزُ الْعَلِيمُ (الزخرف:9)

ترجمہ: اگر آپ ان سے دریافت کریں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوگا کہ انہیں غالب و دانا (اللہ) ہی نے پیدا کیا ہے۔

یہاں اللہ نے مشرکین مکہ کا ذکر کیا ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا کون ہے تو وہ جواب دیتے کہ اللہ ہے۔ اب سورہ المومنون کی آیات 84 سے لے کر 89 تک دیکھیں، اسی توحید ربوبیت کا اقرار مشرکین کس طرح کرتے ہیں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِيهَا إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (84) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (85) قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (86) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (87) قُلْ مَن بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (88) سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ (89)(المومنون)

ترجمہ:پوچھیے تو سہی کہ زمین اور اس کی کل چیزیں کس کی ہیں؟ بتلاؤ اگر جانتے ہو۔فوراً جواب دیں گے کہ اللہ کی، کہہ دیجئے کہ پھر تم نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے۔دریافت کیجئے کہ ساتوں آسمانوں کا اور بہت باعظمت عرش کا رب کون ہے؟وہ لوگ جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے کہ پھر تم کیوں نہیں ڈرتے۔پوچھئے کہ تمام چیزوں کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے؟ جو پناہ دیتا ہے اور جس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دیا جاتا اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ؟ یہی جواب دیں گے کہ اللہ ہی ہے۔ کہہ دیجئے پھر تم کدھر جادو کردیئے جاتے ہو۔

مزید اس قسم کی آیات قرآن میں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین اللہ تعالی کی ذات پر ایمان لاتے تھے اور وہ یہ اقرار کرتے تھے کہ کائنات کا خالق ومالک ، سورج وچاند مسخر کرنے والا ، روزی دینے والا ، موت وحیات دینے والا اور مصیبت سے نکالنے والا اکیلا اللہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرکین جب دریا میں ہوتے اور موجیں اٹھتیں تو صرف اللہ کو ہی پکارتے کیونکہ وہ اعتقاد رکھتے تھے کہ اللہ ہی مصیبت سے نکال سکتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِم بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ (یونس:22)

ترجمہ:وہ اللہ ایسا ہے کہ تم کو خشکی اور دریا میں چلاتا ہے یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعے سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں ان پر ایک جھونکا سخت ہوا کا آتا ہے اور ہر طرف سے ان پر موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ (برے) آگھرے۔ (اس وقت) سب خالص اعتقاد کرکے اللہ ہی کو پکارتے ہیں کہ اگر تو ہم کو اس سے بچا لے تو ہم ضرور شکر گزار بن جائیں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے بریلوی مسلمان مشرکین سے بھی گئے گزرے ہیں جو اللہ کے افعال میں بھی غیراللہ کو یعنی اپنے پیروں کو شریک مانتے ہیں۔ پیداکرنے میں ، روزی دینے میں، قسمت بنانے میں، اولاد دینے میں، تکلیف دور کرنے میں، کام بنانے میں، کائنات میں تصرف کرنے میں حتی کہ مارنے زندہ کرنے میں بھی غیراللہ کو پکارتے ہیں کیونکہ یہ لوگ غیراللہ میں یہ صفات مانتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیات میں ان لوگوں کے لئے ہدایت ورہنمائی ہے۔ اللہ ان سب کو سمجھ عطا فرمائے۔

توحید کی دوسری قسم : توحید الوہیت ہے۔اس کو توحید عبادت بھی کہتے ہیں جو بندوں کے اعمال سے متعلق ہے۔ اس توحید کا مطلب یہ ہے کہ جملہ قسم کی عبادات مثلا نماز ، رکوع وسجود، روزہ ، زکوۃ ، حج، دعا، ذبیحہ، نذرونیاز،طواف ، اعتکاف، استعانت، استغاثہ، قربانی، توکل، امید، خوف وغیرہ  میں اللہ کو یکتا ومنفرد ماننا یعنی تمام قسم کی عبادات کا مستحق اکیلے اللہ کو ماننا اور اس کے ماسوا باقی سب کی عبادت کی نفی کرنا خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ بالفاظ دیگر ہم تمام قسم کی عبادت صرف اکیلے اللہ کے لئے بجالائیں گے، نماز اللہ کے لئے پڑھیں گے، رکوع وسجدہ اللہ کے لئے انجام دیں گے، قربانی ونذرونیاز اللہ کے لئے کریں گے ،حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ کو سمجھیں گے اور اسی سے دعامانگیں گے، ہرحال میں اسی پر توکل کریں گے ، اسی سے امید لگائیں گے اور اسی سے محبت اور اسی سے خوف کھائیں گے اور اس کے لئے عاجزی کا اظہار کریں گے۔ قرآن کریم سے اس بارے میں چند آیات ذکر کرتا ہوں تاکہ موضوع کی وضاحت ہو۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (162) لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (163) (الانعام)

ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا(النساء:36)

ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

اللہ تعالی فرماتا ہے:

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ (الشعراء:213)

ترجمہ: پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہو جائے۔

توحید الوہیت سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ (الانبیاء:25)

ترجمہ:تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔

یہی وہ اہم دعوت ہے جس کو سارے انبیاء دے کر بھیجے گئے اور تمام نبیوں نے اپنی اپنی قوم کو لاالہ الا اللہ کی دعوت دی یعنی یہ کہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ہے، اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ جس نے نبی کی اس دعوت کو تسلیم کرلیا وہ اسلام کے سایہ تلے محفوظ ہوگیا اور جس نے اس دعوت کا انکار کیا اس کے ساتھ جنگ کی گئی ۔ کفارمکہ نے بھی اس کا انکار کیا تو محمد ﷺ نے ان سے جنگیں لڑیں بالآخر سارے عرب پر اسلام غالب آگیا۔  اللہ کے فضل سے اللہ پوری دنیا میں اسلام پھیل چکا ہے اور کلمہ "لاالہ الااللہ" پڑھنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر ہمیں اس بات پہ دکھ وافسوس ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ جیسے ربوبیت میں شرک کرتا ہے، اسی طرح الوہیت میں بھی شرک کرتا ہے اور بہت سارے عبادت کے اعمال غیراللہ کے لئے انجام دیتا ہے جیسے غیراللہ کے لئے سجدہ کیا جاتا ہے، اس سے اولاد مانگی جاتی ہے، مشکل میں اس کو پکارا جاتا ہے، اس کے لئے ذبیحہ ، قربانی اور نذرونیاز انجام دئے جاتے ہیں ، قبروں کو سجدہ اور طواف کیا جاتا ہے بلکہ وہاں مکمل نماز پڑھی جاتی ہے۔ غرضیکہ عبادت کے بہت سارے امور غیراللہ کے لئے انجام دئے جاتے ہیں جو شرک فی العبادۃ ہے ۔ یہ وہ عمل ہے کہ انسان بغیر توبہ اسی حال میں مرجائے تو اس کی بخشش نہیں ہوگی، وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ (المائدۃ:72)

ترجمہ: یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کردی ہے، اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے اور گناہگاروں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

توحید کی تیسری قسم : توحید اسماء وصفات ہے۔اس توحید سے مراد یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول میں جو بھی اللہ کے اسماء اور اس کے صفات وارد ہیں ان تمام پر ایمان لاناہے اور انہیں خاص اللہ کے لئے ثابت  ماننا ہے بغیر تحریف وتعطیل اور بغیرتکییف و تمثیل کے  یعنی ان اسماء وصفات کے معنی میں کوئی تحریف نہ کی جائے ، نہ کسی کا انکار کیا جائے اور نہ ان میں کسی کی کیفیت بیان کی جائے اورنہ مخلوق سے تشبیہ دی جائے۔

توحیداسماء وصفات دوچیزوں پر مبنی ہے۔

 پہلی چیز"اثبات" ہے، وہ  یہ ہے کہ جو بھی اسماء اور صفات اللہ نے اپنے لئے ثابت کیا ہے یا اللہ کے رسول محمد ﷺ نے اللہ کے لئے ثابت کیا ہے ان اسماء وصفات کو ویسے ہی ثابت مانا جائے جو اللہ کے شایان شان ہیں۔جیسے اللہ سمیع و بصیر ہے یعنی وہ سنتا ہے اور دیکھتا ہے اس طرح جو اس کے شایان شان ہے۔

دوسری چیز "تنزیہ"ہے ، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کو ہرقسم کے عیوب ونقائص سے منزہ مانا جائے نیز اللہ نے خود اپنے لئے جن صفات کی نفی کی ہے ان کی نفی کی جائے ۔اللہ کا فرمان ہے:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشوری:11)

ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

یہاں پر اللہ تعالی نے اپنے لئے تشبیہ دینے کی نفی کردی اس وجہ سے اللہ کی کسی صفت کو مخلوق سے تشبیہ نہیں دی جائے گی ۔

توحید کی اس تیسری قسم میں بہت فرقے گمراہ ہوئے ، کسی نے معنی میں تحریف کیاتوکسی نے کچھ صفات کا انکار کیا اور کچھ تکییف و تمثیل کے باب میں بھٹک گئےجن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔

سطور بالا میں توحید کی تین قسموں کو اختصار سے بیان کیا گیا ہے ، یہ تقسیم سلف سے منقول ہے ۔بعض اہل علم ، توحید کی دو ہی قسم  بیان کرتے ہیں ۔

(1)توحیدقصدوطلب۔ اس سے مراد توحید الوہیت ہے ۔

(2) توحیدمعرفت واثبات۔ اس  میں توحیدربوبیت اور اسماء وصفات دونوں داخل مانتے ہیں۔

بظاہر اس تقسیم میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ تینوں قسموں کو شامل ہے تاہم  توحید کو تین اقسام میں بیان کرنا جیساکہ اکثر علماء ذکر کرتے ہیں ، افضل ہے۔ حقیقت میں توحید کی ان تین قسموں پر ایک طرح سے اجماع ہے، اس میں مزید کسی قسم کے اضافہ کی ضرورت نہیں ہے مگر کچھ لوگ بطور خاص جماعت اسلامی اور اخوانی لوگ  ایک چوتھی قسم کا اضافہ کرتے ہیں اور بڑی شد ومد کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ توحید حاکمیت ہے۔

توحید حاکمیت کیا ہے ؟

توحید حاکمیت میں دو باتیں شامل ہیں ۔ ایک بات تو یہ ہے کہ حاکم ، مالک ، شارع،قانون بنانے والا اور حکم دینے والا اللہ تعالی ہے، اسے تکوینی اقتدار کہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو دین محمد ﷺ کے ذریعہ اللہ نے دنیا والوں کو دیا ہے وہ زمین پر نافذہویعنی جس طرح آسمانوں کا حاکم اللہ ہی ہے، اسی طرح زمین پر بھی اللہ کے دین کے ذریعہ  ہی حکمرانی ہوگی  ، یہاں پر اورکوئی دوسرا حکم نہیں چلے گا۔اسے تشریعی اقتدار کہتے ہیں۔درحقیقت  توحیدکی تین قسموں میں توحیدحاکمیت بھی داخل ہے ۔حاکم ہونے کے اعتبار سے یعنی تکوینی کی حیثیت سے توحیدربوبیت میں داخل ہے اور اللہ کا حکم نافذکرنے یعنی  تشریعی حیثیت سے توحید الوہیت میں داخل ہے۔ جب یہ توحید ، تین قسموں میں داخل وشامل ہے تو اسے الگ، توحید کی ایک مستقل قسم کی حیثیت سے بیان کرنا غلط ہے۔ توحید حاکمیت کہنا، لکھنا یا بولنا غلط نہیں ہے، بلاشبہ اللہ ہی حاکم اعلی ہے ، اسی کا حکم چلتا ہے اور چلنا چاہئے مگر اسے الگ قسم کی حیثیت سے بیان نہیں کیا جائے گا۔

سب سے پہلے مولانا مودو دی نے توحیدحاکمیت  اور شرک فی الحاکمیت کو الگ سے بیان کیا۔ اس کی ضرورت اس وجہ سےپڑی کہ جماعت اسلامی کا قیام تحریکیت پر مبنی ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ اسلامی نظام کا قیام عمل میں لانا اس کا مقصد ہے۔اپنے مقصد کے پرچار اور اس میں کامیابی کے لئے توحیدحاکمیت کو ایک سیاسی اسلحہ کے طور پر استعمال کیا ۔  یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے یہاں توحیدحاکمیت ہی اصل توحید بلکہ ساری توحید ہی یہی ہے حتی کہ ان لوگوں نے توحیدحاکمیت میں اس قدر غلو کیا کہ "لاالہ الااللہ" کاصحیح معنی ومفہوم بدل دیا۔ اس کامعنی بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی حاکم نہیں ہے جبکہ اس کا اصل معنی ہے کہ نہیں ہے کوئی معبود حقیقی  سوائے اللہ کے یعنی خالص ایک اللہ کی عبادت کی جائے گی ، اس کے علاوہ کسی اور کی نہیں ، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے ۔یہی ہماری پیدائش کا مقصد ہے، یہی سارے انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ محمد ﷺ کی اس دعوت کو لے کر آئےاور تیرہ سال تو صرف اسی ایک بات کی دعوت دیتے رہے۔ آپ نے مکی دور میں یہ دعوت نہیں  دی کہ حاکم اللہ ہے، یہ تو کفار مکہ پہلے سے مانتے تھے کہ خالق ، مالک اور حاکم اللہ ہےیعنی توحید ربوبیت کے قائل تھے ، نبی ﷺ نے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دیا  مگر جماعت اسلامی اپنے تحریکی مقصد کی تکمیل کے لئے غلط ڈھنک سے توحید حاکمیت کا پرچار اور استعمال کرتے ہیں۔ اسی مقصد سے مسلم حکام کی تکفیربھی کرتے ہیں۔

توحیدحاکمیت کے سلسلے میں اختصار کے ساتھ بعض اہل علم کے اقوال ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں ۔

٭سعودی عرب کی فتوی کمیٹی، لجنہ دائمہ سے توحید حاکمیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو کمیٹی نے جواب دیا:"وجعل الحاكمية نوعا مستقلا من أنواع التوحيد عمل محدث، لم يقل به أحد من الأئمة فيما نعلم" یعنی حاکمیت کو توحید کی ایک مستقل قسم قرار دینا ایک قسم کی بدعت ہے ، ہمارے علم کے مطابق کسی بھی عالم نے ایسا نہیں کہا ہے۔(المسلمون ڈاٹ نٹ)

٭شیخ ابن عثیمین ؒ سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ توحید کی ایک چوتھی قسم بناتے ہیں اس کا نام توحیدحاکمیت ہے،اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو شیخ نے جواب دیا: "نقول إنَّه ضال ,وهو جاهل، لأن توحيد الحاكمية هو توحيد الله -عزَّ وجل- الحاكم هو الله -عزَّ وجل- فإذا قلت التوحيد ثلاثة أنواع كما قاله العلماء، توحيد الربوبية فإنَّ توحيد الحاكمية داخلٌ في الربوبية،لأن توحيد الربوبية هو توحيد الحكم، والخلق، والتَّدبير لله -عزَّ وجل-وهذا قولٌ مُحدث مُنكر"۔

ترجمہ: ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ گمراہ اور جاہل ہے کیونکہ توحید حاکمیت ہی تو اللہ عزوجل کی توحید ہے اور حاکم وہی اللہ عزوجل ہے۔ جب تم کہتے ہو کہ توحید کی تین قسمیں ہیں جیساکہ علماء نے بیان کیا ہے، اس میں توحید ربوبیت بھی ہے تو توحید حاکمیت، توحید ربوبیت میں داخل ہے کیونکہ توحید ربوبیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل ہی حکم دینے والا، پیدا کرنے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ توحیدحاکمیت چوتھی قسم ہے، یہ قول بدعت ومنکر ہے۔(المنہج الواضح ڈاٹ نٹ)

٭شیخ البانی ؒ توحید حاکمیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں: "الحاکمیة فرع من فروع توحید الألوھیة والذین یدندنون بھذہ الکلمة المحدثة في العصر الحاضر، یتخذون سلاحًا لیس لتعلیم المسلمین التوحید الذي جاء به الأنبیاء والرُّسل کلّھم و إنما سلاحًا سیاسیًّا"۔

ترجمہ:حاکمیت ، توحیدالوہیت کے فروع میں سے ایک فرع ہے اور جو لوگ عصر حاضر میں اس  نوایجادکلمہ کو لیے دندناتے پھرتے ہیں ، وہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو اس توحید کی تعلیم نہیں دینا چاہتے جسے تمام انبیاء و رسل لے کر آئے بلکہ یہ لوگ اس کلمہ کو سیاسی اسلحہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔(المنہج الواضح ڈاٹ نٹ)

٭ سائل ایک عالم کے حوالے سے پوچھتا ہے کہ وہ شدت حاجت کی وجہ سے توحید حاکمیت کو چوتھی قسم ماننے میں حرج نہیں مانتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو اس پر شیخ صالح الفوزان جواب دیتے ہیں:

توحيد الحاكمية ما يفرد, ما أفرده السلف ولا أفرده العلماء, لأنه داخل في توحيد الألوهية وبعضهم يقول داخل في الربوبية. والصحيح انه داخل في الاثنين, في توحيد الربوبيةوتوحيد الألوهية. أما يجيب قسما مستقلا هذا ابتداع.

ترجمہ:توحید حاکمیت مستقل طور پر نہیں بیان کیا جائے گاکیونکہ سلف نے اس کو منفرد نہیں بیان کیا ہے اور نہ علماء نے اسے منفرد بیان کیا ہے۔یہ توحید الوہیت میں داخل ہے اور بعض اسے توحید ربوبیت میں داخل مانتے ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ  توحید ربوبیت اور توحید الوہیت دونوں میں داخل ہےمگر اسے مستقل قسم بنانا بدعت ہے۔

توحید حاکمیت کے سلسلے میں علمائے عرب کے مختلف فتاوی پائیں گے، میں نےطوالت کے خوف سے چندایک کے ذکر پہ اکتفا کیا۔ ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ توحیدحاکمیت پہلے سے ہی توحید کی تین قسموں میں شامل ہے، اسے الگ سے مستقل نوع کی حیثیت سے پیش کرنا بدعت وگمراہی ہے اور لوگوں کی توجہ اصل توحید سے ہٹاکرصرف  توحیدحاکمیت کی طرف لگانا ہے بلکہ اخوانیوں اور تحریکیوں کے یہاں یہ ایک سیاسی اسلحہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اس وجہ سے ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کیونکہ انہی لوگوں نے اسے الگ قسم کی حیثیت سے مشہور کیا ہے، علماء سلف سے اس قسم کی تقسیم منقول نہیں ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔