آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(80)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: ہم اپنے حیض کی پاکی والے دن روزہ
کی نیت سے سحری کریں کہ دوپہر تک غسل کرلیں گے لیکن پاکی کی نشانی ظاہر نہ ہوسکے
جبکہ ظہر تک عموما غسل کرنے کی عادت ہو تب ایسے میں کب سے روزہ ختم کرسکتے ہیں،
ظہر کا وقت ختم ہونے سے پہلے یا ختم ہوتے ہی کھاپی سکتے ہیں؟
جواب:روزہ رکھنے کا یہ غلط طریقہ ہے، ایسا کرنے سے گناہ
ملے گا۔ روزہ رکھنے کا جو شرعی طریقہ ہے اس کو پہلے آپ سمجھیں اور اس طریقے سے
روزہ رکھیں۔اگر کوئی عورت حیض کی حالت میں ہو اور سحری کے وقت یعنی فجر سے پہلے
پاک نہ ہو تو اس کو روزہ کی نیت نہیں کرنی ہے کیونکہ یہ ناپاکی کی حالت ہے۔ اگر
کوئی عورت ناپاکی کی حالت میں روزہ کی نیت کرتی ہے تو یہ گناہ کا کام ہے۔روزہ اسی
وقت رکھنا ہے جب فجر سے پہلے عورت پاک ہوجائے۔
جب ناپاکی کی حالت میں روزہ ہوتا ہی نہیں اور روزہ کی
نیت کرنا بھی نہیں چاہیے تو پھر ظہر سے پہلے یا ظہر کے بعد روزہ ختم کرنے کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس حالت میں روزہ ہی نہیں ہوتا۔ آئندہ اس عمل سے پرہیز
کریں اور جیسے روزہ رکھا جاتا ہے اس طرح سے روزہ رکھیں۔
سوال: جیسے واٹساپ پر مخصوص ایام کے لئے
مثلا ہفتہ عشرہ کے لئے اسلامی کورسز ہوتے ہیں۔ میں نے اس طرح کورسز کروائے ہیں
جیسے عقیدہ توحید، تفسیر سورۃ الفاتحہ، تفسیر سورۃ الرحمٰن، تفسیر سورۃ الملک
وغیرہ۔ کیا ہم درودِ ابراھیم سیریز ، استغفار سیریز جیسے کورسز کروا سکتے ہیں جس
میں روزانہ کوئی ایک آیت یا حدیث ہوگی اور پھر بطور اٹینڈینس پول بنا کر ان کی
اٹینڈینس لے سکتے ہیں کہ انہوں نے کتنی بار پڑھا۔ 10٫50٫100٫500٫1000 مطلب جو جتنا
بھی پڑھ سکے۔ ایسے کورسز کروانے کا مقصد عورتوں کو اس کی فضیلت بتانا ہے اور یہ
کوشش کہ ان کو استغفار و درود کی پابندی ہو جائے۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:دینی مسائل کا کورس کروانا اچھی بات ہے تاہم اس
میں شریعت کے احکام و مسائل کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے۔ذکر و اذکار یا استغفار
اور درود میں تعداد متعین کرکے پڑھنا بدعت ہے۔ جب یہ عمل بدعت ہے تو پھر لوگوں کو
اس طرح کی تعلیم نہیں دینی ہے اور نہ اس طرح کی تربیت کرنی ہے بلکہ ہمیں یہ بتانا
چاہیے کہ ذکر، درود یا استغفار میں اپنی طرف سے تعداد متعین کرکے پڑھنا بدعت ہے،
ایسے میں اس طرح کی حاضری لینا درست نہیں ہے۔
بحیثیت تعلیم بلاشبہ استغفار، درود وغیرہ پڑھا سکتے ہیں
اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ احتیاط صرف اس ناحیہ سے کرنا چاہیے کہ سامعین کے ذہنوں
میں مخصوص تعداد نہ بیٹھے بلکہ بتایا بھی جائے کہ بغیر تعداد متعین کئے آدمی ذکر
واستغفار کرے۔
سوال: میں نے سنا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ
عالم ارواح میں کچھ لوگوں نے اقرار کیا تھا اور کچھ لوگوں نے اقرار نہیں کیا تھا،
جنہوں نے اقرار کیا وہ توحید والے ہیں اور جنہوں نے اقرار نہیں کیا وہ کافر ہیں۔
کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ جب
اللہ تعالی نے روحوں سے توحید کا اقرار لیا تو سبھی نے کہا ہاں۔ یہ قرآن میں بھی
مذکور ہے اور یہ بات صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے
مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَخَذَ اللَّهُ الْمِيثَاقَ مِنْ ظَهْرِ آدَمَ
بِنَعْمَانَ يَعْنِي: عَرَفَةَ , فَأَخْرَجَ مِنْ صُلْبِهِ كُلَّ ذُرِّيَّةٍ
ذَرَأَهَا، فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ قِبَلًا،
قَالَ: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ
الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا
أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ
أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ سورة الأعراف آية 172 -
173".(مسند احمد:2455)
ترجمہ:سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ
السلام کی پشت میں موجود تمام اولاد سے میدان عرفات میں عہد لیا تھا، چنانچہ اللہ
نے ان کی صلب سے ان کی ساری اولاد نکالی جو اس نے پیدا کرنا تھی اور اسے ان کے
سامنے چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی شکل میں پھیلا دیا، پھر ان کی طرف متوجہ ہو کر ان
سے کلام کیا اور فرمایا: ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں،
(ارشاد ہوا) ”ہم نے تمہاری گواہی اس لئے لے لی تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو
کہ ہم تو اس سے بےخبر تھے، یا تم یہ کہنے لگو کہ ہم سے پہلے ہمارے آبا و اجداد نے
بھی شرک کیا تھا، ہم ان کے بعد ان ہی کی اولاد تھے، تو کیا آپ ہمیں باطل پر رہنے
والوں کے عمل کی پاداش میں ہلاک کر دیں گے؟“
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔( هداية
الرواة:117)
یہی وجہ ہے کہ ہربچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے مگر اس
کے والدین اپنے دین پر لگادیتے ہیں۔
سوال: ایک لڑکی، کسی لڑکا کو پسند کرتی
ہے اور اس کے والدین کسی اور سے اس کی شادی کرانا چاہ رہے ہیں۔ لڑکی جسے پسند کرتی
ہے اس میں عیب نہیں ہے بلکہ دیندار ہی ہے مگر والدین بضد ہیں کہ ہم جس سے شادی
کرنا چاہتے ہیں اسی سے شادی کرنی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ شادی کے لئے لڑکی کی
رضامندی کس حد تک ضروری ہے اور ایسی صورت میں لڑکی کو کیا کرنا چاہئے اور والدین
کا کیا طرزِ عمل ہونا چاہئے؟
جواب:نکاح میں جتنی اہمیت ولی کی رضامندی کی ہے، اتنی
ہی اہمیت لڑکی کی رضامندی کی بھی ہے یعنی ولی لڑکی کی رضامندی کے بغیر زبردستی اس
کا نکاح کسی لڑکے سے نہیں کر سکتا ہے۔
سوال میں جو مسئلہ مذکور ہے کہ ایک لڑکی کسی لڑکے کو
پسند کرتی ہے اور اس کا ولی اس سے شادی نہ کرا کر دوسری جگہ کرنا چاہتا ہے۔ عموما
اس طرح کی صورتحال میں لڑکی، لڑکے سے ناجائز تعلق بنائے رکھتی ہے اور ظاہر سی بات
ہے کہ کسی بھی والد کو یہ گوارا نہیں ہوگا کہ اپنی بیٹی کی شادی اس لڑکے سے کرے جس
سے وہ ناجائز تعلق بنائے ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والد اس طرح کی صورتحال میں دوسری
جگہ شادی زبردستی کرتا ہے۔
ہاں، اگر لڑکی کا، لڑکے کے ساتھ ناجائز تعلق نہیں ہے،
فقط وہ دینی اعتبار سے کسی لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے تو پھر والد کو لڑکی کی
پسند کا خیال کرنا چاہیے۔ یہاں پر دوسری بات یہ بھی ہے کہ اگر والد جس لڑکا کو
پسند کیا ہے وہ دینی اعتبار سے درست ہو تو پھر لڑکی کو بھی راضی ہو جانا چاہیے
یعنی پسند میں ایک دوسرے کی موافقت کرنی چاہیے۔
سوال: میرے پڑوس کی ایک غیرمسلم معمر
خاتون میرے گھر آیا کرتی ہے تو میں اسے کھانےپینے کی چیزیں دیتی رہتی ہوں۔ اسے
کھلاتی پلاتی ہوں اور اللہ کی خاطر حسن سلوک کرتی ہوں مگر دلی طور پر اس سے تعلق
نہیں رکھتی تو کیا میں ایسا کرتی رہوں جبکہ مجھے ڈر ہے کہ دوسرے لوگ اس سے یہ معنی
لیں گے کہ میں کافروں کو کھلاتی پلاتی ہوں اس سے تعلق رکھتی ہوں؟
جواب:اسلام ہمیں غیر مسلموں کے ساتھ اچھے برتاؤ اور
تعاون کرنے سے نہیں روکتا ہے۔اللہ تعالی غیرمسلموں سے احسان کا حکم دیتے ہوئے
فرماتاہے:
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ
يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ
تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ
الْمُقْسِطِينَ(الممتحنہ: 8)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور
انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں
تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا
ہے۔
دلی محبت الگ چیز ہے اور کسی کے ساتھ حسن سلوک اور
ضرورت مند کا تعاون کرنا یہ الگ چیز ہے اور دونوں میں فرق ہے۔ آپ غیر مسلم کے ساتھ
جو اچھا سلوک کرتی ہیں، وہ کرتی رہیں اس میں شرعا کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم آپ کے
ذمہ ایک اور کام ہے وہ دعوت دین کا فریضہ ہے۔ اس کو دین اسلام کی طرف دعوت دیتے
رہیں، اس میں محبت اور حکمت شامل رکھیں۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کی دعوت سے ہدایت پا
جائے اور جہنم کی آگ سے بچ جائے۔
سوال: کیا جمعہ کی سنتیں جمعرات سے یعنی
مغرب کے بعد سے کرسکتے ہیں جیسے درود پڑھنا اور ناخن کاٹنا وغیرہ؟
جواب:ہم میں سے ہر کسی کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ
ہماری شریعت میں دن کب سے شروع ہوتا ہے تاکہ عبادت کی انجام دہی میں اس کا خیال رکھ سکیں۔مغرب کا سورج ڈوبنے سے
عربی کی تاریخ بدل جاتی ہے اور اسی وقت سے دن شروع ہوتا ہے۔ جمعرات کے دن جب سورج
ڈوبتا ہے تو اس وقت سے یوم الجمعہ شروع ہو جاتا ہے۔ جمعہ کے مستحب اعمال میں سے
درود پڑھنا، اسی طرح سورہ کہف کی تلاوت کرنا
ہے، وہ آپ جمعرات کا سورج ڈوبنے کے بعد سے شروع کر سکتے ہیں کیونکہ جمعہ کا دن
شروع ہو چکا ہے۔
ناخن کاٹنا جمعہ کا عمل نہیں ہے، یہ کبھی بھی انجام دے سکتے ہیں بلکہ جب ناخن بڑھ جائے اس وقت کاٹنا چاہیے۔ جہاں تک جمعہ کے
غسل کا مسئلہ ہے تو یہ فجر کی نماز کے بعد ہونا چاہیے۔
سوال: ہمارے خواب میں اگر مرحومین آئیں
تو کیا ہماری فوتگی جلد ہوگی؟
جواب:قرآن و حدیث میں یہ بات کہیں پر ذکر نہیں ہے کہ
میت کو خواب میں دیکھنے سے آدمی جلدی فوت ہو جائے گا بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی
میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جس کسی کی جب موت لکھی ہوئی ہے، اسی وقت موت آئے گی، اس
سے نہ ایک لمحہ پہلے موت آئے گی، اور نہ ایک لمحہ بعد میں موت آئے گی۔ عین وقت پر
موت آتی ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلِكُلِّ
أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ
فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ
وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ (الاعراف:34)
ترجمہ:ہر گروہ کے لئے ایک معیاد معین ہے، سو جس وقت
انکی میعاد معین آجائے گی اس ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں
گے۔
سوال:2021میں میرے والد کا انتقال ہوا
تھا مگر ان کی میراث ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی۔ جب بھائیوں سے تقسیم کرنے کی بات
کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا جائیداد بیچ کر کھالیں گے؟ ساری پراپرٹی کرائے پر ہے
اور رقم صرف بھائیوں میں تقسیم ہوتی ہے، کیا اس میں بہنوں کا حصہ نہیں ہے اور
وراثت تقسیم نہ ہو تو والد کو عذاب ہوگا؟
جواب:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وراثت تقسیم نہ ہونے پر
میت کو اس سے عذاب نہیں ہوگا، وراثت کو تقسیم کرنا تو اولاد کا کام ہے۔ اولاد اس
میں بلاوجہ تاخیر کرےیا من مانی کرے تو
اولاد گنہگار ہوگی۔اور میت کی تمام جائیداد میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی حصہ ہے
خواہ وہ زمین ہو یا مکان ہو یا پیسے ہوں یا کرائے کی کوئی چیز ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ آدمی کی وفات کے بعد بلا تاخیر اس
کی جائیداد وارثوں میں تقسیم کر دینی چاہیے اور جس طرح آپ نے بتایا کہ کئی سال
پہلے آپ کے والد کی وفات ہوگئی اور ابھی تک وراثت تقسیم نہیں ہوئی ہے۔ اس کے لئے
آپ اپنے قریب کے لوگوں سے مدد لیں اور عالم کی رہنمائی میں گھر والوں کے ساتھ
میٹنگ کریں تاکہ وہ لوگ جلدی وراثت کی تقسیم کریں۔
سوال: ایک ہاسپیٹل ہے جو مسلمانوں کا ہے،
اس میں ہندو سرجن ہے۔ ڈاکٹر صحیح ہے مگر ہندو ہے اور اس ہاسپیٹل میں علاج سستا ہے
۔ عورت کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے اس وجہ
سے اس ہاسپیٹل میں ہندو سے بچے کا آپریشن
کرانا چاہ رہی ہے۔اس سے بچے پر کوئی منفی اثر تو نہیں پڑے گا؟
جواب:اس میں پہلی بات یہ ہے کہ عورت کا آپریشن لیڈی
ڈاکٹر کے ذریعہ ہی کروانا چاہیے کیونکہ اس میں عورت کو برہنہ کرنا پڑتا ہے الا یہ
کہ شدید مجبوری ہو یعنی لیڈی ڈاکٹر کی دستیابی نہ ہو سکے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہندو ڈاکٹر سے آپریشن یا علاج کرانے
پر بچے اور آدمی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا ہے۔ یہ ایک دنیاوی کام ہے اور دنیاوی
کام کے لیے ہندو سے مدد لینا جائز ہے، جیسے ہم دنیاوی معاملے میں ہندو کی مدد بھی
کرسکتے ہیں۔
سوال: ایک خاتون کا بڑا عجیب و غریب سوال
ہے، اس کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے شوہر کو اپنے مطابق ڈھال رکھا ہے، اب وہ وہی
کرتا اور کہتا ہے جیسا میں چاہتی ہوں لیکن پھربھی لعن طعن کرتی ہوں ، ناشکری کرتی
ہوں اور ضرورت سے زیادہ نافرمان ہوں اور اس کی کوئی خدمت نہیں کرتی ہوں۔ دوسری بات
یہ ہے کہ مجھے سامنے والا ہر آدمی چور اور مطلبی نظر آتا ہے۔ میں نے اپنے بچوں کو
بھی باپ کے خلاف بنادیا ہے۔ شوہر میرے لئے اچھا ہے یا برا ہے مجھے نہیں معلوم مگر
اس نے گھر، مکان، دکان سب میرے نام کر دیا ہے۔ یہی میرا مانڈ سیٹ ہے اور آدمی اپنی
فطرت پر پیدا ہوتا ہے شاید یہ میری فطرت اور عادت ہے جو میرے لئے اچھا ہے۔ اب بات
یہ ہے کہ کیا ان باتوں کی وجہ سے مجھے دنیا اور آخرت میں کوئی سزا مل سکتی ہے؟
جواب:سوال سے پتہ چلتا ہے یہ ایک بری اور قبیح خصلت کی
عورت ہے جس نے اپنے شوہر پر اور اپنے بچوں کو اپنے بس میں کرلیا ہے، یہ ایک طرح کا ان پر
ظلم ہے، ممکن ہے یہ اپنے پڑوس اور سماج کے دوسروں لوگوں پر بھی اسی طرح ظلم کرتی
ہوں کیونکہ سماج کا ہر آدمی اس کی نظر میں چور اور مطلبی ہے۔
اس نے اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ بالکل
غلط اور ظلم کے زمرے میں آئے گا۔ اس بات پر دنیا میں بھی اس کو سزا ملے گی اور
آخرت میں بھی سزا ملے گی۔ اگر وہ اپنی خیر چاہتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے بچے سے
معافی مانگے اور اس کو اپنے والد کے بارے میں صحیح بات بتا کر والد کی محبت دل میں
ڈالے، اسی طرح شوہر کے ساتھ جس جس معاملے میں زیادتی کی ہے تمام چیزوں کا ذکر کرکے
ہر ایک چیزوں کی معافی مانگے۔ شوہر کی جائیداد شوہر کی ہے، وہ فورا شوہر کی ساری
جائیداد شوہر کے نام کرے۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العالمین سے سچے دل سے معافی
مانگے اور آئندہ برے کاموں سے پرہیز کرے اور شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ فطرت
کا بہانہ بناکرظلم کرنا جائز نہیں ہوجائے گا۔ وہ عورت اپنی مرضی سے شوہر کی
نافرمانی کرتی ہے اور اس پر لعن و طعن
کرتی ہے، لہذا وہ اپنی برائی کی وجہ سے گنہگار اور مستحق سزا ہے۔ گاؤں کی کسی
دوسری عورت کو وہ گالی دے تو کیا اسے چھوڑ دیا جائے گا یہ سوچ کر کہ اس کا
مائنڈسیٹ ایسے ہی ہے یا اس کو اس کے عمل کی سزا ملے گی ، یقینا اسے سزا ملے گی۔
ایسے ہی اپنے شوہر کے ساتھ جو بھی برا سلوک کرتی ہے اس کی سزا ملے گی۔
سوال: کوئی شخص غصہ میں کفریہ عمل کرنے
جارہا تھا ، بالکل وہ اس کے قریب پہنچ چکا تھا مگر پھر وہ اللہ کے خوف سے اس عمل
سے رک گیا ، کیا وہ کفر کرنے والا یا کافر ہوگا؟
جواب:اس مسئلے کو
سمجھنے کے لیے ایک حدیث پڑھیں توبات واضح
ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے میری امت کے
دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک کہ وہ ان پر عمل نہ کرلے
یا زبان پر نہ لائے۔(بخاری: 2528)
یہ حدیث بتاتی ہے کہ
اگر کسی آدمی کے دل میں برائی، معصیت یا کفر کا خیال پیدا ہو جاتا ہے تو اللہ
تعالی اس وقت تک اس کا گناہ نہیں لکھتا جب تک کہ اس پر وہ عمل نہیں کرتا یا اس کا
اظہار اپنی زبان سے نہیں کرلیتا۔ جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ ایک آدمی کفر کرنا
چاہتا تھا لیکن اللہ کے ڈر سے کفر کرنے سے رک گیا تو ایسی صورت میں اس کے اوپر
گناہ نہیں آئے گا۔
ہاں، اس میں ایک
مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر آدمی اپنی زبان سے کفر کو ظاہر نہیں کرتا یا کفر نہیں کرتا
لیکن دل میں کفریہ اعتقاد رکھتا ہے جو اس کو اسلام سے نکالنے والا ہو تو ایسی صورت
وہ اپنے اعتقاد کی وجہ سے اسلام سے نکل جائے گا اور مرتد ہو جائے گا۔
اگر دل میں ایسا کوئی
اعتقاد نہیں ہے بلکہ غصے میں کوئی کفریہ عمل کرنے لگا پھر اللہ کے خوف سے رک گیا
تو اس کے ذمہ گناہ نہیں ہے، وہ اللہ رب العالمین سے سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ
ایسا عمل کرنے سے پرہیز کرے۔
سوال: اگر شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دے
غصے کی حالت میں، بعد میں اسے احساس ہو وہ معافی مانگ لے اور رجوع کرنا چاہے لیکن
بار بار اصرار کے باوجود بھی عورت ضد، انا پرستی اور دوسروں کی باتوں میں آکر واپس
شوہر کے پاس جانے کے لیے راضی نہ ہو تو اس صورت میں کیا کیا جائے، کیا ایسی طلاق
واقع ہو جائے گی؟
جواب: جب شوہر اپنی
بیوی کوایسے طہر میں جس میں جماع نہ کیا ہو طلاق دیتا ہے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے
پھر شوہر کے اختیار میں ہے کہ اگر وہ عدت کے دوران رجوع کرتا ہے تو رجوع ہوجائے
گا، اس میں بیوی کی ضد، اس کی انانیت یا اس کا اصرار کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔طلاق
دینا شوہر کا اختیار ہے اور رجوع کرنا بھی شوہر کا اختیار ہے اس میں بیوی کا کوئی
دخل نہیں ہے۔
اگر شوہرنے بحالت طہر
طلاق دی ہے تو طلاق واقع ہو گئی ہے، اگر شوہر اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو
اپنی زبان سے بیوی تک یہ بات پہنچا دے کہ میں رجوع کرتا ہوں رجوع ہو گیا یعنی میاں
بیوی کا رشتہ باقی بچ گیا۔
اب رہا مسئلہ بیوی
کہیں پر موجود ہے اور وہ شوہر کے پاس نہیں جانا چاہتی ہے تو اس کے لیے شوہر اپنے
سسرال والوں کے ساتھ اور کسی عالم کے ذریعہ بیٹھک کرا سکتا ہے تاکہ جو معاملہ ہے
اس کو رفع دفع کیا جا سکے تاہم شوہر کے زبانی رجوع کرنے سے، طلاق سے رجوع ہو جاتا
ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
سوال: شادیوں میں ہزاروں مرغیاں کاٹی
جاتی ہیں ، کیا ہر ایک کو کاٹنے کے لئے علاحدہ علاحدہ بسم اللہ کہنا لازم ہے یا
ایک بار کہہ کر کاٹا جاسکتا ہے۔ بہت سی جگہوں پر مشین کے ذریعہ جانور ذبح ہوتا ہے
اس میں کوئی انسان نہیں کاٹتا ہے بلکہ مشین کاٹتی ہے ، اس کے قریب ایک شخص کو رکھ
دیا جاتا ہے جو بسم اللہ بسم اللہ کہتا رہتا ہے، کیا یہ درست ہے؟
جواب:کسی شادی یا کسی
فنکشن میں ہاتھ سے مرغی ذبح کرنے پر ہر ایک مرغی پر بسم اللہ کہنا ضروری ہے اور جس
مرغی پر بسم اللہ کہا گیا ہو وہی مرغی حلال ہوگی اور جس پر بسم اللہ نہ کہا جائے،
وہ مرغی حلال نہیں ہوگی یہ بات بالکل واضح ہے۔
مشینی مسئلہ میں کئی امور ہیں جن سب کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں
بسم اللہ پڑھ کر مشین کی ذریعہ مختلف مرغیوں کو ذبح کیا جا سکتا ہے یعنی یہاں پر
بھی بسم اللہ پڑھا جائے گا اور ایک ہی دفعہ میں ایک ساتھ کئی مرغیاں ذبح ہوتی ہیں۔گوکہ
مشین ذبح کرتی ہے مگر ذبح ہوتے وقت انسان بسم اللہ اللہ اکبر کہتا ہے۔
سوال: جاب کے لئے سی وی یا ڈگری یا آئی
ڈی کارڈ پر اگر پرانی تصویر لگی ہو جس میں حجاب نہیں کیا گیا ہے تو کیا اس کی وجہ
سے گناہ ملے گا؟
جواب:اس میں ،میں ایک
احتیاطی عمل یہ بتاتا ہوں کہ جہاں پر تصویر لگانے کی ضرورت نہیں ہے جیسے بائیو
ڈاٹا میں، وہاں پر اپنی تصویر نہ لگایا کریں، اس میں معلومات دینا ہی کافی ہوتا
ہے۔جہاں تک مسئلہ ہے، آئی ڈی کارڈ اور ڈگری وغیرہ کا کہ جس میں ادارہ کی جانب سے
تصویر لگانا ضروری ہوتا ہے، اس میں آپ معذور ہیں اور جہاں آپ معذور ہیں اس معاملہ میں آپ
کو گناہ نہیں ملے گا۔
سوال: کچھ لوگ ایسے آدمی کے پاس جاتے ہیں
جو اپنے علم سے اندازہ لگاکر بتاتے ہیں جب ان سے جاب، رشتہ، جادو اور حسد وغیرہ کے
بارے میں پوچھا جاتا ہے تو اپنے حساب سے بتاتے ہیں کہ فلاں رشتہ کیسا رہے گا، فلان
جاب کیسی ہے اور جادو و حسد ہوا ہے یا نہیں وغیرہ۔ ایسے شخص کے پاس جانا کیسا ہے
جبکہ غیب کا علم تو اللہ کے پاس ہے؟
جواب:جو لوگ ہاتھ
دیکھ کر یا نام اور تاریخ پیدائش وغیرہ پوچھ کریا اٹکل لگاکر کسی معاملہ میں
مستقبل کی باتیں بتاتے ہیں ایسے لوگوں کے پاس جانا کفر ہے اور اس سے بہت بھاری
گناہ ملے گا، چالیس دن تک ایسے آدمی کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَتَى حَائِضًا، أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا،
أَوْ كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى
مُحَمَّدٍ"(صحيح ابن ماجة:639)
ترجمہ:جو شخص حائضہ کے پاس آئے (یعنی اس سے جماع کرے)
یا عورت کے پچھلے حصے میں جماع کرے، یا کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق
کرے، تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہیں۔
اگر کوئی اپنی بیٹی
کی شادی کرنا چاہتا ہے تواپنے خیرخواہوں سے مشورہ کرکے اور تفتیش کرکے شادی کرسکتا ہے
لیکن مستقبل کی بات بتانے والے کے پاس جاکر اس سے پتہ لگانا کفریہ عمل ہے۔ اسی طرح
بیماری اور تکلیف میں لوگوں سے مشورہ لے سکتے ہیں اور ڈاکٹر سے رجوع کر کے اس سے
علاج کرا سکتے ہیں لیکن مستقبل کی بات بتانے والے کے پاس نہیں جانا چاہیے کیونکہ
یہ کفر ہے۔پیشہ ور راقی اور عاملوں سے بھی پرہیز کریں۔ سحر وآسیب میں رقیہ کے لئے
نیک و صالح آدمی سے دم کروائیں ۔
سوال: بنک میں میرا اکاؤنٹ ہے، اس سے ایک
برتن تحفہ ملا ہے ۔ کیا اس کو استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب:بینک سے اپنے
پیسے کے علاوہ کوئی تحفہ لینا یا منافع لینا سود میں داخل ہے اور اس کا استعمال
اپنے لیے کرنا جائز نہیں ہے۔جو تحفہ آپ کو ملا ہے، آپ اسے کسی غریب آدمی کو دے دیں
جو زیادہ ضرورت مند ہو لیکن اس کا استعمال اپنے لیے نہ کریں۔
سوال: ایک خاتون کا بچپن میں عقیقہ نہیں
ہوا تھا ، وہ اب اپنا عقیقہ کررہی ہے۔ اسے اپنی چوٹی کے بال کاٹنا ہے یا نہیں ؟
جواب:اس وقت عقیقہ
کرنے میں حرج نہیں ہے اور عقیقہ کرنے پر بال نہیں کاٹنا ہے اور نہ چوٹی کاٹنا ہے۔ بال
کاٹنے کا معاملہ پیدائش کے ساتویں دن سے متعلق ہے، اس کے بعد بچی کا بال کبھی نہیں
کاٹنا چاہیے کیونکہ عورت کو اپنا بال اپنے حال پر چھوڑنا ہے۔
سوال: کیا زمین کو سالانہ ٹھیکے پر دیکر
پیداوار/فصل لی جا سکتی ہے؟
جواب:زمین کو سالانہ
ٹھیکہ پر دے سکتے ہیں، جو پیداوار ہوگی اس میں آدھایا جو آپس میں طے ہو اس حساب سے
پیداوار تقسیم کر لیں۔
جو لوگ زمین ٹھیکہ پر
دے کر اپنے لیے پیداوار متعین کر لیتے ہیں کہ ہمیں ہرحال میں اتنی پیداوار چاہیے
اس طرح ٹھیکہ پر دینا جائز نہیں ہے۔
سوال: عائزہ نام کا کیا مطلب ہے اور کیا
یہ نام رکھ سکتے ہیں اور کیا یہ حضرت علی کی بیٹی کا نام تھا؟
جواب:عائزہ کا معنی
محتاج و ضرورت مند ہے، یہ نام رکھنا درست نہیں ہے۔اسی سے ملتا جلتا ایک لفظ عائذہ
ہے۔ عائذہ کا معنی پناہ مانگنے والی ہے، یہ نام رکھ سکتے ہیں۔ اور یہ دونوں لفظ
حضرت علی کی بیٹی کا نام نہیں ہیں۔
سوال: آیۃ الدین کی روشنی میں قرض دینے
کا طریقہ بتائیں جیسے کوئی عورت اپنے شوہر کی بہن کو دس ہزار روپئے قرض دے تو کیسے
معاملہ کرے؟
جواب:اللہ تعالی نے
سورہ بقرہ کی آیت 282 اور 283 میں قرض کے ذریعہ لین دین کرنے کا طریقہ بتایا ہے۔
ان دونوں آیات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی کسی کو قرض دے تو یہ معاملہ
بذریعہ تحریر و گواہی ضبط کرلے، اس سے معاملہ میں آسانی رہے گی اور کسی قسم کا
نزاع پیدا نہیں ہوگا۔ چنانچہ قرض کا معاملہ کچھ اس طرح طے کیا جائے گا۔
(1)سب سے پہلے آپس
میں وہ مدت طے کرنی لینی ہے جس مدت میں قرض کی واپسی ہوگی۔
(2) پھر اس مدت کو اور جتنا قرض دیا گیا ہے ،ان
دونوں باتوں کو کاغذ پر لکھ لیا جائے گا۔
(3) اس قرض پر دو مرد کو گواہ بنایا جائے۔ دو مرد
نہ ملے تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنایا جائے۔
(4) قرض دینے والا آدمی ، مقروض سے ضمانت کے طور پر
کوئی چیز طلب کرے تو یہ جائز ہے، اسے رہن کہتے ہیں۔
اس طرح قرض کا معاملہ
کرنے سے آپس میں آسانی رہتی ہے لیکن یاد رہے کہ قرض کا معاملہ کرنے کے لئے لکھنا
یا گواہ بنانا ضروری نہیں ہے بلکہ یہ استحبابی امر ہے۔ سامنے والے پہ بھروسہ اور
اعتماد ہے تو بغیر لکھے اور بغیر گواہی و بغیر رہن کے بھی قرض دیا جاسکتا ہے۔ اور
قرض دینے والا یادداشت کے طور پر اپنے پاس خود سے لکھ لے یا قرض لینے والا اپنے
پاس لکھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
بہرکیف! چھوٹے موٹے
قرض کے لئے کتابت ، گواہی اور رہن کی ضرورت نہیں ہے لیکن بڑے قرضوں کے لئے آدمی
لکھ کر اور گواہی کے ساتھ معاملہ کرے تو بہترہے۔ قرض کا معاملہ دنیا کے ساتھ آخرت
سے بھی جڑا ہوا ہے، قرض انسان کے ذمہ باقی رہتا ہے اور ادا نہ کرنے کی صورت میں
آخرت میں اس کا محاسبہ ہوگا لہذا لکھا ہوا معاملہ رہے تو زندگی میں بھی آسانی رہتی
ہے اور آدمی کی وفات کے بعد بھی ورثاء کے لئے آسانی رہتی ہے۔
سوال: "رب اشرح لنا صدورنا ويسر لنا
امورنا واحلل عقدة من لساننا يفقهوا قولنا". اس دعا کا معنی بتادیں اور کس
کتاب میں ہے؟
جواب:قرآن میں ایک
آیت ہے، اس آیت کو ضمیر سے بدل کر استعمال کیا گیاہے، اس طرح قرآن کی آیت کے ساتھ
کرنا غلط ہے۔
قرآن ،سورہ طہ میں اس
طرح کی آیات ہیں۔
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ
لِي صَدْرِي (25) وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي (26) وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي
(27) يَفْقَهُوا قَوْلِي
(28)
ترجمہ:موسیٰ (علیہ
السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے۔ اور میرے کام کو
مجھ پر آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح
سمجھ سکیں۔
سوال: گوکہ میرے شوہر نے پسند کی شادی ہے
مگر وہ شکی مزاج ہیں اور اس طرح کچھ نہ کچھ باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اصل میں پہلے
میری منگنی ہوگئی تھی جب میں چھوٹی عمر کی تھی اور منگیتر بڑی عمر کا تھا اوراس کے
گھروالے شادی کے لئے جلدی کررہے تھےاس لئے منگنی ٹوٹ گئی۔ میرا منگیتر رشتہ میں
مامو لگتا تھا۔ چونکی میں اس وقت چھوٹی تھی اس وجہ سے کبھی بچوں کو کچھ کھلانے
بائیک پر لے جاتے تھے۔ میرے شوہر نے ایک بار مجھ سے سوال کیا کہ تم کس کے ساتھ
بائیک پر بیٹھی ہو تو میں نے اپنے محرم کا نام بتایا اور منگیتر کا نام نہیں بتایا
کیونکہ میرے شوہر اس سے بہت چڑھتے ہیں۔ اگر اس کا نام بتادیتی تو آفت آجاتی۔ پھر
شوہر نے کہا کہ تم اپنے مرحوم باپ کی قسم کھاؤ کہ اس کے علاوہ اور کسی کے ساتھ
بائیک پر نہیں بیٹھی ہو۔ میں نے اپنے مرحوم ابو کی قسم کھالی۔ اب مجھے بے چینی ہورہی ہے۔ مجھے اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:قسم کھانے میں
آپ سے دو غلطی ہوئی ہے، ایک غلطی جھوٹی قسم ہے ، دوسری غلطی غیراللہ کی قسم ہے۔
جھوٹی قسم کھانا بھی منع ہے اور غیر اللہ کی قسم کھانا بھی منع ہے، یہ گناہ کبیرہ
میں آتا ہے بلکہ غیراللہ کی قسم شرک میں داخل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِیت، وَلَا بِآبَائِکُمْ (صحیح
مسلم : 1648)
ترجمہ:ظاغوت اور آباء
واجداد کی قسم مت کھاؤ۔
ان دونوں قسموں کے
لئے اللہ تعالی سے سچی توبہ کریں اور آئندہ جھوٹی قسموں سے پرہیز کریں۔ صرف سچی
قسم کھاسکتے ہیں اور اللہ کی قسم کھانا چاہئے، غیراللہ کی نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ
جب آپ کا شوہر آپ پر شک کرتا ہے تو اس کو اب اطمینان دلاکر رکھیں۔ اس کا طریقہ یہ
ہے کہ اس سے بے لوث محبت کریں، اس کی خدمت کریں، جائز باتوں میں انکار نہ کریں اور
پیار و محبت سے اس کا دل جیتیں اور احساس دلائیں کہ آپ اس سے بے پناہ محبت کرتے
ہیں پھر وہ آپ سے محبت کرے گا اور شک کرنا چھوڑ دے گا۔ جس سے بات کرنے ، ملنے اور
جہاں جانے سے منع کرے رک جائیں۔
سوال: مسجد میں امام صاحب سورہ فاتحہ
پڑھتے ہیں تو بسم اللہ کے بغیر پڑھتے ہیں جبکہ بسم اللہ سورہ فاتحہ کی ایک آیت ہے پھر جہری
نماز میں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:ہر سورہ سے پہلے
بسم اللہ ایک مستقل آیت ہے، وہ اس سورت کی آیت نہیں ہے۔ اور سری نماز میں تو سرا
ہی پڑھنا ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے تاہم جہری نماز میں بسم اللہ جہرا پڑھیں
یا سرا اس میں اختلاف ہے۔ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت، پہلے بسم اللہ پڑھیں گے، اس میں
کوئی شک نہیں ہے۔ جہاں تک اس کا جہرا یا سرا پڑھنے کا مسئلہ ہے تو اس بارے میں
صحیح بات یہ ہے کہ جہری نماز میں بھی بسم اللہ سرا پڑھیں گے۔
سوال: حرم میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ
کے برابر ہے تو سوال ہے کہ جنازہ کی نماز کا بھی یہی اجر ہے اور ایک ساتھ کئی
جنازہ پڑھنے پر کتنے جنازہ کا ثواب ملے گا؟
جواب: حرم میں ایک
نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے، یہ ثواب فرض و نفل تمام نمازوں کو شامل ہے اس
وجہ سے جنازہ کی نماز کا اجر بھی ایک لاکھ کے برابر ہوگا۔ اور اگر کوئی ایک ساتھ
کئی جنازہ کی نماز ادا کرتا ہے تو جنازہ کی تعداد کے برابر اسے ثواب ملے گا۔
سوال: ایک آدمی جدہ سے کام کے واسطے مکہ
جاتا ہے اور وہ عمرہ بھی کرنا چاہتا ہے اس وجہ سے اپنے ساتھ احرام بھی لے جاتا ہے۔
اگر وہ عمرہ کرنا چاہے تو مسجدہ عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرسکتا ہے؟
جواب: اس معاملہ میں
دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ جدہ سے جاتے وقت پہلے سے ہی عمرہ کرنے کا پکا
ارادہ ہے تو وہ اپنی رہائش سے ہی احرام باندھ کر مکہ جائے اور پہلے عمرہ کرے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کام کی غرض سے جارہا ہے اور عمرہ کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے
میں تذبذب کا شکار ہے یعنی اگر موقع ملا تو عمرہ کرلے گا اور موقع نہیں ملا تو
عمرہ نہیں کرے گا۔ اگر اس طرح کی صورت ہے
تو مکہ پہنچ کر اپنا کام کرلے اور اگر عمرہ کا ارادہ بن گیا تو حدود حرم سے باہر
نکل کر کسی جگہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرلے۔ مسجد عائشہ قریب ہے وہیں سے احرام
باندھ لے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: ایک لڑکا پاکستان سے بن لادن کمپنی
میں آیا ہے، ایرپورٹ سے کمپنی والے اسکان لے گئے ہیں ، یہ مکہ میں حدود حرم میں ہے۔ کمپنی کے نظام کے حساب سے وہاں
رکھا گیا ہے تاکہ اسے ٹریننگ دی جاسکے۔ اس نے ابھی تک عمرہ نہیں کیا ہے۔ اگر وہ
عمرہ کرنا چاہے تو کس میقات پر جائے گا؟
جواب: چونکہ وہ حدود حرم میں موجود ہے اس لئے وہ عمرہ کرنا چاہے تو اسے کسی میقات پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ فقط حدود حرم سے باہر نکل کر کسی جگہ سے احرام باندھ لے اور وہاں سے مکہ آکر عمرہ کرے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔