جواب از: شیخ مقبول احمدسلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
سوال: میں پہلے مصحف سے قرآن کی تلاوت
کرتی تھی، اب جب بیٹے نے قرآن کا موبائل اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کر دیا تب سے میں آسانی
سے تلاوت کر لیتی ہوں۔ مصحف سے بہت کم ہی تلاوت کرتی ہوں۔ بیٹا کہتا ہے کہ یہ ڈاؤن
لوڈ کر کے میں نے غلطی کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح مصحف کو کافی دنوں تک بند
رکھنے اور اس سے تلاوت نہ کرنے کا بیٹے کو اور مجھ کو گناہ ملے گا؟
جواب: اگر گھر میں مصحف ہو اور وہ بند پڑا رہے یعنی آپ
اس سے تلاوت نہ کریں بلکہ موبائل سے تلاوت کریں تو اس میں آپ کو یا آپ کے بیٹے کو
کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ قرآن آپ زبانی پڑھیں یا موبائل سے پڑھیں یا مصحف دیکھ کر
پڑھیں، یہ سب برابر ہے اور آپ کو برابر اجر ملے گا۔جہاں تک مسئلہ ہے کہ موبائل سے
قرآن پڑھنا بہتر ہے یا مصحف سے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مصحف سے قرآن پڑھنا بہتر و
افضل ہے لیکن موبائل سے بھی تلاوت کرنا جائز ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے قرآن کو اس لئے
نازل کیا ہے تاکہ ہم اسے سمجھ کر پڑھیں اور اس پر عمل کریں لہذا قرآن کی تلاوت پر
اکتفا نہ کریں بلکہ اسے سمجھ کر بھی پڑھنے کی کوشش کریں۔
سوال: پچاس پچپن سالہ ایک خاتون اپنے
شوہر کے ساتھ یہاں الخبر(سعودی) میں رہتی ہے ، وہ لا ولد ہے اور اس کے ساتھ اس کے گھر میں دیور بھی رہتا ہے جس کی فیملی انڈیا میں رہتی ہے اور دونوں بھائی مل کر
دکان چلاتے ہیں ۔ابھی انڈیا سے دیور کی فیملی اور بعض بڑی خواتین آئی ہوی ہیں اور
دیور ان سب کو عمرہ کروانے کے لیے لیجارہا ہے۔ خاتون کا سوال ہے کہ کیا وہ بھی اس
کے ساتھ عمرہ کے لیے جاسکتی ہے جبکہ اس کا شوہر ساتھ نہیں جا رہا ہے۔ایک بھائی
کا دکان پر رہنا ضروری ہے لیکن وہ اپنی بیوی کو بھیجنا چاہتا ہےاور یہاں شوہر کے
علاوہ یہاں اور کوئی محرم بھی نہیں ہے اور
ضرورت کے تحت یہ کبھی اپنے دیور کے ساتھ باہر نکلتی بھی ہے؟
جواب: اس میں سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ دیور کو
عورت کے لئے بہت ہی زیادہ خطرناک بتایا گیا ہے یعنی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے موت قرار دیا ہے، اس وجہ سے ایک عورت کو اپنے دیور سے کافی دوری بنا کر
رہنا چاہیے۔پچاس سالہ عورت بھی آج کے پرفتن دور میں محفوظ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ عورت کا اپنے دیور کے ساتھ سفر کرنا
جائز نہیں ہے اور ویسے بھی دیور عورت کے لیے موت کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
اس عورت کو جب عمرہ کرنا ہو تو اپنے شوہر کے ساتھ سفر
کرے اور جب شوہر، اس کے ساتھ سفر نہ کرسکے تو اس وقت عمرہ کے لیے نہ جائے، جب شوہر
عمرہ پر جائے اس وقت اپنے شوہر کے ساتھ عمرہ پر جائے، یہ اس کے حق میں زیادہ بہتر
ہے۔ اسی طرح اس عورت کو اپنے دیور کے ساتھ گھومنا یا ضرورت کی چیزیں لینے کے لیے
جانا درست نہیں ہے۔
سوال: ایک گھر میں صرف میاں بیوی ہی رہتے
ہیں۔ ایسی صورت میں کیا بیوی ٹی شرٹ اور لگنس پہن سکتی ہے ، نیز اگر وہ پہنے تو اس
میں مردوں کی مشہابت نہیں ہوگی اور بال لمبے ہیں تو کیا اس کو شیپ کیا جا سکتا ہے
پارلر میں شوہر کے کہنے پر؟
جواب: ایک عورت اکیلے میں یا شوہر کی موجودگی میں ٹی
شرٹ اور لیگنس پہن سکتی ہے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے البتہ اس معاملہ میں
اس اعتبار سے احتیاط کیا جائے کہ کفار کا لباس نہ ہو یا فساق و فجار اور فاحشہ
عورتوں کے لباس کی مشابہت نہ ہو۔
عورتوں کے لئے مخصوص قسم کا ٹی شرٹ ہوتا ہے جو عورتوں
کے لئے ساتھ خاص ہوتا ہے اور یہ ٹی شرٹ صرف عورتیں ہی پہنتی ہیں اس کو مرد نہیں
پہن سکتا ہے کیونکہ یہ مخصوص طور پر عورتوں کے لیے ہی بنا ہوتا ہے اس کو ٹی شرٹ اس
لیے کہا جاتا ہے کہ یہ T کی
طرف بنا رہتا ہے، جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ مردوں کی قمیص الگ قسم کی ہوتی ہے اور
عورتوں کی قمیص الگ قسم کی ہوتی ہے یا مردوں کی شلوار الگ ہوتی ہے اور عورتوں کی
شلوار الگ قسم کی ہوتی ہے گویا کہ اس میں مشابہت والی کوئی بات نہیں ہے۔
جہاں تک عورتوں کا اپنے بال کاٹنے کا مسئلہ ہے تو اس
عمل سے باز رہے یعنی عورت اپنے سر کے بال نہ کاٹے، نہ اپنی مرضی سے اور نہ شوہر کے
کہنے پر۔اسلام میں شوہر کی بات یا کسی انسان کی بات اسی وقت مانی جائے گی جب اس کی
بات دین اسلام کے خلاف نہ ہو اور کسی انسان کی کوئی بات دین اسلام کے خلاف ہو تو
اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ہاں اگر کسی عورت کا بال زیادہ لمبا ہوگیا ہواسے
سنبھالنا مشکل ہورہا ہو تو ضرورت کے بقدر اس میں سے کچھ کاٹ سکتی ہے۔
سوال: کیا دو سال سے کم عمر کے بچے کو
عربی کی دعا یاد کروانااور پڑھانا غلط ہےیابے
ادبی کے زمرے میں آئے گا کیونکہ وہ کچھ الفاظ صحیح سےادا نہیں کر پاتےلیکن بعض وقت ذہین بچے صحیح
بھی پڑھ جاتے ہیں؟
جواب: دو سال سے اوپر کا یااس سے نیچے کا کوئی بچہ ہو
بلاشبہ اسے دعا یاد کروا سکتے ہیں، اس میں کوئی بے ادبی نہیں ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ
جو بچہ دعا یاد کرسکے گا، اسی کو دعا یاد کرا سکتے ہیں پھر اس میں بے ادبی کی کوئی
بات نہیں ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ چھوٹے بچے کی زبان فریش نہیں ہوتی ہے پھر بھی اس
کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، پڑھتے پڑھتے اور یاد کرتے کرتے اس کی زبان صاف ہو جائے گی۔
سوال: ایک غیر مسلم آدمی ہے اس کے والد
کے علاج میں بڑی رقم کی ضرورت ہے تو کیا کسی غیر مسلم کو اس کے علاج کے لیے بینک
کی طرف سے ہمارے اکاؤنٹ میں جمع سود کی رقم دی جاسکتی ہے؟
جواب: بینک کا سودی پیسہ کسی کی جان بچانے کے لیے یا
جان بچانے جیسی اضطراری صورت میں دے سکتے ہیں۔ غیر مسلم جسے بیماری کے علاج کے لیے
کافی پیسے درکار ہیں، ایسے غیر مسلم کو بینک کا سود دے سکتے ہیں اس میں حرج نہیں
ہے۔ سود کو اپنی ذات پر خرچ نہیں کرنا ہے تاہم اسے اپنے علاوہ رفاہی کاموں میں یا
انتہائی مجبور اور ضرورت مند کو دے سکتے ہیں۔
سوال:قرآن کریم کی دعائیں اگر اسی مسئلہ
سے متعلق کسی کو بتائیں کہ وہ بغیر تعداد
کے پڑھے تو کیا یہ بھی وظیفہ میں آئے گا؟
جواب: جو طریقہ آپ نے بتایا ہے، یہ بدعتی طریقہ ہے اور
بدعتیوں نے بھی یہی کام کیا ہے۔ ہر کام کے لیے الگ الگ وظیفہ گڑھ لیا حتی کہ قرآن
کی آیات کو مختلف قسم کی مخصوص بیماریوں کے لیے منتخب کرلیا۔ کسی مسلمان کے لئے
جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قرآن کی کسی آیت کو کسی بیماری کے لیے خاص کرے۔
سوال میں جو پہلو مذکور ہے کہ بیماری سے متعلق آیات کو
منتخب کرنا، یہ شرعی طریقہ نہیں، بدعتی طریقہ ہے۔ بھلے آپ اس کی تعداد متعین نہ
کریں لیکن اپنی طرف سے کسی بیماری کے لیے آیات متعین کرنا بھی بدعت ہے۔
سوال: "اونچی جگہ بیٹھ کر پیروں کو
نہیں ہلاتے کیونکہ شیطان جھولتا ہے" کیا اس بات کی کوئی حقیقت ہے یا بیٹھ کر
پیروں کو ہلانے کی کوئی ممانعت ہے؟
جواب: اونچی جگہ بیٹھ کر یا کسی جگہ پر بھی بیٹھ کرپیر اٹھا کر اسے ہلاتے رہنا اچھی بات
نہیں ہے، یہ تہذیب و تمدن کے اعتبار سے
معیوب مانا جائے گا۔ جہاں تک شیطان کے جھولا جھولنے کی بات ہے تو اس کی کوئی حقیقت
نہیں ہے یعنی عوام میں جو یہ بات بولی جاتی ہے کہ اونچائی پر بیٹھ کر پیر ہلانے سے
شیطان جھولتا ہے، بے دلیل اور بے بنیاد بات ہے۔
سوال: سفر کی جو دعا ہے" سبحان الذی
سخرلنا ھذا۔۔۔۔ اس دعا کو سفر کے علاوہ کسی کام سے گھر سے نکلتے وقت اپنے شہر کے
لیے یا گاڑی میں بیٹھتے وقت پڑھ سکتے ہیں یا سفر کے لیے ہی خاص ہے؟
جواب: ایک ہے سفر کی دعا اور ایک ہے سواری پر بیٹھنے کی
دعا۔ سفر کی دعا لمبی ہے اور سواری کی دعا مختصر ہے یعنی" سبحان الذی سخرلنا ۔۔میں
شروع کا حصہ سواری پر بیٹھنے کے لیے ہے۔یہ دعا اس وقت پڑھنا ہے جب آپ سواری پر بیٹھیں گے اور اگر سواری پر نہیں
بیٹھتے ہیں تو یہ دعا نہیں پڑھنی ہے جبکہ سفر کی دعا آپ ہر صورت میں پڑھیں گے چاہے
آپ سوار ہو کر سفر کریں یا پیدل ہوکر سفر کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ گھر سے کام کاج
اور دنیاوی غرض سے معمولی دوری کے واسطے نکلتے وقت یہ دعا نہیں پڑھنی ہے، جب سفر
درکار ہو اس وقت سفر کی دعا پڑھیں گے۔
سوال: کیا ایک مومن کو کافروں کی بھی نظر
لگ سکتی ہے؟
جواب: کافر بھی انسان ہی ہے، اس وجہ سے کافر کی بھی نظر
بد کسی مسلمان کو لگ سکتی ہے اور نظر بد سے متعلق جو حدیث ہے وہ عام ہے جو کافر
اور مسلمان دونوں کو شامل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: العین حق
یعنی نظر بد لگنا برحق ہے۔(بخاری ومسلم)،یہ حدیث عام ہے اور یہ مسلمان اور غیر
مسلم دونوں کو شامل ہے۔
سوال: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ
اللہ نے اپنی کتاب صراط مستقیم میں بعض آثار
نقل کرکے غیر مسلم سے اس کے تہوار پر ہدیہ تحفہ لینے کا جواز نقل کیا ہے۔ کیا ہم
بھی ہندوؤں کے تہوار پر ہدیہ تحفہ لے سکتے ہیں؟
جواب: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صراط
مستقیم میں غیر مسلم سے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ذکر فرمائے ہیں
مگر یہ ثابت نہیں ہیں یعنی ان آثار میں ضعف ہے لہذا ان آثار سے دلیل پکڑنا صحیح
نہیں ہے۔غیر مسلم سے اس کے تہوار پر ہدیہ قبول کرنے سے متعلق حالات و ظروف کے حساب
سے عمل کرنا ہے۔اس معاملہ میں اصل تو یہی ہے کہ غیرمسلم سے اس کے تہوار پر کسی قسم
کا کوئی ہدیہ قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ غیر اللہ کی عبادت میں مشارکت ہے اور
ہمارے لیے اللہ نے شرک کو حرام قرار دیا
ہے۔ اس وجہ سے نہ کوئی مسلمان شرک کرے گا اور نہ ہی شرک کے کام پرکسی کا تعاون کرے گا، نہ اس میں مشارکت کرے گاالبتہ جہاں
کہیں کسی مسلمان کے لیے غیر مسلم کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا خطرہ اور فتنہ کا باعث
ہو، وہاں پر بادل نخواستہ اس کا ہدیہ قبول کرسکتاہے بشرطیکہ وہ ہدیہ چڑھاوے والا
نہ ہو بلکہ الگ سے دکان سے خرید کر لایا گیا ہو۔
سوال: میرے شوہر شادی سے پہلے حج کر چکے
ہیں، میں نے ان سے کہا کہ آپ نے حج کر لیا تو مجھے بھی حج کروا دیں مگر وہ خاموش رہے۔سوال
یہ ہے کہ کیا مجھ پر حج فرض نہیں ہے،کیا
میں اس بات پر زور نہیں دے سکتی اور اگر وہ مجھے حج پرلے کر نہ جائیں تو کیا مجھ پر کوئی گناہ
نہیں ہوگا؟
جواب: شوہر کے حج کر لینے سے بیوی پر حج فرض نہیں ہوتا
ہے حتی کہ شوہر مالدار بھی ہو پھر بھی اس کی بیوی پر حج فرض نہیں ہوتا ہے۔عورت پر
حج اس وقت فرض ہوتا ہے، جب اس کے پاس اپنا ذاتی مال ہو اور اس مال سے حج کرنے کی
استطاعت رکھتی ہو۔ جب عورت پر حج فرض ہی نہ ہو پھر اس کے گنہگار ہونے کا سوال نہیں
پیدا ہوتا ہے خواہ وہ حج کرے نہ کرے یا اس کا شوہر حج پر لے جائے یا نہ لے جائے۔شوہر
کے پاس مال ہے تو بیوی اپنے شوہر سے حج کروانے کے لئے کہہ سکتی ہے اس میں حرج نہیں
ہے مگر صورت مذکورہ میں آپ کے اوپر حج فرض نہیں ہے ، اس لئے شوہر پر حج کروانے کے
لئے دباؤ بنانا درست نہیں ہے ۔ اگر وہ حج نہ کرائیں تو اس میں آپ کو کوئی گناہ
نہیں ہوگا۔
سوال: کیا محبت کر کے شادی کر سکتے ہیں؟
جواب: شادی الگ چیز ہے اور عشق و محبت الگ چیز ہے، اگر
کوئی شرعی طور پر نکاح کرتا ہے تو یہ جائز ہے لیکن اگر کوئی لڑکا اور لڑکی
بغیرشادی کے یا شادی سے پہلے آپس میں محبت
کرے تو یہ حرام اور بے حیائی کا کام ہے۔ اسلام میں عشق ومحبت کرنے کا جواز نہیں ہے، یہ سراسر حرام ہے جو اس
کام میں ملوث ہوگا آخرت میں اس کا محاسبہ ہوگا۔اور کسی کی شادی اسی وقت درست ہوگی
جب وہ شرعی طور پر نکاح کرے گا یعنی لڑکا اور لڑکی دیندار ہوں (زنا کار نہ ہوں)،
شادی میں ولی کی رضا مندی ہو،دوعادل گواہ ہوں اور مہر طے کیا گیا ہو اور نکاح کا
اعلان کیا جائے پھر نکاح درست ہوگا۔
سوال: فرض نماز کے بعد کے جو اذکار پڑھنے
ھوتے ہیں ،کیا اس کے لئے ضروری ہے کہ جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے ہی پڑھیں یا وہ
اذکار سلام پھیرنے کے بعد کسی اور جگہ جاکر یا کہیں اور بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں۔
نیز میں نے سنا ہے کہ اذکار کی فضیلت تب ہی حاصل ہوگی جب بغیر کسی سے بات کئے جائے
نماز پر بیٹھے بیٹھے پڑھے جائیں؟
جواب: نماز کے بعد کے اذکار، نماز کے بعد مصلے پر بیٹھے
بیٹھے پڑھنا افضل ہے اور وہ بھی بغیر تاخیر کے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور
اسلاف سے یہی منقول ہے تاہم اگر کوئی عجلت میں ہو اور فرض پڑھ کر جانا چاہتا ہو تو
فرض کے بعد مصلی سے اٹھ سکتا ہے اور چلتے ہوئے یا کام کاج کرتے ہوئے نماز کے اذکار
پڑھ سکتا ہے اس میں حرج نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مصلی سے اٹھ کر ذکر کرنے سے اس کو
اجر نہیں ملے گا۔ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ مصلی پر بیٹھے ہوئے ذکر کرنے پر ہی اجر
ملتا ہے، اٹھ کر ذکر کرنے سے اجر نہیں ملتا ہے تو اس کے ذمہ دلیل پیش کرنی ہے۔بہرصورت
معمول یہی ہو کہ ان اذکار کو فرض نماز کے بعد مصلی پر بیٹھے ہوئے ہی پڑھیں اور
کبھی کوئی عذر ہو تو اٹھ کرچلتے ہوئے یا دوسری جگہ جاکربھی پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: چاشت کی نماز میں اگر صرف دو رکعت
ہی پڑھیں تو کیا اس کی فضیلت حاصل ہوگی؟
جواب: جی بالکل، چاشت کی دو رکعت پڑھ کے اس کی فضیلت حاصل کر
سکتے ہیں۔ چاشت کی کم از کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ اٹھ رکعات ہیں۔
سوال: نماز کے آخری تشہد میں اپنے فوت
شدہ والد یا والدہ کے لیے مغفرت کی مسنون دعا پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: نماز کے آخری تشہد میں، تشہد کے اذکار پڑھنے کے
بعد آپ قرآن و حدیث میں موجود دعائیں پڑھ سکتے ہیں اور وہ دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں
جو میت کی مغفرت سے متعلق ہوں یعنی آپ فوت شدہ والد یا فوت شدہ والدہ کے لئے بھی
مسنون دعا پڑھ سکتے ہیں ۔ اس میں حرج کی کوئی بات نہیں ہے۔یاد رہے کہ فرض نماز میں
اپنی زبان میں دعا نہیں کرنا ہے لیکن قرآن و حدیث میں موجود دعائیں پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: اگر عشاء کی اذان کے بعد سو جاتی
ہوں اور اٹھ کر آدھی رات سے پہلے نماز پڑھ
لیتی ہوں تو کیا نماز قضا ہو جائے گی؟
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ مردوں کے حق میں جماعت سے نماز
پڑھنا واجب ہے لیکن عورتوں کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ عشاء کی
نماز تاخیر سے پڑھنا بہتر ہے اور آپ نے جو کہا ہے کہ عشاء کے بعد سوکر آدھی رات سے
پہلے عشاء کی نماز پڑھنا قضا ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عشاء کا وقت آدھی رات
تک ہوتا ہے۔ اگر آپ آدھی رات تک یا اس سے پہلے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو
یہ نماز قضا نہیں ہوگی بلکہ ادا ہوگی تاہم اس معاملہ میں احتیاط سے کام لینا چاہئے
۔ عموما سوکر اٹھنا مشکل ہوتا ہے اس لئے کوشش یہی کریں کہ عشاء کی نماز اول وقت پر
ہی ادا کرلیں، اگر خدانخواستہ آدھی رات تک بیدار نہ ہوسکے تو عشاء کی نماز ضائع
ہوجائے گی ۔
سوال: ایک خاتون نے اپنی سہیلی سے جھوٹ
بول کر دس لاکھ روپے لئے ہیں کہ کاروبار کرنا ہے اور ہرماہ اس کا منافع سینتیس ہزار دینے کا وعدہ کیا ہے۔
جس نے پیسہ دیا تھا اس کو اب پتہ چلا کہ اس کی سہیلی نے جھوٹ بول کر پیسہ لیا۔ اس
پیسے سے اس نے اپنا قرض ادا کیا ہے، ایسی صورت میں منافع لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: اگر
واقعتا کاروبار ہوتا تب بھی سینتیس ہزار متعین کرکے اس سے نفع لینا جائز نہیں ہوتا
مگر یہاں تو کاروبار ہی نہیں ہے۔ اگر قرض مانا جائے تب بھی منافع لینا جائز نہیں
ہے کیونکہ قرض دے کرنفع لینا سود ہے اور سود اسلام میں حرام ہے۔
صورت بالا کا جواب یہ ہے کہ قرض لینے والا حقیقت میں کوئی کاروبار نہیں کر رہا ہے اس وجہ
سے طے شدہ نفع کسی بھی صورت میں لینا جائز نہیں ہے۔پھر اس پیسے کی صورت قرض کی
بنتی ہے لہذا جس نے قرض دیا ہے اسے چاہئے کہ وہ اس سے صرف اپنا قرض واپس لے ۔باقی
جس عورت نے جھوٹ بولا اور جھوٹا معاملہ کیا اس کے ذمہ توبہ کرنا ہےاور پیسے دینے
والی خاتون سے وہ معذرت بھی کرے۔
سوال: تبلیغی جماعت والوں کا ایک مدرسہ
ہے، اس میں وضو خانے کی تعمیر ہو رہی ہے کیا اس میں پیسہ دے سکتے ہیں؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ احناف امام ابو حنیفہ
رحمہ اللہ کی تقلید کرتے ہیں اور ان کے اقوال کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اپنے امام
کی حمایت میں قرآن و حدیث کی تعلیمات بھی ٹھکرا دیتے ہیں۔اس کے باوجود دینی کام
میں ہم ان کا تعاون کریں گے۔ جو کام جائز ہو اور شریعت کے دائرے میں ہو اس کام میں
تعاون کرنے میں حرج نہیں ہے جیسے مسجد کی تعمیر ہو یا مدرسے کی تعمیر ہو۔ مدرسے
میں وضو خانہ کے واسطے تعاون کی ضرورت ہے اس میں آپ تعاون دے سکتے ہیں کوئی حرج
نہیں ہے۔
سوال:میری بیٹی کی شادی ہے اس کے لئے موبائل
سے تصویر اور ویڈیوز بنانے کے لئے کہا جارہا ہے اس کا کیا حکم ہے ہم دیکھتے ہیں
بعض علماء اسے حرام اور بعض حلال سمجھتے ہیں نیز آج کل نکاح کے بعد سب کے سامنے
لڑکا بیوی کا ماتھا چومتا ہے ،کیا اسلام میں اس کی اجازت ہے؟
جواب: بھلے موبائل کی تصویر اور ویڈیو کے حکم کے بارے
میں علماء کے درمیان اختلاف ہو لیکن جواز کا فتوی ایک آدھ عالم یعنی کوئی کوئی
دیتا ہے، اکثر و بیشتر علماء موبائل کی تصویروں کو بھی حرام تصویروں میں داخل
مانگتے ہیں اور یہی فتوی درست ہے کیونکہ تصویر ،تصویر ہے خواہ موبائل کی ہو یا
ہاتھ سے بنائی گئی ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ نکاح کے بعد بیوی اگرچہ حلال ہوجاتی
ہے لیکن لڑکا کا لوگوں کے سامنے اپنی بیوی کا ماتھا چومنا برا عمل ہے بلکہ یہ فحش
اور بے حیائی کے کام میں شمار ہوگا۔یہاں پرشادی کے تعلق سے میں آپ کو تین باتوں کی
نصیحت کرتا ہوں۔
پہلی بات یہ ہے کہ شادی کی تصویر اور ویڈیو بنانے سے انکار کریں کیونکہ یہ گناہ کا عمل ہے۔دوسری بات
یہ ہے کہ شادی میں عورت اور مرد کا اختلاط ہو تو اس کا بھی بائیکاٹ کریں یعنی اس
کو بھی شادی سے ختم کریں۔اور تیسری بات یہ ہے کہ لڑکے والوں سے دو ٹوک بات کریں کہ
وہ ہرگز ہرگز لوگوں کے سامنے لڑکی کا ماتھا نہ چومے، یہ بالکل شریعت کے خلاف اور
برائی والا عمل ہے۔
سوال: اگر کوئی کمپنی اپنے ملازموں کو
بونس یعنی کیش رقم دیتی ہے دیوالی کے موقع پر تو کیا یہ پیسہ لینا جائز ہے؟
جواب: دیوالی کی موقع سے اگر کمپنی کسی کو بونس اور
اضافی رقم دے تو ملازم کے لئے اس کے لینے میں حرج نہیں ہے۔ یہ بونس گوکہ دیوالی کے
موقع پر دیا جارہا ہے مگر ملازم کے کام کرنے کی وجہ سے یہ بونس دیا جا رہا ہے۔
سوال: کیا ایک قبر میں کچھ مدت گزر جانے
کے بعد دوسرے کو دفن کیا جا سکتا ہے۔ میرے شوہر کا کہنا ہے کہ ایک جگہ جس کو دفن
کیا جا چکا ہے وہاں دوسرے کو کبھی دفن نہیں کیا جاتا ہے نئی قبر بنائی جاتی ہے ہر
ایک کے لیے؟
جواب: ایک قبر میں میت دفن کرنے کے بعد جب وہ قبر تحلیل
ہو جائے یعنی میت گل کر مٹی میں مل جائے تو اس میں دوسرے میت کو دفن کر سکتے ہیں
پھر اس کے بعد تیسرے چوتھے یعنی جب تک وہ قبرستان ہے اس جگہ پر ایک دوسرے کو دفن
کرتے رہیں گے۔ دراصل قبرستان میں ایسے ہی ہوتا ہے ورنہ قبرستان پھیلتا چلا جائے گا
اور قبرستان کے لئے زمین نہیں ملے گی۔ میت کو دفن کرنے کا مقصد ہے اس کے بدن کو
مٹی میں چھپا دینا، جب اس کا بدن مٹی میں چھپ جائے تو دوسرے میت کو اس جگہ دفن
کرسکتے ہیں۔آپ کے شوہر کی بات غلط ہے اس لئے ان تک میری یہ بات پہنچائیں اور اگر
انہیں تسلی نہ ہو تو انہیں کسی عالم سے رجوع
کرنے کے لیے کہیں تاکہ وہ اپنی معلومات درست کرسکیں۔
سوال: شادی میں لڑکی کو جب مہندی لگانا
ہوتا ہے تو کیا وہ جمع بین الصلاتین کر سکتی ہے تاکہ وہ ایک بار ظہر میں اور ایک
بار عشاء میں وضو کرکے نمازیں ادا کرلے اور درمیان میں مہندی لگ جائے؟
جواب: اللہ تعالی نے پانچوں نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر
پڑھنا واجب قرار دیا ہے اور بلاعذر شرعی کے دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت نہیں
ہے۔ مہندی لگانا شریعت میں ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے دو دو نمازوں کو
اکٹھا پڑھیں گے۔ہر نماز کا اول و آخری وقت ہوتا ہے اور عورت کے اوپر جماعت سے نماز
فرض نہیں ہے لہذا ضرورت کے وقت کبھی وہ ایک نماز کو آخری وقت تک مؤخر کرسکتی ہے
اور دوسری نماز کو اول وقت پر پڑھ سکتی ہے اس طرح دو نمازیں قریب قریب وہ ادا
کرسکتی ہے، اس بات کے علم کے ساتھ کہ اول وقت پر نماز پڑھنا افضل ہے۔
مہندی لگانا منع بھی نہیں ہے، ایک عورت مہندی لگا سکتی
ہے اور مہندی لگی ہوئی حالت میں نماز بھی پڑھ سکتی ہے۔ غلطی ہماری ہے کہ ہم نے اس
عمل کو لوگوں کے دکھاوے کے لیے اتنا بھاری بنا لیا ہے جس کی وجہ سے ہماری عبادت
میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔دیندار اور موحد عورت اپنے آپ کو شادی کے موقع پر بھی اس
طرح رکھتی ہے کہ اس سے عبادت کی انجام دہی میں کوتا ہی نہیں ہوگی۔کیا عہدرسالت میں
خواتین شادی نہیں کرتیں، کیا ان کے حالات ایسے ہی تھے جو آج کی عورتوں نے اپنا
بنارکھا ہے۔ہمیں اپنے حالات درست کرنے اور اسلاف کی سیرت اپنانے کی ضرورت ہے۔
سوال: پیریڈز سے کچھ دن پہلے اور کچھ دن
بعد لڑکیوں کو جو ڈسچارج ہوتا ہے۔ اگر وہ کپڑوں کو لگے تو کیا انہی کپڑوں میں نماز
پڑھ سکتی ہیں اور اس ڈسچارج کو ٹشو سے صاف
کرنا کافی ہوگا یا دھونا ضروری ہے؟
جواب: اس سلسلے میں کئی باتیں ہیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ عورت
سے ایک سفید پانی کا اخراج ہوتا ہے جسے رطوبت کہتے ہیں۔ اس کا حکم پاکی کا ہے یعنی
اسے دھونا ضروری نہیں ہے، پوچھ لیتے ہیں یا یونہی سوکھ جائے تو بھی کوئی حرج کی
بات نہیں ہے اور ٹشو سے پوچھ کر صاف کرلیتے ہیں تو یہ بھی کافی ہے۔دوسری بات یہ ہے
کہ حیض کے دنوں میں حیض سے متصل زردی یا گدلے پانی کا شمار حیض میں ہوتا ہے ، یہ
کپڑے پر لگے تو اسے دھل کر صاف کرلینا ہے ۔ اسی طرح گدلا پانی حیض سے پہلے یا
حیض سے پاکی کے بعد، حیض سے منفصل طور
پرآئے تو یہ حیض کے حکم میں نہیں ہے تاہم جب یہ کپڑا پر لگ جائے تو اسے بھی پانی سے دھل کرصاف کیا جائے ، صرف تشو سے
پوچھنے پر اکتفا نہیں کریں بلکہ جس طرح حیض کا خون دھلتے ہیں اس طرح صاف کریں اور فقط متاثرہ مقام کا دھلنا کافی ہے۔
سوال: ایک عورت کی شادی کو نو سال ہوئے
تھے اور اولاد بھی نہیں ہے۔ اس کا حق مہر سونے کی چار چوڑیاں لکھا گیا تھا جو کہ
ادا نہیں ہوا ،وہ سسرال والوں کے پاس ہی تھا۔ اب وہ عورت فوت ہوگئی ہے تو کیا میت
کے میکے والے جہیز کے سامان کے ساتھ حق مہر وصول کرنے کا دعوی کرسکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: جب عورت کا اپنے شوہر کے گھر پر انتقال ہوا ہے،
گویا کہ ایک عورت اپنے گھر میں بیوی کی حیثیت سے انتقال ہو رہی ہے پھر عورت کے
میکے والے کیوں کسی سامان کا مطالبہ کریں گے۔دوسری بات یہ ہے کہ بطور جہیز جو کچھ
سامان دیا جاتا ہے، یہ تو آدمی اپنی خوشی سے دیتا ہے اور یہ تحفہ کی شکل میں ہوتا
ہے ایسے میں تحفہ دے کر اسے واپس مانگنا جائز نہیں ہے۔اورجو اہم سوال ہے مہر سے
متعلق اس کا جواب یہ ہے کہ مہر اور عورت کی ذاتی اور دیگر چیزیں جو جائیداد اور
ترکہ بننے والی ہوں ان ساری چیزوں کو جمع کرکے اس ترکہ کو تمام وارثوں میں تقسیم
کیا جائے گا۔بیوی کے ترکہ میں سے شوہر کو آدھا حصہ ملے گا اور آدھے حصے میں سے میت
کے ماں باپ زندہ ہوں تو ان کو ملے گا اور ماں باپ زندہ نہ ہوں تو میت کے بہن
بھائیوں کو حصہ ملے گا۔
سوال: کیا بہنوئی وقتی محرم ہوتا ہے، اگر
بہن زندہ ہو تو کیونکہ بہن کی موجودگی میں بہنوئی سے شادی نہیں ہو سکتی۔ اس وجہ سے
اگر سفر کرنا ہو عمرہ یا حج کے لیے اور بہن بھی ساتھ ہو تو اس کا خاوند اس وقت کیا
ہمارا محرم ہوگا؟
جواب: بہنوئی، کبھی بھی محرم نہیں ہوتا ہے، نہ بہن کی
زندگی میں اور نہ بہن کی وفات کے بعد، یہ عورت کے لئے غیر محرم ہوتا ہے۔یہ ایک
دوسرا مسئلہ ہے کہ ایک بہن کے ہوتے ہوئے اس کی زندگی میں دوسری سگی بہن سے نکاح
نہیں کر سکتے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بہنوئی محرم ہے۔بہنوئی، غیر محرم ہے اس
وجہ سے اس کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے اور یہ عورت کے لیے اس کے سفر میں محرم
نہیں بن سکتا ہے۔
سوال: کیا مرد پلاٹینم کی انگوٹھی پہن
سکتا ہے؟
جواب: پلاٹینم ، سونا چاندی سے الگ ایک قسم کی دھات ہے۔
مردوں کے لئے اس کی انگوٹھی پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ احناف کے یہاں چاندی کے
علاوہ دوسری کسی قسم کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے، احناف کا یہ فتوی درست نہیں
ہے کیونکہ معاملات میں اصل اباحت ہے سوائے اس کے جس کی ممانعت ہو یعنی جس کام سے
منع کیا گیا ہو وہی منع ہوگا ، بقیہ کام کی اباحت ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ نے
مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیا ہے لہذا مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی
پہننا منع ہے۔ سونے کے علاوہ چاندی، پیتل، تانبا، لوہا، پلاٹینم اور ہیرے و
جواہرات کی انگوٹھی پہننے میں حرج نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ممانعت کی
کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایک حدیث سے پیتل اور لوہے کی انگوٹھی پہننا منع معلوم ہوتا
ہے، بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت
میں آیا، وہ پتیل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے
فرمایا:کیا بات ہے، میں تجھ سے بتوں کی بدبو محسوس کر رہا ہوں؟تو اس نے اپنی
انگوٹھی پھینک دی، پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: کیا بات ہے، میں تجھے جہنمیوں کا زیور پہنے ہوئے دیکھتا ہوں؟ تو اس نے پھر
اپنی انگوٹھی پھینک دی، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کس چیز کی انگوٹھی بنواؤں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاندی کی بنواؤ اور اسے ایک مثقال سے کم
رکھو۔(ابوداؤد:4223)
یہ حدیث ترمذی، نسائی اور مسند احمد وغیرہ میں بھی ہے،
اس میں ایک راوی عبداللہ بن مسلم ضعیف ہیں، اس وجہ سے شیخ البانی ؒ نے اس حدیث کو
ضعیف قرار دیا ہے لہذا یہ روایت حجت کے قابل نہیں ہے۔ اس کے بالمقابل صحیح
بخاری(5121) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لوہے کی انگوٹھی پہن سکتے ہیں۔ اس میں
رسول اللہ ﷺ نکاح میں مہر کے واسطےایک
صحابی سے کہتے ہیں کہ اپنے گھر سے لوہے کی انگوٹھی ہی تلاش کر لاؤ۔ اگر لوہے کی
انگوٹھی منع ہوتی تو آپ صحابی کو ممنوع چیز لانے کا حکم نہیں دیتے۔
بہرکیف! مرد سونے کے علاوہ کسی بھی چیز کی انگوٹھی پہن
سکتا ہے حتی کہ پلاٹینم کی انگوٹھی بھی البتہ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ آج کل
وائٹ گولڈ بھی بازار میں دستیاب ہے یعنی پلاٹینم مکس کرکے سونے کی چیزیں تیار کی
جاتی ہیں۔ ایسے میں مردوں کے لئے وائٹ گولڈ سے بنی چیز استعمال کرنا جائز نہیں ہے
کیونکہ وہ سونے کے حکم میں ہوگا۔
سوال: صبح و شام کے اذکار فجر اور مغرب
میں مصلیٰ پر ہی بیٹھ کر پڑھنا ضروری ہے یا نماز بعد چلتے پھرتے بھی پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: صبح اور شام کے اذکار کا نماز سے یا مصلی سے تعلق
نہیں ہے، یہ صبح اور شام سے متعلق ہیں لہذا آپ صبح کے اذکار ،صبح میں اور شام کے
اذکار، شام میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے کسی بھی صورت میں کرسکتے ہیں اس میں کوئی
حرج نہیں ہے۔
سوال: بچہ کے عقیقہ پر جو بال اتارے جاتے
ہیں اسے ہم مٹی کے نیچے دبا دیں یا ڈسٹ بن میں ڈال دیں یا سمندر میں بہادیں؟
جواب: جیسے بعد میں بچے
کا بال منڈواتے ہیں تواس کے بال کو کیا
کرتے ہیں ، کہیں کسی کچڑے کی جگہ پھینک دیتے ہیں، یہ بھی اسی طرح کا بال ہے، اسی
طرح پھینک دیں گے ۔ اس بال کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہے کہ اس کو خصوصیت کے ساتھ
کہیں رکھیں گے ۔
سوال:مسجد کو رقیہ سنٹر بنانا کیسا ہے؟
جواب:رقیہ سنٹر کسی کے لیے اور کہیں پر بھی بنانا جائز
نہیں ہے، نہ مسجد میں، نہ آفس میں اور نہ ہی گھر پر کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
نے رقیہ کو ذریعہ معاش بناکر اس کے لیے سنٹر بنانے کی تعلیم نہیں دی ہے اور نہ ہی
اسلاف سے رقیہ سنٹر بنانے کا ثبوت ملتا ہے۔ سنٹر کے بڑے مفاسد ہیں، اس کے ذریعہ
باطل طریقے سے سیدھے سادے لوگوں کا مال لوٹا جاتا ہے نیز بہت ساری جگہوں پر خواتین
کی عزت و عصمت کو تار تار کیا جاتا ہے۔ یہ سنٹر عوام الناس میں جن و شیاطین کے
تعلق سے خوف و ہراس پیدا کرتا ہے اور اللہ سے توکل ہٹاکر دلوں میں جنات کا خوف ڈال
دیتا ہے۔ساتھ ہی عام طور سے رقیہ سنٹر پر غیر شرعی طریقے سے رقیہ کیا جاتا ہے یعنی
شرعی طور پر رقیہ کی جو تعلیم دی گئی اس سے ہٹ کر بدعتیوں کی طرح غیر شرعی اعمال
انجام دئے جاتے ہیں۔ان سارے اسباب کی بنیاد پر رقیہ سنٹر کھولنا جائز نہیں ہے۔
سوال: کسی کے گھر میت ہوجائے تومیت کے
گھروالے نہیں بلکہ اس کے رشتہ دار میت کے گھر،اہل میت کے لیے اور میت پربیٹھے
لوگوں کے لئے کھانا لاتے ہیں، ہمارے یہاں تین دن میت کے گھر رشتہ دار باہر سے کھانا لے کر
آتے ہیں تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب: اس میں پہلی بات یہ ہے کہ میت کے یہاں جو رشتہ
دار آتے ہیں انہیں بھی اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ ان کے ہاں غم ہے اس وجہ سے
تعزیت کرکے بلاتاخیر چلے جائیں وہاں ٹھہرے نہیں رہیں۔ ہاں اگر کوئی خاص رشتہ دار
ہو جس کا رکنا ضرورت اور مصلحت کے تحت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
دوسری بات یہ کہ موت کے دن غم کی وجہ سے ایک دن اہل میت
کو کھانا کھلا دیں، ان کے ساتھ ان کے کچھ خاص رشتہ دار وہاں ہوں، وہ بھی کھا لیں
لیکن کھلانے پلانے کا جوتین روزہ نظام بنا
ہواہے،یہ شریعت کے خلاف ہے اس طرح کا رواج بند کرنا چاہیے کیونکہ میت کے لئے جمع
ہونا اور کھانا کھلانا یہ نوحہ خوانی میں شمار کیا جاتا ہے۔
سوال: چوہا بک جو آج کل آرہی ہے، اس میں چوہا چپک جاتا ہے کیا اس طرح اس بک سے چوہاچپکاکراسے پکڑسکتے ہیں، اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب:گھر میں چوہا مختلف طرح سے نقصان پہنچاتا ہے جس سے
گھر والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے چوہا مارنے میں حرج نہیں ہے
بلکہ چوہا وہ جانور ہے جس کو رسول اللہ ﷺ نے قتل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ آپ اس کے
لیے جو بھی مناسب طریقہ اپنانا چاہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ الکٹرک شارٹ
کے ذریعہ چوہا ماریں یا گوند میں چپکا کر ماریں یا چوہے دانی میں پھنسا کر ماریں
یعنی ان میں سے کوئی بھی طریقہ اپناسکتے ہیں۔ گوند والی بک میں چوہا چپکاکراسے
زندہ نہ پھینکیں بلکہ اسے مارکرپھینکیں تاکہ اسے اذیت نہ ہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ جانور ايسے ہیں جو موذی ہیں اور ان کو
حرم میں بھی مار ڈالنا چاہیے: کوّا، چیل، بچھو ،چوہا اور کاٹنے والا کتّا۔ اور ایک
روایت میں ہے: پانچ موذی جانوروں کو حرم اور غیر حرم ہر جگہ مار دینا چاہیے۔(متفق
علیہ)
سوال: کیا میت کی طرف سے جو روزے اس نے
نہیں رکھے، مستحق لوگوں کو فدیہ پیسے کی صورت میں دے سکتے ہیں؟
جواب: میت کی طرف سے چھوٹے ہوئے روزوں کافدیہ اناج کی
شکل میں دینا ہے، پیسے کی شکل میں نہیں دینا ہے۔ ایک روزہ کے بدلے ایک وقت کا
کھانا کھلا دیں یا ڈیڑھ کلو اناج دے دیں۔
سوال: نماز قصر ميں نمازيں آدهى ہوجاتى
ہیں تو کتنى کتنى رکعت ادا کرنى ہوتی ہے اور نماز قصر کتنے دن تک پڑھ سکتے ہیں نیز کيا وتر بهى ادا كرنا ہو گا؟
جواب: قصر نمازوں کا مطلب ہے کہ رباعی نمازوں کو یعنی
چار رکعت والی نمازوں کو دو دو رکعت پڑھنا ہے اور فجر و مغرب ان دونوں نمازوں کو
مکمل(فجردو رکعت، مغرب تین رکعت) ادا کرنا ہے۔جب سفر میں نمازوں کو قصر کرنے کی
اجازت ہے تو صرف فرض پڑھیں گے، سنت مؤکدہ نہیں پڑھیں گے تاہم فجر کی دو رکعت سنت
اور وتر پڑھیں گے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر کبھی بھی فجر کی
سنت اور وتر کو نہیں چھوڑتے تھے۔قصر کی مدت چار دن ہے یعنی اگر کہیں پر آپ چار دن
تک ٹھہرتے ہیں تو قصر کریں گے لیکن اگر چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو
پہلے دن سے ہی مکمل نماز پڑھیں گے۔
سوال: رات کو نفل پڑھنے کی نیت سے صبح کو
وترپڑھ لوں گی سوچا لیکن نہیں پڑھ سکی تو اس کی قضا ہوگی یا کب اور کیسے پڑھنا ہے؟
جواب:کوئی رات
میں کبھی وتر کی نماز نہ پڑھ پائے تو دن میں اس کی قضا کی جا سکتی ہے اور اس کی
قضا کرتے وقت جفت ادا کرنا ہے یعنی اگر تین رکعت وتر پڑھنے کی عادت تھی تو قضا
کرتے وقت دو دو رکعت کرکے چار رکعت ادا کرنا ہے۔
سوال: ایک بیوہ عدّت میں ہے۔ اس کی نند
کا بھی انتقال ہوگیا ہے اور نند کے بچوں نے اپنی والدہ کے لئے قرآن خوانی اور دعا وغیرہ کا اہتمام کیا ہے۔ وہ پوچھنا چاہتی ہے
کہ کیا وہ عدّت کے دوران وہاں نند کے گھر جا سکتی ہے جبکہ اس بیوہ کی اپنی کوئی
اولاد نہیں لیکن مرحوم شوہر کے بیٹے وہاں موجود ہوں گے جو ان کے محرم ہیں؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ میت کے لئے قرآن خوانی کرنا
جائز نہیں ہے، یہ بدعت ہے اس لیے کسی آدمی کا بدعت کے کام میں شریک ہونا جائز نہیں
ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک عورت جو اپنے شوہر کی وفات کی وجہ سے عدت میں ہے اس کے
لیے بلا ضرورت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، کسی کے یہاں قرآن خوانی میں جانا بھی
جائز نہیں ہے اور ویسے بھی قرآن خوانی بدعتی عمل ہے۔ اس خاتون کو چاہیے کہ خود بھی
اس طرح کے بدعتی کام سے بچے، اپنی اولاد کو بھی بچائے اور اپنے رشتہ داروں کو بھی
صحیح تعلیم دے۔
سوال : ایک شخص چھوٹا موٹا سامان
دکانداروں کو فروخت کرتا ہے۔ اس میں اتنا منافع نہیں تھا تو اس نے سگریٹ اور نسوار
بیچنا شروع کر دیا۔ اس کی بیوی نےبہت سمجھایا کہ یہ حرام ہے اور اس کی کمائی بھی
حرام ہےمگروہ نہیں مان رہا ہے ۔پھر اس کا وبال کس کے سر ہوگابیوی یا شوہر کے ؟
جواب: جو غلط کام کرتا ہے اس کا گناہ اسی کے سر جائے گا
جس نے غلط کام کیا ہے۔ شوہر اپنی تجارت میں سگریٹ اور مسوار بیچتا ہے تو اس کا گناہ
شوہر کے سر آئے گا، اس کی بیوی اس گناہ میں شریک نہیں ہوگی۔ بیوی نے اپنے شوہر کو
سمجھادیا، اس نے اپنا فریضہ ادا کر دیا۔ مزید بیوی سمجھاتی رہے اس کے لیے یہی کافی
ہے۔
سوال: اگر کوئی مجھ سے نفرت کرنے لگ جائے
اور ہمیں محسوس ہو کہ وہ کچھ برا کرنا چاہ رہا ہے جیسے کہ کالا جادو یا کوئی اس
طرح کا عمل، اس صورت میں اپنی حفاظت کے لیے بہتر طور پرہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب: ایک مومن اپنے رب پر اس طرح توکل کرتا ہے کہ اسے
رب کے علاوہ کسی سے خوف محسوس نہیں ہوتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے
فرامین کے ذریعہ تعلیم دی ہے کہ اگر اللہ رب العالمین نہ چاہے تو پوری دنیا کے لوگ
مل کر بھی ہمیں ذرہ برابر بھی نقصان نہیں
پہنچا سکتے ہیں۔ جب اللہ کی مرضی سے ہی سب کچھ ہوتا ہے اور نفع و نقصان کا مالک
وہی ہے پھر کیوں نہ اسی پر کامل توکل رکھیں، اسی سے مدد مانگیں اور اسی سے اپنی
مشکل بیان کرکے نصرت و حمایت طلب کریں۔ اللہ کا فرمان ہے:"وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ"یعنی
جو اللہ پر بھروسہ کر لیتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔
آپ کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ قطعا کسی دشمن کے دشمنی
کی پرواہ نہ کریں بلکہ اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھیں، نماز کی پابندی قائم رکھیں،
نمازوں کے بعد کے اذکار بھی پڑھتے رہیں، صبح وشام کے اذکار کریں اور افضل اوقات
میں اللہ تعالی سے دعائیں مانگتے رہیں۔ جب آپ ایمان و عمل اور ذکر و تلاوت سے لیس
ہوں گے تو آپ شیطانی اثرات اور سحر و آسیب سے محفوظ رہیں گے۔
سوال: ایک خاتون کو حیض کا وقت اس ماہ
پندرہ دن کا ہوگیا ہے جبکہ اس کی عادت چھ سے سات دن کی ہوتی ہے۔وہ نماز کے لئے پریشان ہے کہ پڑھیں یا نہیں؟
جواب: جس عورت کے حیض کی عادت چھ یا سات دن کی رہی ہو،
اسے کبھی پندرہ دن تک حیض آنے لگے، اس حال میں کہ عادت سے زیادہ دن آنے والا خون
حیض کی صفات والا نہ ہو تو بعد والے خون کو استحاضہ شمار کرنا ہے اور غسل کرکے
نماز کی پابندی کرنی ہے۔مذکورہ بالا صورتحال بھی استحاضہ کی لگ رہی ہے، ایسی صورت
میں اس خاتون کو اپنی عادت کے مطابق ہی حیض کے دن شمار کرنا ہے، اس کے بعد غسل کر
کے نماز پڑھنا ہے۔
سوال: کیا عالم اور مؤذن کو زکوۃ دے سکتے
ہیں جبکہ وہ ضرورت مند ہیں؟
جواب: عالم اور مؤذن ضرورت مند ہوں یعنی فقیر اور مسکین
کے زمرہ میں آتے ہوں یا بر وقت انہیں مسکینی اور فقر لاحق ہوگیا ہو تو ایسی صورت
میں ان کو زکوۃ دے سکتے ہیں لیکن اگر وہ ضرورت مند نہیں ہوں بلکہ مالدار ہوں تو
پھر انہیں زکوۃ نہیں دے سکتےہیں ۔
سوال: کیا غیر قوم جیسے ہندوؤں کی شادی
میں جا سکتے ہیں؟
جواب: اگر شادی کی جگہ پر برائیاں، منکرات اور فحش کام
نہ ہوں تو اس میں شریک ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہاں پر برائیاں بھی ہوں تو پھر ایسی
شادی میں شریک نہیں ہونا چاہیے جیسے عورت اور مرد ایک ساتھ ہوں، عورتیں بے پردہ
اور برہنہ ہوں یا ناچ گانے کی محفل ہو، شراب نوشی ہو رہی ہو وغیرہ۔
سوال: کسی بھی کیڑے کو جلا کر مارنا کیسا
ہے اور کیا شارٹ دینے میں اور جلانے میں
فرق ہے؟
جواب: موذی حشرات الارض کو قتل کرنا اور مارنا جائز ہے
البتہ آگ کے ذریعہ مارنے سے بچنا چاہیے کیونکہ آگ کا عذاب صرف اللہ دے سکتا ہے۔ اس
بارے میں ایک حدیث دیکھیں۔ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء میں سے ایک نبی کو چیونٹی نے کاٹ لیا تو انہوں
نے چیونٹیوں کے گھر جلانے کا حکم دیا تو وہ جلا دیے گئے۔ اس پر اللہ تعالی نے ان
کے پاس وحی نازل کی کہ آپ نے چیونٹی کے کاٹنے کی وجہ سے امتوں (مخلوقات) میں سے
ایک امت (مخلوق) کو تباہ کر دیا جو اللہ تعالی کی تسبیح کرتی تھی۔(ابن ماجہ: 3225)
بجلی کا شارٹ لگانے اور آگ سے جلانے میں فرق ہے، اس وجہ
سے بجلی کا شارٹ لگا سکتے ہیں اس میں اصلا جلتا نہیں بلکہ بے ہوش ہوتا ہے۔
سوال : آج کل کے سفر پہلے کی طرح نہیں
ہیں، جہاں کہیں چار دن کےلئے ٹھہرتے ہیں تو وہاں آرام سے رہتے ہیں پھرقصر کیوں
کریں، مکمل نماز پڑھیں توکیا یہ درست عمل ہوگا؟
جواب : اس مسئلے میں آسانی کی بات نہیں ہے بلکہ شریعت
کے حکم کی بات ہے۔اگر آج سفر کرنے میں آسانی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی
عورت بغیر محرم سفر کرے، بلکہ یہ شریعت کا حکم ہے جسے ہر عورت کو ماننا ہے خواہ
سفر میں آسانی ہی کیوں نہ ہو۔
سفر میں قصر کرنے کا جواز سفر کے سبب ہے، گویا سفر کرنے
کا مطلب یہ ہے کہ سفر کرنا یہ سبب ہے قصر کرنے کے لیے اس وجہ سے مسافر آدمی قصر کرے
گا خواہ اس کے لیے سفر میں آسانی ہی کیوں نہ ہو۔ہاں اگر کہیں کوئی چار دن کے لئے
آسانی کے ساتھ اقامت پذیر ہے اور مکمل نماز ادا کرتا ہے تو اس میں حرج نہیں ہے
تاہم قصر کرنا اس کےلئے کافی ہے۔
سوال : ایک مریضہ ہے جو بیڈ ریسٹ پر ہے،
اسے چلنے میں بہت تکلیف ہے۔ ایسی حالت میں سردیوں میں ہر نماز کے لیے وضو کرنا
دشوار ہو رہا ہے۔ کیا وہ ساری نمازوں کو اکٹھی جمع کرکے عشاء کے وقت میں قضا
کرسکتے ہیں؟
جواب: مریضہ کوہرنماز کے لئے وضو میں دشواری ہے تو وضو
میں بھی امت کےلئے شریعت کی طرف سے آسانی موجودہےیعنی کبھی وضو نہ بناسکے یا پانی دستیاب
نہ ہو یا بیمار کو وضوکرانے والا کوئی نہ ہوتو ان صورتوں میں تیمم کرنا جائز ہے۔
بہرکیف مذکورہ بالا صورت میں مریضہ کے لئے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ جمع صوری
کرکے نماز پڑھا کرے یعنی ایک نماز کو آخری وقت پر اور دوسری نماز کو اول وقت پر
جیسے ظہر کو آخری وقت میں پڑھے اور عصر کو اول وقت میں پڑھے۔ اس طرح ایک وضو سے وہ
دو نمازیں پڑھ سکے گی اور دونوں نمازیں اپنے وقت پر ادا ہوں گی۔مغرب وعشاء کے لئے بھی ایسے ہی کرے اور فجر کو اپنے وقت پر ادا
کرے۔
سوال: زکوۃ کے علاوہ ہم جو بھی اللہ کی
راہ میں مال خرچ کرتے ہیں جیسے مسجد کے لئے ، کیا اس مال کو صدقہ کہناجائز ہے حالانکہ
وہ نہ جان کا صدقہ ہے، نہ مال کا صدقہ ہے۔ بس یونہی دے رہے ہیں اللہ کی راہ میں؟
جواب: زکوۃ کے علاوہ جو
عام پیسے ہوتے ہیں جنہیں آپ اللہ کی راہ میں کسی غرض سے خرچ کرتے ہیں وہ صدقہ
کہلاتے ہیں ۔ آپ اس بات کو یہ سمجھ لیں کہ ہر نیکی کے کام میں خرچ ہونے والا پیسہ
صدقہ کے حکم میں ہے اور اس پر صدقہ کا اجر ملے گا۔ صدقہ کیا ہے، اللہ کی رضا اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جو کچھ دیتے ہیں ، یا خرچ
کرتے ہیں وہ صدقہ ہے خواہ وہ مال ہو یا کھانا ہو یا کپڑا وغیرہ ہو۔
سوال: پان بیڑی کی تجارت کرنا یا اس کی
تجارت کرنے والوں کی مدد کرنا کیسا ہے؟
جواب: پان بیڑی کی تجارت
کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس آدمی کی مدد کرنا جائز ہے جو اس کی تجارت کرتا ہے
کیونکہ یہ نشہ کی چیزیں ہیں اور اسلام میں نشہ آور چیزیں حرام ہیں۔ نبی ﷺ فرماتے
ہیں: کل مسکر حرام یعنی تمام قسم کی نشہ آور چیزیں حرام ہیں۔ (مسلم:2003)
سوال: وضو میں ہاتھ کہنیوں سے آگے تک اور
پیر گھٹنوں تک دھو سکتے ہیں؟
جواب: وضو کرتے ہوئے ہاتھ میں کہنی تک یعنی بازو کی
ابتدا تک اور پیر میں ٹخنے تک یعنی پنڈلی کی ابتدا تک دھلنا ہے، یہ ہاتھ اور پیر
دھلنے کی حد ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى
الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ
وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ(المائدة:6)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے
منھ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں
کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے عمل سے
متعلق ایک حدیث ملتی ہے جس سے لگتا ہے کہ وہ کہنی سے بھی اوپر تک اور ٹخنوں سے
اوپر دھلتے تھے ، وہ روایت اس طرح سے ہے ۔
سعید بن ابی ہلال نے نعیم بن عبداللہ سے روایت روایت کی
ہے:
أَنَّهُ رَأَى أَبَا هُرَيْرَةَ يَتَوَضَّأُ، فَغَسَلَ
وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ حَتَّى كَادَ يَبْلُغُ الْمَنْكِبَيْنِ، ثُمَّ غَسَلَ
رِجْلَيْهِ حَتَّى رَفَعَ إِلَى السَّاقَيْنِ(صحیح مسلم:246)
ترجمہ: انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو
کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے اپنا چہرہ اور بازو دھوئے یہاں تک کہ کندھوں کے قریب
پہنچ گئے، پھر انہوں نے اپنے پاؤں دھوئے، یہاں تک کہ اوپر پنڈلیوں تک لے گئے۔
صحیح مسلم میں ہی اس روایت سے پہلے ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ کے عمل سے متعلق ایک دوسری روایت اس طرح سے مروی ہے۔ عمارہ بن غزیہ انصاری نے
نعیم بن عبداللہ مجمر سے روایت کی، انہوں نے کہا:
رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَتَوَضَّأُ، فَغَسَلَ
وَجْهَهُ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ غَسَلَ يَدَهُ الْيُمْنَى، حَتَّى أَشْرَعَ
فِي الْعَضُدِ، ثُمَّ يَدَهُ الْيُسْرَى، حَتَّى أَشْرَعَ فِي الْعَضُدِ، ثُمَّ
مَسَحَ رَأْسَهُ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى، حَتَّى أَشْرَعَ فِي
السَّاقِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، حَتَّى أَشْرَعَ فِي السَّاقِ(صحیح
مسلم:246)
ترجمہ:میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا،
انہوں نے اپنا چہرہ دھویا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر اپنا دایاں بازو دھویا حتیٰ
کہ اوپر بازو کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنا بایاں بازو دھویا حتیٰ کہ اوپر بازو کی
ابتداء تک پہنچے، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنا دایاں پاؤں دھویا حتیٰ کہ اوپر
پنڈلی کی ابتداء تک پہنچے، پھر اپنا بایاں پاؤں دھویا حتیٰ کہ اوپر پنڈلی کی
ابتداء تک پہنچے۔
اس حدیث میں اس
بات کی دلیل ہے کہ ہاتھ دھلنے میں کہنی اور پیر دھلنے میں ٹخنہ ہی حد ہے اور یہ
حدیث، اللہ کے مذکورہ بالا کلام کے مطابق ہے نیز اس حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی
ہیں:"هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
يَتَوَضَّأُ"یعنی ہاتھ دھلتے وقت بازو کی ابتداء تک اور پیر دھلتے وقت پنڈلی
کی ابتدا تک رسول اللہ ﷺ وضو میں دھلا کرتے تھے لہذا اس حد سے زیادہ دھلنا درست
نہیں ہے۔
سوال: "ماں اور بچے کا خونی رشتہ
نہیں ہے اور ماں اور پھوپھو کا خونی رشتہ ہے"، کیا یہ بات سچ ہے؟
جواب: جس نے یہ بات کہی ہے اس کی بات درست نہیں ہے۔اس
کی وجہ یہ ہےکہ خونی رشتہ نسب سے بنتا ہے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب ایک بچہ ماں کے
پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کے خون سے ہی بچے کو غذا ملتی ہے حتی کہ پیدائش کے بعد ماں
کا دودھ پیتا ہے اس میں بھی خون کا دخل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ماں اور بچے میں خونی
رشتہ واضح ہے جبکہ ماں اور پھوپھو میں خون کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ماں الگ نسل سے
ہے اور پھوپھو الگ نسل سے۔
سوال: میری والدہ کی عمر ستر سال سے
زیادہ ہے اور وہ الزائمر (یادداشت کی بیماری) کے آخری مرحلے میں ہے۔اب وہ اکیلی
نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ اکثر اپنے خیالات میں گم رہتی ہے اور بہت زیادہ وہم اور
خیالی باتیں کرتی ہے۔وہ ان آوازوں پر یقین کرتی ہے جو اس سے بات کرتی ہے ۔کبھی
کہتی ہے کہ ایک جہاز اتر رہا ہے توکبھی کسی غیبی ڈاکٹر یا رشتہ دار سے بات کر تی ہے۔وہ
کبھی کبھی ہم بچوں پر غصہ بھی کرتی ہے اور بہت ناراض ہو جاتی ہے۔ہم نے کئی بار
کوشش کی کہ وہ ہمارے ساتھ آ کر رہیں، مگر وہ نہیں مانتی۔جب ہم انہیں اپنے گھر لے
کر جاتے ہیں تو وہ ہر وقت واپس اپنے گھر جانے کی ضد کرتی ہے۔کبھی بہانہ کرتی ہے کہ
باتھ روم جانا ہے یا کسی دوسرے کمرے میں جا رہی ہے اور پھر خود اکیلی واپس اپنے
گھر چلی جاتی ہے۔ہم چھ بہنیں ہیں ۔تین بہنیں ماں کے قریب رہتی ہیں اور تین کچھ
دور۔ہم سب کام کرتی ہیں اور کئی بار ہمسایوں نے ہمیں اطلاع دی کہ امی بغیر مناسب کپڑوں
کے گھر سے باہر چلی گئی ہے۔یہاں موسم بہت سرد ہے اور ہمیں خوف ہے کہ کہیں وہ سردی
میں گھر سے نکل نہ جائیں اور راستہ بھول نہ جائیں۔حال ہی میں انہیں نرسنگ ہوم
(بوڑھوں کے مرکز) میں رکھا گیا ہے تاکہ ان کی بیماری کی مزید جانچ ہو۔وہاں کے عملے
نے صرف ایک ہفتے میں ہی ہمیں بتایا کہ وہ اکیلی گھر پر نہیں رہ سکتیں، کیونکہ یہ
ان کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ہم چھ بہنوں نے مل کر یہ ذمہ داری بانٹ لی ہے۔ہم
باری باری ان سے ملنے جاتے ہیں تاکہ وہ یہ محسوس کریں کہ وہ اکیلی نہیں ہیں اور ہم
ان سے محبت کرتے ہیں۔ہم ان کی عزت، ان کے ایمان اور ان کی پرانی عادتوں کا بھرپور
خیال رکھتے ہیں۔اب ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی چاہتے ہیں کہ کیا یہ صحیح
ہے کہ ہم انہیں نرسنگ ہوم میں رکھیں جبکہ ہم مسلسل ان سے ملاقات کرتے ہیں، ان کا
خیال رکھتے ہیں اور ہماری نیت صرف یہ ہے کہ وہ محفوظ، آرام دہ اور بہتر دیکھ بھال
میں رہیں، کیا یہ عمل شریعت کے مطابق ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک درست ہے؟
جواب: آپ کے سوال میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ آپ کا
کوئی بھائی بھی ہے یا نہیں یا آپ کے والد صاحب با حیات ہیں یا نہیں یا پھر آپ کی
والدہ گھر پر کس کے ساتھ رہتی ہیں؟دوسری بات یہ ہے کہ بوڑھوں کے مرکز سے کیا مراد
ہے، یہ علاج کے لیے ہاسپٹل ہے یا اولڈ ہاؤس کی طرح ایک جگہ ہے جہاں پر لوگ جان
چھڑانے کے لیے اپنے ضعیف ماں باپ کو چھوڑ دیتے ہیں؟
بہر حال! سوال میں آپ کی والدہ کی جو صورتحال مذکور ہے،
اس میں آپ کی والدہ کے ساتھ ہمیشہ ایک آدمی خدمت کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔
علاج کے لیے کسی ہاسپٹل میں کچھ دن یا کچھ مہینے رکھنے
میں حرج نہیں ہے لیکن اولڈ ہاؤس کی طرح مرکز میں رکھنا جیسے ہندو لوگ کرتے ہیں یہ
درست نہیں ہے۔ اسلام نے ہمیں والدین کی خدمت کا حکم دیا ہے نہ کہ بڑھاپے میں ان سے
جان چھڑانے کا۔ کسی مرکز میں رکھ کر اور صرف دیکھنے کے لیے بیٹیوں کا جانا، یہ ماں
کی خدمت نہیں ہے۔ ماں کی خدمت یہ ہے کہ آپ سب بہنیں مہینہ متعین کرکے اپنے اپنے
پاس رکھ کر خدمت کریں یا یہ کہ والدہ کے گھر رہنے کے لیے باری متعین کرلیں۔ یہ دو بہترصورتیں بنتی ہیں اور اگر آپ کے پاس بھائی
بھی ہو تو پھر کام مزید آسان ہوسکتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ساری بہنیں مل کرماں کے
گھر کسی جان پہنچان والے رشتہ دار جو ماں کی بہترخدمت کرسکے متعین کرکے رکھیں ،
بھلے ان کو رکھنے میں کچھ مالی تعاون کرناپڑے، ساتھ ہی وقفہ وقفہ سے بیٹیاں آتی
رہیں اور جتنے رہ دن سکیں ، ماں کے پاس رہ کران کی وہ بھی کچھ خدمت کیا کریں۔ یہ
مجبوری کی صورت میں ہے، ورنہ اصلا اولاد کا حق ہے کہ والدین کی خدمت کریں۔
سوال: نماز کے دوران چھوٹے ناسمجھ بچے
مصلے پر کھیلنے آجائیں تو ایسی صورت میں نماز کو جاری رکھنا چاہیے یا بچوں کو ہٹا
کر دوبارہ پھر سے نیت باندھنی چاہیے؟
جواب: نماز پڑھنے کی صورت میں اگر چھوٹا بچہ آپ کے ارد
گرد آجائے تو نہ آپ کو نماز توڑنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی بچے کو ہٹانے اور بھگانے
کی ضرورت ہے۔
اس بچے کو اپنے قریب ہی رہنے دیں اور اپنی نماز جاری
رکھیں، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ یہ دیکھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کس طرح سے اپنی نواسی کو اٹھاکر نماز پڑھاتے تھے۔ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا، آپ
(اپنی نواسی) امامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے
تھے، جب آپ رکوع میں جاتے تو اسے اتار دیتے، اور جب سجدہ سے اٹھتے تو اسے دوبارہ
اٹھا لیتے۔ (سنن نسائي: 828)
سوال: میری نند زیارت پہ آرہی ہے بچے کے
ساتھ۔ پندرہ دن وہ جدہ میں رہے گی ، جب اس کے شوہر انڈیا سے آئیں گے ، تب وہ ساتھ
میں عمرہ کرے گی تو کیا یہ جائز ہے یا پھر میری نند کےلئے ضروری ہے کہ احرام انڈیا
سے ہی باندھے؟
جواب: اس سوال میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ اگر عورت
بغیر محرم کے سفر کررہی ہے تو یہ جائز
نہیں ہےکیونکہ نبی ﷺ نے عورتوں کو محرم کے ساتھ سفر کرنے کا حکم دیا ہے، اس وجہ سے
اس طرح بغیر محرم کے سفر کرنے سے اس کو
گناہ ملے گا لہذا کوئی بھی عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے۔ اور پھر جب خود کا شوہر
بھی انڈیاسے سعودی آنے والا ہے تو اپنے شوہر کے ساتھ سفر کرے تاکہ گناہ سے بچ سکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو عورت یا مرد عمرہ کے لیے مکہ آئے
اس کے اوپر ضروری ہے کہ وہ اپنی میقات سے احرام باندھ کر مکہ آئے اور پہلے عمرہ
کرے پھر جدھر جانا ہو ادھر جائے۔انڈیا سے بذریعہ جہاز آنے والوں کی میقات طائف ہے
لہذا اس عورت کو اپنی فلائٹ میں ہی طائف کے قریب احرام باندھ لینا ہے اور مکہ پہنچ
کر اسے پہلے اپنا عمرہ کرنا ہے۔
سوال: ایسی مہندی جو فورا رنگ لے آتی ہے
جسے جھٹ پٹ مہندی بھی کہا جاتاہے۔ اس میں کیمیکل بہت زیادہ ہوتا ہے تو کیا ایسی
مہندی لگانے کے بعد وضو ہوسکتا ہے؟
جواب: مہندی کسی بھی قسم کی ہو اگر اس کے لگانے سے ہاتھ
پر رنگ بنتا ہے اور وضو کرنے پر پانی ہاتھ کی جلد تک پہنچ جاتا ہے تو پھر ایسی
مہندی لگانے سے وضو ہوجائے گا۔ ہاں اگر کسی مہندی کے لگانے سے جلد پر پرت بن جاتی
ہے جس کی وجہ سے اس جگہ پانی ڈالنے سے پانی جلد تک نہیں پہنچتا تو ایسی مہندی
لگانے سے وضو نہیں ہوگا یہاں تک کہ غسل بھی نہیں ہوگا۔
سوال: میری والدہ کی عمر نواسی سال ہے۔ان
کی یاداشت بھی اچھی نہیں ہے لیکن کبھی کبھی چیزیں ان کو یاد ہوتی ہیں۔ آج انہوں نے
مجھے کہا ہے کہ میرے پاس جو زیور ہے(تقریباچھ تولہ)،میں بیچ دوں اور اس کی قیمت اپنی
کام والیوں اور غریبوں میں بانٹ دوں تاکہ اللہ
میرے گناہ بخش دے اور مجھے معاف کر دے۔میں نے کہا کہ آپ سارا نہیں دے سکتی وارثوں
کے لئے بھی چھورنا چاہئے۔تو کہنے لگی کہ سب اپنے اپنے گھر میں ٹھیک ہیں۔ان کو
ضرورت نہیں ہے۔ہم نو بہنیں ہیں، والدکی وفات کے وقت ہم سب کو کچھ پیسےترکہ میں ملے
تھے ، ہم نے ان کے نام سے صدقہ جاریہ کردیا، ماں کی طرف سے بھی جوکچھ ملے گا، وہ
بھی صدقہ ہی کردیں گے۔ ایسے میں والدہ کوکیامشورہ دوں؟
جواب: آپ کی والدہ کی جو چاہت ہے اس پر آپ عمل کریں، اس
میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ ان کے زیورات کو بیچ کر ان کی نیت کے مطابق صدقہ کرسکتے
ہیں۔
عورت اولاد کے لیے کفیل نہیں ہے بلکہ مرد یعنی باپ اور
شوہر گھر والوں کے لیے کفیل ہوتا ہے، ان کی ذمہ ہے کہ اگر ان کے پاس جائیداد ہے تو
سارا صدقہ نہ کریں بلکہ اپنے ماتحتوں کا بھی خیال کریں۔
سوال: اگر زانی مرد یا زانی عورت توبہ کر
لے تب بھی انہیں نیک بیوی یا نیک شوہر نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن میں
فرمایا ہے کہ پاک مرد پاک عورتوں کے لیے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں؟
جواب: اگر کوئی زانی یا زانیہ سچے دل سے اللہ تعالی سے
توبہ کرلے تو ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے معاف کر دے اور جب اللہ ،کسی کو معاف کر
دیتا ہے تو پھر وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ سچی توبہ کے بعد مرد، نیک عورت سے یا
عورت، نیک مرد سے شادی کرسکتے ہیں۔
سوال: کیا شرعاً یہ جائز ہے کہ ایک لڑکی،
پردہ (حجاب) میں رہتے ہوئے غیر محرم مرد مہمانوں کو کھانا یا چائے وغیرہ پیش کرےیا
بہتر یہ ہے کہ وہ صرف سلام کر کے چلی جائے اور خدمت گھر کے مرد افراد ہی كریں اور
اگر سسرال والے اس بات کو ضروری سمجھتے ہوں کہ لڑکی حجاب میں رہتے ہوئے مہمانوں کو
خود سرو کرے، اور وہ اس بات کو نہ سمجھتے ہوں کہ یہ مناسب نہیں تو ایسی صورت میں
کیا حکم ہوگا؟
جواب: اگر کسی کے گھر مہمان مرد آئے تو اس کی ضیافت گھر
کے مرد کو کرنا چاہیے، کسی اجنبی عورت کو اس کی ضیافت نہیں کرنی چاہیے حتی کہ اس
کے قریب بھی نہیں آنا چاہیے، الا یہ کہ اس کے پاس سے مجبوری میں گزرنا پڑے تو گزر
سکتی ہے اور گھر کے دیگر محارم موجود ہوں تب سلام بھی کرسکتی ہیں ورنہ اکیلے میں
اجنبی مرد سے سلام بھی نہیں کرنا چاہیےاگرفتنہ کا اندیشہ ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس کے گھر والوں کو یہ معلوم نہ ہو
کہ اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے تو انہیں شریعت کا حکم بتایا جائے گا، قرآن
اور حدیث کے حوالے سے دین کی بات اپنے گھر والوں کو بتانی ہے تاکہ گھر والے اللہ
کے دین پر چلیں۔ یہاں خاموش نہیں رہنا ہے بلکہ حق بات ہرحال میں گھر والوں کو
بتانا ہے اور جو صحیح بات ہے اس پر عمل
کرنا ہے۔جب کبھی مجبوری میں کسی عورت کو اجنبی مہمان کے سامنے کچھ پیش کرنا پڑے
توپردہ میں رہتے ہوئے مہمان کے سامنے پانی، چائے اور کھانا وغیرہ پیش کرسکتی ہے،
اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: اگر دو تین عورتیں ڈاکٹر کے پاس
دوا لینے جاتی ہیں جو گھر کے قریب ہی ہے
اور ساتھ کوئی مرد نہ ہو تو کیایہ غلط ہوگا؟
جواب: قرب و جوار یعنی نزدیکی علاقوں میں عورت اکیلے
بھی جاسکتی ہے اور کچھ عورتیں مل کر بھی جا سکتی ہیں کیونکہ نزدیک کے لیے محرم
نہیں چاہیے، محرم سفر کے لیے چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی عورت کو مجبوری میں
مرد ڈاکٹر سے علاج کرانا پڑے تو ڈاکٹر کے پاس اکیلی عورت نہ جائے بلکہ ساتھ میں
اپنا کوئی محرم ہو یا ساتھ میں کوئی دوسری عورت رکھ لیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہمیں خلوت سے منع کیا ہے یعنی کسی جگہ پر صرف ایک اجنبی مرد اور صرف ایک
عورت ہو اس سے منع کیا گیا ہے۔ دو لوگ سے زیادہ ہوں تو حرج نہیں ہے۔سوال میں جس
صورت کا ذکر ہے، یہ صحیح ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال:ایک شخص کو تین لڑکا اور ایک لڑکی
ہے اور دوسرے شخص کا دو لڑکا اور تین لڑکی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پہلے شخص کی بیوی سے
دوسرے شخص کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی نے دودھ پیا ہے اور دوسرے شخص کی بیوی سے پہلے
شخص کی صرف ایک بیٹی نے دودھ پیا ہے تو کیا پہلے شخص کے وہ بیٹے جو دوسرے شخص کی
بیوی کا دودھ نہیں پیا ہے اس کی دوسری بیٹی جس نے پہلے شخص کی بیوی کا دودھ نہیں
پیا ہے، ایک دوسرے سے نکاح کر سکتا ہے؟
جواب:پہلے شخص کی بیوی کے تینوں بیٹے، دوسرے شخص کی
بیوی کی ان دونوں بیٹیوں سے نکاح کرسکتے ہیں جنہوں نے اس کی ماں کا دودھ نہیں پیا
ہے کیونکہ ان کے درمیان رضاعت کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔
سوال:شوہر کی وفات ہونے پر بیوی کیسے عدت
گزارے جبکہ وہ اسکول ٹیچر ہے، اسکول میں
آٹھ اور دس کلاس کے لڑکے بھی ہیں پھر وہاں بچوں سے بھی سابقہ ہوگا اور وہاں مرد
ٹیچر بھی ہیں ایسے میں وہ کس طرح پردہ
کرے؟
جواب:ایسی خاتون جو نوکری کرتی ہو اس کے شوہر کا انتقال
ہو جائے تو عدت گزارنے کے لیے اسکول سے چھٹی لے اور اگر کسی طور پر چھٹی نہ مل سکے
تو مجبوری میں وہ نوکری پرجا سکتی ہے تاہم عدت کے دنوں میں زینت کی ساری چیزوں کو
ترک کرے گی اور گھر سے نکلتے وقت صرف نوکری پہ جانا ہے، واپس گھر آجانا ہے، دوسری
جگہ گھومنے نہیں جانا ہے یا ضرورت سے زیادہ ادھر ادھر نہیں جانا ہے۔
جہاں تک مسئلہ پردہ کا ہے تو اس سلسلے میں شریعت کا حکم یہ ہے
کہ عورت کے لئے صرف شوہر کی وفات پر اجانب سے پردہ نہیں ہے بلکہ تمام احوال میں
اجنبی مردوں سے عورت کے اوپر پردہ کرنا واجب ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ کسی عورت کے
لیے ایسی جگہ تعلیم دینا جائز نہیں ہے جہاں پر اجنبی مرد اور لڑکے ہوں۔ ایک عورت
کو عورتوں کی جگہ پر تعلیم دینا چاہیے ، مردوں والی جگہ پر اس کے لیے تعلیم دینا
جائز نہیں ہے۔
بیوہ کو آج پردہ کا خیال ہوا ہے جبکہ بلوغت سے ہی اس کے
اوپر اجنبی مردوں سے پردہ لازم ہے۔ خیر،اسی موقع سے اس کو نصیحت مل رہی ہے تو پھر
عمر بھر کے لئے اپنے اوپر پردہ لازم کرے اور مردوزن کے اختلاط سے بچے ۔

0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔