Sunday, October 5, 2025

نئے مسلم کے لئے غسل کا حکم

 نئے مسلم کے لئے غسل کا حکم

 

مقبول احمد سلفی

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

 

اسلام نے طہارت ونظافت پر بہت دھیان دیا ہے اور اسے آدھا ایمان قرار دیا ہے تاکہ مسلمان  ہمیشہ طہارت وپاکیزگی کا خیال رکھے ۔ اسلام میں طہارت پر توجہ دینے کی ضرورت بایں سبب بھی ہے کہ نماز جیسی عظیم عبادت جو دن ورات میں پانچ بار آتی ہےاس کی انجام دہی کے لئے طہارت شرط ہے، اس کے بغیر عبادت قبول نہیں ہوگی۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں: لا تُقْبَلُ صَلاةٌ بغيرِ طُهُورٍ (مسلم:224) یعنی بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں ہوگی۔ نماز کی قبولیت کے لئے زمین اور کپڑے کی پاکی کے ساتھ بدن بھی پاک ہونا ضروری ہے۔

ذرا غور فرمائیں کہ جمعہ کے دن آدمی ناپاک نہ بھی ہو، تب بھی اسے غسل جنابت کی طرح غسل کرکے مسجد جانے کی ترغیب دی گئی ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنِ اغْتَسَلَ يَومَ الجُمُعَةِ غُسْلَ الجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَدَنَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَقَرَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ كَبْشًا أقْرَنَ، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ دَجَاجَةً، ومَن رَاحَ في السَّاعَةِ الخَامِسَةِ، فَكَأنَّما قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الإمَامُ حَضَرَتِ المَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ(صحيح البخاري:881)

ترجمہ: جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبے کے لیے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔

جب ایک نیا مسلمان اسلام میں داخل ہوتا ہے، وہ بھی اب اسلامی احکام وآداب کا پابند ہوجاتا ہے  جبکہ پہلے اس کے لئے کوئی پابندی نہیں تھی خصوصا پاکی کے معاملہ میں اسے کوئی شعور نہیں تھا۔ کبھی اس نے بدن اور کپڑے کی طہارت کے بارے میں اسلامی نظریہ طہارت کی طرح نہ سوچا ہوگا اور نہ عمل کیا ہوگا۔ ایسے میں اسلام لانے والوں کے لئے غسل کرنا اس کے لئے شعوری طور پربھی زیادہ خوشی کا باعث ہوگا کہ وہ غیرضروری بالوں کی صفائی کرلے، میلے یا ناپاک کپڑے بدل لے اور غسل کرکے پورا جسم صاف کرلے تاکہ اس کے اندر ابتداء سے ہی طہارت وپاکیزگی کا شعور واحساس پیدا ہو۔

اب رہا مسئلہ یہ ہے کہ نئے مسلموں کے لئے یا اسلام میں داخل ہوتے وقت کلمہ پڑھنے کے لئے کیا غسل کرنا واجب ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مجرد کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام میں داخل ہونے کے لئے غسل کرنا واجب وضروری نہیں ہے، ناپاکی کی حالت میں بھی کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوسکتا ہےمگر کلمہ پڑھنے سے قبل یا کلمہ پڑھنے کے بعد اس کے لئے غسل کرنے کا حکم مختلف فیہ ہے۔ جمہور علماء کہتے ہیں کہ نئے مسلم کے لئے غسل کرنا مستحب ہے اور بعض کہتے ہیں کہ نئے مسلم کے لئے غسل کرنا واجب ہے۔ میرا رجحان یہ ہے کہ نئے مسلمانوں کے لئے غسل کرنا واجب ہے، بہتر ہے کہ کلمہ پڑھتے وقت غسل کرلے اور اگر اس وقت سہولت نہ ہوتو اسلام میں داخل ہونے کے بعد اقرب وقت میں غسل کرکے خود کو روحانی اور جسمانی دونوں طور پر پاک کرلے۔اس سلسلے میں دلائل سے اپنی بات کو مزین کروں گا، پہلے ان لوگوں کی  باتوں کا اختصار سے جائزہ پیش کردیتا ہوں جو نئے مسلموں کے لئے غسل کو واجب قرار نہیں دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ غسل صرف مستحب ہے۔ اپنے موقف کی تائید میں یہ لوگ کئی دلائل پیش کرتے ہیں جن کا جائز ہ نیچے پیش کیا جاتا ہے۔

اس معاملہ میں سب سے عام دلیل یہ دی جاتی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بہت سارے لوگ مسلمان ہوئے مگر سبھی نئے مسلموں کو آپ ﷺنے غسل کرنے کا حکم نہیں دیا۔

دلیل کا تجزیہ: شرعی دلیل کے ثبوت کے لئے بہت سارے دلائل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، ایک یا چند دلیل بھی کسی مسئلہ کے وجوب کے لئے موجود ہو تو وہ امر وجوبی ہوجاتا ہے اور آگے ایسے کئی دلائل ذکر کئے جائیں گے جن سے معلوم ہوگا کہ نئے مسلموں کے لئے غسل کرنا واجب ہے۔دراصل بہت سارے صحابہ کے بارے میں قبول اسلام کے وقت غسل کا ذکر نہیں ملتا ، اس میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فقط اسلام میں دخول کے لئے غسل کرنا واجب نہیں ہے، کلمہ پڑھ کر بغیر غسل کے آدمی اسلام میں داخل ہوسکتا ہے جیساکہ اوپر اس امر کی وضاحت کردی گئی ہے البتہ اسلام لانے کے سبب اس کے ذمہ غسل کرنا واجب ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ عدم ذکر سے عدم شی لازم نہیں آتا یعنی اگر بہت سارے نئے مسلموں سے غسل کرنا منقول نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے غسل نہیں کیا ہوگاجبکہ کئی سارے دلائل غسل کرنے سے متعلق موجود ہیں۔ بلکہ یہ سمجھ لیں کہ نئے مسلموں کا غسل کرنا اس قدر لوگوں میں معروف تھا کہ اسلام لانے والوں کوکہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ تم غسل کرو، وہ خود ہی غسل کرلیا کرتے تھے ۔

دوسری دلیل:  صحیح مسلم(121) میں ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں:"الإِسْلام يَهْدِم مَا كَانَ قَبْله" یعنی اسلام پہلے کی چیزوں کو منہدم کردیتا ہے۔ اس لئے اس کے ذمہ غسل ضروری نہیں ہے۔

تجزیہ:  یہاں پر منہدم کرنے کا مطلب اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے جس کاتعلق اندرون جسم سے ہےجبکہ  جسم کی ظاہری نجاست تو پانی سے ہی زائل ہوسکتی ہے، اس میں توبہ یا اسلام لانے کا دخل نہیں ہے۔اسی طرح  اگر دیکھا جائے تو نئے مسلم کے ذمہ قرض اور  حقوق العباد ہوں تو اسلام لانے سے معاف نہیں ہوگا، اسی طرح نجاست کا معاملہ ہے۔ کوئی نجس آدمی اسلام میں داخل ہوتے وقت وہ نجس کیسے باقی رہ جاسکتا ہے ۔ جیسے وہ کلمہ پڑھ کر اپنے روح کو پاک کرتا ہےاسی طرح غسل کرکے وہ اپنے بدن کو بھی پاک کرے گا اس وجہ سے نئے مسلموں کے بارے میں قوی موقف یہی ہے کہ اسے غسل کا حکم دیا جائے گا۔

عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيدُ الْإِسْلَامَ،" فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ".

قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسلام لانے کے ارادے سے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پانی اور بیر کی پتی سے غسل کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة/حدیث: 355]

اس حدیث میں ذکر ہے کہ جب صحابی قیس بن عاصم اسلام لانے کا ارادہ کرتے ہیں تو آپ ﷺ ان کو اسلام قبول کرنے سے قبل غسل کرنے کا حکم دیتے ہیں اور حکم دینا واجب کے درجہ میں ہے لہذا کسی غیر مسلم کو غسل کرنے کا واجبی حکم دیا جائے گا جیساکہ اللہ کے رسول ﷺ نے قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ حکم قیس کے ساتھ خاص ہے، اس میں تمام نئے مسلموں کےلئے وجوبی حکم ہے۔ امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک یہی وجوب کا حکم ہے کیونکہ یہاں پر امر (حکم)وجوب کا تقاضاکرتا ہے۔

اسی طرح حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کے وقت رسول اللہ ﷺ نے انہیں غسل دینے کا حکم دیا تھا چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ثمامہ بن اثال نے اسلام قبول کرلیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اذْهَبُوا بِهِ إِلَى حَائِطِ بَنِي فُلَانٍ، فَمُرُوهُ أَنْ يَغْتَسِلَ(مسند احمد:8037)

ترجمہ:انہیں فلاں آدمی کے باغ میں لے جاؤ اور انہیں غسل کرنے کا حکم دو۔

متعدد اہل علم نے اس کی سند کو قوی کہا ہے کیونکہ اس کی اصل بخاری و مسلم میں موجود ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ متعدد احادیث سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام لانے والے خود ہی غسل کرلیتے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجاتے۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا قبول اسلام ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

"كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْرَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَدْعُو أُمِّي إِلَى الْإِسْلَامِ، فَتَأْبَى عَلَيَّ، فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ فَأَسْمَعَتْنِي فِيكَ مَا أَكْرَهُ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَهْدِيَ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اهْدِ أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَى الْبَابِ، فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ، فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ، فَقَالَتْ: مَكَانَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَسَمِعْتُ خَضْخَضَةَ الْمَاءِ، قَالَ: فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ الْبَابَ، ثُمَّ قَالَتْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ وَأَنَا أَبْكِي مِنَ الْفَرَحِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللَّهُ دَعْوَتَكَ وَهَدَى أُمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: خَيْرًا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلَى عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ حَبِّبْ عُبَيْدَكَ هَذَا يَعْنِي أَبَا هُرَيْرَةَ وَأُمَّهُ إِلَى عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِينَ، فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي ".(صحیح مسلم:2491)

ترجمہ: میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا اور وہ مشرک تھی۔ ایک دن میں نے اس کو مسلمان ہونے کو کہا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار گزری۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ میں اپنی والدہ کو اسلام کی طرف بلاتا تھا وہ نہ مانتی تھی، آج اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں مجھے وہ بات سنائی جو مجھے ناگوار ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت کر دے۔“ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے خوش ہو کر نکلا۔ جب گھر پر آیا اور دروازہ پر پہنچا تو وہ بند تھا۔ میری ماں نے میرے پاؤں کی آواز سنی۔ اور بولی کہ ذرا ٹھہر جا۔ میں نے پانی کے گرنے کی آواز سنی، غرض میری ماں نے غسل کیا اور اپنا کرتہ پہن کر جلدی سے اوڑھنی اوڑھی، پھر دروازہ کھولا اور بولی کہ اے ابوہریرہ! ”میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خوشی سے روتا ہوا آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! خوش ہو جائیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول کی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت کی اور بہتر بات کہی۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ عزوجل سے دعا کیجیے کہ میری اور میری ماں کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دے۔ اور ان کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اپنے بندوں کی یعنی ابوہریرہ اور ان کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے اور مومنوں کی محبت ان کے دلوں میں ڈال دے۔“ پھر کوئی مومن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے میرے بارے میں سنا یا مجھے دیکھا ہو اور میرے ساتھ محبت نہ کی ہو۔

اس حدیث سے جہاں ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے کسی دوسرے کے ذریعہ  کلمہ پڑھنا ضروری نہیں ہے، خود سے شہادتین کا اقرار کرکے آدمی اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اسلام میں داخل ہونے کا طریقہ کیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ یہ معاملہ لوگوں میں عام تھا، اس وجہ سے ہرکسی کو اسلام لانے کے وقت غسل کا حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ بعض لوگ اسلام لاتے وقت خود سے ہی غسل کرلیتے تھے ۔

حالت کفر اور حالت اسلام کے درمیان   صفائی ستھرائی میں بڑا واضح فرق ہے، اسلام میں جس طرح صفائی مطلوب ہے اس طرح کفار کے یہاں  استنجاءاور غسل کا تصور نہیں ہے، وہ تو باطن کے ساتھ ظاہری طور پربھی  ناپاک ہی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے بعض نئے مسلموں کو رسول اللہ ﷺنے بال صاف کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ چنانچہ کلیب کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے: میں اسلام لے آیا ہوں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:

أَلْقِ عَنْكَ شَعْرَ الْكُفْرِ یعنی تم اپنے (بدن) سے کفر کے بال صاف کراؤ۔(: صحيح أبي داود:356)

اسلامی عبادات کے ناحیہ سے بھی نئے مسلم کے لئے غسل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے جسم کی بدبو اور ظاہری نجاست زائل کرلے اور بالکل پاک وصاف اورنشیط ہوکر عبادات کی پاسداری کرے۔

جن علماء نےغسل کو  مستحب کہا ہے انہوں نے یہ بھی لکھا ہےکہ اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نئے مسلم کے لئے غسل کرنا واجب ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ایک آدمی جب حالت کفر میں ہو اور بالغ ہوجائے تو اس کا جنبی ہونا یقینی ہے پھر شادی شدہ ہو تب بھی آدمی جنبی ہوتا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ کافر نہائے گا بھی تو اسلامی تعلیمات کی طرح غسل نہیں کرے گا، غسل کرکے بھی وہ ایسے رہے گا کہ اس نے غسل نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن القیم ؒ نے لکھا ہے کہ نئے مسلم کا غسل کرنا واجب ہے خواہ وہ حالت کفر میں جنابت کی حالت میں رہا ہو یا جنابت کی حالت میں نہ رہا ہو۔

اسی طرح غسل کو مستحب کہنے والے اکثر علماء یہی کہتے ہیں کہ اختلاف سے بچتے ہوئے غسل کرلینا احوط وافضل ہے۔شیخ ابن عثیمین ؒ زاد المستقنع میں کتاب الطہارہ کے تحت نئے مسلم کے غسل کو غیر واجب قرار دیتے ہیں لیکن آخر میں کہتے ہیں "والاحتیاط الوجوب" یعنی محتاط قول یہی ہے کہ نئے مسلم کے لئے غسل کرنا واجب ہے۔

اس بات کو ایک مثال سے سمجھ لیں کہ اگر کوئی کافر اسلام قبول کرتا ہے اور وہ بغیر غسل کئے نماز ادا کرتا ہے تو اس کی نماز کے بارے میں کیا حکم ہے یا نماز جیسی عظیم عبادت کے تئیں نئے مسلم کو کیا کرنا چاہئے ؟ ظاہر سی بات ہے کہ اگر نیا مسلم غسل کرکے نماز ادا کرتا ہے تو اس کی نماز کے بارے میں ادنی بھی شبہ نہیں رہے گا لیکن بغیر غسل کے نماز پڑھے تو اس کی نماز کے بارے میں تردد تو ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ جب نیا مسلم اسلام قبول کرنے لگے تو اس سے قبل غسل کرلے ، اگر ممکن ہے تو ورنہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اقرب فرصت میں اسلام لانے کے سبب غسل کرے اور اپنے جسم کو پاک کرے ۔ واضح رہے کہ غسل کے بغیر بھی شہادتین کا اقرار کیا جاسکتا ہے، اس میں مسئلہ نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نیا مسلم غسل کرے خواہ اسلام لاتے وقت یا اسلام لانے کے بعد ۔

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔