Sunday, October 19, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(81)

 

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(81)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر حی السلامہ- سعودی عرب

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


سوال: توبہ کا طریقہ کیا ہے اختصار سے مجھے بتائیں؟

جواب:سچی توبہ کی تین شرطیں ہیں۔ سب سے پہلے آپ اپنے گناہ پر شرمندہ ہوں اور دل سے احساس کریں کہ واقعتا آپ نے کوئی خطا کی ہے اور اس پر پشیماں ہیں۔دوسری شرط یہ ہے کہ اس گناہ کو ترک کردیں، کبھی اس کے قریب نہ جائیں اور تیسری شرط یہ ہے کہ دل سے یہ پختہ ارادہ بھی کریں کہ آئندہ اس گناہ کو انجام نہیں دوں گا۔

اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو پھر ان تین شرطوں کے ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے معافی مانگ لیں یا اس کا کوئی حق ہو تو وہ لوٹا دیں۔

سوال: کیا دعا مانگنے کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا بدعت ہے؟

جواب:دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا اہل علم کے درمیان اختلافی مسئلہ ہے۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہیں اور بعض اس کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ چہرے پر ہاتھ پھیرنے سے متعلق مرفوع احادیث مروی ہیں مگر وہ سب ضعیف ہیں نیز اس بارے میں بعض آثار بھی منقول ہیں۔ الادب المفرد میں موجود ہے۔ ابو نعیم رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:

رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ يَدْعُوَانِ، يُدِيرَانِ بِالرَّاحَتَيْنِ عَلَى الْوَجْهِ(الادب المفرد:609)

ترجمہ: میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو دعا کرتے ہوئے دیکھا، وہ دونوں ہتھیلیوں کو چہرے پر پھیرتے تھے۔

اس اثر کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن حافظ ابن حجر نے حسن قرار دیا ہے۔

 اس مسئلہ  میں دلائل کی روشنی میں دعا کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرنا مرفوع روایات سے ثابت نہیں ہوتا ہے اس لئے چہرے پر ہاتھ نہ پھیرنا افضل ہے لیکن اگر کوئی دعا کرنے کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لے تو اس میں حرج بھی نہیں ہے کیونکہ اس سلسلے میں آثار ملتے ہیں۔

بعض لوگ اس مسئلہ میں شدت اختیار کرتے ہیں اور چہرے پر ہاتھ پھیرنے کو بدعت کہتے ہیں، یہ بات درست نہیں ہے۔ اسے بدعت نہیں کہنا چاہئے البتہ یہ بات اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ چہرے پر ہاتھ نہ پھیرنا افضل ہے اور کوئی پھیرلے تو حرج نہیں ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی اس بارے میں یہی رائے ہے۔

سوال: ایک خاتون پر اس کی ساس بہت ظلم کرتی ہے، روز کسی نہ کسی بہانے سے میاں بیوی میں لڑائی لگاتی ہے۔ اپنے بیٹے کو بیوی کے خلاف کرتی ہے۔ شوہر بھی اپنی ماں کے رویہ سے بہت پریشان ہے۔ روز روز کے ظلم سے تنگ آکر پوچھتی ہے کہ کیا وہ ظلم پہ قنوت نازلہ پڑھ سکتی ہے؟

جواب:قنوت نازلہ، ایک قسم کی بددعا ہے، یہ  مسلمانوں کے خلاف نہیں پڑھنا ہے بلکہ یہ کافروں کے خلاف پڑھی جاتی ہے۔ اس صورت میں کوشش کی جائے کہ میاں بیوی الگ جگہ رہیں اور ساس الگ جگہ تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور ایک ساتھ ہی رہنے کی مجبوری ہے تو بیوی کچھ صبر کرے، ساس کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے نظر انداز کیا کرے اور بطور خاص شوہر کی خدمت اور اس سے محبت اچھی طرح نبھاتی رہے۔ شوہر کا ساتھ رہے گا تو دنیا کی ساری تکلیف ہیچ ہے۔نیز ساس کے ساتھ حتی المقدور احسان وسلوک اور اس کی خدمت کیا کرے،ساتھ ہی اللہ سے اس کے دل میں رحم اور نرمی کی طرف دل پھیرنے کی دعا کیا کرے۔

سوال: ساحر یا شاجل(شازل) نام رکھ سکتے ہیں؟

جواب:ساحر کا معنی جادو گر ہے، یہ نام رکھنا صحیح نہیں ہے۔

شاجل یا شازل، یہ دونوں لغت میں موجود نہیں ہیں  اور ایک لفظ شاذل آتا ہے ، یہ بھی مہمل ہے۔ گویا یہ نام نہیں رکھ سکتے ہیں۔

سوال: بینک سے انٹرسٹ کا پیسہ آتا ہے، کیا وہ پیسہ کسی ہندو کو شادی میں دے سکتے ہیں یا پھر مسلمان بھائی جو جیل میں قید ہیں ان کی رہائی کے لئے دے سکتے ہیں؟

جواب:سودی بنک کا سود نجی کسی کام میں نہیں لگائیں گے، بہتر ہے کہ اسے رفاہی اور سماجی کام میں لگادیں۔ قیدی کی رہائی کے لئے یہ پیسہ لگاسکتے ہیں۔ ہندو کی شادی میں نہیں دیں کیونکہ وہ لوگ فضول خرچی کرتے ہیں اور غلط رواج میں پیسہ ضائع کرتے ہیں۔

سوال: انجینئر علی مرزا کو سننا اور اس سے دین کا علم لینا کیسا ہے، بعض لوگ اسے بہت پسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث کی بات کرتا ہے اور کہتا ہے ہم صرف مسلمان ہیں ہمارا کوئی فرقہ نہیں؟

جواب:اولا یہ عالم نہیں ہے، یہ عربی کتب اور نصوص کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ اس نے مشائخ سے علم نہیں حاصل کیا ہے۔ بھلا جو عالم نہ ہو اس سے کیسے علم حاصل کریں گے؟

دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرزا انتہائی غالی قسم کاشیعہ ہے  مگر یہ بات سبھی محسوس نہیں کر پارہے ہیں ۔ وہ صحابہ کی توہیں کرتا ہے، امت کے بہت سارے لوگوں کے دل میں صحابہ کے خلاف بغض پیدا کردیا ہے۔ اس کو سنتے سنتے آپ بھی صحابہ پر لعن طعن کرنے لگیں گے۔ جو صحابہ کا دشمن ہو وہ قطعا مسلمان نہیں ہوسکتا۔ صحابہ تو معیار ایمان ہیں، ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنا ہے، ان کی فہم کے مطابق دین پر عمل کرنا ہے اور ان کی طرح ایمان لانا ہے۔ جو صحابہ کو ہی مطعون کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ گرچہ مرزا کی کچھ باتیں اچھی ہیں مگر اغلاط زیادہ ہیں اور وہ دشمن صحابہ ہے۔ اہل بیت کی آڑ میں رافضیوں کا ایجنڈا چلا رہا ہے اس لئے رافضیوں کے نزدیک مزرا بیحد مقبول ہے۔نوجوان طبقہ کو میری نصیحت ہے کہ مرزا کے بیانات سننے سے گریز کریں۔ یہ قرآن وحدیث کی دعوت عام نہیں کررہا ہے بلکہ شیعیت پھیلارہا ہے۔ نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق ایک گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا، وہ گروہ اہل حدیث کا ہے۔ مرزا کا تعلق حق والے گروہ سے نہیں ہے اس لئے وہ گمراہ ہے اور عوام میں گمراہی پھیلا رہا ہے۔

سوال: میرے پڑوس میں ایک ریٹائرڈ فوجی ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو سود پہ پیسے دیتا ہے اور اسے وظیفہ بھی ملتا ہے۔ اس کو کچھ دیتے ہیں تو وہ برتن میں کچھ چیزیں دے کر واپس کرتا ہے۔ کیا ہم وہ کھاسکتے ہیں؟

جواب: ایک شخص کے پاس حلال آمدنی بھی ہو اور اس کے پاس کچھ حرام آمدنی بھی ہو تو اس کا تحفہ لے سکتے ہیں اور اس کی دعوت کھاسکتے ہیں۔ہاں جس کی کمائی مکمل حرام کی ہو اس سے نہ تحفہ قبول کریں گے اور نہ ہی اس کی دعوت کھائیں گے۔ سودی کاروبار میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس سے لین دین میں احتیاط کرتے ہیں تو اچھی بات ہے، آپ جو اس فوجی کو دیتے ہیں وہ چیزیں کسی ضرورت مند اور فقیر و مسکین کو دیا کریں، اس میں دل بھی مطمئن رہے گا اور اجر بھی ملے گا، ساتھ ہی ضرورت مند کی ضرورت بھی پوری ہوجائے گی۔

سوال: بچہ بہت شرارتی ہوگیا ہے اس کے لئے کوئی وظیفہ بتائیں؟

جواب:شرارت سے روکنے کا اسلام نے کوئی خاص  وظیفہ نہیں بتایا ہے۔ اس کے لئے بچے کو اسلامی تعلیم اور اسلامی تربیت کرنی پڑے گی۔ بچوں کو دینی ماحول دیں، دین سکھائیں، دین پڑھائیں اور دینی تربیت کریں۔ ساری شرات بند ہوجائے گی۔ وظیفہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔

آپ میری  اس بات کو مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں جیسے ایک آدمی بے نمازی ہے، کیا وظیفہ پڑھنے سے وہ نمازی بنے گا یا وہ نماز پڑھنا شروع کرے گا تب نمازی بنے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ نماز پڑھنا شروع کرے گا تبھی نمازی بنے گا۔اسی طرح کوئی وظیفہ پڑھنے سے کیا گھر میں کھانا بن جائے گا یا کھانا بنانا پڑے گا؟ ظاہر سی بات ہے آپ کھانا بنائیں گے تبھی کھانا تیار ہوگا۔ٹھیک یہی معاملہ شرارت کا ہے۔

اولا : بچپن میں بچوں کے اندر کچھ نہ کچھ شرارت ہوتی ہے۔

ثانیا: شرارت والے بچوں کے لیے اسلام نے کوئی وظیفہ نہیں بتایا ہے، جب اسلام نے وظیفہ نہیں بتایا ہے تو پھر ہم اپنی طرف سے کیسے وظیفہ گھڑ سکتے ہیں۔ یہ تو بدعتی لوگوں کا کام ہے جو ہر کام کا اپنی طرف سے وظیفہ گھڑ لیتے ہیں جبکہ ایسا کسی کو نہیں کرنا چاہیے۔

اور اس معاملہ میں آخری بات یہ ہے جو میں نے پہلے بھی بتائی ہے کہ آپ اپنے بچے کو دینی تعلیم دیں، نبیوں کے قصے کہانی اور دین کی روشنی میں بچے کی تربیت کریں، انہیں دینی اور اسلامی ماحول فراہم کریں تو بچے آپ خود اچھے بنیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو نماز کا حکم دو اور دس سال کا ہو جائے اور نماز نہ پڑھے تو اسے مارو۔یہ حکم آپ نے کیوں دیا تاکہ بچے اچھے بنیں۔ اسی طرح سے ہمارا بچہ اچھا بنے گا۔

سوال: میں نے اپنا زیور گروی رکھ کر پانچ لاکھ قرض لیا ہے، سوال یہ ہے کہ میں اپنے زیور کی زکوۃ دوں گی یا پانچ لاکھ کی؟

جواب:آپ کو پانچ لاکھ کی زکوۃ نہیں دینی ہے، اس کی زکوۃ وہ دے گا جس نے قرض دیا ہے، اگر وہ مسلمان ہے۔ اگر ہندو سے قرض لئے ہوں گے تو ممکن ہے اس کو سود بھی دینا پڑے گا اس وجہ سے سودی قرض لینا حرام ہے، اس سے گناہ ملے گا۔ سونا یا چاندی کا زیور نصاب کو پہنچتا ہو تو سالانہ اعتبار سے اس کی زکوۃ دینی ہے خواہ وہ رہن میں ہی کیوں نہ ہو۔

سوال: کیا تنہا خاتون یا بعض خواتین مل کر آٹو رکشہ یا ٹیکسی میں سوار ہو سکتی ہیں؟

جواب:ڈرائیور کے ساتھ اکیلی کسی لڑکی کو سوار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے خلوت لازم آئے گی اور اسلام میں خلوت سے منع کیا گیا ہے۔ایک سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو ٹیکسی میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ایسی صورت میں خلوت نہیں رہے گی۔

سوال: ایک خاتون اپنے پوتے پوتیوں کی طرف سے صدقہ جاریہ کا کام کر سکتی ہے، پوتے پوتیاں اسکول میں پڑھ رہے ہیں اور اسی طرح مرحومین کی طرف سے صدقہ جاریہ کر سکتی ہے؟

جواب:جو بچے ابھی بالغ نہیں ہیں ان کی طرف سے بھی صدقہ یا صدقہ جاریہ کا کام کرسکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ جو بڑے اور بالغ ہوں ان کی طرف سے صدقہ جاریہ کا کام کریں کیونکہ بلوغت سے پہلے بچوں کا گناہ نہیں لکھا جاتا۔میت کی طرف سے صدقہ جاریہ کرسکتے ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ مرحوم نہیں کہنا چاہیے، میت کہنا چاہیے کیونکہ مرحوم کا مطلب جس پر رحم کیا گیا اور ہمیں نہیں معلوم کہ کس پر رحم کیا گیا ہے۔

سوال: اگر رش کی وجہ سے ایک طواف مکمل ہونے کے بعد طواف کے نفل پڑھنے سے پہلے دوسرا طواف شروع کردیا جائے اور دونوں طواف کے نفل دو دو کر کے بعد میں پڑھے جائیں تو کیا ایسا کیا جاسکتا ہے؟

جواب:دین پر تھوڑا سا عمل کریں یعنی تھوڑی سی ہی نیکی کا کام کریں لیکن اچھے سے کریں، جلدی جلدی نیکی کا کام کریں لیکن اچھے سے نہ کریں تو ایسی نیکی کا فائدہ نہیں ہے۔

طواف عظیم عبادت ہے، جس کسی کو اس عبادت کی توفیق ملے وہ اطمینان و سکون سے طواف کرے۔ اگر کوئی اطمینان و سکون سے اور سنت کے مطابق صحیح طور پر ایک مرتبہ ہی طواف کر لے تو اس کے لیے یہی ایک طواف بہت ساری نیکیوں کا خزانہ ہے۔طواف کے سات چکروں میں دنیا جہان کی دعائیں کریں، اذکار پڑھیں اور صفا و مروہ پہ دل کھول کر جس قدر چاہیں دعائیں کریں۔ بھلا اس سے بڑھ کر کسی کو اور کون سا موقع چاہیے۔طواف کے سات چکر پورا کرنے کے بعد حرم میں کہیں پر بھی دو رکعت نفل نماز ادا کریں۔ پھر اس کے بعد طواف کا موقع ملے، بلاشبہ دوبارہ بھی طواف کر سکتے ہیں لیکن اگر بھیڑ ہے یا تھک گئے ہیں تو پھرطواف چھوڑ دیں، اس میں  کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

بہر کیف! سات چکر طواف کرنے کے بعد آدمی کو دو رکعت نفل نماز ادا کرنا چاہیے مگر یہ طریقہ درست نہیں ہے کہ دو بار طواف کرکے بعد میں دو دو رکعت نفل ادا کریں۔

سوال: مجھے مہندی، اسٹیچنگ اور کرافٹ میں دلچسپی ہے، ان کے ذریعہ تھوڑی کمائی کرلیتی ہوں۔ میں اس کام کو وسیع کرنا چاہتی ہوں یوٹیوب اور انسٹاگرام وغیرہ پر یعنی اپنے ہنر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کرنا چاہتی ہوں بغیر موسیقی اور بے پردگی سے بچتے ہوئے۔ اگر کوئی غیرمسلم اپنے ہاتھوں اور پیروں کی مہندی سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کی اجازت دے تو کیا یہ ویڈیو شیئر کرسکتے ہیں جبکہ وہ تو بے پردہ ہی رہتی ہے اور اسی طرح مصنوعی ہاتھ یا کاعذ کا ڈیزائن وغیرہ؟

جواب:مسلمان یا غیرمسلم کسی لڑکی کے جسم کا کوئی حصہ مثلا ہاتھ و پیر وغیرہ پہ  مہندی لگاکراس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرنا گناہ کا کام ہے، اس لئے یہ کمائی حرام ہوگی۔جاندار کی تصویر خواہ مسلم کی ہو یا غیر مسلم کی، اس کو شیئر کرنا جائز نہیں ہے، خواہ ہاتھ کی تصویر ہو یا پیر کی تصویر ہو یا جسم کے کسی اور حصے کی تصویر ہو۔

آپ کو میری نصیحت ہے کہ  آپ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کرکے اس سے پیسہ کمانے کی فکر چھوڑ دیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ ایک خاتون ہیں، آپ کے ذمہ گھر کے اخراجات پورے کرنے نہیں ہیں۔ شادی سے پہلے آپ کی ذمہ داری آپ کے والد پر اور شادی کے بعد آپ کی ذمہ داری آپ کے شوہر پر ہے۔

دوسری  بات یہ ہے کہ یوٹیوب وغیرہ پر ویڈیوز کے ذریعہ جو کمائی حاصل ہوتی ہے وہ پرچار کے ذریعہ ہوتی ہے اور پرچار کے اندر بہت ساری شرعی خرابیاں  ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اس کی کمائی کھانا جائز نہیں ہے۔

آپ اگر مہندی کی دکان چلاتے ہیں اور شرعی حدود میں رہتے ہوئےلڑکیوں کو مہندی لگاتے ہیں تو اس میں حرج نہیں ہے، ایسی کمائی کر سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ویڈیوز ڈال کر کمائی کرنے کا ارادہ ترک کر دیں۔

سوال: دوران طواف وضو باقی نہ رہے تو وضو کے بعد طواف نئے سرے سے کرنا ہوگا یا اسی چھوٹے ہوئے طواف کو مکمل کرنا ہوگا؟

جواب:طواف کے دوران اگر وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کرنا پڑے گا اور جب وضو کرکے آئیں گے تو پہلے جو طواف کیا ہے وہ شمار کیا جائے گا اور جتنا چکر باقی بچ گیا تھا بس اتنا ہی چکر پورا کرنا ہے۔

سوال: میرے یہاں ایک مسجد میں کسی نے ہندو کو کام پر رکھا ہے، وہی صفیں بچھاتا ہے اور کام وغیرہ کرتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب:مسجد کے اندر ہندو داخل ہوسکتا ہے اور ہندو کے ذریعہ مسجد کا کام  بھی کرایا جاسکتا ہے مگر مستقل طور پر مسجد کے اندر صفائی ستھرائی اور مسجد کے کام کے لیے ہندو کو رکھنے سے بہتر ہے مسلمان کو رکھا جائے کیونکہ مسلمان پاک صاف بھی رہتا ہے اور کام کاج میں بھی پاکی کا خیال رکھے گا۔ اسی طرح مسجد کی حرمت کا بھی خیال کرے گا جبکہ کافر سے ان باتوں کی امید نہیں ہے۔

سوال: آس پاس نیک لوگوں کی قبریں ہوں تو قریب والوں پر اثر پڑتا ہے؟

جواب: نیک لوگوں کی قبروں سے آس پاس والوں کو فائدہ نہیں پہنچے گا، انسان کو فائدہ اس کے اپنے عمل سے ہوتا ہے لہذا جس کا عمل اچھا ہوگا اس کی قبرمیں اس کو اپنے عمل کی بدولت فائدہ ہوگا اور جس کا عمل برا ہوگا اس کے ساتھ اس کی قبر میں برا ہوگا۔ اس کے قریب کسی نیک آدمی کی قبر ہونے سے اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

سوال: محمد زرار نام رکھ سکتے ہیں؟

جواب: زَرّار(زاء کو فتحہ اور راء کو تشدید کے ساتھ) عربی میں اس لفظ کا معنی تیز فہم والا، انتہائی زیرک ہے۔ یہ نام رکھا جاسکتا ہے۔ایک لفظ ہے، ضِرار(ضاد کے زیر کے ساتھ)۔ یہ کئی صحابہ کا نام ہے اس لئے یہ نام بھی رکھ سکتے ہیں۔لفظ "ضَرَّارْ" نام رکھنا درست نہیں ہے کیونکہ اس کے معنی بہت نقصان دینے والا ہوتا ہے۔

سوال: ہندؤں کے تہوار پہ بطور تحفہ دی جانے والی مٹھائی لے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب:ہندو تہوار کی مٹھائی قبول نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ ہندو عبادت پر تعاون مانا جائے گا۔ جیسے بدعتیوں کی نذر و نیاز کی چیزوں نہیں کھانی چاہئے ویسے ہی ہندؤں کے تہوار کی چیزیں بھی نہیں کھانی چاہئے خواہ وہ پرساد ہو یا پوجا پہ چڑھائی ہوئی چیز ہو یا چڑھائی ہوئی نہ ہو۔ کچھ بھی نہیں لینا چاہئے۔

ہندوستان کا ماحول مسلمانوں کے حق میں اس وقت بہت زیادہ سنگین ہے ، کہیں پر تہوار کی مٹھائی نہ لینا کسی مسلمان کے لئے وبال جان بھی سکتا ہے اس لئے اگر کسی مسلمان کے ساتھ اس طرح کی صورت حال ہو تو دل میں برا جانتے ہوئے اسے لے سکتا ہے مگر وہ جو چڑھاوے کی نہ ہو۔

سوال: کیا مسجد قبا میں اسی شخص کو عمرہ کا ثواب ملے گا جو اپنے گھر سے وضو کرکے جائے یا ہرکسی کو ملے گا؟

جواب: پہلے وہ حدیث پیش کرتا ہوں۔ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ تَطَهَّرَ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ أَتَى مَسْجِدَ قُبَاءَ، فَصَلَّى فِيهِ صَلَاةً كَانَ لَهُ كَأَجْرِ عُمْرَةٍ(ابن ماجہ:1412)

ترجمہ:جو شخص اپنے گھر میں وضو کرے، پھر مسجد قباء آئے اور اس میں نماز پڑھے، تو اسے ایک عمرہ کا ثواب ملے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اپنے گھر سے وضو کرکے مسجد قبا جائے اور اس میں نماز پڑھے تو اسے عمرہ کا ثواب ملے گا لہذا جو کوئی عمرہ کا ثواب حاصل کرنا چاہے وہ اپنے گھر سے وضو کرکے اور مسجد قبا میں نماز کا اجر پانے کی نیت سے وہاں جائے۔ اگر کوئی اپنے گھر سے وضو کرکے نہیں جاتا مگر مسجد قبا میں نماز کا قصد کرکے وہاں نماز پڑھتا ہے تو اسے بھی نیت کی وجہ سے عمرہ کا ثواب ملے گا تاہم بہتر ہے کہ وضو کرکے مسجد قبا جائیں۔ بہت سے لوگوں کا مدینہ میں یا مسجد قبا کے آس پاس اپنا گھر نہیں ہوتا، وہ دور دور سے مدینہ آتے ہیں اور مسجد قبا میں نماز کی نیت کرکے وہاں جاتے ہیں تو کیا ان کو عمرہ کا ثواب نہیں ملے گا۔ یقینا ثواب ملے گا۔ بلاقصد مسجد قبا میں نماز پڑھنے والوں کو یہ اجر نہیں ملے گا  تاہم اس مسجد میں نماز پڑھنا زیادہ اجر کا باعث ہے، نبی ﷺ ہر ہفتہ پیدل یا سوار اس مسجد آیا کرتے اور یہاں نماز ادا فرماتے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔