Sunday, October 19, 2025

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(82)

آپ کے سوالات اور ان کے جوابات(82)

جواب از: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ- سعودی عرب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


سوال: کیا ہم اپنے گھر میں گیندا پھول کے پودے لگا سکتے ہیں  جبکہ  گیندا پھول دسہرہ پر غیروں کے تہوار اور پوجا  میں استعمال ہوتے ہیں ۔ وہ دیکھنے میں وہ خوشنمالگتے ہیں  اس لیے میں نے اپنے گملے میں ڈال دیا تھا ، اس کے پودے بڑے ہوگئے اور پھولوں کی بہار بھی دینے لگے ہیں۔ میری سہیلی کا کہنا ہے کہ وہ غیروں کے تہوار میں استعمال ہوتے ہیں اس لئے اسے لگانا شرک ہے ، کیا یہ بات درست ہے؟

جواب:گیندا ایک پھول ہے، اس کو آپ اپنے کام میں لاسکتے ہیں۔ اپنے گھر میں رکھ سکتے ہیں۔ کیندا کا پودا اپنے آنگن اور صحن میں لگاسکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس میں شرک کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ہندو اس پھول کا استعمال پوجا کے لئے کرتا ہے تو اس میں آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے، آپ اس پھول کو پوجا کے لئے نہیں بلکہ زینت کے لئے اور شوقیہ طور پر لگائے ہیں۔ جس بہن نے کہا کہ یہ پھول لگانا شرک ہے اس کو اس بارے میں دینی معلومات نہیں ہے اور جس بارے میں معلومات نہ ہو اس بارے میں بولنا غلط ہے بلکہ الٹا اس کو گناہ ملے گا کیونکہ وہ بغیر علم کے غلط مسئلہ بتا رہی ہے۔

ہماری زندگی میں بے شمار چیزیں ہیں جن کا ہم استعمال کرتے ہیں اور ہندو بھی استعمال کرتے ہیں بلکہ پوجا کے لئے استعمال کرتے ہیں اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے جیسے ناریل ، اگربتی ، موم بتی وغیرہ۔ کیا ہم ان چیزوں کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں یا اپنے گھر میں یہ چیزیں نہیں رکھ سکتے ، بلاشبہ ان چیزوں کو اپنے گھر میں رکھ سکتے ہیں اور انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو حلال چیزیں ہیں ہم ان کو استعمال کرسکتے ہیں ، ہاں ہم خود غیرمسلم کے تہواروں اور اس کی پوجا پاٹ سے دور رہیں گے، اس میں کسی قسم کا تعاون نہیں کریں گے۔

سوال: الينا مہوش کا معنی کیا ہے، کیا یہ نام رکھ سکتے ہیں؟

جواب:میرے علم میں الینا کوئی لفظ نہیں ہے، یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ پھیلا ہوا غلط اور مہمل لفظ ہے البتہ مہوش فارسی لفظ ہے جس کا معنی چاند سا ہے۔ مہوش نام رکھ سکتے ہیں۔

سوال: اگر کوئی فوجی شہید ہو جائے تو کیا وہ الله کی راہ میں شہید کہلائے گا جبکہ وہ وطن کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا جیسے پاکستان جہاں شریعت کا قانون نہیں مگر اکثر دہشت گرد كے خلاف لڑتے ہوئے فوجی شہید ہو جاتے ہیں۔ وہ الله کی راہ میں تو نہیں مارے گئے بلکہ وطن کی حفاظت کرتے ہوئے مارے گئے؟

جواب:آپ کا سوال انڈیا اور پاکستان کے تناظر میں ہے، آپ جس کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں وہ بھی اپنے وطن کے لئے لڑتا ہے جیسے پاکستان والے لڑتے ہیں۔ پاکستان کی فوج میں صرف مسلمان نہیں ہوتے بلکہ ہندو ،مسلم، سکھ اور عیسائی سبھی شامل ہوتے ہیں، اسی طرح ہندوستان کی فوج میں بھی  ہندو،مسلم، سکھ اور عیسائی سبھی ہوتے ہیں کیونکہ یہاں پر دین کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ فقط ملک و وطن کا مسئلہ ہے اس لئے پاکستان بارڈر پہ کوئی مسلم فوجی مرے یا ہندوستان کا کوئی مسلم فوجی مرے، یہ دونوں میں سے کسی کو شہید نہیں کہا جائے گا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیاگیاکہ کیا وطن کا دفاع کرنے کے لئے قتال کرنا قتال فی سبیل اللہ ہوگا یا نہیں ہوگا؟

اس پر شیخ نے جواب دیا: اگر تم وطن کی طرف سے قتال کررہے ہو تاکہ اسلامی ملک ہوجائے اور اپنے ملک کو اسلامی بنانے کے لئے حمایت کرنا چاہتے ہو تو یہ قتال فی سبیل اللہ ہے اس لئے تم نےاعلائے کلمۃ اللہ کے لئے قتال کیا۔ اور اگر تم نے صرف وطن کے لئے قتال کیا تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے ۔ مزید فرماتے ہیں کہ قومیت کی نیت سے دفاع مومن وکافر دونوں کی طرف سے ہوسکتا ہے اور یہ اس آدمی کو قیامت کے دن فائدہ نہیں پہنچائے گا اور کوئی اس نیت مدافعت سے قتال کرے تو وہ شہید نہیں ہے ۔ (شرح ریاض الصالحین –کتاب الجہاد)
خلاصہ یہ ہے کہ محض ملک کی حفاظت اور اس کے دفاع کے لئے مرنے والے کو شہید نہیں کہا جائے گا البتہ جو اسلام کی خاطر ملک کے لئے جان قربانی کرے اس کو شہید کہا جائے گا۔

پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے مگر نہ ملک میں اسلامی نظام ہے اور نہ عدالت و محکمہ میں شریعت نافذ ہے پھر اس ملک کا فوجی اسلام کے لئے تو نہیں لڑتا ہے، وہ تو محض وطن کے لئے لڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس فوج میں مسلم و غیرمسلم سبھی کو شامل کیا جاتا ہے۔

المختصر یہ کہ وطن کے لئے مرنے والوں کے لئے نہ شہید کا لفظ استعمال کیا جائے گا اور نہ یہ کہا جائے گا کہ وہ اللہ کی راہ میں شہید ہوا۔

سوال: مول میں یا آنلائن ہندوؤں کے تہوار میں آفر ہوتا ہے ، کسی بھی سامان پہ ایک پہ ایک فری یا کم قیمت میں ملتا ہے ، کیا ہمیں یہ شاپنگ کرنا چاہئے اور دیوالی کی مٹھائی یا پٹاخے ہمارے لئے جائز ہیں؟

جواب:نہ دیوالی کی میٹھائی جائز ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے لئے پٹاخے جائز ہیں۔ دیوالی یا کسی اور تہوار کی مناسبت سے کوئی دکاندار سامان کی خرید و فروخت میں آفر دے تو حلال چیزیں خرید سکتے ہیں یعنی آنلائن یا آف لائن آفر سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں مگر جو چیزیں حلال نہ ہوں وہ کبھی بھی نہیں خرید سکتے ہیں۔

سوال: کیا شوہر کی طرف سے جنم دن کا تحفہ لے سکتے ہیں جبکہ جنم دن نہیں منارہے ہیں ، نہ مبارکبادی دے رہے ہیں، فقط تحفہ دے رہے ہیں؟

جواب:جنم دن کی مناسبت سے کسی قسم کا عمل جائز نہیں ہے، اس مناسبت سے نئے کپڑے پہننا یا اچھا کھانا بنانا یا کسی قسم کا گفٹ لینا دینا یا کیک کاٹنا یا کوئی محفل قائم کرنا یا کسی کی دعوت قبول کرنا جائز نہیں ہے یعنی ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی کرتے ہیں تو وہ جنم دن منانے جیسا ہے۔

سوال: عورت کے سی سیکشن کے وقت لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ لازمی مرد بھی ہوتا ہے، کیا  اس میں مجھے گناہ ہوگا۔ میں نے جب طبیبہ سے پوچھا تو اس نے کہا زیادہ مت سوچو ، یہ پروفیشنل سرجن ہیں ، ان کا فوکس بس سرجری پر ہوتا ہے؟

جواب:عورت کے سی سیکشن(آپریشن) کے وقت فقط عورت ہی ہونا چاہئے کیونکہ آپریشن کے وقت  عورت کوبرہنہ کیا جاتا ہے مگر عموما اکثر جگہ مرد بھی ہوتے ہیں۔ آپ کے ذمہ بساط بھر کوشش کرنی ہے کہ آپریشن لیڈی ڈاکٹر سے ہی کرائیں اور وہاں کوئی مرد نہ ہو مگر کوشش کے باجود ایسی جگہ نہ ملے تو آپ معذور ہیں، آپ کے ذمہ کوئی گناہ نہیں ہے۔ جہاں تک کسی طبیبہ کا یہ کہنا کہ یہ مرد ڈاکٹر اپنے کام پر فوکس کرتے ہیں اور کچھ نہیں، یہ بات اتنی سی نہیں ہے بلکہ کسی مرد کا اس جگہ ہونا اور اس کا برہنہ جسم دیکھنا حرام ہے الا یہ کہ عذر ہو۔

سوال: کچھ لوگ کشتیوں پر سوار ہو کر غزہ کی طرف روانہ ہوئے ہیں اور لوگوں کے لیے خوراک اور ادویات وغیرہ کا سامان لے کر چلے ہیں جنہیں فلوٹیلا کہا جاتا ہے، کیا یہ عمل جائز ہے اور کیا یہ احتجاج کا طریقہ ہے؟

جواب:فلسطین کے مسلمان اس وقت کھانے پینے اور دوا و علاج کے شدید محتاج ہیں اس وجہ سے پوری دنیا سے وہاں امداد پہنچائی جارہی ہے۔ گوبل صمود فلوٹیلا بھی ایک امدادی کوشش ہے۔ متعدد جہازوں میں ضرورت کی چیزیں لے کر غزہ پہنچ رہے ہیں، ساتھ ہی ان جہازوں میں دنیا کے مختلف ممالک کے کارندے بھی موجود ہیں جو ایک طرح سے غزہ کا محاصرہ ختم کروانے کی نیت سے سفر کررہے ہیں۔بظاہر اس میں مسئلہ نظر نہیں آتا ہے مگر سیاسی طور پر بعض اہل بصیرت اس عمل کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔  تازہ صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل نے جہازوں کو فلسطین پہنچنے سے روک دیا ہے حتی کہ تعاون پر بھی قبضہ کرلیا اور اس میں موجود کارندوں کو گرفتار کرلیا ہے۔

سوال: اکثر ہم لوگ کسی کو اسطرح کہتے ہیں کہ سنبھل کر چلو، اللہ نہ کرے کہیں گر جاؤ، یہاں "اللہ نہ کرے" کہنا غلط تو نہیں ہے؟

جواب:اللہ نہ کرے ، تم گر جاؤ ۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ اللہ کرے میرا یہ کام ہوجائے۔ یہ ایک قسم کی دعا ہے۔

سوال: کوئی رہن کا گھر استعمال کرتا ہواور سوائے بجلی بل کے کرایہ ادا نہ کرتا ہو جبکہ مجھے معلوم ہے کہ رہن والے گھر میں کرائے کے بغیر رہنا سود میں شامل ہے۔سوال یہ ہے کہ اگرہم اس گھر میں جائیں تو کیا اس گھر کا کھانا پینا ہمارے لئے جائز ہےاور اگر پہلی بار اس گھر میں ناواقفیت کی بنا پر کچھ کھا پی لیا ہو تو کیا اس کے لیے معافی ہے؟

جواب:مسئلہ اس بات کا نہیں ہے کہ آپ نے اس گھر میں کھانا کھایا جو رہن پر ہے اور اسے بطورِ سوداستعمال کیا جا رہا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ کھلانے والے نے حلال پیسے سے کھلایا ہو تو اس کے کھانے میں حرج نہیں ہے۔ اس کے لیے کوئی معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہاں پر آپ کی ایک دینی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے شخص کو رہن کا صحیح مسئلہ بتاکر اس سے باز رہنے کی نصیحت کریں۔

سوال: اگر کوئی بچے کا نام رکھے اور لڈو تقسیم کرے تو ایسا کرسکتے ہیں؟

جواب:شریعت اسلامیہ نے نومولود کا نام رکھنے کا ایک طریقہ ہمیں بتایا ہے اور وہ ساتواں دن ہے یعنی ہمیں ساتویں دن بچے کا نام رکھنا چاہیے اس دن عقیقہ کرنا چاہیے، یہ عقیقہ کرنا بطور خوشی ہے۔اگر کوئی ساتویں دن سے ہٹ کر بچے کا نام رکھنے کے لیے کوئی دوسرا دن منتخب کرتا ہے اور اپنے طرز پر خوشی مناتا ہے تو یہ دین میں ایک نئی ایجاد بدعت ہے اس طرح کی محفل میں ہمیں شریک نہیں ہونا چاہیے اور نہ اس محفل کی کوئی چیز قبول کرنا چاہیے۔

بچے کی خوشی پر آپ مٹھائی  کھائیں یا کھلائیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شریعت نے نام رکھنے اور خوشی ظاہر کرنے  کا جو طریقہ بتایا ہے اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرتا ہے  تو ہمیں اس معاملہ میں اس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے بلکہ اس سے دوری اختیار کرنا چاہیے۔

سوال: ایک بہن کے والد نے والدہ کے نام سے کوئی پلاٹ خریدا تھا جس کے والد کا انتقال ہو گیا ہے، سوال یہ ہے کہ اب یہ پلاٹ والدہ کا ہے یا اس میں سب وارثوں کا حصہ ہے؟

جواب: اس میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ کیا شوہر نے اس پلاٹ کو حقیقت میں بیوی کو تحفے میں دیا تھا یا یونہی کسی قانونی کاروائی میں آسانی کی وجہ سے بیوی کے نام وہ پلاٹ کر دیا تھا، یہ چیز دیکھنی پڑے گی۔

آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی کسی کو تحفہ دے دے تو وہ تحفہ اس کی اپنی ملکیت ہوجاتی ہے اس وجہ سے اگر شوہر نے بیوی کو وہ پلاٹ تحفے میں دے دیا تھا تو وہ بیوی کی ملکیت ہے، اس پر دوسرے کا حق نہیں ہے لیکن اگر یونہی رجسٹریشن کے طور پر بیوی کے نام کر دیا تھا تو یہ بیوی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ اس میں تمام وارثوں کا حق ہوگا۔

سوال: ایک شخص ہیوی ڈپازٹ تقریبا دس  سے بارہ  لاکھ پر فلیٹ کرائے پر لیتا ہے اور مالک مکان کو ہر مہینے مینٹیننس کے طورپرمکمل یا آدھا یا کچھ رقم دینا ہوتا ہے جو کہ پانچ ہزار یا چھ ہزار کے قریب ہے تو کیا اس طرح گھر کرایہ پر لینا جائز ہے؟

جواب:سوال پوری طرح  واضح نہیں ہے۔ کیا ایک آدمی بڑی رقم دے کر فری میں اس گھر میں رہ رہا ہے یعنی اس گھر کا کرایہ ادا نہیں کرتا ہے اور کیا یہ جمع کیا ہوا پیسہ پورا کا پورا بعد میں مکان مالک واپس کرے گا؟

اگر یہی صورتحال ہے تو یہ شکل سودی قرض کی ہے یعنی آدمی سود پر جیسے پیسہ لگاتا ہے یہ وہی شکل ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔

مینٹیننس کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ رہنے کا کرایہ ادا کرتا ہے یا نہیں اور پھر کرایہ ادا کرتا ہے تو جو کرایہ ہے وہاں کے حساب سے دے رہا ہے یا ہیوی ڈپازٹ دینے کی وجہ سے کرایہ کم دے رہا ہے، اگر یہ شکل ہے تو یہ بھی سودی شکل ہے۔

سوال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گیارہ یا بارہ  چچا تھے لیکن عبد المطلب نے وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی ذمہ داری ابوطالب کو دی اس کی کیا وجہ تھی؟

جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی سارے چچا تھے لیکن آپ کے دادا عبدالمطلب نے اپنی وفات سے پہلے اپنے بیٹوں میں سے ابو طالب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی ذمہ داری سونپی تھی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کو بہتر جانتا ہے کہ کون بیٹا کس ذمہ داری کے لائق ہے۔ عبد المطلب کا فیصلہ بالکل درست تھا یہی وجہ ہے کہ ابوطالب  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و محبت کے ساتھ بہتر کفالت کی بلکہ ابوطالب کی کفالت میں ہونے کے سبب کسی دشمن کو آپ کے خلاف سراٹھانے کی جرات نہیں تھی۔

اور دوسری اہم بات یہ تھی کہ ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے سگے بھائی تھے جبکہ اور چچا عبداللہ کے سگے بھائی نہیں تھے سوائے زبیر کے یعنی عبداللہ، ابو طالب اور زبیر کی ماں ایک تھی جن کا نام فاطمہ بنت عمرو بن عائذ تھا۔

سوال: ایک شخص کے دو بیٹے اور ایک بیوی ہیں  اور اس کے پاس دو گھر ہیں ،ایک شہر میں اور دوسرا گاؤں میں تو کیا وہ ایک گھر گاؤں والا اپنی بیوی کے نام کر سکتا ہے کیا اس میں کوئی گناہ تو نہیں؟

جواب:شوہر اپنی بیوی کے نام گھر کیوں کرے گا، شوہر کے ذمہ بیوی کا خرچ اور اس کی رہائش کا انتظام کرنا ہے لہذا بیوی اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں رہے۔ جب تک بیوی شوہر کے ساتھ یا اس کے گھر میں رہ رہی ہے، گھر شوہر کی ملکیت ہے۔ جب شوہر کی وفات ہوگی تو اس کی جائیداد شوہر کے تمام وارثوں میں تقسیم کی جائے گی حتی کہ اس میں سے بیوی کو بھی حصہ ملے گا۔ایک مرد کو دو گھر ہے تو اسے ایک گھر اپنی بیوی کے نام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، وہ گھر شوہر کے نام پہ ہی رہے اور بیوی کو اصل اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں رہنا چاہیے۔

سوال: میرے یہاں پر ایک عورت درس دیتی ہے جس میں  مرد اور عورت مکس بیٹھے ہوتے ہیں  اور خاتون نقاب نہیں کرتی مگرا سٹیج پر جا کر درس دیتی ہے ، صرف  حجاب کرتی ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب:جب درس دینے والی عورت خود شریعت پر صحیح سے عمل نہیں کر رہی ہو تو پھر ایسی عورت کے درس میں کسی بھی صورت میں شریک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ درس صرف پڑھانے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ شریعت کا علم ہے جس پر پہلے خود عمل کرنا ہے، بعد میں دوسروں کو اس کی تعلیم دینی ہے لہذا مدرس طلاب اور سامعین کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔اللہ تعالی سورہ صف میں ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ کے یہاں یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرتے نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو دین پر خود صحیح سے عمل نہ کرے اس سے علم حاصل نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس مجلس میں جانا چاہئے بلکہ ہمارے ذمہ دینی فریضہ یہ بھی ہے ایسی خاتون کو اس کی غلطی پہ تنبیہ کریں ۔ اسے پردہ کی تعلیم دیں اورعورت ومرد کے  اختلاط سے منع کریں ۔

سوال: آجکل  بازار میں پیاز والے شیمپو اور تیل مل رہے ہیں ،کیا مرد حضرات اسے استعمال کرسکتے ہیں اور  مسجد میں نماز پڑھنے جاسکتے ہیں۔ جس وقت بال گیلے ہوتے ہیں اس وقت بدبو آتی ہے؟

جواب: اس قسم کے شیمپو یا تیل لگانے میں حرج نہیں ہے لیکن چونکہ کچی پیاز اور لہسن یا کوئی بھی بووالی چیز  کھاکر مسجد جانے سے منع کیا گیا ہے اس لئے جس وقت جسم یا بالوں سے اس کی بو ظاہر ہو پہلے اسے زائل کرلی جائے پھر مسجد جایا جائے۔ جب جسم سے بو ظاہر نہ ہو تو مسجد جانے میں حرج نہیں ہے جیسے ہم لوگ سبزیوں میں بھی  لہسن وپیاز پکا کر کھاتے ہیں اور اس میں کوئی بدبو نہیں ہوتی۔

سوال: ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے لیکن کوئی دوسرے یا تیسرے دن ہی نام رکھے اور عقیقہ کردے تو کیا اس کا عقیقہ ہو جائے گا؟

جواب:نومولود کی طرف سے ساتویں دن عقیقہ کیا جائے گا کیونکہ نبی ﷺ نے ساتویں دن بچے کا نام رکھنے ، بال منڈوانے اور عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : كلُّ غلامٍ رهينٌ بعقيقتِه، تُذبحُ عنه يومَ سابعِه، ويُحلق رأسُه ويُسمَّى( صحيح النسائي:4231)

ترجمہ:ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، ساتویں دن اس کی طرف سے (عقیقہ) ذبح کیا جائے، اُس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔

اگر کوئی ساتویں دن سے پہلے عقیقہ کردے تو اہل علم نے کہا ہے کہ یہ کفایت کرجائے گا یعنی اسے دوبارہ عقیقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم بہتر و افضل یہی ہے کہ آدمی ساتویں دن بچے کا عقیقہ کرے۔ اور کسی کو ساتویں دن عقیقہ کرنے کی استطاعت نہ ہو یا اس دن عقیقہ کرنے کی سہولت میسر نہ ہو تو ساتویں دن کے بعد بھی عقیقہ کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ بغیر عذر کے ساتویں دن سے پہلے عقیقہ کرنا رسول اللہ ﷺ کے حکم اور آپ کی سنت کی مخالفت ہے اس سے پرہیز کیا جائے۔

سوال: جب اسلام میں دف حلال ہے تو باقی میوزک کے آ لات حرام کیوں ہیں یعنی دف بھی تو ایک قسم کا میوزک ہی ہے پھر یہ حلال کیوں ہے؟

جواب:اصلا باجے، موسیقی اور آلات موسیقی تمام چیزیں اسلام میں حرام ہیں، یہاں تک کہ دف بھی اصلا حرام چیزوں میں سے ہی ہے یعنی یہ مطلق طور پر جائز نہیں ہے بلکہ خاص موقع سے صرف چھوٹی بچیوں کے لئے جائز ہے۔ شادی بیاہ اور عید کے موقع پر نابالغ بچیاں دف بجاسکتی ہیں۔ دف کی کیفیت بھی سمجھ لیں، وہ ایک طرف سے بند اور ایک طرف سے کھلا ہوتا ہے جبکہ ڈھول میں دونوں طرف سے بند ہوتا ہے اس وجہ سے ڈھول تو سرے سے حرام ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ دف بھی اصلا حرام ہی ہے تاہم چھوٹی بچیاں خاص موقع پر اسے بجاسکتی ہیں ، یہ مردوں کے لئے ممنوع ہے نیز مطلق طور پر دف کی اجازت بچیوں کے لئے بھی نہیں ہے۔

سوال:اسلام میں قاتل کی سزا قتل ہے مگر آج کل اس قانون کو کیسے نافذ کیا جائے گا جبکہ ہر ملک میں الگ الگ اور اپنا اپنا قانون ہے۔ کیا ہر ملک اپنے قانون کے حساب سے سزا دے گا اور اگر کوئی سعودی عرب میں  انڈیا کاغیرمسلم، مسلم کو قتل کردے تو اس کو کس ملک کے حساب سے سزا دی جائے گی؟

جواب:تعزیرات اور حدود کا نفاذ اسلامی حکومت کا ہے مثلا کوئی چوری ، زناکاری اور قتل کرے تو اس کی شرعی سزا مسلم حاکم نافذ کرے گا۔ جہاں اسلامی حکومت نہیں ہے وہاں پر کسی کو انفرادی یا اپنے طور پر سماجی اعتبار سے اسلامی سزا دینے کا حق نہیں ہے۔ اس جگہ جو حکومت ہو اس سے اس بارے میں تعاون لیا جائے گا تاکہ مجرم کا حوصلہ بلند نہ ہو۔ جہاں تک سعودی عرب کا معاملہ ہے تو یہاں مکمل طور پر اسلام نافذ ہے، مجرم کے لئے وہی سزا ہے جو اسلام میں ہے اس وجہ سے یہاں پر مجرم کو ثبوت کی بنیاد پر اسلامی تعزیرات کے تحت سزا دی جاتی ہے خواہ مجرم مسلمان ہو یا غیرمسلم۔

سوال: ایک خاتون جس کا ابھی ایک ہفتے پہلے انتقال ہوا ہے ۔ اس کو کینسر کی بیماری تھی ،اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ اس کو تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں ۔ اپنی بیماری سے پہلے اس  نے وصیت کی تھی کہ میرا گھر اور میرا سونا  میرا چھوٹا بیٹا اور اس کی بیوی لیں گے اور کسی کو نہیں ملے گا ۔ اس کے بعد بیماری ہوئی اور اس کے بعد بیماری کی حالت میں بھی یہی کہا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میرا گھراور میرا سونا صرف میرا چھوٹا بیٹا لے گا اور اس کی بیوی لے گی کیونکہ ان دونوں نے میری خدمت کی ہے، باقی مجھے کسی نے بھی نہیں پوچھا ۔کیا اب اس  کی جو وصیت کی تھی اسے  ہم بدل سکتے ہیں اور قرآن کے مطابق وراثت  تقسیم کر یں یا پھر اس کے چھوٹے بیٹے کو اور اس کی بیوی کو ہی سب دے دیا جائے ؟

جواب:جو بچے والدین کی خدمت کرتے ہیں ان کو اس کا اجر ملے گا اور جو والدین کی خدمت نہ کرے ان کو اس کا گناہ ملے گا۔ یہ رب کا فیصلہ ہے لیکن اگر اولاد والدین کی خدمت نہ کرے تو اس وجہ سے ان کو جائیداد سے بے دخل نہیں کیا جائے گا لہذا خاتون کی وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا اور شریعت کے مطابق وراثت کی تقسیم تمام وارثوں میں ہوگی۔ اگر صرف چھوٹا بیٹا ہی پوری جائیداد رکھ لے تو وہ گنہگار ہوگا اور آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگا۔ اور یاد رہے کہ چھوٹے بیٹے کی بیوی کا اس میں کوئی حق نہیں بنتا ہے کیونکہ وہ وارث نہیں ہے تاہم آدمی، غیر وارث کو کچھ (ایک تہائی یا اس سے کم) کی وصیت کرسکتا ہے جبکہ یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ اس معاملہ میں عورت کی جائیداد تمام وارثوں یعنی سارے بیٹے اور بیٹیوں میں تقسیم کی جائے گی۔

سوال: جمعہ کےدن جلدی جانے کی جو فضیلت ہے وہ اجر عورت کیلئے بھی ہے اگر وہ جلدی مسجد جائے تو؟

جواب:عورت کی نماز اس کے گھر میں افضل ہے تاہم وہ مکمل حجاب اور شرعی تقاضا کے تحت مسجد نماز پڑھنے جاسکتی ہے، نماز جمعہ کے لئے بھی جاسکتی ہے۔ چونکہ اس کی نماز اس کے گھر میں افضل ہے اس وجہ سے جمعہ کو جلدی مسجد میں جانے پر عورت کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مسجد میں نماز کا اصل تعلق مردوں سے ہے جبکہ عورتوں کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے اس وجہ سے جمعہ کے دن جلدی جانے کی افضلیت کا معاملہ مردوں سے متعلق ہے۔رسول اللہ ﷺ کے عہد میں عورتیں مسجد میں تاخیر سے آتیں اور پہلے نکل جاتیں۔

سوال: ٹیچر ڈے منانا کیسا ہے؟

جواب:ٹیچر ڈے جسے عربی میں عید المعلم اور اردو میں یوم اساتذہ کہا جاتا ہے۔ یہ دن بعض ملکوں میں مختلف تاریخوں میں منایا جاتا ہے لیکن عام طور سے پانچ اکتوبر کو عالمی طور پر یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد اساتذہ کی قدردانی اور ان کی خدمات کو معاشرے میں اجاگر کرنا ہے۔ اس کے لیے بہت ساری جگہوں پر اجلاس و سیمینار منعقدبھی  کئے جاتے ہیں۔

اسلامی اعتبار سے اساتذہ کے نام پر عید کی طرح دن منانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ غیر اقوام کی مشابہت اور نقالی ہے جس سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مَن تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ۔

ترجمہ: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے۔(سنن أبي داود:4031)

اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن صحیح کہا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معاشرے کی اصلاح و ترقی میں اساتذہ کا اہم رول ہوتا ہے، اس حیثیت سے اساتذہ کی تکریم و قدردانی کرنے یہاں تک کہ ان کے کردار کو معاشرے میں اجاگر کرنے یا اس تعلق سے بلاتخصیص عید، علمی سیمینار کرنے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے تاہم اس کے لیے عید المعلم متعین کرنا اور عید کی طرح اس دن کو منانا جائز نہیں ہے۔

سوال: میری ایک سہیلی جودوسری جماعت سے ہےاس کا کہنا ہے کہ اگر تم وسیلہ سے دعا نہیں مانگتے تو اذان کے بعد یہ دعا کیوں پڑھتی ہو جس میں محمد کا وسیلہ موجود ہے۔ پھر وہ یہ بھی کہتی ہے کہ آپ ﷺ پردہ فرماگئے اور جب ہم درود پڑھتے ہیں تو باقاعدہ اپنے نام سے سلام جاتا ہے ، وہ جواب دیتے ہیں بلکہ روضہ رسول ﷺ پر بھی سلام کرتے ہیں تو اس کا جواب دیتے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں؟

جواب:اذان میں جس وسیلہ کا ذکر ہے وہ جنت کے درجات میں سے ایک اعلی درجہ ہے۔ ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہوئے یہ مانگتے ہیں کہ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ عطا فرما بلکہ وسیلہ کے ساتھ فضیلہ بھی مانگتے ہیں۔دعا اس طرح سے ہے۔

((آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ))

آپ اس دعا پہ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے نہیں مانگتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وسیلہ اور فضیلہ، اللہ سے مانگتے ہیں۔

آپ کی جو سہیلی ہے وہ نادان اور کم علم ہے یا کہہ لیں کہ بریلوی مکتبہ فکر سے اس کا تعلق معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس طرح بول رہی ہے کیونکہ اس فرقہ والوں کا یہی عقیدہ ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا مسنون ہے اور جب ہم درود پڑھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے مگر اس پہنچانے کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے وفات پا گئے، آپ عالم برزخ میں ہیں اور وفات پاگئے ہیں۔ آپ ہمارا سلام نہ سنتے ہیں، نہ جواب دیتے ہیں اور نہ آپ پر ہمارے نام کے ساتھ درود پیش کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں جو کچھ روایات مروی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔

سوال: فجر کے بعد قرآن کی تلاوت کرنا یا تفسیر سننا یا پڑھنا افضل ہے یا صبح کے اذکار پڑھنا افضل ہے؟

جواب:قرآن کی تلاوت اور تفسیر کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں، اس کے لیے کوئی وقت خاص نہیں ہے جبکہ صبح اور شام کے اذکار کا وقت متعین ہے لہذا صبح کے وقت میں صبح کا ذکر کرنا اور شام کے وقت میں شام کا ذکر کرنا افضل ہے۔ہاں اس جگہ ایک بات یہ بھی معلوم رہے کہ فجر کے بعد کہیں پر درس قرآن ہوتا ہو تو اس میں شامل ہونے اور اسے سننے میں حرج نہیں ہے۔ درس سننے کے بعد بھی آپ صبح کے اذکار پڑھ سکتے ہیں بلکہ ظہر سے پہلے پہلے تک بھی پڑھ سکتے ہیں۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔