آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(83)
جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ – سعودی عرب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سوال: کیا مکہ میں اپنی بلڈنگ سے عمرہ کی
نیت کرکے عمرہ کرسکتے ہیں یا میقات جانا ضروری ہے؟
جواب:مکہ میں رہنے والے اپنی بلڈنگ سے عمرہ کی نیت کرکے
عمرہ نہیں کر سکتے ہیں، اس کو ہر حال میں حدود حرم سے باہر جانا پڑے گا یعنی کعبۃ
اللہ کے چاروں طرف جو حدود حرم ہیں ان سے باہر جانا ہے اور وہاں سے احرام باندھ کر
عمرہ کرنا ہے جیسے مسجد عائشہ جائے اور وہاں سے احرام باندھے۔ کسی میقات پر جانے
کی ضرورت نہیں ہے، فقط حدود حرم سے باہر جاکر احرام باندھنا ہے۔
سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے
دی پھر نہ مرد نے شادی کی اور نہ عورت نے۔ بارہ سال بعد پھر ان دونوں کا نکاح ہو
گیا، کیا یہ درست ہے یا وہ عورت حرام تھی اس مرد پر؟
جواب:جب شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق دیتا ہے اور تین
حیض کی عدت میں رجوع نہیں کرتا ہے تو اس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہو جاتی ہے
یعنی ایک دوسرے کے لیے غیر محرم ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ دونوں پھر سے شرعی طور پر
نکاح کریں تو پھر سے میاں بیوی ہو سکتے ہیں۔ اور جیساکہ ذکر کیا گیا ہے کہ بارہ
سال بعد دونوں کا نکاح ہوا ہے تو یہ بالکل درست ہے۔ اب یہ دونوں پھر سے میاں بیوی
ہو گئے ہیں۔ میاں بیوی کا یہ رشتہ نکاح کی وجہ سے ہوا، اگر نکاح نہ کیا جاتا تو
آپس میں ایک دوسرے کے لئے غیر محرم ہی رہتے۔
یاد رہے کہ پہلی یا دوسری طلاق کے بعدجب زوجین میں
جدائی ہوجائے تو سابق شوہر اپنی سابقہ بیوی سے نکاح کرسکتا ہے لیکن جب تیسری طلاق
ہو جائے تو اس کے بعد نکاح نہیں ہوگا الا یہ کہ کوئی دوسرا مرد اس عورت سے شادی
کرے اور دخول کے بعد جدائی ہو جائے تو پھر یہ عورت اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی
ہے۔
سوال:میں ایک گیارہ سال کے لڑکے کو قرآن
پڑھا رہی ہوں جو بلوغت کے قریب ہے لیکن ابھی بالغ نہیں ہوا ہے تو کیا اسے پڑھانا
جائز ہے؟
جواب:تعلیم دینے میں اصل یہ ہے کہ عورت لڑکیوں اور
عورتوں کو تعلیم دے اور مرد لڑکے اور مردوں کو تعلیم دے تاہم ضرورت کے وقت عورت
شرعی حدود میں رہتے ہوئے لڑکوں کو بھی تعلیم دے سکتی ہے۔
اس دور میں گیارہ سال کا لڑکا بہت زیادہ سمجھدار ہوتا
ہے، یہ بات دھیان میں رہے اور یہ بھی دھیان میں رہے کہ عورت کو مردوں کے ساتھ خلوت
سے منع کیا گیا ہے یعنی ایک عورت اور ایک مرد تنہائی میں نہیں رہ سکتے چاہے تعلیم
کی غرض سے ہی کیوں نہ ہو لہذا اس لڑکے کے ساتھ کوئی اور بھی ہو یا دوسرے لڑکے ہوں
تو ٹھیک ہے، ورنہ اکیلے لڑکے کو پڑھانے سے پرہیز کرے۔
سوال: آج کل انڈیا میں جو نوجوان بگاڑ کے
شکار ہورہے ہیں ان کے والدین کیا کرسکتے ہیں تاکہ وہ اولاد نیکی کی طرف آجائیں؟
جواب:ماحول کیسا بھی ہو اور کوئی بھی جگہ ہو، والدین کو
اپنی اولاد کی اسلامی تربیت کرنی ہے۔ بچپن سے بلوغت اور شادی ہونے تک مکمل ذمہ
داری کے ساتھ اسلامی تعلیم و تربیت دیتے
رہیں گے۔ جن بچوں کو ان کے والدین دینی تعلیم دیں اور دینی تربیت کریں وہ بچے
ہرقسم کے ماحول میں محفوظ رہیں گے۔بچے اس لئے بگڑتے ہیں کہ ہم ان کو انگریزی تعلیم
تو دلادیتے ہیں مگر دین نہیں سکھاتے اور دینی تربیت اور دینی ماحول نہیں دیتے۔
شروع دن سے ہی بچوں کے لئے اسلامی تعلیم کا اہتمام کریں، بچوں کو بالکل نگرانی میں
رکھیں، بری جگہوں ، برے ساتھیوں اور غلط چیزوں کی چھوٹ نہ دیں۔ نیز بچپن سے نماز
کا عادی بنائیں، ذکر واذکاراور تلاوت کی عادت ڈالیں خصوصا سونے جاگنے اور صبح وشام
کے اذکار روزانہ پڑھاکرے۔ ساتھ ہی گھرکاماحول اچھابنائیں، خود والدین بھی بچوں کے
لئے بہترین نمونہ بنیں اور موبائل سے بچپن میں جس قدر دور رکھ سکیں ، دور رکھیں
کیونکہ اس سے بچے جس قدر جلدی بگڑتے ہیں اتنی جلدی برے ماحول یا بری صحبت سے بھی
نہیں بگڑتے ۔
سوال: جو ہمارے پرانے کپڑے خراب ہوجاتے
ہیں ان کو گھرکی صفائی وغیرہ کے لیے استعمال کرسکتے ہیں؟
جواب:پرانے کپڑوں سے گھر کی صفائی کرنے میں کوئی حرج
نہیں ہے۔ یہ کوئی متبرک چیز تو نہیں ہے جس کو ہم حفاظت سے رکھیں گے۔ کپڑا پہننے
اور استعمال کرنے کی چیز ہے۔ بہت قسم کے نئے کپڑوں یا نت نئی چیزوں سے کچن، برتن
اور گھر صاف کرتے ہیں۔ اسی طرح پرانے کپڑوں سے بھی گھر صاف کر سکتے ہیں۔
سوال: جب ہم وضو کرتے ہیں اور ہم اپنا
چہرہ دھوتے ہیں تب اس درمیان اگر ہم بے دھیانی میں اپنی ناک میں پھر سے انگلی ڈال
کر صفائی کرنے لگیں یاکوئی اور وضو کا حصہ ملنا شروع ہوکردیں تب کیا ہمیں اپنا وضو
پھر سےدہرانا پڑے گا؟
جواب:وضو میں اعضائے وضو کو دھلتے ہوئے ترتیب کا خیال رکھیں
اور ترتیب سے اعضائے وضو کر دھلیں۔ وضومیں کسی حصے کو تین بار سے زیادہ نہیں دھلا
جائے گا۔ نیز وضو کرتے ہوئے پھر سے ان اعضاء کو نہیں دھلنا ہے جن کو پہلے دھل چکے
ہیں مثلا کلی کرکے ہاتھ دھل رہے ہیں تو پھر سے کلی نہیں کرنے لگیں گے۔ بےدھیانی
میں ایسا کربیٹھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم وضو عبادت ہے اس کا خیال کرکے اچھی
طرح وضو کریں۔ اس پر بہت اجر ملتا ہے۔
سوال: کیا جمعہ مبارک کہنا جائز ہے ۔ ہم
دیکھتے ہیں کہ حنفی لوگ دعا اور خوشی کے
طورپر"جمعہ مبارک" کہنے کو جائز مانتے ہیں نیزیہ بھی کہتے ہیں کہ اسے
دین کا مستقل عمل یا ضروری چیز نہ سمجھا جائے؟
جواب:حنفی علماء جمعہ مبارک کہنے کو جائز قرار دیتے
ہیں، انہی علماء کے فتوی کی وجہ سے لوگوں نے اس عمل کو معمول بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ
ہے کہ آپ ہر جمعہ نوجوانوں میں ایک دوسرے کو جمعہ مبارک کہتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ جمعہ افضل اور مبارک دن ہے مگر اس دن کی
مبارک بادی دینے کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنے زمانے والوں کو سب سے بہترین لوگ قرار دیا ہے مگر ان لوگوں نے بھی کبھی ایک
دوسرے کو جمعہ مبارک نہیں کہا ہے جبکہ ان لوگوں کا بھی ہر ہفتہ، جمعہ سے سابقہ
پڑتا ہوگا، پھر کسی کے لئے جمعہ مبارک کہنے کا جواز کیسے نکل سکتا ہے۔جب ہمیں یہ
معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں جمعہ مبارک کہنے کی دلیل نہیں ہے تو پھر کسی کو جمعہ
مبارک نہیں کہنا چاہیے۔
سوال: ٹخنے صرف نماز میں ننگے رکھنے
چاہیے یا ہر وقت مردوں کے ٹخنے ننگے ہونے چاہیے جس کے لئے احادیث میں وعید آئی ہے؟
جواب:مردوں کو اپنا ٹخنہ ہمیشہ کھلا رکھنا ہے، یہ نماز
کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہمہ وقت کے لئے ہے کیونکہ ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ
نماز میں ٹخنہ کھلا رکھنا ہے اور نماز کے باہر ڈھک سکتے ہیں۔ اس بارے میں جو حدیث
ہے وہ عام ہے اور تمام اوقات کو شامل ہے۔
سوال: شرکیہ نذر کا کیا کفارہ ہے؟
جواب: شرک ایک بڑا گناہ ہے، کوئی شرک سے متعلق نذر مان
لے تو اس کو پورا نہ کرے کیونکہ شرک بڑا گناہ ہے یعنی اس شرکیہ عمل کوچھوڑ دے اور اس گناہ سے سچے دل سے توبہ کرے اور آئندہ اس طرح
کی نذر نہ مانے، یہی اس کا کفارہ ہے۔
سوال: کسی بہن نے چالیس روزے رکھنے کی
نذر مانی تھی جسے اب وہ رکھ نہیں پا رہی ہے تو وہ اس کے لئے کیا کفارہ ادا کرے؟
جواب:ایسی بہن کو پہلے آپ سمجھائیں کہ نذر ماننے سے کچھ
نہیں ہوتا لیکن اگر نذر مان لی جائے تو اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ دوسری بات
یہ ہے کہ عورتیں نذر ماننے میں جلد باز ہوتی ہیں ، نذر ماننے کے بعد سوچتی ہیں کہ
اس پر عمل کرنا مشکل ہے، اس کو پہلے ہی سوچنا چاہئے کہ وہ کیا کرسکتی ہے یا نہیں
کرسکتی ہے۔ جب پوری کوشش کے باوجود نذر کا پورا کرنا مشکل ہو تو قسم کا کفارہ ادا
کردے نذر پوری ہوجائے گی لیکن نذر پوری کرنے کی طاقت ہو تو ہرحال میں نذر پوری
کرنی ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كفارةُ النذرِ كفارةُ اليمينِ(صحيح مسلم:1645)
ترجمہ: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
سوال: میرے خاندان میں کسی کا نکاح ہے جو
امارات میں رہتا ہے اور ان کی منگیتر انڈیا میں رہتی ہے۔ ہوا یہ ہے کہ لڑکی کو
امارات نکاح کے بعد لے جانے کے لئے کاغذی کاروائی کرنی تھی اس لئے اس نے نکاح سے
پہلے لیگل میریج کیا تاکہ ویزا وغیرہ بناسکے تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس کے بعد
دونوں ایک دوسرے کے لئے محرم ہوئے یا نکاح کے بعد ہوں گے؟
جواب:جس لڑکا نے محض ویزا لینے اور لڑکی کو اپنے پاس
بلانے کے لئے کاغذی نکاح کیا ہے یہ انتہائی غلط کام ہے، یہ ایک طرف شریعت کے ساتھ
کھلواڑ ہے تو دوسری طرف دو ممالک(انڈیا اور امارات) کے ساتھ دھوکہ بھی ہے کیونکہ
اس نے تو نکاح کیا نہیں ہےمگر فرضی سرٹیفیکیٹ بنالیا جبکہ حکومت کی نظر میں وہ
کاغذ کے ذریعہ خود کو نکاح والا بناکر پیش کررہا ہے۔ اس سے نکاح تو نہیں ہوا اور نہ لڑکی اس سے اس
کی بیوی یا محرم ہوجائے گی لیکن اس سے گناہ ملے گا۔ وہ اللہ تعالی سے توبہ کرے۔
نکاح کا شریعت نے ہمیں ایک نظام اور طریقہ دیا ہے اسی
طریقے سے نکاح ہوتا ہے۔ شرعی طور پر نکاح نہیں کرنے سے نکاح نہیں ہوتا ہے۔لڑکے کو
شادی کرنا تھا تو انڈیا آکر شادی کر لیتا پھر بیوی کو اپنے ساتھ لے کے باہر جاتا
یا اتنی جلدی بازی تھی تو آنلائن شرعی طور پر نکاح کرلیتا پھر کاغذات بناتا تاکہ
کاغذات جھوٹے نہ ہوتے۔
بہرکیف! جھوٹے کاغذات بنانے سے نکاح نہیں ہوتا ہے، شرعی
طور پر نکاح کرنے سے لڑکی حلال ہوتی ہے اور جب تک نکاح نہ ہواس لڑکی سے بلاضرورت
بات چیت، اس سے خلوت ، اس کے ساتھ گھوم کھام اور تنہائی جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس
کے حق میں نکاح سے پہلے اجنبی ہے۔
سوال: میں اپنی بیٹی کے لئے رشتہ دیکھ
رہی ہوں تو مجھے کسی نے کہا کہ اس پہ بندش ہوئی ہے اور اس بندش کو دور کرنے کے لے
دم کرنا ہوگا اور وہ بھی فیس پہ بھاری رقم کے ذریعہ مگر میرا دل نہیں مانتا۔ اللہ کے کاموں میں کیسے
بندش ہو گی۔ ہرکام کا ایک وقت لکھا ہوا ہے۔میں روز سورہ البقرۃ کی تلاوت سنتی ہوں
بلکہ میری بیٹیاں بھی سنتی ہیں۔ساتھ رقیہ شرعیہ بھی کرتے ہیں۔ آپ بتایئے کہ کیا یہ
بندش ہوتی ہے؟
جواب:جس بندے نے یا بتایا کہ تمہاری لڑکی پر بندش ہے ،
فیس کے ساتھ رقیہ کروانا پڑے گا ، وہ بندہ مال کمانے والا پیشہ ور عامل ہے۔ ایسے
آدمی کی بات پر ہرگز یقین نہ کریں اور نہ اس سے کسی قسم کا رقیہ کروائیں۔ اصل
معاملہ یہ ہے کہ جو بھی پیشہ ور عامل ہوتا ہے وہ لوگوں سے مال کمانے کے بہانے تلاش
کرتا رہتا ہے اور جب بھی کوئی اس کے پاس
کسی پریشانی کو لے کر جائے گاتو
ہرکسی کو یہی کہے گا کہ تم پرآسیب، سحراور
جادو کا اثر ہے تاکہ وہ اس سے جھاڑپھونک
کرائے اور مال کمائے۔ کمزور ایمان والے سحر وآسیب کے نام سےفورا ڈر جاتے ہیں اور
عامل کے فریب میں آجاتے ہیں۔
اس عورت سے کہیں کہ
آپ اپنی بیٹی کا رشتہ تلاش کرتے رہیں اور دین کی بنیاد پر دین دار لڑکے سے بیٹی کا
نکاح کریں۔ دنیا داری کو معیار نہیں بنائیں بلکہ دین کو معیار بنائیں اور اگر دین
داری کہیں نظر آجائے تو اپنی بیٹی کا نکاح کر دیں بھلے لڑکا غریب ہی کیوں نہ ہو۔یاد
رکھیں سورہ بقرہ سننے سے یا رقیہ کرنے سے رشتہ نہیں ملتا ہے، رشتہ تلاش کرنے سے
ملتا ہے اور آج کے زمانے میں لڑکیوں کا رشتہ بہت مشکل سے ملتا ہے، اس کی بہت ساری
وجوہات ہیں مگر ان میں جادو اور بندش کا
مسئلہ نہیں ہے بلکہ لوگوں نے خود ہی مسئلہ پیدا کیا ہے۔
سوال: بیٹے کا نام بالاج رکھ سکتے ہیں؟
جواب:میرے علم میں بالاج
کوئی لفظ نہیں ہے، یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ
لوگوں میں پھیلایا ہوا غلط لفظ ہے جو لوگوں میں مشہور ہو گیا ہے۔ اس لفظ کی کوئی
حقیقت نہیں ہے اس لئے اپنے بیٹے کا نام بالاج مت رکھیں۔
سوال: حرام پیسوں سے خریدا ہوا کھانا
اپنے گھر والوں میں سے کسی کے لئے کھانا جائز ہے یا اس سے پرہیز کرنا چاہئے؟
جواب:حرام پیسوں سے
خریدا ہوا کھانا کسی کو نہیں کھانا چاہئے، نہ خود کھائیں اور نہ ہی گھر کے کسی فرد
کو کھانے دیں۔جو کوئی آپ کوایسا کھانا دے اس سے یہ کھانا قبول ہی نہیں کرنا چاہئے۔
واپس کردینا چاہئے۔یاد رہے کہ صرف شک کی بنیاد پر کسی کھانے کو حرام کا کھانا نہیں
کہہ سکتے ہیں جب تک کہ آپ کے پاس اس کے بارے میں ٹھوس اور یقینی علم نہ ہو۔
سوال: ایک خاتون کا بیٹا بلڈنگ سے گر کر
وفات پاگیا اس لئے کہ اس میں گریل نہیں
لگی تھی۔ یہاں پر بلڈر کی غلطی تھی اس بناپر بلڈر نے ہرجانہ کے طور پر کچھ رقم دیا
ہے تو کیا اس پیسے کو استعمال کرنا جائز ہوگا؟
جواب:موت تو اپنے وقت
پر آتی ہے مگر ہمیں جوکھم لینے، بداحتیاطی کرنے اور خود کو نقصان پہنچانے سے اسلام
نے منع کیا ہے۔ خطرہ میں قدم ڈالنے سے انسان کو نقصان پہنچتا ہے ، یہاں بھی مکان
میں گریل نہ ہونے سے خطرہ ہے اسی سے بچے کو نقصان پہنچا ہے۔ مکان مالک نے تعاون اور ہرجانہ کے طور پر کچھ پیسہ دیا ہے تو اس کے
لینے میں حرج نہیں ہے، یہ پیسہ لیا جاسکتا ہے اور اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
سوال: بچیاں اپنا حفظ کسی مرد حافظ کو
سنا سکتی ہیں یا بچیوں کے حفظ کرنے کے لئے عورت کا ہونا ضروری ہے؟
جواب:اصل یہی ہے کہ
لڑکیوں کو عورت سے ہی تعلیم لینی چاہیے اور معلمہ کو ہی اپنے اسباق سنانا چاہیے۔
جو بچی قرآن حفظ کر رہی ہے اس کے لیے افضل وبہتر یہی ہے کہ وہ کسی خاتون کو اپنا حفظ قرآن سنائے۔ ویسے بھی زمانہ پرفتن ہے،
احتیاط کرنا زیادہ بہتر ہے۔
قرآن کی تعلیم میں
تجوید، مخارج اور آواز کو بہتر بنایا جاتا ہے جبکہ قرآن میں اللہ تعالی نے عورتوں
سے کہا ہے کہ تم اپنی آواز میں لچک پیدا کرکے بات نہ کرو۔ اس وجہ سے بھی مرد کو
قرآن سنانا درست نہیں ہے۔
الحمدللہ یہ ترقی
یافتہ زمانہ ہے، اس وقت تعلیمی اعتبار سے بہت ساری سہولیات آنلائن بھی میسر ہیں
لہذا اگر قرب و جوار میں کوئی معلمہ نہ ہو تو واٹس ایپ یا دوسرے اپلیکیشنز کے
ذریعہ بچیاں کسی خاتون کو سبق سنا سکتی ہیں۔
بوقت ضرورت بچیاں احتیاط کے ساتھ مرد حافظ کے پاس بھی سبق سناسکتی ہے۔
سوال: وضو کی بعد ناخن کاٹنے سے وضو ٹوٹ
جاتا ہے؟
جواب: شاید لوگوں میں یہ غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے
کہ وضو کی حالت میں ناخن نہیں کاٹ سکتے ہیں اس وجہ سے یہ سوال عام لوگوں کی طرف سےبارہا
کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وضو کی حالت میں ناخن کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور
اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔
سوال: اگر کسی لڑکی کا نکاح ہوا اور مہر
بھی مقرر ہو چکا لیکن رخصتی ابھی نہیں ہوئی اور لڑکی رخصتی سے پہلے خلع کا مطالبہ
کرتی ہے تو جو کچھ مہر ادا ہو چکا ہےاور
تحفے تحائف دئے گئے ہیں۔ اب لڑکی اس میں سے کچھ رکھنے کی حقدار ہے یا نہیں؟
جواب: خلع مالی عوض
کے ذریعہ شوہر سے جدائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس وجہ سے خلع میں بیوی مال پیش کرکے
خلع حاصل کرتی ہے۔ شوہر نے مہر دیدیا ہے تو اسے واپس کرکے خلع لے سکتی ہے ۔ اگر
شوہر خلع کے لئے پورا مہر مانگے تو پورا لوٹانا ہے اور اگر اس میں سے کچھ چھوڑدے
تو جس پر اتفاق ہوا ہے وہ مال شوہر کو واپس کرے۔ جہاں تک مہر کے علاوہ دوسرے ہدیہ اور تحفہ کی بات کی ہے تو کسی کو
تحفہ دینے سے وہ اس کا ہوجاتا ہے جسے دیا جاتا ہے۔ اس میں سے کبھی بھی تحفہ دینے
والا مطالبہ نہیں کر سکتا ہے۔ شادی کے موقع پر رسمی طور پربھی بہت ساری چیزیں دی
جاتی ہیں لہذا جدائی کے موقع پر عرف کا خیال کرکے لوٹانے والی چیز لوٹادینی چاہئے۔
سوال: کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولی
علی کہنا درست ہے؟
جواب:عربی زبان میں
مولی کے کئی معانی ہیں، ان میں مالک، سردار، آقا، غلام، کارساز، محبت کرنے والا ،
رشتہ دار اور ساتھی وغیرہ ہیں۔
اوپر آپ نے مولی کے
کئی معانی دیکھے ہیں، ان معانی پر غور کیا جائے تو اللہ بھی مولی ہے اور اللہ کے
علاوہ دوسروں کو بھی مولی کہا جاسکتا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالی
نے اپنے لئے مولی کا لفظ ذکر کیا ہے چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِن تَوَلَّوْا
فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الانفال:40)
ترجمہ:اور اگر
روگردانی کریں تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے، وہ بہت اچھا کارساز
ہے اور بہت اچھا مددگار۔
یہاں اس آیت میں
مولی کارساز کے معنی میں ہے، گویا اصل
مولی تو اللہ ہی ہے کیونکہ وہی مالک حقیقی اور کارساز ہے اس معنی کے لحاظ سے اللہ
کے علاوہ کسی اور کے لئے مولی کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
اور چونکہ مولی کے
دوسرے معنی محبت کرنے والا اور دوست و رشتہ دار وغیرہ کے بھی ہیں لہذا اس دوسرے
معنی کا اعتبار کرکے اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی مولی کہا جاسکتا ہے۔ اسی دوسرے
معنی کا اعتبار کرکے نبی ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مولی کہا ہے۔
ابوسریحہ یا زید بن ارقم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
مَنْ كُنْتُ
مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ(سنن الترمذي:3713)
ترجمہ: جس کا میں
دوست ہوں علی بھی اس کے دوست ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں
مولی علی کہنا بالکل درست ہے مگر یہاں پر ایک اشکال ہے اس کو، عوام کے لئے جاننا
ضروری ہے۔ اشکال یہ ہے کہ عام طور پر شیعہ
علی رضی اللہ عنہ کو مولی علی کہتے ہیں اور شیعہ علی کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے
ہیں کہ وہ مشکل کشا ہیں جبکہ یہ شرکیہ عقیدہ ہے اور مختار و مشکل کشا کا اعتبار
کرکے حضرت علی کو مولی علی کہنا غلط ہی نہیں ہوگا بلکہ ایسا کہنا شرک کہلائے گا
جیساکہ میں نے اوپر بتایا ہے کہ اصل مولی تو اللہ تعالی ہے۔
دوست کے معنی میں
مولی علی کہہ سکتے ہیں بلکہ سارے صحابہ اور سارے مومنوں کو مولی کہہ سکتے ہیں۔ یہ
لفظ صرف حضرت علی کے لئے خاص نہیں ہے اس لئے جہاں مولی علی کہہ سکتے ہیں ، وہیں
مولی ابوبکر، مولی عمر اور مولی عثمان بھی
کہہ سکتے ہیں اور اسی معنی کا اعتبار کرکے عالموں کو بھی مولانا کہا جاتا ہے۔ ایسا
کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: ایک لڑکی ہسپتال میں نوکری کرتی ہے
اور دو بجے کے قریب گھر آتی ہے، اسے دو سے
پانچ بجے شام تک سونا رہتا ہے۔ اس دوران عصر کی نماز رہ جاتی ہے تو کیا وہ عصر کی
نماز جمع کرکے پڑھ سکتی ہے؟
جواب: نماز کا وقت
اللہ کی طرف سے متعین ہے، اس وقت کو کوئی بدل نہیں سکتا ہے۔ ہمیں اپنے کام یا اس کا وقت بدلنے کی ضرورت ہے مگر نمازہرحال میں اپنے وقت پر ہی ادا کرنا ہے۔ کسی دن عذر لاحق
ہوجائے اور کوئی نماز قضا ہو جائے تو دوسرے وقت میں اس کو ادا کرلیں گےجیسے کسی دن
گھرلوٹتے ہوئےنماز عصرچھوٹ جائے تو مغرب کے وقت اسے ادا کرلیں مگر ہمیشہ نمازعصر کو اپنے کام کی وجہ سے چھوڑ
کر اور سوئے رہ کر مغرب کے وقت پڑھنا جائز
نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر نماز کا اول و آخر وقت ہوتاہے۔ اگر نوکری کرنے والی خاتون عصر کو اول
وقت پر ادا نہیں کرسکتی ہے تو مغرب سے پہلے پہلے ادا کرنا جائز ہے کیونکہ عصر کا
وقت سورج ڈوبنے سے پہلے تک ہے اور عورتوں کے لئے جماعت کی پابندی نہیں ہے۔ گوکہ اول
وقت پر نماز افضل ہے تاہم مغرب سے پہلے وہ عصر پڑھ سکتی ہے۔
سوال: سسرال والے شادی کے لئے چہرے کا
پردہ چھوڑنے کا کہیں تو ایک ایسی لڑکی جو کہ پہلے ہی چھتیس سال کی ہو چکی ہے وہ ان
کی یہ بات مان کر ایسا کر لے؟
جواب:اللہ کی
نافرمانی میں مخلوق کی بات ماننا جائز نہیں ہے۔ لڑکی کی عمر جس قدر بھی ہوگئی ہو
مگر اس قسم کی شرط پر شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ لڑکی کو لڑکے سے شادی کرنا ہے،
سسرال والوں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے اس کے لئے لڑکی اپنے محرم کے
ذریعہ منگیتر سے ٹھوس بات کرے۔ اگر منگیتر بھی بے پردے رہنے کے لئے مصر ہے تو وہ بے غیرت مرد ہے اس کو حدیث
میں دیوث کہا گیا ہے یعنی ایسا مرد جو گھر کی عورت کی بے پردگی اور بے حیائی پر
خاموش رہے وہ دیوث ہے اور دیوث پر اللہ کی لعنت ہے، ایسے دیوث سے لڑکی شادی نہ
کرے۔ شادی کوئی مشکل معاملہ نہیں ہے، ذرا
اپنے دنیاوی معیار سے نیچے اتر کر شادی کریں ہزاروں لڑکے ملیں گے مگر لوگ برادری ،
دنیاداری اور امیر و غریب کے چکر میں پریشان ہوتے ہیں۔
سوال: ایک بہن جب بھی نفلی عمرہ کرنے
جاتی ہے تو وہ اس عمرے میں اپنی طرف سے نیت کرتی ہے اور ساتھ ہی اپنے جو رشتے دار
فوت ہوچکے ہیں ان کی طرف سے بھی نیت کرتی ہے۔ کیا ایک نفلی عمرہ میں کئی لوگوں کی
طرف سے نیت کی جا سکتی ہے؟
جواب: پہلی بات یہ ہے
کہ ایک بار میں یعنی ایک عمرہ میں ایک ہی آدمی کی طرف سے عمرہ کیا جائے گا ۔ دوسری
بات یہ ہے کہ اس عورت کو چاہئے کہ جب اسے عمرہ کرنے کا موقع ملے توصرف اپنی جانب سے عمرہ کرے، کسی اور کی طرف سے
عمرہ نہ کرے۔ ہر کسی میت کی طرف سے عمرہ کرنے کی قرآن و حدیث میں دلیل نہیں ہے۔ جو
وفات پاگیا اس کی دنیاوی مہلت ختم ہوگئی، جو زندہ آدمی ہے، وہ خود نیکی کے لئے
محتاج ہے ، زندہ کو چاہئے اپنے لئے جتنی نیکی کرسکے ،کرنے کی کوشش کرے۔ آخرت میں
جہنم میں جانے والے اس دنیا میں دوبارہ آنے کی اللہ سے درخواست کریں گے تاکہ
دوبارہ دنیا میں جاکر نیک عمل کریں۔ اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہمیں دنیا ملی ہے تو اس کو غنیمت
جان کر اپنے لئے کثرت سے نیکی کریں۔ میت کے لئے جس قدر چاہیں دعائے استغفار کریں،
یہی کافی ہے۔ہاں اگر والدین یا ان میں سے کوئی فوت ہوگئے ہوں اور وہ عمرہ نہ کئے
ہوں تو ان کی طرف سے ایک بار عمرہ کرلیں مگر ہرکسی کی طرف سے یا اپنے ایک عمرہ میں دوسرے کی نیت نہ کریں۔
سوال: یابدیع( اے بغیر ذریعہ پیداکرنے
والے)۔ کوئی غم یا مصیبت یا کوئی مہم درپیش ہو تو بارہ روز تک بعد نماز عشاء بارہ
سو مرتبہ " یا بدیع العجائب بالخیر یا بدیع" پڑھے تو بارہ دن کے اندر
تمام مقاصد میں کامیابی حاصل ہوگی۔ یہ ایک وظیفہ ہے ، سوال یہ ہے کہ جو بارہ یا
اکیس دن والے وظائف ہوتے ہیں وہ چاند کی چڑھتی تاریخ سے یا گھٹتی تاریخ سے شروع
کرنا چاہئے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ یہ
وظیفہ قرآن وحدیث میں موجود نہیں ہے، یہ کسی بدعتی نے اپنی جانب سے گھڑ لیا ہے۔آپ
یہ سمجھ لیں کہ دین وہی ہے جو قرآن اور حدیث میں موجود ہے ، جو قرآن وحدیث میں
موجود نہیں وہ دین نہیں ہے لہذا یہ گھڑا ہوا وظیفہ بے دینی اور دین میں اضافہ ہے
جسے بدعت کہتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے بدعت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہربدعت گمراہی ہے
اور ہرگمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ اس قسم کے جتنے وظائف ہوتے ہیں جیسے
یاودود اتنی بار پڑھو، یا قوی اتنی بار پڑھو، یا نور اتنی بار پڑھو۔۔ یہ سب بدعتی
وظیفے ہیں۔ بدعتی
وظیفہ پر عمل کرنے سے کوئی کام تو نہیں بنے گا ، دل کو جھوٹی تسلی ملے گی مگر یہ
یقین ہے کہ گناہ ضرور ملے گا کیونکہ بدعت پر عمل کرنا گناہ کا کام ہے۔ آپ وہی ذکر
کریں جو رسول اللہ ﷺ نے سکھایا ہے اور اسی طرح ذکر کریں جیسے نبوی تعلیم ہے۔ نبوی
تعلیم سے ہٹ کر کوئی ذکر نہ کریں۔
سوال: ایک لڑکی کو حیض ختم ہونے کے بعد
سفید ڈسچارج نہیں آتا بلکہ پیلا ڈسچارج آتا ہے اور تقریبا پندرہ دنوں تک رہتا
ہےاور پھر عام دنوں میں بھی پیلا ڈسچارج آتا رہتاہے تو کیا حیض کے بعد وہ اس پیلے
ڈسچارج کو پاکی سمجھ کرغسل کرسکتی ہے؟
جواب: ہر عورت کو ایک متعین وقت پر عادت کے مطابق،
متعین دنوں کے لئے مخصوص صفات کے ساتھ ہرماہ حیض آتا ہے۔ عام طور پر حیض کو تین
صفات سے پہچان سکتے ہیں۔ حیض کا خون گاڑھا، اس میں بدبو اور رنگت سیاہی مائل ہوتی
ہے۔ ان صفات کے ساتھ اس خاتون کو جتنے دنوں تک خون آئے حیض شمار کرے اور جب خشکی حاصل
ہو یا سفید پانی کا اخراج ہواس وقت غسل کرکے نماز کی پابندی کرے۔ سوال میں مذکور
ہے کہ حیض کے بعد اس خاتون کو پیلے رنگ کا ڈسچارج ہوتا ہے جو عام دنوں میں بھی
رہتا ہے اس وجہ سے یہ ڈسچارج حیض میں شمار نہیں ہوگا، جب حیض کے ایام ختم ہوجائیں
اور پیلا ڈسچارج ہونے لگےتو وہ پاکی کے لئے غسل کرلے نماز ادا کیا کرے۔
سوال: میں ایک آرٹ ٹیچر ہوں ، مجھے
جانوروں کے کارٹون کی تصاویر بنانی پڑتی ہیں تو کیا اس سے گناہ ملے گا؟
جواب: اسلام میں جاندار کی تصویر کشی حرام ہے، اس وجہ
سے جانوروں کی تصاویر یا جانوروں کے کارٹون بنانا جائز نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے گناہ
ملے گا اور اس کی کمائی بھی حرام ہوگی لہذا اس عمل کو چھوڑ دیں اور حلال روزی تلاش
کریں۔ یہاں پر آپ کو دو قسم کا نقصان ہورہا ہے، ایک جاندار کی تصویربنانے کا گناہ
اور دوسرا نقصان اس کی کمائی حرام ہے۔ حرام کمائی سے گھر، جسم ، عبادت اور زندگی
سب متاثر ہوتے ہیں۔
سوال: کیا نکاح کے بعد بیوی شرک کرے تو
اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور کیا توبہ و کلمہ پڑھ لیں تو کفارہ ہوجائے گا یا پھر سے
نکاح کرنا پڑے گا؟
جواب: شرک سب سے بھاری گناہ ہے، اس گناہ سے اللہ سخت
ناراض ہوتا ہے لیکن اگر کوئی عورت نکاح کے بعد شرک کرلے تو اس سے اس کا نکاح نہیں
ٹوٹتا ہے ، نکاح اپنی جگہ باقی رہتا ہے تاہم اس عورت کو چاہئے کہ سچے دل سے اللہ
تعالی سے توبہ کرے اور آئندہ کبھی شرک کا ارتکاب نہ کرے۔شرک سارے نیک اعمال کو ضائع کردیتا ہے اور اس حال میں
مرنے پر آخرت میں معافی نہیں ملے گی۔ ہمارا اللہ بہت معاف کرنے والا ہے، جب کسی
مسلمان سے شرک ہوجائے اور وہ اللہ سے دنیا میں ہی توبہ کرلے تو اللہ اس کو معاف
کردیتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔